فرعون کون تھا:

فرعون حضرت سیّدنا موسیٰ علیہ السّلام کے دور کا ایک سرکش بادشاہ تھا، دعوتِ اسلام سے قبل فرعون حکومت و سلطنت کی وسعت، مال دولت کی کثرت، عیش و عشرت کی فراوانی اور طاقت و قوت کے نشے میں بےحد مغرور اور بے لگام ہو گیا تھا، بنی اسرائیل کے ہزاروں نادار وبے بس لوگوں کو اس نے اپنا غلام بنا رکھا تھا اور ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتا، چونکہ اس نے خدائی کا دعوی کررکھا تھا، اس لئے ہر کسی کو اپنا مملوک تصور کرتا، ان کے ساتھ ہرسلوک روا (درست) جانتا تھا۔

وقت یونہی گزرتا رہا، عرصے بعد اللہ پاک نے حضرت موسیٰ و ہارون عَلَیْہِمَا السَّلَام کو فرعون اور اس کی قوم کو دعوتِ ہدایت دینے کے لئے مبعوث فرمایا تھا، انہوں نے لوگوں کو باطل معبودوں کی پوجا پاٹ سے روکا اور خدائے واحد کی عبادت کی طرف بلایا، جو سب کا خالق و مالک ہے، لیکن ان ظالموں نے بجائے حق تسلیم کرنے کے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور ان دونوں پیغمبرانِ خدا کی سچائی پر دلالت کرنے والے روشن معجزات دیکھنے کے باوجود کفرو سرکشی پر قائم رہے اور معجزات کے مقابلے کے لئے جادوگروں کو اکٹھا کرنے لگے، لیکن خدائے رحمٰن کی نصرت سے ان جادوگروں کو شکست ہوئی تو وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے ۔( رسالہ فیضانِ حضرت آسیہ رحمۃ اللہ علیھا، صفحہ 3،4 مختصراً)

جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر و سرکشی پر جمے رہے تو ان پر اللہ کی نشانیاں پے در پے (مسلسل) وارد ہونے لگیں، کیوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے دعا کی تھی کہ: اے میرے ربّ! فرعون زمین میں بہت سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے، لہذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرمالے، جو ان کیلئے سزاوار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو۔( روح البیان جلد صفحہ 220 ،پارہ الاعراف 133)

تو اللہ پاک نے طوفان بھیجا، ہوا یوں کے باد ل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہوئی، قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا، یہ لوگ کچھ نہ کرسکتے تھے، مسلسل سات روز تک بارش رہی، جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا سے یہ مصیبت دور ہوئی، ہر طرف سرسبز و شادابی آئی، جو پہلے کبھی نہ تھی، لیکن فرعونی پھر بھی ایمان نہ لائے، ایک مہینہ عافیت سے گزرا، لیکن پھر عذابِ الٰہی نے انہیں جکڑ لیا۔

ٹڈیاں:

پھر اللہ پاک نے ٹڈیاں بھیجیں، وہ کھیتیاں، پھل، درخت، مکان کے دروازے، چھتیں،تختے، سامان، حتی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں، قبطیوں نے دعا کروا کر عذاب سے نجات پائی، لیکن ایمان پھر بھی نہ لائے، ایک مہینہ عافیت سے گزرا، پھراللہ نے قمل بھیجے، قمل یا تو گھن ہے یا جوں، اس کیڑے نے بچے کھچے کھیت اور پھل بھی کھا لئے،حتی کہ فرعونیوں کی بھنویں اور پلکیں بھی چاٹ گئے، ان کے جسم میں چیچک کی طرح بھر جاتے، اس مصیبت سے تنگ آ کر انہوں نے دعائے موسیٰ کے ذریعے نجات پائی، لیکن انہوں نے عہد شکنی کی اور پھر بھی ایمان نہ لائے اور خبیث عمل شروع کر دیئے۔

ایک مہینہ عافیت سے گزرنے کے بعد اللہ نے مینڈک کا عذاب بھیجا اور حال یہ ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، منہ کھولتا تو مینڈک کود کراندر چلا جاتا، ہانڈیوں، کھانوں میں مینڈک تھے، اس مصیبت سے تنگ آکر فرعونیوں نے حضرت موسیٰ سے دعا کروائی، عذاب ٹلاتو فرعونی پھر ایمان سے منکر ہو گئے۔

پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے دعا کی تو تمام کنوؤں، نہروں، چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی، غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا، انہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگا حضرت موسیٰ (علیہ السّلام)نے جادو سے تمہاری نظر بند کر دی ہے، یہاں تک کہ بنی اسرائیل پانی پیتے تو وہ پانی ہی رہتا، لیکن قبطی پانی پیتے تو وہ خون بن جاتا، سات روز تک فرعون اور اس کے پیروکار اس مصیبت میں مبتلا رہے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے دعا کروائی، لیکن عہد شکنی کرتے ہوئے پھر بھی ایمان نہ لائے۔ (تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

جیسے کہ اللہ کا ارشاد ہے:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن اور مینڈک اور خون جداجدانشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔

ان واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ عہد شکنی اور اللہ کے نبیوں کی تکذیب و توہین کتنا بڑا ہولناک جرم ہے، اللہ پاک ہمیں اپنا اور اپنے رسولوں کا مطیع بنائے۔آمین(عجائب القرآن، صفحہ 100، 101)