حضرت موسیٰ علیہ السّلام قومِ فرعون کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے، قوم بڑی سرکش تھی، آپ نے انہیں ایمان کی طرف بلایا، لیکن وہ وہ ایمان نہ لائے، اللہ پاک نے ان پر عذابات بھیجے، جب ان پر کوئی عذاب آتا تو حضرت موسیٰ کے پاس حاضر ہوتے، روتے اور دعا کا کہتے کہ اگر یہ عذاب ٹل گیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے، پھر آپ دعا کرتے، عذاب ٹل جاتا، یہ پھر آپ کو جھٹلانے لگتے، یہاں تک کہ اللہ پاک نے انہیں غرق کر دیا، قومِ فرعون پر مندرج ذیل عذابات آئے:

1. سب سے پہلے جو قومِ فرعون پر عذاب آیا، وہ قحط کا عذاب تھا، اللہ پاک نے انہیں پھلوں اور کھانے پینے کی چیزوں کی کمی میں مبتلا کر دیا، قحط کا یہ عالم تھا کہ ایک کھجور کے درخت پر صرف ایک ہی کھجور لگتی تھی۔( تفسیرصراط الجنان، پ 9، الاعراف، تحت الایۃ: 30)

2. فرعونیوں پر دوسرا عذاب طوفان کا آیا، ہوا یوں بادل آئے، اندھیرا ہوا، کثرت سے بارش ہونے لگی، یہاں تک کہ فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا، یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آ گیا، ان میں جو بیٹھا وہ ڈوب گیا، ان میں نہ کوئی ہِل سکتا تھا، نہ کوئی کام کرسکتا تھا، سات روز تک یہ عذاب ان پر رہا۔(تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

3. تیسرا عذاب اللہ پاک نے ان پر ٹڈی بھیجی، وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں، تختے، سامان حتی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں، فرعونیوں کے گھروں میں بھرگئیں۔(تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

4. چوتھا عذاب اللہ پاک نے ان پر قمل کا عذاب بھیجا، بعض کہتے ہیں قمل گھُن ہے، بعض کہتے ہیں ایک چھوٹا سا کیڑا ہے، اس نے جو کپڑے، کھیتیاں اورپھل باقی رہے تھے، وہ کھا لئے، یہ کیڑا جِلد میں گھس جاتا تھا اور جلد کو کاٹتا تھا، کھانے میں بھر جاتا تھا، اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تھا تو تین سیر واپس لاتا، باقی سب کیڑے کھا جاتے، کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں، پلکیں چاٹ گئے، ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے، ان کا جینا دشوار کر دیا۔(تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

5. پھر اللہ پاک نے ان پر مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک، کھانوں میں مینڈک، چولہوں میں مینڈک بھر جاتے۔(تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

6. پھر اللہ پاک نے ان پر یہ عذاب بھیجا کہ ان کے کنوؤں کا پانی، نہروں ، چشموں کا پانی اور دریائے نیل کا پانی، غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا، یہاں تک کہ وہ پیاس سے درختوں کی رطوبت چُوسنے لگے، وہ رطوبت منہ میں جاتے ہی خون بن جاتی۔(تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

جب اتنے عذابات کے بعد یہ ایمان نہ لائے تو اللہ پاک نے انہیں سمندر میں غرق کردیا۔

آج ہمیں اپنی حالت پر غور کرنا چاہئے، جب ہم پر کوئی تکلیف آتی ہے تو ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں مگر جیسےہی وہ تکلیف ہم سے دور ہوتی ہے، ہم اللہ کو بھول جاتے ہیں، دنیا کی رنگینیوں میں گم ہوجاتے ہیں۔