سب سے پہلے اللہ پاک نے فرعونیوں کو کئی سال کے قحط ،پھلوں کی کمی اور فقر وفاقہ کی مصیبت میں گرفتار کیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ’’دیہات میں رہنے والے فرعونی قحط کی مصیبت میں گرفتار ہوئے اور شہروں میں رہنے والے (آفات کی وجہ سے) پھلوں کی کمی کی مصیبت میں مبتلا ہوئے۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’ان لوگوں پر ایک وقت ایسا آیا کہ کھجور کے درخت پر صرف ایک ہی کھجور اگتی تھی۔

(تفسیر صاوی،سورۃ الاعراف،الآیۃ:2،130)

اللہ پاک نے ان پر یہ سختیاں اس لئے نازل فرمائیں تاکہ ان سے عبرت حاصل کرتے ہوئے وہ سرکشی اور عناد کا راستہ چھوڑ کر اللہ پاک کی بندگی کی طرف لوٹ آئیں کیونکہ سختی و مصیبت دل کو نرم کر دیتی ہے اور اللہ پاک کے پاس جو بھلائی ہے اس کی طرف راغب کر دیتی ہے۔ کہتے ہیں کہ’’ فرعون نے اپنی چار سو برس کی عمر میں سے تین سو بیس سال تو اس آرام کے ساتھ گزارے تھے کہ اس مدت میں وہ کبھی درد ،بخار یا بھوک میں مبتلا ہی نہیں ہوا۔ اگر اس کے ساتھ ایسا ہوتا تو وہ کبھی رَبُوبِیَّت کا دعویٰ نہ کرتا۔ (تفسیر کبیر،سورۃ الاعراف،الآیۃ: 5،130)

فرعونی کفر میں اس قدر راسِخ ہوچکے تھے کہ ان تکلیفوں سے بھی ان کی سرکشی بڑھتی ہی رہی، جب انہیں سرسبزی و شادابی، پھلوں ،مویشیوں اور رزق میں وسعت،صحت،آفات سے عافیت و سلامتی وغیرہ بھلائی ملتی تو کہتے یہ تو ہمیں ملنا ہی تھا کیونکہ ہم اس کے اہل اور اس کے مستحق ہیں۔یہ لوگ اس بھلائی کونہ تو اللہ پاک کا فضل جانتے اور نہ ہی اس کے انعامات پر شکر ادا کرتے اور جب انہیں قحط، خشک سالی،مرض،تنگی اور آفت وغیرہ کوئی برائی پہنچتی تو اسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کی نحوست قرار دیتے اور کہتے کہ یہ بلائیں اُن کی وجہ سے پہنچیں، اگر یہ نہ ہوتے تویہ مصیبتیں نہ آتیں۔ (تفسیر خازن،سورۃ الاعراف،الآیہ:2،130)

جب فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’ اے موسیٰ! تم ہمارے اوپر جادو کرنے کیلئے کیسی بھی نشانی ہمارے پاس لے آؤ، ہم ہرگز تم پر ایمان نہیں لائیں گے، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن کے خلاف دعا کی، آپ علیہ السلام چونکہ مستجابُ الدعوات تھے اس لئے آپ کی دعا قبول ہوئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعائے ضرر کے بعد فرعون اور اس کی قوم پر جو عذاب آئے ان کا ذکر اللہ پاک قرآن مجید میں فرماتا ہے:

فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳)ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اورٹِیڑی اور گھن اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی ۔ (پ 9،الاعراف:133)

جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر وسَرکشی پر جمے رہے تو اُن پر اللہ پاک کی نشانیاں پے درپے آنے لگیں کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی کہ اےربِّ کریم!فرعون زمین میں بہت سَرکشی کرنے لگ گیا ہے اور اُس کی قوم نے بھی وعدہ خلافی کی ہے،لہٰذا اُنہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو اُن کے لئے سزا، میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت و نصیحت ہو، چنانچہ اللہ پاک نے طوفان بھیجا، ہوا یوں کہ بادل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہونے لگی۔ قِبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا، یہاں تک کہ وہ اُس میں کھڑے رہ گئے، پانی اُن کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آگیااور اُن میں سے جو بیٹھا وہ ڈوب گیا۔یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کرسکتے تھے۔ ہفتے کے دن سے لے کر دوسرے ہفتے تک سات(7) روز اِسی مصیبت میں مُبْتَلا رہے۔ باوجود یہ کہ بنی اسرائیل کے گھر اُن کے گھروں سے ملے ہوئے تھے مگر اُن کے گھروں میں پانی نہ آیا۔

جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہو گئی، زمین میں وہ ہریالی آئی جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے۔ یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے: یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینا تو عافیت سے گزرا ،پھر اللہ پاک نے ٹڈیاں بھیجیں جو کھیتیاں، پھل، درختوں کے پتے،مکانات کے دروازے، چھتیں، تختے، سامان،حتّٰی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں،حتّٰی کہ قِبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ گئیں۔

اب قِبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا،اِس پر عہد و پیمان کیا۔سات(7) روز یعنی ہفتے سے ہفتے تک ٹڈی کی مصیبت میں مُبْتَلا رہے،پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے نجات پائی۔ کھیتیاں اور پھل جو کچھ باقی رہ گئے تھے اُنہیں دیکھ کر کہنے لگے: یہ ہمیں کافی ہیں ہم اپنا دِین نہیں چھوڑتے چنانچہ ایمان نہ لائے، عہد وفا نہ کیا اور اپنے بُرے اعمال میں مُبْتَلا ہوگئے۔

ایک مہینہ عافیت سے گزرا، پھر اللہ پاک نے قُمَّل بھیجے،اِس میں مُفَسِّرِیْن رَحْمَۃُ الله عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کا اِختلاف ہے:بعض کہتے ہیں: قُمَّل گُھن ہے، بعض کہتے ہیں: جُوں ،بعض کہتے ہیں: ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے۔ اُس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہے تھے وہ کھالئے۔ یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا،جِلد کو کاٹتا اور کھانے میں بھر جاتا تھا ۔اگر کوئی دس(10) بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین(3) سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے۔ یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں ،پلکیں چاٹ گئے،اُن کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے حتّٰی کہ اُن کیڑوں نے اُن کا سونا دُشوار کردیا تھا۔اِس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور اُنہوں نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے عرض کی:ہم توبہ کرتے ہیں،آپ اِس بَلا کے دُور ہونے کی دعا فرمائیے۔چنانچہ سات(7) روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے دُور ہوئی، لیکن فرعونیوں نے پھر وعدہ خلافی کی اور پہلے سے زیادہ بد ترین عمل شروع کر دئیے۔

ایک مہینہ امن میں گزرنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دُعا کی تو اللہ پاک نے مینڈک بھیجے ۔یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اُس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے۔ بات کرنے کے لئے منہ کھولتا تو مینڈک کُود کر منہ میں چلا جاتا۔ ہانڈیوں میں مینڈک ،کھانوں میں مینڈک،چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی تھی۔لیٹتے تھے تو مینڈک اُوپر سُوار ہوتے تھے۔

اِس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے عرض کی:اب کی بار ہم پکی توبہ کرتے ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اُن سے عہد و پیمان لے کر دعا کی تو سات(7) روز کے بعد یہ مصیبت بھی دور ہوئی اور ایک مہینہ عافیت سے گزرا ،لیکن پھر اُنہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے ۔پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو تمام کنوؤں، نہروں ،چشموں اور دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی اُن کے لئے تازہ خون بن گیا۔ اُنہوں نے فرعون سے اِس کی شکایت کی تو کہنے لگا:حضرت موسیٰ (علیہ السلام)نے جادو سے تمہاری نظر بندی کردی ہے۔ اُنہوں نے کہا: تم کس نظر بندی کی بات کر رہے ہو؟ ہمارے برتنوں میں خون کے سوا پانی کا نام و نشان ہی نہیں۔ یہ سُن کر فرعون نے حکم دیا :”قِبطی بنی اسرائیل کے ساتھ ایک ہی برتن سے پانی لیں۔

لیکن ہوا یوں کہ جب بنی اسرائیل نکالتے توپانی نکلتا، قِبطی نکالتے تو اُسی برتن سے خون نکلتا، یہاں تک کہ فرعونی عورتیں پیاس سے عاجز ہو کر بنی اسرائیل کی عورتوں کے پاس آئیں اور اُن سے پانی مانگا تو وہ پانی اُن کے برتن میں آتے ہی خون ہوگیا۔ یہ دیکھ کر فرعونی عورت کہنے لگی: تُو پانی اپنے منہ میں لے کر میرے منہ میں کلی کردے ۔ مگر جب تک وہ پانی اسرائیلی عورت کے منہ میں رہا پانی تھا، جب فرعونی عورت کے منہ میں پہنچا تو خون ہوگیا ۔فرعون خود پیاس سے بے چین ہوا تو اس نے تَر درختوں کی رَطوبت چُوسی، وہ رَطُوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہوگئی۔ سات (7)روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی نہ ملی تو پھر حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی، یہ مصیبت بھی دور ہوئی مگر وہ ایمان پھر بھی نہ لائے۔(تفسیربغوی،سورۃ الاعراف، الآیۃ: 2،133)