دنیا کے تمام ادیان(دین کی جمع)میں صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس کو یہ فخر و شرف حاصل ہے کہ اس نے اپنے ہر ماننے والے کےلیے علم حاصل کرنا فرض قرار دیا ہے۔ سب سے پہلی وحی جو رسولِ کُل،وسیلۂ کائنات حضرت محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر غارِ حرا میں نازل ہوئی اس کا پہلا لفظ ہی اقراء(پڑھو)ہے ۔علمِ دین کا حاصل کرنا اللہ پاک کی رضا کا سبب،بخشش،نجات اور جنت میں داخلے کا ضامن ہے۔دنیا آخرت کی بہتری کا سبب ہے۔علم انبیائے کرام علیہم السلام کی میراث ہے۔الغرض علم بے شمار خوبیوں کا جامع ہے۔لہٰذا عقل مند وہی ہے جو طلبِ علمِ دین میں مشغول ہو کر آخرت کا سامان کر جائے۔

یہی ہے آرزو تعلیمِ قرآن عام ہو جائے ہر ایک پرچم سے اونچا پرچمِ اسلام ہو جائے

قرآنِ کریم میں مختلف مقامات پر علم حاصل کرنے اور علم کی فضیلت بیان کی گئی ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا:ترجمہ:پھر ہم نے اپنے منتخب اور چیدہ بندوں کو قرآن کا وارث بنایا۔(پ22،الفاطر:32)قرآنِ پاک اپنے پیارے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نازل فرمایا اور پھر آپ کے بعد اپنی کتاب کا وارث ان کو بنایا جنہیں بندوں میں سے چن لیا اس لیے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:بے شک علما ہی انبیا کے وارث ہیں۔(ابوداود،ص1493،حدیث:3641)علمِ دین حاصل کرنے والا بہت خوش نصیب ہے۔علمائے کرام کی فضیلتیں ان کی شان و عظمت قرآنِ پاک میں بھی بیان کی گئی ہیں،چنانچہ فرمایا گیا:اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ28،المجادلۃ:11)حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:علمائے کرام عام مومنین سے 700 درجے بلند ہوں گے۔ہر دو درجنوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے۔(کتاب علمِ دین کی فضیلت و اہمیت،ص6)(قوت القلوب،1/241)عالمِ دین کی قسمت پر رشک کرنا چاہیے کہ علمائے کرام کو نہ صرف جنت نصیب ہوگی بلکہ جنت میں عام مومنین سے سات سو درجے بلند مقام بھی حاصل ہوگا۔ علمِ دین حاصل کرنے کے فضائل بے شمار ہیں۔علمائے کرام کے فضائل پر مشتمل احادیثِ کریمہ میں سے چند حدیثیں پڑھتی ہیں۔فرمانِ مصطفٰے ہے:(1)جو کوئی اللہ پاک کے فرائض کے متعلق ایک یا دو یا تین یا چار یا پانچ کلمات سیکھے اور اسے اچھی طرح یاد کر لے اور پھر لوگوں کو سکھائے تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔(الترغیب والترھیب،1/54،حدیث:20-کتاب علمِ دین کی فضیلت و اہمیت،ص7)علمِ دین حاصل کرنا اللہ پاک کی رضا کا سبب،بخشش و نجات کا ذریعہ اور جنت میں داخلے کا ضامن ہے۔حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ کے والد کے بارے میں منقول ہے:وہ اگرچہ پڑھے لکھے نہ تھے لیکن عالمِ دین کی اہمیت کا احساس رکھنے والے تھے۔ ان کی دلی خواہش تھی کہ ان کے دونوں صاحبزادے محمد غزالی اور احمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہما زیور ِعلمِ شریعت و طریقت سے آراستہ ہوں، اسی مقصد کے لیے انہوں نے اپنے صاحبزادوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کچھ اثاثہ بھی جمع کر رکھا تھا جو ان کے بیٹوں کے حصولِ علم میں بہت کام آیا۔ہمیں بھی اپنے اسلاف کی طرح دین حاصل کرنے اور اپنی اولاد کو بھی علمِ دین سکھانے اور اپنی دنیا و آخرت سنوارنے کا ذریعہ بننا چاہیے۔(اتحاف السادۃ المتقین،1/9ملخصاً)(2)رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ خوشبودار ہے:لوگوں میں درجہ ٔنبوت کے زیادہ قریب علما اور مجاہدین ہیں۔علما انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کی لائی ہوئی تعلیمات کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرتے ہیں جبکہ مجاہدین انبیائے کرام علیہم الصلوۃ و السلام کی لائی ہوئی شریعت کی حفاظت کے لیے اپنی تلواروں سے جہاد کرتے ہیں۔(سیراعلام النبلاء،14/52ملخصاً) (3)حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:عالم زمین میں اللہ پاک کا امین ہوتا ہے۔(مسند الفردوس،2/833، حدیث:4036)(4)حضورپرنور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عظمت نشان ہے:بروزِ قیامت تین طرح کے لوگ سفارش کریں گے:انبیا، علما،شہدا(ابن ماجہ،ص2739،حدیث:4313)۔حضور تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے عالم کی زیارت کی گویا اس نے میری زیارت کی جس نے عالم سے مصافحہ کیا گویا اس نے مجھ سے مصافحہ کیا اورجس نے عالم کی صحبت اختیار کی اس نے میری صحبت اختیار کی اورجس نے دنیا میں میری صحبت اختیار کی اللہ پاک اس کو قیامت کے روز میرا نشین بنائے گا۔(تنبیہ الغافلین-فیضان سنت،نیکی کی دعوت،ص289) علمائے کرام کے فضائل بے حد و بے شمار ہیں کے عالم ستر ہزار عبادت گزاروں سے بہتر ہے۔علما کی مثال یہ ہے جیسے آسمان میں ستارے مگر آج کل لوگ علمِ دین سے بے بہرا ہو رہے ہیں۔مغربی تعلیم کو اہمیت دی جا رہی ہے مگر سنتوں کی پروا نہیں کی جاتی۔ علمائے کرام کا منصب نہایت ہی عالی ہے۔اللہ پاک ہمیں علمِ دین حاصل کرنے والا اور علم کو عام کرنے والا بنا دے۔علم نیک بخت لوگوں کے دلوں میں ڈالا جاتااور بدبختوں کو اس سے محروم رکھا جاتا ہے۔اللہ پاک ہمیں نیک بخت لوگوں میں شامل کر لے۔آمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


علمائے کرام وہ خوش نصیب افراد ہیں جن کی تعریف خود ربِّ کائنات نے قرآنِ کریم میں فرمائی ۔اپنے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بھی علم کے وصف کے متصف فرمایا۔ارشادِ باری ہے:ترجمہ:انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا ما کان وما یکون کا بیان انہیں سکھایا۔ (رحمن:3)معلوم ہوا !پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تمام مخلوق میں سب سے بڑے عالم ہیں صرف عالم ہی نہیں بلکہ عالم گر چنانچہ فرمایا:ترجمہ:بے شک مجھے سکھانے والا بنا کر بھیجا گیا ۔اس چشمۂ علم سے سیراب ہو کر حضرت ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنہم آسمانِ علم و حکمت کے درخشندہ ستارے بنے ۔اپنی امت میں ذریعۂ حصولِ علم بیدار کرنے کے لیے اپنے فرامین کے ذریعے علما کی شان و عظمت کو واضح فرمایا۔چنانچہ فرمایا:علما انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کے وارث ہیں۔ (ابن ماجہ،1/146،حدیث:223)اس سے پتہ چلا! جس طرح نبوت سے بڑھ کر کوئی مرتبہ نہیں اسی طرح نبوت کی وراثت یعنی علم سے بڑھ کر کوئی عظمت نہیں۔(احیاء العلوم،1/95) ایک جگہ فرمایا:عالم کی فضیلت پر عابد پر ایسی ہے جیسی میری فضیلت میرے ادنیٰ صحابی پر۔(ترمذی،4/214،حدیث:2694)سبحان اللہ!عالم کے رتبے کا کیا کہنا!عابد یعنی عبادت گزار پر عالم کو فضیلت دی گئی۔ عابد خود اپنی ذات کو نفع دیتا ہے جبکہ عالم دوسروں کو نفع پہنچاتا ہے۔ لیکن یہ بھی تب جبکہ عابد کو خود اپنے فرائض کا علم ہو ورنہ بغیر علم کے عبادت میں مجاہدہ کرنے والوں کو شیطان انگلیوں پر نچاتا ہے ۔علما صرف دنیا میں کام نہ آئیں گے بلکہ آخرت میں بھی شفاعت فرمائیں گے۔چنانچہ فرمایا:قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے:انبیا علیہم الصلوۃ و السلام، علما اور شہدا۔(ابن ماجہ،4/526،حدیث:4313)بہارِ شریعت میں ہے: اپنے علما اپنے متوسلین یعنی وسیلہ ڈھونڈنے والوں کی شفاعت کریں گے۔ لوگ علما کو اپنے تعلقات یاد دلائیں گے۔ اگر کسی نے عالم کو دنیا میں وضو کے لیے پانی لا کر دیا ہوگا تو وہ بھی یاد دلا کر شفاعت کی درخواست کرے گا حتی کہ اہلِ جنت بھی علما کے محتاج ہوں گے۔ابنِ عساکر کی حدیثِ مبارکہ ہے:اہلِ جنت جنت میں علما کے محتاج ہوں گے۔(89 آیاتِ مبارکہ،ص134)علما کی صرف گفتگو یا عمل ہی فائدہ نہیں دیتا بلکہ ان کے چہرے کی زیارت کرنا بھی عبادت ہے۔فرمانِ آخری نبی ہے:عالم کی طرف ایک بار نظر میرے نزدیک سو برس روزے رکھنے اور سو برس رات کو نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔(المقاصد الحسنۃ،ص454،حدیث:125)علمائے کرام تو وہ گروہ ہیں کہ جن کے باعمل کی تو چاندی ہے ہی جو بے عمل ہو وہ بھی محروم نہیں۔ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اس شخص کی مثال جو لوگوں کو بھلائی سکھاتا ہے اور خود کو بھلائے ہوئے ہے اس جلتے چراغ کی طرح ہے جو لوگوں کو روشنی دیتا ہے اور خود جلتا ہے۔ (بزار،طبرانی) سبحان اللہ!علمائے کرام کے کتنے فضائل ہیں!اے کاش!امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہمُ العالیہ کی یہ خواہش پوری ہو کہ ہر گھر میں ایک عالمِ دین ضرور ہونا چاہیے۔ الحمدللہ دعوتِ اسلامی حصولِ علم کے بہت ذرائع فراہم کرتی ہے۔ عالم و عالمہ کورس کرنا چاہیں تو جامعۃ المدینہ،مطالعہ کرنا ہو تو مکتبۃ المدینہ سے شائع شدہ کتابیں و رسائل،اگر آن لائن میں آسانی ہے تو فیضان آن لائن اکیڈمی،اگر گھر بیٹھی ہوں تو الیکٹرونک مبلغ مدنی چینل آپ کے گھر میں موجود۔الغرض بے شمار ذرائع موجود ہیں۔تو جلدی کیجیے!علمائے کرام کے فضائل کو پانے کے لیے کسی بھی حصولِ علم کے ذریعے کو اپنا کر سعی شروع فرما دیجیے۔ اللہ پاک ہم سب کو عالمہ با عمل بنائے۔


22 مئی 2022 ء بروز اتوارکو  گرمی کی شدت کے پیش نظر دعوت اسلامی کے شعبہ FGRF کے تحت سندھ کے شہر ڈہرکی کے بیچ بازار میں ٹھنڈے اور میٹھے پانی پلانے کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ذمہ داران نے کثیر لوگوں کو ٹھنڈا اور میٹھا پانی پلایا ۔(کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


دعوت اسلامی کے شعبہ  اصلاح اعمال کے زیر اہتمام 27 مئی 2022ء کو سخی سرور میں موجود مدرسۃالمدینہ میں اصلاح اعمال اجتماع ہواجس میں مدرسۃ المدینہ کے طلباء نے شرکت کی۔

اصلاح اعمال ڈویژن سطح کے ذمہ دار غلام عباس عطاری نے’’ نیک اعمال‘‘ کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان کیا اور شرکا کو رسالہ نیک اعمال سے جائزہ کرنے نیز ہفتہ وار رسالہ پڑھنے کی ترغیب دلائی ۔


شعبہ  اصلاح اعمال کے تحت 27 مئی 2022ء کو سخی سرور ڈیرہ غازی خان میں قائم جامعۃ المدینہ میں اصلاح اعمال اجتماع کا انعقاد ہوا جس میں جامعۃ المدینہ و امامت کورس کے طلباء نے شرکت کی۔

ڈویژن ذمہ دار غلام عباس عطاری نے’’رسالہ نیک اعمال‘‘ میں موجود نیک اعمال کے حوالے سے اسلامی بھائیوں کو بتاتے ہوئے ان پر عمل کرنے کے حوالے سے ذہن سازی کی اور ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں باقاعدگی سے شرکت کی ترغیب دی۔ (کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


شعبہ کفن دفن دعوت اسلامی کی جانب سے 26 مئی 2022ء  کو کراچی میں مختلف مقامات پر ہونے والے ہفتہ وار اجتماعات میں شعبہ کفن دفن کے ذمہ دار نے بستہ لگایا جن میں مختلف مقامات سے آئے ہوئے اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

شعبہ کفن دفن ذمہ دار اور رکن مجلس فیضان مدینہ عزیر عطاری، ٹاؤن ذمہ دار ظہیر عطاری نے اسلامی بھائیوں کو شعبہ کا تعارف کرایا اور انہیں بھی شعبہ کے تحت ہونے والے دینی کام میں حصہ لینے کا ذہن دیا۔ (رپورٹ:عزیر عطاری رکن شعبہ کفن دفن، کانٹینٹ: رمضان رضا عطاری)


ہر مسلمان،عاقل و بالغ مرد و عورت پر روزانہ 5 وقت کی نماز فرض ہے۔جو نماز کو فرض نہ مانے وہ دینِ اسلام سے باہر ہے۔ جو نماز کو فرض تو مانے مگر ایک نماز بھی جان بوجھ کر چھوڑ دے تو وہ سخت گناہ گار اور دوزخ کے عذاب کا حق دار ہے۔ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جس نے قصداً (یعنی جان بوجھ کر)ایک وقت کی (نماز) چھوڑی ہزاروں برس جہنم میں رہنے کا مستحق(یعنی حق دار) ہوا، جب تک توبہ نہ کر لے۔ (فتاویٰ رضویہ،9/158) اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب ایک نماز جان بوجھ کر چھوڑنے پر ہزاروں سال تک دوزخ میں رہنا پڑے گا تو جو سِرے سے نماز ہی نہ پڑھتی ہوں تو وہ کس قدر سخت عذاب کے شکار ہو ں گی۔ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے سے تو شیطان بھی پناہ مانگتا ہے، چنانچہ منقول ہے: ایک شخص جنگل میں جا رہا تھا، شیطان بھی اُس کے ساتھ چل دیا، اُس شخص نے دن بھر میں ایک نماز بھی نہ پڑھی یہاں تک کہ رات ہو گئی، شیطان اُس سے بھاگنے لگا، اُس شخص نے حیران ہو کر بھاگنے کا سبب پوچھا: تو شیطان بولا:میں نے عمر بھر میں صرف ایک بار حضر ت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو لعنتی ہو گیا اور تو نے تو آج پانچوں نمازیں چھوڑ دیں، مجھے خوف آ رہا ہے کہ کہیں تجھ پر عذاب اُترے اور میں بھی اس میں نہ پھنس جاؤں۔ (درۃ الناصحین، ص144 ملخصاً) اللہ پاک ہمیں پابندی کے ساتھ پانچوں نمازیں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین یا رب العلمین۔اب یہاں پر بالخصوص نمازِ مغرب کی اہمیت و فضیلت پر 5 فرامینِ مصطفٰےذکر کیے جاتے ہیں:1۔ حضرت عایشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں،الله پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اللہ پاک کے نزدیک سب سے افضل نماز،نمازِ مغرب ہے اور جو اس کے بعد دو رکعت پڑھے تو اس کے لیے اللہ پاک جنت میں ایک گھر بنا دے گا(جس میں) وہ صبح کرے گا اور راحت پائے گا۔ (طبرانی،المعجم الاوسط،7: 230،رقم:6445)2۔ خادمِ نبی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:جس نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اُس کے لیے مقبول حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا اور وہ ایسا ہے گویا اس نے شبِ قدر میں قیام کیا۔(جمع الجوامع، 7/195، حدیث: 22311) 3۔ رزین نے محکول سے روایت کی،الله پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں: جو شخص بعدِ مغرب کلام کرنے سے پہلے دو رکعت پڑھے،اس کی نماز علّیّین میں اٹھائی جاتی ہے۔4۔ حضرتِ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:مغرب کے بعد کی دونوں رکعتیں جلدی پڑھو کہ وہ فرض کے ساتھ پیش ہوتی ہیں۔ (طبرانی) 5۔ حضور نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری امت اس وقت تک خیر یا فطرت پر رہے گی جب تک تارے نظر آنے تک مغرب میں تاخیر نہیں کرے گی۔(ابو داود ملخصا) ہمیں چاہیے کہ نماز کی پابندی کرتے ہوئے پانچوں نمازیں وقت پر ادا کریں۔عذابِ الٰہی سے خود کو ڈرانے اور نمازوں کی عادت بنانے کے لئے دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہو جائیں اور نیک و صالحات کی صحبت اختیار کیجئے،ان شاءاللہ نمازوں کی پابندی کے ساتھ ساتھ خوب نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی سعادت حاصل ہو گی۔


     ہر عمارت کا ایک ستون اور پایہ ہوتا ہے جس پر پوری عمارت کا دارو مدار ہوتا ہے۔ اگر کبھی اس ستون پر کوئی آفت آجائے تو پوری عمارت زمیں بوس ہو جاتی ہے۔ اسی طرح سے نماز ایک دین دار انسان کے دین و عقائد کےلیے ایک ستون کی مانند ہے۔نماز دینِ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔اﷲ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ایمان کے بعد اہم ترین رکن ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔یہ شبِ معراج کے موقع پر فرض کی گئی۔قرآن و سنت اور اجماع کی رو سے اس کی ادائیگی کے پانچ اوقات ہیں اور وہ یہ ہیں: فجر ، ظہر ، عصر ، مغرب ، عشا۔ نمازِ مغرب کا معنیٰ : مغرب کا معنیٰ سورج غروب ہونے کا وقت ہے چونکہ مغرب کی نماز سورج کے غروب ہونے کے بعد ادا کی جاتی ہے اس لئے اس نماز کو مغرب کی نماز کہا جاتا ہے۔نمازِ مغرب پر فرامینِ مصطفٰے:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مغرب کی نماز کا وقت سورج کے غروب ہونے سے لے کر اس وقت تک ہے جب تک شفق کی سرخی غائب نہ ہو جائے ۔ (صحیح مسلم) آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میری امت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک تارے نظر آنے تک مغرب میں تاخیر نہیں کرے گی۔ (ابو داؤد ملخصاً)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:ہم نمازِ مغرب نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ پڑ ھتے پھر تیراندازی کرتے تو ہر ایک تیر گرنے کی جگہ کو دیکھ لیتا تھا۔ (ابی داؤد، 416، ص:165، ج: 1، باب فی وقت المغرب)*یعنی نمازِ مغرب کے بعد اتنی سفیدی (روشنی) باقی ہوتی کہ دور کی چیز نظر آ جاتی تھی ۔* بہارشریعت میں ہے:روز ابر کے سوا مغرب میں ہمیشہ تعجیل مستحب ہے اور دو رکعت سے زائد کی تاخیر مکروہِ تنزیہی اور اگر بغیر عذر سفر و مرض وغیرہ اتنی تاخیر کی کہ ستارے گُتھ گئےتو مکروہ ِتحریمی۔ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم لوگوں کو نمازِ مغرب پڑ ھا کر پھر (میرے )گھر تشریف لاتے اور دو رکعتیں پڑ ھتے تھے۔( صحیح مسلم) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوموسٰی اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا:آپ نمازِ مغرب میں قصارِ مفصل سورتیں تلاوت کریں۔(قصار ِمفصل: سورۃ لم یکن الذین کفروا سے لےکر سورۃ الناس تک ) ( صحیح ترمذی)شیطان چاہتا ہی نہیں کہ ہم نماز پڑھیں،گناہوں سے بچیں،نیکی کریں اور جنت کی راہ لیں۔ہمیں شیطان کے ہر وار کو ناکام بناتے ہوئے خوب خوب نمازیں پڑھنی چاہییں۔ اللہ پاک ہم سب کو پکی نمازی بنائے ۔ امین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


ہر شے کے لئے ایک علامت ہوتی ہےاور ایمان کی علامت نماز ہے۔تمام اعمال میں اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب چیز  وقت کے اندر نماز پڑھنا ہے۔نماز وہ عمل ہے جس کا قیامت کے دن سب سے پہلے سوال کیا جائےگا۔نماز وہ عمل ہے جو بندے کو قبر کے عذابات سے بچائےگی۔نماز وہ عمل ہے کہ اگر بندہ نماز سے پہلے وضو کرے جیسا وضو کرنے کا حکم ہے اور پھر نماز پڑھے جیسی نماز پڑھنے کا حکم ہےتو پہلے جو کچھ اس نے کیا وہ سب معاف ہے ۔نماز وہ عمل ہے جو کسی حال میں معاف نہی اور جو قصدًا نماز چھوڑے تو جہنم کے دروازے پر اس کا نام لکھ دیا جاتا ہے۔جس نے نماز چھوڑی اس کا کوئی دین نہیں کیونکہ نماز دین کا ستون ہے۔نمازِ مغرب کی بڑی اہمیت ہے۔نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی مبارک زندگی کی آخری نماز جو ادا فرمائی وہ نمازِ مغرب ہے اس کے بعد کوئی نماز ادا نہ فرمائی یعنی ظاہری زندگی میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے وصال سے قبل جو نماز ادا فرمائی وہ نمازِ مغرب ہے ۔ اللہ پاک ہمیں نمازِ مغرب اور تمام نمازیں پا بندی سے پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اس ضمن میں نمازِ مغرب کی فضیلت و اہمیت پر 5 فرامینِ مصطفٰے ذکر کی جاتی ہیں :1۔امام احمد و ابو داود،حضرت ابو ایوب و عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:میری اُمت ہمیشہ فطرت پر رہے گی،جب تک مغرب میں اتنی تاخیر نہ کریں کہ ستارے گتھ جائیں۔2۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے نمازِ مغرب جماعت کے ساتھ ادا کی اس کے لئے مقبول حج اور مقبول عمرے کا ثواب لکھا جائےگا اور وہ ایسا ہے جیسے اس نے شبِ قدر میں قیام کیا۔3۔ابو داود نے عبد العزیز بن رفیع رضی اللہ عنہ سے روایت کی ،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:دن کی نماز( عصر) ابر کے دن میں جلدی پڑھو اور مغرب میں تاخیر کرو۔4۔حضور نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو شخص مغرب کے بعد 6 رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان میں کوئی بُری بات نہ کہے تو بارہ برس کی عبادت کے (ثواب کے) برابر کی جائیگی۔5۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں، اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:اللہ پاک کے نزدیک سب سے افضل نماز،نمازِ مغرب ہے جو اس کے بعد دو رکعت پڑھے تو اس کے لئے اللہ پاک جنت میں ایک گھر بنا دے گا جس میں وہ صبح کرے گا اور راحت پائےگا۔


نماز کی اسلام میں اہمیت و فضلیت:قرآنِ پاک میں اللہ پاک پارہ 1 سورۂ بقرہ کی آیت 43 میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ:اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔اس سے چند مسائل معلوم ہوئے:پہلا یہ کہ نماز زکوٰۃ سے افضل اور مقدم ہے۔ دوسرا یہ کہ نماز پڑھنا کمال نہیں نماز قائم کرنا کمال ہے اور تیسرا یہ کہ انسان کو جانی مالی ہر قسم کی نیکی کرنی چاہیے۔( بحوالہ آیاتِ قرآنی کے انوار،ص10)نماز کی اہمیت و فضیلت پر فرامینِ مصطفے:(1) کھڑے ہو کر نماز پڑھ اگر اس کی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھ اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو لیٹ کر نماز پڑھ لے۔(بخاری،/،حدیث:)(2) جب بندہ ذکر و نماز کے لیے مسجد کو ٹھکانہ بنا لیتا ہے تو اللہ پاک اس کی طرف رحمت کی نظر فرماتا ہے جیسا کہ جب کوئی غائب آتا ہے تو اس کے گھر والے اس سے خوش ہوتے ہیں۔(ابن ماجہ،1 /800،حدیث:438)

پڑھتی رہو نماز کے جنت میں جاؤ گی ہوگا وہ تم پہ فضل کے دیکھے ہی جاؤ گی

نمازِ مغرب کی اہمیت:مغرب کا معنی سورج غروب ہونے کا وقت ہے کیونکہ مغرب کی نماز سورج کے غروب ہونے کے بعد ادا کی جاتی ہے اس لیے اس نماز کو نمازِ مغرب کہا جاتا ہے۔مغرب کی نماز کی اہمیت پر فرامینِ مصطفے:(1)جس نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اس کے لیے مقبول حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا اور وہ ایسا ہے گویا اس نے شبِ قدر میں قیام کیا۔(جمع الجوامع،8/ 195)(2) جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان میں کوئی بری بات نہ کہے تو بارہ برس کی عبادت کے برابر کی جائیں گی۔(ترمذی،1/439،حدیث:435)(3) جومغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔(معجم اوسط،5/200،حدیث:7245)مغرب کے بعد چھ رکعتیں مستحب ہیں ان کو صلوۃ الاوابین کہتے ہیں چاہیں تو ایک سلام سے سب پڑھیں یا دو سلام سے یا تین سے اور تین سلام سے یعنی ہر رکعت پر سلام پھیرنا افضل ہے۔

نمازوں کے اندر خشوع اےخدا دے پئے غوث اچھی نمازی بنا دے

اے عاشقان رسول! ہم کتنی خوش نصیب ہیں کہ اللہ پاک نے ہمیں مسلمان بنایا اور نبیِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی امتی بنایا اور اس پر مزید احسان یہ فرمایا کہ ہم پر نمازیں فرض کیں۔نمازوں کا جذبہ پانے کے لیے دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے منسلک ہوجائیے کہ جہاں بے نمازی، نمازی بن جاتی ہیں اور سچا عشقِ رسول بھی نصیب ہوتا ہے۔اس ماحول کی برکت سے اللہ پاک ہمیں اخلاص کے ساتھ نمازیں پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

اے بیمارِ عصیاں تو آجایہاں پر گناہوں کی دے گا دوا دینی ماحول


مغرب کا معنی: سب سے پہلے مغرب کا معنی سمجھیے۔مغرب کا معنی سورج غروب ہونے کا وقت چونکہ مغرب کی نماز سورج غروب ہونے کے بعد ادا کی جاتی ہے اس لیے اس نماز کو مغرب کی نماز کہا جاتا ہے۔تحفۂ معراج:اللہ پاک نے مسلمانوں پر جو پانچ نمازیں فرض کی ہیں ان میں سے ایک مغرب کی نماز بھی ہے اور یہ پانچ نمازیں تو معراج شریف پر ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو تحفۃً ملی ہیں اور یہ پہلا تحفہ ہے جو رب کریم نے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو عطا فرمایا ورنہ روزہ،زکوٰۃ،حج تو زمین پر عطا کیے گئے ان کا حکم زمین پر نازل ہوتا رہا مگر نماز وہ واحد تحفہ ہے جو معراج کی رات عطا کیا گیا۔مغرب کی خصوصیات:سب سے پہلے حضرت داؤد علیہ السلام نے نمازِ مغرب ادا فرمائی۔حضرت داؤد علیہ السلام نے جب چار رکعت ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ نے 3 رکعت ادا کر کے سلام پھیر لیا تو اللہ پاک کو اپنے اس نبی کی ادا پسند آئی تو تاقیامت اپنے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی امت پر فرض کر دی۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ نبیِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے آخری نماز جو اپنی زندگی میں ادا کی وہ نمازِ مغرب ادا کی اس کے بعد آپ نے کوئی نماز ادا نہ کی اس وجہ سے اس نماز کو اہمیت دی گئی۔قرآنِ پاک میں نمازِ مغرب کی فضیلت:قرآنِ پاک میں بھی اللہ پاک نے اس نماز کی اہمیت و فضیلت کو بیان فرمایا ہے۔ارشاد باری ہے: اور نماز قائم رکھو دن کے دونوں کناروں اور کچھ رات کے حصوں میں بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں یہ نصیحت ہے نصیحت ماننے والوں کو۔(پ12،ھود:114)اس آیت کی تفسیرمفسرین کچھ یوں فرماتے ہیں:رات کے حصوں میں جو نمازیں مراد ہیں وہ مغرب اور عشا کی نماز ہے۔3فرامینِ مصطفے:ہمیں نمازِ مغرب کا شوق دلانے کے لیے سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس پر بے شمار احادیث بیان فرمائی ہیں جن میں سے 3احادیثِ مبارکہ آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتی ہوں:(1)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اس کے لیے مقبول حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا وہ ایسا ہے گویا اس نے شبِ قدر میں قیام کیا۔(جمع الجوامع،7/195،حدیث:22311)(2)سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان کوئی بری بات نہ کہے تو بارہ برس کی عبادت کے برابر کے ثواب کے برابر کی جائیں گی۔(ترمذی،1/39،حدیث:435) نبیِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اگرچہ سمندر کے جھاگ برابر ہوں۔(معجم اوسط،5/255،حدیث:7245)اللہ پاک ہمیں پانچ نمازیں وقت پر خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

نمازوں کے اندر خشوع اے خدا! دے پئے غوث اچھی نمازی بنا دے


اللہ پاک فرماتا ہے: وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ؕاِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ ؕذٰلِكَ ذِكْرٰى لِلذّٰكِرِیْنَ0وَاصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ0ترجمۂ کنز العرفان :اور دن کے دونوں کناروں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم رکھو ۔بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں،یہ نصیحت ماننے والوں کیلئے نصیحت ہے۔اور صبر کرو کیونکہ اللہ نیکی کرنے والے کا اجر ضائع نہیں کرتا۔تفسیر صراط الجنان :اس آیت میں دن کے دو کناروں سے صبح ا ور شام مراد ہیں ، زوال سے پہلے کا وقت صبح میں اور زوال کے بعد کا وقت شام میں داخل ہے ۔ صبح کی نمازتو فجر ہے جبکہ شام کی نمازیں ظہر و عصر ہیں اور رات کے حصوں کی نمازیں مغرب و عشا ہیں۔ نیکیوں سے مراد یا یہی پنجگانہ نمازیں ہیں جو آیت میں ذکر ہوئیں یااس سے مراد مطلقاً نیک کام ہیں یا اس سے’’ سُبْحَانَ اللہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاللہُ اَکْبَرْ‘‘ پڑھنا مراد ہے۔(مدارک، ہود، تحت الآیۃ: 114، ص516)نمازِ مغرب کو مغرب کہنے کی وجہ :مغرب کا معنی سورج غروب ہونے کا وقت ہے چونکہ مغرب کی نماز سورج کے غروب ہونے کے بعد ادا کی جاتی ہے اس لیے اس نماز کو نمازِ مغرب کہا جاتا ہے ۔احادیثِ طبیہ :اَمی جان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں،حضور نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :اِنَّ أَفْضَلَ الصَّلوٰةِ عِنْدَ اللّٰہِ صَلٰوةُ الْمَغْرَبِ، وَمَنْ صَلَّی بَعْدَهَا رَکْعَتَيْنِ بَنَی اللّٰہُ لَهُ بَيْتاً فِي الْجَنَّةِ،يَغْدُو فِيْهِ وَ يَرُوْح۔(طبرانی، المعجم الأوسط، 7 : 230، رقم : 6445)اللہ پاک کے نزدیک سب سے افضل نماز، نمازِ مغرب ہے۔ جو اس کے بعد دو رکعت پڑھے تو اس کے لئے اللہ پاک جنت میں ایک گھر بنا دے گا (جس میں) وہ صبح کرے گا اور راحت پائے گا۔خادمِ نبی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ عالی شان ہے:جس نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اس کے لیے مقبول حج وعمرہ کا ثواب لکھا جائے گا اور وہ ایسا ہے گویا (یعنی جیسے) اس نے شبِ قدر میں قیام کیا۔( جمع الجوامع، 160،حدیث:(231) حکایت:حضرت عمربن ابوخلیفہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں: ہم نے حضرت عطا خراسانی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ نمازِ مغرب ادا کی،نماز کے بعد جب ہم واپس ہونے لگے تو آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:مغرب و عشا کے اس درمیانی وقت سے لوگ غافل ہیں!یہ نماز اوابین(توبہ کرنے والوں کی نماز) کا وقت ہے۔جس نے اس دوران نماز کی حالت میں قرآنِ کریم کی تلاوت کی گویا وہ جنت کی کیاری میں ہے۔ (الله والوں کی باتیں ج5 ص 259)نمازِ مغرب کی ادائیگی کا مستحب وقت:امام ابو داود رحمۃ اللہ علیہ نے عبدالعزیز بن رفیع رضی اللہ عنہ سے روایت کی ،رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:دن کی نماز (عصر) ابر کے دن میں جلدی پڑھو اور مغرب میں تاخیر کرو۔(مراسیل ابی داود مع ابو داود ، کتاب الصلوٰۃ، ص 5) حدیث:حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:مغرب کے بعد کی دونوں رکعتیں جلدی پڑھو کہ وہ فرض کے ساتھ پیش ہوتی ہیں۔(طبرانی)رزین نے مکحول سے روایت کی کہ حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جو شخص بعدِ مغرب کلام کرنے سے پہلے دو رکعت پڑھے ، اس کی نماز علّیین میں اٹھائی جاتی ہے ۔