قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
4 years ago

قومِ عاد کا مختصر تعارف:

قوم عاد احقاف میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے درمیان علاقۂ یمن میں ایک ریگستان ہے۔

قومِ عاد کی نافرمانیاں:

1۔قومِ عاد نے زمین کو فسق سے بھر دیا تھا۔

2۔ دنیا کی قوموں کو اپنی جفا کاریوں سے، اپنے زورِ قوت کے زعم میں پامال کر ڈالا تھا۔

3۔یہ لوگ بت پرست تھے۔

4۔ان کے ایک بت کا نام صُداء، ایک کا صُمود اور ایک کاہباء تھا۔

اللہ عزوجل نے ان میں حضرت ہود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، آپ نے انہیں توحید کا حکم دیا، شرک و بت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی، اس پر وہ لوگ منکر ہوئے اور آپ کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے:ہم سے زیادہ زور آور کون ہے؟چند آدمی ان میں حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لائے، وہ تھوڑے تھے اور اپنا ایمان چھپائے رہتے تھے، ان مؤمنین میں سے ایک شخص کا نام مرثد بن سعد بن عفیر تھا، وہ اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے، جب قوم نے سرکشی کی اور اپنے نبی حضرت ہود علیہ السلام کی تکذیب کی اور زمین میں فساد کیا اور ستم گاریوں میں زیادتی کی اور بڑی مضبوط عمارتیں بنائیں، معلوم ہوتا تھا کہ انہیں گمان ہے کہ وہ دنیا میں ہمیشہ ہی رہیں گے، جب ان کی نوبت یہاں تک پہنچی تو اللہ عزوجل نے بارش روک دی، تین سال بارش نہ ہوئی، اب وہ بہت مصیبت میں مبتلا ہوئے اور اس زمانے میں دستور یہ تھا کہ جب کوئی بلایا مصیبت نازل ہوتی تو وہ لوگ بیتُ اللہِ الحرام میں حاضر ہوکر اللہ عزوجل سے اس کے دفع کی دعا کرتے تھے، اس لئے ان لوگوں نے ایک وفد بیت اللہ کو روانہ کیا، اس وفد میں قیل بن عنزا اور نعیم بن ہزال اور مرثد بن سعد تھے، یہ وہی صاحب ہیں جو حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لائے تھے، اور اپنا ایمان مخفی رکھتے تھے، اس زمانے میں مکہ مکرمہ میں عمالیق کی سکونت تھی اور ان لوگوں کا سردار معاویہ بن بکر تھا، اس شخص کا نانہال قومِ عاد میں تھا، اس تعلق سے یہ وفد مکہ مکرمہ کے حوالی (گردونواح) میں معاویہ بن بکر کے یہاں مقیم ہوا، اس نے ان لوگوں کا بہت اکرام کیا، نہایت خاطر و مدارت کی، یہ لوگ وہاں شراب پیتے اور اور باندیوں کا ناچ دیکھتے تھے۔

اس طرح انہوں نے عیش وعشرت میں ایک مہینہ بسر کیا، معاویہ کو خیال آیا کہ یہ لوگ تو راحت میں پڑ گئے اور قوم کی مصیبت بھول گئے، جو وہاں گرفتارِ بلا ہے، مگر معاویہ بن بکر کو یہ خیال بھی تھا کہ اگر وہ ان لوگوں سے کچھ کہے تو شاید وہ یہ خیال کریں کہ اب اس کو میزبانی گراں گزرنے لگی ہے، اس لئے اس نے گانے والی باندی کو ایسے اشعار دیئے، جس میں قومِ عاد کی حاجت کا تذکرہ تھا، جب باندی نے وہ نظم گائی، تو ان لوگوں کو یاد آیا کہ ہم اس قوم کی مصیبت کی فریاد کرنے کے لئے مکہ مکرمہ بھیجے گئے ہیں، اب انہیں خیال ہوا کہ حرم شریف میں داخل ہو کر قوم کے لئے پانی برسنے کی دعا کریں۔

اس وقت مرثد بن سعد نے کہا: کہ اللہ کی قسم! تمہاری دعا سے پانی نہ برسے گا، لیکن اگر تم اپنے نبی کی اطاعت کرو اور اللہ عزوجل سے توبہ کرو، تو بارش ہوگی اور اس وقت مرثد نے اپنے اِسلام کا اظہار کر دیا، ان لوگوں نے مرثد کو چھوڑ دیا اور خود مکہ مکرمہ جا کر دعا کی، اللہ عزوجل نے تین ابر بادل بھیجے، ایک سفید، ایک سرخ اور ایک سیاہ اور آسمان سے ندا ہوئی کہ اے قیل! اپنے اور اپنی قوم کے لئے ان میں سے ایک ابر اختیار کر، اس نے ابرِ سیاہ کو اختیار کیا، اس خیال سے کہ اس سے بہت پانی برسے گا۔

چنانچہ وہ ابر قومِ عاد کی طرف چلا اور وہ لوگ اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے، مگر اس میں سے ایک ہوا چلی، وہ ہوا اس شدّت کی تھی کہ وہ اونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر وہ لوگ گھروں میں داخل ہوئے اور اپنے دروازے بند کرلئے، مگر ہوا کی تیزی سے بچ نہ سکے، اس نے دروازے بھی اُکھیڑ دئیے اور ان لوگوں کو ہلاک بھی کر دیا اور قدرتِ الہی سے سیاہ پرندے نمودار ہوئے، جنہوں نے ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا، حضرت ہود علیہ السلام مؤمنین کو لے کر قوم سے جدا ہوگئے تھے، اس لئے وہ سلامت رہے، قوم کے ہلاک ہونے کے بعد ایمان داروں کو ساتھ لے کر مکۂ مکرمہ تشریف لائے اور آخر عمر شریف تک وہیں اللہ عزوجل کی عبادت کرتے رہے۔(بحوالہ ترجمۂ کنزالایمان مع تفسیر خزائن العرفان، پارہ 8، الاعراف:صفحہ 301)


قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
4 years ago

قوم عاد انہیں قوموں میں شامل ہے،  جو اللہ پاک کی نافرمانی کرکے عذابِ الہی میں گرفتار ہوئے، یہ قوم مقامِ "احقاف" میں رہتی تھی، جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان ہے، ان کے مورثِ اعلی کا نام عاد بن عاص بن ارم بن سام بن نوح ہے، قوم کے لوگ اسے عاد کے نام سے پکارتے تھے۔یہ لوگ بتوں کی پوجا کرتے تھے اور بہت بد اعمال و بد کردار تھے، اللہ پاک نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، لیکن اس قوم کے لوگوں نے تکبر وسرکشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کی نافرمانی کی اور ایمان نہ لائے۔(پ8، الاعراف: 70)جب ان لوگوں نے اپنی سرکشی کو نہ چھوڑا تو اللہ پاک نے ان کی طرف عذاب بھیجا اور تین سال تک بارش نہ ہوئی، سخت قحط میں مبتلا ہوگئے۔اس قوم کا ایک دستور(role) تھا کہ جب ان کے پاس کوئی مصیبت یا بلا آتی تو یہ کعبہ معظمہ میں جا کر خانہ کعبہ میں دعا ئیں مانگتے تو ان کی مصیبتیں دور ہوجاتیں، تو ان میں سے ایک جماعت کعبہ معظمہ گئی، انہی میں مرثد بن سعد نامی ایک شخص بھی تھا، جو مؤمن ہو چکا تھا، لیکن اپنی ایمان کو چھپایا ہوا تھا، جب اُس جماعت نے خانہ کعبہ میں دعائیں مانگنا شروع کیں تو مرثد بن سعد کا ایمانی جذبہ بیدار ہوا اور وہ اپنی قوم سے تڑپ کے بولا:اے میری قوم! جتنی دعائیں مانگنی ہیں، مانگ لو، پر یاد رکھو، جب تک اللہ پاک کے بھیجے گئے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان نہ لاؤ گے، تب تک تمہاری کوئی دعا قبول نہیں ہوگی، قوم کو جب ان کے مؤمن ہونے کا پتہ چلا تو انہوں نے مرثد بن سعد کو مار مار کر زخمی کردیا، اللہ پاک نے اس قوم پر تین بدلیاں(clouds) ظاہر کیں اور آواز آئی"کہ اے قومِ عاد! تم لوگ اپنی قوم کے لئے ان تین بدلیوں میں سے ایک بدلی چُن لو" اس قوم نے کالی بدلی کو چُن(chose) لیا کہ شاید اس میں سے بہت بارش برسے اور خوش ہوگئے کہ اب قحط سالی دُور ہو جائے گی۔

حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا کہ اے میری قوم!یہ ابر بادل تمہاری طرف اللہ پاک کا عذاب ہے، اُس قوم نے اِس کا انکار کیا اور کہا: کیساعذاب اور کہاں کا عذاب؟ ہٰذَا عَارِضٌ مُمْطِرُنَا ۔ (پ26،احقاف:24)" تو بادل ہے، جو ہمیں بارش دینے والا ہے۔"

یہ بعد پچھم (east)سے شروع ہوا ، جو آبادی کی طرف بڑھتا ہوا آ رہا تھا، قوم سوچ رہی تھی، آج ہم پر خوب بارش ہوگی، لیکن جب وہ بادل آبادی میں آئے تو تیز آندھی چلی، جس کی وجہ سے ان کے اُونٹ سمیت ان کے سواری بھی تیز آندھی کے شکار آلہ بن گئے اور ان کی عمارتوں کو چیر کر اُڑا کر لے گئی، سات رات اور آٹھ دن تک یہ آندھی جاری رہی اور قومِ عاد کے سب لوگ ہلاک ہوگئے۔اللہ پاک نے پرندوں کے جُھنڈ بھیجے، جو اِن کی لاشوں کو سمندر میں پھینک آئے، حضرت ہود علیہ السلام نے اس بستی کو چھوڑ کر چند مؤمنین کو لے کر جو ان پر ایمان لائے تھے، مکہ مکرمہ چلے گئے اور ساری زندگی وہیں عبادت میں گزار دی۔اب ہمیں کیا عبرت ملی کہ اُن کے پاس ہر نعمت تھی، بڑے بڑے محلات، ہر طرح کے پھل اور ہر طرح کی سبزیاں تھیں، لیکن یہ قوم اپنے کفر کی وجہ سے ہلاک ہو گئی، قرآن پاک میں اللہ پاک فرماتا ہے:

ترجمۂ کنزالایمان:"اور اگر بستیوں والے ایمان لاتے اور ڈرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے، مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے اُنہیں اُن کے کئے پرگرفتار کیا۔ " (پ9، الاعراف96)(عجائب القران مع غرائب القران)اللہ پاک ہمیں ایمان پر خاتمہ عطا فرمائے۔ آمین


قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
4 years ago

قومِ عاد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم تھی ، یہ "احقاف "میں رہتی تھی،  یہ بہت بُری اور بدکردار قوم تھی، حضرت ہود علیہ السلام نے ان کو اِسلام کی طرف بلانے کی بہت کوشش کی، مگر اس قوم نے تکبر اور سرکشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور کفر کو نہ چھوڑا، حضرت ہود علیہ السلام بار بار اس قوم کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے، مگر انہوں نے کوئی فکر نہ کی، آخر عذابِ الٰہی آنا شروع ہوگیا، اس کی کُچھ نشانیاں ظاہر ہوئیں، تین سال تک بارش ہی نہیں ہوئی، یہ لوگ بھوک کی وجہ سے نڈھال ہوگئے تھے، ہر طرف خُشک سالی اور قحط پھیل گیا، اس زمانے میں یہ ہوا کرتا تھا کہ جب کوئی مصیبت آتی تو لوگ دعا مانگتے تو بلائیں دور ہوجاتیں، چنانچہ کُچھ لوگ مکہ معظمہ گئے، ان لوگوں میں ایک شخص مسلمان بھی تھا، جس نے اپنے ایمان کو قومِ ہود سے چھپایا ہوا تھا، جب ان لوگوں نے دعا مانگنا شروع کی، تو اس کا ایمانی جذبہ بیدار ہوا تو اس نے کہا: کہ اے میری قوم! تم جتنی دعائیں مانگو، تمہاری دعائیں جبھی قبول ہوں گی، جب تم حضرت ہود علیہ السلام پر ایمان لاؤ گے، قومِ عاد کے لوگوں نے اس شخص کو بہت مارا اور اپنی دعاؤں میں مصروف ہوگئے تو پھر اللہ نے تین بدلیاں بھیجیں، ایک سفید، ایک سُرخ اور ایک کالی، غیب سے آواز آئی:کسی ایک کو چُنو! تو لوگوں نے کالی بدلی کو چُنا، وہ سمجھتے تھے کہ اس سے بارش برسے گی، چنانچہ وہ کالا بادل قومِ عاد کی آبادیوں کی طرف چل پڑا، جب وہ وہاں پہنچ گیا تو ایک دم اِتنی شدید قسم کی آندھی آئی کہ ہر چیز کو اپنے ساتھ اُڑا کر لے گئی، حضرت ہود علیہ السلام نے ان کو بہت سمجھایا، مگر یہ لوگ کہتے تھے:کہ کیسا عذاب اور کہاں کا عذاب؟ اس آندھی نے تو جانوروں، درختوں حتیٰ کہ ان کے محلات کو بھی نہ چھوڑا اور اس قوم کا ہر فرد آندھی سے فنا ہو گیا، جب آندھی ختم ہوئی تو ہر بندہ اس طرح پڑا تھا، جیسے کُھجور کے درخت جڑ سے اُکھڑ کر زمین پر آگئے ہوں۔اللہ ہمیں ایسے عذابات سے محفوظ رکھے۔آمین 


دعوتِ اسلامی کے شعبہ ڈونیشن بکس  للبنات کے تحت گزشتہ دنوں کراچی بِن قاسم زون میں مدنی مشورےکاانعقادہواجس میں پاکستان زون کی 3 کابینہ تا علاقہ ذمہ داراسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

ریجن مشاورت ذمہ داراسلامی بہن نے ہر ماہ ماہانہ مدنی مشورہ وقت پر لینے اور کارکردگی مشورہ ماتحت سے وصول کرنے کا ذہن دیا نیز ماہانہ کارکردگی مکمل فارمٹ کے مطابق وقت پر دینے کا ذہن دیتے ہوئے ہر ماہ صدقہ بکس کی رجسٹریشن کرنے کا ہدف دیا اور ڈونیشن بکس کوڈ وائز معلومات کی اپ ڈیٹ دینے کے اہداف بھی دیئے۔


دعوتِ اسلامی کے تحت گزشتہ دنوں کراچی ریجن کی ذمہ دار اسلامی بہنوں کے درمیان بذریعہ آڈیو لنک  تربیتی اجتماع کاانعقادہوا جس میں 710 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

رکن شوریٰ و ریجن نگران حاجی امین عطاری نے بذریعہ آڈیو لنک سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے اسلامی بہنوں کو ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے ،مدنی مذاکرہ سننے کاذہن دیا اور دعوت اسلامی کے دینی کام کرنے کے حوالے سے نکات بتائے ۔


دعوت ِاسلامی کے شعبہ کفن دفن للبنات کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں  کوئٹہ کے علاقے چکی شاہوانی میں کفن دفن تربیتی اجتماع کا انعقاد ہوا جس میں 12 اسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔

کفن دفن زون سطح کی ذمہ دار اسلامی بہن نے اسلامی بہنوں کو غسل میت کا طریقہ سکھانے کے ساتھ ساتھ کفن کاٹنے، بچھانےاور پہنانے کا طریقہ سمجھایا نیز اسلامی بہنوں کو ٹیسٹ دینے کاذہن دیا جس پر اسلامی بہنوں نےاچھی اچھی نیتوں کااظہار کیا۔


دعوتِ اسلامی کے شعبہ شب و روز کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں کراچی ریجن شب و روز کی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا آن لائن مدنی مشورہ ہوا جس میں زون مشاورت شب و روز ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

کراچی ریجن مشاورت کی ذمہ دار اسلامی بہن نے اسلامی بہنوں کودعوت اسلامی کے دینی کام احسن انداز میں کرنے سے متعلق تربیتی نکات بتائے اور ماتحت کو شعبہ کے دینی کام دینے کے حوالے سے مدنی پھول دیئے نیز اپنی کارکردگی وقت پر جمع کروانے کی ترغیب دلائی اور سابقہ ماہ وقت پر جمع کروانے والی اسلامی بہنوں کی حوصلہ افزائی کی جس پر اسلامی بہنوں نے اچھی نیتوں کااظہار کیا۔


قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
4 years ago

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن پانچ قسموں پر اترا، (1) حلال(2) حرام(3)محکم اور (4) متشابہ(5) اور پانچ مثالیں،  لہذا حلال کو حلال جانو اور حرام کو حرام مانو، محکم پر عمل کرو اور متشابہ پر ایمان لاؤ، مثالوں سے عبرت پکڑو۔( مشکوۃ المصابیح ، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، حدیث 172،اسلامی کتب خانہ)

قرآن کی بہت ساری مثالوں میں سے ایک مثال قومِ عاد بھی ہے۔

قومِ عاد دو ہیں، عادِ اولٰی:یہ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے اور عادِ ثانیہ:یہ حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ہے، اسی کو ثمود کہتے ہیں، ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔( تفسیر صراط الجنان، جلد سوم، ص 351)

میرا موضوع عادِ اولٰی ہے۔قرآن میں بہت جگہوں پر اس کی نافرمانیوں اور اس قوم پر آنے والے عذاب کا تذکرہ ہے، اس کا واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قوم عاد کی ہدایت کے لئے ان کے ہم قوم حضرت ہود علیہ السلام کو ان کے طرف بھیجا، حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا: اے میری قوم!تم اللہ تعالی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، کیا تمہیں اللہ عزوجل کے عذاب سے ڈر نہیں لگتا؟ اس پر قوم کے کافر سردار بولے: ہم تو تمہیں بے وقوف سمجھتے اور جو جھوٹا گمان کرتے ہیں اور تمہیں رسالت کے دعوے میں سچا ہی نہیں جانتے، کفارکا حضرت ہود علیہ السلام کی بارگاہ میں یہ گستاخانہ کلام کہ" تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں، جھو ٹا گمان کرتے ہیں" انتہائی درجہ کی بے ادبی اور کمینگی تھی اور وہ اس بات کے مستحق تھے کہ انہیں سخت ترین جواب دیا جاتا، مگر حضرت ہود علیہ السلام نے اپنے اخلاق و ادب اور شانِ حلم سے جو جواب دیا، اس میں شانِ مقابلہ ہی نہ پیدا ہونے دی اور ان کی جہالت سے چشم پوشی فرمائی، چنانچہ فرمایا: اے میری قوم! بیوقوفی کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں، میں تو ربّ العالمین کا رسول ہوں، میں تو تمہیں اپنے ربّ کے پیغامات پہنچاتا ہوں اور تمہارے لئے قابل اعتماد خیر خواہ ہوں۔(صراط الجنان، ج سوم، 352)

مزید یہ کہ "جب آپ علیہ السلام کے پاس وحی آتی تو قوم کے پاس آکر سنا دیتے، اس وقت قوم یہ جواب دیتی کہ کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ عزوجل کی عبادت کریں اور جن بتوں کی عبادت ہمارے باپ دادا کیا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں، اگر تم سچے ہو تو وہ عذاب لے آؤ، جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔

حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا:بے شک تم پر تمہارے ربّ کا عذاب اور غضب لازم ہو گیا۔"(صراط الجنان، ج سوم، 352)

قومِ عادجو بڑی طاقتور اور قد آور قوم تھی اور ان لوگوں کی مالی خوشحالی بھی نہایت مستحکم تھی، کیونکہ لہلہاتی کھیتیاں اور ہرے بھرے باغات ان کے پاس تھے، پہاڑوں کو تراش تراش کر ان لوگوں نے گرمیوں اور سردیوں کے لئے الگ الگ محلات تعمیر کئے تھے، ان لوگوں کو اپنی کثرت اور طاقت پر بڑا اعتماد تھا، اپنے تمدن اور سامانِ عیش وعشرت پر بڑا ناز تھا، مگر کفر اور بداعمالیوں و بدکاریوں کی نحوست نے ان لوگوں کو قہر ِالہی کے عذاب میں اس طرح گرفتار کر دیا کہ آندھی کے جھونکوں اور جھٹکوں نے ان کی پوری آبادی کو جھنجھوڑ کر چکنا چور کر دیا اور اس پوری قوم کے وجود کو صفحہ ہستی سے اس طرح مٹا دیا کہ ان کی قبروں کا کہیں بھی نشان باقی نہ رہا، تو پھر بھلا ہم لوگوں جیسی کمزور قوموں کا کیا ٹھکانہ ہے؟ کہ عذابِ الہی کے جھٹکوں کی تاب لا سکیں، اس لئے جن لوگوں کو اپنی اور اپنی نسلوں کی خیریت و بقا منظور ہے، انہیں لازم ہے کہ وہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں اور بد اعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں، اپنی کوشش اور طاقت بھر اعمالِ صالحہ اور نیکیاں کرتے رہیں۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص 109)


دعوت ِاسلامی کے شعبہ اصلاح اعمال کے تحت  گزشتہ دنوں کوئٹہ کے علاقے اے ون سٹی میں اصلاح اعمال اجتماع ہوا جس میں 15 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

شعبہ اصلاح اعمال کی زون ذمہ داراسلامی بہن نے نیک اعمال پر عمل کرنے کے حوالے سے اسلامی بہنوں کو مدنی پھول دیئے اوررسالہ نیک اعمال پر عمل کرنے، مدنی مذاکرہ سننے کا ذہن دیا جس پر اسلامی بہنوں نے روزانہ اپنے اعمال کا جائزہ لینے اورمدنی مذاکرہ سننے کی نیتوں کااظہار کیا۔


قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
4 years ago

حضرت نوح علیہ السلام کے برسوں بعد اللہ تعالی نے ایک قوم پیدا فرمائی،  جسے اس زمانے میں "قومِ عاد" کہا جاتا تھا، یہ لوگ صحت مند، طاقت ور، بڑے قد کاٹھ اور لمبی عمر والے تھے، لیکن ایمان و عمل کے اعتبار سے پستی کا شکار تھے، چنانچہ بتوں کی پوجا کرنے، لوگوں کا مذاق اڑانا، دوسروں کو تنگ کرنا اور لمبی زندگی کی اُمید پر مضبوط محل بنانا ان کے عام معمولات تھے۔(بحوالہ سیرت الانبیاء)

نعمتوں کی بہتات کے باوجود میں کفر و شرک کی اور فسق و فجور کی وبا پھیلی ہوئی تھی، چنانچہ یہ لوگ توحیدِ الہی، عبادتِ خداوندی اور اطاعتِ رسول چھوڑ کر مختلف ناموں سے موسوم اپنے ہی تراشیدہ بتوں کی پوجا میں مشغول تھے، اس کے علاوہ یہ سرِ راہ چھوٹی چھوٹی عمارتیں بناتے، ان پر بیٹھ کر لوگوں سے چھیڑخانی اور مذاق مسخری کرتے اور زندگی کی موج مستیوں سے لُطف اندوز ہونے کے لئے مضبوط محل تیار کرتے تھے، ان کے طرزِ عمل سے یہ لگتا تھا جیسے انہیں کبھی مرنا نہیں ہے، بلکہ ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔(سیرت الانبیاء)

قو مِ عاد نے ایک موقع پر انہی الفاظ میں یہ کہہ کر بھی حضرت ہود علیہ السلام (جو کہ اس قوم کے نبی علیہ السلام تھے) کی رسالت کا انکار کر دیا کہ اگر ہمارا ربّ کوئی رسول بھیجنا چاہتا تو وہ فرشتوں کو اُتار دیتا، چونکہ تم فرشتے نہیں ہو، اس لئے ہم تمہیں انکار کرتے ہیں، یعنی تمہاری رسالت کا انکار کرتے ہیں ، قرآن عظیم میں ہے:

قَالُوْا لَوْ شَآءَ رَبُّنَا لَاَنْزَلَ مَلٰٓىٕكَةً فَاِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ۔

ترجمہ کنزالایمان:" بولے ہمارا رب چاہتا تو فرشتے اُتارتا تو جو کچھ تم لے کر بھیجے گئے ہم اُسے نہیں مانتے ۔( پارہ 24، حٰم السجدہ، آیت14)

قومِ عاد نے حضرت ہود علیہ السلام کی دعوت قبول کرنے سے انکار کر کے شرک اور گناہوں پر اصرار کو ترجیح دی۔

قومِ عاد کے بُرے افعال، نافرمانیاں:

1۔کفر کرنا۔

2۔ بتوں کی پوجا کرنا۔

3۔ کفر و شرک اور گنا ہوں میں اپنے آباؤ اجداد کی پیروی کرنا۔

4۔ گناہوں پر اصرار۔

6۔توبہ استغفار سے انکار۔

7۔سرکش و نافرمان لوگوں کو اپنا پیشواء ماننا۔

8۔اللہ تعالی کے

9۔ نبی اور مسلمانوں کو اذیت دینا۔

10۔ان کی تحقیر کرنا اور انہیں بُرا بھلا کہنا۔

11۔خدا کی قدرت کے مقابلے میں اپنی طاقت و قوت پر مغرور ہونا۔

12۔لوگوں پر ظلم و ستم۔

13۔بڑی بے دردی کے ساتھ لوگوں کی گرفت کرنا۔

14۔راہ گیروں کو ستانا۔

15۔لمبی لمبی امیدیں رکھنا۔

16۔ نعمتوں کی ناشکری کرنا، وغیرہ


قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
4 years ago

قومِ عاد حضرت ہود علیہ السلام  کی قوم کو کہا جاتا ہے، یہ قوم مقامِ "احقاف" میں رہتی تھی، جو عمان و حضر الموت کے درمیان ایک بڑا ریگستان ہے، ان کے مورثِ اعلی کا نام عادبن عوص بن ارم بن سام بن نوح تھا، پوری قوم کے لوگ ان کو مورثِ اعلٰی "عاد"کے نام سے پکارنے لگے۔(عجائب القرآن، ص106)

چنانچہ حضرت ہود علیہ السلام نے اپنی قوم کو اسلام کی دعوت دی، آپ نے اپنی قوم سے فرمایا:

قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۔

ترجمۂ کنزالایمان:"کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں۔"(پ8،اعراف: 65)

قومِ عاد کی نافرمانیاں:

پیغامِ الہی سن کر قومِ عاد نے آپ علیہ السلام کو جھٹلایا اور نافرمانیوں کا سلسلہ شروع کر دیا، دینِ حق کی دعوت سن کر کافر سردار بولے:

اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ۔

ترجمۂ کنزالایمان:" بے شک ہم تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں، بے شک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں۔"(پ8،اعراف:66)

ان کی اس طرح سخت کلامی اور بے ادبی کے باوجود آپ علیہ السلام نے انتہائی حلم اور تحمل کے ساتھ جواب دیا:" مجھے بے وقوفی سے کیا علاقہ ہے، میں تو اللہ کا رسول ہوں۔"

لیکن قومِ عاد نے پھر بھی آپ کی رسالت کا انکار کیا، آپ کے معجزات کے منکر ہو گئے، چنانچہ کہا:

قَالُوْا یٰهُوْدُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَّ مَا نَحْنُ بِتَارِكِیْۤ اٰلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِكَ وَ مَا نَحْنُ لَكَ بِمُؤْمِنِیْنَ۔

ترجمۂ کنزالایمان:" بولے اے ہود! تم کوئی دلیل لے کر ہمارے پاس نہ آئے اور ہم خالی تمہارے کہنے سے اپنے خداؤں کو چھوڑنے کے نہیں نہ تمہاری بات پر یقین لائیں ۔ " ( پ 1 2 ، ہود:53)

آخر کار قومِ عاد نے آپ کو جھٹلا دیا اور اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑ کر ایمان لانے سے انکار کر دیا اور کہنے لگے:لاؤ اگر تم سچے ہو جس کی تم ہمیں وعیدیں سناتے ہو۔" حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا:بے شک تم پر تمھارے ربّ کا عذاب اور غضب لازم ہو گیا۔

عذابِ الہی:

اس قوم کی مستقل نافرمانیوں اور دینِ حق کو جھٹلانے کی وجہ سے ان پر عذابِ الہی آیا، تین سال تک قحط سالی اور بارش نہ ہوئی، اس قوم کے کچھ لوگ مکہ گئے اور دعا کی تو اللہ نے تین قسم کے بادل بھیجے، انہوں نے اس سے سیاہ بادل کو اختیار کیا کہ سیاہ بادل خوب برسے گا، مگر اس با دل سے ایسی ہوا چلی کہ اُونٹوں اور آدمیوں کو اُڑا کر کہیں سے کہیں لے جاتی تھی، یہ دیکھ کر وہ گھروں میں داخل ہوگئے، مگر ہوا کی تیزی سے نہ بچ سکے، اُس نے دروازے بھی اُکھیڑ دئیے اور ان لوگوں کو ہلاک و برباد کر دیا۔حضرت ہود علیہ السلام اور مؤمنین کو قوم سے جدا ہو گئے تھے، اس لئے سلامت رہے اور آخر عمر شریف تک مکہ میں اللہ کی عبادت کرتے رہے۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پچھلی قوموں سے عبرت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنے دین کے احکامات کو بجا لانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین


قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
4 years ago

قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی،  جو عمان و حضر موت کے درمیان ایک بڑا ریگستان ہے، یہ لوگ بت پرست اور بہت بداعمال و بد کردار تھے، اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر حضرت ہود علیہ السلام کو ان لوگوں کی ہدایت کے لئے بھیجا، مگر اس قوم نے اپنے تکبر اور سر کشی کی وجہ سے حضرت ہود علیہ السلام کو جھٹلایا اور اپنے کفر پر اڑے رہے، حضرت سیّدنا ہود علیہ السلام بار بار ان سرکشوں کو عذابِ الٰہی سے ڈراتے رہے، مگر گناہوں کی حرص میں مبتلا اس قوم نے نہایت ہی بے باکی اور گستاخی کے ساتھ اپنے نبی سے یہ کہہ دیا کہ

ترجمۂ کنزالایمان:"کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں اور جو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے انھیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دیتے ہو اگر سچے ہو۔"(پ8، اعراف: 70)

آخر عذابِ الہی کی جھلکیاں شروع ہوگئیں، تین سال تک بارشیں نہیں ہوئی اور ہر طرف قحط و خشک سالی کا دور دورہ ہو گیا، چنانچہ یہ قوم مکۂ معظمہ دعا مانگنے گئی، اس قوم میں حضرت مرثد بن سعد بھی تھے، جو مؤمن تھے، جب انہوں نے اپنا ایمان ظاہر کر دیا تو قومِ عاد کے غنڈوں نے ان کو مار پیٹ کر الگ کر دیا اور دعائیں مانگنے لگے، اس وقت اللہ نے سفید، سرخ اور سیاہ رنگ کی تین بدلیاں بھیجیں، آسمان سے ایک آواز آئی کہ"اے قومِ عاد! تم لوگ اپنے لئے ان میں سے کسی ایک بدلی کو پسند کر لو۔"تو ان لوگوں نے کالی بدلی کو پسند کر لیا اور یہ لوگ اس خیال میں مگن تھے کہ کالی بدلی خوب بارش دے گی، چنانچہ وہ ابرِ سیاہ قومِ عاد کی آبادیوں کی طرف چل پڑا، قومِ عاد کے لوگ کالی بدلی کو دیکھ کر خوش ہوئے، حضرت ہود علیہ السلام نے فرمایا:" اے میری قوم! دیکھ لو! عذابِ الہی اَبر کی صورت میں تمہاری طرف بڑھ رہا ہے۔"مگر قوم کے گستاخوں نے اپنے نبی کو جھٹلا دیا اور کہاکہ کہاں کا عذاب اور کیسا عذاب؟

ترجمۂ کنزالایمان:"یہ بادل ہے، جو کہ ہم پر برسے گا۔"(پ26، احقاف:24)

اس آندھی سے یہ لوگ ہلاک و برباد ہو گئے، یہ آندھی آٹھ دن تک چلتی رہی، یہاں تک کہ قومِ عاد کا ایک شخص بھی نہ بچا، پھر قدرتِ خداوندی سے کالے رنگ کے پرندوں کا ایک غول نمودار ہوا، جنہوں نے ان کی لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا۔

ہمیں بھی چاہئے کہ اللہ و رسول عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانیوں اور بد اعمالیوں سے ہمیشہ بچتے رہیں، اپنی زندگی اطاعتِ الہی میں بسر کریں، ورنہ قرآن مجید کی آیتیں ہمیں جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر یہ درس دے رہی ہیں کہ نیکی کی تاثیر آبادی اور بدی کی تاثیر بربادی ہے۔

زمین بوجھ سے میرے پھٹتی نہیں ہے

یہ تیرا ہی تو ہے کرم یا الہی

(وسائلِ بخشش)

(حرص، المدینۃ العلمیہ، ص 56 تا60)