صلح کے لغوی معنی ہیں، درستی، سلامتی۔(المنجد، صفحہ 478)

صلح کروانا ہمارے پیارے آقا، دو عالم کے داتا صلی اللہ علیہ وسلم کے سنت مبارکہ ہے اور اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں صلح کروانے کا حکم بھی ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ پارہ 26، سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 9 میں خدائے رحمٰن عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔"

اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ عزوجل کا فرمان عالیشان ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"اور صلح خوب ہے اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں۔"(پارہ 5، سورہ نساء، آیت نمبر 128)

ایک اور مقام پر صلح کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا:

ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحمت ہو۔"(پارہ 26، سورۃ الحجرات"10)

آیئےاس عنوان کے تحت چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا، اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست فرمائے گا اور ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔"(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب وغیرہا، حدیث9)

نبی کریم، رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ فضیلت نشان ہے:"کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے،ارشاد فرمایا:وہ عمل جو آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دیتا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، جلد 4/365، حدیث4919)

نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:"تین باتوں کے سوا جھوٹ بولنا جائز نہیں، خاوند اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لئے کوئی بات کہے، جنگ کے موقع پر جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے جھوٹ بولنا۔"(ترمذی، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب فی اصلاح ذات البین، حدیث نمبر1945)

فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"وہ شخص جھوٹا نہیں ہوتا، جو لوگوں کے درمیان صلح کروائے اور بھلائی کو پھیلائے اور بھلائی کی بات کرے۔"(بخاری شریف، حدیث2692)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اللہ سے ڈرو اور مخلوق میں صلح کرو اؤ،کیونکہ اللہ بھی بروزِ قیامت مسلمانوں میں صلح کروائے گا۔"(مستدرک حاکم، کتاب الاحوال، حدیث 8758)

لہذا مسلمانوں کی آپس میں صلح کروانا ثواب کا باعث ہے، اس سے لوگوں کے درمیان محبت بڑھتی ہے، کسی بزرگ کا قول ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر صلح کرنا سیکھو، جھکتا وہی ہے جس میں جان ہوتی ہے، اکڑنا تو مردے کی پہچان ہوتی ہے، ہمیشہ مسلمانوں میں صلح کروا کر اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

ہاں! اگر یہ بغض و کینہ اور عداوت و دشمنی کسی بد مذہب سے ہو تو اس سے صلح نہ کی جائے، کیونکہ بد مذہب سے دور رہنے کا حکم ہے اور ان سے کینہ واجب ہے۔

صراط الجنان جلد 9، پارہ 26 میں ہے کہ ایسے میاں بیوی جن میں تین طلاق ہو جائیں، وہ ایک دوسرے پر حرام ہیں، ان میں صلح کروانا درست نہیں، بلکہ یہ حرام کو حلال کرنا ہے تو یہ ہرگز جائز نہیں۔

مشہور کہاوت ہے:"کہ سوئی بن، جو دو کو ایک کردے ،قینچی نہ بن، جو ایک کو دو کر دے۔"

اللہ کریم ہمیں شیطان کے وسوسوں سے محفوظ فرمائے اور ہمیں لوگوں میں بگاڑ کا باعث نہ بنائے، بلکہ لوگوں میں محبتوں کے روابط قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا ربّ العالمین


صلح کروانا افضل عبادت ہے، اگر کوئی بھی مسلمان کسی معاملے میں دوسرے مسلمان سے لڑ پڑے یا ناراض ہو جائے تو دیگر مسلمانوں کو ان میں صلح کروانے کا حکم دیتا ہے، تاکہ مسلمان متحد ہو کر رہیں اور متفرق نہ ہوں، صلح کروانا مسلمانوں کی باہمی محبت اور الفت کا سبب ہے، مسلمانوں میں صلح کروانے والوں کے لئے قرآن و حدیث میں جابجا فضائل بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ترجمہ:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو۔"(پ26، حجرات:9)

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا١ۚ ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔"(پارہ 26، سورہ حجرات، آیت نمبر 10)

شانِ نزول:

اس آیت کریمہ کا شان نزول بیان کرتے صدر الفاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علی رحمۃ اللہ علیہ نے خزائن العرفان میں فرماتے ہیں:"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دراز گوش پر تشریف لے جا رہے تھے، انصار کی مجلس پر گزرے، جہاں تھوڑا سا توقف فرمایا،اس جگہ درازگوش نے پیشاب کیا تو ابن ابئی نے اپنی ناک بند کر لی،حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، ان دونوں میں بات بڑھ گئی، اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑ گئیں اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچی،آقا صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے،ان میں صلح کرا دی، اس معاملہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔

احادیث مبارکہ میں صلح کروانے کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں، چنانچہ حضرت سیدنا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ ذیشان صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مغفرت نشان ہے:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا، اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست فرمائے گا اور ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔"(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب وغیرہا، الترغیب فی الاصلاح بین الناس، جلد 3/321، حدیث9، دار الکتب العلمیہ بیروت)

ایک اور حدیث مبارکہ میں تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ فضیلت نشان ہے:"کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے،ارشاد فرمایا:وہ عمل جو آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دیتا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، جلد 4/325، حدیث4919، دار احیاء التراث العربی بیروت)

اللہ عزوجل ہمیں نرمی اپنا نے، ایک دوسرے کو منانے اور لڑائی جھگڑے سے خود کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اسلام امن و سلامتی والا عالمگیر مذہب ہے، یہ مسلمانوں کے آپس کے لڑائی جھگڑوں، ناراضگیوں، منافرت و قطع تعلقی سے بچنے اور اتفاق و اتحاد و امن و سلامتی کے ساتھ مل جل کر رہنے کا درس دیتا ہے ہے اور اگر کبھی کوئی مسلمان کسی معاملے میں دوسرے مسلمان سے لڑ پڑے، ناراض ہوجائے تو دیگر مسلمانوں کو ان میں صلح کروانے کا حکم دیتا ہے، تاکہ مسلمان متحد ہو کر رہیں، متفرق نہ ہوں، مسلمانوں میں صلح کروانے والوں کے لئے قرآن و حدیث میں جا بجا فضائل بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ترجمہ کنز الایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو۔"(پ26، حجرات:10)

چنانچہ حضرت ام کلثوم، بنتِ عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"وہ شخص جھوٹا نہیں، جو لوگوں کے درمیان صلح کروائے کہ اچھی بات پہنچاتا یا اچھی بات کہتا ہے۔"(بخاری، کتاب الصلح،2/210، حدیث نمبر 2692)

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں، جو درجے میں روزے، نماز اور زکوة سے بھی افضل ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں، فرمایا:آپس میں صلح کروا دینا۔"(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین 4/245،ح 4919)

ایک روز سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، چہرہ مبارک پر تبسم نمودار ہوا، جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس لئے تبسم فرمایا؟ارشاد فرمایا: میرے دو امتی اللہ کریم کی بارگاہ میں دو زانو ہو کر گر پڑیں گے، ایک عرض کرے گا، یا اللہ اس سے میرا انصاف دلا، کہ اس نے مجھ پر ظلم کیا تھا، اللہ کریم مدّعی(یعنی دعویٰ کرنے والے) سے فرمائے گا، تم اپنے بھائی کے ساتھ کیا کرو گے، اس کے پاس تو کوئی نیکی باقی نہیں، مظلوم عرض کرے گا:میرے گناہ اس کے ذمے ڈال دے، اتنا ارشاد فرماکر سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم روپڑے، فرمایا:وہ دن بہت عظیم دن ہوگا، کیونکہ اس وقت ہر ایک اس بات کا ضرورت مند ہو گا کہ اس کے گناہوں کا بوجھ ہلکا ہو، اللہ پاک مظلوم سے فرمائے گا، دیکھ تیرے سامنے کیا ہے؟ وہ عرض کرے گا، اے پروردگار! میں اپنے سامنے سونے کے بڑے بڑے شہر اور بڑے بڑے محلات دیکھ رہا ہوں، جو موتیوں سے آراستہ ہیں، یہ شہر اور عمدہ محلات کس پیغمبر یا صدیق یا شہید کے لئے ہیں؟ اللہ کریم فرمائے گا: یہ اس کے لئے ہیں، جو ان کی قیمت ادا کرے، بندہ عرض کرے گا:ان کی قیمت کون ادا کرسکتا ہے؟اللہ کریم فرمائے گا: تو ادا کرسکتا ہے، عرض کرے گا:کس طرح؟ اللہ کریم فرمائے گا:اس طرح کہ تو انے بھائی کے حقوق معاف فرما دے، بندہ عرض کرے گا:یا اللہ میں نے سب حقوق معاف کئے، اللہ پاک فرمائے گا، اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑو اور جنت میں چلے جاؤ۔ پھر سرکارِ نامدار اللہ نے فرمایا:"اللہ سے ڈرو اور مخلوق میں صلح کرواؤ، کیونکہ اللہ نے بھی بروزِ قیامت مسلمانوں میں صلح کروائے گا۔"(مستدرک للحاکم،5/795، حدیث8758)

ایک اور جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"کیا میں تمہیں ایسے عمل کے بارے میں نہ بتاؤں، جسے اللہ اور اس کا رسول پسند کرتے ہیں؟ وہ یہ ہے کہ جب لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہو کر روٹھ جائیں تو ان میں صلح کروا دو۔"(الترغیب والتر ہیب، 3/321، حدیث8)

لہذا ہمیں بھی چاہیئے ان فضائل کو حاصل کرنے کے لئے روٹھنے والے مسلمانوں میں صلح کروا دیا کریں، پہلے ربّ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کیجئے، پھر فریقین کو الگ الگ بٹھا کر ان کی سنیں، پھر نرمی سے صلح کے فضائل بیان کریں اور آپس کے اختلافات کے نقصانات بیان کریں، پھر آمنے سامنے بٹھا کر صلح کروادیں، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ صلح کروانا بے شک افضل ترین عبادت ہے، لیکن صلح کرواتے وقت یہ ذہن میں رہے کہ مسلمانوں میں صرف وہی صلح کروانا جائز ہے، جس میں شرعی طور پر قباحت(برائی) نہ ہو، چنانچہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح (جائز نہیں)، جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔"(ابوداؤد 3/425، ح3594)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں:"زوجین میں اس طرح صلح کرائی جائے کہ خاوند اس عورت کی سوکن(اپنی دوسری بیوی) کے پاس نہ جائے گا یا مسلمان مقروض اس قدر شراب وسود اپنے کافر قرض خواہ کو دے گا، پہلی صورت میں حلال کو حرام کیا گیا اور دوسری صورت میں حرام کو حلال، اس قسم کی صلحیں حرام ہیں، جن کا توڑ دینا واجب ہے۔(مراۃالمناجیح،4/303)

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان صلح کروانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تو برائے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی

یعنی تو جوڑ(محبت) پیدا کرنے کے لئے آیا ہے، توڑ(نفرت)پیدا کرنے کے لئے نہیں آیا۔


صلح ایک اہم موضوع ہے، صلح کروانا جسے ہم اردو میں مصالحت اور مفاہمت بھی کہتے ہیں، جو کہ ایک عظیم ثواب رکھتا ہے، اس کی بے پناہ فضیلتیں ہیں، نیز قرآن مجید میں 180 بار لفظ اصلاح آیا ہے، صلح کرانا ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت ہے اور ربّ تبارک و تعالی نے قرآن مجید میں بھی صلح کروانے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔

قرآن مجید کی روشنی میں صلح کی فضیلتیں:

پارہ 26، سورہ حجرات، آیت نمبر9 میں خدائے رحمٰن عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:

وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا١ۚ ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔"

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمانِ عالیشان ہے:

وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ١ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ١ؕ ترجمہ کنزالایمان:"اور صلح خوب ہے اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں۔"

احادیث مبارکہ کی روشنی میں:

احادیث مبارکہ میں صلح کروانے کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں، چنانچہ پیارے آقا، مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:"کہ سب سے افضل صدقہ آپس میں صلح کروانا ہے۔"

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا، اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست فرمائے گا اور ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔"

ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:"کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے،ارشاد فرمایا:وہ عمل جو آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔"

نوٹ: ان آیات و روایات سے صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات معلوم ہوئے، لہٰذا جب کبھی مسلمانوں میں ناراضگی ہو جائے تو ان کے درمیان صلح کروا کر یہ فضائل حاصل کرنے چاہئیں، جیسا کہ خدائے رحمٰن کا فرمانِ عالیشان ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔"

صلح کروانے والوں کا قیامت کے دن مقام:

پیاری بہنوں!صلح کروانے والوں کو قیامت کے دن کثرت سے نفلی عبادات، نمازوں، روزوں میں مشغول رہنے والوں اور صدقہ و خیرات میں لاکھوں، کروڑوں، اربوں خرچ کرنے والے سے بھی زیادہ بلند و بالا مقام پر فائز کیا جائے گا، یہ مقام ان کو ملتا ہے، جو دو ناراض لوگوں میں صلح کرانے کو اپنی زندگی کا مشن بنا لے۔

اپنے معاشرے میں، اپنے خاندان میں، اپنے رشتہ داروں میں ایسے لوگوں کو تلاش کریں، جو ایک دوسرے سے دور ہو چکے ہیں اور عین ممکن ہے کہ اپنے مخالفین سے صلح کرنا بھی چاہتے ہیں، بلکہ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ دونوں کے دلوں میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی مخلص و سنجیدہ، معاملہ فہم ہمارے درمیان فیصلہ کرا دے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک پارٹی ایسی ہوتی ہے، جو سمجھتی ہے کہ دوسرا ہم سے صلح کرنا ہی نہیں چاہتا، بلکہ یہ ان کی غلط فہمی ہوتی ہے، پس ایک تیسرے بندے کی ضرورت ہوتی ہے، جو اپنی گفتگو کے دوران ان باتوں سے اندازہ لگا لے اور تھوڑی سی کوشش سے غلطیوں کا ازالہ کرائے، فریقین کو مثبت باتیں بتانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

جیسا کہ فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"وہ آدمی جھوٹا نہیں ہے، جو باہمی لڑنے والوں کے درمیان صلح کرانے کی کوشش کرے اور اس سلسلے میں خیر و بھلائی کی باتیں کریں۔"

نوٹ:دو مخالفین میں صلح کرانے کے لئے اگر کوئی جھوٹ بولے تو وہ بھی معاف ہے۔

پس اسلامی بہنوں! ایک ایسے مخلص شخص کی ضرورت ہوتی ہے، پس آپ اپنے معاشرے میں وہ تیسرا فریق بن جائیں، پس ایسے لوگوں کو تلاش کریں، لوگ منتظر ہیں وہ ضرورت مند ہیں، جیسے ایک غریب کو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، بھوکے کو کھانے کی ضرورت ہوتی ہے، ایسے ہی مخالفین کو صلح کرانے والے کی ضرورت ہوتی ہے۔

جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق:"سب سے بڑا صدقہ ان ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنا ہے۔"

دیکھئے! اگر آپ غریب ہیں آپ چاہتے ہیں کہ آپ بھی صدقہ دینے والوں میں شمار ہو جائیں تو آج یہ ارادہ کریں، بلکہ اپنی ذات کو صلح کرانے والی تحریک بنا لیں، بلکہ رضائے الہی عزوجل کے لئے اپنی زندگی کا مشن(مقصد) بنا لیں۔

میرا ہر عمل بس تیرے واسطے ہو

کر اخلاص ایسا عطا یا الہی


اسلام امن و سلامتی والا عالمگیر مذہب ہے، یہ مسلمانوں کے آپس کے لڑائی جھگڑوں، ناراضگیوں، منافرت و قطع تعلقی سے بچنے اور اتفاق و اتحاد و امن و سلامتی کے ساتھ مل جل کر رہنے کا درس دیتا ہے ہے اور اگر کبھی کوئی مسلمان کسی معاملے میں دوسرے مسلمان سے لڑ پڑے، ناراض ہوجائے تو دیگر مسلمانوں کو ان میں صلح کروانے کا حکم دیتا ہے، تاکہ مسلمان متحد ہو کر رہیں، متفرق نہ ہوں۔

قرانی آیات کی روشنی میں صلح کا حکم:

مسلمانوں میں صلح کروانے والوں کے لئے قرآن مجید میں جابجا فضائل بیان کئے گئے ہیں، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو۔"

پارہ 13، سورۃ الرعد، آیت نمبر 21 میں اللہ عزوجل کا فرمان ہے:

وَ الَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَاۤ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖۤ اَنْ يُّوْصَلَ ترجمہ کنزالایمان:"اور وہ کہ جوڑتے ہیں اسے، جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا۔"

احادیث کریمہ میں صلح کے فضائل:

احادیث کریمہ میں صلح کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"کیا میں تمہیں ایسے عمل کے بارے میں نہ بتاؤں، جسے اللہ اور اس کے رسول پسند کرتے ہیں؟ وہ یہ ہے جب لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہو کر روٹھ جائیں تو ان میں صلح کروا دو۔"

ایک اور روایت میں ہے:"صلح کروانے کو درجے کے اعتبار سے روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل قرار دیا گیا ہے۔"(ہاتھوں ہاتھ پُھوپھی سے صُلح کرلی)

اللہ عزوجل بھی بروزِ قیامت مسلمانوں میں صلح کروائے گا:

ایک روز سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے، چہرہ مبارک پر تبسم نمودار ہوا، جناب عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس لئے تبسم فرمایا؟ارشاد فرمایا: میرے دو امتی اللہ کریم کی بارگاہ میں دو زانو ہو کر گر پڑیں گے، ایک عرض کرے گا، یا اللہ اس سے میرا انصاف دلا، کہ اس نے مجھ پر ظلم کیا تھا، اللہ کریم مدّعی(یعنی دعویٰ کرنے والے) سے فرمائے گا، تم اپنے بھائی کے ساتھ کیا کرو گے، اس کے پاس تو کوئی نیکی باقی نہیں، مظلوم عرض کرے گا:میرے گناہ اس کے ذمے ڈال دیں، اتنا ارشاد فرماکر سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم روپڑے، فرمایا:وہ دن بہت عظیم دن ہوگا، کیونکہ اس وقت ہر ایک اس بات کا ضرورت مند ہو گا کہ اس کے گناہوں کا بوجھ ہلکا ہو، اللہ پاک مظلوم سے فرمائے گا، دیکھ تیرے سامنے کیا ہے؟ وہ عرض کرے گا، اے پروردگار! میں اپنے سامنے سونے کے بڑے بڑے شہر اور بڑے بڑے محلات دیکھ رہا ہوں، جو موتیوں سے آراستہ ہیں، یہ شہر اور عمدہ محلات کس پیغمبر یا صدیق یا شہید کے لئے ہیں؟ اللہ کریم فرمائے گا: یہ اس کے لئے ہیں، جو ان کی قیمت ادا کرے، بندہ عرض کرے گا:ان کی قیمت کون ادا کرسکتا ہے؟اللہ کریم فرمائے گا: تو ادا کرسکتا ہے، عرض کرے گا:کس طرح؟ اللہ کریم فرمائے گا:اس طرح کہ تو انے بھائی کے حقوق معاف فرما دے، بندہ عرض کرے گا:یا اللہ میں نے سب حقوق معاف کئے، اللہ پاک فرمائے گا، اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑو اور جنت میں چلے جاؤ۔ پھر سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:"اللہ سے ڈرو اور مخلوق میں صلح کرواؤ، کیونکہ اللہ نے بھی بروزِ قیامت مسلمانوں میں صلح کروائے گا۔"

صلح کس طرح کروائیں؟

اے عاشقانِ رسول! ہمیں بھی چاہئے کہ ان فضائل کو حاصل کرنے کے لئے روٹھنے والے مسلمانوں میں صلح کروا دیا کریں،صلح کروانے سے پہلے ربّ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کریں، پھر لڑنے والوں کو الگ الگ بٹھا کر ان کی سنیں، پھر نرمی سے صلح کے فضائل بیان کریں اور آپسی جھگڑے اور اختلافات کے دینی و دنیوی نقصانات بیان کریں، پھر دونوں کو آمنے سامنے بٹھا کر آپس میں صلح کروادیں۔

کونسی صلح کروانا جائز نہیں؟

یاد رہے! کہ مسلمانوں میں وہی صلح کروانا جائز ہے، جو شریعت کے دائرے میں ہو، جبکہ ایسی صلح جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دے، وہ جائز نہیں ہے، جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح (جائز نہیں)، جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔"(ابوداؤد )

اللہ عزوجل ہمیں اتفاق و اتحاد کے ساتھ مل جل کر رہنے اور لڑائی جھگڑوں اور قطع تعلقی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


صلح کروانے کے فضائل: اسلام اخوت و بھائی چارہ کا درس دینے والا پیارا دین ہے، یہ اپنے ماننے والےمسلمان کو آپس میں میل جول رکھنے کا حکم دیتا ہے، امن و سلامتی کے ساتھ رہنے کا درس دیتا ہے، اسلام میں جہاں والدین کے حقوق کا بیان ہے تو وہی اولاد کے حقوق کا بیان ہے جہاں زوجین کے حقوق کا بیان ہے تو وہی رشتہ داروں کے حقوق کا بھی بیان ہے الغرض مسلمان آپس میں متفرق نہ ہوں اس لئے صلح کےفضائل اور قطع تعلقی کی وعیدیں بھی بیان کی گئی اگر تقضائے شریعت پھر بھی کوئی ایک دوسرے سے کسی بات پر جھگڑ پڑے تو دوسرے مسلمانوں کو ان کے مابین صلح کروانے کا درس عظیم دیا گیا چنانچہ اللہ پاک پارہ 26 سورہ حجرات آیت نمبر 09 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا١ۚ

اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ پھر اگر ایک دوسرے پر زیادتی کریں تو اس زیادتی والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے تو انصاف کے ساتھ ان میں اصلاح کر دو اور عدل کرو بے شک عدل والے اللہ کو پیارے ہیں۔ (صراط الجنان، ج 9، پ 26، سورۃ الحجرات، آیت 9)

لَا خَيْرَ فِيْ كَثِيْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ۔۔۔ الخ ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں مگر وہ جو حکم دے خیرات یا اچھی بات یا لوگوں میں صلح کرنے کا۔ (پ 5، س النساء، آیت 112)

تفسیر روح البیان میں ہے: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے جو لوگوں میں صلح کرنے کا حکم دے یعنی جب لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑا ہو تو شریعت کی حدود کا خیال رکھتے ہوئے ان کے درمیان صلح کروائے

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ۔۔۔الخ مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو۔ (پ 26، الحجرات، آیت 10)

احادیث مبارکہ:

تعدل بین الاثنین صدقۃ یعنی دو شخصوں کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرنا صدقہ ہے۔ (ریاض الصالحین ، حدیث نمبر 248)

کون سی صلح کروانا جائز نہیں؟

ایسی صلح جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دے وہ صلح جائز نہیں۔ یاد رکھیے جہاں عدل و انصاف یا دین کامعاملہ ہو وہاں رشتہ داری کا لحاظ نہ کرنے اور اس کے مقابلے میں دین کو ترجیح دینے کا حکم ہے۔ چنانچہ اللہ پاک کا فرمان عالیشان ہے: يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ الخ اللہ کے لیے گواہی دیتے ہوئے انصاف پر خوب قائم ہو جاؤ چاہے تمہارے اپنے یا والدین یارشتہ داروں کے خلاف ہی (گواہی) ہو۔(سورہ نساء، آیت نمبر 135)

قرآن کے چار حروف کی نسبت سے چار مدنی پھول:

1۔ اسلام میں دو لڑنے والوں کے درمیان صلح کروانے کا درس دیا گیا ہے۔

2۔ دو لڑنے والوں میں صلح کروانے کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر ان میں جھوٹ بول کر بھی صلح کروانی پڑے اور وہ صلح کریں تو اس کی اجازت ہے۔

3۔ کسی کو دھوکا دینے یا جھوٹ بولنے کی قطعا اجازت نہیں۔

احادیث مبارکہ:

حضرت ام کلثوم بنت عقبہ سے روایت ہےکہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جھوٹا نہیں جو لوگوں کے درمیان صلح کرائےکہ اچھی بات پہنچاتا ہے یا اچھی بات کہتا ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مسلمانوں میں صلح کروانے کی توفیق عطا فرمائے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے خصوصاجھوٹ بولنے اور اس کی تباہ کاریوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین


صلح کروانا ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے اور مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا کروا کر ان کی آپس میں پھوٹ ڈلوانا اور نفرتیں پھیلانا، یہ شیطان کے اہم اہداف میں سے ہے، بسا اوقات شیطان نیکی کی دعوت عام کرنے والوں کے درمیان پھوٹ ڈلوا کر بغض و حسد کی ایسی دیوار کھڑی کر دیتا ہے کہ جسے صلح کے ذریعے مسمار کرنا مشکل ہوتا ہے، صلح کروانے والے کو چاہئے کہ پہلے وہ اللہ عزوجل سے کامیابی کی دعا کرے، پھر ان دونوں کو الگ الگ بٹھا کر ان کی شکایات سنے اور اہم نکات لکھ لے۔

ایک فریق کی بات سن کر کبھی بھی فیصلہ نہ کرے، یہ بھی ممکن ہے جس کی بات سنی، وہ غلطی پر ہو، اس طرح دوسرے کی حق تلفی کا بھی قوی امکان ہے، فریقین کے بات سننے کے بعد ان کو صلح پر آمادہ کرے اور سمجھائے کہ ہمارے مکی مدنی آقا، دو عالم کے داتا صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایذاء دینے والوں، ستانے والوں، بلکہ اپنی جانی دشمنوں کو بھی معاف فرما دیا، فریقین کو صلح کے فضائل اور آپس کے اختلافات کے سبب پیدا ہونے والے لڑائی جھگڑے، بغض و حسد، گالی گلوچ، بے جا غصہ، کینہ وغیرہ کے دینی و دنیوی نقصانات بیان کئے جائیں، مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

تو برائے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی

یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کے لئے آیا ہے، توڑپیدا کرنے کے لئے نہیں آیا۔

اللہ پاک نے قرآن کریم میں صلح کروانے کا حکم بھی ارشاد فرمایا:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَؒ۱۰

ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحمت ہو۔"(پ26، حجرات:10)

تفسیر:

اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان اپنے مسلمان کا بھائی ہے اور صلح کروانے کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ صلح کروانے والے پر اللہ عزوجل کی رحمت برستی ہے اور یہ نیک صالح عمل ہے۔

فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَيْنِكُمْ١۪ وَ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗۤ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ۱ترجمہ کنزالایمان:"تو اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس میں (صلح و صفائی) رکھو اور اللہ اور رسول کا حکم مانو، اگر ایمان رکھتے ہو۔"(پارہ 9، سورہ انفال، آیت1)

تفسیر:

اس آیت مبارکہ کے شانِ نزول سے روایات بیان کی گئی ہیں، جن میں ایک یہ ہے، حضرت ابو امامہ باہلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے آیتِ انفال کے بارے میں پوچھا:تو آپ نے فرمایا"اس آیت مبارکہ میں بیان کیا گیا ہے کہ جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتا ہے، اس کو چاہئے کہ اللہ سے ڈرے اور اپنے مسلمان بھائیوں کے درمیان صلح کروائے، تا کہ اس کے فضائل و برکات پاسکے۔

حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، شہنشاہِ خوش خصال، پیکرِ حسن و جمال، دافعِ رنج وملال، صاحبِ جودونوال، رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کہ سب سے افضل صدقہ روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کروا دینا ہے۔"(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب، باب اصلاح بین الناس، رقم ، جلد 3/321)

شرح:

حدیث مبارکہ میں وضاحت سے بیان ہوا ہے کہ صدقہ کرنا افضل ہے، بہت سے ایسے کام ہیں جن سے صدقہ کیا جا سکتا ہے، جن میں بہترین صدقہ صلح کروانا ہے۔

2۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ ذیشان صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مغفرت نشان ہے:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا، اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست فرمائے گا اور ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔"(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب، باب اصلاح بین الناس، جلد 3/321، رقم9)

شرح:

اس سے صاف ظاہر ہے کہ صلح کروانے والے کے تو وارے ہی نیارے ہیں کہ صلح کروانے میں جو کوشش کر رہا ہے مسلمان بھائیوں کو ملانے کی، صرف اللہ کی رضا کے لئے ہر کلمہ کے بدلے غلام آزاد کرنے کا ثواب اور صلح کرواتے ہی اس کی مغفرت ہو جاتی ہے۔

3۔حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ فضیلت نشان ہے:"کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے،ارشاد فرمایا:وہ عمل جو آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دیتا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔(سنن ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، جلد 4/325، رقم4919)

شرح:

سب سے بہتر عمل صلح کروانا ہے کہ روٹھنے والے نہ صرف آپس میں ناراض ہوتے ہیں، بلکہ ان کے درمیان دلوں میں اور بھی غلط خیالات جیسے بغض، حسد، کینہ جنم لیتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے، وہ جائز نہیں۔"(ابوداؤد 3/425، ح3594)

ان آیات و روایات سے صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات معلوم ہوئے، لہٰذا جب کبھی مسلمانوں میں ناراضگی ہو جائے، ان کے درمیان صلح کروا کر یہ فضائل و برکات حاصل کرنے چاہئے، بعض دفعہ شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ انہوں نے صلح پر آمادہ نہیں ہونا، سمجھانا بیکار ہے۔

یاد رکھئے! مسلمان کو سمجھانا بیکار نہیں، بلکہ مفید ہے، جیسا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔"(پارہ 27، الذٰریٰت:55)

اللہ عزوجل ہمیں نرمی اپنا نے، ایک دوسرے کو منانے اور لڑائی جھگڑے سے خود کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


صلح کروانا ہمارے آقا ومولا، سیّد المرسلین، خاتم النبیین، رحمۃ اللعالمین، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے، اس لئے جو اپنے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا امتی، سچا عاشقِ رسول ہوگا، وہ صلح کروانے والا ہوگا، اسی طرح جو لڑائی کروانے والا ہوگا، وہ شیطان کا دوست ہوگا، کیونکہ لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑا کروانا، فتنہ فساد برپا کروانا شیطان کا کام ہے اور جو جس سے محبت کرتا ہو، وہ ان کے بتائے ہوئے ہی کام کرتا ہے۔

اس لئے ہمیں اپنے پیارے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اپنانا چاہئے اور اس کو زندہ بھی رکھنا چاہئے، اس لئے جب کبھی موقع ملے تو ضرور کوشش کرکے دو اسلامی بہنوں یا دو خاندانوں میں صلح کروا دیں، آج کل اس فتنے بھرے دور میں یہ شیطانی کام نہ صرف گھروں میں ہوتا ہے، یعنی یہ لڑائی جھگڑا کروانا نہ صرف گھروں تک محدود رہا ہے، بلکہ یہ بُرا عمل دین کا کام کرنے والوں میں بھی لڑائی کروانے کا باعث بنتا ہے، کیونکہ شیطان کبھی بھی یہ نہیں چاہتا کہ دین کا کام سر بلند ہو اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی کبھی بھی ایک جھنڈے کے نیچے نہ جمع ہوں۔ اس لئے ان علماء کرام کو چاہئے کہ جن میں اختلافات ہیں، وہ اپنے اختلافات کو ختم کر کے ایک دوسرے سے مل بیٹھ کر لڑائی جھگڑے اور شیطان کے وار سے خود کو اور دین کو حاسدوں کے حسد اور شریروں کے شر سے بچائے اور آپس میں صلح کر کے امن سے مل کر دین کا کام کریں، قرآن پاک میں صلح کروانے والوں کے درج ذیل فضائل بیان ہوئے ہیں، ارشادِ ربّانی ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"ان کے اکثر مشوروں میں کچھ بھلائی نہیں، مگر جو حکم دے خیرات یا اچھی بات یا لوگوں میں صلح کرنے کا اور جو اللہ کی رضامندی کو ایسا کرے، اسے عنقریب ہم بڑا ثواب دیں گے۔"(سورہ نساء، آیت 114)

تفسیر:

اس آیت مبارکہ میں اس گروہ کے لئے نصیحت ہے، جن کے مشورے فضولیات پر مشتمل ہوتے ہیں یا جو معاذاللہ گناہ کو پروان چڑھانے کے لئے مشورے کرتے ہیں، جیسے سینما بنانے، فلمی صنعت کی ترقی کے لئے مشورے کرتے ہیں، یہ مشورے صرف خیرسے خالی نہیں، بلکہ شر سے بھرپور ہیں، ان کے بجائے وہ لوگ جو آپس میں صلح کرواتے ہیں اور نیکی کی دعوت دیتے ہیں، ان کے لئے بڑا ثواب ہے۔

ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحمت ہو۔"(الحجرات:10)

تفسیر:

اس آیت مبارکہ میں صلح کروانے کی فضیلت بتائی گئی ہے کہ اس انسان پر اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرماتا ہے، یہ بھی بتایا گیا کہ متقی لوگ وہ ہوتے ہیں، جو لوگوں کے درمیان صُلح کراتے ہیں، کیونکہ انہیں اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے، اس لئے وہ لوگوں میں صلح کرواتے ہیں۔

صلح کروانے والوں کے بارے میں حدیث مبارکہ میں بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں۔

1۔ایک روایت میں حضرت سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا:"کہ کیا میں تمہیں ایسے صدقہ کے بارے میں نہ بتاؤں، جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پسند کرتے ہیں، جب لوگ ایک دوسرے سے ناراض ہو کر روٹھ جائیں تو ان میں صلح کرا دیا کرو ۔"(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب، رقم 7،8،9، جلد 3/321)

شرح:

اس حدیث مبارکہ میں واضح طور پر بتایا گیا کہ سب سے بہترین صدقہ دو ناراض، روٹھے لوگوں میں صلح کروانا ہے۔

2۔حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدارِ رسالت، محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک کی تجارت کے بارے میں نہ بتاؤں؟ انہوں نے عرض کیا، ضرور بتائیے؟ ارشاد فرمایا:جب لوگ جھگڑا کریں تو ان کے درمیان صلح کروا دیا کرو، جب وہ ایک دوسرے سے دوری اختیار کریں تو انہیں قریب کر دیا کرو۔"

شرح:

اس میں بتایا گیا کہ لوگوں کے درمیان صلح کروانا افضل عمل ہے اور دو لوگوں کو محبت، اخوت و بھائی چارے سے رہنے کا درس دینا چاہئے، تاکہ وہ ایک دوسرے سے قریب رہ سکیں۔(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب ، باب الاصلاح بین الناس،رقم 7،8،9، جلد 3/321)

3۔حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"سب سے افضل صدقہ روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کرا دینا ہے۔"

شرح:

اس حدیث مبارکہ میں واضح طور پر بہترین یعنی افضل صدقہ کے بارے میں بتایا گیا کہ دو ناراض، روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کروانا ہے، اس لئے ہمیں چاہئے کہ صلح کروانے کی اس سنت کو زندہ کریں اور اس پر عمل پیرا ہوں۔(الترغیب والتر ہیب، کتاب الادب ، باب الاصلاح بین الناس،رقم 6، جلد 3/321)

محترم قا رئین!ابھی آپ نے صلح کروانے کے فضائل پڑھے، لیکن یاد رکھئے! صلح کروانا وہی افضل اور درست ہے، جو حلال ہو، فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے، وہ جائز نہیں۔"(ابوداؤد 3/425، ح3594)

سنا آپ نے!صلح کروانا وہی جائز ہے، جو حلال ہو، اس لئے ہمیں بھی روٹھے ہوئے، ناراض لوگوں میں صلح کروانی چاہئے اور اس معاشرے سے فتنہ فساد، لڑائی جھگڑوں کو ختم کیا جائے، تاکہ یہ معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکے اور ایک دوسرے سے مل کر دین کا کام کرنے کا ذہن بنا سکیں، تاکہ دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پرچم کو سربلند کر سکیں اور دین کو تخت پر مل کر لا سکیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں امن و سکون، محبت، اخوت و بھائی چارے سے مل کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور صلح کروا کر اس کے فضائل و برکات حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


صلح کروانا ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی پیاری پیاری سنت مبارکہ ہے اور بہت سی آیات مبارکہ، احادیث اور روایات میں بھی صلح کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات بیان ہوئے ہیں، لہذا ہمیں چاہئے کہ جب بھی کوئی مسلمان آپس میں ناراض ہوں، تو ان میں صلح کروا کر ان فضائل و برکات سے حصہ پائیں، جیسا کہ ربّ تعالیٰ صلح کروانے کے متعلق قرآن کریم میں ارشاد فرماتاہے کہ:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَؒ۱۰

ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔"( پ 26 ، سورہ الحجرات:10)

ایک اور جگہ ارشادِ ربّ الانام ہے کہ:

وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ١ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ١ؕ ترجمہ کنزالایمان:"اور صلح خوب ہے اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں ۔"(پارہ 5، سورہ نساء:128)

اس طرح بہت سی احادیث میں بھی صلح کروانے کے فضائل ملتے ہیں، نیز صلح کروانا، اللہ پاک کی رضا حاصل کرنےکا ذریعہ ہے اور صلح کروانے سے فرشتوں کو مسرت (یعنی خوشی) ہوتی ہے اور اس سے شیطان کو رنج پہنچتا ہے، نیز صلح کروانے سے آپس میں محبتیں بڑھتی ہیں۔

مولانا روم رحمتہ علیہ القیوم فرماتے ہیں۔

تو برائے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی (صلح کروانے کے فضائل: 9)

"یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کے لئے آیا ہے ، توڑ پیدا کرنے کے لئے نہیں آیا۔"

شیخ الحدیث و التفسیر مفتی محمد قاسم عطاری نے تفسیر صراط الجنان میں صلح کروانے کے متعلق درج ذیل احادیث نقل فرمائی ہیں۔

حضرت ام کلثوم، بنتِ عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"وہ شخص جھوٹا نہیں، جو لوگوں کے درمیان صلح کروائے کہ اچھی بات پہنچاتا یا اچھی بات کہتا ہے۔"

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں، جو درجے میں روزے، نماز اور زکوة سے بھی افضل ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں، فرمایا:آپس میں صلح کروا دینا۔"( تفسیر صراط الجنان، ج9)

اللّہ کریم ہمیں ان فضائل سے حصّہ پانے کی توفیق عطا فرمائے۔اللہم آمین

البتہ یاد رہے کہ مسلمانوں میں وہی صلح کرانا جائز ہے، جو شریعت کے دائرے میں ہو، جبکہ ایسی صلح جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دے وہ جائز نہیں، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے، چنانچہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ہے، مگر وہ صلح (جائز نہیں)، جو حرام کو حلال کر دے یا حلال کو حرام کر دے۔"( صراط الجنان، ج 9)

اللہ کریم ہمیں عمل کرتے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اللہم آمین یارب العالمین


تمہید :

صلح کروانا نبی پاک صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سنت ہے، صلح کے معنی دو لوگوں میں قطع تعلق کے بعد ان کا آپس میں تعلق جوڑنا، صلح کروانے سے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے، صلہ رحمی کرنے سے رزق میں برکت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتا ہے۔

ترجمہ:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کراؤ ۔"( قرآن پاک پارہ 26، سورہ الحجرات،آیت نمبر9)

تاجدارِ رسالت، شہنشاہ نبوت صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا فرمانِ فضلیت نشان ہے :"کیا میں تمہیں روزہ ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟صحابہ اکرام نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ضرور بتائیں، وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے ۔"( صلح کروانے کے فضائل ، ص 4)

حضرت سیّدنا ابو ہریرہ ایک مرتبہ سرکار مدینہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ بیان فرما رہے تھے، اس دوران فرمایا : "ہر قاطع رحم ہماری محفل سے اٹھ جائے۔" ایک نوجوان اٹھ کر اپنی پھوپھی کے ہاں گیا، جس سے اس کا کئی سال پرانا جھگڑا تھا،جب دونوں ایک دوسرے سے راضی ہو گئے تو اس نوجوان سے پھوپھی نے کہا:" تم جا کر اس کا سبب پوچھو ،آخر ایسا کیوں ہوا ۔" نوجوان نے حاضر ہو کر جب پوچھا تو حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کہ میں نے حضور انور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے:"جس قوم میں قاطعِ رحم(یعنی رشتے داری توڑنے والا) ہو، اس قوم پر اللہ کی رحمت نازل نہیں ہوتی۔"(ہاتھوں ہاتھ پھوپھی سے صلح کرلی ، ص 2 ، الزواجر عن اقتراف لکبائر،ح 2،ص 103)

"اور اگر تم کو میاں بی بی کے جھگڑے کا خوف ہو تو ایک نیچ مرد والوں کی طرف سے بھیجو اور ایک نیچ عورت والوں کی طرف سے، یہ دونوں اگر صلح کرانا چائیں گے تو اللہ ان میں میل جل کر دے گا، بے شک اللہ جاننے والا خبردار ہے۔“( صراطِ الجنان، پ5، سورہ نساء، آیت 35)

اللہ پاک قرآن پاک میں صلح کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو ۔"( پ 26 ، سورۃ الحجرات، آیت 10)


صلح کے فضائل از بنت نیاز

Sat, 10 Sep , 2022
2 years ago

مسلمانوں کے درمیان لڑائی جھگڑا کروا کر ان کی آپس میں پھوٹ ڈلوانا اور نفرتیں بڑھانا شیطان کے پسندیدہ کاموں میں سے ہے، جبکہ ان میں لڑائی جھگڑا ختم کروا کر ان کے بیچ صلح کروانا ہمارے پیارے آقا مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری سنت ہے، بلکہ خود ربّ کریم کا حکم اور باعثِ نزولِ رحمت ہے، رحمٰن عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو، تاکہ تم پر رحمت ہو۔"

شریعت مطہرہ کو مسلمانوں کا آپس میں محبت و اتفاق سے رہنا کس قدر محبوب ہے کہ ان میں صلح کروانے کے لئے جھوٹ تک بولنے کی اجازت مرحمت فرمائی گئی ہے، چنانچہ حضور آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"تین باتوں کے سوا جھوٹ بولنا جائز نہیں، خاوند اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لئے کوئی بات کہے، جنگ کے موقع پر جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لئے جھوٹ بولنا۔"(بہار شریعت، جلد3، صفحہ 517، حصہ 16، مکتبہ المدینہ)

صلح کے فضائل:

اللہ کی رضا کے طالبوں، محبوب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دم بھرنے والوں اور نیکی کا جذبہ رکھنے والوں کو مسلمانوں کے درمیان صلح کروانے کے فضائل و برکات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ان کو سمجھا کر، صلح صفائی کروانی چاہئے اور ان کو فائدہ پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپنے لئے بھی آخرت میں راحت کا سامان کرنا چاہئے، ربّ عزوجل فرماتا ہے۔

وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۵۵

ترجمہ کنزالایمان:"اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔"(پارہ 27، الذٰریٰت:55) اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا:

ترجمہ کنزالعرفان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔"(پارہ 26، سورہ حجرات، آیت 9)

مزید ارشاد فرمایا: وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ١ؕ

ترجمہ کنزالایمان:"اور صلح خوب ہے۔"(پارہ 5، سورہ نساء، آیت نمبر 128)


تمہید:

صلح کروانا ہمارے پیارے آقا مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

صلح کے فضائل و برکات سے متعلق آیات مبارکہ:

قرآن کریم میں صلح کروانے کا حکم ارشاد ہوا، چنانچہ پارہ 26 سورہ حجرات کی آیت نمبر 9 میں خدائے رحمٰن عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:

وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا١ۚ ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔"

تفسیر و شرح:

اس آیت کریمہ کا شان نزول بیان کرتے صدر الفاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علی رحمۃ اللہ علیہ نے خزائن العرفان میں فرماتے ہیں:"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دراز گوش پر تشریف لے جا رہے تھے، انصار کی مجلس پر گزرے، جہاں تھوڑا سا توقف فرمایا،اس جگی درازگوش نے پیشاب کیا تو ابن ابی نے اپنی ناک بند کر لی،حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، ان دونوں میں بات بڑھ گئی، اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑ گئیں اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچی،آقا صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے،ان میں صلح کرا دی، اس معاملے میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ عزوجل کا فرمان عالیشان ہے:

وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ١ؕ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ١ؕ ترجمہ کنزالایمان:"اور صلح خوب ہے اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں۔"(پ5، النساء:128)

صلح کے فضائل و برکات سے متعلق حدیث مبارکہ:

احادیث مبارکہ میں صلح کروانے کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں، چنانچہ

1۔حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ ذیشان، رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا، اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست فرما دے گا اور اسےہر کلمہ بولنےپر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔"

2۔ایک اور احادیث پاک میں تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ فضیلت نشان ہے:" کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے،ارشاد فرمایا:وہ عمل جو آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دیتا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔

ان آیات و روایات سے صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات معلوم ہوئے، لہذا جب کبھی مسلمانوں میں ناراضگی ہو جائے تو ان کے درمیان صلح کروا کر یہ فضائل و برکات حاصل کرنے چاہئیں۔

کونسی صلح ناجائز ہے؟مسلمانوں کو آپس میں لڑانا اور ان میں فتنہ و فساد برپا کرنا شیطانی کام ہیں، جیسا کہ خدائے رحمٰن عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:

اِنَّ الشَّيْطٰنَ يَنْزَغُ بَيْنَهُمْ١ؕ ترجمہ کنزالایمان:"بے شک شیطان ان کے آپس میں فساد ڈال دیتا ہے۔"(پارہ 15، سورہ بنی اسرائیل:53)

لہذا اس شیطانی کام کو چھوڑ کر اللہ عزوجل کی رضا کے لئے مسلمانوں میں صلح کروا کر اتحاد و اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے، ہاں! اگر یہ بغض و کینہ اور عداوت و دشمنی کسی بد مذہب سے ہو تو اس سے صلح نہ کی جائے، کیونکہ بدمذہبوں سے دور رہنے کا ہی شریعت نے حکم دیا ہے اور ان سے کینہ بھی واجب ہے۔(بحوالہ صلح کروانے کے فضائل، صفحہ نمبر 2تا6، مکتبہ المدینہ العلمیہ، دعوت اسلامی)