
پنجاب پاکستان کے شہر
پتوکی کی مین مارکیٹ میں قائم ایک دکان میں
شعبہ کفن دفن دعوتِ اسلامی کے تحت 9 ستمبر
2022ء بروز جمعہ تدفین کورس ہوا جس میں مقامی تاجران سمیت دیگر اسلامی بھائیوں نے
شرکت کی۔
ڈسٹرکٹ ذمہ دار شعبہ کفن دفن محمد دانش تفسیر
عطاری نے دورانِ کورس اسلامی بھائیوں کی تربیت کرتے ہوئے تدفین کا طریقہ،تلقین اور
دعا سکھائی۔
اس کے علاوہ ذمہ دار
نے اسلامی بھائیوں کو دعوتِ اسلامی کی موبائل ایپلیکیشن Muslims Funeral کا تعارف پیش
کیا اور اسے ڈاؤن لوڈ کرنے کی ترغیب دلائی۔
بعدازاں ڈسٹرکٹ ذمہ دار
نے دعوت اسلامی کےشعبے مکتبۃالمدینہ سے
شائع ہونے والا رسالے ”تجہیز و تکفین کا طریقہ“ اور”میت کے غسل و کفن
کا طریقہ“ کا تعارف پیش کرتے ہوئے
انہیں پڑھنے کا ذہن دیا جس پر وہاں موجود تاجران نے خوشی کا اظہار کیا اور اپنے تاثرات پیش
کئے۔(رپورٹ:علی
ریاض عطاری تحصیل ذمہ دار سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

پنجاب پاکستان کے شہر
خانیوال میں دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام
ہونے والے امامت کورس کے طلبۂ کرام کے لئے 9 ستمبر 2022ء بروز جمعہ سیکھنے
سکھانے کا حلقہ لگایا گیا۔
اس حلقے میں شعبہ امامت
کورس کے نگران مولانا حافظ شفقت اللہ عطاری مدنی نے طلبۂ
کرام کی تربیت کرتے ہوئے انہیں امامت کورس کی اہمیت و افادیت بیان کی۔
نگرانِ شعبہ نے اپنے
روز مرہ کاموں کو منظم کرنے کے لئے شیڈول بنانے کا ذہن دیا جس پر طلبۂ کرام نے
اچھی اچھی نیتیں کیں۔(رپورٹ:محمد عابد عطاری مدنی معاون رکن شوری حاجی محمد عقیل عطاری
مدنی، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
شہر میانی سرگودھا میں
قائم جامع مسجد باواہ چنگی شاہ میں ہفتہ
وارسنتوں بھرا اجتماع

دنیا بھر کے عاشقانِ رسول
کی تربیت کرنے کے لئے دعوتِ اسلامی کے تحت ہر ہفتے سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد
کیا جاتا ہے جس میں مبلغِ دعوتِ اسلامی سنتوں
بھرا بیان کرتے ہیں۔
اسی سلسلے میں پچھلے دنوں
ضلع سرگودھا کے شہر میانی میں قائم جامع مسجد باواہ چنگی شاہ میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد کیا
گیا جس میں کثیر عاشقانِ رسول کی شرکت رہی۔
اجتماعِ پاک کی ابتداء
قراٰنِ پاک کی تلاوت سے ہوئی جبکہ مبلغِ دعوتِ اسلامی نے بارگاہِ رسالت ﷺ میں
نذرانۂ عقیدت پیش کیا۔
دعوتِ اسلامی کی مرکزی
مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی محمد عقیل عطاری مدنی نے ”ہم بدلتے کیوں نہیں“ کے
موضوع پر سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے اسلامی بھائیوں کی تربیت کی اور انہیں اسلامی
تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کا ذہن دیا۔(کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
4K چورنگی سرجانی ٹاؤن کراچی کے امدادی کیمپ میں رکنِ شوریٰ حاجی امین کی آمد

پچھلے دنوں سیلاب زدگان
اور پریشان حال مسلمانوں کے لئے دعوتِ اسلامی کے تحت 4K چورنگی سرجانی ٹاؤن کراچی میں لگے ہوئے امدادی کیمپ میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے
رکن حاجی محمد امین عطاری کی دیگر ذمہ داران کے ہمراہ آمد ہوئی۔
اس موقع پر رکنِ شوریٰ
نےامدادی کیمپ کے انتظامات اور عاشقانِ رسول کی جانب سے جمع ہونے والے سامان کا
جائزہ لیا نیز امدادی کیمپ میں موجود اسلامی بھائیوں کو مدنی پھولوں اور دعاؤں سے
نوازا۔ (کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی
کےتحت 3 دن کا مدنی قافلہ الوفا روڈ کنٹو نمنٹ ٹاؤن کوئٹہ کی جامع مسجد میاں
اسماعیل میں گیا جہاں شرکائے مدنی قافلہ نے مختلف دینی ایکٹیویٹیز
میں شرکت کی۔
اس دوران مقامی اسلامی
بھائیوں کے لئے سیکھنے سکھانے کا حلقہ لگایا گیا جس میں مبلغِ دعوتِ اسلامی نے
سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے میت کو غسل دینے، کفن کاٹنے اور پہنانے کا طریقہ سکھایا۔
اس موقع پر کنٹونمنٹ ٹاؤن
نگران نورالعینین عطاری اور بلوچستان یونیورسٹی
کے اسٹوڈنٹس سمیت تاجر حضرات موجود تھے۔(رپورٹ:امتیاز عطاری صوبائی ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث
الدین عطاری)

اسلام
ایک پرامن مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کو اتحاد و اتفاق کا درس دیتا اور باہمی
لڑائی جھگڑوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر دو مسلمانوں میں اختلاف
ہوجائے تو ان کے درمیان صلح کروانے کا حکم قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بکثرت
مقامات پر دیا گیا ہے اور اس کے بہت فضائل بھی بیان کیے گئے ہیں۔ارشادِ باری
تعالیٰ ہے: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ
فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْكُمْ (پارہ ٢٦ الحجرت ١٠)ترجمۂ کنز
العرفان: صرف مسلمان بھائی بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرادو۔
نیز
فرمایا: وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ١ؕ ترجمۂ
کنز العرفان: اور صلح بہتر ہے۔
اور
فرمایا: وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ
الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا١ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ
اِحْدٰىهُمَا عَلَى الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْٓءَ
اِلٰۤى اَمْرِ اللّٰهِ١ۚ فَاِنْ فَآءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ (پارہ
٢٦ الحجرت ٩)ترجمۂ کنز العرفان: اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑپڑیں تو تم
ان میں صلح کرادوپھر اگران میں سے ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس زیادتی کرنے والے
سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف پلٹ آئے پھر اگر وہ پلٹ آئے تو انصاف کے
ساتھ ان میں صلح کروادو۔
تفسیر
صراط الجنان میں ہے: ارشاد فرمایا گیا : ”اے ایمان والو! اگر مسلمانوں کے دو گروہ
آپس میں لڑپڑیں تو تم سمجھا کر ان میں صلح کرادو، پھر اگران میں سے ایک دوسرے پر
ظلم اور زیادتی کرے اور صلح کرنے سے انکار کر دے تو مظلوم کی حمایت میں اس زیادتی
کرنے والے سے لڑو یہاں تک کہ وہ اللہ پاک
کے حکم کی طرف پلٹ آئے، پھر اگر وہ اللہ پاک کے حکم کی طرف پلٹ آئے تو انصاف کے
ساتھ دونوں گروہوں میں صلح کروادو اور دونوں میں سے کسی پر زیادتی نہ کرو۔“
اللہ
پاک کے آخری نبی، مکی مدنی، محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صلح کے متعلق
ارشاد فرمایا:• ”سب سے افضل صدقہ روٹھے ہوئے لوگوں میں صلح کرادینا ہے۔“ (الترغیب
و الترہیب، کتاب الادب، الترغیب فی الاصلاح۔۔۔الخ، حدیث ٦، ج ٣، ص ٣٢١)
•
”کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے بھی افضل عمل نہ بتاؤں؟“ صحابہ ٔکرام علیہم
الرضوان نے عرض کی: ”یا رسولَ اللہ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ، ضرور بتائیے“ ارشاد فرمایا: ”وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح
کرادینا ہے کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد بھلائی کو ختم کردیتا ہے۔“ (بو
داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، ۴ / ۳۶۵، الحدیث: ۴۹۱۹)
•
”دو آدمیوں کے درمیان صلح کروانے والا جھوٹا نہیں بلکہ وہ تو اچھی بات کہنے والا
ہے۔“ (بخاری، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس، ۲ / ۲۱۰، الحدیث:
۲۶۹۲)
البتہ
یاد رہے کہ مسلمانوں میں وہی صلح کروانا جائز ہے جو شریعت کے دائرے میں ہو جبکہ
ایسی صلح جو حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر دے وہ ہرگز جائز نہیں، جیسا کہ حضور
صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ”مسلمانوں کے
درمیان صلح کروانا جائز ہے مگر وہ صلح (جائز نہیں) جو حرام کو حلال کر دے یا حلال
کو حرام کر دے۔“ (ابو داؤد، کتاب الاقضیۃ، باب فی الصلح، ۳ / ۴۲۵، الحدیث: ۳۵۹۴)
اللہ
پاک ہمیں شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے کی سعادت
نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

مسلمان بھائی بھائی ہیں انہیں آپس میں مَحَبّت اور اِتفاق سے رہنا چاہے مگر
شیطان کو یہ کیسے گوارا ہو سکتا ہے اس لیے وہ مَردود مسلمانوں کو آپس میں لڑواتا ہے۔مسلمانوں
میں اگر لڑائی ہو جائے تو صُلح کروانے کی کوشش کریں کہ صُلح کروانا ثواب ہے،آقا کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت ہے۔
اللہ کا فرمان ہے:ترجمہ:اور
اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صلح کرواؤ۔
ایک مرتبہ آقا کریم صلی الله علیہ وسلم درازگوش پر سُوار ہو کر تشریف
لے جا رہے تھے،اس دوران انصار کی مجلس کے پاس سے گزر ہوا تو وہاں تھوڑی دیر
ٹھہرے،اس جگہ درازگوش نے پیشاب کیا تو عبد اللہ بن اُبی نے ناک بند کرلی۔ یہ دیکھ کر حضرت
عبد اللہ بن رَواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دَراز گوش کا پیشاب تیرے مُشک
سے بہتر خوشبو رکھتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ
وسلم تو تشریف لے گئے لیکن ان دونوں میں بات بڑھ گئی اور ان دونوں کی قومیں آپس میں
لڑ پڑیں اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچ گئی،صورتِ حال معلوم ہونے پر آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے اور ان میں صلح
کروا دی۔(پارہ26,سورہ الحجرات،آیت 9 تفسیر صراط الجنان*)
صلح کی ترغیب میں ارشاد باری
ہے: ترجمہ:مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔
ارشاد فرمایا مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہی ہیں۔
کیونکہ یہ آپس میں دینی تعلق اور اسلامی محبّت کے ساتھ مَربوط ہیں
اور یہ رشتہ تمام دنیوی رشتوں سے مضبوط تر ہے،لہٰذا جب کبھی دو بھائیوں میں جھگڑا
واقع ہو تو ان میں صلح کرادو اور اللہ سے
ڈرو تاکہ تم پر رَحمت ہو کیونکہ اللہ سے
ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار کرنا ایمان والوں کی باہمی مَحبّت اور اُلفت کا سبب ہے
اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اس پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ (خازن،الحجرات،تحت الآیة:10,
168/4,مدارك الحجرات تحت الآیة:10, ص 1153:ملتقطا) (سورہ الحجرات،آیت 10،تفسیر
صراط الجنان)
پیاری بہنو! اَحادیث
مُبارَکہ میں صلح کے فضائل ملاحظہ فرمائیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو شخص لوگوں کے درمیان
صلح کرائے گا، اللہ اس کا معاملہ درست فرما دے گا اور اسے ہر کلمہ بولنے پر ایک
غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے
گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مَغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔ (الترغیب
والترھیب،کتاب الادب وغیرہ،الترغیب فی الاصلاح بین الناس،3 /321،حدیث:9 دارالکتب
العلمیہ بیروت)(صلح کروانے کے فضائل* ص4)
حدیث مُبارَک ہے:میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ
بتاؤں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کی
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے۔ارشاد فرمایا: وہ
عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا
فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔ (ابو داؤد،کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین،4/ 365,حدیث:4919
داراحیاء التراث العربی بیروت)(صلح کروانے کے فضائل ص4,5)
صلح کروانے والی بہنوں کو چاہیے کہ صلح کروانے سے پہلے اللہ پاک کی بارگاہ میں کامیابی کی دعا کریں۔کسی
ایک کی بات سن کر فیصلہ نہ کریں کہ اس طرح دوسرے کی حق تلفی ہو گی۔فریقین کو صلح کی
ترغیب دیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی مبارک زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانی دشمنوں کو بھی معاف
فرما دیا۔فریقین کو صلح کے فضائل اور آپس کے اختلافات کے سبب پیدا ہونے والے دینی
و دنیوی نقصانات بیان کریں۔ فریقین کو آمنے سامنے بٹھا کر ان کر درمیان صلح میں پہل
کرنے کا جذبہ پیدا کر کے انہیں ملوا دیں۔ خیال رہے،فریقین آپس میں بحث ومباحثہ نہ
کریں کہ اس سے صلح کروانا مشکل ہو جائے گا۔
دو مسلمانوں میں صلح کروانے کے لیے خلافِ واقعہ بات (یعنی جھوٹی بات)
بھی کہہ سکتے ہیں کہ شریعت مُطہرہ نے اجازت دی ہے۔آقاکریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: تین باتوں کے سوا
جھوٹ بولنا جائز نہیں، جن میں سے ایک لوگوں کے درمیان صلح کرانے کے لیے جھوٹ بولنا
ہے۔ (صلح کے فضائل ص10).
یادرکھیں کہ اگر یہ عداوت ودشمنی بدمذہب سےہو تو یہ صلح کرواناجائز
نہیں کہ شریعت مطہرہ نے ان سے دوررہنے کاحکم دیا ہے۔ اللہ پاک ہمیں مسلمانوں میں صلح کروانے اور لڑائی
جھگڑے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ
وسلم۔

صلح کروانے کی بہت اہمیت ہے اور اس کے فضائل و برکات بھی بہت ہیں۔
چنانچہ قرآنِ پاک میں اللہ پاک کا فرمان ہے: ترجمعہ کنزالایمان: اور اگر مسلمانوں
کے دو گروہ آپس میں لڑیں تو ان میں صُلح کراؤ۔ (پ26، الحجرات، 9) اسی طرح ایک اور مقام پر صلح کی ترغیب دلاتے
ہوئے ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالایمان: مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں
میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ (پ26، الحجرات، 10)
یونہی احادیثِ مبارکہ میں بھی صلح کروانے کے بے شمار فضائل بیان ہوئے
ہیں۔ چنانچہ
حضرتِ سیدنا انس رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ پیارے آقاﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا اللہ پاک اس کا معاملہ درست فرما دے
گا اور اسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے گا اور جب وہ
لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔ (الترغیب والترھیب،
کتاب الادب وغیرہ، الترغیب فی الاصلاح بین الناس، 321/3، حدیث: 9 دارالکتب العلمیة
بیروت) ایک اور حدیث پاک میں نبیِ کریمﷺ
کا فرمان فضیلت نشان ہے: کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟
صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ ضرور بتایے۔ ارشاد فرمایا: وہ
عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا
فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔ (ابوداود، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین، 365/4،
حدیث: 4919 دار احیاء التراث العربی بیروت)
ان آیات و روایات سے صلح
کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات معلوم ہوئے ہمیں بھی یہ فضائل و برکات حاصل
کرنے چاہئیں۔ جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے ناراض ہو جائے یا کسی کے درمیان
لڑائی جھگڑا ہو جائے تو ہمیں ان کے درمیان صلح کروا کر صلح کروانے کے فضائل و
برکات حاصل کرنے چاہئیں۔ ہمارا یہ حال ہے کہ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے
ناراض ہو جاتے ہیں اپنے مسلمان بھائیوں سے بات تک نہیں کرتے۔ اس میں ہمارا بہت بڑا
نقصان ہے یہ سب شیطان کے وار ہیں۔ مسلمانوں میں رنجشیں ڈال کر، مسلمانوں کا آپس میں
لڑائی جھگڑا کروا کر، نفرتیں پھیلا کر، انہیں ایک دوسرے سے دور کرنے سے شیطان بہت
خوش ہوتا ہے اور ہمیں شیطان کو نہیں بلکہ اللہ پاک کو خوش کرنا ہے اور اللہ کی رضا
کے لئے صلح کروانی چاہیے۔ صلح کروانے والے کو چاہیے کہ وہ صلح کروانے سے پہلے اللہ
پاک کی بارگاہ میں کامیابی کی دعا کرے پھر دونوں کو الگ الگ بٹھا کر ان کی شکایات
غور سے سنے اور دونوں کی مکمل بات سننے کے بعد انہیں صلح پر آمادہ کرے اور سمجھائے
کہ پیارے آقاﷺ نے تکلیف پہنچانے والوں، ستانے والوں بلکہ اپنے جانی دشمنوں کو بھی
معاف فرمایا ہے۔ ہمیں بھی ان کی پیروی کرتے ہوئے ایک دوسرے کے قصور معاف کر دینے
چاہئیں۔ انہیں سمجھایا جائے کہ اگر آپکو ان سے تکلیف پہنچی ہے تو انہیں بھی آپ سے
رنج پہنچا ہو گا۔ ہم اس دنیا میں ایک دوسرے کو دکھ تکلیف دینے کے لئے نہیں آئے
بلکہ ہم تو آپس میں اتفاق و محبت کے ذریعے جوڑ پیدا کرنے کے لئے آئے ہیں۔ جیسا کہ
مولانا روم علیہ رحمۃ اللہ
القیوم فرماتے ہیں: تُو برائے وَصل کَردن
آمدی نے برائے فَصل کَردن آمدی یعنی تُو
جوڑ پیدا کرنے کے لئے آیا ہے، توڑ پیدا کرنے کے لئے نہیں آیا۔ (مثنوی مولوی معنوی،
173/2 مرکز الاولیا لاہور)
یونہی صلح کروانے اور انہیں
ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے خلافِ واقع بات (یعنی جھوٹی بات) بھی کہہ سکتے ہیں
مثلاً ایک کے سامنے جا کر اس طرح کہنا کہ وہ تمہیں اچھا جانتا ہے، تمہاری تعریف کرتا
ہے یا اس نے تمہیں سلام کیا ہے پھر اسی طرح دوسرے کے پاس جا کر بھی اسی طرح کی باتیں
کرے تاکہ ان دونوں میں بغض و عداوت کم ہو
اور صلح ہو جائے۔
حضرت سیدتنا اسماء بنتِ یزید
رضی اللہ عنھا سے رِوایت ہے کہ پیارے آقاﷺ کا فرمان ہے: تین باتوں کے سِوا جھوٹ
بولنا جائز نہیں، خاوند اپنی بیوی کو راضی کرنے کے لئے کوئی بات کہے، جنگ کے موقع
پر جھوٹ بولنا اور لوگوں کے درمیان صُلح کروانے کے لئے جھوٹ بولنا۔ (ترمذی، کتاب
البر والصلة، باب ماجاء فی اصلاح ذات البین، 377/3، حدیث: 1945 دارالفکر بیروت)
دیکھا آپ نے شریعتِ مُطہرہ
کو مسلمانوں کا آپس میں اتفاق و اتحاد کس قدر محبوب ہے کہ ان میں صُلح کروانے کے
لئے جھوٹ تک بولنے کی اجازت مَرحمت فرمائی ہے۔ لہذا اللہ پاک کی رضا کے لئے
مسلمانوں میں صلح کروا کر اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو دو مسلمان
بھائی آپس میں ناراض ہوتے ہیں انہیں سمجھا کر صلح کروانا چاہیں تو وہ آپس میں صلح
کرنے کے لئے راضی نہیں ہوتے اور صلح کرنے والا یہ سوچ کر سمجھانا چھوڑ دیتا ہے کہ یہ
صلح کر ہی نہیں رہے، انہیں سمجھانا بیکار ہے۔ ایسا ہر گز نہیں کرنا چاہیے بلکہ
حکمتِ عملی کے ساتھ اور محبت و نرمی کے ساتھ سمجھانا جاری رکھنا چاہیے۔ یاد رکھیے!
مسلمان کو سمجھانا بیکار نہیں بلکہ مفید ہے۔ جیسا کہ
اللہ پاک کا فرمان ہے: ترجمعہ کنزالایمان: اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔ (پ27،
الذاریت، 55)
اللہ پاک کے اس فرمان سے معلوم ہوا کہ مسلمان کو سمجھانا بیکار نہیں
ہے لہذا ایک دوسرے کو سمجھا کر صلح کروا کر اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرنی
چاہیے۔ ہاں اگر بغض و کینہ، نفرتیں اور
عداوت و دشمنی کسی بدمذہب سے ہو تو اس سے صلح نہ کی جائے اور نہ کروائی جائے کیونکہ
بدمذہبوں سے دور رہنے کا ہی شریعت نے حکم دیا ہے اور ان سے کینہ بھی واجب ہے۔ منکر کے لئے نارِ جہنم ہے مناسب جو آپ سے جلتا
ہے وہ جل جائے تو اچھا اللہ پاک ہمیں
دوسرے مسلمانوں کا خیر خواہ بنائے اور آپس میں ناراض مسلمانوں کو حکمتِ عملی کے
ساتھ سمجھا کر ان کے درمیان صلح کروانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامینﷺ

مسلمانوں کی آپس کی رنجشیں نہ صرف رشتہ داری میں پھوٹ ڈال دیتی ہیں،
بلکہ دین کا کام کرنے میں بھی رکاوٹ بنتی ہیں اور آپس میں پھوٹ ڈلوانا شیطانی کام
ہے، اس لئے شیطان کے وار سے بچتے ہوئے ہر دم آپس کی صلح کا اہتمام کیا جائے، جب تک
ہم آپس میں ایک زنجیر کی طرح جُڑے رہیں گے، کوئی ہمیں توڑنے کی جسارت نہیں کر پائے
گا اور آپس کے اتحاد سے اسلام دشمن قوتیں بھی دم توڑتی چلی جائیں گی، مولانا روم
علیہ الرحمہ فرماتے ہیں"کہ تو جوڑنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے نہ کہ توڑنے کے
لئے۔"
اپنے اندر صلح کروانے کا جذبہ بڑھانے کے لئے درج ذیل آیات اور احادیث
پڑھئے اور مسلمانوں کو آپس میں جوڑنے کا جذبہ اپنے اندر پیدا کیجئے، اللہ پاک قرآن
مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ کنزالایمان:"مسلمان، مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں
میں صلح کرو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پر رحمت ہو۔"
اس کے علاوہ سورہ حجرات میں اللہ رحمن عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ کنزالایمان:"اگر دو مسلمانوں کے گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو
ان میں صلح کراؤ۔"
صلح کروانا ہمارے پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، حدیث
مبارک میں بھی اس کے بہت سے فضائل ملتے ہیں، چنانچہ ایک حدیث مبارک میں آتا ہے کہ
آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا میں تمہیں روزہ، نماز، صدقہ سے
افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا:یا رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم ضرور بتائیے، ارشاد فرمایا:وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے، کیونکہ روٹھنے
والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔"(ابو داؤد شریف، کتاب الادب)
شریعت مطہرہ کو مسلمانوں کو آپس میں جوڑے رکھنا اس قدر پیارا ہے کہ
آپس میں صلح کروانے کے لئے جھوٹ بولنے تک کی گنجائش بھی ہے، مگر یاد رہے! کہ ایسی
صلح جو خلاف شریعت ہو، وہ کروانا جائز نہیں۔
منقول ہے کہ"وہ صلح جو
حلال کو حرام کردے اور حرام کو حلال کر دے جائز نہیں ہے۔(ابو داؤد)

اسلام پر امن اور خوبصورت معاشرے کی تشکیل کا خواہاں ہے، اسی لئے دینِ
اسلام میں ہر طبقے کے حقوق بیان فرمائے، تاکہ معاشرے میں نکھار پیدا ہو، آپس میں
دینی رابطہ اور اسلامی محبت کے ساتھ مربوط ہیں، یہ رشتہ تمام دنیوی رشتوں سے قوی
تر ہے، صلح کروانا ہمارے آقا
صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔
اللہ کریم نے قران کریم میں صلح کروانے کا حکم بھی ارشاد فرمایا: وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا
بَيْنَهُمَا١ۚ ترجمہ کنزالعرفان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔"(پارہ
26، سورہ حجرات، آیت 9)
تفسیر:اس آیت کریمہ کا شان نزول بیان کرتے صدر الفاضل حضرت علامہ
مولانا سید محمد نعیم الدین مرادآبادی علی رحمۃ اللہ علیہ نے خزائن العرفان میں فرماتے
ہیں:"نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم دراز گوش پر تشریف لے جا رہے تھے، انصار کی مجلس پر گزرے، جہاں
تھوڑا سا توقف فرمایا،اس جگی درازگوش نے پیشاب کیا تو ابن ابی نے اپنی ناک بند کر
لی،حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
کے دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو ہے، آقا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، ان دونوں میں بات بڑھ گئی، اور ان دونوں کی قومیں آپس
میں لڑ گئیں اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچی،آقا صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے،ان میں صلح
کرا دی۔
اس معاملہ کے تحت یہ معلوم ہوا کہ جب دو فریقوں میں لڑائی ہو جائے تو
ان کے درمیان صلح کروا دینا بہت زیادہ فضیلت کا حامل ہے، آئیے اب حدیث مبارکہ کی
روشنی میں صلح کروانے کے فضائل پڑھتے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرورِ ذیشان صلی اللہ علیہ وسلم
کا فرمان مغفرت نشان ہے:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کرائے گا، اللہ عزوجل اس
کا معاملہ درست فرمائے گا اور ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا
فرمائے گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔"(الترغیب
والتر ہیب، کتاب الادب وغیرہا، الترغیب فی الاصلاح بین الناس، جلد 3/321، حدیث9، دار الکتب العلمیہ
بیروت)
ایک اور حدیث مبارکہ میں تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم
کا فرمانِ فضیلت نشان ہے:"کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام
علیہم الرضوان نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے،ارشاد فرمایا:وہ عمل جو آپس میں روٹھنے والوں
میں صلح کرا دیتا ہے، کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونے والا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔(ابوداؤد،کتاب
الادب،باب فی اصلاح ذات البین،جلد 4/325، حدیث4919، دار احیاء اتراث العربی بیروت)
اے عاشقانِ رسول!ان آیات و روایات سے صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل
و برکات معلوم ہوئے، جب بھی مسلمانوں میں ناراضگی ہو جائے تو ان کے درمیان صلح کروا
کر یہ فضائل و برکات حاصل کرنے چاہئیں۔
اگر یہ بغض و کینہ، عداوت، دشمنی کسی بدمذہب سے ہو تو اس سے صلح کرنا
جائز نہیں، بد مذہب سے دور رہنے کا شریعت نے حکم دیا ہے، معلوم ہوا کہ آپس میں لڑائی
جھگڑے شیطان کرواتا ہے اور وہ اس سے بہت خوش ہوتا ہے۔ اللہ پاک ہمارے حالوں پر رحم
فرمائے۔آمین

صلح بمعنی سلامتی، درستی، یہ مصالحت کا اسم ہے،(مذکر ومؤنث) کہا جاتا
ہے، یعنی صلح کرنے والے ہیں، اس طرح کہا جاتا ہے، قوم صلوحٌ یعنی رضامند ہیں، مصدر کے
ساتھ وصف بیان کیا جاتا ہے۔
صلح کروانا ہمارے پیارے مدنی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ
ہے، اسی طرح کسی بزرگ کا قول بھی ہے"زندگی کے ہر موڑ پر صلح کرنا سیکھو،
جھکتا وہی ہے جس میں جان ہوتی ہے، اکڑنا تو مردے کی پہچان ہوتی ہے۔"
صلح کروانے کے بہت سے فضائل قرآن و حدیث میں وارد ہیں، قرآن مجید میں
پارہ 26 سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 9 میں خدائے رحمٰن عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:
وَ اِنْ طَآىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا
بَيْنَهُمَا١ۚ ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں
تو ان میں صلح کراؤ۔"
اس آیت کریمہ کا شان نزول بیان کرتے صدر الفاضل حضرت علامہ مولانا سید
محمد نعیم الدین مرادآبادی علی رحمۃ اللہ علیہ نے خزائن العرفان میں فرماتے ہیں:"نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم دراز گوش پر تشریف لے جا رہے تھے، انصار کی مجلس پر گزرے،
جہاں تھوڑا سا توقف فرمایا،اس جگہ درازگوش نے پیشاب کیا تو ابن ابئ نے اپنی ناک
بند کر لی،حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کے دراز گوش کا پیشاب تیرے مشک سے بہتر خوشبو ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم تشریف لے گئے، ان دونوں میں بات بڑھ گئی، اور ان دونوں کی قومیں آپس میں لڑ
گئیں اور ہاتھا پائی تک نوبت پہنچی،آقا صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف
لائے،ان میں صلح کرا دی۔
اس معاملہ میں یہ آیت نازل ہوئی، اس طرح ایک اور مقام پر اللہ عزوجل
کا فرمانِ عالیشان ہے: والصلح خیر۔ترجمہ
کنزالایمان:"اور صلح خوب ہے۔"(پارہ 5، سورہ نساء)
اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی صلح کروانے کے بے شمار فضائل بیان
ہوئے ہیں، نماز، روزہ، صدقہ سے افضل عمل اسے قرار دیا گیا ہے، چنانچہ
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ سرورِ ذیشان صلی اللہ علیہ
وسلم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:"جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کروائے گا، اللہ
تعالیٰ اس کا معاملہ درست فرما دے گا اور ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا
ثواب عطا فرمائے گا، جب لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ہو کر لوٹے گا۔"(الترغیب
والتر ہیب، کتاب الادب 321، حدیث9)
ایک اور حدیث مبارکہ میں تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ
فضیلت نشان ہے:"کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل نہ بتاؤں؟ صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرور بتائیے، ارشاد
فرمایا: وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے، کیونکہ وہ روٹھنے والوں
میں فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے۔"(ابو داؤد، کتاب الادب،ح 4919)
ان آیات و روایات سے صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل و برکات
معلوم ہوئے، لہذا جب بھی کسی مسلمان میں ناراضگی ہو جائے تو ان کے درمیان صلح کروا
کر فضائل و برکات حاصل کرنے چاہئیں، مولانا روم فرماتے ہیں:
تو برائے وصل کردن آمدی
نے برائے فصل کردن آمدی
یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کے لئے آیا ہے، توڑ پیدا کرنے کے لئے نہیں آیا۔
اللہ پاک ہمیں شیطان کے وسوسوں سے بچاتے ہوئے آپس کے تعلقات درست
رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، مشہور کہاوت ہے:"سوئی بن جودو کو ایک کردے ،قینچی
نہ بن جو ایک کو دو کر دے"،یعنی مسلمان کے تعلقات کو جس طرح سوئی میں دھاگا
پرو کر دو کو ایک کر دیا جاتا ہے، مسلمان بھی ایک بن کر رہیں، نہ کہ قینچی جیسے
تعلقات کہ جو دو کپڑوں کو چار اور ایک کپڑے کو دو بنا دے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی ایسی صلح بھی ہے، جو کروانا جائز نہیں؟
تو جی ہاں، ایسی صلح جس کا کروانا جائز نہیں، وہ یہ ہے کہ اگر بغض، کینہ، دشمنی کسی بد مذہب
سے ہو تو اس سے صلح نہ کی جائے، کیونکہ بدمذہبوں سے دور رہنے کا شریعت نے حکم دیا
ہے اور ان سے کینہ بھی واجب ہے۔
منکر کے لئے نارِ جہنم ہے مناسب
جو آپ سے جلتا ہے وہ جل جائے تو اچھا

ہمارے
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہمارے لے بہترین نمونہ ہے۔ آپکی زندگی کا ہر
گوشہ، ہر لمحہ ہمارے لئے قابل فخر اور قابل تقلید
ہے آپ ایذاء دینے والوں بلکہ اپنے جانی دشمنوں کوبھی
معاف کردیا کرتے تھے۔
واہ رے
حِلم کہ اپنا تو جگرٹکڑے ہو
پھر بھی
ایذائےستم گرکے روادار نہیں
ہمیں
بھی آقا علیہ السلام کی تقلید کر کے اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش
آنا چاہیےاگر ان سے کوئی غلطی صادر ہو جائے تو معاف کر دینا چاہیے اگر ناراض ہو
جائیں تو صلح میں پہل کرنا چاہیے کیونکہ رنجشوں اور ناچاقیوں سے نقصان ہوتا ہے اور
یہ شیطان کی خوشی کا سامان ہے۔
جیسا
کہ مولانا روم علیہ رحمۃ اللہ القیوم فرماتے ہیں
"تو برائے وصل کردن آمدی
نے
برائے فضل کردن آمدی''
(یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کے لئے آیا ہے،توڑ پیدا
کرنے کے لئے نہیں آیا)
ہم اس
دنیا میں ایک دوسرے کو رنج دینے جدائیاں پیدا کرنے نہیں آ ئے ہیں بلکہ آپس میں
اتفاق و محبت کر کے جوڑ پیدا کرنے کے لئے آ ئے ہیں۔مسلمانوں میں صلح کروانا مکی
مدنی آقاﷺ کی سنت ہے اور اعلی درجے کی عبادت ہے اس سنت کو اپنا کر ہم معاشرے میں
امن وامان قائم رکھ سکتے ہیں۔
اللہ
عزوجل سورۃ الھجرات /10 پ26 میں ارشاد فرماتا ہے
ترجمہ
کنزالایمان؛"مسلمان مسلمان بھائی ہیں تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرو اور
اللہ سے ڈرو کہ تم پر رحمت ہو۔ ''
تفسیر
صراط الجنان؛ ارشاد فرمایا مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہی ہیں کیونکہ یہ آپس میں
دینی تعلق اور اسلامی محبت کے ساتھ مربوط ہیں اور یہ رشتہ تمام دنیوی رشتوں سے
مضبوط تر ہے لہذا جب کبھی دو بھائیوں میں جھگڑا ہو تو ان کے درمیان صلح کرادو اور
اللہ سے ڈرو کہ تم پررحمت ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنا اور پرہیزگاری اختیار
کرنا ایمان والوں کی باہمی محبت اور الفت کا سبب ہے اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اس پر اللہ
تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔(خازن ،الحجرات تحت الایۃ 10،168/4 مدراک للحجرات تحت اللایۃ 10 ،ص 1153
،ملتقطا)(تفسیر صراط الجنان ص 422)
اللہ
عزوجل پ 26 سورۃ الحجرات آیت 9 میں فرماتا ہے:
"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں
لڑیں تو ان میں صلح کراؤ"
شان
نزول:اس آیت کریمہ کا شان نزول بیان کرتے ہوئے صدرالافاضل حضرت علامہ نعیم الدین
مرادآبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خزائن العرفان میں فرماتے ہیں "نبی پاک ﷺ
دراز گوش(خچر) پر سوار تشریف لے جا رہے تھے انصار کی مجلس پر گزر ھوا وہاں تھوڑا
سا توقف فرمایا اس جگہ دراز گوش نے پیشاب کیا تو ابن ابی نے ناک بند کر لی حضرت
عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضور ﷺ کے خچر کا پیشاب تیرے مشک سے
بہتر خوشبو رکھتا ہے حضور ﷺ تو تشریف لے گئے لیکن ان دونوں میں بات بڑھ گئ اور ان دونوں
کی قومیں آپس میں لڑ گئیں اور ہاتھا پائ تک نوبت پہنچی تو سید عالم ﷺ واپس تشریف
لائے
اور ان کی صلح کروائ اس واقع پر یہ آیت نازل ہوئی-
احادیث
مبارکہ کی روشنی میں صلح کے فضائل و برکات:-
حضرت
ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ سید المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا
"وہ شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا جو لوگوں کے درمیان صلح کرائے کی اچھی بات پہنچاتا
ہے اور اچھی بات کہتا ہے"(بخاریَ، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین
الناس 2/210 الحدیث2692)(صراط الجنان جلد9ص415پ26)
احادیث
مبارکہ میں صلح کروانے کے بے شمار فضائل بیان ہوئے
ہیں چناچہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے وایت ہے سرور کونین ﷺ کا فرمان عالیشان
ہے کہ "جو شخص لوگوں کے درمیان صلح کروائے
گا اللہ عزوجل اس کا معاملہ درست فرمائے گا
اور اسے ہر کلمہ بولنے پر ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب عطا فرمائے
گا اور جب وہ لوٹے گا تو اپنے پچھلے گناہوں سے مغفرت یافتہ ھو کر لوٹے گا(الترغیب
والترھیب ،کتاب الادب وغیرہ ، الترغیب فی الاصلاح بین الناس 3/321 حدیث9 دارالکتب
العلمیۃ بیروت(رسالہ صلح کروانے کے فضائل ص5 فیضان مدنی مذاکرہ قسط؛29)
حدیث
پاک میں صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل معلوم ہوئے لہذا جب کبھی مسلمانوں میں
ناراضی ہوجائے تو ھمیں صلح کرواکر ادائے مصطفی کو ادا کرنا چاہئےحضور پاک ﷺ نے
ارشاد فرمایا "کیا میں تمہیں نماز، روزے اور صدقے سےافضل چیز کے بارے میں نہ
بتاوں صحابہ کرام نے عرض کی کیوں نہیں ارشاد فرمایا:یعنی لوگوں کے درمیان صلح کرانا
کیونکہ باہمی تعلقات میں بگاڑ دین کو مٹانے والا ہے''۔
ان
تمام احادیث مبارکہ کی روشنی میں صلح کروانے کی اھمیت اجاگر ھو رہی ہے ھمیں بھی
صلح کروانے کے ان فضائل کو مدنظر رکھ کر ناراض ھونے والوں کو منانا چاہئے
کون سی
صلح کروانا جائز نہیں؛ البتہ یاد رہے کہ مسلمانوں میں وہی صلح کروانا جائز ھے جو
شریعت کے دائرے میں ھو جبکہ ایسی صلح جو حرام کو حلال اورحلال کو حرام کردے وہ جائز
نہیں ھے جیسا کہ حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ھے حضور اقدسﷺ نے ارشاد
فرمایا"مسلمانوں کے مابین صلح کروانا جائز ھے مگر وہ صلح(جائز نہیں) جو حرام
کو حلال کر دے یا
حلال
کو حرام کردے(ابوداود کتاب الافضیہ باب فی الصلح 3 / 425 حدیث 3594)(تفسیر صراط
الجنان ج 9 سورہ الھجرات پ 26 ص 415)
جیسے
عورت کو تین طلاق دینے والے شوہر سے لوگ کہتے ھیں کہ کوئی بات نہیں تم سے جو غلطی
ہوئی ہے اللہ معاف کرے گا اب تم آپس میں صلح کرلو ایسی صلح کروانے والے خود بھی
گناہ گار ھونگے اور ان کے درمیان تعلق قائم کرنا حرام ہوگا اور اس حرام کام میں جو
ان کی مدد کر رہے ہیں وہ بھی اس کے گناہ میں برابر کے شریک ھوں گے اللہ تعالیٰ مسلمانوں
کو عقل سلیم عطا فرمائے اور شریعت کی حدود میں رہتے ھوئے مسلمانوں کے درمیان صلح
کروانے کی توفیق عطا فرمائے اللہ عزوجل ہمیں نرمی اپنانے ایک دوسرے کو منانے اور
لڑائی جھگڑے سے خود کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین ﷺ
تو نرمی
کو اپنانا جھگڑے منانا رہے گا سدا
خوشنما مدنی ماحول
تو غصے
جھڑکنے سے بچنا وگرنا یہ بدنام ہو گا
تیرا مدنی ماحول