ذکر مصطفی تو آنکھوں کا نور دل کا سرور ہے، عاشقِ مصطفی تو ہر پل ہی اپنے محبوب کی یاد میں محو رہتے ہیں، لیکن کچھ عشاق فنا فی الرسول کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوتے ہیں جیسے کہ ہمار ے بزرگان دین فائز ہوئے ہیں اور جب ان کے سامنے جانِ عالم صلی اللہ تعالیٰ وسلم کا ذکر مبارک ہوتا ہے تو ا ن کی کیفیت ہی بدل جاتی ہے اور بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں جو کہ ان حضرات کا محبت رسول کا منہ بولتا ثبوت ہے ہمار ے اسلاف کی ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں چند ملاحظہ فرمائیں۔

صحابہ کرام کی حضور سے والہانہ محبت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجئے کہ جب وہ ذکر مصطفے سنتے تو ان کی آنکھوں سے سل اشک رواں ہوجاتاتھا چنانچہ ۔حضرت اسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ذکر رسول کرتے تو عشقِ رسول میں بے تاب ہو کر رونے لگتے تھے اور فرماتے ، خاتم المرسلین رحمۃ اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تو لوگوں میں سب سے زیادہ رحم دل اور یتیم کے لیے والد کی طرح، بیوہ کے لیے شفیق گھر والے کی طرح اور لوگوں میں دلی طور پر زیادہ بہادر تھے وہ تو نکھر ے چہرے والے مہکتی خوشبو والے اور نسب کے اعتبار سے زیادہ مکرم تھے اولین و آخرین میں آپ کی مثل کوئی نہیں۔(فیضانِ فاروق اعظم جلد اول ص 342)

ذکر رسول اور عالمِ مدینہ کا انداز:

حضرت مصعب بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا امام مالک کے عشقِ رسول کا عالم یہ تھا کہ جب ان کے سامنے ذکر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہوتا تھا توان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا اور ذکر مصطفی کی تعظیم کے لیے خوب جھک جاتے(عاشَقانِ رسول کی 130 حکایت ص 42)

ذکر رسول اور اندازِ قطبِ مدینہ:

قطبِ مدینہ مولانا ضیا الدین احمد مدنی علیہ الر حمۃ فنا فی الرسول کے منصب پر فائز تھے، ذکررسول ہی آپ کا شبانہ روز کا مشغلہ تھا اکثر زیارت کے لیے آنے والے سے پوچھتے آپ نعت شریف پڑھتے ہیں اگر ہاں کہتا تو اس سے نعت شریف سنتے اور خوب محظوظ ہوتے۔بارہا جذبات تاثر سے آنکھوں سے سیل اشک رواں ہوجاتا۔

(سیدی قطبِ مدینہ، ص11)

امیر اہلسنت مولانا الیاس قادری بھی یادگار اسلاف شخصیت ہیں بزرگانِ دین کی طرح جب آپ بھی ذکر مصطفی سنتے ہیں تو بارہا دیکھا گیا ہے کہ آپ فرطِ محبت میں رونے لگتے ہیں اور بارگاہِ رسالت میں شفاعت کے لیے استغاثہ پیش کرنے لگتے ہیں۔

جان ہے عشقِ مصطفی روز فزو ں کرے خدا

جس کو ہو درد کا مزا ناز دوا اٹھائے کیوں

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
انسان میں والدین ، اولاد، بھائی ، بہن، زوجہ ، خاندان، مال تجارت اور مکان وغیرہ ان تمام چیزوں سے محبت فطری چیز ہے لیکن رب تعالیٰ اپنے بندوں کو آگاہ فرماتا ہے کہ اگر تمہارے اندر ان تمام چیزوں کی محبت میری اور میرے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت سے بڑھ جائے تو گویا تم خطرے کی حد میں داخل ہوچکے اور بہت جلد تمہیں میرا غضب اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ایک مؤمن کے لیے حضورنبی پاک صاحبِ لولاک
صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہ صرف فرض ہے بلکہ سب سے قریبی رشتہ داروں اور سب سے قیمتی متاع پر مقدم ہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔:

لایؤمن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ وولدہ والناس اجمعین۔یعنی تم میں کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والدین ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔

یہی وجہ تھی کہ ہمارے اسلاف رسول کریم روفِ رحیم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نام لیتے ہوئے، آپ کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ کی حدیث بیان کرتے ہوئے اور آپ کے واقعات وغیرہ ذکر کرتے ہوئے نہایت ہی ادب والا، عشق والا، محبت والا، عاجز ی و انکساری والا انداز اختیار فرماتے تھے چنانچہ۔

رسول اللہ کا ذکر کرتے تو رونے لگ جاتے:

امیر المؤمنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام حضرت سیدنا اسلم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب دو عالم کے مالک و مختار ، مکی مدنی سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر کرتے تو عشق رسول سے بے تاب ہو کر رونے لگتے اور فرماتے خاتم المرسلین رحمۃ اللعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تو لوگوں میں سب سے زیادہ رحم دل اور یتیم کے لیے والد کی طرح، بیوہ عورت کے لیے شفیق گھر والے کی طرح اور لوگوں میں دلی طور پر سب سے زیادہ بہادر تھے ، وہ تو نکھرے نکھرے ، چہرے والے، مہکتی خوشبو والے اور حسب کے اعتبار سے سب سے زیادہ مکر م تھے، اولین و آخرین میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مثل کوئی نہیں۔(فیضانِ فاروق اعظم ج،۱، ص ۳۴۲،جمع الجوامع ، ج ۱۰، ص ۱۶، حدیث ۳۳)

حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حدیث کا ادب :

مطرف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب لوگ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے پاس طلبِ علم کے لیے آتے تو پہلے آپ کی خادمہ آتی اور ان سے کہتی کہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ دریافت فرماتے کہ کیا تم حدیث شریف کی سماعت کرنے آئے ہو، یا مسائل فقہ دریافت کرنے؟، اگر وہ کہتے کہ مسائل دریافت کرنے آئے ہیں تو آپ رحمۃ اللہ علیہ فوراہی باہر تشریف لے آ تے اور اگر وہ کہتے کہ ہم حدیث شریف سماعت کرنے آئے ہیں تو آپ پہلے غسل خانہ جاتے، غسل کرتے، خوشبو لگاتے اور عمدہ لباس پہنتے، عمامہ باندھتے پھر اپنے سر پر چادر لپیٹتے، آپ کے لیے ایک تخت بچھایا جاتا پھر آ پ تشریف لاتے اور اس تخت پر جلوہ افروز ہوتے ، اس طرح کہ آپ پر انتہائی عجز و انکساری طاری ہوتی، اثنائے روایت کرنے میں مجلس میں عود جلایا جاتا ، یہ تخت صرف روایت حدیث کے لیے رکھا ہوا تھا جب امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے اس کا سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حدیث کی تعظیم کروں۔

(الشفاء القسم الثانی، الخ، الباب الثالث فی تعظیم امرہ ، فضل فی سیرہ السلف، الخ ، ج ۲، ص ۵ علمیہ)

حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مبارک نام کا ادب:

حضرت سیدنا سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ ( بہت بڑے عاشقِ رسول بادشاہ تھے انہوں) نے ایک بار دوران گفتگو (اپنے وزیر) ایاز کے بیٹے کو ( اے ایاز کے لڑکے) کہہ کر مخاطب کیا وہ گھبرا گیا اور اپنے والد صاحب ( ایاز) کی خدمت میں عرض کی کہ معلوم ہوتا ہے کہ میری کسی خطا کے سبب بادشاہ سلامت مجھ سے ناراض ہوگئے ہیں جو مجھے آج ’’ایاز کا لڑکا‘ کہا، ورنہ ہمیشہ بڑے ادب سے میرا نام لیتے رہے ہیں، ایاز نے آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیٹے کے اس خدشہ کا اظہار کیا تو حضرت سیدنا سلطان محمود غزنوی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: ایاز تمہارے بیٹے کا نام احمد ہے اور یہ نام بہت ہی عظمت والا ہے لہذا میں یہ نام کبھی بھی بے وضو نہیں لیتا اتفاقاً میں اس وقت بے وضو تھا اس لیے نام لینے کے بجائے مجبورا ’ایاز کا لڑکا‘ کہہ کر مخاطب کرکے مجھے بات کر نا پڑی۔

(روح البیان، پ ۲۲، الاحزاب ، تحت الایۃ ۴۰۔۷/۱۸۵)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


رفعتِ شان مصطفی کا کوئی مسلمان انکار کر ہی نہیں سکتا، اور کر بھی کیسے سکتا ہے کہ قرآن ،”ورفعنا لک ذکرک اور حدیث قدسی” اذا ذکرت ذکرت معی یعنی اے پیارے جب میرا ذکر ہوگا ساتھ تیرا ذکر بھی ہوگ، ذکر مصطفی رفعت کا اعلان کر رہا ہے۔

وللاآخرة خیر لک من الاولی کے ذریعے قرآن نے مہر لگادی ہے کہ یہ ذکر تا قیامت بلند ہوتا ر ہے گا ۔ جملہ انبیا، صحابہ ، تابعین و تبع تابعین اور اللہ والے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر خیر کرتے آئے ہیں۔

حضرت عیسی علیہ السَّلام نے کیسے ذکر مصطفی کیا ۔فرمایا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے۔(قرآن پارہ ۲۸، سورہ صف آیت ۶)

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے بوقتِ وصال بھی مصطفی کریم کی یاد کو نہ چھوڑا، اپنی پاک و صدیقہ بیٹی سے پوچھا کہ نبی پاک کا یوم وصال کیا تھا ؟ آپ کے کفن میں کتنے کپڑے تھے؟، مقصود یہ تھا کہ جس طرح حیات میں اپنے محبوب کی پیرو ی کرتا رہا ہوں وفات میں بھی موافقت رہے۔

بلال حبشی کا وقتِ وصال آیا اہلیہ نے کہا(واُحزنا ہ) ہائے غم آپ نے فرمایا نہیں بلکہ فاطرنا “(وائے خوشی) کہ میں کل اپنے محبوب اور ان کے صحابہ سے ملنے والا ہوں(صحابہ کرام کا عشق رسول ۔ ۸۰)

حسان بن ثابت کیسے نبی پاک کا ذکر کرتے ہیں کہا کہ ۔

آپ سے زیادہ حسن والا میری آنکھ نے کبھی دیکھا ہی نہیں،

آپ سے زیادہ جمال والا کسی ماں نے جنا ہی نہیں۔

آپ تو ہر عیب سے پاک پیدا کیے گئے ہیں۔

گویا آپ کی مرضی کے مطابق آپ کو پیدا کیا گیا ہے۔(سیرة النبو یۃابن ہشام )

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ حُضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذِکْر کے وقت اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیث و سنّت و اِسمِ گرامی اور سیرتِ مبارَکہ کے سنتے وقت اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آل و اہلِ بیت اور صحابۂ کرام رِضوان اللہ علیہم کا ذِکْر سنتے وقت تعظیم و توقیر اور انتہائی ادب کو ملحوظ رکھنا چاہئےجیسا کہ ابو ابراہیم تجیبی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مسلمان پر واجب ہے کہ جب بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کرے یا سنے تو خشوع و خضوع کے ساتھ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و توقیر کرے۔

ہمارے سلف صالحین اور ائمہ متقدمین رحمہمُ اللہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذکر کے وقت کیسا محبت و تعظیم بھرا انداز اختیار فرماتے تھے درج ذیل روایات میں ملاحظہ کیجئے:

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ حدیث نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بغیر وضو کے نہ قرأت کرتے تھے اور نہ بیان کرتے تھے۔

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے محمد بن منکدر رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا وہ قاریوں کے سردار تھے، جب کبھی ہم ان سے حدیث کے بارے میں سوال کرتے تو وہ اتنا روتے کہ ہمیں ان پر رحم آتا۔

عبدُالرّحمٰن بن قاسم رحمۃ اللہ علیہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کرتے تو ان کے چہرے کا رنگ دیکھا جاتا کہ وہ ایسا ہوگیا گویا کہ اس سے خون نچوڑ لیا گیا ہے اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہیبت و جلال سے ان کا منہ اور زبان خشک ہوجاتی۔

حضرت عامر بن عبدُاللہ بن زبیر رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے جب بھی نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذِکْرِ جمیل کیا جاتا تو اتنا روتے کہ ان کی آنکھوں میں آنسو تک نہ رہتا۔

امام زُہری رحمۃ اللہ علیہ بڑے نرم دل اور ملنسار تھے لیکن جب بھی ان کے سامنے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کیا جاتا تو ایسے ہو جاتے گویا کہ نہ ہم ان کو جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتے ہیں۔(ماخوذ از الشفا،2/40تا46)

اللہ رحمٰن ہمیں بھی ان مقدس ہستیوں کے صدقے ذکرِ رسول کرتے وقت محبت و تعظیم بھرا انداز اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی بہت سی علامات اور آثار ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے امتحان کے لئے کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک علامت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بکثرت ذکر کرنا ہے۔ حدیث شریف میں ہے: “جو شخص کسی سے محبت رکھتا ہے، اس کا ذکر بکثرت کرتا ہے"۔

(کنزالعمال، کتاب الاذکار، الباب الاول، الحدیث1825،ج1،ص217)

کثرت ذکر کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ذکر کرتے ہوئے ادب و احترام کا لازمی طور پر لحاظ رکھا جائے اور حضور سیدالانام صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پاک کمال تعظیم و تکریم اور صلٰوۃ و سلام کے ساتھ لیا جائے اور نام پاک لیتے وقت خوف وخشیت، عجزوانکساری اور خشوع و خضوع کا اظہار کیا جائے۔

ترجمہ کنزالایمان: رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ (پ18،النور:63)

تفسیر کبیر میں ہے: "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نہ پکارو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ یوں نہ کہو: یا محمد!یااباالقاسم! بلکہ عرض کرو: یا رسول اللہیا نبی اللہ!"(التفسیر الکبیر، ج8،ص425،پ18،النور:63)

صحابہ کرام علیہم الرضوان، تابعین، تبع تابعین اور ہمارے دیگر اسلاف جن کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں وہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے کس قدر ادب و احترام کا مظاہرہ کرتے تاریخ اسلامی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے چنانچہ

حضرت مصعب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب امام مالک رضی اللہ عنہ کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جاتا تو ان کے چہرے کا رنگ تبدیل ہو جاتا ان کی پشت جھک جاتی یہاں تک کہ یہ امر ان کے ساتھیوں پرگراں گزرتا۔ ایک دن حاضرین نے امام مالک رضی اللہ عنہ سے ان کی اس کیفیت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا: جو کچھ میں نے دیکھا ہے، تم دیکھتے تو مجھ پر اعتراض نہ کرتے۔ میں نے قاریوں کے سردار حضرت محمد بن منکدد کو دیکھا کہ میں نے جب بھی ان سے کوئی حدیث پوچھی تو وہ رو دیتے یہاں تک کہ مجھے ان کے حال پر رحم آتا تھا۔(الشفاء،الباب الثالث،ج2،ص73)

حضرت امام مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن بن قاسم جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے تو ان کی حالت یہ ہوتی جیسے ان کے چہرے کا سارا خون نچوڑ لیا گیا ہو یعنی ان کے چہرے کی رنگت زرد ہو جاتی تھی اور رعب و جلال نبوی سے ان کا منہ خشک ہو جاتا اور زبان تالو سے چپک جاتی تھی۔(الشفاء مترجم:مولانا محمد اطہر نعیمی،ج2،ص90،91)

حاصل کلام یہ ہے کہ ہمارے اسلاف کی زندگیاں ہمیں اس بات کا درس دیتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے ہوئے ادب و احترام لازم ہے اور ذرا سی بے ادبی نار جہنم کا سبب بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے اسلاف کے طرز عمل پر زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ایمان کے بعد تعظیم مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سب سے مقدم ہے، مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم یعنی اعتقاد جزو ایمان و رکن ایمان ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے اسلاف آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر بڑے ادب و احترام کے ساتھ کیا کرتے کیونکہ جو جس سے محبت کرتا ہے وہ اس کا ذکر بھی کثرت سے کرتا ہے کچھ اسلاف کا ذکر رسول کے وقت انداز کو ملاحظہ کیجئے۔

انداز فاروق اعظم:

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتے تو عشق رسول سے بے تاب ہو کر رونے لگتے اور فرماتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو لوگوں میں سب سے زیادہ مکرم تھے، اولین و آخرین میں آپ کی مثل کوئی نہیں۔(جمع الجوامع ج ۱۰، ص ۱۶، حدیث ۳۳)

امام مالک کا انداز:

امام مالک رضی اللہ عنہ جب ذکر رسول علیہ السلام کرتے تو رنگت بدل جاتی اور فرطِ ادب سے کھڑ ے ہوجاتے۔(الشفابتعریف حقوق المصطفیٰ ، صفحہ 521)

امام جعفر صادق کا انداز :

امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ بہت ہنس مکھ اور خوش مزاج تھے، لیکن جب ان کی مجلس میں نبی علیہ السلام کا ذکر ہوتا تو آپ کی رنگت بدل جاتی ۔

اعلیٰ حضرت کی بارگاہ میں ایک مرتبہ منشی عبدالغفار نے عرض کی کہ میں نعت سنانا چاہتا ہوں اعلیٰ حضرت اس وقت چار پائی پر تشریف فرما تھے، آپ نے پاؤں سمیٹ لیے اور نعت سنانے کی اجازت عطا فرمائی اور نعت سنتے ہوئے آپ کی آنکھوں پر آنسو جاری ہوگئے۔( اکرام امام احمد رضا ،ص ۵۷۔۵۵)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


اسلامی بہنوں کی مجلس شارٹ کورسز کے زیرِ اہتمام14 اکتوبر 2020ء کو جنوبی زون سخاوی کابینہ خیبر بلاک اقبال ٹاؤن میں”کورس جنت و دوزخ کیا ہیں؟“ کا انعقاد کیا گیا جس میں 15 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

کورس میں شریک اسلامی بہنوں کو جنت و دوزخ کیا ہیں؟، جنت و دوزخ کہاں ہیں؟، کیا جنت و دوزخ پیدا ہو چکی ہیں؟، جنت کی نعمتیں کیسی ہوں گی، دوزخ کا عذاب کیسا ہو گا، جنت و دوزخ کے بارے میں ایک مسلمان کا کیا عقیدہ ہونا چائیے؟،جنت ودوزخ میں لے جانے والے اعمال کے بارے میں معلومات فراہم کی گئیں نیز سنتوں بھرےاجتماع میں شرکت کرنے اور مزید شارٹ کورسز میں شرکت کرنے کی ترغیب دلائی گئی۔ یہ کورس حلقہ ذمہ دار اسلامی بہن نے نے کروایا۔


دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام 14اکتوبر 2020ء کو کراچی کے علاقے عزیز آباد میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع  کا انعقاد کیا گیا جس میں مقامی اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

ساؤدرن افریقہ ریجن نگران اسلامی بہن نے سنتوں بھرا بیان کیا اور اجتماعِ پاک میں شریک اسلامی بہنوں کو دعوتِ اسلامی کے مدنی کاموں سے متعلق آگاہی فراہم کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ رہنے اور مدنی کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دلائی۔ 


دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام 14اکتوبر 2020 ء کوبنگلہ دیش کی 7زون نگران  اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہوا جس میں ڈھاکہ چٹاگانگ ریجن نگران اسلامی بہن نے مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی کارکردگی کاجائزہ لیتے ہوئے تربیت کی اور ٹیلی تھون کے نکات سمجھائے نیز زیادہ سے زیادہ ڈونیشن جمع کروانے اور دعوتِ اسلامی کے مدنی کاموں کومزید بڑھانےکا ذہن دیا۔


دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام حیدرآباد  زون کی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہوا جس میں زون اور کابینہ ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

حیدرآباد ریجن نگران اسلامی بہن نے مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی کارکردگی کاجائزہ لیتے ہوئے مدنی کاموں میں اضافے کے لئے تربیتی نکات بیان کئے نیزرسالہ کارکردگی میں اضافے کے لئے اہداف دئیے۔


10 اکتوبر 2020ء بروز ہفتہ نواب شاہ زون میں فارغ التحصیل طالبات کے لئے ردا پوشی اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں صاحبزادیِ عطار سلمھا الغفار اورنواب شاہ زون،کابینہ نگران اور زون جامعۃ المدینہ ذمہ دار اسلامی بہن نے بھی شرکت کی۔

جن طالبات کی نمایاں کارکردگی رہی انہیں تحائف پیش کئے گئے۔ آخر میں صاحبزادی عطار سلمھا الغفار نے اپنے ہاتھوں سے طالبات کی ردا پوشی کی اور ذمہ دار اسلامی بہنوں کو مدنی کاموں کے حوالےسے اہداف دئیے۔


دعوت اسلامی کے شعبہ مدرسۃ المدینہ بالغات کے زیر اہتمام وہاڑی   زون کی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہوا جس میں زون تا مدرِسَہ سطح کی اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

ملتان ریجن مشاورت شعبہ مدرسۃ المدینہ بالغات نے اسلامی بہن نے مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی کارکردگی کاجائزہ لیتے ہوئے تربیت کی اور شعبے کے مدنی کاموں کو مزید بڑھانے اور اس میں بہتری لانے کے حوالے سے نکات فراہم کئے۔