قرآن کریم
میں ایمان والوں کے لئے 10 بشارتیں از بنت غلام نبی احمد، کرا چی

ہر مسلمان کو اس بات سے بخوبی اندازہ ہونا چاہئے کہ اس کی سب سے اہم
ترین چیز اس کا ایمان ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ شیطان کی بھرپور کوشش مسلمان کو اس
کے ایمان سے محروم کرنا ہوتی ہے، دینِ اسلام میں ایمان کی اہمیت کا اندازہ ربّ تعالیٰ
کے اس فرمان سے لگائیے۔
وَ لٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ
الْمَلٰٓىِٕكَةِ وَ الْكِتٰبِ وَ النَّبِيّٖنَ١ۚ "ہاں
اصل نیکی یہ ہے کہ ایمان لائے، اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں
پر۔"(پارہ 2 ،سورۃ البقرہ :177)
یاد رہے! لغت میں ایمان کا مطلب
ہے ”تصدیق کرنا“، اہلِ سنت کے نزدیک ایمان کی ایک اصل (جڑ )ہے اور ایک فرع (شاخ
)ہے، ایمان کی اصل ہستی حق تعالیٰ کا دل کے ساتھ تصدیق کرنا، جبکہ فرع سے مراد اس
دل کے یقین پر عمل پیرا ہونا ۔(کشف المحجوب:719)
اس طرح ایمان کا ایک معنی ہے ”امن دینا“،چونکہ مؤمن اپنے اچھے عقیدے
اختیار کرکے اپنے آپ کو ہمیشہ والے عذاب سے امن دے دیتا ہے، اس لئے اچھے عقیدوں کا
اختیار کرنا ایمان کہلاتا ہے ۔ (تفسیر نعیمی:98)
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کئی مقامات پر ایمان والوں کو بشارت دی،
جس میں سے دس آپ کے سامنے پیشِ خدمت ہے ۔
1: بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ
جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ "اور
ان لوگوں کو خوش خبری دو جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے کہ ان کے لئے ایسے
باغات ہیں، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہے ۔"( پارہ 1، سورہ البقرہ: 25)
2: وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ
الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَؒ۸۲
"اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے وہ جنت والے ہیں انہیں ہمیشہ
اس میں رہنا ہے۔"(پارہ 1، سورۃ البقرہ: 82)
ان آیت مبارکہ میں ربّ تعالیٰ نے مؤمنین اور ان کے اعمال و ثواب کا
ذکر فرمایا اور ہمیشہ جنت میں رہنے کی بشارت دی۔
3: وَ هُدًى وَّ بُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ۠۹۷
"اور ایمان والوں کے لئے ہدایت اور بشارت ہے۔"(پارہ 1، سورۃ
البقرہ: 97)
4: وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَۙ۱۵۵
" اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری سنا دو ۔"( پارہ 2 ،سورۃ
البقرہ :155)
5: وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ۲۲۳
"اور اے محبوب بشارت دو ایمان والوں کو۔"( پارہ 2،
البقرہ:223)
نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:"مؤمن کا معاملہ کس
قدر اچھا ہے جب اسے خوشی پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبر
کرتا ہے ۔"(فیضان ریاض الصالحین، ج1،ص 318)
6: اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَخْبَتُوْۤا اِلٰى
رَبِّهِمْ١ۙ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۲۳
"بے شک جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل کئے اور انہوں نے
اپنے ربّ کی طرف رجوع کیا تو یہی لوگ جنتی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔"(
پارہ 12،سورۃ ھود، 23)
7: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ
"ایمان دار لوگ وہی ہیں، جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان
لائے۔"(پارہ 26، سورہ الحجرات:15)
8: وَ مَنْ يُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ يَهْدِ قَلْبَهٗ١ؕ
" اور جو اللہ پر ایمان لائے، اللہ اس کے دل کو ہدایت دے دے
گا۔"(پارہ 28،التغابن:11)
9: فَمَنْ يُّؤْمِنْۢ بِرَبِّهٖ فَلَا يَخَافُ بَخْسًا وَّ لَا رَهَقًاۙ۱۳
"تو جو اپنے ربّ پر ایمان لائے، اسے نہ کسی کمی کا خوف ہو گا
اور نہ کسی زیادتی کا ۔"(پارہ 29 ،الجن :13)
ان آیات سے معلوم ہوا کہ ایمان اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی تصدیق اور
رسولوں کے لائے ہوئے احکامات کی تائید و تصدیق اور اعمال کے مجموعہ کا نام ہے ۔(مکاشفہ
القلوب :525)
10: اَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا١ؔؕ لَا يَسْتَوٗنَؐ۱۸
" تو کیا جو ایمان والا ہے، وہ اس جیسا ہو جائے گا جو نا فرمان
ہے ،برابر نہیں ہیں۔"(پارہ 21، السجدہ: 18)
اس آیت مبارکہ سے واضح ہو گیا کہ جو شخص ایمان لانے کے بعد دینِ
اسلام میں داخل ہو جاتا ہے، جبکہ کافر نافرمانی کرتا ہے تو یہ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔
آخر میں ربّ تعالیٰ سے دعا ہے ہمارا ایمان سلامت رہے اور دینِ اسلام
پر ثابت قدم رہیں، ایمان و عافیت والی زندگی اور ایمان پر ہی موت مقدر فرمائے۔آمین
یا رب العالمین بوسیلہ خاتم النبیین صلی اللّٰہ علیہ و سلم
قرآن کریم
میں ایمان والوں کے لئے 10 بشارتیں از بنت مدثر عطاریہ، راولپنڈی

ایمان بنیادی طور پر ان عقائد کو اختیار کرنے کا نام ہے، جو قرآن و
حدیث میں بیان کئے گئے،انسان کی نجات کا دارومدار ایمان لانے پر ہے، اعمال کی اہمیت
سے انکار نہیں، لیکن جب تک ایمان نہ ہو، اعمال کا کوئی فائدہ نہیں، ایمان سلامت لے
کر دنیا سے گیا تولھم جنت کی خوش خبریاں اور مغفرت کے وعدے منتظر ہیں اور اگر خدا
نخواستہ ایمان برباد ہو گیا تو علیھم نارٌ مُّؤصدہ (اور ان پر ہر طرف سے بند کی ہوئی آگ ہو گی )کی وعیدیں ہیں۔
ربّ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جب بھی اپنے خاص بند وں کا ذکر فرمایا
تو ایمان کے وصف کو اولاً ذکر فرمایا، جگہ جگہ انہیں بڑے اجر و ثواب کی نوید سنائی،
چند مقامات سے قرآنی آیات پیش کی جاتی ہیں ۔
1:جنت کن کے لئے:اللہ پاک فرماتا
ہے:"بڑھ کر چلو اپنے ربّ کی بخشش اور اس کی جنت کی طرف ،جس کی چوڑائی جیسے
آسمان اور زمین کا پھیلاؤ تیار کی ہوئی ہے، ان کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان
لائے۔"( سورۃ الحدید، آیت 21)
2:گناہوں کی معافی:جب جنات کو ایمان کی دعوت
دی گئی تو فرمایا گیا:"اے ہماری قوم! اللہ کے منادی کی بات مانو اور اس پر ایمان لاؤ کہ وہ تمہارے گناہ بخش
دے۔"(سورۃ الاحقاف ، آیت 31)(ان سے مراد وہ گناہ ہیں، جن کا تعلق حقوقُ اللہ
سے ہے) پھر ساتھ ہی فرمایا:
3:عذاب سے بچاؤ:ترجمہ:"اور تمہیں درد
ناک عذاب سے بچا لے۔"
معلوم ہوا کہ ایمان کتنا بڑا سرمایہ ہے، جس کی برکت سے نہ صرف گناہوں
کی معافی اور عذابِ الیم سے نجات مل رہی ہے، بلکہ جنت کی خوشخبری بھی، صرف یہی نہیں
بلکہ مدد کا وعدہ بھی فرمایا۔
4:نصرتِ الٰہی:دنیا کی زندگی بلکہ قیامت
کے دن بھی ایمان والوں کی مدد کی جائے گی،"بے شک ضرور ہم اپنے رسولوں کی مدد
کریں گے اور ایمان والوں کی دنیا میں اور جس دن گواہ کھڑے ہوں گے۔"(المؤمن ،آیت
51)
5:مقامِ صدق :اللہ کریم نے اپنے محبوب
صلی اللّٰہ علیہ و سلم کو حکم فرمایا:"ایمان والوں کو خوش خبری دو کہ ان کے
ربّ کے پاس سچ کا مقام ہے۔"(سورہ یونس، آیت 2)
قدمِ صدق سے مراد : بہترین مقام ، جنت میں بلند مرتبہ ، نیک اعمال
، نیک اعمال کا اجر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت۔
6:اللہ والی ہے: مسلمانوں کا ،ایمان والوں
کا والی کون ہے؟قرآن فرماتا ہے:"اللہ والی ہے مسلمانوں کا۔"(سورہ بقرہ،آیت
257) کیسے؟"انہیں اندھیریوں سے نور کی طرف نکالتا ہے۔"(ایضاً)
سبحان اللہ اس سے بڑھ کر کیا خوش خبری کہ ربّ کا، ہدایت راستہ بتائے۔
7:ثواب کی نوید: اللہ کریم فرماتا
ہے:"اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائے اور ان میں سے کسی پر
ایمان میں فرق نہ کیا، انہیں عنقریب اللہ ان کے ثواب دے گا۔"(النساء ،آیت
152)
معلوم ہوا کبیرہ گناہ کرنے والا بھی اس میں داخل ہے۔
قرآن کریم
میں ایمان والوں کے لئے 10 بشارتیں از بنت سید غلام مصطفیٰ مدنیہ، کراچی

ایمان اسلام کی بنیاد ہے، ایمان کی بنیاد پر ہی دینِ اسلام کی عمارت استوار ہوتی ہے، ایمان کی
بنیاد جس قدر گہری، مضبوط اور صحیح ہوگی، اسی قدر اسلام کی عمارت مضبوط قائم ہوگی، جس طرح بنیاد کے بغیر عمارت قائم نہیں رہ
سکتی، جس طرح درخت کی جڑ کے بغیر درخت قائم نہیں رہ سکتا، اسی طرح ایمان کی صحت و
سلامتی کے بغیر اسلام قائم نہیں رہ سکتا، ایمان ہی اسلام کے عقیدہ توحید اور دیگر
تمام عقائد کی بنیاد ہے۔
آیات مبارکہ:
وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ
قَبْلِكَ١ۚ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَؕ۰۰۴ترجمہ کنزالایمان:"اور
وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا اور
آخرت پر یقین رکھیں۔"(سورۃ البقرہ، آیت نمبر 4)
تفسیر صراط الجنان:
وَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ
اِلَيْكَ:اور
وہ ایمان لاتے ہیں، اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا۔
اس آیت میں اہلِ کتاب کے وہ مؤمنین مراد ہیں، جو اپنی کتاب اور تمام
پچھلی آسمانی کتابوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے نازل ہونے والی وحیوں پر ایمان
لائے اور قرآن پاک پر بھی ایمان لائے۔
مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكَ:سے تمام قرآن پاک اور پوری
شریعت مراد ہے۔
اللہ تعالیٰ کی کتابوں وغیرہ پر ایمان لانے کا شرعی حکم:
یاد رکھیں کہ جس طرح قرآن پاک پر ایمان لانا ہر مکلف پر فرض ہے، اسی
طرح پہلی کتابوں پر بھی ایمان لانا ضروری ہے، جو گذشتہ انبیاء کرام علیہم السلام
پر نازل ہوئیں، البتہ ان کے جو احکام ہماری شریعت میں منسوخ ہوگئے، ان پر عمل درست
نہیں، مگر پھر بھی ایمان ضروری ہے۔ مثلاً پچھلی کئی شریعتوں میں بیت المقدس قبلہ تھا،
لہذا اس پر ایمان لانا تو ہمارے لئے بھی ضروری ہے، مگر عمل یعنی نماز میں بیت
المقدس کی طرف منہ کرنا جائز نہیں، یہ حکم منسوخ ہو چکا ہے۔
نیز یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن کریم سے پہلے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے
اپنے انبیاء کرام علیہم السلام پر نازل فرمایا، ان سب پر اجمالاً ایمان لانا فرضِ
عین ہے، یعنی یہ اعتقاد رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء کرام علیہم
السلام پر کتابیں نازل فرمائیں اور ان میں جو کچھ بیان فرمایا، سب حق ہے ،قرآن کریم
پر یوں ایمان رکھنا فرض ہے کہ ہمارے پاس موجود ہے، اس کا ایک ایک لفظ اللہ تعالیٰ کی
طرف سے ہے اور حق ہے، باقی تفصیلاً جاننا فرضِ کفایہ ہے، لہذا عوام پر اس کی تفصیلات
کا علم حاصل کرنا فرض نہیں، جب کہ علماء موجود ہوں، جنہوں نے یہ علم حاصل کر لیا
ہو۔
وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ يُوْقِنُوْنَؕ:ور وہ آخرت پر یقین
رکھتے ہیں، یعنی متّقی لوگ قیامت اور جو کچھ اس میں جزا و حساب وغیرہ ہے، سب
پر ایسا یقین رکھتے ہیں کہ اس میں انہیں
ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہے۔
اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا آخرت
کے متعلق عقیدہ درست نہیں، کیوں کہ ان میں سے ہر ایک کا یہ عقیدہ تھا کہ ان کے
علاوہ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگا، جیسا کہ سورۃ بقرہ، آیت نمبر 111 میں ہے:"اور
خصوصاً یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ ہم اگر جہنم میں گئے تو چند دن کے لئے ہی جائیں
گے، اس کے بعد سیدھے جنت میں۔"
جیسا کہ سورہ بقرہ، آیت نمبر 80 میں ہے:"اس طرح کے فاسد اور من
گھڑت خیالات جب ذہن میں جم جاتے ہیں تو پھر ان کی اصلاح بہت مشکل ہوتی
ہے۔"(تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 68،69)
2۔ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ اٰمَنَّا
بِاللّٰهِ وَ بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِيْنَۘ۸
ترجمہ کنزالایمان:"اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ اور پچھلے
دن پر ایمان لائے اور وہ ایمان والے نہیں۔"(سورہ بقرہ، آیت نمبر 8)
تفسیر صراط الجنان:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّقُوْلُ :اور کچھ لوگ کہتے ہیں، اس آیت سے لے کر
20 تک منافقوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے، جو کہ اندرونِ خانہ کافر تھے اور اپنے
آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے۔
اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی زبانوں سے اس طرح کہتے ہیں کہ
ہم اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لے آئے ہیں، حالانکہ وہ ایمان لانے
والے نہیں ہیں، کیوں کہ ان کا ظاہر ان کے
باطن کے خلاف ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ منافق ہیں۔
اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں ہیں کہ:
٭جب تک دل میں تصدیق نہ ہو، اس وقت تک ظاہری اعمال مؤمن ہونے کے لئے
کافی نہیں۔
٭جو لوگ ایمان کا دعوی کرتے ہیں اور کفر کا اعتقاد رکھتے ہیں، سب
منافقین ہیں۔
٭یہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے کھلے کافروں سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔
وَ مِنَ النَّاسِ:اور کچھ لوگ، منافقوں کو کچھ لوگ کہنے
میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ گروہ بہتر صفات اور انسانی کمالات سے ایسا عادی
ہے کہ اس کا ذکر کسی وصف و خوبی کے ساتھ نہیں کیا جا تا، بلکہ یوں کہا جاتا ہے کہ
کچھ لوگ ہیں۔
اسی لئے انبیاء کرام علیہم السلام کو محض انسان یاصرف بشر کے لفظ سے
ذکر کرنا کفار کا طریقہ ہے، جبکہ مسلمان انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ عظمت و
شان سے کرتے ہیں۔"( بحوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 72، 73)
3۔ يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِيْنَ
اٰمَنُوْا١ۚ وَ مَا يَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا يَشْعُرُوْنَؕ۹
ترجمہ کنزالایمان:"فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو
اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے، مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔"(سورۃ البقرہ، آیت نمبر 9)
تفسیر صراط الجنان:
يُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ:وہ
اللہ کو دھوکا دینا چاہتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے پاک ہے کہ اسے کوئی دھوکا دے سکے،
وہ تمام پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے، یہاں مراد یہ ہے کہ منافقوں کے طرزِ عمل
سے یوں لگتا ہے کہ وہ خدا کو فریب دینا چاہتے ہیں یا یہ کہ خدا کو فریب دینا یہی
ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں، کیونکہ حضور صلی
اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے نائب اور خلیفہ ہیں اور انہیں دھوکا دینے کی کوشش
گویا خدا کو دھوکا دینے کی طرح ہے، لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ
علیہ وسلم کو منافقین کے اندرونی کفر پر مطلع فرمایا تو یوں ان بے دینوں کا فریب نہ
خدا پر چلے، نہ رسول پر اور نہ مؤمنوں پر، بلکہ درحقیقت وہ اپنی جانوں کو فریب دے
رہے ہیں اور یہ ایسے غافل ہیں کہ انہیں اس چیز کا شعور ہی نہیں۔
ظاہر و باطن کا تضاد بہت بڑا
عیب ہے کہ:
اس آیت سے معلوم ہوا کہ ظاہر و باطن کا تضاد بہت بڑا عیب ہے، یہ منافقت
ایمان کے اندر ہو تو سب سے بدتر ہے اور اگر عمل میں ہے تو ایمان میں منافقت سے تو
کمتر ہے، لیکن فی نفسہ سخت خبیث ہے، جس آدمی کے قول و فعل اور ظاہر و باطن میں
تضاد ہوگا تو لوگوں کی نظر میں وہ سخت قابلِ نفرت ہو گا۔
ایمان میں منافقت مخصوص لوگوں میں پائی جاتی ہے، جبکہ عملی منافقت ہر
سطح کے لوگوں میں پائی جا سکتی ہے۔(بحوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد1،صفحہ نمبر 73،
74)
4۔ وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ
عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ
كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِيْ رُزِقْنَا
مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا١ؕ وَ لَهُمْ فِيْهَاۤ اَزْوَاجٌ
مُّطَهَّرَةٌ١ۙۗ وَّ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۲۵
ترجمہ کنزالایمان:"اور خوشخبری دے انہیں جو ایمان لائے اور اچھے
کام کئے کہ ان کے لئے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں رواں جب انہیں ان باغوں سے کوئی
پھل کھانے کو دیا جائے گا صورت دیکھ کر کہیں گے یہ تو وہی رزق ھے، جو ہمیں پہلے
ملا تھا اور وہ صورت میں ملتا جلتا انہیں دیا گیا اور ان کے لئے ان باغوں میں ستھری
بیبیاں ہیں اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔"(سورہ بقرہ، آیت نمبر 25)
تفسیر صراط الجنان:
وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ:اور ان لوگوں کو خوشخبری دو جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے عمل
کئے، اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ قرآن میں ترہیب یعنی ڈرانے کے ساتھ ترغیب بھی ذکر
فرماتا ہے، اسی لئے کفار اور ان کے اعمال اور عذاب کے ذکر کے بعد مؤمنین اور ان کے
اعمال و ثواب کا ذکر فرمایا اور انہیں جنت کی بشارت دی۔
صالحات:
یعنی نیکیاں وہ عمل ہیں، جو شرعاً اچھے ہوں، ان میں فرائض ونوافل
داخل ہیں، یہاں بھی ایمان اور عمل کو جدا جدا بیان کیا، جس سے معلوم ہوا کہ عمل ایمان
کا جزو نہیں ہیں۔
وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا :اور
انہیں ملتاجلتا پھل دیا گیا، جنت کے پھل رنگت میں آپس میں ملتے جلتے ہوں گے، مگر
ذائقے میں جدا جدا ہوں گے، اس لئے ایک دفعہ ملنے کے بعد جب دوبارہ پھل ملیں گے تو
جنتی کہیں گے کہ یہ پھل تو ہمیں پہلے بھی مل چکا ہے، مگر جب وہ کھائیں گے تو اس سے
نئی لذت پائیں گے اور ان کا لطف بہت زیادہ ہو جائے گا۔
اس کا یہ بھی معنی بیان کیا گیا ہے کہ انہیں دنیاوی پھلوں سے ملتے
جلتے پھل دیئے جائیں گے، تاکہ وہ ان پھلوں سے مانوس رہیں، لیکن جنتی پھل ذائقے کہ
میں دنیوی پھلوں سے بہت اعلیٰ ہوں گے۔
اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ:پاکیزہ بیویاں، جنتی
بیویاں حوریں ہوں یا اور،سب کی سب تمام ناپاکیوں اور گندگیوں سے مبرا ہونگی، نہ
جسم پر میل ہوگا، نہ کوئی اور گندگی، اس کے ساتھ ہی وہ بد مزاجی اور بدخلقی سے بھی
پاک ہونگی۔
وَّ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ:وہ
ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے، جنتی نہ کبھی فنا ہوں گے اور نہ جنت سے نکالے جائیں
گے، لہذا جنت اور اہلِ جنت کے لئے فنا نہیں۔(بحوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1،
صفحہ نمبر 89، 90)
5۔ وَ قَالُوْا قُلُوْبُنَا غُلْفٌ١ؕ بَلْ لَّعَنَهُمُ
اللّٰهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيْلًا مَّا يُؤْمِنُوْنَ۸۸ ترجمہ
کنزالایمان:" اور یہودی بولے ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہیں بلکہ اللہ نے ان پر لعنت کی ان کے کفر کے سبب تو ان میں تھوڑے
ایمان لاتے ہیں۔"( سورہ بقرہ، آیت نمبر 88)
تفسیر صراط الجنان:
قُلُوْبُنَا غُلْفٌ:ہمارے دلوں پر پردے ہیں، یہودیوں
نے مذاق اڑانے کے طور پر کہا تھا کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں، ان کی مرادیہ
تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ان کے دلوں تک نہیں پہنچتی، اللہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمایا ہے کہ یہ جھوٹے
ہیں، اللہ تعالیٰ نے دلوں کو فطرت پر پیدا فرمایا اور ان میں حق قبول کرنے کی صلاحیت رکھی ہے۔
یہودیوں کا ایمان نہ لانا ان کے کفر کی شامت ہے کہ انہوں نے حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کی نبوت پہچان لینے کے بعد انکار کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر لعنت
فرمائی، اس کا یہ اثر ہے کہ وہ قبولِ حق کی نعمت سے محروم ہو گئے، آج بھی ایسے لوگ
ہیں کہ جن کے دلوں پر عظمت، رسالت سمجھنے سے پردے پڑے ہوئے ہیں۔(بحوالہ تفسیر صراط
الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 161)
6۔ اَوَ كُلَّمَا عٰهَدُوْا عَهْدًا نَّبَذَهٗ
فَرِيْقٌ مِّنْهُمْ١ؕ بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ۱۰۰
ترجمہ کنزالایمان:"اور کیا جب کبھی کوئی عہد کرتے ہیں، ان میں ایک
فریق اسے پھینک دیتا ہے ،بلکہ ان میں بہیتروں کو ایمان نھیں۔"(سورہ بقرہ، آیت
نمبر 100)
تفسیر صراط الجنان:
عٰهَدُوْا عَهْدًا:انہوں نے عہد کیا، حضرت عبداللہ بن
عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہودیوں کو اللہ
تعالیٰ کے وہ عہدیاد دلائے، جو آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے متعلق تھے
تو مالک بن صیف نے کہا:خدا کی قسم! آپ کے بارے میں ہم سے کوئی عہد نہیں لیا گیا،
اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ یہودیوں نے جب کبھی کوئی عہد کیا
تو ان میں سے ایک گروہ نے اس عہد کو ویسے ہی پیٹھ پیچھے پھینک دیا، بلکہ ان میں سے
اکثر یہودیوں کو تورات پر ایمان ہی نہیں، اس لئے وہ عہد توڑنے کو گناہ نہیں سمجھتے
اور نہ ہی اس بات کی کوئی پرواہ کرتے ہیں۔
بعض مفسرین نے فرمایا کہ یہودیوں نے یہ عہد کیا تھا کہ جب نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوگا تو ہم ان پر ضرور ایمان لائیں گے اور عرب کے
مشرکوں کے خلاف ہم ضرور ان کے ساتھ ہوں
گے، لیکن جب حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نبوت کا اعلان فرمایا تو یہودیوں
نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی بجائے انکار کر دیا، اس پر یہ آیت نازل
ہوئی۔(بحوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد1، ص نمبر 173، 174)
7۔ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا
لَمَثُوْبَةٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ خَيْرٌ١ؕ لَوْ كَانُوْا يَعْلَمُوْنَؒ۱۰۳
ترجمہ کنزالایمان:"اور
اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو اللہ کے یہاں کا ثواب بہت اچھا ہے کسی
طرح انہیں علم ہوتا۔"(سورہ بقرہ، آیت
نمبر 103)
تفسیر صراط الجنان:
وَ لَوْ اَنَّهُمْ اٰمَنُوْا:اور اگر وہ ایمان لاتے،
فرمایا گیا کہ اگر یہودی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن پاک پر ایمان لاتے تو اللہ
تعالیٰ کے ہاں کا ثواب ان کے لئے بہت اچھا ہوتا، کیوں کہ آخرت کی تھوڑی سی نعمت دنیا
کی بڑی سے بڑی نعمت سے اعلی ہے۔(حوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 120)
8۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِيْنُوْا
بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ۱۵۳
ترجمہ کنزالایمان:"اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد چاہو، بیشک
اللہ صابروں کے ساتھ ہے۔"( سورۃ البقرہ، آیت نمبر 153)
تفسیر صراط الجنان:
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا:اے ایمان والو! اس
آیت میں صبر اور نماز کا ذکر کیا جا رہا ہے، کیونکہ نماز، ذکر اللہ اور صبر و شکر
پر ہی مسلمان کی زندگی کا مل ہوتی ہے، اس آیت میں فرمایا گیا کہ صبر اور نماز سے
مدد مانگو، صبر سے مدد طلب کرنا یہ ہے کہ عبادات کی ادائیگی، گناہوں سے رکنے اور
نفسانی خواہشات کو پورا نہ کرنے پر صبر کیا جائے اور نماز چونکہ تمام عبادات کی
اصل اور اہلِ ایمان کی معراج ہے اور صبر کرنے میں بہترین معاون ہے۔
اس لئے اس سے بھی مدد طلب کرنے کا حکم دیا گیا اور ان دونوں کا بطورِ
خاص اس لئے ذکر کیا گیا کہ بدن پر باطنی اعمال میں سب سے سخت صبر اور ظاہری اعمال
میں سب سے مشکل نماز ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی نماز سے مدد چاہتے تھے، جیسا
کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی
ساتھ مہم پیش آتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں مشغول ہو جاتے، اسی طرح نمازِ
استسقاءاور نماز حاجت بھی نماز سے مدد چاہنے ہی کی صورتیں ہیں۔
اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ:بے شک اللہ صابروں
کے ساتھ ہے، حضرت علامہ نصر بن محمد سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:"اللہ
تعالیٰ (اپنے علم و قدرت سے) ہر ایک کے ساتھ ہے، لیکن یہاں صبر کرنے والوں کا بطور
خاص اس لئے ذکر فرمایا، تاکہ انہیں معلوم ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات دور
کرکے آسانی فرمائے گا۔
صبر کی تعریف: اس آیت میں صبر کا ذکر ہوا
ہے، صبر کامعنی ہے، نفس کو اس چیز پر روکنا، جس پر رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر
رہی ہو یا نفس کو اس چیز سے باز رکھنا، جس سے رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو۔
صبر کی اقسام:بنیادی طور پر صبر کی دو
قسمیں ہیں، ایک بدنی صبر(جیسے بدنی مشقتیں برداشت کرنا اور ان پر ثابت قدم
رہنا)دوسرا طبعی خواہشات اور خواہش کے تقاضوں سے صبر کرنا، پہلی قسم کا صبر جب شریعت
کے موافق ہو تو قابلِ تعریف ہوتا ہے، لیکن مکمل طور پر تعریف کے قابل صبر کی دوسری
قسم ہے۔
صبر کے فضائل: قرآن و حدیث اور بزرگانِ دین
کے اقوال میں صبر کے بے پناہ فضائل بیان کئے گئے ہیں، ترغیب کے لئے ان میں سے دس
فضائل کا خلاصہ درج ذیل ہے:
٭اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
٭صبر کرنے والے کو اس کے عمل سے اچھا اجر ملے گا۔
٭صبر کرنے والے کو بے حساب اجر ملے گا۔
٭صبر کرنے والوں کی جزا دیکھ کر قیامت کے دن لوگ حسرت کریں گے۔
٭صبر کرنے والے ربّ کریم عزوجل کی طرف سے درودو ہدایت اور رحمت پاتے ہیں۔
٭صبر کرنے والے اللہ تعالیٰ کو محبوب ہیں۔
٭صبر آدھا ایمان ہے۔
٭صبر جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
٭صبر کرنے والے کی خطائیں مٹا دی جاتی ہیں۔
٭صبرہر بلائی کی کنجی ہے۔
غیرِ خدا سے مدد طلب کرنا شرک نہیں:
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ غیر خدا سے مدد طلب کرنا شرک نہیں ہے،
اعلٰی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں؛"خدارا انصاف! اگر آیت کریمہ ایاک نستعین
میں مطلق استعانت کا ذاتِ الٰہی عزوجل میں
مقصود ہو تو کیا صرف انبیاء کرام علیہم
السلام ہی سے استعانت شرک ہوگی، کیا یہی غیر خدا ہیں اور سب اشخاص و اشیاء وہابیہ
کے نزدیک خدا ہیں یا آیت میں خاص انہی کا نام لے دیا ہے کہ ان سے شرک اوروں سے روا ہے؟
نہیں نہیں۔۔جب مطلقاً ذات احدیت سےتخصیص اور غیر خدا سے شرک ماننے کی
ٹھری تو کیسی ہی استعانت کسی غیر خدا سے کی جائے، ہمیشہ ہر طرح شر ک ہی ہوگی کہ
انسان ہوں یا جمادات، احیاء ہوں یا اموات، ذوات ہوں یا صفات، افعال ہوں یا حالات،
غیر خدا ہونے میں سب داخل ہیں، اب کیا جواب ہے آیت کریمہ کا کہ ربّ عزوجل فرماتا ہے
کہ اسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ:استعانت کرو صبرونماز سے، کیا صبر خدا ہے جس سے استعانت کا حکم ہوا ہے؟ کیا نماز خدا ہے جس سے استعانت
کا ارشاد فرمایا ہے؟
دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ وَ تَعَاوَنُوْا
عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى:آپس میں ایک دوسرے کی مدد
کرو بھلائی اور پرہیزگاری پر، اگر غیر خدا سے مدد لینا مطلقاً محال ہے تو اس حکمِ
الہی کا حاصل کیا؟ اور اگر ممکن ہو تو جس سے مدد مل سکتی ہے، اس سے مدد مانگنے میں
کیا زہر گھل گیا۔
حدیثوں کی تو گنتی ہی نہیں، بکثرت احادیث میں صاف صاف حکم ہے کہ:
٭صبح کی عبادت سے استعانت کرو۔
٭شام کی عبادت سے استعانت کرو۔
٭کچھ رات رہے کی عبادت سے استعانت کرو۔
٭علم کے لکھنے سے استعانت کرو۔
٭سحری کے کھانے سے استعانت کرو۔
٭دوپہر کے سونے سے استعانت و صدقہ سے استعانت کرو۔
٭حاجت روائیوں میں حاجتیں چھپانے سے استعانت کرو۔(حوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 245 تا
248)
9۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا
مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ
تَعْبُدُوْنَ۱۷۲
ترجمہ کنزالایمان:"اے ایمان والوں!کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں
اور اللہ کا احسان مانو، اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔(سورۃ البقرہ، آیت172)
تفسیر صراط الجنان:
وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ:اور اللہ کا شکر ادا کرو،
اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھانے سے منع نہیں فرمایا، بلکہ کئی مقامات پر رزقِ الہی
کھانے کا بیان کیا، جیسے سورہ بقرہ آیت 108، سورہ مائدہ آیت 88 اور 87، سورہ اعراف
آیت 31 اور 32، اور سورہ نمل آیت 114 وغیرہ۔
الغرض اس طرح کے بیسیوں مقامات ہیں، جہاں رزقِ الہی سے لطف اندوز
ہونے کی اجازت دی گئی ہے، صرف یہ شرط لگائی ہے کہ حرام چیزیں نہ کھاؤ، حرام ذریعے
سے حاصل کرکے نہ کھاؤ، کھا کر غافل نہ ہو جاؤ، یہ چیزیں تمھیں اطاعتِ الہی سے دور
نہ کر دیں، اللہ عزوجل کا شکر ادا کرو، چنانچہ فرمایا:"اور اللہ کا شکر ادا
کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو۔"(حوالہ تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ
نمبر 272)
10۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا
اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاْتِيَ يَوْمٌ لَّا بَيْعٌ
فِيْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌ١ؕ وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ۲۵۴
ترجمہ کنزالایمان:"ایمان والو! اللہ کی راہ میں ہمارے دیئے میں سے
خرچ کرو، وہ دن آنے سے پہلے جس میں نہ خریدوفروخت ہے، نہ کافروں کے لئے دوستی، نہ
شفاعت اور کافر خود ہی ظالم ہیں۔"(البقرہ، آیت254)
تفسیر صراط الجنان:
اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰكُمْ:ہمارے دئیے ہوئے
رزق میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کر لو، فکرِآخرت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا جا رہا ہے
کہ قیامت کے آنے سے پہلے پہلے راہِ خدا عزوجل میں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال خرچ
کر لو، قیامت کا دن بڑی ہیبت والا ہے، اس دن مال کسی کو بھی فائدہ نہ دے گا اور دنیوی
دوستیاں بھی بے کار ہوں گی، بلکہ باپ بیٹے بھی اور ایک دوسرے سے جان چھڑا رہے ہوں
گے اور کافروں کو کسی کی سفارش کام نہ دے گی اور نہ دنیوی انداز میں کسی کی کوئی
سفارش کر سکے گا، صرف الٰہی سے اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے شفاعت کریں گے۔
جیسا کہ اگلی آیت یعنی آیت الکرسی میں آرہا ہے اور مال کا فائدہ بھی
آخرت میں اسی صورت میں ہے، جب دنیا میں اسے نیک کاموں میں خرچ کیا ہو اور دوستیوں
میں سے بھی نیک لوگوں کی دوستیاں کام آئیں گی، جیسا کہ سورۃ زخرف میں ہے:الاخلاء یومئذ
بعضھم لبعض عدو الا المتقین۔
"پرہیزگاروں کے علاوہ اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں
گے۔"
وَ الْكٰفِرُوْنَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ:اور کافر ہی ظالم
ہیں، ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو غلط جگہ استعمال کرنا، کافروں کا ایمان کی جگہ
کفر اور طاعت کی جگہ معصیت اور شکر کی جگہ ناشکری کو اختیار کرنا ان کا ظلم ہے اور
چونکہ یہاں کاظلم کا سب سے بد تر درجہ مراد ہے، اسی لئے فرمایا کہ کافر ہی ظالم ہیں۔۔"(حوالہ
تفسیر صراط الجنان، جلد 1، صفحہ نمبر 382،383)
قرآن کریم
میں ایمان والوں کے لئے 10 بشارتیں از بنت عبد الرؤف، ساؤتھ امریکہ سرینام

ایمان
والوں کے لیے بشارتیں ایمان و اسلام کیا
ہے؟ ایمان ایک ایسی لازوال دولت ہے جس پر دنیا آخرت کی کامیابی کا انحصار ہے۔ اگر
کوئی شخص کتنے ہی بھلائی و خیرخواہی کے
کام کرے فلاحی کاموں میں ہمہ وقت سر گرم رہے اور خوب عبادات بجالائے صدقہ و خیرات
کرے لیکن جب تک دل میں ایمان ہی موجود نہ
ہو یہ تمام اعمال اسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتے اس کی مثال ایسی ہے گویا اس نے ایک ایسی عمارت قائم کی جس کی بنیاد
ہی موجود نہیں ۔ کئی احادیث میں ایمان کے متعلق بیان فرمایا گیا نیز محدثین نے کتب
حدیث میں ایمان کے خصوصی ابواب باندھے ہیں چنانچہ مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح
جلد 1باب الایمان حدیث نمبر ایک کی شرح میں ایمان کے متعلق تحریر ہے کہ ایمان کا
لفظی معنی ہے "امن دینا" اور
شرعی طور پر ایمان ان عقائد کا نام ہے جنکو مان کر انسان قہرِقہار اور غضب جبار سے
امن میں آجاتا ہےان میں وہ تمام چیزیں
شامل ہیں جو اللہ پاک کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک سے لے کر تشریف
لائے۔ اور اسلام کے متعلق مشہور حدیث حدیث جبریل علیہ السلام کے تحت فرمایا اسلام
بسا اوقات ایمان کے معنی میں ہی ہوتا ہے اور بعض اوقات اسکا معنی جدا ہوتا ہے ۔ لیکن
حقیقتاً اسلام ظاہری اعمال و افعال کا نام ہے جبکہ باطنی عقائد و نظریات ایمان میں داخل ہیں ۔ جس شخص کو ایمان کی دولت حاصل ہو اسکو دنیاوی
طور پر بھی بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں اور مرنے کے بعد بھی
اخروی نعمتوں سےمالا مال ہو گا اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں بھی ایمان والوں
کو کئ خوشخبریوں سے نوازا ہےان میں سے چند آیاتِ قرآنی پیش خدمت ہیں ارشاد باری تعالیٰ ہے
1-
وَ بَشِّرِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ
عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ
كُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْهَا مِنْ ثَمَرَةٍ رِّزْقًا١ۙ قَالُوْا هٰذَا الَّذِيْ
رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ١ۙ وَ اُتُوْا بِهٖ مُتَشَابِهًا١ؕ وَ لَهُمْ فِيْهَاۤ
اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ١ۙۗ وَّ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ۰۰۲۵ ترجمہ کنزالعرفان۔ اور ان لوگوں
کوخوشخبری دو جو ایمان لائے اورانہوں نے اچھے عمل کئے کہ ان کے لئے ایسے باغات ہیں
جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔جب انہیں ان باغوں سے کوئی پھل کھانے کو دیا جائے
گا تو کہیں گے، یہ تو وہی رزق ہے جو ہمیں پہلے دیا گیاتھا حالانکہ انہیں ملتا جلتا
پھل (پہلے )دیا گیا تھا اور ان (جنتیوں )کے لئے ان باغوں میں پاکیزہ بیویاں ہوں گی
اور وہ ان باغوں میں ہمیشہ رہیں گے۔ 2-
سورہ بقرہ آیت نمبر62 میں اللّٰہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ
الْاٰخِرِ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١۪ۚ وَ لَا
خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لَا هُمْ يَحْزَنُوْنَ۶۲ ترجمہ
کنزالعرفان:- جو بھی سچے دل سے اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان لے آئیں اور نیک
کام کریں توان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ
غمگین ہوں گے۔ 3- سورۂ بقرہ کی ہی آیت نمبر 82 میں ارشاد ہوتا ہے وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰبُ
الْجَنَّةِ١ۚ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَؒ۸۲ترجمہ
کنزالعرفان ۔ اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ جنت والے ہیں انہیں ہمیشہ اس
میں رہنا۔ کسی بھی قوم یا نسل کا آدمی کسی بھی زمانے میں ایمان کے ساتھ اعمال صالح
رکھتا ہو گا تو وہ جنت میں جائے گا سورہ بقرہ آیت نمبر 82 تفسیرصراط الجنان قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے کہ اس میں جہاں جہاں کفار و مشرکین کے اعمال و افعال اور کفر سے متعلق تفصیلی بیان فرمایا
گیا وہیں ساتھ ایمان والوں کے لیے جگہ بہ جگہ مختلف خوشخبریاں بھی ارشاد فرمائیں گئی جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اعمال کی
قبولیت کے لیے ایمان کا ہونا لازم و ملزوم
ہے، کئی آیات میں ایمان اور اعمالِ صالحہ کا ذکر ہےاکٹھا آتا ہے مگر ان میں بھی ایمان
کا ذکر پہلے فرمایا گیا ممکن ہے کہ ایمان کا پہلے ذکر آنا اسی بات کی طرف اشارہ ہو
کہ اعمال صالحہ سے پہلے ایمان ضروری ہے لہذٰا پہلے ایمان لاؤ پھر نیک اعمال کرو اس
کے نتیجے میں کہیں جنت کی خوشخبری ہے تو کہیں بے خوف وبے غم ہونے کی بشارت ہے 4- سورۂ کہف آیت نمبر 30٫31 میں ارشاد ہے اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
اِنَّا لَا نُضِيْعُ اَجْرَ مَنْ اَحْسَنَ عَمَلًاۚ۳۰اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ جَنّٰتُ
عَدْنٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ
مِنْ ذَهَبٍ وَّ يَلْبَسُوْنَ ثِيَابًا خُضْرًا مِّنْ سُنْدُسٍ وَّ اِسْتَبْرَقٍ
مُّتَّكِـِٕيْنَ فِيْهَا عَلَى الْاَرَآىِٕكِ١ؕ نِعْمَ الثَّوَابُ١ؕ وَ حَسُنَتْ
مُرْتَفَقًاؒ۳۱
ترجمہ
کنزالعرفان ۔ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ہم ان کا اجر ضائع نہیں
کرتے جو اچھے عمل کرنے والے ہوں ۔ ان کے لیے ہمیشگی کے باغات ہیں ان کے نیچے نہریں
بہتی ہیں ، انہیں ان باغوں میں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے اور وہ سبز رنگ کے
باریک اور موٹے ریشم کے کپڑے پہنیں گے وہاں تختوں پر تکیے لگائے ہوئے ہوں گے۔ یہ کیا
ہی اچھا ثواب ہے اور جنت کی کیا ہی اچھی آرام کی جگہ ہے۔ سبحان اللہ کیسی کیسی نعمتیں ہیں جنکی صرف جھلکیاں
بیان فرمائی گئی ہیں حقیقت میں تو وہ کیسی ہوں گی جب اس کریم کے کرم سے ان میں داخل ہوں گے تو دیکھیں گے ان شاءاللہ
عزوجل صحیح رویات میں ہے کہ تمام اعضائے
وضو کو زیورات سے آراستہ کیا جائے گا مسلم کتاب الطھارۃ،باب تبلغ
الحلیۃحیث یبلغ الوضو ص 151حدیث40 اور
موٹے اور باریک ریشم کا انتہائی خوبصورت لباس پہنایا جائےگا یاد رہےدنیا کی زندگی میں مرد کے لیے زیورات
اور ریشم پہننا حرام ہے حدیث میں ہےجو دنیا میں پہنے گا وہ آخرت میں نہیں پہنے گا صراط الجنان فے تفسیر القران۔حوالہ بخاری کتاب
الباس حدیث 5832 5- سورہ کہف آیت 107٫108
میں فرمایا اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ
الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ۱۰۷خٰلِدِيْنَ فِيْهَا لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا۱۰۸ترجمہ
کنزالعرفان ۔ بیشک جو لوگ ایمان لائے اور
اچھے اعمال کئے ان کی مہمانی کیلئے فردوس کے باغات ہیں ۔ وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے،
ان سے کوئی دوسری جگہ بدلنا نہ چاہیں گے 6- فرمایا سورہ مریم آیت 96 میں ہے اِنَّ الَّذِيْنَ
اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا۹۶ترجمہ
کنزالعرفان ۔ بیشک وہ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کئے عنقریب رحمٰن ان کے لیے محبت
پیدا کردے گا اس آیت کے تحت تفسیر کبیر
اور تفسیر خازن میں ہے کہ اللہ پاک ان سے محبت کرے گا اور مخلوق کے دل میں انکی
محبت پیدا فرما دے گا 7- سورہ
یونس آیت نمبر 9 میں ہے اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ يَهْدِيْهِمْ رَبُّهُمْ
بِاِيْمَانِهِمْ١ۚ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهِمُ الْاَنْهٰرُ فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ۹
ترجمہ
کنزالعرفان ۔ بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے
اور انہوں نے اچھے اعمال کئے ان کا رب ان کے ایمان کے سبب ان کی رہنمائی فرمائے
گا۔ ان کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ (وہ)
نعمتوں کے باغوں میں ہوں گے۔ 8- سورہ حج آیت 23 اِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ
مِنْ ذَهَبٍ وَّ لُؤْلُؤًا١ؕ وَ لِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ۲۳(23 ترجمہ کنزالعرفان ۔ بیشک اللہ ایمان والوں کو
اور نیک اعمال کرنے والوں کو ان باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہیں
۔ انہیں ان باغوں میں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے اور جنتوں میں ان کا
لباس ریشم ہوگا 9- آیت نمبر 50 میں ہے فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ
رِزْقٌ كَرِيْمٌ۵۰ ترجمہ کنزالعرفان ۔ جو لوگ ایمان لائے اورانہوں نے نیک اعمال کئے
ان کے لیے بخشش اور عزت کی روزی ہے 10-
سورہ جاثیہ آیت نمبر 30 فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُدْخِلُهُمْ
رَبُّهُمْ فِيْ رَحْمَتِهٖ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْمُبِيْنُ۳۰ترجمہ
کنزالعرفان ۔ تو وہ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کئے ان کا رب انہیں اپنی
رحمت میں داخل فرمائے گا۔ یہی کھلی کامیابی ہے صرف یہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی آیات کی ایک تعداد ہے جس میں ایمان
والوں اور اچھے اعمال کرنے والوں کو کئی خوشخبریاں عطا فرمائی گئی ہیں۔ حقیقی کامیابی آخرت کی کامیابی ہے اس کے لیے ایمان کی سلامتی اور اعمال صالحہ
انتہائی اہم ہیں۔ لہذٰا ہمیں ایمان کی سلامتی کی فکر کرتے ہوئے خوب خوب اللّٰہ پاک
کی رضا کے لیے نیک اعمال کرتے رہنا چاہیے اور اس کے لیے دعوت اسلامی کا دینی ماحول
فی زمانہ بہت بڑی غنیمت ہے، جہاں لمحہ بہ لمحہ نیکیوں کے مواقع ملتے رہتے ہیں اور
نیکیاں کرنا آسان ہو جاتا ہے رب کریم سے
دعا ہے اللہ رب العزت ہمارے ایمان پہ
سلامتی کی مہر ثبت فرمائےاور اخلاص سے اعمال صالحہ بجالاتے ہوئے اپنے پیارے پروردگار
عزوجل کی رضا کے ساتھ جلوۂ محبوب صلی اللہ علیہ وسلم میں گنبد خضرا کے روبرو شہادت
کی موت، جنت البقیع میں مدفن جنت الفردوس میں پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے
قدموں میں جگہ نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

مقالے کی PDF کے لئے ڈاؤن لوڈ پر کلک کریں Download PDF
امام المحدثین کی سندِصحیح مسلم
کتب احادیث
میں صحیح بخاری کے بعد صحیح مسلم کا درجہ ہے، اس کا شمارکتب الجوامع میں
ہوتاہے، اس میں تمام ابواب، عقائد،تفسیر،احکام،تاریخ،مناقب اوررقاق وغیرہ موجود ہیں
،امام مسلم بن حجاج رحمۃ اللہ
علیہ
نے اسے اپنی حفظ کردہ تین لاکھ احادیث سے منتخب فرمایا، یہ مجموعہ احادیث تقریباً
پندرہ سال میں مکمل ہوا، آپ نے اس میں صرف صحیح ومر فوع راویات تحریرفرمائیں،صحیح
مسلم کی احادیث نہ صرف صحیح ہیں بلکہ ان کے صحیح ہونے پر محدثین
کا اجماع ہے، یہ اوراس جیسی دیگرخصوصیات کی وجہ سے صحیح مسلم کو چاردانگ عالم میں شہرت اورقبولیت عامہ حاصل ہوئی،مسلم شریف دورۂ حدیث کا جُزْوِلایُنْفَک
ہے، اسے پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ صدیوں سے
جاری ہےاور اِن
شآءَ اللہ
تا قیامت جاری رہے گا،امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ
علیہ(ولادت،1273ھ
مطابق 1856ء ،وفات، 22رجب المرجب 1354ھ
مطابق 20،اکتوبر1935ء)نے 1295ھ
مطابق 1878ء میں افضل المحدثین علامہ احمدعلی سہارنپوری رحمۃ اللہ
علیہ سے
دورۂ حدیث میں مسلم شریف وغیرہ کی اجازت
حاصل کی۔([1])انھوں
نے علامہ شاہ محمد اسحاق دہلوی مہاجر مکی سے اورانھوں نےسراج الہند علامہ شاہ
عبدالعزیزمحدث دہلوی سے،اسی طرح امام المحدثین مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ صاحب نے
ذوالحجہ 1337ھ کو اعلیٰ حضرت امام احمدرضا
سے بشمول مسلم شریف جملہ اجازات و اسانیدحاصل کیں ([2])
اوراعلیٰ حضرت نے اپنے مرشد حضرت شاہ آل
رسول مارہروی سے اور انھوں نے سراج الہندعلامہ شاہ عبدالعزیز سے اورسراج
الہندتحریرفرماتے ہیں :
(میرے والدگرامی علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
نے ) حضرت شیخ ابو طاہرسے (انھوں
) نے اسے(یعنی اجازت وسندصحیح مسلم کو) اپنے والدِ بزرگوار شیخ ابراہیم کردی سے حاصل کیا اور انہوں نے شیخ سلطان
مزاحی سے اور انہوں نے شیخ شہاب الدین احمد بن خلیل سبکی سے اور انہوں نے نجم
الدین غیطی سے اور انہوں نے شیخ زین الدین زکریا سے اور انہوں نے شیخ ابن حجر عسقلانی
سے اور انہوں نے شیخ صلاح بن ابی عمر المقدسی([3]) سے اور انہوں نے شیخ فخر الدین ابوالحسن علی بن احمد بن عبد الواحد المقدسی
معروف بابن البخاری سے اور انہوں نے شیخ ابوالحسن موید بن محمد طوسی سے اور انہوں
نے فقیہ الحرم ابوعبداللہ محمد بن فضل بن احمد الفراوی([4]) سے اور انہوں نے امام ابوالحسین عبد الغافر بن محمد الفارسی سے اور انہوں
نے ابو احمد بن عیسیٰ الجلودی نیشاپوری سے اور انہوں نے ابو اسحٰق ابراہیم بن محمد
بن سفیان الفقیہ جلودی سے (جلودی منسوب ہے طرف جمع جلد کی، اس لیے کہ وہ نیشاپور میں
کوچۂ چرم فروشوں میں رہتے تھے) اور انہوں نے
مولف کتاب ابوالحسین مسلم بن الحجاج القشیری نیشاپوری سے۔([5])
سندِ
صحیح مسلم کےرواۃ و شیوخ کا مختصرتعارف
امام
المحدثین مفتی سیدمحمد دیدارعلی شاہ رحمۃ
اللہ علیہ کی سند
صحیح مسلم بطریق ِعلامہ احمدعلی سہارنپوری اوربطریق امام
احمدرضا 25واسطوں سے نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مل جاتی ہے،ذیل میں ان تمام محدثین کا مختصرتعارف
بیان کیا جاتاہے :
۞امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد
دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث
اَلْوَری رحمۃ اللہ
علیہ، جَیِّد عالِم، اُستاذُالعُلَما، مفتیِ
اسلام اور اکابرین اہل سنّت سے تھے۔آپ 1273ھ مطابق 1856ھ کو اَلْوَر (راجِسْتھان،
ہِند )میں پیدا ہوئے
اور لاہورمیں 22رجب
المرجب 1354ھ
مطابق 20اکتوبر1935ء
کو (بروزپیر)نمازعصرکے سجدے میں وصال فرمایا، جامع مسجدحنفیہ
محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ لاہورسے متصل جگہ
میں تدفین کی گئی ۔ دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہور([6]) اور فتاویٰ دِیداریہ([7]) آپ کی یادگار ہیں۔( [8])
(1)افضل المحدثین علامہ احمدعلی سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1225ھ مطابق 1810کو ہوئی اور 6
جمادَی الاُولیٰ 1297ھ مطابق 16اپریل 1880ء کوتقریباً بہتر(72) سال کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔
آپ اپنے آبائی قبرستان متصل عید گاہ سہارنپور میں سپردِ خاک کئےگئے۔آپ حافظِ قرآن،
عالمِ اجل، استاذُالاساتذہ، مُحدّثِ کبیر اور کثیرالفیض شخصیت کےمالک تھے، اشاعتِ احادیث
میں آپ کی کوشش آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے، آپ نےصحاح ستہ اوردیگرکتب احادیث کی تدریس،
اشاعت، حواشی اور درستیٔ متن میں جو کوششیں
کی وہ مثالی ہیں۔([9])
(2)علامہ
شاہ محمد اسحاق دہلوی مہاجر مکی رحمۃ
اللہ علیہ کی پیدائش
ذوالحجہ 1197ھ
مطابق 1782ھ
دہلی میں ہوئی ،یہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کےنواسے ، شاگرد
اور جانشین تھے، پہلے دہلی پھرمکہ شریف میں تدریس کرتے رہے، وفات رجب 1262ھ
کو مکہ شریف میں ہوئی اورجنت المعلیٰ میں دفن کئے گئے۔ ([10])
(3) اعلیٰ حضرت،
مجددِدین وملّت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 10شوال 1272ھ مطابق6جون 1856ءکو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340ھ مطابق28اکتوبر1921ءکو
وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجعِ خاص وعام ہے۔آپ حافظِ قرآن، پچاس سے
زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر، فقیہ اسلام، مُحدّثِ وقت،مصلحِ امت، نعت گوشاعر،
سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریباً ایک ہزار کتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب
وعجم،استاذالفقہاوالمحدثین، شیخ الاسلام والمسلمین، مجتہدفی المسائل اور چودہویں
صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن([11])،فتاویٰ رضویہ([12])، جدّ الممتارعلی
ردالمحتار( [13]) اور حدائقِ بخشش([14]) آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ ([15])
(4) خاتِمُ
الاکابِر ،قدوۃ العارفین حضرت
علامہ شاہ آلِ رسول مار ہَروی رحمۃ اللہ علیہ
عالمِ باعمل،صاحبِ وَرَع وتقوی اورسلسلہ قادریہ رضویہ کے سینتیسویں (37)
شیخِ طریقت ہیں۔ آپ کی ولادت 1209ھ
کو خانقاہ برکاتیہ مار ہرہ شریف (ضلع
ایٹہ،یوپی) ہند میں ہوئی اور یہیں 18ذوالحجہ1296ھ کو وصال فرمایا،تدفین دلان شرقی گنبددرگاہ حضرت
شاہ برکت اللہ([16])رحمۃ
اللہ علیہ میں
بالین مزارحضرت سیدشاہ حمزہ([17]) میں ہوئی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد
حضرت سید شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی ([18])رحمۃ
اللہ علیہ کے ارشاد پر سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃاﷲ
علیہ کے درسِ حدیث میں شریک ہوئے۔ صحاحِ ستہ کا دورہ کرنے کے بعد حضرت محدث
دہلوی قدس سرہ سے علویہ منامیہ کی اجازت اور احادیث و مصافحات کی اجازتیں
پائیں،فقہ میں آپ نے دوکتب مختصرتاریخ اور خطبہ جمعہ تحریرفرمائیں ۔([19])
(5) سِراجُ الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدّثِ
دہلوی رحمۃ اللہ
علیہ علوم و فُنون کے جامع، استاذُ العلماء و
المحدثین، مُفَسِّرِ قراٰن، مصنّف اور مفتیِ اسلام تھے،
تفسیرِ عزیزی، بُستانُ المُحدّثین، تحفۂ اِثنا عشریہ اورعاجلہ نافعہ( [20])آپ کی مشہور کُتُب ہیں۔ 1159ہجری میں پیدا ہوئے اور 7 شوال
1239ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک درگاہ حضرت شاہ وَلِیُّ اللہ مہندیاں،
میردرد روڈ، نئی دہلی ہند میں ہے۔([21])
(6) محدث
ہندحضرت شاہ ولی اللہ احمدمحدث دہلوی فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 4 شوال 1110ھ
کو ہوئی اوریہیں29محرم 1176ھ
مطابق 1762ء
وصال فرمایا،تدفین مہندیاں، میردرد روڈ، نئی دہلی ہندمیں ہوئی،جو درگاہ شاہ ولی
اللہ کے نام سے مشہورہے، آپ نے اپنے والدگرامی
حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی)[22]( رحمۃ
اللہ علیہ سے تعلیم حاصل کی، حفظ قرآن کی بھی سعادت پائی،
اپنے والد سے بیعت ہوئے اور خلافت بھی ملی، والد
کی رحلت کے بعد ان کی جگہ درس وتدریس اور وعظ و ارشاد میں مشغول ہو گئے۔ 1143ھ
میں حج بیت اللہ سے سرفراز ہوئے اور وہاں کے مشائخ سے اسناد
حدیث واجازات حاصل کیں۔ 1145ھ کو دہلی واپس آئے،آپ بہترین مصنف
تھے، مشہورِکتب میں فتح الرحمن فی ترجمہ
القرآن فارسی، الفوز الکبیرفی اصول
التفسیر،مؤطاامام ملک کی دو شروحات المصفیٰ فارسی،المسوّی عربی، حجۃ اللہ البالغہ
فارسی، ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء
فارسی، الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ فارسی، انسان العين فی مشايخ الحرمين
اورالارشادالی مہمات الاسناد عربی)[23] ( مشہورکتب ہیں۔([24])
(7) حضرت شیخ جمال الدین ابوطاہرمحمدبن
ابراہیم کورانی مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت مدینہ شریف میں 1081ھ
مطابق 1670ء
کو ہوئی اوریہیں 1145ھ مطابق 1733ء
کو وصال
فرمایا اورجنت البقیع میں دفن کئے گئے،آپ جیدعالم دین ،محدث ومسند،مفتی ٔ شافعیہ
مدینہ منورہ،علامہ شیخ ابراہیم کردی آپ کے والدصاحب اورشیخ احمدقشاشی([25])نانامحترم تھے۔ والدصاحب کے علاوہ،مفتی
شافعیہ مدینہ منورہ شیخ سیدمحمدبن عبدالرسول برزنجی([26])، شیخ حسن بن علی عُجَیْمی([27] ) اور شیخ
عبداللہ بن سالم([28] )سے اجازات حاصل کیں، کئی کتب بھی لکھیں
،جواب تک مطبوع نہیں ہوسکیں ،مکتبہ حرم مکی میں آپ کی ثبت کا مخطوط پانچ اوراق میں
محفوظ ہے ۔([29])
(8) حضرت
امام شیخ برہان الدین، ابوالعرفان ابراہیم بن حسن کورانی کردی رحمۃ اللہ
علیہ
کی ولادت کردستان(عراق) میں 1025ھ کو
ہوئی،آپ شافعی عالم دین،محدث ومسند، سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ طریقت ہیں۔
80سے زائدکتب لکھیں جن میں
اسانیدومرویات پر مشتمل کتاب الامم لایقاظ الھمم([30]) مطبوع ہے۔آپ
عراق سے ہجرت کرکے مدینہ شریف مقیم ہوگئے تھے،یہیں ایک قول کے مطابق18ربیع الآخر 1101ھ مطابق 29جنوری 1690 ء میں وصال
فرمایا۔([31])
(9)حضرت شیخ ابوالعزائم سلطان بن احمدسلامہ مزّاحی
مصری ازہری شافعی رحمۃ
اللہ علیہ کی
ولادت 985ھ کو مصرمیں ہوئی اوریہیں 17جمادی
الآخرہ1075ھ میں وصال فرمایا، تدفین مجاورین قبرستان قاہرہ میں ہوئی،آپ نے علمائے
عصرسے حفظ قرآن وقرأت، حدیث وفقہ و تصوف اوردیگرعلوم حاصل کرکے 1008ھ میں فارغ
التحصیل ہوئے اور جامعۃ الازہر قاہرہ میں تدریس کرنے لگے، آپ امام الائمہ، بحرالعلوم،
استاذالفقہاءوالقراء، محدث وقت، علامہ زمانہ،نابغہ عصر،زہدوتقویٰ کے پیکرمرجع خاص
وعام عابدوزاہداورکئی کتب کے مصنف تھے۔([32])
(10) شیخ الاسلام،ناصرالملت والدین حضرت امام شہاب الدین احمد بن خلیل سبکی
شافعی رحمۃ
اللہ علیہ کی ولادت 939ھ اور
وفات 1032ھ میں ہوئی، آپ
نے مدرسہ باسطیہ مصر میں داخلہ لےکر علم دین حاصل کیا،جیدعلمائےمصرسے استفادہ کرکے
محدث وفقیہ بننے کی سعادت پائی،حدیث وفقہ میں آپ کی کئی تصانیف ہیں،ان میں سے فتح
الغفور بشرح منظومۃ القبور)[33]( مشہور ہے۔([34])
(11) شیخ الاسلام حضرت امام نجم الدین ابوالمواہب محمدبن احمدغیطی سکندری رحمۃ اللہ
علیہ کی پیدائش 910ھ اوروفات
981ھ میں ہوئی، آپ کا تعلق
مصرکےصوبہ سکندریہ کے مرکزی شہر سکندریہ سے ہے،آپ نے
دیگر مشائخ بالخصوص شیخ الاسلام زین الدین زکریا انصاری رحمۃ اللہ علیہ سے علم
حدیث،فقہ اورتصوف وغیرہ حاصل کرکے اسناداورتدریس وافتاء کی اجازات لیں،آپ امام
الوقت، مسندالعصر، محدث زمانہ، مرشد گرامی، محبوب ِ خاص وعام،بغیرلومۃ لائم برائی
سے منع کرنے والے اور کئی کتب
کے مصنف تھے۔ بهجة السامعين والناظرين بمولد سيد الاولين
والآخرين اورقصۃ المعراج الصغری( [35])وغیرہ آپ کی تصنیف کردہ کتب ہیں۔([36])
(12) شیخ الاسلام حضرت امام زین الدین
ابویحییٰ زکریابن محمد انصاری الازہری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 826ھ کو سُنیکہ(صوبہ شرقیہ)مصرمیں ہوئی،جامعۃ
الازہرسے علوم اسلامیہ حاصل کئے،قاہرہ میں مقیم ہوگئے ،آپ فقیہ شافعی،محدث
وقت،حافظ الحدیث، صوفی باصفا،قاضی القضاہ،بہترین قاری،مصنف کتب کثیرہ،لغوی
ومتکلم،مؤرخ و مدرس، مفتی اسلام اورنویں صدی ہجری کےمجدد ہیں،آپ نے
4ذوالحجہ925ھ کو قاہرہ مصرمیں وفات پائی۔
قاہرہ میں امام شافعی کے مزارکے قریب قرافہ صغریٰ میں تدفین ہوئی،آپ کا مزارمرجع
خلائق ہے۔ الدقائق المحكمة فی شرح
المقدمة([37])،تحفۃالباری علی صحيح البخاری([38]) اور
اَسنى المطالب([39] ) آپکی
مشہورکتب ہیں۔([40])
(13) شیخُ الاسلام، عمدۃُ
المحدثین، شہابُ الدّین، حافظ احمد بن علی ابنِ حجر عسقلانی شافعی رحمۃ اللہ
علیہ کی ولادت 773ھ کو قاہرہ مصر میں
ہوئی اور یہیں 28ذوالحجہ852ھ کو وصال فرمایا۔ تدفین قَرافہ صُغریٰ میں ہوئی۔ آپ
حافظُ القراٰن، محدثِ جلیل، استاذُ المحدثین، شاعرِ عربی اور 150سے زائد کُتُب کے مصنف ہیں۔ آپ کی تصنیف فتحُ الباری شرح صحیح البخاری ( [41])کو
عالمگیر شہرت حاصل ہے۔([42])
(14)حضرت شیخ ابوعبداللہ صلاح الدین محمد
بن ابوعمر احمد بن ابراہیم مقدسی صالحی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 684ھ اوروفات24شوال 780ھ میں ہوئی ، اکابرین اہل سنت سے علوم
اسلامیہ میں مہارت حاصل کی اوراسنادوجازات حاصل کیں،حصول علم کے بعد آپ اپنے
داداحضرت ابوعمرکے مدرسے کی مسندپر بیٹھےاورایک زمانہ درس وتدریس میں مشغول رہےیہاں تک مسندالعصرکے لقب سے ملقب ہوئے،آپ وہ
ہستی ہیں جنہوں نے امام ابن بخاری فخرالدین علی بن احمد مقدسی رحمۃ اللہ علیہ سے احادیث کی اجازت
خاصہ حاصل کی، یوں آپ کی یہ سندسماع متصل بشرط صحیح
نوواسطوں سے نبی کریم سے مل جاتی ہے،کئی خوش نصیبوں بالخصوص اہل مصرنے آپ کی خدمت
میں حاضرہوکریہ سند حاصل کی۔([43])
(15)محدث الاسلام، ابن البخاری حضرت امام فخرالدین ابوالحسن علی بن احمدمقدسی
صالحی حنبلی رحمۃ
اللہ علیہ کی ولادت 595ھ کو ایک علمی گھرانے میں ہوئی، اور آپ نے ربیع الاآخر690ھ میں وصال فرمایا، عالم
وفقیہ، فاضل وادیب ،صاحب
وقارو ہیبت، تقوی وورع کے پیکر اورعلم ووعقل میں کامل تھے،محدثین میں آپ بہت مکرم
و محترم تھے،آپ کو مسند العالم کہاجاتاہے،عرصہ دارازتک خدمت قرآن وسنت میں مصروف
رہے، شام،مصراورعراق کے
محدثین نے آپ سے استفادہ کیا۔([44])
(16) حضرت شیخ رضی الدین ابوالحسن
مؤیدبن محمد طوسی نیشاپوری خراسانی رحمۃ اللہ
علیہ کی پیدائش 524ھ اوروصال شبِ جمعرات 20شوال 617ھ کو
نیشاپور(ایران) میں ہوا،آپ امام القرأت والحدیث،مسنِدُ
الخراسان اورثقہ راوی حدیث تھے ،آپ نے جیدعلما ومحدثین سے علوم اسلامیہ کوحاصل کیا
،آپ نے طویل عرصے تک تدریس کے فرائض سرانجام دئیے چاردانگ عالم کے علما نے آپ سے استفادہ
کیا،آپ کی كتاب الاربعين عن المشايخ الاربعين والاربعين
صحابيا وصحابیۃ)[45](مطبوع ہے ۔([46])
(17)کمال الملّت والدین حضرت شیخ ابوعبداللہ محمد بن فضل
فراوی نیشاپوری صاعدی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت441ھ اوروفات 21 شوال 530ھ میں ہوئی، آپ کی تدفین حضرت امام ابن خزیمہ)[47]( رحمۃُ اللہِ علیہ کے پہلومیں ہوئی،آپ
نے جید علما و محدثین بالخصوص امام الحرمین علامہ ابوالمعالی جوینی)[48]( رحمۃُ اللہِ علیہ اوراولیائے کرام بالخصوص امام ابوالقاسم قشیری)[49](رحمۃُ اللہِ علیہ سے استفادہ کیا ، آپ امام، مناظر، واعظ، مفتی، مسند خراسان اورفقیہ حرم تھے،آپ حسن اخلاق کے
مالک تھے، اکثرمسکراتے رہتے تھے، غرباپر بہت مہربان تھے، جودوسخاوت کے پیکرتھے۔آپ
نے عرصہ دارزتک مدرسہ ناصحیہ میں تدریس اورنیشاپورکی
مسجدکبیر مُطرّزمیں امامت کے فرائض سرانجام دئیے، آپ سے استفادہ کرنے والوں کی تعدادبھی
کثیرہے ۔([50])
(18)حضرت ابوالحسین عبدالغافربن محمد فارسی نیشاپوری رحمۃ اللہ
علیہ کی ولادت 353ھ میں ہوئی ،365ھ میں زاہد زمانہ
حضرت محمد بن عیسی جلودی سے مسلم شریف کا
درس لیا،وصال 5شوال 448ھ کو نیشاپورمیں ہوا،آپ امام،ثقہ اور
نیک شخصیت کے مالک تھے ۔ کثیرعلماومحدثین نے آپ سے احادیث کو روایت کیا ہے ۔([51])
(19)حضرت ابواحمد محمد بن عیسی جلودی
نیشاپوری رحمۃ
اللہ علیہ ایران کے شہر نیشاپور کے رہنے والے
تھے ،آپ کی پیدائش تقریبا 288ھ میں ہوئی ، آپ نے حضرت امام ابن
خزیمہ وغیرہ مشائخ سے علم حدیث حاصل کیا، آپ
جیدعالم دین،ثقہ راوی حدیث ، زاہدزمانہ اوراکابرصوفیائے وقت سے تھے ،اپنے ہاتھ سے رزق حلال کمایاکرتے تھے،آپ نے
اسی سال کی عمرمیں 24ذوالحجہ368ھ کو وصال فرمایا ،تدفین حیرہ(نجف اشرف ،عراق ) کے قبرستان میں کی گئی، آپ کے شاگردوں میں صاحب مستدرک امام حاکم([52]) کو شہرت حاصل ہوئی ۔([53])
(20)حضرت ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن سفیان نیشاپوری رحمۃ اللہ
علیہ امام
الوقت، فقیہ زمانہ،ثقہ راوی حدیث،مستجاب الدعوات اورمحدث العصرتھے،آپ نے نیشاپور، عراق
اورحجازمقدس میں علم دین حاصل کیا ، امام مسلم کے علاوہ جن علما سے استفادہ کیا
ان میں امام الحدیث حضرت ایوب بن حسن حنفی)[54]( بھی ہیں
۔آپ کا وصال رجب 308ھ میں ہوا۔([55])
(21)امامُ
المسلمین حضرتِ امام مُسلم بن حَجّاج رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 206ھ میں نیشا پور (خُراسَان) میں ہوئی۔ 24رجب 261ھ کووِصال
فرمایا، مزارمبارک نیشا پور میں ہے۔ غیر معمولی ذہانت کے مالک، حافظُ الحدیث،
اِمامُ المُحَدِّثین اور عظیم شخصیت کے مالک تھے، اپنی تصنیف”صحیح مسلم“ کی وجہ سے
عالمگیر شہرت حاصل ہوئی۔([56]) رحمۃ اللہ علیہم اجمعین۔
۞صحیح
مسلم میں ہرحدیث پاک سند کے ساتھ ہے پہلی
حدیث پاک کو دواسناد سے بیان کیا گیا ہے۔([57]) اس کی پہلی
سند کے روایان کامختصرتعارف ملاحظہ کیجئے:
(22)سیدالحفاظ،حضرت امام ابنِ ابی شیبہ ابوبکرعبداللہ
بن محمد عبسی کوفی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 159ھ میں ہوئی،علمی گھرانے میں پروش پائی، بچپن سے ہی
علم حدیث کی جانب متوجہ ہوئے ،جیدمحدثین سے احادیث کی سماعت کی ،امام بخاری ومسلم
جیسے اکابرین نے آپ سے احادیث مبارکہ سماعت کرنے کی سعادت پائی،آپ ثقہ و صدوق، محدث
و مفسر،حدیث کے بڑے حافظ،صاحب مسند، وقت کے امام،بے مثل اورصاحب تصنیف تھے، آپ کی
کتاب مصنف ابن ابی شیبہ(([58]کو چاردانگ عالم میں شہرت حاصل ہوئی۔ آپ نے 8محرم 235ھ کو کوفہ میں وصال فرمایا۔([59])
(2) محدث عراق حضرت وکیع بن جراح رواسی کوفی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 129ھ کو کوفہ میں ہوئی، اکابرین اسلام
سے علم حاصل کیااورمحدث ومفسربن کرابھرے ،حضرت امام اعظم ابوحنیفہ([60]) ،حضرت سفیان ثوری([61])،حضرت سفیان بن عیینہ( [62])اورامام شعبہ بن حجاج جیسے اساتذہ
کی صحبت پائی ، زندگی بھرقرآن وسنت کےدرس وتدریس میں مصروف رہے،آپ کثیرالعلم،محدث کبیر،
مفسرِعظیم، فقہ وسنن کےمصنف ،تقویٰ و ورع کے پیکراورعبادت وریاضت میں یکتاتھے۔آپ
نے حج سے واپسی پر 10محرم 197ھ کو وصال فرمایا۔آپ کا شمارتبع تابعین میں
ہوتاہے۔حضرت عبد اللہ بن مبارک ([63])اورامام احمد بن حنبل([64]) جیسے ائمہ آپ کے شاگردہیں ۔([65])
(24) حضرت ابوبسطام شعبہ بن حجاج رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 80ھ کو واسط (عراق)کے ایک گاؤں میں ہوئی ،واسط میں پرورش پائی پہلے شعروشاعری
اورپھر علم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے ،400تابعین سے احادیث مبارکہ کی سماعت کی اس کے لیےبلادکثیرہ کا
سفرفرمایا ،پھر بصرہ میں رہائش پذیرہوئے
اوردنیاوی مشاغل چھوڑکر ترویج حدیث کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیا ،درس وتدریس
کےعلاوہ عبادت سے بہت لگاؤتھا ،نوافل میں طویل رکوع وسجودکرنا آپ کا معمول تھا
،کثرت سے نفلی روزے بھی رکھتے ،کثیرمحدثین نے آپ سے استفادہ کیا ،160ھ کو بصرہ میں وصال
فرمایا،آپ امیرالمؤمنین فی الحدیث، امام المتقین،محدث ومفسر ، امام الجرح والتعديل، ایثاروسخاوت کے
پیکر اورمرجع خاص و عام تھے، حکمران بھی آپ کو قدرکی نگاہ سے دیکھتے اورآپ کی خدمت
کو اپنی سعادت سمجھتے۔([66])
(25)امام العلماء حضرت حکم بن عتیبہ عجلی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 47ھ میں ہوئی اورآپ نے 115ھ کو کوفہ میں وصال
فرمایا،آپ کی کنیت ابومحمد،ابوعمرو یا ابوعبداللہ تھی، آپ نے بعض صحابہ کرام مثلا حضرت
زیدبن ارقم وغیرہ کی زیارت کرکے تابعی ہونے کاشرف پایاہے،آپ امام کبیر، عالم وفقیہ، صاحب عبادت وتقوی،متبع سنت، ثقہ روای
حدیث اورکثیرالحدیث محدث تھے۔آپ نے کثیرتابعین سے علم حاصل کیا،آپ کا حلقۂ علم
کافی وسیع
ہے،بڑے بڑے تبع تابعی بزرگوں نے آپ سےاحادیث مبارکہ روایت کی ہیں۔([67])
(26)فقیہ
شہیر
حضرت ابوعیسیٰ عبدالرحمن بن ابی لیلی یساراوسی انصاری رحمۃ اللہ علیہ
کی ولادت 17ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی،آپ کے والدابی
لیلی یساربن بلال انصاری([68]) صحابی رسول ہیں ،آپ کو 120صحابہ کی صحبت نصیب ہوئی،آپ کا
شمارکبارتابعین میں ہوتاہے قرآن وحدیث سمیت تمام علوم میں دسترس رکھتےتھے۔آپ عظیم فقیہ،محدث
اورقاری تھے،قرآن کریم کی تلاوت وتدریس کی جانب خوب توجہ تھی،حضرت علی مرتضی کَرَّمَ اللہُ وَجْہَہُ
الْکَرِیْم
کی معیت میں کئی جنگوں میں حصہ لیا،کوفہ میں رہائش اختیارکرلی اور وہاں کے قاضی
بھی رہے، 83ھ کو واقعہ دیرجماجم([69]) میں شہادت پائی ۔طبعاًسادہ طبیعت
مگرباوقارشخصیت کے مالک تھے ۔([70])
(27) صحابی رسول حضرت سمرہ بن جندب رضی
اللہ عنہ
کی پیدائش بیرون مدینہ غطفان قبیلے میں ہوئی، والدکا انتقال ہوگیا، والدہ انہیں لے
کر مدینہ منورہ آگئیں اور انصارمیں شادی کرلی، یہی وجہ ہے کہ آپ کا شمارانصارمیں
ہوتاہے، مکہ مکرمہ کے مسلمانوں کی ہجرت مدینہ کے بعد انھوں نے اسلام قبول کیا
اورغزوۂ بدرکے بعد تمام غزوات میں شریک
ہوئے، جب عراق فتح ہوا تو آپ بصرہ رہائش پذیرہوگئے، ایک سال یہاں کے گورنربھی
رہے،آپ بہت ذہین تھے،جوحدیث سن لیتے یادکرلیتے تھے،آپ نےاحادیث کا ایک مجموعہ بھی
تیارکروایا کبارتابعین مثلا امام حسن بصری([71]) اورامام
ابن سیرین([72])
وغیرہ نے آپ سے احادیث سماعت کیں،آپ سنت کےپابند،ثقہ راوی حدیث،راست گواورحسن
اخلاق کے پیکر تھے۔آپ کا وصال بصرہ میں 58ھ
کو ہوا۔([73])
۞ہمارے
پیارے آقاحضرت محمد مصطفی صلی
اللہ علیہ والہ وسلم کی
ولادت 12 ربیع الاول مطابق 20اپریل 571ء کو
وادی بطحا مکہ شریف کے معززترین قبیلے قریش میں ہوئی اور12ربیع الاول 11ھ مطابق 12 جون 632ء کو مدینہ منورہ میں وصال
ظاہری فرمایا۔ آپ وجہ ٔ تخلیق کائنات،محبوب خدا،امام المرسلین،خاتم النبیین
اورکائنات کی مؤثرترین شخصیت کے مالک تھے،آپ نے 40 سال کی عمر میں اعلان نبوت فرمایا،13سال مکہ شریف اور10سال
مدینہ شریف میں دین اسلام کی دعوت دی،اللہ پاک نے آپ پر عظیم کتاب قرآن کریم نازل
فرمائی۔اللہ پاک کے آپ پر بے شمار دُرُوداورسلام ہوں۔([74])
حواشی
[1]... مہرِمنیرسوانحِ حیات ، ص،
84 ،تذکرۂ محدثِ سُورتی ،ص، 26
[2]... مقدمہ مِیزانُ الادیان بتفسیرالقرآن،ص،80
[3] ... ان کا مکمل
نام شیخ صلاح الدین ابوعبداللہ محمد بن ابوعمراحمدبن ابراہیم مقدسی صالحی حنبلی
رحمۃ اللہ علیہ ہے ۔(الدررالکامنہ،3/304،رقم817)
[4] ...مقدمہ میزان الادیان میں علامہ محمد بن فضل رحمۃ اللہ علیہ کی
نسبت فرادی لکھی ہے جوکہ کتابت کی غلطی ہے ،درست فراوی ہے ،کیونکہ آپ کے والدمحترم علامہ فضل بن احمد فراوہ کے رہنے
والے تھے فراوی دہستان اورخوارزم کے درمیان ایک شہرہے جسے رباط فراوہ بھی
کہاجاتاتھا، اسے عباسی خلیفہ مامون کے زمانے میں عبداللہ بن طاہرنے بنایاتھا،اب یہ
ترکمانستان کے صوبے بلخان کا ایک شہرہے، اسے پَراو
بھی کہاجاتاہے ۔
[5]... تفسیر میزان
الادیان ،1/ 74،75
[6] ... امام المحدثین نے دارُالعُلُوم حِزْبُ
الْاَحْناف لاہورکو 1924ء میں مسجدوزیرخاں اندرون دہلی گیٹ میں شروع فرمایا
،پھر یہ جامع مسجدحنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ منتقل کردیا گیا ،جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے آپ کے
صاحبزادےمفتی اعظم پاکستان مفتی شاہ ابوالبرکات سیداحمدرضوی صاحب اس کی وسیع وعریض عمارت بیرون بھاٹی گیٹ گنج بخش روڈ پر بنائی ،جو اب بھی قائم ہے ۔
[7] ...فتاویٰ دیداریہ کے مرتب مفتی محمد علیم الدین نقشبندی
مجددی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ، اس میں 344فتاویٰ ہیں ،87فتاویٰ
کے علاوہ تمام فتاویٰ مفتی سیددیدارعلی شاہ صاحب کے تحریرکردہ ہیں،اسے مکتبۃ
العصرکریالہ جی ٹی روڈ گجرات پاکستان نے 2005ء کو بہت خوبصورت کاغذپر شائع کیا ہے ،اس کے کل صفحات 864ہیں ۔
[9]... حدائقِ حنفیہ،ص،510۔صحیح
البخاری مع الحواشی النافعۃ،مقدمہ،1/37
[10]... حیات شاہ اسحاق محدث دہلوی،18،33،77
[11] ... کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ
اللہ علیہ کا قرآن کریم کا بہترین تفسیری اردوترجمہ ہے جسے پاک وہند اوربنگلادیش میں مقبولیت حاصل ہے اس پر صدرالافاضل علامہ
سیدمحمد نعیم الدین مرادآبادی نے خزائن العرفان فی تفسیرالقراٰن اورحکیم الامت
مفتی احمدیارخان نعیمی نے نورالعرفان علی کنزالایمان کے نام سے تفسیری حواشی ہیں ۔
[12]... اعلیٰ حضرت امام
احمدرضا خان رحمۃ
اللہ علیہ
کے کثیرعلوم میں دسترس تھی ،اس پر آپ کی تقریبا ایک ہزارکتب ورسائل شاہدہیں ،مگرآپ
کا میلان فتاویٰ نویسی کی جانب سے تھا آپ کے جو فتاویٰ محفوظ کئے جاسکے انہیں
العطایہ النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ کے نام سے جمع کیا گیا ،پہلی جلدتو آپ کی
حیات میں ہی شائع ہوگئی تھی، یک بعددیگرےاس کی بارہ جلدیں شائع ہوئیں،1988ء میں مفتی
اعظم پاکستان، استاذالعلماء مفتی عبدالقیوم ہزاروی (بانی
رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور)نے اس کی تخریج و ترجمہ کا کام شروع کیا،جس کی تکمیل 2005ء کو 33جلدوں کی صورت میں ہوئی،جس کے صفحات 21 ہزار،9سو70ہیں
۔(فتاویٰ رضویہ ،30/5،10)
[13]... جدالممتارعلی ردالمحتار،اعلیٰ حضرت کا
فقیہ حنفی کی مستندکتاب ردالمحتارالمعروف فتاویٰ شامی پر عربی میں حاشیہ ہے جس پر
دعوت اسلامی کے تحقیقی وعلمی شعبے المدینۃ العلمیہ نے کام کیا اور2006ء کو اسے 7 جلدوں
میں مکتبۃ المدینہ کراچی سے شائع کروایا ہے، 2022ء میں اس کی اشاعت دارالکتب العلمیہ بیروت سے ہوئی۔
[14] ... حدائق بخشش اعلیٰ حضرت
کا نعتیہ دیوان ہے جسے مختلف مطابع نے شائع کیا ہے، المدینۃ العلمیہ (دعوت
اسلامی)نے اسے 2012ء میں 446صفحات پرشائع کیا ہے،اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
[15]...حیاتِ اعلیٰ حضرت،ص، 1/58، 3/295،مکتبۃ
المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،ص،282، 301
[16] ... سلطانُ العاشقین، حضرت سیّد شاہ بَرَکَتُ اللہ
مارہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت1070ھ کو بلگرام (اودھ، یوپی)
ہند میں ہوئی۔ 10 محرَّمُ الحرام 1142ھ
کو مارہرہ مطہرہ (ضلع ایٹہ، یوپی) ہند میں وصال فرمایا۔ آپ عالمِ باعمل، شیخ
المشائخ، مصنفِ کتب، صاحبِ دیوان شاعر، عوام و خواص کے مرجع اور بانیِ خانقاہ
برکاتیہ ہیں۔(تاریخ خاندان برکات، ص12تا17)
[17] ... زبدۃ الواصلین، حضرت سیّد شاہ حمزہ مارہروی
علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1131ھ مارہرہ شریف (یوپی)
ہند میں ہوئی اور یہیں 14 محرَّمُ الحرام 1198ھ کو وصال فرمایا، آپ کا
مزار ”درگاہ شاہ بَرَکَتُ اللہ“ کے دالان میں شرقی گنبد میں ہے۔ آپ عالمِ باعمل، عظیم
شیخِ طریقت، کئی کتب کے مصنف اور مارہرہ شریف کی وسیع لائبریری کے بانی ہیں۔(تاریخ
خاندان برکات، ص20تا23)
[18] ... شمس مارَہرہ، غوثِ زماں، حضرت سیّد شاہ
ابوالفضل آلِ احمد اچھے میاں مارَہروی قادری علیہ رحمۃ اللہ الوَالی کی ولادت 1160ھ
کو مارَہرہ مطہرہ (ضلع ایٹایوپی) ہند میں ہوئی، وصال 17 ربیع ُالاوّل 1235ھ کو یہیں
فرمایا۔ آپ جَیِّد عالمِ دین، واعِظ، مصنّف اور شیخِ طریقت تھے، آدابُ السالکین اور
آئینِ احمدی جیسی کتب آپ کی یادگار ہیں۔ آپ سلسلہ قادریہ رضویہ کے 36ویں شیخِ
طریقت ہیں۔ (احوال و آثارِ شاہ آل ِاحمد اچھے میاں مارہروی، ص26)
[20] ...آپ کی یہ چاروں تصانیف تفسیرِ عزیزی، بُستانُ المُحدّثین ،
تحفۂ اِثنا عشریہ اورعاجلہ نافعہ فارسی
میں ہیں، تحفہ اثنا عشریہ کو بہت شہرت حاصل ہوئی ،اس کا موضوع ردرفض ہے،تفسیرعزیزی
کا نام تفسیرفتح العزیزہے ،جو چارجلدوں پر مشتمل ہے ،بستا ن المحدثین میں محدثین
کے مختصرحالات دیئے گئے ہیں جبکہ آپ کا رسالہ عاجلہ نافعہ فن حدیث پرہے
جس میں آپ نے اپنی اسنادواجازات کو بھی ذکرفرمایا ہے ،اس کے 26صفحات
ہیں ۔
[21]... الاعلام للزرکلی، 4/ 14۔ اردو دائرہ معارفِ
اسلامیہ، 11/634
[22] ... حضرت مولاناشاہ
عبدالرحیم دہلوی کی ولادت 1054ھ میں پھلت (ضلع مظفرنگر،یوپی،ہند)میں ہوئی اوروصال
12صفر1131ھ کودہلی میں فرمایا ،آپ جیدعالم دین ، ظاہر ی و باطنی علوم سے آگاہ، صوفی بزرگ اورمحدث
وقت تھے ،علم فقہ میں بھی عبوررکھتے تھے ، فتاوی عالمگیری کی تدوین میں بھی شامل رہے ،کئی سلاسل کے بزرگوں سے روحانی فیضان حاصل کیا ، ،سلسلہ قادریہ
،سلسلہ نقشبندیہ،سلسلہ ابوالعلائیہ، سلسلہ چشتیہ اورسلسلہ قادریہ قابل ذکر ہیں۔( انفانس العارفین ،21،22،198)
[23]...ان چارکتب فتح الرحمن فی ترجمہ القرآن ،الفوز الکبیرفی اصول التفسیر،مؤطاامام ملک کی
دوشروحات المصفیٰ ،المسوّی ، کا موضوع نام
سے واضح ہے ،آپ نے اپنی تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں احکام اسلام کی
حکمتوں اورمصلحتوں کوتفصیل کے ساتھ بیان
کیاہے ،اس میں شخصی اوراجتماعی مسائل کو بھی زیرِ بحث لایا گیاہے ،کتاب ازالۃ
الخفاء ردرفض پرہے ،آپ کے رسالے الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ سے ظاہر ہوتا ہے
کہ آپ عقائدومعمولاتِ اہل سنت پر کاربند تھے،آپ کی آخری دونوں تصانیف
آپ کی اسنادواجازات اورآپ کے مشائخ کے
تذکرے پرمشتمل ہیں ۔
[24]... الفوزالکبیر،7،8،شاہ ولی
اللہ محدث کے عرب مشائخ ،23
[25] ... قطب زماں ،حضرت سیدصفی الدین احمدقشاشی بن
محمدبن عبدالنبی یونس قدسی مدنی حسینی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت12ربیع
الاول 991ھ
مطابق1583ء کو
مدینہ منورہ میں ہوئی ،آپ حافظ قرآن، شافعی عالم دین ،عرب وعجم کے تقریبا
سوعلماومشائخ سے مستفیض،سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ طریقت ، 70کے
قریب کتب کے مصنف،نظریہ وحدۃ الوجودکے قائل وداعی تھے ۔آپ نے 19ذوالحجہ 1071ھ مطابق 1661ء کو مدینہ شریف میں وصال فرمایااورجنت البقیع میں
مدفون ہوئے،تصانیف میں روضہ اقدس کی زیارت کے لیے سفرِ مدینہ کے اثبات پرکتاب
’’الدرۃ الثمینۃ فیمالزائرالنبی الی المدینۃ‘‘آپ کی پہچان ہے۔(
الامم لایقا ظ الھمم ،125تا127،شاہ ولی
اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،8تا10،42)
[26] ...مُجدّدِوقت حضرت سیّد محمدبن عبدالرسول بَرْزَنْجی مَدَنی شافعی
رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت شہرزُور (صوبہ سلیمانیہ، عراق) 1040 ھ میں ہوئی
اور یکم محرم 1103 ھ کو مدینۂ منوّرہ میں وصال
فرمایا اور جنّتُ البقیع میں دفن ہوئے۔آپ حافظِ قراٰن، جامعِ معقول ومنقول، علامۂ
حجاز، مفتیِ شافعیہ، 90کتب
کے مصنّف، ولیِ کامل اور مدینہ شریف کے خاندانِ بَرْزَنجی کے جدِّ امجدہیں۔ (الاشاعۃ
لاشراط الساعۃ، ص13، تاریخ الدولۃ المکیۃ، ص59)
[27] ... عالمِ کبیر، مسند العصرحضرت سیّدُنا شیخ ابو الاسرار حسن بن علی
عُجَیْمی حنفی مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10ربیع
الاول 1049ھ مکۂ
مکرمہ میں ہوئی۔ 3شوَّالُ
المکرَّم 1113ھ کو
وصال طائف (عرب شریف) میں فرمایا، تدفین احاطۂ مزار حضرت سیّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں ہوئی۔ آپ عالم اسلام کے
سوسے زائدعلماوصوفیا کے شاگرد، حافظ قراٰن، محدثِ شہیر،فقیہ حنفی،صوفیِ کامل،مسندِ
حجاز،استاذالاساتذہ، اور 60 سے زائد
کتب کے مصنف تھے،آپ نے طویل عرصہ مسجدحرم،مسجدنبوی اورمسجدعبداللہ بن عباس
(طائف)میں تدریس کی خدمات سرانجام دیں۔(مختصرنشرالنور ،167 تا173 ،مکہ
مکرمہ کے عجیمی علماء،ص6تا54)
[28] ... خاتم المحدثین حضرت امام عبداللہ بن سالم بصری شافعی رحمۃ اللہ
علیہ کی ولادت 1049ھ کو مکہ میں ہوئی
اوریہیں 4 رجب 1134ھ کو
وصال فرمایا،جنۃ المعلی میں دفن کئے گئے،بصرہ میں نشوونما پائی،پھرمکہ شریف میں
آکر مقیم ہوگئے،آپ مسجدحرام شریف میں طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے،زندگی بھریہ معمول
رہا،کثیر علمانے آپ سے استفادہ کیا،آپ جیدعالم دین،محدث وحافظ الحدیث اورمسند
الحجازتھے، کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے ضیاء الساری فی مسالک ابواب البخاری یادگار ہے۔(مختصر نشر
النور، ص290تا292، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،18تا20)
[29]... اعلام الزرکلی،304/5، سلک
الدرر،24/4
[30] ...کتاب الامم لایقاظ
الھمم کو مجلس دائرۃ المعارف النظامیہ حیدرآباددکن ہند نے 1328ھ میں دیگر4،اسنادومرویات کے رسائل کے ساتھ شائع کیاہے ، الامم لایقاظ
الھمم کے کل صفحات 134ہیں
۔
[31]... سلک الدرر فی اعیان القرن الثانی
عشر، 1/9، اعلام للزکلی، 1/35، البدرالطالع بمحاسن من بعد قرن السابع، 1/11
[32]... امتاَعُ الفُضَلاء
بتَراجِم القرّاء،2/135تا139،
خلاصۃ الاثر فی اعيان القرن الحادی العشر، 2/210
[33] ... امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے عالم
برزخ کے بارے میں رسالہ منظومۃ القبورلکھا ،علامہ احمدبن خلیل سبکی رحمۃ اللہ علیہ
نے اس کی شرح فتح الغفورکے نام سے تحریرفرمائی، دارالنوادربیروت اوردارالمنہاج
جدہ عرب نے اسے شائع کیا ہے ۔
[34]... خلاصۃ الاثرفی اعیان
القرن الحادی عشر، 1/185
[35] ...دونوں کا موضوع
نام سے واضح ہے ۔
[36]... شذرات
الذھب، 8/474، الاعلام للزرکلی، 6/6، معجم المؤلفین، 3/83
[37] ... الدقائق المحكمة قرأت کی مشہورکتاب مقدمہ جزریہ کی
بہترین شرح ہے، اس کی اشاعت مختلف
مطابع سے ہوئی ہے ،مثلا مکتبۃ ضیاء الشام دمشق نے اسے 248صفحات پر شائع کیا ہے ۔
[38] ... تحفۃ
الباری کا دوسرانام منحۃ الباری ہے ،یہ بخاری شریف کی بہترین شرح ہے ،دارالکتب
العلمیہ بیروت نے اسے 7جلدوں میں شائع کیا ہے ۔
[39] ... اسنی
المطالب فقہ شافعی کی کتاب ہے ،اس کے بارے
میں کہاجاتاہے کہ جس نے اسے پڑھا نہیں وہ شافعی ہی نہیں ،دارالکتب العلمیہ بیروت
نے اسے 9جلدوں میں شائع کیا ہے۔
[40]... شذرات الذھب، 8/174تا 176، النورالسافر،ص172تا177، الاعلام للزرکلی، 3/46
[41] ... فتح الباری شرح صحیح
البخاری، علامہ
ابن حجر
رحمۃ اللہ علیہ
کی بہترین کتاب ہے، اسے
قبولیت عامہ حاصل ہے، اس سے بے شمارلوگوں نے استفادہ کیا ہے،علمانے اس کے بارے میں
لکھا کہ یہ ایسی کتاب ہے کہ اس کی مثل کوئی کتاب نہیں لکھی گئی،مختلف مطباع نے اسے
شائع کیا ہے،دارطیبہ ریاض کی اشاعت میں اس کی 15جلدیں
ہیں ۔
[42]... بستان المحدثین، ص302، الروایات التفسیریہ فی فتح الباری، 1/39، 65
[43]... الدررالکامنہ،3/304،رقم817
[44]... شذرات الذهب 7/ 723، تاریخ الاسلام الذہبی، 51/422
[45] ... علامہ مؤید طوسی رحمۃ اللہ
علیہ کی كتاب الاربعين
عن المشايخ الاربعين والاربعين صحابيا وصحابیۃ کو دارالبشائربیروت نے 199صفحات پر
شائع کیاہے ۔
[47] ... امام الائمہ حضرت امام محمد
بن اسحاق بن خزیمہ نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 223ھ کو نیشاپور (ضلع خراسان
رضوی) ایران میں ہوئی اور وصال 2 ذوالقعدہ
311ھ کو فرمایا، تدفین نیشاپورمیں ہی ہوئی۔آپ حافظِ قراٰن،
محدّثِ جلیل، فقیہِ شافعی، مجتہد علی الاطلاق اور صاحبِ کرامت بزرگ تھے، ”صحیح
ابنِ خزیمہ“ آپ کا ہی مجموعۂ حدیث ہے۔ (النجوم الزاہرہ فی ملوک مصر والقاہرہ،
3/209، محدثین عظام حیات وخدمات،ص391، 398)
[48] ... امامُ الحَرَمَیْن
ابوالمَعالِی عبدُالملک جُوَیْنی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش ایک علمی گھرانے
میں 419ھ کو جُوَیْن سَبزوَارنَزد نیشاپور (ایران) میں ہوئی اور
بُشتَ نِقان نزد نیشاپورمیں 25ربیعُ الآخر 478ھ کو
وِصال فرمایا،آپ کی تُرْبَت اسی شہرکے قدیمی حصّے کے قبرستان ”تلاجرد“ میں ہے۔ آپ
علمِ فِقْہ، اُصول اور عقائد پر کامل دَسْترَس رکھنے والے عظیم فقیہ، عَبْقَرِی
شخصیت کے مالک، ایک درجن سے زیادہ کُتُب کے مُصنّف، بانیِ مدرسہ نظامیہ نیشاپور،
استاذِ امام غزالی اور اکابر عُلمائے شَوافِع سے ہیں۔ کتاب ”نِهَايَةُ
الْمَطْلَبْ فِيْ دِرَايَةِ الْمَذْهَب“ آپ کی یادگار ہے۔ (وفیات
الاعیان، 2/80، 81)
[49] ... استاذ الصوفیاء حضرت امام
ابوالقاسم عبدالکریم بن ہَوَازِن قشیری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 376ھ میں ہوئی اوروفات17ربیع الآخر 465ھ
کوفرمائی، آپ کا مزار مبارک نیشاپور (ضلع خراسان) ایران میں اپنے پیرومرشد شیخ ابو
علی دَقَّاق کے پہلو میں ہے۔ آپ
عالم، فقیہ، ادیب، شاعر، صوفی ،واعظِ شیریں بیاں اورمفسرِقراٰن تھے،آپ کی تصنیف رسالہ قشیریہ کو عالمگیر شہرت حاصل ہے۔(اردو
دائرہ معارفِ اسلامیہ،16/2 ، ص 168، 169)
[50]... تاریخ الاسلام ،11/512،سیر اعلام النبلاء،19/615
[51]... سیراعلام النبلاء ،18/19
[52] ... صاحبِ مستدرک امام ابوعبداللہ محمد حاکم نیشاپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت321ھ کو نیشاپور میں ہوئی۔3صفر 405ھ میں وصال فرمایا۔آپ قاضی نیشاپور،
حافظُ الحدیث، فقیہ شافعی، صاحب تصنیف و تالیف اور استاذُالمحدثین تھے۔ کتب میں اَلْمُسْتَدْرَک عَلی الصَّحِیَحین مشہورہے۔(مستدرک للحاکم، 1/7، 56، وفیات
الاعیان،2/364)
[53]... سیراعلام النبلاء ،16/301
[54] ... فقیہ زمانہ حضرت امام ابوالحسین ایوب بن حسن نیشاپوری حنفی رحمۃ اللہ
علیہ حضرت
امام محمدبن حسن شیبانی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردتھے، اپنی فقاہت اور زہدوتقویٰ کی وجہ سے مشہورتھے،آپ کا وصال
ذیقعدہ 251ھ کو ہوا۔(الطبقات السنیہ فی تراجم الحنفیہ،رقم556 ،ص، 188 ،كتاب تاريخ الاسلام لذہبی ،6 / 55،رقم:122)
[55]... سیراعلام النبلا،14/312
[56]... جامع الاصول، 1/124، محدثین عظام
حیات وخدمات، ص 323 تا 332
[57]... صحیح مسلم ،ص16دار
الکتاب العربی بیروت
[58] ... امام ابنِ
ابی شیبہ عبسی رحمۃ اللہ علیہ کامجموعہ احادیث مصنف ابن شیبہ کا
مکمل نام المصنف فی الاحادیث والآثار ہے ،اسے فقہی ابواب کے مطابق مرتب کیاگیا
ہے ،اس کا شماراحادیث کی ماخذکتب میں کیا جاتاہے،مرفوع احادیث کے علاوہ اس میں
صحابہ کرام،تابعین اورتبع تابعین کے اقوال،فتاویٰ اورواقعات بھی ہیں،دارالفکربیروت
نے اسے نوجلدوں میں شائع کیا ہے ۔
[59]... سیراعلام النبلاء،11/122،تاریخ بغداد،10/66
[60] ... حضرت سیّدنا امام اعظم
ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ
اللہ علیہ کی ولادت 70ھ یا 80ھ کو کوفہ(عراق) میں ہوئی اور وصال بغداد میں 2شعبان
150ھ کو ہوا۔ مزار مبارک بغداد (عراق) میں مرجعِ خلائق ہے۔ آپ تابعی بزرگ، مجتہد،
محدث، عالَمِ اسلام کی مؤثر شخصیت، فقہِ حنفی کے بانی اور کروڑوں حنفیوں کے امام
ہیں۔(نزہۃ القاری، مقدمہ، 1/164،110، خیرات الحسان، ص31، 92)
[61] ... امیرُالمؤمنین فی
الحدیث حضرت سیّدُنا سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت98ھ میں کوفہ (عراق) میں ہوئی اورشعبانُ المعظم161ھ میں وصال فرمایا۔مزاربنی کُلیب قبرستان بصرہ میں ہے۔آپ
عظیم فقیہ، محدث، زاہد، ولیِ کامل اوراستاذِ محدثین و فقہا تھے۔(سیراعلام النبلاء،
7/229،279، طبقات ابن سعد، 6/350)
[62] ... حجۃ الاسلام،امام الحرم
حضرت امام ابومحمد سفیان بن عیینہ کوفی مکی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 107ھ کوکوفہ میں ہوئی اوریکم رجب 198ھ مطابق 814ء میں مکہ معظمہ میں وفات پائی اور کوہ حجون کے پاس مدفون ہوئے،آپ نے کثیرتابعین کی
صحبت پائی،آپ تبع تابعی، عالم الحجاز،ثقہ روای حدیث ،وسیع العلم،صاحب تقوی
وورع اورعمربھردرس وتدریس میں مصروف رہنے والی شخصیت تھے ،ترتیب وتدوین حدیث میں
آپ سرفہرست ہیں۔ ( سير اعلام النبلا ، 8 / 454، تاریخ بغداد،9/183، تذکرۃ الحفاظ، للذھبی،1/193)
[63] ... امیرالمؤمنین فی الحدیث
حضرت سیّدنا عبداللہ بن مبارک مَروَزِی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 118ھ کو مَرْو (تُرکمانستان) میں ہوئی اور وِصال 13رمضان 181ھ کو فرمایا۔ مزارمبارک
ہِیت (صوبہ انبار) مغربی عراق میں ہے، آپ تبعِ تابعی، شاگردِ امام اعظم، عالمِ کبیر،
مُحَدِّثِ جلیل اور اکابر اولیائے کرام سے ہیں۔ ” کتابُ الزُّہْدِ وَ الرَّقائِق“ آپ
کی مشہور تصنیف ہے۔(طبقاتِ امام شعرانی، جز1، ص 84تا86، محدثینِ عظام وحیات و خدمات،
ص146تا153)
[64] ... فقہِ حنبلیہ کے عظیم
پیشوا حضرتِ سیِّدنا امام احمد بن حنبل علیہ
رحمۃ اللہ الاکبر کی ولادت 164ھ میں بغداد میں ہوئی اور 12 ربیعُ
الاوّل 241ھ کو وصال فرمایا۔ آپ کو بغداد شریف کے غربی جانب بابِ حرب میں دفن کیا
گیا پھر دریائے دجلہ میں طُغیانی کی وجہ سے سجد عارف آغا، حیدر خانہ (شارع الرشید
بغداد) میں منتقل کردیا گیا۔ آپ مُجتہد، حافظ الحدیث، عالمِ اجلّ، اُمّتِ محمدی کی
مؤثر شخصیت اور ائمۂ اربعہ میں سے ایک ہیں۔ چالیس ہزار (40000) احادیث پر مشتمل
کتاب ”مسند امام احمد بن حنبل“ آپ کی یادگار ہے۔( البدایہ والنہایہ، 7/339)
[66]... تاريخ بغداد 10 / 353،
سير اعلام النبلاء 7 / 202، تہذيب الأسماء واللغات، 1/ 245
[68] ... حضرت ابولیلی یساربن بلال اوسی انصاری رضی اللہ عنہ نے غزوہ
بدرکے علاوہ سب غزوات میں شرکت فرمائی،بعدمیں
کوفہ منتقل ہوگئے اوردارجھینہ میں سکونت اختیارکی ،حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تمام جنگوں میں حصہ لیا،آپ کی شہادت جنگ
صفین(صفر37ھ) میں میں ہوئی ۔بعض کے نزدیک
آپ کا نام داؤد بن یسارتھا۔(الاصابہ،7/292،رقم:10478)
[69] ... واقعہ ٔ دیرجماجم شعبان 82ھ یا 83ھ میں پیش آیا، اہل کوفہ وبصرہ سپہ سالارعبدالرحمن بن محمد بن اشعث اوراہل شام حجاج بن یوسف کی سربراہی میں
مقابل آئے،عبدالرحمن کے لشکرمیں کئی علماء مثلا حضرت سعید بن جبیر،حضرت عامرشعبی،حضرت عبدالرحمن ابن ابی لیلی اورحضرت
کمیل بن زیادرحمۃ اللہ علیہم شامل تھے ،یہ لڑائی کئی ماہ جاری
رہی، عبدالرحمن کے لشکرکی شکست پر اس جنگ کا اختتام ہوا۔
[70]... تاریخ الاسلام ،2/966،تہذیب التہذیب،5 /166، ابن سعد،6/166،
تذکرۃ الحفاظ،1/128، تاریخ بغداد،6/166
[71] ... امامُ الاولیاءحضرت حسن بَصْری رحمۃ اللہ علیہ
کی وِلادت 21ھ کو مدینہ شریف میں ہوئی اور وِصال
یکم رجب 110ھ کو
فرمایا،مزارِ مبارَک مدینۃ الزبیر (ضلع بصرہ) عراق میں ہے۔آپ اُمُّ المؤمنین اُمِّ
سَلَمہ رضی اللہ عنہا کی آغوش میں پرورش پانے والے، حافظِ قراٰن، سیّدالتابعین،
عالمِ جلیل، فقیہ و محدِّث،فصیحِ زمانہ، رقیقُ القلب (نرم دل)، ولیِ کامل، خلیفۂ
حضرتِ علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور سلسلۂ چشتیہ کے تیسرے شیخِ طریقت ہیں۔(سیراعلام النبلاء،
5/456تا 473، تذکرۃ الاولیا، 1/34تا 48، اجمال
ترجمہ اکمال، ص19)
[72] ... امام الْمُعبّرین حضرتِ سیّدُنا محمد بن سیرین بصری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 33ھ میں ہوئی اور وصال 10 شوال 110ھ میں بصرہ میں
ہوا۔آپ تابعی،ثقہ راویِ حدیث، عظیم فقیہ،امام العلماء،تقویٰ وورع کے پیکر اور تعبیر
الرویاء (خوابوں کی تعبیر) کے ماہر تھے۔(الطبقات الکبریٰ، 7/143تا 154، تاریخِ
بغداد، 2/422،415(
[73]... اسدالغابہ،2/527، تہذیب،3/521، استیعاب:2/213
[74]... مدارج النبوت،2/14،آخری نبی کی
پیاری سیرت، 143تا145

دعوتِ
اسلامی کے شعبہ رابطہ برائے تاجران کے ذمہ داران نے مردان چیمبر کے نائب صدر حاجی فیاض
خان سے ملاقات کی اور
انہیں تاجر حضرات میں دینی کام کے
حوالے سے معلومات دی ۔
اس موقع پر حاجی صاحب نے دعوت اسلامی کے دینی کاموں کی تعریف کی نیز حالیہ
سیلاب متاثرین میں رکن شوری حاجی یعفور کی
مدین بحرین سوات متاثرین میں FGRF کے تحت تقسیم کرنے پر اچھے تخیلات کا اظہار کیا اور امدادی کاموں میں شعبہ FGRF
کے ساتھ ہرقسم کےتعاون کی یقین دہانی کروائی۔
.jpg)
دعوت اسلامی کے زیر اہتمام شعبہ رابطہ برائے تاجران لاہور ڈویژن کے ذمہ دار حاجی محمد افضل
عطاری نے دیگر ذمہ داران کے ہمراہ پاک کلاتھ سنڈیکیٹ اعظم
کلاتھ مارکیٹ لاہور میں وہاں کی اتھورٹی پرسنز سے ملاقات کی۔
افضل عطاری نے کلاتھ
مارکیٹ اتھورٹی سے گفتگو
کرتے ہوئے انہیں نیکی کی دعوت پیش کی اور دنیا بھر میں ہونے والےدعوتِ اسلامی کے دینی
و فلاحی کاموں کے بارے میں بریفنگ دی۔ بعدازاں دعوتِ اسلامی کی جانب سے سیلاب متاثرین کی مدد
کے لئے دی جانے والی امداد کے بارے میں بتایا۔ مزید انہیں بھی اس
سلسلے میں اپنا حصہ ملانے کی درخواست کی جس پر انہوں نے سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے 8 لاکھ 52 ہزار روپے عطیات پیش کئے۔ (رپورٹ: محسن
عطاری راوی ٹاؤن ، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)
.jpg)
دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام گزشتہ روز گوجرانوالہ کے مختلف سیشن کورٹ میں سیکھنے سکھانے کے حلقوں کا انعقاد کیا گیا جس میں رکن شوری حاجی یعفور رضا عطاری کے ہفتہ
وار اجتماع میں ہونے والے بیان میں شرکت کی دعوت دی گئی۔
اس موقع پر سابق صدر گوجرانوالہ بار نور
محمد ایڈووکیٹ ہائیکورٹ، ممبر پنجاب بار، کونسل چوہدری ظہیر چیمہ ایڈووکیٹ
ہائیکورٹ نے ویلکم کہا اور بھر پور آنے کی یقین دہانی
بھی کروائی۔
اس کے علاوہ دیگر سینئر وکلاء کے ہاں بھی سیکھنے سکھانے کے حلقے ہوئے جہاں ذمہ داران نے ایف جی آر ایف دعوت اسلامی کا
تعارف کروایا اور اجتماع میں آنے کی دعوت دی جس پر وکلاء نے اظہار مسرت کرتے
ہوئے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ: رابط برائے وکلاء ڈیپارٹمنٹ
محمد ابوبکر عطاری ، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)
.jpeg)
6
ستمبر 2022ء کو دعوت اسلامی کے شعبہ لائیو اسٹاک کے ذمہ داران نے ڈاکٹر حزب
اللہ، ڈائریکٹر اینیمل اینڈ لائیو اسٹوک،
خلیل ویٹرنیٹی ڈاکٹر، ندیم عباسی پی ایس ٹو ایڈیشنل
کمشنر سے ملاقات کی۔
لائیو اسٹاک کے ذمہ داران نے مذکورہ شخصیات کو حالیہ بارشوں و سیلاب سے متاثرین کی امداد کے حوالے سے شعبہ دعوت اسلامی ایف جی آر ایف کی سماجی خدمات کے حوالے سے بتایا اور ان سے اس سلسلے میں میڈیکل کیمپ لگانے پر ایم
او یو سائن لیا نیز انہیں ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کا ذہن دیتے ہوئے مدنی مرکز فیضان
مدینہ وزٹ کی دعوت دی ۔ علاوہ ازیں پی ایس کے آفس میں سیکھنے سکھانے کا حلقہ ہوا جس میں طہارت کے موضوع
پر مبلغ دعوت اسلامی نے تربیت کی۔(رپورٹ:
شعبہ رابطہ برائے شخصیات حیدرآباد ڈسٹرکٹ، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)

دعوتِ
اسلامی کےتحت لودہراں میں قائم ریلیف امدادی کیمپ سے 6 دستمبر 2022ء کو تیسری امدادی کھیپ سیلاب متاثرہ علاقوں کے لئے روانہ
کی گئی۔
اس
موقع پردعائیہ تقریب میں امیدوارصوبائی اسمبلی،ایم ڈی ایئرسیال مہرمحمداشرف
سیال،ضلعی جنرل سیکرٹری پی ٹی آئی رانا شہزادانور،مرکزی انجمن تاجران کےنمائنگان
معروف بزنس مین حافظ شیرمحمد،ملک گلزاراحمدکاوش،مرکزی میلادمصطفیٰ کمیٹی کے ممبران
حاجی راناالطاف خان،شمش خان،محمدعباس بھٹی ودیگر سیاسی وسماجی شخصیات نے شرکت کی۔
ان احباب نےدعوت اسلامی کےامدادی کاموں کو خوب سراہااورذمہ داران کی حوصلہ افزائی
کی۔(رپورٹ:
شعبہ رابطہ برائے شخصیات ڈسٹرکٹ لودہراں، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)
.jpg)
6ستمبر
2022ء کو شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے نمائندگان کا سندہ سیکریٹی آفس میں جدول ہواجس میں انہوں نے وہاں موجود (غلام ثقلین ڈی جی محکمہ اطلاعات،علی
گل سنجرانی،ایڈیشنل سیکرٹری، سلیم خان ڈائریکٹر، اور نوید میمن سسٹم اینالسٹ (G-19)محکمہ پی اینڈ ڈی) افسران سے ملاقات کیں۔
مبلغ
اسلامی بھائیوں نے دوران ملاقات انہیں
ملک و بیرون ملک ہونے والی دعوت اسلامی کی دینی و سماجی خدمات پر
بریفنگ دی اور مدنی مرکز فیضان مدینہ وزٹ کی دعوت پیش کی۔
علاوہ ازیں انہیں شجر کاری مہم کے بارے میں بتایا جس پر ڈی جی صاحب کے دفتر میں اگلے ہفتے شجرکاری کرنے
کا بھی طے ہوا۔ مزید آخر میں انہیں ماہنامہ فیضان مدینہ اور رسائل دعوت اسلامی تحفے کے طور پر پیش کئے ۔(رپورٹ:
شعبہ رابطہ برائے شخصیات کراچی، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)
ڈپٹی
کمشنر کورنگی محمد علی اور ایڈیشنل ڈپٹی
کمشنر کورنگی کا متاثرین
کیمپ میں وزٹ

6ستمبر
2022ء کو شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ
داران نے ڈپٹی کمشنر کورنگی محمد علی اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کورنگی نواز کلہوڑ کے ساتھ
صوبائی محتسب اعلیٰ اور افسران کو متاثرین کیمپ کا وزٹ کروایا اور انہیں کیمپ میں
دعوت اسلامی کے شعبہ ایف جی آر ایف کی خدمات کے حوالے سے معلومات فراہم کیں۔(رپورٹ:
غلام محبوب عطاری ڈسٹرکٹ کورنگی ، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)