دعوتِ اسلامی کے شعبہ جات کا فالواپ لینے اور ذمہ داران کی تربیت کرنے کے لئے 8 ستمبر 2022ء بروز جمعرات پاکستان کے شہر جہلم میں قائم فیضان آن لائن اکیڈمی کی برانچ میں مدنی مشورے کا انعقاد ہوا جس میں برانچ کے اسلامی بھائیوں سمیت اہم ذمہ داران نے شرکت کی۔

نگرانِ شعبہ مولانا یاسر عطاری مدنی نے اسلامی بھائیوں سے شعبے کے دینی کاموں کے متعلق کلام کیا نیز انہیں دعوتِ اسلامی کے 12 دینی کاموں کو احسن انداز میں کرنے کا ذہن دیا۔

اسی طرح نگرانِ شعبہ نے اسلامی بھائیوں کو امیرِ اہلِ سنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کی کتاب ”گفتگو کے آداب“ خرید کر اسے تقسیم کرنے اور مطالعہ کرنے کی ترغیب دلائی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔(رپورٹ:محمد وقار یعقوب مدنی برانچ ناظم فیضان آن لائن اکیڈمی ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


اللہ عزوجل نے بندے کو جس بات کا حکم دیا ہے، اس کی فرمانبرداری سے بندہ دنیا اور آخرت میں عزت و عظمت کا مستحق ہوتا ہے، جبکہ اس کے برعکس گناہ انسان کو ذلت و رسوائی کے گڑھے میں گرا دیتا ہے، گناہ چھوٹا ہو یا بڑا، گناہ گناہ ہی ہوتا ہے اور ان میں سے ایک گناہ ہے، بخل یعنی کنجوسی، جس کے متعلق اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے:سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ ترجمہ:عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا۔(پارہ 4 ،سورۃ آل عمران، آیت 180)

علماء کرام رحمۃ اللہ علیہم بخل کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ جہاں شرعاً یا عرف وعادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو، وہاں خرچ نہ کرنا ،زکوۃ، صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے، اور دوست احباب، عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف وعادت کے اعتبار سے واجب ہے۔

قرآن وحدیث میں بخل کی بہت مذمت بیان کی گئی، چنانچہ پانچ فرامینِ مصطفی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہیں:

1۔آدمی کی دو عادتیں بری ہیں، بخیلی جو رُلانے والی ہے، بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔

2۔کوئی بخیل جہنم میں نہیں جائے گا۔

3۔بخیل اللہ عزوجل سے دور ہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے، جبکہ جہنم سے قریب ہے۔

5۔بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اسے جہنم میں داخل کئے بغیر نہ چھوڑے گی۔

معلوم ہوا کہ بخل اور بخل کرنے والا آدمی کس قدر غلط روش اختیار کئے ہوئے ہیں، بخل کا سبب یہ ہے کہ آدمی کو دنیا سے محبت دلاتی ہے اور آخرت سے غافل کرتی ہے اور جو چیز بھی بندے کو اس کے ربّ اور آخرت کی یاد سے غافل کرے، وہ بہت بری چیز ہے۔

بخل سے بچنے کے لئے بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے دل کو صدقہ وخیرات کے ذریعے، مال کی محبت سے پاک کرے، موت کو بکثرت یاد کرے، بخل کے نقصانات کو پیشِ نظر رکھے اور صدقہ اور خیرات کے فضائل کو بھی پیشِ نظر رکھے، انشاءاللہ عزوجل مددگار ثابت ہو گا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اس مہلک مرض سے نجات عطا فرمائے۔آمین

نوٹ:یہ تحریر صراط الجنان، جلد دوم میں بخل کے بارے میں معلومات سے تیار کی گئی ہے۔


دعوتِ اسلامی کے شعبہ فیضان آن لائن اکیڈمی کے تحت 8 ستمبر 2022ء بروز جمعرات مین برانچ ستیانہ روڈ فیصل آباد میں ایڈمیشن ڈیپارٹمنٹ، فیس ڈیپارٹمنٹ اور اساتذۂ کرام کی میٹنگ ہوئی۔

اس میٹنگ میں شعبے کے ڈویژن ذمہ دار محمد عرفان عطاری اور برانچ ناظم سیّد شکیل عطاری نے اسلامی بھائیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چند اہم نکات پر مشاورت کی۔

اسی طرح ذمہ داران نے میٹنگ میں شریک اسلامی بھائیوں کو اپنی صلاحیتیں بڑھانے نیز دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا ذہن دیا۔(رپورٹ:محمد وقار یعقوب مدنی برانچ ناظم فیضان آن لائن اکیڈمی، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دنیا کے فتنے وسیع اور کثیر ہیں، اپنی کثیر فتنوں میں سے بڑا فتنہ مال ہے، گویا کہ مال کی زیادتی کے سبب انسان گناہ میں مبتلا ہو سکتا ہے اور مال کی قلت کے سبب بھی، ان گناہوں میں سے ایک گناہ بخل ہے۔

بخل کی تعریف: بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاًیا مروتاً لازم ہو،ہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب میں خرچ کرنا ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات)

باالفاظِ دیگر اللہ عزوجل نے جو مال دیا ہے، اس میں سے بندہ خود تو کھاتا ہے، مگر دوسروں کو نہیں کھلاتا، یعنی اپنی ذات پر تو خرچ کرتا ہے، مگر دوسروں پر خرچ نہیں کرتا، یہ بھی بخل ہے۔

بخل نہایت ہی قبیح اور مذموم صفت ہے، جس سے بچنا ہر ایک کیلئے ضروری ہے، کیونکہ ایمان والوں کی یہ شان نہیں کہ وہ ایمان والے ہوں اور بخل بھی کریں۔

اللہ عزوجل نے بندے کو مال اسی لئے دیا تھا کہ وہ اسے خرچ کرے اور اللہ کی نعمتوں کا اظہار کرے اور اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرتا رہے، چونکہ بخل کا سبب مال کی محبت ہے، اس لئے جب بندہ مال کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے تو چاہتا ہے کہ فقط مال جمع کرے اور اسے کہیں خرچ نہ کرے، اسی زمین میں پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہوں۔

1۔بخل سے بچو، کہ بخل نے اگلوں کو ہلاک کیا، اسی بخل نے انہیں خون بہانے اور حرام کو حلال ٹھہرانے پر آمادہ کیا۔(مسلم:2578)

2۔مومن میں دو عادتیں جمع نہیں ہوتیں، ایک بخل اور دوسرا بداخلاقی۔(سنن ترمذی:1969)

3۔سخاوت جنت میں اگنے والا ایک درخت ہے، لہذا سخی جنت میں جائے گا، بخل جہنم میں اگنے والا ایک درخت ہے، لہذا بخیل جہنم میں جائے گا۔(کنزالعمال:16213)

4۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اے ابنِ آدم!خرچ کرو، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔(صحیح بخاری:5352)

5۔بخل مت کرو، ورنہ تم پر تنگی کردی جائے گی۔(صحیح بخاری:1433)

بخل سے بچنے کا درس: خلاصہ کلام یہ ہے کہ مال خرچ کرنے سے تنگی نہیں آتی، بلکہ مال میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ بخل کئی گناہوں کا سبب بنتا ہے، جس سے بچنا لازم ہے، بخل جیسے قبیح اور مذموم گناہ سے بچنے کے لئے سب سے پہلے مال کی محبت کو دل سے نکالنا ضروری ہے اور یہ بات ذہن میں بٹھا نا ضروری ہے کہ ہمارا مال فقط دنیا میں تو کام آ سکتا ہے، مگر قبر و آخرت میں یہ مال ہمارے کچھ کام نہ آئے گا ،لہذا سخاوت کا جذبہ اور آخرت کا خوف پیدا کرتے ہوئے مال خرچ کرنے کی عادت بنائیے، تاکہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا ہو اور اللہ پاک ہم سے راضی ہو۔

اللہ پاک ہمیں بخل جیسے مذموم گناہ سے بچا کر اپنے پیارے جودوسخا والے مدنی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا صدقہ نصیب فرمائے۔آمین


بخل نہایت ہی قبیح اور بری بیماری ہے، ہم سب کو اس بری صفت سے بچنا چاہئے، بخل کا سبب مال کی محبت ہے، یہ بہت پرانا مرض ہے، ہم اللہ عزوجل سے ایسے قبیح فعل سے پناہ مانگتے ہیں۔

بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاًیا مروتاً لازم ہو،ہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب میں خرچ کرنا ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔

قرآن پاک: اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ:اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہیں۔(پارہ 28، سورہ حشر، آیت9) ترجمہ:اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی، ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں، بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا کہ قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہے۔(پارہ 4، سورہ آل عمران، آیت نمبر 180)

صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:بخل کے معنیٰ میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب ادا نہ کرنا بخل ہے، اس لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں، اس آیت میں بھی بخل کی مذمت پر ایک وعید آئی ہے۔

احادیث مبارکہ:بہت سی احادیث مبارکہ میں بھی بخل کی مذمت بیان ہوئی ہے۔

1۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخل سے بچو، کیونکہ اسی نے تم سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، ان کو ایک دوسرے کا خون بہانے اور حرام چیزوں کو حلال ٹھہرانے پر آمادہ کیا۔(مسلم شریف، ص1129، الحدیث2578)

2۔ایک اور جگہ آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:الولد مبخلۃ مجبنۃ مجھلۃاولاد بخل، بزدلی اور جہالت میں مبتلا کرنے والی ہے۔(سنن ابن ماجہ شریف،ص2696، حدیث3666)

3۔حدیث پاک میں ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے:کہ جس کو اللہ نے مال دیا اور اس نے زکوۃ ادا نہ کی، تو روزِ قیامت وہ مال سانپ بن کر اس کو طوق کی طرح لپٹے گا اور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔(بخاری شریف)

4۔حضور پاک نے ارشاد فرمایا:بخل اور بدخلقی یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں۔ (ترمذی شریف)

5۔سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(ابو داؤد، ص 185، ح 1698)

بخل بسا اوقات کئی گناہوں کا سبب بھی بن جاتا ہے، اس لئے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے، بخل کا علاج یہی ہے کہ وہ اپنی خواہشات اور امید کو کم کرے، کثرت سے موت کو یاد کرے، نیز ہم عصر لوگوں کی موت میں غوروفکر کرے، قبروں کی زیارت اور اس میں جو کیڑے مکوڑے ہیں، اس کی طرف غور و فکر کرے۔

اللہ عزوجل ہمیں اس بری صفت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

بخل سے بچنے کے لئے امیر اہلسنت کا رسالہبخل کی مذمت کا مطالعہ فرمائیے۔


تعریف:بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً ،عادتا یا مروتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے۔

آیت مبارکہ:

وَ لَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرٌ (پارہ 4 ،سورۃ آل عمران، آیت 180) ترجمہ:اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی، ہرگز اسے لئےاچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے، عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلے لوگ وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(ابو داؤد، کتاب زکوٰۃ،ج 2، حصہ 185، ح 1698)

2۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:آدمی کی دو عادتیں بری ہیں،بخیلی جو رولانے والی ہے، بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔(ابو داؤد، کتاب جہاد، باب فی الجراۃ الجبن 18/3 ،ح 2511)

3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مالدار بخل کی کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السنن، ج 1،ص444،ح 3309)

4۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا۔(معجم الاوسط، باب العین من اسمہ علی ، ج 3 ، ص 125 ، ح 4066)

5۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخیل اللہ سے دور ہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور، جبکہ جہنم کے قریب ہے۔(جامع ترمذی، کتاب البر و الصلۃ ، ج 3، ص 387، ح 1968)

خلاصہ:بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے،بخل کا پہلا سبب تنگ دستی کا خوف ہے،بخل کا دوسرا سبب مال سے محبت ہے، بخل کا تیسرا سبب نفسانی خواہشات کا غلبہ ہے، بخل کا چوتھا سبب بچوں کے روشن مستقبل کی خواہش ہے، بخل کا پانچواں سبب آخرت کے معاملے میں غفلت ہے، بخل کرنے والا انسانوں سے دور ہو جاتا ہے اور لوگ بھی اس سے دور رہنا پسند کرتے ہیں۔

اپنے دل کو سیدھا کر لے

تیرے معاملات بھی سیدھے ہو جائیں گے

بخیل شخص کسی کو پسند نہیں ہوتا اور بخل دل سے شروع ہوتا ہے، دل میں بخل کا خیال آتا ہے اور انسان بخیل بن جاتا ہے ۔


عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام گزشتہ روز پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں موجود مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتما ع کا انعقاد کیا گیا۔

مبلغِ دعوتِ اسلامی نے ابتداءً قراٰنِ پاک کی تلاوت اور نعتِ رسول مقبول ﷺ پڑھی جبکہ مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی یعفور رضا عطاری نے سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے شرکائے اجتماع کی تربیت کی۔

اس کے علاوہ رکن شوریٰ نے دورانِ بیان اسلامی بھائیوں کو دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں شرکت کرنے کی ترغیب دلائی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔

واضح رہے اس اجتماعِ پاک میں گوجرانوالہ کے کثیر عاشقانِ رسول سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اسلامی بھائیوں نے شرکت کی جن کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ (رپورٹ:محمد ابوبکر عطاری معاون رکن شوری حاجی یعفور رضا عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

دنیا کے فتنے بہت کثیر ہیں اور نہایت وسیع اور فراخ ہیں، ان فتنوں میں سب سے بڑا فتنہ مال کا ہے، جو زیادہ آزمائش کا باعث ہے، کیونکہ جس کے پاس مال ہو، وہ بھی آزمائش کا شکار ہوتا ہے، کیوں کہ اگر اس کا غلط استعمال کرے گا اور جہاں خرچ  کرنا ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کیا جائے تو بخل جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو جائیں اور کم مال ہو تو پھر بھی آزمائش کا شکار ہوتا ہے کہ کیسے گزارا ہو؟ اس لئے مال بہت بڑا فتنہ و فساد ہے۔

بخل کی تعریف:

بخل کی تعریف یہ ہے کہ جہاں شرعاً یا عرف اور عادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے، زکوة، صدقہ، فطر و غیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے اور دوست احباب، اور عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا اور عرف و عادت کے اعتبار سے واجب ہے۔

بخل کی مذمت: قرآن مجید اور کثیر احادیث میں بخل کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے۔

1۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا۔(معجم الاوسط، باب العین، الحدیث 3044)

شرح:اس حدیث مبارکہ میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے کہ بخیل یعنی جو کنجوس ہو، وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی گندی بیماری سے دور فرمائے۔

2۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:آدمی کی دو عادتیں بری ہیں،1بخیلی، جو رلانے والی ہے،2بزدلی، جو ذلیل کرنے والی ہے۔( ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی الجراة والجبن 18/3،الحدیث 2011)

شرح: اس حدیث مبارکہ میں بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی کی بری باتوں کی وضاحت کی تو دونوں کا تعلق مال سے ہی ہے، کیونکہ مال سے محبت کرنے والا ہی انسان بخیل ہوتا ہے اور اگر دوسرے معنوں میں دیکھا جائے تو راہِ خدا میں یا جس جگہ خرچ کرنا ضروری ہو، وہاں وہی خرچ نہیں کرتا جو بزدل ہوتا ہے، جس کا دل چھوٹا ہوتا ہے۔

3۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مالدار بخل کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔

شرح: سنا آپ نے! مال زیادہ ہونا بھی ایک آزمائش ہے، اگر ہم اس کا درست استعمال نہ کریں، کیسے واضح طور پر فرما دیا گیا کہ بخل کرنے والا بغیر حساب دیئے ہی جہنم میں داخل ہوگا۔(فردوس الاخبار، باب ایسن، ح3309)

4۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخیل اللہ سے دور ہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور ہے، جبکہ جہنم سے قریب ہے۔

شرح: اس حدیث پاک میں بھی واضح طور پر بتادیا گیا کہ بخیل انسان جنت سے دور ہوگا، نہ صرف جنت بلکہ وہ انسان تو اللہ تعالیٰ سے بھی دور ہو گا، ایسے انسان کا کیا حشر ہوگا، جس سے اس کا ربّ ہی دور ہو۔(ترمذی شریف، کتاب البر والصلۃ، الحدیث1948)

5۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے زکوة ادا نہ کی، روزِ قیامت وہ مال سانپ بن کر اس کو طوق کی طرح لپٹے گا اور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔(بخاری، کتاب الزکوۃ، باب اثم مانع الزکاۃ474/1، الحدیث 1403)

شرح: اس حدیث مبارکہ میں بھی واضح طور پر بتایا گیا کہ مال کی زکوۃ ادا نہ کرنے سے کتنا دردناک عذاب ہوگا، مال کی زکوۃ ادا نہ کرنے کی وجہ بخل ہی ہے، جس انسان کو اپنے مال سے محبت ہوگی، وہی ایسے کرے گا، خدارا! ہوش کے ناخن لیں، چند پیسوں کے لئے کیوں اپنی آخرت خراب کر رہے ہیں، اگر یوں عذاب میں مبتلا ہو گئے تو تصور کریں، کیا بنے گا ہمارا؟ اس لئے توبہ کریں اور اگر پچھلے سالوں کی زکوۃ رہتی ہے تو سچے دل سے نیت کریں کہ وہ ضرور ادا کریں گے، ہمیں مال سے اس قدر محبت ہوگی کہ اگر کوئی ہمیں راہِ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب دلائے تو ہمارے دل پر بات اثر ہی نہیں کرتی۔

محترم قارئین! اگر اس مال کی محبت کی وجہ سے ہمیں بھی عذاب ملا تو ہمارا کیا بنے گا، یہاں تو تھوڑی سی گرمی برداشت نہیں ہوتی، اگر ہمیں جہنم میں ڈال دیا تو ہمارا کیا بنے گا؟ اپنے دل میں خوفِ خدا کو پیدا کریں، چند پیسوں کو ہم راہِ خدا میں خرچ نہیں کر پاتی، کبھی تصور کریں کہ وہ صحابہ کرام جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں سارے گھر کا سامان لے آئے تھے، اگر انہوں نے ہم سے پوچھ لیا، کیا آپ کو یعنی حضور کی امتی کو اپنے پیارے آقا، مولا صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی بھی محبت نہیں، جو اپنا مال راہِ خدا میں خرچ کر سکیں؟

اس لئے راہِ خدا میں خرچ کرنے کے فوائد کا مطالعہ کریں، تاکہ آپ کے ذہن میں کچھ مثبت سوچ پیدا ہو سکے، اس کے علاوہ اگر آپ موت کو بکثرت یاد کریں، تب بھی آپ کے دل سے مال کی محبت کم ہو سکتی ہے، یہ مال و دولت، یہ رشتہ داریاں، یہ ماں باپ، سب کچھ ہم نے یہاں پر ہی چھوڑ کر جانا ہے، قبر میں اگر کسی نے کام آنا ہے تو وہ ہیں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔

اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے اور راہِ خدا میں خرچ کرنے کا جذبہ عطا فرمائے۔آمین


بخل کے معنیٰ :بخل کےلغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں، جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً یا مروتاً خرچ کرنا لازم ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے، جس جگہ مال اور اسباب خرچ کرنا ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بھی بخل ہے۔

بخل ایک ایسا مذموم وصف ہے، جس کا تعلق انسان کے ظاہر و باطن دونوں سے جڑا ہوا ہے، جو بخیل ہوتا ہے، اس کا دشمن اس کے مال کا وارث بن جاتا ہے، بخیل کی غیبت، غیبت نہیں، بخیل کو دیکھنے سے دل سخت ہوتا ہے، بخیل اگرچہ نیک ہو، لوگوں کو اس سے نفرت و عداوت ہی ہوتی ہے، شیطان کو مؤمن بخیل لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہے، آئیے بخل کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہوں۔

1۔ تین قسم کے لوگ ربّ تعالی کو ناپسند: اللہ تعالیٰ تین قسم کے لوگوں کو ناپسند فرماتا ہے، 1 ایک بوڑھا زانی، 2 احسان جتلانے والا بخیل، 3 متکبر فقیر۔(احیاء العلوم، جلد 3، صفحہ 760)

2۔گلے کا پھندا: مال خرچ کرنے والے اور بخیل کی مثال دو آدمیوں کی طرح ہے، جنہوں نے پورے سینے پر زرہ پہن رکھی ہے، مال خرچ کرنے والا جس قدر مال خرچ کرتا ہے، اسی قدر زرہ کشادہ ہوتی چلی جاتی ہے، حتیٰ کہ وہ اس کی انگلی کے پوروں کو بھی چھپا لیتی ہے اور بخیل جب مال خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ بلند ہوتی اور ہر گرہ اپنی جگہ تنگ ہوتی چلی جاتی ہے، یہاں تک کہ اس کے گلے کو بھی جکڑ لیتی ہے، وہ اسے ڈھیلا کرنا چاہتا ہے، لیکن وہ ڈھیلی نہیں ہوتی۔(احیاء العلوم،ج3،ص 760، حدیث نمبر 6)

3۔سخاوت کی ترغیب و بخل کی مذمت: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں سخیوں کے داتا،بے کسوں کے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:سخاوت اللہ پاک کے جود و کرم سے ہے، تم سخاوت کرو گے، اللہ پاک تم پر جود و کرم فرمائے، سنو اللہ پاک نے سخاوت کو پیدا فرمایا، پھر اسے ایک مرد کی شکل دی اور اس کی جڑ کو طوبی درخت کی جڑ میں راسخ کیا اور طوبی درخت کی ٹہنیوں کو سدرۃ المنتہی کی ٹہنیوں سے باندھ دیا اور پھر اس کی بعض شاخوں کو دنیا کی طرف جھکا دیا، تو جو آدمی اس کی کسی ٹہنی کو پکڑ لیتا ہے، اللہ عزوجل اسے جنت میں داخل فرما دیتا ہے، سنو! بے شک سخاوت ایمان سے ہے اور اہلِ ایمان جنت سے ہیں۔اور اللہ عزوجل نے بخل کو اپنے غضب سے پیدا کیا اور اس کی جڑ کو تھوہڑ کے درخت کی جڑ میں راسخ کیا اور اس کی بعض شاخوں کو زمین کی طرف جھکا دیا، تو جو شخص اسکی ٹہنی کو پکڑ لیتا ہے، اللہ اسے جہنم میں داخل فرما دیتاہے، سنو! بخل کفر (یعنی ناشکری) ہے اور ناشکری جہنم میں لے جانے والی ہے۔(احیاء العلوم ،جلد 3،ص763، ح15)

4۔ لالچ سے بڑھ کر بھی کوئی ظلم ہے؟ تم کہتے ہو لالچی کا عذر ظالم سے زیادہ قابلِ قبول ہے، لیکن اللہ عزوجل کے نزدیک لالچ سے بڑھ کر بھی کوئی ظالم ہے؟ اللہ عزوجل نے فرمایا:مجھے اپنے عزت، عظمت اور جلال کی قسم! لالچی اور بخیل جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(احیاء العلوم، جلد 3، صفحہ 764، حدیث نمبر 24)

5۔جاہل سخی/عابد بخیل: جاہل سخی اللہ عزوجل کو عبادت گزار بخیل سے زیادہ محبوب ہے۔(احیاء العلوم، جلد 3، صفحہ 764، حدیث 20)


تمہید:بخل کے بارے میں بہت سی قرآنی آیات اور حدیث مبارکہ اور اس سے نجات پانے کا ذریعہ اور علاج بھی ذکر ہوں گے،سب سے پہلے بخل کی تعریف بیان کی جائے گی۔

بخل کی تعریف:حضرت سیدنا امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک قوم نے بخل کی تعریف، واجب کی عدم ادائیگی سے کی ہے، لہذا ان کے نزدیک جو شخص خود پر واجب حقوق ادا کرے، وہ بخیل نہ کہلائے گا۔

دیگر علمائے کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:کہ بخیل وہ شخص ہے، جس پر ہر قسم کا عطیہ دینا گراں گزرتا ہے، مگر یہ بات قاصر ہے، کیونکہ اگر بخل سے ہر عطیہ کا گراں گزرنا مراد لے لیا جائے تو اس پر یہ اعتراض ہوگا کہ بہت بخیلوں پر رَتی بھر یا اس سے زیادہ عطیہ دینا گراں نہیں گزرتا تو یہ بات بخل میں رخنہ نہیں ڈالتی، اب بخل کے بارے میں قرآن کریم سے روشنی ڈالی جاتی ہے کہ:

القرآن:

قال اللہ تعالی: وَ لَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا۲۹ترجمہ کنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے، ملامت کیا ہوا تھکا ہوا۔

الاحادیث:

1۔قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:کسی مؤمن بندے کے دل میں لالچ اور ایمان کبھی نہیں جمع ہو سکتے۔(الکامل فی ضعفا الرجل، عبدالغفور بن عبدالعزیز ابو الصباح الواسطی۔ ج2،ص21،ح1481)

2۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:اللہ نے ملامت کو پیدا فرمایا تو اسے بخل اور مال سے ڈھانپ دیا۔(المرجع السابق، ج3، ص183، ح7407)

3۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:بخل کے پندرہ حصے ہیں، ان میں سے نو حصے فارس (یعنی ایر ان) میں، جبکہ ایک حصہ دیگر لوگوں میں سے ہے۔(جامع الاحادیث للسیوطی، حرف الباء، ج4، س52، ح10119)

بخل سے نجات پانے کے بارے میں احادیث مبارکہ، الاحادیث:

4۔قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:جس نے زکوۃ ادا کی اور مہمان کی ضیافت کی اور ناگہانی آفت میں عطیہ دیا، وہ بخل سے آزاد ہے۔

5۔قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:لالچ سے بچتے رہو، کیونکہ بخل نے جب ایک قوم کو اکسایا تو انہوں نے اپنی زکوۃ روک لی اور جب مزید اکسایا تو انہوں نے رشتہ داریاں توڑ ڈالیں اور جب مزید اکسایا تو وہ خون ریزی کرنے لگے۔

خلاصہ کلام: اس پورے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو زیادہ کنجوسی اور لالچ سے بچنا چاہئے، بخل انسان کو ناکارہ وکمزور بنا دیتا ہے، ایسا انسان لالچی اور لاچار ہوجاتا ہے، اس کو اپنے اچھے برے کی تمیز نہیں رہتی، حدیث پاک میں بھی اس کے بارے میں مذمت ذکر کی گئی ہے، قرآن پاک میں بھی اس کے بارے میں ذکر بیان کیا گیا ہے۔

دعائے خیر:یااللہ عزوجل میری اس کاوش کو قبول فرما اور اسے میرے لئے، میرے والدین اور اساتذہ کرام کے لئے صدقہ جاریہ بنا۔آمین


بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے، نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے، اس لئے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔

بخل کی تعریف:کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً اور مروتاً لازم ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 128)

بخل کی تعریف یہ ہے کہ جہاں شرعاً یا عرف و عادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو، وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے، زکوۃ، صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے، اور دوست احباب، عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف وعادت کے اعتبار سے واجب ہے۔(احیاء العلوم الدین، کتاب ذم البخل وذم حب المال و بیان حدالسخاء و البخل وحقیقتھما3/320، ملخصاً)

بخل کی مذمت پر احادیث مبارکہ:

1۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:آدمی کی دو عادتیں بری ہیں،بخیلی جو رولانے والی ہے، بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔(ابو داؤد، کتاب جہاد، باب فی الجراۃ الجبن 18/3 ،ح 2511)

2۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مالدار بخل کی کرنے کی وجہ سے بلا حساب جہنم میں داخل ہوں گے۔(فردوس الاخبار، باب السنن، ج 1،ص444،ح 3309)

3۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخیل اللہ سے دور ہے، جنت سے اور آدمیوں سے دور، جبکہ جہنم کے قریب ہے۔(جامع ترمذی، کتاب البر و الصلۃ ، ج 3، ص 387، ح 1968)

4۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا۔(معجم الاوسط، باب العین من اسمہ علی ، ج 3 ، ص 125 ، ح 4066)

5۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور پر نور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اُسے جہنم میں داخل کئے بغیر نہ چھوڑے گی۔(شعب الایمان، الرابع والسبعون من شعب الایمان 7/435، الحدیث10877)

بخل کے اسباب اور ان کا علاج: بخل کے 5 اسباب اور ان کا علاج درج ذیل ہے:

٭بخل کا پہلا سبب تنگدستی کا خوف ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھے کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی، بلکہ اضافہ ہوتا ہے۔

٭بخل کا دوسرا سبب مال سے محبت ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ قبر کی تنہائی کو یاد کرے کہ میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کام نہ آئے گا، بلکہ میرے مرنے کے بعد ورثاء اسے بے دردی سے تصرف میں لائیں گے۔

٭بخل کا تیسرا سبب نفسانی خواہشات کا غلبہ ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ خواہشاتِ نفسانی کے نقصانات اور اس کے اخروی انجام کا بار بار مطالعہ کرے۔

٭بخل کا چوتھا سبب بچوں کے روشن مستقبل کی خواہش ہے اس کا علاج یہ ہے کہ اللہ عزوجل پر بھروسہ رکھنے میں اپنے اعتقاد و یقین کو مزید پختہ کرے کہ جس ربّ ذوالجلال نے میرا مستقبل بہتر بنایا ہے، وہی ربّ عزوجل میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر بنانے پر قادر ہے۔

٭بخل کا پانچواں سبب آخرت کے معاملے میں غفلت ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور کریں کہ مرنے کے بعد جو مال و دولت میں نے راہِ خدا میں خرچ کی، وہ مجھے نفع دے سکتی ہے، لہذا اس فانی مال سے نفع اٹھانے کے لئے اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہی عقلمندی ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 131، 132)

بخل سے بچنے کا درس: بخل کا علاج یوں بھی ممکن ہے کہ بخل کے اسباب پر غور کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش کرے، جیسے بخل کا بہت بڑا سبب مال کی محبت ہے، مال سے محبت، نفسانی خواہش اور لمبی عمر تک زندہ رہنے کی امید کی وجہ سے ہوتی ہے، اس قناعت اور صبر کے ذریعے اور بکثرت موت کی یاد اور دنیا سے جانے والوں کے حالات پر غور کرکے دور کرے۔

یونہی بخل کی مذمت اور سخاوت کی فضیلت اور حبِ مال کی آفات پر مشتمل احادیث و روایات اور حکایات کا مطالعہ کر کے غوروفکر کرنا بھی اس مہلک مرض سے نجات حاصل کرنے میں ممد و معاون ثابت ہوگا۔(کیمیائےسعادت، رکن سوم، اصل ششم، علاج بخل2/450،451، ملخصاً)


خوفِ خدا بھی رب عَزَّوَجَلَّ کی جانب سے بندوں کو عطا کی جانے والی بہت بڑی نعمت ہے، جس بندے کے اندر خوفِ خدا ہوتا ہے وہ شخص اللہ پاک کی نافرمانی سے ہر دم بچتا رہتا ہے اور اپنی زندگی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت میں گزارتا ہے۔ اس کے علاوہ اللہ پاک اپنے ان بندوں کو بہت زیادہ پسند کرتا ہے جو اس کے خوف سے آنسو بہائیں۔

شیخ طریقت، امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ بھی اپنے مریدین اور محبین کو ہر وقت خوف خدا کی ترغیب دلاتے رہتے ہیں۔ اسی سلسلے میں امیر اہلسنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نےعاشقان رسول کو اس ہفتے 21 صفحات کا رسالہ خوف خدا میں رونے کی فضیلت پڑھنے/ سننے کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے/سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے بھی نوازا ہے۔

دعائے عطار

یارب المصطفٰے! جو کوئی 21 صفحات کا رسالہ خوف خدا میں رونے کی فضیلتپڑھ یا سن لے، اُس کو اپنے خوف سے اخلاص کے ساتھ رونے کی توفیق عطا فرما اور اُسے بے حساب بخش دے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتمِ النّبیِّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ رسالہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے ابھی مفت ڈاؤن لوڈ کیجئے

Download

رسالہ آڈیو میں سننے کے لئے کلک کریں

Audio Book