
اللہ
کی راہ میں جو مال خرچ کریں اس کی برکتیں دنیا وآخرت میں ظاہر ہوتی ہیں بخیل شخص ان
سے محروم رہتا ہے۔ شیطان مردود وسوسے ڈالتا ہے کہ خرچ کرو گے تو ختم ہو جائے گا،لوگوں
کو کِھلاؤ گے تو خود کیا کھاؤ گے؟ اس طرح وَسوسوں سے انسان کو بُخل پر اُکساتا ہے۔
بُخل یہ ہے کہ خود کھائے دوسرے کو نہ دے۔ (ضیائے صدقات* ص99)
حق یہ
ہے کہ جہاں خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بُخل ہے اور جہاں خرچ نہ کرنا واجب ہو
وہاں خرچ کرنا فضول خرچی اور اِسراف ہے۔ (جہنم میں لے جانے والے اعمال* ج1,ص561)
بخل بہت
مَذموم فعل ہے۔آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مذمت فرمائی ہے؛فرمایا: ایسا کوئی
دن نہیں جس میں بندے سویرا کریں اور دو فرشتے نہ اتریں جن میں سے ایک تو کہتا ہے:الہی
سَخی کو اور زیادہ اچھا عِوض دے اور دوسرا کہتا ہے:الہی بخیل کو بربادی دے۔ یعنی سخی کے لیے دعا کنجوس کے لیے بد دعا روزانہ
فرشتوں کے منہ سے نکلتی ہےجو یقیناً قبول ہے، خیال رہے کہ خَلَف مطلقاً عوض کو کہتے
ہیں دنیوی ہو یا اخروی، حِسی ہو یا مَعنوی مگر تَلَف دنیوی اور حسی بربادی کو کہا جاتا
ہے،اللہ فرماتا ہے: ترجمہ كنزالایمان:اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس
کے بدلے اور دے گا۔ (السبا : 39) (مرآۃ المناجیع شرح مشکاۃ المصابیح ج3، ص69, 70) (ضیائے
صدقات ص106,107)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنّت میں نہ تو
فریبی آدمی جائے گا نہ کنجوس نہ احسان جتانے والا۔ (سنن الترمذی،کتاب البر الصلة،باب ماجاءفی البخیل،الحدیث:1964,ج3,ص94)(مشکاة
المصابیح،کتاب الزکاة،باب الانفاق و کراھیةالامساک،الحدیث:1873،ج1,ص335) (ضیائے صدقات
ص128) یعنی جو ان عیبوں پر مر جائے وہ جنتی نہیں کیوں کہ وہ منافق ہے مومن میں اولاً
تو یہ عیب ہوتے نہیں اور اگر ہوں تو اللہ مرنے سے پہلے توبہ نصیب کر دیتا ہے یہ مطلب
بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا آدمی جنّت میں پہلے نہ جائے گا،اِحسان جتانے سے طَعنہ دینا
مراد ہے ورنہ بعض صورتوں میں احسان جتانا عِبادت ہے جبکہ اس سے سامنے والے کی اِصلاح
مَقصود ہو۔ (مرآۃ المناجیع شرح مشکاۃ المصابیح ج 3،ص76,77)(ضیائے صدقات ص129)
آقا کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سخِی اللہ سے قریب ہے جنّت سے قریب ہے، لوگوں سے قریب
ہے،آگ سے دور ہے اور کنجوس اللہ سے دور ہے،جنّت سے دور ہے،لوگوں سے دور ہے،آگ کے قریب
ہے اور یقیناً جاہل سخی کنجوس عابِد سے افضل ہے۔ ۔جو شخص عابِد ہو مگر ہو کنجوس کہ
نہ زکٰوۃ دے نہ صدقات واجبہ ادا کرے وہ یقیناً سخی جاہِل سے بدتر ہو گا ۔ بُخل بہت
سے فِسق پیدا کردیتا ہے۔اور سَخاوت بہت خوبیوں کا تُخَم ہے بلکہ وہ عابِد بھی کامل
نہیں کیوں کہ عبادت مالی یعنی زکٰوة وغیرہ ادا نہیں کرتا،صرف جسمانی عبادت ذکروفکر
پرقناعت کرتا ہےجس میں کچھ خرچ نہ ہو۔ (مرآۃ
المناجیع* ج 3،ص77,78،الحدیث1869)
ایک جگہ
فرمایا:ظلم سے بچو کیوں کہ ظلم قِیامت کے دن اندھیریاں ہو گا اور کنجوس سے بچو کیوں
کہ کنجوسی نے تم سے پہلے والوں کو ہلاک کردیا کنجوسی نے انہیں رغبت دی کہ انہوں نے
خون ریزی کی حرام کو حلال جانا۔ عربی میں شُح بُخل سے بدتر ہے،بخل اپنا مال کسی کو
نہ دینا اور شُح اپنا مال نہ دینا اور دوسرے کے مال پر ناجائز قبضہ کرنا ہے۔غرض کہ
شح بُخل،حِرص اور ظُلم کا مجموعہ ہے اس لیے یہ فتنوں فساد ،خون ریزی وقطع رحمی کی جڑ
ہے۔ جب کوئی دوسروں کا حق ادا نہ کرے بلکہ ان کے حق اور چھننا چاہے تو خواہ مخواہ فساد
ہوگا۔ (مرآۃ المناجیع ج 3،ص75,الحدیث1865)
آپ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مومن میں دو خصلتیں کبھی جمع نہیں ہوتیں کنجوسی اور بد خلقی۔
یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی کامل مومن بھی ہو اور ہمیشہ کا بخیل اور بد خُلق بھی،اگر
اتفاقاً کبھی اس سے بخل یا بد خُلقی صادِر ہو جائے تو فورًا وہ پَشِیمان بھی ہوجاتا
ہے اس کے ایک معنیٰ یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ
مومن نہ بخیل ہوتا ہے نہ بد خلق،جس دل میں ایمان کامل جاگزِیں ہو تو اس دل سے یہ دونوں
عیب نکل جاتے ہیں(لمعات) (مرآۃ المناجیع ج 3،ص78,الحدیث1872)
محترم
پیاری بہنو! ہمیں چاہیے کہ سخاوت اور راہِ خدا میں خرچ کرنے کے فضائل پڑھیں،خرچ کرنےمیں
اعتدال کریں؛نہ تو بخل کریں کہ عذاب کا باعث بنے اور نہ اتنا زیادہ خرچ کریں کہ خود
فقیر ہو جائیں۔اللہ ہمیں بخل سے بچائے اور اپنی راہ
میں اچھی نیتوں کے ساتھ خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
بجاہِ خَاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم۔ ۔

سب چیزوں
کا اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے، اسی نے اپنے بندوں کو ہر چیز سے نوازا ہے لیکن استعمال
کرنے کی بھی اسی ذات نے تحدید فرمائی ہے، جس میں اس کی پابندی اور تابعداری ضروری ہے۔
اس لیے اس کے دیئے ہوئے مال میں نہ کنجوسی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ اسراف کی۔ کنجوسی
صرف مال پہ ہی نہیں ہوتی بلکہ محبت اور شفقت کے اظہار میں، مسکراہٹ بکھیرنے میں، تسلی
و تشفی دینے میں، گویا بخیل دینے کے ہر عمل سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ عمر گزرنے
کے ساتھ انسان کے بہت سے عیوب چھٹ جاتے ہیں لیکن بخل پہلے سے بڑھ کر جوان ہوتا ہے۔
بخیل کی مثال اس پیاسے اونٹ کی ہے جس کی پیٹھ پر پانی لدا ہو۔
بُخْل
کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ
کرنا شرعاً،عادتاً یا مروّتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بُخْل کہلاتا ہے، یا جس جگہ
مال و اسباب خرچ کرناضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بُخْل ہے۔ (باطنی بیماریوں کی
معلومات،صفحہ۱۲۸)
بخل فقر
کے راستہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ فقر عشق ہے اور عشق قربانی مانگتا ہے اس لیے
بخیل اپنے بخل کی وجہ سے اس راستے پر نہیں چل سکتا یہ ایک مزاجی کیفیت کا نام ہے ۔
جس شخص کو یہ بیماری لگ جاتی ہے، وہ خود دنیا کی ساری چیزوں کا مالک بن کر رہنا چاہتا
ہے۔ اس کے دل و دماغ میں خودغرضی اور خودنمائی سمائی ہوئی ہوتی ہے۔ اسے صرف اپنی ذات
سے محبت ہوتی ہے۔ اس کی وجہ سے اس کے ہر رویے سے تنگی جھلکتی ہے۔ مزاج و طبیعت میں
بخل نظر آتا ہے۔ اس مزاجی کیفیت کی جھلک کبھی مال و دولت میں دکھائی دیتی ہے، کبھی
علم و فن میں اس کا رنگ ظاہر ہوتا ہے اور کبھی
اخلاق و عادات اور رویے میں اس کی آہنگ سنی جاتی ہے۔
ایک مقولہ
ہے کہ سخی شخص کے دشمن بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں جبکہ بخیل کی اولاد بھی اس سے
بغض رکھتی ہے۔ بخل نہایت بری عادت ہے۔ یہ کم عقلی کی علامت ہے۔ بخیل انسان اللہ کے
ہاں ناپسندیدہ شخص ہے۔ یہ ایک ایسی بد خصلت ہے جو انسان کی زندگی کے کسی ایک پہلو ہی
پر اثر نہیں ڈالتی بلکہ اس کی سوچ اور عمل دونوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔ بخل انسان کو
اس طرح جکڑ لیتا ہے کہ وہ تمام عمر اس کے اثر سے نہیں نکل پاتا۔ بخل انسانی صفات میں
کمی اور حیوانی صفات کے غالب آجانے کی دلیل ہے۔ جب وہ مال کا بندہ بن جاتا ہے تو نہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی رہتا ہے اور نہ مخلوق۔
بخل کے بارے میں تنبیہ:بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے،
نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے اس لیے ہر مسلمان کو اس سے
بچنا لازم ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۰)
بخیل شخص
کے اخلاق، معاملات اور رویے میں بھی تنگی کا ہی مظاہرہ ہوتا ہے۔ وہ شفقت، ہمدردی، احسان،
رواداری،حُسنِ سلوک جیسے اوصاف سے عاری دکھائی دیتا ہے۔ دوسروں کو پھلتا پھولتا، خوش
حال اور مسکراتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس کی ذات سے دوسروں کو زحمت ہی ملتی ہے۔ اسے پھول سے الجھن ہوتی ہے، وہ راستوں
میں کانٹے ڈالنے کا ہی کام کرتا ہے۔ اللہ تبارک
و تعالیٰ نے اس رویے پر ہلاکت کی وعید سنائی ہے۔ارشادِ ربانی ہے: ’’ پھر تباہی ہے ان
نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں میں غافل رہتے ہیں اور جو دکھاوا کرتے ہیں اور چھوٹی
چھوٹی معمولی چیزوں کو مانگنے پر نہیں دیتے۔ (الماعون: ۴ - ۷)
بخل کی مذمت پر 5 احادیثِ مبارکہ:
(1)
رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے اس بات پر قسم یادفرمائی ہے کہ جنت ميں کوئی
بخیل داخل نہ ہو گا۔ (کنزالعمال،کتاب الاخلاق،قسم الاقوال،جزء ۳،۲/۱۸۱،حدیث:۷۳۸۲)
(2)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد
فرمایا کہ’’جس کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی، روز قیامت
وہ مال سانپ بن کر اس کو طوق کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا
مال ہوں ، میں تیرا خزانہ ہوں۔ ( بخاری، کتاب الزکاۃ، باب اثم مانع الزکاۃ، ۱ / ۴۷۴ ، الحدیث : ۱۴۰۳)
(3)خاتم
النبیین رحمتہ اللعالمین حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے ارشاد فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیے
بکریوں کے ریوڑ میں گھس کر اتنا نقصان نہیں کرتے جتنی مال و جاہ کی چاہت انسان کا دین
برباد کر دیتی ہے۔ (ترمذی)
(4)
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے ، حضور پر نور ﷺ نے ارشاد
فرمایا ’’بخل جہنم میں ایک درخت ہے، جو بخیل ہے اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی
اُسے جہنم میں داخل کیے بغیر نہ چھوڑے گی۔ ( شعب الایمان، الرابع و السبعون من شعب
الایمان، ۷ / ۴۳۵ ، الحدیث : ۱۰۸۷۷)
(5)
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ بندوں پر کوئی صبح نہیں آتی مگر اس میں دو فرشتے
نازل ہوتے ہیں، ان میں سے ایک کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدل عطا
فرما اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ! بخل کرنے والے کو تباہی عطا کر۔ (صحیح بخاری1356)
بخل کا
علاج یوں ممکن ہے کہ بخل کے اسباب پر غور کر کے انہیں دور کرنے کی کوشش کرے ،جیسے بخل
کا بہت بڑا سبب مال کی محبت ہے ، مال سے محبت نفسانی خواہش اور لمبی عمر تک زندہ رہنے
کی امید کی وجہ سے ہوتی ہے، اسے قناعت اور صبر کے ذریعے اور بکثر ت موت کی یادا ور
دنیا سے جانے والوں کے حالات پر غور کر کے دور کرے ۔ یونہی بخل کی مذمت اور سخاوت کی
فضیلت، حُبّ مال کی آفات پر مشتمل اَحادیث و روایات اور حکایات کا مطالعہ کر کے غورو
فکر کرنا بھی اس مُہلِک مرض سے نجات حاصل کرنے میں ممد و معاون ثابت ہو گا ۔
سخاوت
اور بخل دو دریا ہیں جو ایک دوسرے کے متوازی بہتے ہیں۔ سخاوت کا دریا اگرچہ ٹھنڈے اور
شریں پانی کا ہے لیکن اس کے اندر اور کناروں پر بہت ہی کم لوگ نظر آتے ہیں۔ یہ خوش
بخت لوگ ہیں۔ اس کے برعکس بخل کے دریا کا پانی کھارا اور بدذائقہ ہے لیکن اس کے اندر
اور کناروں پر لوگوں کا جمِ غفیر ہے۔ یہ مادہ پرست بدبخت لوگ ہیں۔ حاصل بحث یہ کہ بخل
(کنجوسی) کی راہ اختیار نہ کی جائے اور دل کھول کر اللہ پاک کی بارگاہ میں مال خرچ کیا جائے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے جو دعائیں مانگی ہیں، ان میں سے
ایک یہ بھی ہے کہ ’’ اے اللہ مجھے بخیل ہونے سے بچا۔‘‘ (صحیح بخاری)
اللہ تعالیٰ
ہمیں شیطان کے شر اور نفس کی چالبازیوں سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین

بخل کے
لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا
شرعاً ، عادتاً یا مروتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے، یا جس جگہ مال و
اسباب خرچ کرناضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔ ( باطنی بیماریوں کی معلومات ، ص۱۲۸ )
بخل کی مذمت پر 5 احادیثِ مبارکہ:
1۔اس
امت کے پہلے لوگ یقین اور زہد کے ذريعے نجات پائيں گے جب کہ آخری لوگ بخل اور خواہشات
کے سبب ہلاکت میں مبتلا ہوں گے ۔ (فردوس الاخبار ،۲/۳۷۴ ،
حدیث:۷۱۰۶ )
2۔اللہ پاک نے اس بات پر قسم یاد فرمائی ہے
کہ جنت ميں کوئی بخیل داخل نہ ہو گا ( کنزالعمال
، کتاب الاخلاق ، قسم الاقوال ، جزء ۳ ، ۲/۱۸۱ ، حدیث :۷۳۸۲ )
3۔حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے
ہیں کہ ایک بار میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوا ،
حضور ﷺ ، بیت اللہ شریف کی دیوار کے سایہ میں تشریف فرما تھے ، مجھے دیکھ کر حضور انور
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : رب کعبہ کی قسم وہ لوگ بڑے خسارے میں ہیں ، میں
نے عرض کی ، میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ، کون لوگ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : جن کے پاس مال
زیادہ ہو ، مگر وہ لوگ ( خسارے میں نہیں ہیں )جو اس طرح ( خرچ )کریں اپنے دائیں سے
، اپنے بائیں سے ، آگے سے ، پیچھے سے ، لیکن ایسے افراد ہیں بہت کم ۔ ( صحیح بخاری
، صحیح مسلم ، مشکوٰۃ )
4۔خلیفہ
ء رسول ﷺ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا جنت میں نہ تو دھوکہ باز داخل ہو گا ، نہ بخیل
اورنہ صدقہ کر کے احسان جتانے والا ۔ ترمذی
5۔حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی
ہے سخی انسان اللہ تعالیٰ سے قریب ہے ، جنت سے قریب ہے ، انسانوں سے قریب ہے ، ( جب
کہ )جہنم سے دور ہے اور بخیل انسان اللہ کریم سے دور ہے ، جنت سے دور ہے ، انسانوں
سے دور ہے اور جہنم سے قریب ہے ، بے شک جاہل سخی اللہ کے نزدیک عابد بخیل سے زیادہ
محبوب ہے ۔ سنن ترمذی

بخل
کے لغوی معنیٰ کنجوسی، تنگدلی، جائز ضروریات
پر خرچ کرنے سے گریز کرنا، لالچ، طمع و حرص بھی اسی معنیٰ میں آتا ہے۔
بخل کی تعریف: جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاً اور مروتاً لازم ہو، وہاں خرچ نہ کرنا
بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی
بخل کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، صفحہ 128، مکتبہ العلمیہ)
بخل کی
مذمت میں اللہ کریم نے قران کریم میں ارشاد فرمایا ہے:
آیات
قرآنیہ: اَلشَّيْطٰنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَ
يَاْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَآءِ١ۚ ترجمہ کنزالایمان:شیطان تمہیں محتاجی کا اندیشہ
دلاتا ہے اور وہ تمہیں برائی کا حکم دیتا ہے۔(پ3، البقرہ:286)
آئیے
بخل کی مذمت پر پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرمائیے اور بخل جیسی
عادت سے بچنے کی کوشش کی جائے۔
1۔حضور
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:بخل سے بچو، کیونکہ اسی نے تم
سے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا، ان کو ایک دوسرے کا خون بہانے اور حرام چیزوں کو حلال
ٹھہرانے پر ابھارا ہے۔(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب التحریم الظلم، ح2576)
2۔حضرت
محمد مصطفی، امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک نے بخل کو اپنے
غضب سے پیدا کیا اور اس کی جڑ کو زقوم(یعنی جہنم کے ایک درخت) کی جڑ میں راسخ کیا
اور اس کی بعض شاخیں زمین کی طرف جھکا دیں، تو جو شخص بخل کی کسی ٹہنی کو پکڑ لیتا
ہے تو اللہ کریم اسے جہنم میں داخل فرما دیتا ہے، سن لو! بے شک بخل ناشکری ہے اور
ناشکری جہنم میں ہے۔( کتاب البخلاء وصف الرسول صلی اللہ علیہ وسلم سخا وبخل،صفحہ
48، حدیث نمبر 17)
3۔حضرت
سیدنا عیسی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:بخیل، مکار، خیانت کرنے والا اور بد اخلاق
جنت میں نہیں جائیں گے۔(لباب الاحیاء، بخل اور حب مال کی مذمت،صفحہ 266، باب27)
4۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اولاد بخل، بزدلی اور جہالت میں مبتلا
کرنے والی ہے۔(سنن ابی ماجہ، ابواب الادب، باب برالوالد والاحسان، ح3666)
5۔نبی
مکرم، شاہِ بنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:زیادہ مال والے ہلاک ہوگئے،
سوائے اس کے جو اللہ کے بندوں میں کثرت سے اپنا مال خرچ کرے اور وہ تھوڑے ہیں۔(المسندامام
احمد بن حنبل، مسند ابی ھریرہ، جلد 3، ح8091)
خلاصہ کلام: بخل مال کی محبت سے پیدا ہوتا ہے، لہٰذا بخل سے
بچنے کے لئے سخاوت کرے، اپنے مال کو آخرت کے لئے لگا دے کہ جہاں مال ہوتا ہے، وہی
انسان کا دل ہوتا ہے، جو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرے گا، تو آخرت کی طرف فکر لگ
جائے گی اور دنیا ومال کی محبت دل سے نکل جائے گی اور اسی طرح بخل کی بری عادت سے نجات
مل جائے گی۔

بخل کی تعریف: بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً،عادتاً یاہو
مروّتاً لازم وہاں خرچ نہ کرنا بُخْل کہلاتا ہے، یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرناضروری
ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بُخْل ہے۔ (حرص، ص۴۲ملتقطاً) (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۸)
اللہ قرآن
پاک میں ارشاد فرماتاہے:وَ لَا
يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ
خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ
يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
خَبِيْرٌ
(پ۴، آل عمران: ۱۸۰)
ترجمۂ کنزالایمان: ’’اور جو بخل کرتے ہیں اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے
دی ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل
کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا اور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین
کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔‘‘
صدر الافاضل
حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت
مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’بخل کے معنٰی میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ واجب
کا ادا نہ کرنا بخل ہے اسی لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں چنانچہ اس آیت میں بھی
ایک وعید آرہی ہے ترمذی کی حدیث میں ہے بخل اور بدخلقی
یہ دو خصلتیں ایماندار میں جمع نہیں ہوتیں۔ اکثر مُفَسِّرِین نے فرمایا کہ یہاں
بخل سے زکوٰۃ کا نہ دینا مراد ہے۔‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’بخاری شریف کی حدیث میں ہے
کہ جس کو اللہ نے مال دیا اور اس نے زکوٰۃ ادا نہ کی روز قیامت وہ مال سانپ بن کر اُس
کو طوق کی طرح لپٹے گااور یہ کہہ کر ڈستا جائے گا کہ میں تیرا مال ہوں میں تیرا خزانہ
ہوں۔‘‘(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۸،۱۲۹)
بخل ہلاکت کا سبب ہے: حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ
اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صَلَّی اللہُ تَعَا
لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے
پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں ، لالچ نے انہيں بُخْل پر آمادہ کيا تو وہ بُخْل
کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم
ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔‘‘ (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۲۹،۱۳۰)
بخل کے بارے میں تنبیہ: بخل ایک نہایت ہی قبیح اور مذموم فعل ہے،
نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے اس لیے ہر مسلمان کو اس سے
بچنا لازم ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۰)
بخل کےپانچ اسبا ب اور ان کا علاج :
1۔ بخل
کاپہلا سبب تنگ دستی کاخوف ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھے
کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی بلکہ اِضافہ ہوتا ہے۔
2۔بخل
کا دوسرا سبب مال سے محبت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ قبر کی تنہائی کو یاد کرے کہ
میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کا م نہ آئے گابلکہ میرے مرنے کے بعد ورثاء اسے بے دردی
سے تصرف میں لائیں گے۔
3۔بخل
کا تیسرا سبب نفسانی خواہشات کا غلبہ ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ خواہشات نفسانی کے
نقصانات اور اُس کے اُخروی انجام کا باربار مطالعہ کرے۔ اس سلسلے میں امیر اہل سنت
کارسالہ’’ گناہوں کا علاج ‘‘پڑھنا حد درجہ مفیدہے۔
4۔بخل
کا چوتھا سبب بچوں کے روشن مستقبل کی خواہش ہے۔اس کا علاج یہ ہےکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
پر بھروسہ رکھنے میں اپنے اعتقاد ویقین کو مزید پختہ کرے کہ جس ربّ عَزَّ وَجَلَّ نے
میرا مستقبل بہتر بنایا ہے وہی ربّ عَزَّ وَجَلَّ میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر
بنانے پر قادر ہے۔
5۔بخل
کا پانچواں سبب آخرت کے معاملے میں غفلت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور
کرے کہ مرنے کے بعد جو مال ودولت میں نے راہِ خدا میں خرچ کی وہ مجھے نفع دے سکتی ہے،لہٰذا
اس فانی مال سے نفع اٹھانے کے لیے اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہی عقل مندی ہے۔ (احیاء العلوم،ج۳،ص۷۸۴ تا۷۸۷ملتقطا) (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۳۱،۱۳۲)
بخل کی مذمت پر 2 احادیثِ مبارکہ
آئیے!بخل
کی مذمّت پر 2 احادیثِ مُبارَکہ سنئے اور اس باطنی بیماری سے بچنے کی کوشش کیجئے
، چنانچہ
(1)پیارے
آقاﷺ نے فرمایا :اس اُمت کے پہلے لوگ یقین اور زُہد کے ذريعے نجات پائيں گے جبکہ آخری
لوگ بخل اور خواہشات کے سبب ہلاکت میں مبتلا ہوں گے۔(فردوس الاخبار،۲/۳۷۴ ،حدیث:۷۱۰۶)
(2)
پیارے
آقاﷺ نے فرمایا:اللہ پاک نے اس بات پر قسم
یادفرمائی ہے کہ جنت ميں کوئی بخیل داخل نہ ہو گا۔(کنزالعمال،کتاب الاخلاق،قسم الاقوال،جزء
۳،۲/۱۸۱،حدیث:۷۳۸۲)
معزز قارئین!سُنا
آپ نے کہ بخل کی کس قدر تباہ کاریاں ہیں ،کیا
یہ ہلاکت کم ہے کہ اللہ پاک نے اس بات پر قسم ذِکر فرمائی ہے کہ جنت میں کوئی کنجوس شخص داخل
نہ ہو گا۔کیا اب بھی ہم بخل جیسی نحوست سے
نہیں بچیں گے؟کیا اب بھی ہم کنجوسی سے کام
لیں گے؟کیا اب بھی بخل کے ذریعے اپنی ہلاکت کے اسباب خود ہی پیدا کریں گے؟ کیا اب بھی
صدقہ و خیرات سے جی چُرائیں گے ؟یاد رکھئے! بخیل شخص لوگوں کی نظروں میں حقیر بن جاتا ہے اور معاشرے) (Societyمیں اسے عزّت کی
نگاہ سے نہیں دیکھا جاتااور ایسا کنجوس شخص ابلیس لعین کو بہت پسند ہے۔ چنانچہ
حضرتِ
یحییٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے ابلیس سے پوچھا:تجھے
کونسا آدمی پسنداور کونسا ناپسند ہے؟ ابلیس نے کہا:مجھے مومن بخیل پسند ہے مگر گنہگار
سخی پسند نہیں ؟ آپ عَلَیْہِ الصلوٰۃو السَّلَام نے پوچھا: وہ کیوں؟ ابلیس نے کہا:اس لئے کہ بخیل(کنجوس)
کو تو اس کا بخل ہی لے ڈُوبے گا مگر فاسق سخی کے متعلق مجھے یہ خطرہ ہے کہ کہیں اللہ تَعَالی اس کے گناہوں کو اس کی سخاوت کے باعث معاف نہ فرمادے۔ پھر ابلیس
جاتے ہوئے کہتا گیا کہ اگر آپ پیغمبر نہ ہوتے تو میں(راز کی یہ باتیں )کبھی نہ بتلاتا۔ (مکاشفۃ
القلوب ،ص ۱۸۱)
معزز قارئین!
سُنا آپ نے کہ بخیل (کنجوس)شخص شیطان کو بہت
پسند ہے کہ ایسے شخص پر ابلیس کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی بلکہ اس شخص کا بخل ہی اسے لے ڈُوبتا ہے ۔ کنجوسی کئی دِینی اور
دُنیوی نقصانات کا سبب بنتی ہے۔
بخل کے دِینی نقصانات: آئیے!کنجوسی کے چند دِینی نُقصانات سُنئے اور اس عادتِ بَد سے چُھٹکارا
پانے کی نِیَّت بھی کیجئے ،چُنانچہ
(1)بخل(یعنی کنجوسی ) کرنے والاکبھی کامل مومن
نہیں بن سکتا بلکہ کبھی بخل ایمان سے بھی روک
دیتا ہے اور انسان کو کُفر کی طرف لے جاتا ہے ،جیسے قارون کو اس کے بُخل نے اسلام قبول
کرنے سے روک دیا۔(2) بخل کرنے والا گویا کہ
اس درخت کی شاخ پکڑ رہا ہے جو اسے جہنم کی آگ میں داخل کر کے ہی چھوڑے گی۔(3)بخل کی وجہ سے جنّت میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے۔ (4)بخل کرنے والا
مال خرچ کرنے کے ثواب سے محروم ہوجاتا اور نہ خرچ کرنے کے وبال میں مبتلا ہو جاتا ہے۔(5)بخل کرنے والا حرص جیسی خطرناک
باطنی بیماری کا شکار ہو جاتا ہے اور اُس پر مال جمع کرنے کی دُھن سوار ہو جاتی ہے
اورا س کیلئے وہ جائز ناجائز تک کی پروا کرنا چھوڑ دیتا ہےاور اس کے علاوہ بھی بہت
سے دِینی نقصانات ہیں۔(صراط الجنان ،۹/۳۳۳)
بخل کے دُنیوی نقصانات : آئیے!اب اِس بخل
کی وجہ سے ہونے والے دُنیوی نقصانات کے متعلق
سُنتے ہیں۔
(1)بخل(یعنی
کنجوسی)آدمی کی سب سے بدتر(بُری)خامی ہے۔(2)بخل ملامت اور رُسوائی کا ذریعہ ہے۔ (3)بخل(کنجوسی)
خونریزی(قتل و غارت) اور فساد کی جڑ اور ہلاکت وبربادی کا سبب ہے۔ (4)بخل (کنجوسی)ظلم
کرنے پر اُبھارتا ہے۔(5)بخل کرنے سے رشتہ داریاں ٹُوٹتی ہیں ۔(6) بخل کرنے کی وجہ سے آدمی مال کی برکت سےمحروم ہوجاتا ہے۔(صراط الجنان ،۹/۳۳۳)
صَلُّوْا
عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
بُخْل
سے بچئے!بعض نادان دنیاوی مال و دولت کے اتنے حریص ہوتے ہیں کہ راہِ خدا میں صدقہ و خیرات کا نام سُنتے ہی دُور
بھاگتے ہیں اور کنجوسی کی حد پار کرتے ہوئے
اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنا تو دُور کی بات اپنی ذات اور اپنے گھر والوں کی ضروری حاجات بھی مرے دل سے پوری کرتے ہیں،ایسے لوگوں کے
دل و دماغ پر ہر وقت دنیاوی مال و دولت جمع
کرنے کا جنون سوار رہتا ہے اور پھر یہی بخل و حرص آہستہ آہستہ انہیں سرکش اور یادِ خُداوندی سے غافِل کردیتی ہے ۔قرآنِ
پاک میں مالداروں اور صاحبِ ثروت لوگوں کو
راہِ خدا میں خرچ کرنے اور بُخْل سے بچنے کی ترغیب دلائی گئی ہے ،چنانچہ پارہ 26
سورۂ محمد آیت نمبر 38 میں ارشادِ باری تعالیٰ
ہے:
هٰۤاَنْتُمْ هٰۤؤُلَآءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ١ۚ
فَمِنْكُمْ مَّنْ يَّبْخَلُ١ۚ وَ مَنْ يَّبْخَلْ فَاِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَّفْسِهٖ١ؕ
وَ اللّٰهُ الْغَنِيُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ١ۚ وَ اِنْ تَتَوَلَّوْا
يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ١ۙ ثُمَّ لَا يَكُوْنُوْۤا اَمْثَالَكُمْ (پ۲۶، محمد:۳۸) ترجمۂ کنزالایمان:ہاں ہاں یہ جو تم ہو
بلائے جاتے ہو کہ اللہ کی راہ میں خَرْچ کرو
تو تم میں کوئی بخل کرتا ہے اور جو بخل کرے وہ اپنی ہی جان پر بخل کرتا ہے اوراللہ بے نیاز ہے اور تم سب محتاج اور اگر تم منہ پھیرو
تو وہ تمہارے سِوا اور لوگ بدل لے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔
صَلُّوْا
عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
انسان کی ہلاکت: معزز قارئین!جو
لوگ کنجوسی سے کام لیتے ہوئے راہِ خُدا میں
مال خرچ کرنے کے بجائے جمع کرنے میں لگے رہتے ہیں وہ دنیاوی نقصانات کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی خسارہ اُٹھائیں گے ۔
اللہ عزوجل
ہمیں بخل جیسی باطنی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی
کے تحت کوئٹہ ڈویژن میں سیکھنے سکھانے کا حلقہ لگایا گیا جس میں جامعۃالمدینہ
بوائز کے طلبۂ کرام نے شرکت کی۔
اس حلقے میں مبلغِ دعوتِ
اسلامی نے طلبۂ کرام کی تربیت کرتے ہوئے انہیں کفن دفن کے چند ضروری مسائل سکھائے
اور غسلِ میت دینے، کفن کاٹنے اور پہنانے کا طریقہ بتایا۔
آخر میں مبلغِ دعوتِ
اسلامی نے طلبۂ کرام کو دعوتِ اسلامی کے 12 دینی کاموں میں عملی طور پر حصہ لینے
کا ذہن دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہا رکیا۔(رپورٹ:امتیاز عطاری صوبائی ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

حضرت یحیٰی
ابن ذکریا علیٰ نبینا و علیہما السلام نے شیطان کو دیکھا اور اس سے معلوم فرمایا تیرا
بڑا دشمن کون ہے؟اور طرح سب سے بڑھ کر دوست کون ہے؟ اس نے جواب دیا : زاہد کنجوس و
بخیل میرا سب سے بڑھ کر دوست ہے کیونکہ وہ مشقت و محنت اٹھاتا ہے اور بندگی بجا لاتا
ہے لیکن اس کا بخل اس کی عبادت کو تباہ کر دیتا ہے اور ناچیز بنا دیتا ہے اور فاسق
سخی میرا سب سے بڑا دشمن ہے کیونکہ وہ اچھا کھاتا ہے اور اچھا پہنتا ہے اور اچھے طریقے
سے زندگی گزارتا ہے مجھے خطرہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی سخاوت کی وجہ سے اس پر رحم فرمائے اور اسے
توبہ کی توفیق عنایت فرما دے۔
پیاری
اسلامی بہنو! کون بخیل ہے اور کون سخی؟اس کا علم ہونا ضروری ہے کیونکہ ایک آدمی خود
کو سخی تصور کرتا ہو لیکن یہ بہت ممکن ہے ۔دوسرے لوگ اسے بخیل جانتے ہوں لہذا اس بخل
کی حقیقت کو سمجھنا اور جاننا چاہیے تاکہ لوگ اس بڑے اور عظیم مرض کو سمجھ سکیں۔
یہ جاننا
ضروری ہے کہ دنیا میں ایسا کوئی آدمی نہیں ہے کہ جو کچھ بھی اس سے مانگا جائے وہ دے
دے تو اگر نہ دے تو اس سبب سے اسے بخیل سمجھا جاتا ہے تو پھر تو دنیا کے سب لوگ ہی بخیل ہوں گے حالانکہ ایسا قطعاً نہیں۔اکثر
لوگوں کا یہ خیال ہے اور اس بات پر متفق ہیں کہ جو آدمی وہ شے جو شرعاً واجب ہوتی ہے
وہ نہ دے اور اگر دے لیکن بغیر تقاضے کے نہ دے تو وہ بھی بخیل ہے ۔
اس معاملے
میں علمائے کرام
نے بخل کی مختلف تعریفات ذکر فرمائی ہیں:
بخل کی تعریف:بخل کے لغوی معنٰی
کنجوسی کے ہیں ۔
اصطلاحی
معنیٰ: جہاں خرچ کرنا شرعاً،عادتاً یا مروّتاً لازم ہو وہاں خرچ نہ کرنا بُخل کہلاتا
ہے یا جس جگہ مال و اسباب خرچ کرنا ضروری ہو وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔(بحوالہ
الحدیقۃ الندیۃ،الخلق السابع والعشرون ۔۔۔۔۔الخ،ج 2،ص 27،مفردات الفاظ القران109)
بعض علماء
نے بخل کی تعریف یہ بیان فرمائی:بخل یہ ہے کہ انسان حاجت وضرورت
کے مقام پر بھی موجودہ چیز کو استعمال نہ کرے،چاہے وہ چیز مال ہو،یا علمِ دین،یا کچھ
اور مثلاً اپنی ضرورت سے زیادہ مال موجود ہے لیکن اس کے باوجود کسی ضرورت مند کو نہ
دینا یا حالتِ بیماری وغیرہ میں اپنی یا اپنے گھر والوں کی ذات پر مال کی محبت کی بناء
پر کچھ خرچ نہ کرنا چاہے تکلیف کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو ۔
حکمت الہی
کا منشایہ ہے کہ عطا کیا جائے تو نہ دینا بخل
کی علامت ہے اور دینے کے قابل وہ شے ہے جسے دینے کا شریعت میں مروت حکم ہے شرعی واجبات
تو معلوم اور متعین ہیں لیکن مروت کے واجبات اور اس کے تقاضے لوگوں کے احوال اور مقدار
بخل کے لحاظ سے متفادت ہیں،کیونکہ بہت سی نیکیاں ایسی ہیں جو عادتاً تو انگر کے ساتھ
بھری ہیں لیکن وہی اگر کسی غریب نادار کے ساتھ کی جائیں افضل و اعلیٰ ہے بیوی بیٹے
کے ساتھ نامناسب ہیں اور دیگر لوگوں کے ساتھ مناسب ہیں اور دوستوں کے ساتھ ناروا ہیں
اور بیگانوں اور پرائے لوگوں سے نامناسب
ہیں کچھ نیکیاں مردوں کے ساتھ نا درست ہیں لیکن وہی عورت کے ساتھ صحیح ہیں اس کی توضیح
یہ ہے ۔کوئی آدمی جو مال جمع کرنا چاہے اور ایک ایسی ضرورت پیش آجائے جو مال
جمع کرنے سے زیادہ اہم ہو تو اس حالت میں مال صرف نہ کرنا بخل ہے اور جب مال جمع کرنا
یا اس کو روک رکھنا لازمی ہو تو تب اس کا صرف کرنا اسراف (فضول خرچی)ہے اور دونوں صورتیں
بری ہیں (یعنی بخل و اسراف) یا کوئی مہمان آ گیا اور اس کے ساتھ یہ عذر کرنا کہ زکوٰۃ
کا روپیہ ادا کر دیا ہے۔مہمان کی مہمان نوازی نہ کرنا،غیر مناسب اور بخل کی نشانی قرار
پائے گا۔ایسے
ہی جب پڑوسی بھوکا ہے اور اس آدمی کے پاس کھانا وافر مقدار میں موجود ہے تو ہمسائے
کو کھانا نہ کھلانا ہے۔
مذمتِ بخل:اگر قرآنِ کریم
اور احادیثِ مبارکہ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو بہت سے مقامات
پر بخل کی قباحت کومختلف الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا
ہے:وَ لَا
يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ يَبْخَلُوْنَ بِمَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ هُوَ
خَيْرًا لَّهُمْ١ؕ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ١ؕ سَيُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِهٖ
يَوْمَ الْقِيٰمَةِ١ؕ وَ لِلّٰهِ مِيْرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
خَبِيْرٌ ترجمہ کنزالایمان: اور جو بخل کرتے ہیں
اس چیز میں جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دی ہرگز اسے اپنے لئے اچھا نہ سمجھیں بلکہ
وہ ان کے لئے برا ہے عنقریب وہ جس میں بخل کیا تھا قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو
گااور اللہ ہی وارث ہے آسمانوں اور زمین کا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔
صدرالافاضل
حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الھادی خزائن العرفان
میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں :بخل کے معنیٰ ٰ میں اکثر علماء اس طرف گئے ہیں
کہ واجب کا ادا نہ کرنا بخل ہے اسی لئے بخل پر شدید وعیدیں آئی ہیں چنانچہ اس آیت میں
بھی ایک وعید آ رہی ہے ترمذی کی حدیث میں ہے ۔
نبی کریم
ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ایک ایماندار میں دو خصلتیں جمع
نہیں ہوتیں کہ وہ بخیل اور بد اخلاق ہو۔ (ترمذی شریف)
1۔ حضرت
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں ،لالچ نے انہیں
بُخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع
رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔
2۔ نبی
پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:سخی آدمی،اللہ تعالیٰ کے قریب ہے لوگوں سے قریب ہے،جنت سے قریب
ہےاور دوزخ سے دورہے بخیل آدمی،اللہ تعالیٰ سے دور ہے،لوگوں سے دور ہے،جنت سے دور ہے
اور دوزخ سے قریب ہے۔ (ترمذی شریف)
3۔ نبی
پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے
بندے کے فائدے کی خاطر انعامات عطا فرماتا ہے جس نے ان انعامات میں بندوں پر بخل سے
کام لیا اللہ تعالیٰ ان انعامات کو بدل کر یعنی اس سے چھین کر دوسرے کو عطا فرما دے
گا (حلیۃ الاولیاء)
4۔پیارے
آقا ﷺنے خبردارفرمایا کہ :سخاوت جنت میں ایک درخت ہے جو سخی ہوا اس نے اس درخت کی شاخ
پکڑ لی وہ شاخ اسے نہ چھوڑے گی حتیٰ کہ اسے جنت میں داخل کر دے اور بخل آگ میں ایک
درخت ہے جو بخیل ہوا اس نے اس کی شاخ پکڑی وہ اسے نہ چھوڑے گی حتی کہ آگ میں داخل کر
دے گی (کنزالعمال )
مذکورہ
آیت و احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بخل بروزِ قیامت ذلت و رسوائی،عذابِ الہی میں
گرفتاری، جنت سے محرومی،کمینے پن اور دوزخ میں دخول کا سبب ہے۔
بخل کس
طرح اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے محرومی کا سب بنتا ہے اس کا اندازہ اس روایت سے لگا ئیےکہ: ایک مرتبہ ایک غریب آدمی،ایک بخیل مال دار آدمی کے
پاس اپنی حاجت لے کر آیا اور عرض کی کہ،مانگنے سے تو مجھے خود نفرت ہے مگر کیا کروں
کہ بچوں پر تین فاقے گزر گئے ہیں ،مجبور ہو کر آپ کے دروازےپر آیا ہوں خدا عزوجل کے
لئے میری مدد فرمائیے،آپ کی مدد سے چار آدمیوں کی جانیں بچ جائیں گی۔
مگر اس
کنجوس نے بجائے مدد کرنے کے اس غریب کو دھکے دے کر نکال دیا۔کچھ ہی
عرصہ بعد وہ مال درا زمانے کی گردش میں آ گیا اور بالکل کنگال ہو گیا اور اس کے تمام
نوکر چاکر بھی دوسروں کے ہاں ملازم ہو گئے۔اس کا ایک نوکر ایک بہت ہی سخی آدمی کے پاس
جا کر ملازم ہو گیا۔وہ سخی دل کھول کر فقیروں اور غریبوں کی مدد کرتا اور ان کی حاجات
پوری کیا کرتا تھا۔ایک رات جب سخت سردی تھی اور موسلادھار بارش ہو رہی تھی لوگ اپنے
گرم گرم بستروں میں دبکے ہوئے تھے حاجت مند
نے دستک دی ۔اگرچہ سخت سردی تھی لیکن پھر بھی سخی نے اس فقیر کو ٹھہرنے کے لئے کہا
اور نوکر کو آواز دی کہ اس شخص کو فوراً کھانا کھلائے۔ نوکر
نے حکم پورا کیا لیکن جب واپس آیا تو زاروقطار رورہا تھا۔سخی نے سبب پوچھا تو اس نے
بتایا کہ باہر جو شخص ہے وہ پہلے میرا مالک تھا دو تین برس پہلے اس کے دروازے پر گھوڑے
ہنہناتے تھے اور اندر باہر روپوں کی چہل پہل تھی آج اس کا یہ حال دیکھ کر میرا دل بھر
آیا ۔سخی نے کہا کہاچھا میں بھی تو دیکھوں کہ کون ہے؟ سخی گھر سے باہر سے نکلاتو اس
فقیر کو پہچان کر بے اختیار پکار اُٹھا،اے فقیر!ذرا غور سے مجھے دیکھ میں وہی غریب
آدمی ہوں کہ ایک بار تیرے پاس آیا تھا جبکہ تین وقت کے فاقے سے تھا اور تو نے مجھے
دھکے دے کر نکال دیا تھا ۔ بوڑھا فقیر اسے پہچان کر رو دیا اور بولا کہ ہاں ! میں وہی
بد نصیب ہوں میں نے اللہ تعالیٰ کے غضب کی پروا نہ کی ،چنانچہ اس حال کو پہنچا۔ (حکایتِ سعدی)
بخل کےپانچ اسبا ب اور ان کا علاج :
1۔بخل
کاپہلا سبب تنگ دستی کاخوف ہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات کو ہمیشہ ذہن میں رکھے
کہ راہ خدا میں مال خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی بلکہ اِضافہ ہوتا ہے۔
2۔بخل
کا دوسرا سبب مال سے محبت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ قبر کی تنہائی کو یاد کرے کہ
میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کا م نہ آئے گابلکہ میرے مرنے کے بعد ورثاء اسے بے دردی
سے تصرف میں لائیں گے۔
3۔بخل
کا تیسرا سبب نفسانی خواہشات کا غلبہ ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ خواہشات نفسانی کے
نقصانات اور اُس کے اُخروی انجام کا باربار مطالعہ کرے۔ اس سلسلے میں امیر اہل سنت
کارسالہ’’ گناہوں کا علاج ‘‘پڑھنا حد درجہ مفیدہے۔
4۔بخل
کا چوتھا سبب بچوں کے روشن مستقبل کی خواہش ہے۔اس کا علاج یہ ہےکہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ
پر بھروسہ رکھنے میں اپنے اعتقاد ویقین کو مزید پختہ کرے کہ جس ربّ عَزَّ وَجَلَّ نے
میرا مستقبل بہتر بنایا ہے وہی ربّ عَزَّ وَجَلَّ میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر
بنانے پر قادر ہے۔
5۔بخل
کا پانچواں سبب آخرت کے معاملے میں غفلت ہے۔اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ اس بات پر غور
کرے کہ مرنے کے بعد جو مال ودولت میں نے راہِ خدا میں خرچ کی وہ مجھے نفع دے سکتی ہے،لہٰذا
اس فانی مال سے نفع اٹھانے کے لیے اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہی عقل مندی ہے۔(باطنی
بیماریوں کی معلومات، صفحہ۱۳۱،۱۳۲)

ترجمہ کنزالایمان:عنقریب
وہ جس میں بخل کیا تھا، قیامت کے دن اُن کے گلے طوق ہوگا۔
بخل کی تعریف: بخل کی
تعریف یہ ہے کہ جہاں شرعاً یا عرف و عادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو، وہاں خرچ
نہ کرنا بخل کہلاتا ہے، بخل کی قرآن مجید و احادیث مبارکہ میں شدید مذمت بیان کی
گئی ہے، چنانچہ یہاں بخل کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم درج ذیل
ہیں:
1۔حضور نبی
کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:اللہ
عزوجل بخیل کے
ساتھ اس کی زندگی میں نفرت کرتا ہے، اور سخی(غیر مسلم) کے ساتھ اس کی موت کے وقت
تک (البتہ مسلم سخی ہر وقت محبوبِ خدا رہتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، باب25، ص203)
2۔حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخل سے بڑھ کر کون سی
بیماری ہوسکتی ہے؟۔(حلیۃ الاولیاء الحسن البصری183/2، حدیث1865)
3۔حضرت ابو
ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مالدار بخل کرنے
کی وجہ سے بلاحساب جہنم میں داخل ہوں گے۔ (فردوس الاخبار 444/9، الحدیث 3309)
4۔حضرت ابو
ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخل جہنم میں ایک درخت
ہے، جو بخیل ہے، اُس نے اس کی ٹہنی پکڑ لی ہے، وہ ٹہنی اسے جہنم میں داخل کئے بغیر
نہ چھوڑے گی۔ (شعب الایمان الرابع والسبعون من شعب الایمان 435/7، الحدیث 10877)
5۔حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک ایماندار آدمی
میں دو خصلتیں جمع نہیں ہوتیں، کہ وہ بخیل اور بد اخلاق ہو۔ (مکاشفۃ القلوب،
باب25، صفحہ203)
ان تمام
احادیث مبارکہ میں بخیل شخص کی مذمتیں بیان ہوئیں کہ نہ وہ جنت میں داخل ہوگا، نہ
اس سے ربّ راضی ہوگا، بلکہ بخیل بلاحساب جہنم میں داخل ہوگا اور ربّ کریم اس سے
نفرت کرتا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ ایماندار شخص میں بخل جیسی خصلت نہیں ہوتی،
لہٰذا ایک مسلمان مؤمن کو چاہئے کہ وہ بخل جیسی بیماری سے خود کو بچاتا رہے اور
کبھی اس بیماری کے قریب بھی نہ جائے۔
بخل کا
علاج یوں بھی ممکن ہے کہ بخل کے اسباب پر غور کرکے انہیں دور کرنے کی کوشش کرے،
جیسے مال کی محبت، یونہی بخل کی مذمت اور سخاوت کی فضیلت، حُبِّ مال کی آفات پر
مشتمل احادیث و روایات اور حکایات کا مطالعہ کرکے غور وفکر کرنا بھی اس مُہلک مرض
سے نجات حاصل میں مددگار ثابت ہوگا، اللہ عزوجل ہمیں بخل جیسی بُری بیماری سے
محفوظ فرمائے اور ہمیں سخاوت فرمانے والے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی
سخاوت کا حصّہ عطا فرمائے۔آمین

8ستمبر 2022ء بروز جمعرات شعبہ عطیات بکس دعوتِ اسلامی کے تحت
مدنی مرکز فیضان ِمدینہ بہاولپور میں مدنی مشورہ ہوا جس میں کوآرڈینیٹرز، ڈویژن،
آفس اور ڈسٹرکٹ ذمہ داران سمیت سپروائزز نے شرکت کی۔
دورانِ مدنی
مشورہ صوبائی ذمہ دار محمد زاہد بغدادی
عطاری نے شعبے کی سابقہ کارکردگی کا جائزہ لیا اور آئندہ کے لئے اہداف دیئے۔
مزید صوبائی ذمہ دار نے اسلامی بھائیوں سے گفتگو
کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے 12 دینی کام
کرنے اور شعبے کے کام کو احسن طریقے
سے کرنے پر کلام کیا۔
بعدازاں سابقہ مدنی مشورے میں دیئے گئے اہداف مکمل
کرنے پر ڈسٹرکٹ رحیم یارخان کی مینجمنٹ کو تحائف دیئے گئے۔اس موقع پر صوبائی سطح
کےآفس ذمہ دار سیّد حامد عطاری بھی موجود
تھے۔(رپورٹ:محمد شہریار عطاری سوشل میڈیا ،ڈونیشن بکس
پنجاب، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

بخل اللہ پاک کو ناراض کرنے اور اس کی رحمت سے دور کرنے اور اس کے
غضب کو دعوت دینے والے کاموں میں سے ایک ہے، بخل ایک بہت بُری اخلاقی برائی ہے، کیونکہ
اس سے بہت سی برائیاں جنم لیتی ہیں، جیسے عناد، بددیانتی جیسی برائیاں جنم لیتی ہیں۔
بخل کی تعریف: بخل کے معنیٰ کنجوسی کرنا ہے، بخل کے اصطلاحی معنیٰ مال اور وسائل ہونے کے باوجود ضرورت کے مطابق
مال و وسائل کو خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ مثال:زکوۃ فرض ہونے کے باوجود ادا نہ کرنا۔
حکم:بخل کرنا ناجائز ہے۔
بخل کے نقصانات:
1۔بخل کرنے والا ذلیل و رُسوا ہو جاتا ہے،2۔بخل کرنے والا رشتوں کے
سائے سے محروم ہوجاتا ہے، بخل کرنے والا شیطان کو خوش کرتا ہے، آیئے آیت مبارکہ میں
بخل کی مذمت کے متعلق سنتی ہیں۔
ترجمہ کنزالایمان:بے شک اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والا، بڑائی
مارنے والا جو آپ بخل کریں اور لوگوں سے بخل کے لئے کہیں اور اللہ نے جو انہیں
اپنے فضل سے دیا ہے۔(پارہ 4، سورہ نساء، آیت 36،37)
شانِ نزول: یہ آیت یہود کے حق میں نازل ہوئی، جو سیّد
عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت بیان کرنے میں بخل کرتے ہیں اور چھپاتے ہیں۔
بخل کی مذمت پر پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پیشِ خدمت ہیں۔
1۔کوئی بخیل جنت میں نہیں جائے گا۔(معجم اوسط، جلد3/125، حدیث4066)
وضاحت:اس حدیث مبارکہ میں جو فرمایا گیا کہ بخیل جنت میں نہیں جائے
گا اس سے مراد ابتدائی داخلہ مراد ہے، ابتداعاً جنت میں نہیں داخل ہوگا۔
2۔مؤمن میں دو عادتیں جمع نہیں
ہوسکتیں، بخل اور بداخلاقی۔(ترمذی، جلد 3/387، حدیث1969)
3۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم بخل سے اللہ پاک کی پناہ مانگتے تھے۔(بخاری،
جلد 2/280، حدیث2893)
4۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بخل سے بچو کہ بخل نے اگلوں
کو ہلاک کیا، اسی بخل نے انہیں خون بہانے اور حرام کو حلال ٹھہرانے پر آمادہ کیا۔(امام
مسلم شریف، صفحہ1069، حدیث2578)
5۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آدمی کی دو عادتیں بری ہیں،
بخیلی جو رُلا نے والی ہے، بزدلی جو ذلیل کرنے والی ہے۔(ابو داؤد، جلد 3/18، حدیث2511)
مذکورہ آیات مبارکہ اور احادیث مبارکہ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے معلوم
ہوا کہ بخل بہت بری عادت ہے، ہمیں بھی چاہیئے کہ بخل سے کام نہ لیں، اگر کسی کا ایسا
معمول ہو تو اس بری عادت سے جان چھڑائیے اور سخاوت کو اپنائیے، ان شاء اللہ اس کے
دنیا و آخرت میں بہت فائدے حاصل ہوں گے۔

8 ستمبر 2022ء
بروز جمعرات پاکستان کے شہر پتوکی میں عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے
تحت ہونے والے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع کے بعد شعبہ خدام المساجد و المدارس کے ذمہ داران کا مدنی مشورہ ہوا۔
اس مدنی مشورے میں شعبے کے ڈسٹرکٹ ذمہ دار قاری خالد محمود عطاری اور
پتوکی کے تحصیل نگران مولانا فیضان عطاری
مدنی نے ذمہ داران سے دعوتِ اسلامی کے 12 دینی کاموں کی کارکردگی کا فالواپ لیا جس
پر ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے دینی کاموں کے حوالے سے معلومات فراہم کیں۔
بعدازاں ڈسٹرکٹ ذمہ دار
نے اسلامی بھائیوں کو نئے اہداف دیئے جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار
کیا۔(رپورٹ: علی
ریاض عطاری تحصیل ذمہ دار سیکورٹی ڈیپارٹمنٹ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

بخل ایک نہایت ہی قبیح(بڑا) اور مذموم (برا)فعل ہے، نیز بخل بسا
اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے، اس لئے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم
ہے۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ صلی
اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ
کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادی کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب
قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ
گناہ میں پڑ گئے۔(ابو داؤد، کتاب زکوٰۃ،ج 2، باب فی الشخ،حصہ 185، ح 1698، باطنی بیماریوں
کی معلومات)
بخل کی تعریف:بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاًیا
مروتاً لازم ہو،ہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب میں خرچ کرنا
ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔
1۔سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بکریوں
کے ریوڑ میں چھوڑے گئے دو بھوکے بھیڑیئے اتنا نقصان نہیں کرتے، جتنا نقصان حُبِّ
جا اور مال کی محبت مسلمان آدمی کے دین میں کرتی ہے۔(ترمذی، کتاب الزھد، باب ما
جاء فی اخذ المال، 4/166،حدیث2383) اس میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ دو بھوکے بھیڑیے
جو کہ ایک خطرناک جانور ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ خطرہ مسلمان کو بخل جیسی تباہ
کار بیماری سے ہے کہ یہ مسلمان کے ایمان کو برباد کر دیتی ہے۔
2۔سرکارِ والا تبار، ہم بے کسوں کے مددگار، دو جہاں کے تاجدار صلی
اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ زکوۃ کو روکنے والا(ادا نہ کرنے والا) قیامت کے
دن جہنم کی آگ میں ہوگا۔(الترغیب والترہیب،2/15، صحیح الترغیب 762،صحیح
الجامع:5807)
شرح: بخل کی ایک صورت زکوٰۃ ادا نہ کرنا ہے اور اس کا عذاب اس شخص کو
جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا، جو کہ دنیا کی آگ سے ستر گناہ زیادہ تیز ہوگی۔
3۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا:ہر روز صبح سویرے دو فرشتے زمین پر اترتے ہیں، ان میں سے ایک اللہ
عزوجل سے یہ دعا کرتا ہے، یا اللہ جو تیری راہ میں خرچ کرے، اسے مزید رزق عطا فرما
اور دوسرا یہ دعا کرتا ہے، یا اللہ جو اپنے مال کو روک کر رکھے،(یعنی تیری راہ میں
خرچ نہ کرے) اس کے مال کو تباہ و برباد کر دے۔(صحیح بخاری:1442)
شرح: اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کرنے کے جہاں دنیا اور آخرت میں
فائدے ہیں، وہیں خرچ نہ کرنے کے نقصانات بھی ہیں، جس طرح اس حدیث مبارکہ میں فرشتے
اللہ سے دعا کر رہے ہیں۔
4۔رسول اکرم، شفیع معظم، صاحبِ لولاک، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا:اس امت کے پہلے پاک، یقین اور زہد کے ذریعہ نجات پائیں گے، جبکہ آخری
لوگ بخل اور خواہشات کے سبب ہلاکت میں مبتلا ہوں گے۔(فردوس الاخبار،2/374، ح7106)
5۔ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے اس بات پر قسم یاد فرمائی ہے
کہ جنت میں کوئی بخیل داخل نہ ہوگا۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال،
الجزء2/181،3 حدیث7382)
شرح: ان احادیث مبارکہ میں
وضاحت سے بخل کی تباہ کاریاں بیان ہوئی ہیں، کیا یہ ہلاکت کم ہے کہ اللہ پاک نے اس
بات پر قسم ذکر فرمائی ہے کہ جنت میں کوئی کنجوس شخص داخل نہ ہوگا، بخیل شخص لوگوں
کی نظروں میں حقیر بن جاتا ہے۔
اس حدیث مبارکہ میں بیان کیا جا رہا ہے کہ اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ
کر دینے والا ہے اور دنیا کے کسی مال کی خواہش نہ رکھنا تو یہی لوگ نجات پانے والے
ہیں، اسی طرح چونکہ اب زیادہ طرح لوگ
کنجوسی جیسی آفت میں پڑے، زیادہ خواہشات کے باعث اللہ کی راہ میں خرچ کرنا یا جہاں
خرچ کرنا چاہئے، خرچ کرنے میں کنجوسی کرتے ہیں تو ان سب کے لئے ہلاکت ہے اور یہ سب
خسارے میں ہیں۔
بخل سے بچنے کے طریقے: مسلمان ہمیشہ اپنے ذہن میں
اس بات کو رکھے کہ راہِ خدا میں خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی، بلکہ اضافہ ہوتا ہے،
دوسرا بندہ قبر کی تنہائی کو یاد کرے کہ میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کام نہ آئے
گا، بلکہ میرے مرنے کے بعد ورثاء اسے بے دردی سے تصرف میں لائیں گے، اللہ عزوجل پر
مکمل بھروسہ رکھنے میں اپنے اعتقاد و یقین کو مزید پختہ کرے کہ جس ربّ نے میرا
مستقبل بہتر بنایا ہے، وہی ربّ ذوالجلال میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر بنانے پر
قادر ہے۔
محترم قارئین کرام! جیساکہ حدیث نمبر پانچ میں اللہ ربّ العالمین نے
اس بات پر قسم ذکر فرمائی کہ جنت میں بخیل (کنجوس) شخص داخل نہ ہوگا تو کیا اب بھی
ہم بخل جیسی نحوست سے نہیں بچیں گے؟ کیا
اب بھی صدقہ وخیرات سے جی چرائیں گے؟ یاد رکھئے معاشرے میں بخیل کو عزت کی نگاہ سے
نہیں دیکھا جاتا اور ایسا شخص ابلیس لعین کو بہت پسند ہے، لہذا اس فانی مال سے نفع
اٹھانے کے لئے اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہی عقلمندی ہے۔
اللہ کریم ہمیں بخل جیسی تباہ کن بیماری سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے، اپنی راہ میں زیادہ مال خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین