بخل ایک نہایت ہی قبیح(بڑا) اور مذموم (برا)فعل ہے، نیز بخل بسا اوقات دیگر کئی گناہوں کا بھی سبب بن جاتا ہے، اس لئے ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازم ہے۔

حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللّہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادی کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔(ابو داؤد، کتاب زکوٰۃ،ج 2، باب فی الشخ،حصہ 185، ح 1698، باطنی بیماریوں کی معلومات)

بخل کی تعریف:بخل کے لغوی معنیٰ کنجوسی کے ہیں اور جہاں خرچ کرنا شرعاً، عادتاًیا مروتاً لازم ہو،ہاں خرچ نہ کرنا بخل کہلاتا ہے یا جس جگہ مال و اسباب میں خرچ کرنا ضروری ہو، وہاں خرچ نہ کرنا یہ بھی بخل ہے۔

1۔سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑے گئے دو بھوکے بھیڑیئے اتنا نقصان نہیں کرتے، جتنا نقصان حُبِّ جا اور مال کی محبت مسلمان آدمی کے دین میں کرتی ہے۔(ترمذی، کتاب الزھد، باب ما جاء فی اخذ المال، 4/166،حدیث2383) اس میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ دو بھوکے بھیڑیے جو کہ ایک خطرناک جانور ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ خطرہ مسلمان کو بخل جیسی تباہ کار بیماری سے ہے کہ یہ مسلمان کے ایمان کو برباد کر دیتی ہے۔

2۔سرکارِ والا تبار، ہم بے کسوں کے مددگار، دو جہاں کے تاجدار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کہ زکوۃ کو روکنے والا(ادا نہ کرنے والا) قیامت کے دن جہنم کی آگ میں ہوگا۔(الترغیب والترہیب،2/15، صحیح الترغیب 762،صحیح الجامع:5807)

شرح: بخل کی ایک صورت زکوٰۃ ادا نہ کرنا ہے اور اس کا عذاب اس شخص کو جہنم کی آگ میں ڈالا جائے گا، جو کہ دنیا کی آگ سے ستر گناہ زیادہ تیز ہوگی۔

3۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہر روز صبح سویرے دو فرشتے زمین پر اترتے ہیں، ان میں سے ایک اللہ عزوجل سے یہ دعا کرتا ہے، یا اللہ جو تیری راہ میں خرچ کرے، اسے مزید رزق عطا فرما اور دوسرا یہ دعا کرتا ہے، یا اللہ جو اپنے مال کو روک کر رکھے،(یعنی تیری راہ میں خرچ نہ کرے) اس کے مال کو تباہ و برباد کر دے۔(صحیح بخاری:1442)

شرح: اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کرنے کے جہاں دنیا اور آخرت میں فائدے ہیں، وہیں خرچ نہ کرنے کے نقصانات بھی ہیں، جس طرح اس حدیث مبارکہ میں فرشتے اللہ سے دعا کر رہے ہیں۔

4۔رسول اکرم، شفیع معظم، صاحبِ لولاک، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس امت کے پہلے پاک، یقین اور زہد کے ذریعہ نجات پائیں گے، جبکہ آخری لوگ بخل اور خواہشات کے سبب ہلاکت میں مبتلا ہوں گے۔(فردوس الاخبار،2/374، ح7106)

5۔ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے اس بات پر قسم یاد فرمائی ہے کہ جنت میں کوئی بخیل داخل نہ ہوگا۔(کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، الجزء2/181،3 حدیث7382)

شرح: ان احادیث مبارکہ میں وضاحت سے بخل کی تباہ کاریاں بیان ہوئی ہیں، کیا یہ ہلاکت کم ہے کہ اللہ پاک نے اس بات پر قسم ذکر فرمائی ہے کہ جنت میں کوئی کنجوس شخص داخل نہ ہوگا، بخیل شخص لوگوں کی نظروں میں حقیر بن جاتا ہے۔

اس حدیث مبارکہ میں بیان کیا جا رہا ہے کہ اللہ عزوجل کی راہ میں خرچ کر دینے والا ہے اور دنیا کے کسی مال کی خواہش نہ رکھنا تو یہی لوگ نجات پانے والے ہیں، اسی طرح چونکہ اب زیادہ طرح لوگ کنجوسی جیسی آفت میں پڑے، زیادہ خواہشات کے باعث اللہ کی راہ میں خرچ کرنا یا جہاں خرچ کرنا چاہئے، خرچ کرنے میں کنجوسی کرتے ہیں تو ان سب کے لئے ہلاکت ہے اور یہ سب خسارے میں ہیں۔

بخل سے بچنے کے طریقے: مسلمان ہمیشہ اپنے ذہن میں اس بات کو رکھے کہ راہِ خدا میں خرچ کرنے سے کمی نہیں آتی، بلکہ اضافہ ہوتا ہے، دوسرا بندہ قبر کی تنہائی کو یاد کرے کہ میرا یہ مال قبر میں میرے کسی کام نہ آئے گا، بلکہ میرے مرنے کے بعد ورثاء اسے بے دردی سے تصرف میں لائیں گے، اللہ عزوجل پر مکمل بھروسہ رکھنے میں اپنے اعتقاد و یقین کو مزید پختہ کرے کہ جس ربّ نے میرا مستقبل بہتر بنایا ہے، وہی ربّ ذوالجلال میرے بچوں کے مستقبل کو بھی بہتر بنانے پر قادر ہے۔

محترم قارئین کرام! جیساکہ حدیث نمبر پانچ میں اللہ ربّ العالمین نے اس بات پر قسم ذکر فرمائی کہ جنت میں بخیل (کنجوس) شخص داخل نہ ہوگا تو کیا اب بھی ہم بخل جیسی نحوست سے نہیں بچیں گے؟ کیا اب بھی صدقہ وخیرات سے جی چرائیں گے؟ یاد رکھئے معاشرے میں بخیل کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا اور ایسا شخص ابلیس لعین کو بہت پسند ہے، لہذا اس فانی مال سے نفع اٹھانے کے لئے اسے نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ہی عقلمندی ہے۔

اللہ کریم ہمیں بخل جیسی تباہ کن بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، اپنی راہ میں زیادہ مال خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین