حضرت موسیٰ علیہ السلام ایسے جلیلُ القدر پیغمبر ہیں جنہیں اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ آپ علیہ السلام کی صفات قرآنِ کریم میں مذکور ہیں۔کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ آپ کے القابات ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے،برگزیدہ بندے، نبی اور رسول تھے:ارشادِ باری ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا،اور نبی رسول تھا۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پا ک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے:ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ (پ22، الاحزاب:69) ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ آپ علیہ السلام کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا۔قرآنِ کریم میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:52،53)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔اس سے اللہ پاک کے پیارے بندوں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانے سے نہ مل سکے۔تو اگر ان کی دعا سے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل ہے!

آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والےبندے تھے: فرمانِ باری ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والےبندوں میں سے ہیں۔(پ23، الصّٰفّٰت:122 )

اللہ پاک نے آپ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6،النسآء: 164) ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

آپ علیہ السلام کونبو ت و رسالت پر دلالت کرنے والی نو روشن نشانیاں عطا فرمائیں:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت(پ15،بنی اسرائیل:101)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

آپ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:فرمانِ باری ہے:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6، النسآء:153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔

اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات مذکور ہیں۔اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے خوب نیکی کے کام کرنے، اخلاص و جذبے کے ساتھ دین کے کام کی دھومیں مچانے کی توفیق نصیب فرمائے۔اٰمین


اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے یوں تو بے شمار پیغمبروں اور رسولوں کو دنیا میں بھیجا اور سارے ہی راہِ حق میں تکالیف کے باوجود صبر و ہمت کا مظاہرہ کرنے والے تھے۔لیکن اس مقدس جماعت میں سے 5 رسول ایسے ہیں جن کا راہِ حق میں صبر دیگر نبیوں اور رسولوں علیہم السلام سے زیادہ ہے۔اس لیے انہیں بطور خاص اولواالعزم رسول کہا جاتا ہے۔وہ یہ ہیں:(1)حضور اقدسﷺ(2)حضرت ابراہیم(3)حضرت موسیٰ(4)حضرت عیسیٰ(5)حضرت نوح علیہم السلام۔ان میں سے ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق پڑھیں گی:

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے والد کا نام عمران ہے۔آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وصال کے چار سو سال بعد پیدا ہوئے اور ایک سو بیس سال عمر پائی۔قرآنِ پاک میں آپ علیہ السلام کا نام مبارک 136 بار ذکر کیا گیاہے۔آپ کو اللہ پاک کی طرف سے تورات عطا کی گئی۔ آپ علیہ السلام کو اللہ پاک سے کئی مرتبہ کلام کرنے کا شرف حاصل ہوا،اس لیے آپ کو کلیمُ اللہ کہا جاتا ہے۔اللہ پاک نے آپ کو طور پہاڑ پر بلا کر طور پہاڑ کی طرف رخ کروا یا اور وہاں تجلی فرمائی۔آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے بہت زیادہ طاقت و قوت عطا فرمائی تھی۔آپ بہت سادہ طبیعت کے مالک تھے۔معراج کی رات نبیِ کریمﷺ نے آپ کو اپنی قبر میں نماز کی حالت میں ملاحظہ فرمایا۔آپ علیہ السلام کو معراج کی رات نبیِ پاکﷺ کی امامت میں نماز ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔امّتِ محمّدیہ پر آپ کا بہت بڑا احسان یہ ہے کہ معراج کی رات آپ کی بدولت 50 نمازیں کم ہو کر 5 رہ گئیں۔آپ علیہ السلام نے اپنا عصا پتھر پر مارا جس سے بارہ چشمے بہہ نکلے۔آپ ہی کی بدولت بنی اسرائیل پر منّ و سلویٰ اتارا گیا۔آپ انتہائی حسین و جمیل تھے۔آپ کو اللہ پاک نے بے عیب پیدا فرمایااور آپ کے بے عیب ہونے کی گواہی ایک پتھر سے دلوائی۔ چنانچہ

دوڑنے والا پتھر: کتاب عجائب القرآن مع غرائب القرآن میں لکھا ہے کہ یہ ایک ہاتھ لمبا اور ایک ہاتھ چوڑا پتھر تھا جو ہمیشہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے جھولے میں رہتا تھا۔اس مبارک پتھر کے ذریعے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو معجزات کا ظہورہوا۔جن کاتذکرہ قرآنِ مجید میں بھی ہوا ہے۔

پہلا معجزہ:اس پتھر کا پہلا عجیب کارنامہ اس کی لمبی دانشمندانہ دوڑ ہے اور یہی معجزہ اس پتھر کے ملنے کی تاریخ ہے۔اللہ پاک نے اس واقعہ کا ذکر قرآنِ پاک کی سورۃُ الاحزاب میں اس طرح فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْاؕ-وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22، الاحزاب:69)ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو!ان جیسے نہ ہونا جنہوں نے موسیٰ کو ستایا تو اللہ نے اسے بری فرما دیا اس بات سے جو انہوں نے کہی اور موسیٰ اللہ کے یہاں آبرو والا ہے۔

دوسرامعجزہ:میدانِ تیہ میں اس پتھر پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نےاپنا عصا مار دیا تو اس میں سے 12 چشمے جاری ہو گئے تھے جس کے پانی کو 40 برس تک بنی اسرائیل میدانِ تیہ میں استعمال کرتے رہے۔پارہ 1 سورۃُ البقرۃ کی آیت نمبر 60 میں اسی پتھر کا تذکرہ یوں کیا گیا ہے:فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-ترجمہ کنز الایمان:ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو۔

روشن ہاتھ:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب اللہ پاک نے فرعون کے دربار میں بھیجا تو دو معجزات عطا فرما کر بھیجا:(1)عصا(2)یدِ بیضاء (روشن ہاتھ)۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے گریبان میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالتے تو ایک دم آپ کا ہاتھ روشن ہو کر چمکنے لگتا تھا۔پھر جب آپ اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال دیتے تو وہ اپنی اصلی حالت پر آ جایا کرتا۔اس معجزے کو قرآنِ کریم نے مختلف سورتوں میں بار بار ذکر فرمایا۔چنانچہ سورۂ طٰہٰ میں ارشاد فرمایا:وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲) لِنُرِیَكَ مِنْ اٰیٰتِنَا الْكُبْرٰىۚ(۲۳)(پ16،طٰہٰ:23،22) ترجمہ کنز الایمان:اور اپنا ہاتھ اپنے بازو سے ملاؤ خوب سپید نکلے گا بے کسی مرض کے ایک اور نشانی کہ ہم تجھے اپنی بڑی بڑی نشانیاں دکھائیں۔

مَنّ و سلویٰ: جب حضرت موسیٰ علیہ السلام چھ لاکھ بنی اسرائیل کے افراد کے ساتھ میدانِ تیہ میں مقیم تھے تو اللہ پاک نے ان لوگوں کے لیے کھانے میں آسمان سے دو کھانے اتارے:ایک کانام مَنّ اور دوسرے کا نام سلویٰ۔مَنّ بالکل سفید شہد کی طرح حلوہ تھا یا سفید رنگ کا شہد ہی تھا جو آسمان سے اترتا تھا اور سلویٰ پکی ہوئی بٹیریں تھیں جو دکَّھنی ہوا کے ساتھ آسمان سے نازل ہوا کرتی تھیں۔قرآنِ کریم میں اللہ پاک نے بنی اسرائیلیوں پر اپنی نعمتوں کا شمار کرتے ہوئے فرمایا:وَ اَنْزَلْنَا عَلَیْكُمُ الْمَنَّ وَ السَّلْوٰىؕ- (پ1، البقرۃ:57 ) ترجمہ کنز الایمان:اور تم پر مَنّ اور سلویٰ اتارا۔

جنتی لاٹھی:حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مقدس لاٹھی جس کو عصائے موسیٰ کہتے ہیں،یہ لاٹھی حضرت شعیب علیہ السلام نے آپ کو عطا فرمائی تھی۔اس لاٹھی کے تین معجزوں میں سے ایک پیش خدمت ہے:

(1) عصا اژدہا بن گیا:فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو شکست دینے کے لیے ایک میلہ لگوایا۔اس میلے میں لاکھوں انسانوں میں جادوگروں کا ہجوم بھی اپنی جادوگری کا سامان لے کر جمع ہو گیا۔ان جادوگروں کے مقابلے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ڈر گئے۔جادوگروں نے فرعون کی عزت کی قسم کھا کر اپنے جادو کی لاٹھیوں اور رسیوں کو پھینکا تو ایک دم وہ رسیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر دوڑنے لگیں۔لوگ خوف و ہراس میں بھاگنے لگےاور فرعون و جادوگر غرور کے نشے میں مست ہو کر خوش ہونے لگے۔اتنے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کے حکم سے اپنی مقدس لاٹھی کو رسیوں کے ہجوم میں ڈال دیا تو یہ لاٹھی ایک بہت بڑا اژدہا بن کر تمام سانپوں کو نگل گیا۔یہ معجزہ دیکھ کر تمام جادوگر اپنی شکست تسلیم کر کے سجدے میں گر پڑے اور بآوازِ بلند یہ اعلان کرنا شروع کردیا کہ ہم سب حضرت ہارون اورحضرت موسیٰ علیہما السلام کے رب پر ایمان لائے۔اسی طرح عصا کی مار سے دریا پھٹنے کا معجزہ بھی ہوا اور 12 چشمے بھی جاری ہوئے۔جن لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا دین میں ساتھ دیا اور جس جس نے ان کی شان میں بے ادبی کی وہ اپنے اپنے انجام کو پہنچے۔اللہ پاک ہمیں اپنے پیاروں کا دل و جان سے ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور سدا بے ادبی سے بچائے۔اٰ مین


حضرت موسیٰ کا نام و لقب:آپ علیہ السلام کا مبارک نام موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔حضرت موسیٰ بن عمران صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔

حلیہ مبارکہ کے بارے میں حدیثِ مبارکہ:حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:شبِ معراج میری حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔وہ قبیلہ ازد شنوہ کے لوگوں کی طرح تھے۔دبلا پتلا جسم اور بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی۔پھر فرمایا:میری حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ان کا قد متوسط،رنگ سرخ تھا اور وہ ایسے ترو تازہ تھے گویا ابھی حمام سے نکلے ہوں۔میں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا اور میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان کے مشابہ ہوں۔(سیرت الانبیاء)

حضرت موسیٰ کے عمل کی ترغیب:حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ پاک کی نعمتیں یاد دلانے کے بعد ان کو اپنے دشمنوں پر جہاد کے لیے حکم دیا اور فرمایا:یٰقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَة(پ6، المائدۃ:21) ترجمہ کنزالعرفان:(موسیٰ نے فرمایا:) اے میری قوم !اس پاک سرزمین میں داخل ہو جاؤ۔

تفسیر:اس زمین کو مقدس اس لیے کہا گیا کہ وہ انبیائے کرام کی مسکن تھی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کےدس اوصاف:

(1)وَ اِذِ اسْتَسْقٰى مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَؕ-فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْنًاؕ-قَدْ عَلِمَ كُلُّ اُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْؕ-كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا مِنْ رِّزْقِ اللّٰهِ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۶۰) (پ1، البقرۃ:60)ترجمہ کنز العرفان:جب موسیٰ نے اپنی قوم کے لیے پانی طلب کیا تو ہم نے فرمایا کہ پتھر پر اپنا عصا مارو تو فوراً اس سے بارہ چشمے بہہ نکلے اور ہر گروہ نے اپنے پانی پینے کی جگہ پہچان لی۔اللہ کا رزق کھاؤ اور پیو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ پتھر سے چشمہ جاری کرنا حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عظیم معجزہ ہے۔

(2)اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بلا واسطہ کلام فرمایا:ارشادِ باری ہے:كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴) (پ6، النساء: 164) اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔(سیرت الانبیاء)

(3)نبیِ کریمﷺنے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔( سیرت الانبیاء، ص528)

(4)وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6،النسآء:153) ترجمہ:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا گیا۔

(5) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرشِ الٰہی کو صاف دیکھا یہاں تک کہ الواح پر قلموں کی آواز سنی اور اللہ پاک نے آپ سے کلام فرمایا۔(سیرت الانبیاء)

(6)حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نوروشن نشانیاں عطا کیں:جیسا کہ ارشادِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15، بنی اسرائیل:101) ترجمہ:بے شک ہم نے موسیٰ کونوروشن نشانیاں دیں۔(سیرت الانبیاء)

(7) حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک متواتر انبیائے کرام علیہم السلام آتے رہے۔ ان کی تعداد چار ہزار بیان کی گئی ہے۔یہ سب حضرات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کے محافظ تھے اور اس کے احکام جاری کرنے والے تھے۔(سیرت الانبیاء)

(8)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کے لیے حاضر ہوئے تو آپ نے طہارت کی،پاکیزہ لباس پہنااور روزہ رکھ کر طورِ سینا میں حاضر ہوئے۔(سیرت الانبیاء، ص606)

(9)حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک سے دعا کی تو ارشاد باری ہوا:قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰى(۳۶) (پ16،طٰہٰ:36)اے موسیٰ تیرا سوال تجھے عطا کر دیا گیا۔(سیرت الانبیاء)

(10)حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرقان عطا کیا گیا:ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳) (پ1،البقرۃ:53)ترجمہ:یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔(سیرت الانبیاء)

فرقان کے کئی معانی ہیں۔فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔کفر و ایمان میں فرق کرنے والے معجزات۔ حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔(سیرت الانبیاء)

اللہ پاک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے صدقے ہماری،ہمارے والدین اور پیر و مرشد کی بے حساب مغفرت فرمائے۔اٰ مین


نبی ہونے میں تو تمام انبیائے کرام علیہم السلام برابر ہیں اور قرآن میں جہاں یہ آتا ہے کہ ہم ان میں کوئی فرق نہیں کرتےاس سے یہی مراد ہوتا ہے کہ اصلِ نبوت میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں۔البتہ ان کے مراتب جداگانہ ہیں۔خصائص و کمالات میں فرق ہے۔ان کے درجات مختلف ہیں۔بعض بعض سے اعلیٰ ہیں اور ہمارے آقا علیہ ا لسلام سب سے اعلیٰ ہیں۔(تفسیرخازن)

انبیائے کرام علیہم السلام کا بشر ی صورت میں ظہور نبوت کے منافی نہیں۔ارشادِ باری ہے:وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْۤ اِلَیْهِمْ مِّنْ اَهْلِ الْقُرٰى(پ13،یوسف:109)ترجمہ:اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول بھیجے وہ سب شہروں کے رہنے والے مرد ہی تھے جن کی طرف ہم وحی بھیجتے تھے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ وا لسلام نے ارشاد فرمایا:بنی اسرئیل میں انبیائے کرام علیہم السلام حکومت کیا کرتے تھے۔ جب ایک نبی کا وصال ہوتا ہے تو دوسرا نبی ان کا خلیفہ ہوتا ہے۔(لیکن یاد رکھو!)میرے بعد ہرگز کوئی نبی نہیں ہے۔ہاں!عنقریب خلفاء ہوں گے اور کثرت سے ہوں گے۔(بخاری،حدیث:2255)

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے انتہائی برگزیدہ پیغمبر اور اولواالعزم رسولوں میں سے ایک رسول ہیں۔ شرم و حیا اور جسم کو چھپا کر رکھنا پسندیدہ اوصاف اور کئی صورتوں میں شریعت کو مطلوب ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام میں ان اوصاف سے متعلق نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔(بخاری،حدیث:3204)

حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:ارشادِ باری ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور نبی رسول تھا۔

آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے:ارشادِ باری ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹)(پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور(موسیٰ)اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

آپ علیہ السلام کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں،ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳)(پ20،القصص:43) ترجمہ:اوربے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اس کے بعد کہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا تھا(موسیٰ کو وہ کتاب دی)جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں، ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہو نے کا شرف رکھتے ہیں:ارشادِ باری ہے:وَ كَلَّمَ اللّٰهُ مُوْسٰى تَكْلِیْمًاۚ(۱۶۴)(پ6،النسآء:164)ترجمہ:اور اللہ نے موسیٰ سے حقیقتاً کلام فرمایا۔

آپ علیہ السلام کو فرقان عطا کیا گیا:ارشادِ باری ہے:وَ اِذْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ وَ الْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۵۳)(پ1،البقرۃ:53) ترجمہ:اور یاد کرو جب ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور حق و باطل میں فرق کرنا تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔فرقان کے کئی معانی کیے گئے ہیں:(1)فرقان سے مراد بھی تورات ہی ہے۔(2)کفر و ایمان میں فرق کرنے والے معجزات۔(3)حلال و حرام میں فرق کرنے والی شریعت مراد ہے۔(تفسیرنسفی)

آپ علیہ السلام کو نبوت و رسالت پر دلالت کرنے والی نوروشن نشانیاں عطا کیں:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت(پ15،بنی اسرآءیل:101)ترجمہ:اوربے شک ہم نے موسیٰ کو نو روشن نشانیاں دیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کو روشن غلبہ و تسلط عطا فرمایا:قرآنِ پاک میں ہے:وَ اٰتَیْنَا مُوْسٰى سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا(۱۵۳)(پ6،النسآء:153) ترجمہ:اور ہم نے موسیٰ کو روشن غلبہ عطا فرمایا۔اس کی ایک مثال یہ ہے کہ جب آپ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو توبہ کے لیے خود ان کے قتل کا حکم دیا تو وہ انکار نہ کر سکے اور انہوں نے آپ علیہ السلام کی اطاعت کی۔

حضرت موسیٰ اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کی قوم کے ظلم سے نجات بخشی۔قبطیوں کے مقابلے میں ان کی مدد فرمائی اور بعد میں آنے والی امّتوں میں ان کی تعریف باقی رکھی:فرمانِ باری ہے: وَ لَقَدْ مَنَنَّا عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَۚ(۱۱۴) وَ نَجَّیْنٰهُمَا وَ قَوْمَهُمَا مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِیْمِۚ(۱۱۵) وَ نَصَرْنٰهُمْ فَكَانُوْا هُمُ الْغٰلِبِیْنَۚ(۱۱۶)وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)وَ هَدَیْنٰهُمَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۚ(۱۱۸)وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِمَا فِی الْاٰخِرِیْنَۙ(۱۱۹)سَلٰمٌ عَلٰى مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ(۱۲۰)اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۲۱)(پ23،الصّٰفّٰت:114تا121)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ اور ہارون پر احسان فرمایا اور ان کو اور ان کی قوم کو بہت بڑی سختی سے نجات بخشی اور ہم نے ان کی مدد فرمائی وہی غالب ہوئے اور ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی اور انہیں سیدھی راہ دکھائی اور پچھلوں میں ان کی تعریف رکھی، موسیٰ اور ہارون پر سلام ہو، بے شک نیکی کرنے والوں کو ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بارگاہِ الٰہی میں عاجزی و انکساری کا ذکر قرآن میں یوں کہ آپ علیہ السلام نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:رَبِّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْ لِیْ فَغَفَرَ لَهٗؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۱۶) (پ20، القصص:16) ترجمہ:ا ے میرے رب! میں نے اپنی جان پر زیادتی کی توتو مجھے بخش دے تو اللہ نے اسے بخش دیا بے شک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔


نبی اور رسول کی تعریف:نبی اس بشر یعنی انسان کو کہتے ہیں جس کی طرف اللہ پاک نے مخلوق کی رہنمائی کے لیےوحی بھیجی ہو اور ان میں سے جو نئی شریعت یعنی اسلامی قانون اور خدائی احکام لائے اسے رسول کہتے ہیں۔ (سیرت الانبیاء)

فضائلِ انبیاء:قرآن و حدیث میں انبیا و مرسلین کے انفرادی اور مجموعی بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں۔ فرمانِ باری ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ-وَ اٰتَیْنَا عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَ اَیَّدْنٰهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِؕ-(پ3،البقرۃ: 253) ترجمہ:یہ رسول ہیں ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا فرمائی۔ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے سب پر درجوں بلندی عطا فرمائی اور ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو کھلی نشانیاں دیں اور پاکیزہ روح سے اس کی مدد کی۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام:ان سے اللہ پاک نے کوہِ طور پر بلا واسطہ کلام فرمایا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔

احادیثِ مبارکہ میں اوصافِ موسیٰ کا تذکرہ:نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:حضرت موسیٰ صفیُّ اللہ یعنی اللہ پاک کے چُنے ہوئے بندے ہیں۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:حضرت موسیٰ بہت حیا والے اور اپنا بدن چھپانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔(سیرت الانبیاء)حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے،حضورﷺ کا فرمان ہے:مجھے انبیائے کرام علیہم السلام پر فضیلت نہ دو۔ بے شک یومِ حشر لوگ بے ہوش ہوں گے۔سب سے پہلے جسے بے ہوشی سے افاقہ ہوگا وہ میں محمد رسول ﷺہوں۔ تب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھوں گا کہ وہ عرش کے پاؤں سے ایک پائے کو پکڑے ہوئے ہیں۔خدا معلوم انہیں مجھ سے پہلے افاقہ ہو چکا ہوگا یا کوہِ طور پر تجلی ڈالنے کے وقت بے ہوشی کی وجہ سے انہیں بے ہوش نہ کیا جائے گا۔سرکارﷺ کا یہ فرمان بطورِ عجز و انکساری کے لیے ہےیا اس وجہ سے تھا کہ دوسرے مذاہب کے لوگ عصبیت و غضب کا اظہار نہ کریں۔(قصص الانبیاء)

قرآنِ مجید میں اوصافِ موسیٰ کا تذکرہ:

حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ربِّ دو جہاں نے بے شمار انعامات فرمائے۔آپ کو لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتوں، ہدایت اور رحمت پر مشتمل کتاب تورات عطا فرمائی:فرمانِ باری ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَاۤ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَآىٕرَ لِلنَّاسِ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۴۳) (پ20، القصص:43)ترجمہ:اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی۔اس کے بعدکہ ہم نے پہلی قوموں کو ہلاک فرما دیا تھا۔(موسیٰ کو وہ کتاب دی)جس میں لوگوں کے دلوں کی آنکھیں کھولنے والی باتیں اور ہدایت اور رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔

آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

بنی اسرائیل کو ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت عطا کی:وَ لَقَدِ اخْتَرْنٰهُمْ عَلٰى عِلْمٍ عَلَى الْعٰلَمِیْنَۚ(۳۲)(پ25، الدخان:32)ترجمہ:اور بے شک ہم نے انہیں جانتے ہوئے اس زمانے والوں پر چن لیا۔

آپ علیہ السلام کو علم و حکمت سے نوازا گیا:وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۴)(پ20، القصص:14)ترجمہ:اورجب موسیٰ اپنی جوانی کو پہنچے اور بھرپور ہو گئے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایا۔اور ہم نیکوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔

آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندے تھے: اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122) ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔


اے عاشقانِ رسول !اللہ پاک نے مخلوق کی مدد و نصرت کے لیے بے شمار انبیائے کرام علیہم السّلام اور رُسلِ عظام کو مبعوث فرمایا اور ان کے راستے میں بہت زیادہ تکالیف آئیں مگر انہوں نے صبر کا دامن نہ چھوڑا۔ان میں سے جو حق کے راستے پر ہمیشہ رہے ان میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں،جنہوں نےاپنے رب کا کلام لوگوں تک پہنچایا اور اللہ پاک کا حکم بجا لائے۔آئیے!ان کی صفات کا بھی ذکر پڑھتی ہیں جو ربِّ کریم نے خود ارشاد فرمائی ہیں۔اس سے پہلے یہ جان لیتی ہیں کہ صفات کسے کہتے ہیں۔

صفت کا لغوی معنیٰ:مَا قَامَ بِشَئٍ یعنی جو کسی شی کے ساتھ قائم ہو۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ کنز الایمان:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو بےشک وہ چُنا ہوا تھا اور رسول تھا غیب کی خبریں بتانے والا۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس سے پہلی آیات میں حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی صِفات بیان کی گئیں اور اب یہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات بیان فرمائی جا رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتی ہیں کہ خلیلُ اللہ علیہ السلام کی صفات بیان کرنے کے بعد اب کلیمُ اللہ علیہ السلام کی صفات بیان کی جارہی ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پانچ صفات: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں:(1)آپ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔(2)آپ علیہ السّلام رسول و نبی تھے۔(3) آپ علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔(4) آپ علیہ السّلام کواپنا قرب بخشا۔(5) آپ علیہ السلام کی خواہش پرآپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کونبوت عطاکی۔

حضرت موسیٰ علیہ السّلام حضرت یعقوب علیہ السّلام کی اولاد میں سے ہیں، اسی لئے ان کا ذکر حضرت اسماعیل علیہ السلام سے پہلے فرمایا تاکہ دادا اور پوتے کے ذکر میں فاصلہ نہ ہو۔ورنہ حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے کے ہیں۔(تفسیر روح المعانی، 8 / 559)

خلیل و نجی، مسیح و صَفی سبھی سے کہی کہیں بھی بنی

یہ بے خبری کہ خَلق پھری کہاں سے کہاں تمہارے لئے

(حدائقِ بخشش)(تفسیر صراط الجنان،6/118)


صفت نمبر 1:حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے اور برگزیدہ بندے ہیں۔

صفت نمبر 2:حضرت موسیٰ علیہ السلام رسول و نبی ہیں۔

صفت نمبر3:اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کوہِ طور پر کلام کرنے کا شرف دیا۔

آیت مبارکہ:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16، مریم:51)ترجمہ کنز العرفان:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

صفت نمبر 4:حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ پاک کا خاص قرب عطا ہوا تھا۔اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کی ہر دعا قبول فرمائی۔

صفت نمبر5:حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خواہش پر آپ علیہ السلام کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت عطا کی گئی۔میدانِ تیہ میں جب بنی اسرائیل کو پانی نہ ملا تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حکم سے اپنا عصا پتھر پر مارا تو اس پتھر سے پانی کے بارہ چشمے جاری ہوگئے۔بنی اسرائیل کے بارہ گروہ نے اپنے اپنے گھاٹ کو پہچان لیا۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی برکت سے بنی اسرائیل پر مَنّ و سلویٰ نازل ہوا۔


اے عاشقانِ رسول!اللہ پاک نےمخلوق کی رشد و ہدایت کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام علیہم السّلام اور رُسلِ عظام کو مبعوث فرمایا، جن میں سے ایک بہت ہی بلند رتبہ نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔آئیے!آپ علیہ السلام کی ذاتِ مبارکہ کے کچھ اوصاف کے متعلق پڑھتی ہیں۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ کنز العرفان:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بیشک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

تفسیر صراط الجنان:اس سے پہلی آیات میں حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی صِفات بیان کی گئیں اور اب یہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات بیان فرمائی جا رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتی ہیں کہ خلیلُ اللہ علیہ السلام کی صفات بیان کرنے کے بعد اب کلیمُ اللہ علیہ السلام کی صفات بیان کی جارہی ہیں۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پانچ صفات: حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں:

(1) آپ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔(2) آپ علیہ السلام رسول و نبی تھے۔(3) آپ علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔(4) آپ علیہ السلام کواپنا قرب بخشا۔(5) آپ علیہ السلام کی خواہش پرآپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کونبوت عطاکی۔حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، اسی لیے ان کا ذکر حضرت اسماعیل علیہ السلام سے پہلے فرمایا تاکہ دادا اور پوتے کے ذکر میں فاصلہ نہ ہو۔(تفسیر روح المعانی،8 / 559)


تمام تعریفیں اللہ پاک کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پالنے والا ہے۔اس نے اس کائنات کو پیدا فرمایا اور ایک معینہ مدت گزرنے کے بعد اپنی قدرت سے اسے فنا فرمائے گا۔تمام طرح کےدرود و سلام حضور نبیِ پاک، صاحبِ لو لاک،سیاحِ افلاک ﷺکےلیے،جن پر نبوت کا سلسلہ ختم فرمایا اور انہیں دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بنی نوعِ انسان پر احسانِ عظیم فرمایا۔اپنے موضوع پر لکھنے سے پہلے اس بات پر روشنی ڈالنا چاہوں گی کہ نبی و مرسل ہیں کون ہوتے ہیں۔

انبیا و مرسلین اللہ پاک کے وہ برگزیدہ بندے ہیں جنہیں اللہ پاک نے اپنے دین کو انسانوں تک پہنچانے کے لیے انہی میں سے چن لیا۔جیسا کہ پارہ 16 سورۂ مریم کی آیت نمبر 58 میں معبودِ بر حق فرماتا ہے:اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ مِنْ ذُرِّیَّةِ اٰدَمَۗ-ترجمہ:یہ ہیں جن پراللہ نے احسان کیا غیب کی خبریں بتا نے والوں میں سے آدم کی اولاد سے۔

انبیائے کرا م علیہم السّلام اللہ پاک کےوہ معصوم و برگزیدہ بندے ہیں جن پر اللہ پاک وحی نازل فرماتا ہےاور انہیں نبوت عطا فرما کر باقی انسانوں سے ممتاز فرماتا ہے۔انبیائے کرام علیہم السّلام اللہ پاک کی معصو م مخلوق ہیں جن سے کبھی گناہ سر زد نہیں ہوتا۔انہی میں سے ایک نبی حضرت موسیٰ علیہ السّلام ہیں، جنہیں اللہ پاک نے بنی اسرائیل کی طرف مبعوث فرمایا تاکہ ان تک اپنا پیغام پہنچا سکے۔اللہ پاک جب کسی قوم کی طرف کوئی نبی مبعوث فرماتا ہےتو اس نبوت کی دلالت پراس نبی کو معجزات عطا فرماتاہے۔ایسے ہی اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو بھی معجزے عطا فرمائے،جس میں سے عصا،یدِ بیضاء اور دریا میں راستہ بننا وغیرہ ہے۔نبی ہر عیب سے پاک، صاحبِ کمال اور عمدہ صفات کا مظہر ہوتا ہے۔انہی صفات میں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی چند صفات کا ذکر درج ذیل ہیں:

(1)شرم وحیا:شرم و حیا اور جسم کو چھپاکر رکھنا پسندیدہ اوصاف اور کئی صورتوں میں شریعت کو مطلو ب ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کےا ن اوصاف کے متعلق نبیِ کریم ﷺنے فرمایا:حضرت موسیٰ علیہ السلام بہت حیا والے اور اپنے بدن کو چھپانے کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔( بخاری)

(2)صحائف اور تورات کا نزول:اللہ پاک نے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر دس صحیفے نازل فرمائے،پھر آپ علیہ السلام کو کتابِ الٰہیہ سے نوازا گیا۔یہ بھی آپ کا وصف ہے کہ آپ علیہ السلام تما م انبیائےکرام علیہم السّلام میں سے ان چار نبیوں میں سے ہیں جنہیں اللہ پاک نے آسمانی کتاب سے نوازا۔چنانچہ پارہ 23 سورہ الصّٰفّٰت کی آیت نمبر 177 میں ارشادِ باری ہے:وَ اٰتَیْنٰهُمَا الْكِتٰبَ الْمُسْتَبِیْنَۚ(۱۱۷)ترجمہ:ہم نے ان دونوں کو روشن کتاب عطافرمائی۔چونکہ آپ علیہ السلام کے ساتھ آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام بھی نبی تھے اس لیے آیت میں هُمَا فرمایا گیا۔

(3)آپ علیہ السلام کی دعا سے حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت ملنا:اللہ پاک کے پیارے بندوں کی عظمت و شان یہ ہے کہ ان کی دعاسے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں سے نہیں مل سکتی۔چنانچہ پارہ 16 سورہ طٰہٰ میں ارشاد ہوتا ہے:وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَهْلِیْۙ(۲۹)هٰرُوْنَ اَخِیۙ(۳۰)اشْدُدْ بِهٖۤ اَزْرِیْۙ(۳۱) (پ16،طٰہٰ:29تا 31)ترجمہ کنز الایمان:اور میرے لیے میرے گھر والوں میں سے ایک وزیر کر دے۔ وہ کون میرا بھائی ہارون۔اس سے میری کمر مضبوط کر۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کی درخواست پر اللہ پاک نےارشاد فرمایا:قَدْ اُوْتِیْتَ سُؤْلَكَ یٰمُوْسٰى(۳۶)(پ16،طٰہٰ:36)ترجمہ:اے موسیٰ ! تجھے تیرا سوال عطا کر دیا گیا۔لیکن ایک بات یادرہے کہ نبوت کا سلسلہ تمام ہوچکا، اب کسی کو نبوت ملنا ممکن نہیں۔

(4)اللہ پاک سے بلا واسطہ کلام کاشرف:آپ علیہ السلام کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائز ہیں کہ باقی انبیائے کرام علیہم السلام سے فرشتوں کےذریعے کلام فرمایا لیکن آپ علیہ السلام کو طور پر بلا کر بذاتِ خود اللہ پاک نے بغیرکسی واسطے کے کلام فرمایا۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲) (پ16، مریم:52)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کے دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کےلیے مقرب کیا۔

(5)آپ کااللہ پاک کی بارگاہ میں مقام:آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22، الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

آپ علیہ السلام اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲) (پ23،الصّٰفّٰت:122) ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندوں میں سےتھے۔

(6)بعد وفات بھی نماز کی ادائیگی:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولُ اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:جس رات مجھے معراج کرائی گئی اس رات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو آپ کثیبِ احمر(ایک سرخ ٹیلے)کے پاس اپنی قبرمیں کھڑے ہوئےنماز پڑھ رہے تھے۔(مسلم،ص996، حدیث:6158)

انبیائے کرام علیہم السلام اللہ پاک کے معصوم اور برگزیدہ بندے ہیں، جن کےاوصاف و صفات احاطۂ شمار سے باہر ہیں۔ ان کےبے شمار فضائل میں سے چند کے متعلق لکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے اوصاف کے متعلق کامل علم تو اللہ پاک کے پاس ہے یااس کی عطا سے اس کے محبوب بندوں کے پاس ہے۔اللہ پاک میری اس چھوٹی سی کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ آمین


لوگوں کی راہنمائی کے لیے اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم السلام کومبعوث فرمایا۔ان میں سے ایک حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی ہیں۔آپ کو اللہ پاک نے بہت سی صفات عطا فرمائی ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱) (پ16،مریم:51)ترجمہ کنز العرفان:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو، بیشک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

تفسیر:اس سے پہلی آیات میں حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی صِفات بیان کی گئیں اور اب یہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی صفات بیان فرمائی جا رہی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتی ہیں کہ خلیلُ اللہ علیہ السلام کی صفات بیان کرنے کے بعد اب کلیمُ اللہ علیہ السلام کی صفات بیان کی جارہی ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پانچ صفات بیان کی گئی ہیں:(1)آپ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے اور برگزیدہ بندے تھے۔(2) آپ علیہ السلام رسول و نبی تھے۔(3) آپ علیہ السلام سے اللہ پاک نے کلام فرمایا۔(4) آپ علیہ السلام کواپنا قرب بخشا۔(5)آپ علیہ السلام کی خواہش پرآپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کونبوت عطاکی۔(تفسیر صراط الجنان)


حضرت موسیٰ علیہ السلام کا نام مبارک موسیٰ،لقب کلیمُ اللہ،صفیُّ اللہ ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔آپ کا نسب نامہ یہ ہے:عمران بن قاہث بن عازر بن لاوی بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم۔آپ علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات سے چار سو برس اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے سات سو برس بعد پیدا ہوئے اور ایک سو بیس برس عمر پائی۔

آپ علیہ السلام کی صفات:

(1،2)حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ پاک کے چُنے ہوئے برگزیدہ بندے اور نبی رسول تھے:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مُوْسٰۤى٘-اِنَّهٗ كَانَ مُخْلَصًا وَّ كَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا(۵۱)(پ16، مریم:51)ترجمہ:اور کتاب میں موسیٰ کو یاد کرو،بے شک وہ چُنا ہوا بندہ تھا اور وہ نبی رسول تھا۔

(3)آپ علیہ السلام اللہ پاک کی بارگاہ میں بڑی وجاہت یعنی بڑے مقام والے اور مستجابُ الدعوات تھے: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ: اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا تھا۔

(4 تا6)آپ کسی واسطے کے بغیر اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا شرف رکھتے ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں قرب کے اس مقام پر فائزہیں کہ آپ کی دعا سے اللہ پاک نے آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو نبوت جیسی عظیم نعمت سے نوازا:قرآنِ پاک میں ہے:وَ نَادَیْنٰهُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰهُ نَجِیًّا(۵۲)وَ وَهَبْنَا لَهٗ مِنْ رَّحْمَتِنَاۤ اَخَاهُ هٰرُوْنَ نَبِیًّا(۵۳)(پ16،مریم:52،53)ترجمہ:اور ہم نے اسے طور کی دائیں جانب سے پکارا اور ہم نے اسے اپنا راز کہنے کے لیے مقرب بنایا،اور ہم نےاپنی رحمت سے اسے اس کا بھائی ہارون بھی دیا جو نبی تھا۔

(7)آپ اور آپ کے بھائی حضرت ہارون علیہ السلام اعلیٰ درجے کے کامل ایمان والے بندے تھے:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۲۲)(پ22،الصّٰفّٰت:122)ترجمہ:بے شک وہ دونوں ہمارے اعلیٰ دجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہیں۔اس سے اللہ پاک کے پیارے بندوں کی عظمت کا پتہ لگا کہ ان کی دعا سے وہ نعمت ملتی ہے جو بادشاہوں کے خزانوں سے نہ مل سکے۔تو اگر ان کی دعاسے اولاد یا دنیا کی دیگر نعمتیں مل جائیں تو کیا مشکل ہے!البتہ نبوت کا باب یعنی دروازہ چونکہ بند ہوچکا،اس لیے اب کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔


صفت کا معنی خوبی،اچھائی اور وصف ہے۔یوں تو انبیا ورُسل علیہم السلام بڑی ہمت والے ہیں اور سبھی نے راہِ حق میں آنے والی تکالیف کا صبر کےساتھ مظاہرہ کیا۔البتہ ان کی جماعت میں پانچ رُسل ایسے ہیں جن کا راہِ حق میں صبر دیگر نبیوں اور رسولوں سے زیادہ ہے، اسی لیے انہیں بطورِ خاص اولو االعزمرسول کہتے ہیں۔ جب اولوا العزم کہا جائے تو یہی پانچ رسول مراد ہوتے ہیں۔ وہ یہ ہیں:(1)حضرت محمد ﷺ(2)حضرت ابراہیم علیہ السلام(3)حضرت موسیٰ علیہ السلام(4)حضرت عیسیٰ علیہ السلام(5)حضرت نوح علیہ السلام۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ(۶۹) (پ22،الاحزاب:69)ترجمہ:اور موسیٰ اللہ کے ہاں بڑی وجاہت والا ہے۔

اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بے شمار صفات اور معجزات سے نوازا، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1)حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر باہر نکالتے تھے تو ایک دم سے آپ کا ہاتھ روشن ہو کر چمکنے لگتا اور جب اپنا ہاتھ گریبان میں ڈال کر باہر نکالتے تو اپنی حالت پر ہوجایا کرتا تھا:فرمانِ باری ہے:وَ اضْمُمْ یَدَكَ اِلٰى جَنَاحِكَ تَخْرُ جْ بَیْضَآءَ مِنْ غَیْرِ سُوْٓءٍ اٰیَةً اُخْرٰىۙ(۲۲)(پ16، طٰہٰ:22)ترجمہ:اپنے ہاتھ کو اپنے بازو سے ملاؤ بغیر کسی مرض کے سفید ہو کر ایک اور معجزہ بن کر نکلے گا۔

(2)حضرت موسیٰ علیہ السلام کو علمِ لَدُنِّی ملا تھا اور کسی استاذ کے واسطے کے بغیر آپ کو عطا ہوا:فرمانِ باری ہے: وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَ اسْتَوٰۤى اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(۱۴)(پ20، القصص:14) ترجمہ کنز الایمان:اور جب موسیٰ جوانی کو پہنچے اور بھرپور ہوگئے تو ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا فرمایا اور ہم نیکوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔یہاں جو علم مراد ہے وہ آپ کو نبوت سے پہلے دیا گیا۔یہاں علم و حکمت سے مراد نبوت نہیں۔

(3)حضرت ہارون علیہ السلام کی نبوت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کا اثر ہے۔

(4)ہدایت کا فریضہ اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی عطا فرمایا۔انہوں نے فرعون کو دعوتِ حق دی۔اس کی اس تمام گفتگو کےباوجود اپنے مقصود یعنی دعوتِ توحید کی طرف متوجہ رہے اور فرمایا:رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ وَ مَا بَیْنَهُمَاؕ-اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ(۲۸)(پ19،الشعراء:28) ترجمہ:مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا رب ہے اگر تمہیں عقل ہو۔

(5)حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب فرعون کو دعوتِ حق دی تو فرعون نے نشانی طلب کی۔فرعون کی نشانی طلب کرنے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنا عصا زمین پر مار دیا تو اچانک بالکل واضح ایک بہت بڑا سانپ بن گیا اور پھر ان کی طرف متوجہ ہو کرکہنے لگا:مجھے جو چاہیں حکم دیجیے۔فرمانِ باری ہے:فَاَلْقٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِیَ ثُعْبَانٌ مُّبِیْنٌۚۖ(۳۲)وَّ نَزَعَ یَدَهٗ فَاِذَا هِیَ بَیْضَآءُ لِلنّٰظِرِیْنَ۠(۳۳) (پ19، الشعراء:32، 33) ترجمہ کنز الایمان:تو موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا جبھی وہ صریح اژدہا ہوگیا۔اور اپنا ہاتھ نکالا تو جبھی وہ دیکھنے والوں کی نگاہ میں جگمگانے لگا۔

(6)فرمانِ باری ہے:عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ یُّهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَ یَسْتَخْلِفَكُمْ فِی الْاَرْضِ فَیَنْظُرَ كَیْفَ تَعْمَلُوْنَ۠(۱۲۹) (پ9، الاعراف:129)ترجمہ:عنقریب تمہارا رب تمہارے دشمنوں کو ہلاک کردے گا اور تمہیں زمین میں جانشین بنا دے گا پھر وہ دیکھے گا کہ تم کیسے کام کرتے ہو۔اس قرآنی آیت سے معلوم ہوا!اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو علمِ غیب عطا فرمایا تھا اور آئندہ پیش آنے والے واقعات کم و کاست بیان فرما دیے اور کچھ عرصے بعد جیسا آپ نے فرمایا تھا ویسا ہی ہوا کہ فرعون اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہوا اور بنی اسرائیل ملکِ مصر کے مالک ہوئے۔

(7)حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب اللہ پاک سے ہم کلام ہونے کا اظہار کیا تو اللہ پاک نے اپنے کلیم موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:وَ مَاۤ اَعْجَلَكَ عَنْ قَوْمِكَ یٰمُوْسٰى(۸۳)ترجمہ کنزالعرفان:اور اے موسیٰ! تجھے اپنی قوم سے کس چیز نے جلدی میں مبتلا کردیا؟جبکہ اپنے حبیب ﷺ کے بارے میں فرمایا:وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵)(پ30،الضحیٰ:5) ترجمہ:اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہو جاؤ گے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:

خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالَم خدا چاہتا ہے رضائے محمد

(8)فرمانِ باری ہے:قَالَ یٰمُوْسٰۤى اِنِّی اصْطَفَیْتُكَ عَلَى النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیْ وَ بِكَلَامِیْ ﳲ ترجمہ کنز العرفان:(اللہ نے) فرمایا:اے موسیٰ!میں نے اپنی رسالتوں اور اپنے کلام کے ساتھ تجھے لوگوں پر منتخب کرلی۔اس میں لوگوں سے مراد ان کے زمانے کے لوگ ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے زمانے کے لوگوں میں سب سے زیادہ عزت و مرتبہ،شرافت وجاہت والے تھے۔کیونکہ آپ صاحبِ شریعت ہیں اور آپ پر اللہ پاک کی کتاب تورات بھی نازل ہوئی۔(تفسیر خازن،2/144 ملتقطاً)

(9)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس رات مجھے معراج عطا کی گئی تو میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا جو کثیبِ احمر (ایک سرخ ٹیلے) کے پاس اپنی قبرمیں کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے۔(مسلم،حدیث:994)

(10)اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نبوت اور رسالت پر دلالت کرنے والی نو نشانیاں عطا کیں: اللہ پاک فرماتا ہے:وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰیٰتٍۭ بَیِّنٰت15،بنی اسرآءیل:101)ترجمہ:اور بیشک ہم نے موسیٰ کو نو نشانیاں دی۔جن میں سے ایک نشانی آپ کی جنتی لاٹھی یعنی آپ کا عصا مبارک بھی ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات پر قرآنی حوالہ جات جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

سورۂ بقرہ،آیت نمبر49تا73اور92،93۔سورۂ نسآء،آیت نمبر 15اور153۔سورۂ مائدہ آیت نمبر 20تا 64۔سورۂ یونس آیت نمبر 75تا93۔سورہ ٔابراہیم آیت نمبر 5تا 8وغیرہ وغیرہ۔اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہماری بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔آمین