تعريف:وہ فعل جس میں اس فعل کے کرنے والے کا با طنی ارادہ اس کے ظاہر کے خلاف ہو، مکر یعنی دھوکا کہلاتا ہے۔

دھوکا کی دوسری تعریف یہ ہے کہ برائی کو چھپا کر اچھائی ظا ہر کرنا ۔

دھوکا دہی کی چند مثالیں:

٭کسی چیز کا عیب چھپا کر اس کو بیچنا۔

٭اصل بتا کر نقل دے دینا۔

دھوکا کے متعلق قرآن مجید پاره 14، سوره النحل، آیت نمبر 45 پر ارشاد ہے:

ترجمہ کنزالایمان:تو کیا جو لوگ برے مکر کرتے ہیں اس سے نہیں ڈرتے کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے گا یا انہیں وہاں سے عذاب آئے، جہاں سے انہیں خبر نہ ہو۔

حکم:مسلمانوں کے ساتھ مکریعنی دھوکا بازی قطعاً حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، جس کی سزا جہنم کا عذاب عظیم ہے، مکرو فریب اور ڈرا دھمکا کر کسی سے مال لینا قطعی حرام ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ ملعون ہے وہ شخص، جس نے کسی مؤمن کو نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا۔(ترمذی ، کتاب البر والصلة ، باب ماجاء فی الخیانۃ والغش، ص 475،حديث 1941)

2۔ وہ ہم میں سے نہیں، جو دھوکا دے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبي، من غشنا فليس منا، ص57، ح 164 (101)

3۔ جو کسی مؤمن کو ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکا بازی کرے، وہ ملعون ہے۔(ترمذی ، کتاب البر والصلة ، باب ماجاء فی الخیانۃ والغش، ج 3، ص378،حديث 1948)

4۔ دھوکا دینے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔(المسند الامام احمد بن حنبل، مسند ابي بكر الصديق، حديث 32، ج 1، ص 27)

5۔ جس نے ملاوٹ کی، وہ ہم میں سے نہیں۔(جامع الترمذی، ابواب البیوع، باب ما جاء في كراہیۃ، حدیث 1315، ص 1784)

مکر یعنی دھوکے کے اسباب، علاج:

1۔مکر کا پہلا اور سب سے بڑا سبب حرص ہے کہ بندہ مال و دولت یا کسی دنیوی شے کے حصول کے سبب مکر و فریب کرتا ہے۔

اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ حبِ مال یعنی(مال سے محبت ) کی مذمت پر غور کرے، اور یہ ذہن بنائے کہ یہ مال فانی ہے اور فانی یعنی (ختم ہونے والی)چیز کےلئے کسی کو دھوکا دے کر ایک گناه اپنے سر لینا عقل مندی نہیں، بلکہ حماقت ہے۔

2۔دوسرا سبب جہالت ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بنده مکر کے متعلق شرعی احکام، اس کے دنیوی و اخروی نقصانات سیکھے اوراس سے بچنے کی کوشش کرے۔

3۔بری صحبت، علاج:عاشقانِ رسول کی صحبت اختیار کیجئے اور برے لوگوں سے ہمیشہ دور رہے۔


دینِ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو تمام انسانیت کے حقوق کا محافظ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں ہر ایسے کام کو ممنوع و ناجائز قرار دیا گیا ہے جس سے کسی کو تکلیف پہنچے یا اس کی حق تلفی ہو۔ انہیں میں سے ایک دھوکا بھی ہے۔ دھوکا ایک ایسا مذموم فعل ہے کہ دوسروں کو دھوکا دینے والا بھی خود دھوکا کھانا پسند نہیں کرتا۔

دھوکے کی تعریف:دھوکا یہ ہے کہ کوئی شخص کسی چیز کو ظاہر کرے اور اس کے خلاف (یعنی حقیقت)کو چھپائے یا کوئی بات کہے اور اس کے خلاف (یعنی حقیقی بات)کو چھپائے۔ (غریب الحدیث للحربی، 2/ 658)فی زمانہ ہمارے معاشرے میں دھوکا بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ کہیں خرید و فروخت میں لوگوں کے ساتھ دھوکا کرنا رائج ہے تو کہیں موبائل فون وغیرہ کے ذریعے نت نئے طریقوں سے دھوکا دینا بالکل عام ہے، حالانکہ یہ سب نہ تو مذہبی اعتبار سے درست ہے اور نہ ہی اخلاقی لحاظ سے۔

اللہ پاک کے آخری نبی، محمدِ عربی ﷺ نے مسلمانوں کو دھوکا دینے سے بچنے کی بطورِ خاص تاکید فرمائی اور دھوکا دینے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ وہ ہم میں سے نہیں۔

دھوکے کی مذمت سے متعلق احادیث مبارکہ:

1_حضور سید المرسلین، خاتم النبیین ﷺ غلہ کے ایک ڈھیر پر گزرے تو اپنا ہاتھ شریف اس میں ڈال دیا۔ آپ ﷺ کی انگلیوں نے اس میں تری پائی تو فرمایا: اے غلہ والے یہ کیا؟ عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ! اس پر بارش پڑ گئی۔ فرمایا: تو گیلے غلہ کو تو نے ڈھیر کے اُوپر کیوں نہ ڈالا تاکہ اسے لوگ دیکھ لیتے، جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان، باب قول النبی ﷺ من غش فلیس منا، الحدیث 102، ص 65)

2_مومن دھوکا کھا جانے والا ہوتا ہے (یعنی اپنے کرم کی وجہ سے دھوکا کھا جاتا ہے نہ کہ بے عقلی سے) اور فاجر دھوکا دینے والا لئیم یعنی بدخلق ہوتا ہے۔ (سنن الترمذي، کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء في البخل،الحدیث: 1971 ،ج 3 ،ص 388

3_وہ شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے جو مسلمان کو دھوکا دے یا ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر کرے۔ (کنزالعمال، کتاب الاخلاق، قسم الاقوال، حرف المیم، المکر والخدیعۃ، 2 / 218، الحدیث: 7822، الجزء الثالث)

4_سازش کرنے والے اور دھوکا دینے والے جہنم میں ہیں۔ (مسند الفردوس، باب المیم، 4 / 217، الحدیث: 6658)

5_ایمان والے ایک دوسرے کے خیرخواہ اور باہم محبت کرنے والے ہوتے ہیں اگرچہ ان کے گھر اور اَجسام جدا جدا ہوں اور فاجرلوگ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ دھوکا اورخیانت کرنے والے ہوتے ہیں، اگرچہ ان کے گھر اور بدن اکھٹے ہوں۔ (الفردوس بماثورالخطاب، باب المیم، 4 / 189، الحدیث: 6584)

اللہ پاک ہمیں لوگوں کو دھوکا دینے سے بچائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ 


انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے اور اس سے بھی بڑھ کر دشمن اس کا نفس ہے،آقا علیہ السلام نے فرمایا:یعنی تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے کہ تیرے دونوں پہلوؤں کے درمیان ہے۔(تہذیب الآثار للطبری، الجزء 3، ص 160،حدیث919، جامع الاحادیث، قسم الاول حروف اللام ، الجزء 18، ص269، حدیث19377،نفس و شیطان کے دھوکے،مفتی محمد فیض احمد اویسی رضوی، ص 1)اس کے مکر و فریب اور دھوکے شیطان سے بھی زیادہ ہیں، اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

رضا نفس دشمن ہے دم میں نہ آنا

کہاں تم نے دیکھے ہیں چند رانے والے

ان دونوں دشمنوں سے بچنا بڑا مشکل ہے، مگر کسی مرشدِ کامل کی نگاہِ کرم سے ان سے بچا جاسکتا ہے، ہمارے بزرگان نفس و شیطان کے دھوکے سے آشکار ہو جایا کرتے تھے،ان کی عاجزی پر ہماری جانیں قربان کہ حضرت سیّد ابو محمد مرتعش رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں نے بہت حج کئے اور ان میں سے اکثر سفرِ حج کسی قسم کے سامان لئے بغیر کئے، پھر مجھ پر ظاہر ہوا کہ یہ سب تو میرے نفس کا دھوکا تھا، کیونکہ ایک مرتبہ میری ماں نے مجھ سے پانی کا گھڑا بھر کر لانے کا حکم دیا تو میرے نفس کو برا لگا۔

چنانچہ میں نے سمجھ لیا، سفر حج میں میرے نفس نے میری موافقت فقط اپنی لذت کے لئے کی اور مجھے دھوکے میں رکھا، کیونکہ اگر میرا نفس فناء ہو چکا ہوتا تو ماں کا کہنا ماننا میرے نفس کو دشوار محسوس نہ ہوتا۔(رسالہ قشیریہ ،ص 135، رسالہ معلوماتی پمفلٹس، ص 1)

اس حکایت میں عبرت کے نہایت مدنی پھول ہیں کہ نفس و شیطان کے دھوکے ہمیں ہر وقت جہنم کا ایندھن بنانے کی فکر میں ہیں، حبِ جاہ کی لذت ہلاکت کا باعث ہے، ہمیں اپنے بزرگانِ دین کی دینی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے ۔

دھوکے کی تعریف:برائی کو دل میں چھپا کر اچھائی ظاہر کرنا دھوکا ہے۔(تفسیر نعیمی، پ1، البقرہ، تحت الآیۃ9،164/1، ظاہری گناہوں کی معلومات ، ص 94)

معاشرے میں پائی جانے والی دھوکے کی چند مثالیں: زندگی کے ہر ہر پہلو میں دھوکا دہی عام ہے، ہمارا معاشرہ ایسی بے شمار مثالوں سے بھرا ہوا ہے، آئیے چند مثالیں پڑھتے ہیں۔

1 : کسی چیز کا عیب چھپا کر اس کو بیچنا ۔

2 : اصل بتا کر نقل دے دینا۔

3 : غلط بیانی کرکے کسی کا مال بٹورنا۔

4 : سونا چاندی کے ساتھ کھوٹ ملا کر بیچنا۔5

5 : دودھ میں پانی ملانا۔

6 : تجارتی معاملات میں دھوکا دہی سے کام لینا وغیرہ،

یہ مثالیں ہمارے معاشرے میں اس قدر عام ہیں کہ ان کو گناہ تصور نہیں کیا جاتا ۔

دھوکا دہی کا حکم: مسلمانوں کے ساتھ مکر یعنی دھوکے بازی قطعاً حرام اور گناہ کبیرہ ہے، جس کی سزا جہنم کا عذابِ عظیم ہے۔ (جہنم کے خطرات ، ص 171 ملتقظاً، ظاہری گناہوں کی معلومات ، ص 95)

اللہ عزوجل قرآن کریم میں دھوکا دینے والوں کے متعلق فرماتا ہے:

ترجمہ کنزالایمان:تو کیا جو لوگ برے مکر کرتے ہیں اس سے نہیں ڈرتے کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے گا یا انہیں وہاں سے عذاب آئے، جہاں سے انہیں خبر نہ ہو۔

دھوکے کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:

1: وہ ہم میں سے نہیں، جو دھوکا دے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 95)

2: ملعون( لعنت کیا گیا) ہے، وہ شخص جس نے کسی مؤمن کو نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا۔(ترمذی، کتاب البر و الصلۃ ما جاء فی الجنانۃ و الغش، ص 475، حدیث1941، ظاہری گناہوں کی معلومات ،ص95)

3: مکر و فریب اور خیانت کرنے والا جہنم میں ہے۔(المستدرک کتاب الاھوال باب تحشر ھذہ الآیۃ علی ثلاثۃ احناف، حدیث8831،ج 5 ص: 833، تجارت میں ملاوٹ اور دھوکے کا انجام ،ص 15)

4: جس نے ہم پر اسلحہ اٹھایا، وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں دھوکا دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبی من غشا فلیس منا، حدیث283 ، ص695، تجارت میں ملاوٹ اور دھوکے کا انجام)

5:آقا علیہ السلام ایک شخص کے پاس سے گزرے، جو اناج بیچ رہا تھا، آپ نے اس سے پوچھا: اے غلے کے مالک! کیا بیچنے والا اناج اوپر والے اناج جیسا ہے؟ اس نے عرض کی:یا رسول اللہ ﷺ ہاں، ایسا ہی ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا:جس نے مسلمانوں کو دھوکا دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔(المعجم الکبیر، الحدیث921، ج18، ص359، تجارت میں ملاوٹ اور دھوکے کا انجام ،ص3)

اسباب و علاج:

1:مال جمع کرنے کا لالچ۔

2:بری صحبت۔

3:خیانت کرنے کی عادت۔

4:مسلمانوں کے لئے خیرخواہی کے جذبے کا نہ ہونا،

اگر قناعت اختیار کی جائے، مال و دولت کا لالچ دل سے نکال کر فکرِ آخرت لاحق ہو جائے تو انسان ہر ظاہری و باطنی بیماری سے بچ سکتا ہے۔

اللہ عزوجل نے ہمیں ایمان کی دولت سے نوازا ہے، تو ہمیں بھی اس کا شکر ادا کرتے ہوئے قناعت کی دولت اختیار کرنی چاہیئے،لالچ کو دل سے نکال کر اپنی آخرت سنوارنی چاہئے، ملاوٹ کرنے والا، دھوکا دینے والا اللہ عزوجل اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضگی کا باعث ہے، مکار، دھوکے باز، ملاوٹ کرنے والے، باطل بیع کرنے والے اور فاسد تجارات کے ذریعے لوگوں کا مال کھانے والے غور کریں کہ آقا علیہ السلام نے فرمایا:کہ جس نے ہمیں دھوکا دیا، وہ ہم میں سے نہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ دھوکے کے معاملات اور اس کا انجام بہت خطرناک ہے،جس سے انسان کا ایمان داؤ پر لگ جاتا ہے، دنیا و آخرت برباد ہو سکتی ہے، دودھ میں پانی ملانے والے بھی ان احادیث مبارکہ سے عبرت حاصل کریں۔

اللہ عزوجل ہمیں سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرے، اگر اس بات کا احساس رہے گا کہ اسی کی طرف لوٹنا ہے تو انسان نفس و شیطان کے دھوکے سے بچ جائے گا۔


اولاً تو ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ دھوکا کہتے کس کو ہیں، اس بارے میں عبد الرؤف مناوی  رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:کہ کسی چیز کی اصل حالت کو پوشیدہ رکھنا دھوکا ہے۔(فیض القدیر، حدیث8879)

مثلاً کسی عیب دار چیز کو اس کا عیب چھپا کر بیچنا یا ملاوٹ والی چیز کو اصل اور خالص کہہ کر بیچنا وغیرہ، کھوئی ہوئی چیز تو وہاں سے مل جاتی ہے، جہاں وہ گُمی تھی، سوائے اعتبار کے، کیوں کہ جس کا اعتبار ایک مرتبہ ختم ہو جائے تو دوبارہ مشکل سے ہی قائم رہتا ہے۔

٭اعتبار ختم ہونے میں اہم کرداردھوکے کا بھی ہے کہ جب ہم کسی سے جان بوجھ کر غلط بیانی کریں گے، تو حقیقت سامنے آنے پر وہ دوبارہ کبھی بھی ہم پر بھروسہ کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوگا، اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشادفرماتاہے:

ترجمہ کنزالایمان:اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکے کا سامان ہے۔(پ 4، آل عمران:185)

دھوکا دینے والے سے اللہ کے محبوب ﷺ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے، اس سے متعلق احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں۔

1۔جس نے کسی مسلمان کو نقصان پہنچایا یا اسے فریب( دھوکا ) دیا تو وہ ملعون ہے۔(ترمذی شریف، حدیث 1948)

2۔ہر دھو کا دینے والے کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا، جس کے ذریعے وہ پہچانا جائے گا۔(بخاری شریف، حدیث6966)

3۔جس شخص کو اللہ کسی رعایا کا حکمران بنا دے اور وہ اس حال میں مرے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ دھوکا دہی کرتا تھا تو اللہ عزوجل اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔(مسلم شریف، حدیث142)

4۔جو دھوکا دہی کرے گا، وہ مجھ سے(تعلق رکھنے والا) نہیں ہے۔(مسلم شریف، حدیث284)

5۔مؤمن ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں کاٹا جاتا۔

شانِ نزول: اس حدیث مبارکہ کا شانِ نزول یہ ہے کہ ایک کافر شاعر جس کا نام ابو عزہ تھا، وہ حضور ﷺ اور مسلمانوں کی مخالفت میں سخت توہین آمیز اشعار کہا کرتا تھا، جنگِ بدر میں گرفتار ہو گیا، اس نے گذشتہ کی معافی مانگی اور آئندہ نہ کرنے کا عہد کیا تو اسے چھوڑ دیا گیا، پھر اسی حرکت میں مشغول ہوگیا، پھر جنگِ احد میں گرفتار ہوگیا، پھر اس نے معذرت کی تو صحابہ کرام نے اس کی رہائی کی سفارش کی، تب حضور ﷺ نے فرمایا:کہ مؤمن ایک سوراخ سے دوبار نہیں کاٹا جاتا۔

اور اسے رہائی نہ بخشی، یعنی جس شخص سے ایک بار دھوکا کھا لیا، دوبارہ اس کے دھوکے میں نہ آؤں، پھر اس کافر شاعر کو قتل کر دیا گیا۔(مراۃ المناجیح، جلد ششم، صفحہ 421)

دھوکا دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایک دن وہ بھی آئے گا کہ جب دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اپنی کرنی کا پھل بھگتنا ہو گا، چنانچہ حسابِ آخرت سے بچنے کے لئے دنیا ہی میں سچی توبہ کرلیں، جس کی رقم میں کمی وغیرہ کی تھی، اس کو واپس کر دیں یا معاف کروا لیں۔

اللہ عزوجل ہمیں دھوکا دینے اور دھوکا کھانے سے بچائے۔آمین


فقہ حنفی کے مسلک میں ہر عاقل، بالغ مسلمان مرد پر با جماعت نماز ادا کرنا واجبِ عین ہے، یعنی ہر مرد کو مسجد میں جاکر نماز ادا کرنی ہوگی اور اگر مرد گھر میں پڑھیں گے تو ترکِ واجب ہوگا، جو کہ گناہ ہے اور واجب کے ترک پر ہمیشگی اختیار کریں تو یہ گناہِ کبیرہ بن جاتا ہے، ہاں! اگر عذرِ صحیح ہوا، جیسے کسی کو آنکھ کا مسئلہ ہو تو ترکِ جماعت ہو سکتی ہے، نماز تو سندیسہ ہے وصلِ محبوب کا، محبوب کی چوکھٹ میں حاضری کا موقع ہے، جو نماز کے ذریعے سے حاصل ہوتا ہے اور اگر مرد حضرات جماعت کے ساتھ نماز ادا کریں تو اس کی فضیلت مزید بڑھ جاتی ہے۔

1۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سرکار ﷺ نے فرمایا:باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز پڑھنے سے 27 درجے افضل ہے۔(صحیح بخاری، کتاب الاذان، باب فضل صلوۃ الجماعت، جلد1، صفحہ 233)

2۔امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جس نے کامل وضو کیا اور کسی فرض نماز کی ادائیگی کے لئے چلا اور باجماعت نماز ادا کی تو اس کے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔(الترغیب والترھیب، کتاب الصلوۃ،جلد1، صفحہ 130)

3۔امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: اللہ عزوجل باجماعت نماز ادا کرنے والوں سے خوش ہوتا ہے۔(مسند احمد، مسند عبداللہ بن عمر بن الخطاب، جلد2، صفحہ 309)

4۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:جو اللہ عزوجل کی رضا کے لئے چالیس دن باجماعت تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھے گا، اس کے لئے دو آزادیاں لکھی جائیں گی، ایک جہنم سے، دوسری نفاق سے۔(سنن ترمذی، ابواب الصلوۃ، جلد 1، صفحہ 274)

5۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم، نور مجسم ﷺ نے فرمایا:منافقین پر سب نمازوں سے بھاری فجر اور عشاء کی نماز ہے، اگر جان لیتے کہ ان دونوں نمازوں میں کیا ہے تو ضرور حاضر ہوتے، اگرچہ گھسٹتے ہوئے آتے اور بے شک میں نے ارادہ کیا کہ میں نماز قائم کرنے کا حکم دوں اور کوئی شخص نماز پڑھانے پر مقرر کروں، پھر کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ چلنے کے لئے کہوں، جو لکڑی اٹھائے ہوئے ہوں، پھر ان لوگوں کی طرف جاؤں، جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھروں کو آگ سے جلا دوں۔(صحیح بخاری، کتاب الاذان، جلد1، صفحہ 235)

باجماعت نماز کا درس: باجماعت نماز ادا کرنے کے جہاں بہت سے فضائل احادیث میں مروی ہیں، وہاں نہ پڑھنے کی وعید بھی ہے، جماعت سے متعلق چند احکام ذہن نشین ہونے چاہئے کہ نمازِ جنازہ میں آخری صف میں نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے اور اگر فرض نماز میں وضو میں تین بار اعضاء دھونے سے جماعت کی رکعت جاتی ہے تو افضل یہ ہے کہ ایک ایک بار دھو لے۔

اللہ پاک ہمیں پابندی وقت کے ساتھ نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور واجبات کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اللہ تعالیٰ نے بھی ہمیں پابندی وقت کا درس دیا ہے اور نماز بھی پابندیِ وقت کا درس دیتی ہے اور با جماعت نماز ادا کرنا اللہ پاک کو خوش کرنے کا بھی ذریعہ ہے تو جس سے ربّ خوش ہوگیا، اس کا تو بیڑا پار ہو جائے گا۔

کوئی عبادت کی چاہ میں رویا، کوئی عبادت کی راہ میں رویا

عجیب ہے یہ نمازِ محبت کا سلسلہ، کوئی قضا کر کے رویا کوئی ادا کر کے رویا


بے شک اللہ عزوجل نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، ان میں سے ایک نعمت باجماعت نماز پڑھنا ہے، اللہ عزوجل کے فضل و کرم سے یہ بھی ہمارے لئے بے شمار نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

ترجمہ کنزالایمان:اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔(پ 1، البقرۃ: 43) اسی آیت مبارکہ کی تفسیر میں ہے:حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس آیت مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو، کیونکہ جماعت کی نماز تنہا نماز پر 27 درجے افضل ہے۔(تفسیر نعیمی، جلد 1، صفحہ 330)

نماز باجماعت کی فضیلت ووعید کے متعلق پانچ احادیثِ مبارکہ:

1۔جو شخص چالیس راتیں مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھے کہ عشاء کی تکبیرِ اولیٰ فوت نہ ہو تو اللہ عزوجل اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دے گا۔(سنن ابن ماجہ، حدیث 797)

2۔اللہ عزوجل باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل، حدیث 5112)

خدا سب نمازیں پڑھوں باجماعت

کرم ہو پئے تاجدارِ رسالت

3۔تین آدمی کسی بستی یا جنگل میں ہوں اور وہ جماعت سے نماز نہ پڑھیں تو ان پر شیطان مسلط ہو جاتا ہے، لہٰذا تم جماعت کو لازم پکڑلو، اس لئے کہ بھیڑیا اسی بکری کو کھاتا ہے، جو ریوڑ سے الگ ہوتی ہے۔(سنن ابی داؤد، حدیث 548)

4۔جب بندہ باجماعت نماز پڑھے، پھر اللہ عزوجل سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا سوال کرے تو اللہ عزوجل اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔(حلیۃ ال اولیٰ اء، جلد 7، حدیث 10591)

جماعت سے گر تو نمازیں پڑھے گا

خدا تیرے دامن کرم سے بھرے گا

5۔جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لئے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی تو اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔(صحیح ابن خزیمہ، حدیث 1489)

نیک بختی و بدبختی: ہمیشہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے سے نیک بختی اور تونگری(یعنی دولتمندی) کی برکت حاصل ہوتی ہے اور بدبختی اور مفلسی(یعنی غربت) دور بھاگتی ہے اور جماعت کو ترک کرنے نیز بالکل نماز نہ پڑھنے سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔

ہو کرم اے ربِّ رحمت، پئے سرورِ رسالت

نہ نمازِ باجماعت، کی چھٹے کبھی سعادت

نوٹ:اسلامی بہنوں کو جماعت سے نماز ادا کرنے کی شریعت میں اجازت نہیں، لہٰذا ان پر عید کی نماز بھی واجب نہیں ہے اور جمعہ کے بجائے وہ حسبِ معمول ظہر پڑھیں، پانچوں وقت کی نمازیں تنہا اپنے گھر ہی میں پڑھیں، بلکہ اندر کے کمرے میں پڑھیں تو زیادہ بہتر ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:عورت کا دالان(یعنی بڑے کمرے) میں نماز پڑھنا، صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور کوٹھری(یعنی چھوٹے سے روم) میں نماز پڑھنا، دالان میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔

کیونکہ عورت کے لئے پردہ بہت اعلیٰ ہے، لہٰذا جس قدر (زیادہ) پردے میں نماز پڑھے گی، اسی قدر بہتر ہوگا۔

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اسلامی بھائیوں کو نمازِ باجماعت ادا کرنے اور اسلامی بہنوں کو گھر میں نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


جماعت جمع سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں کسی مقام پر جمع ہوکر سب ایک ہی صف کے ساتھ نماز ادا کریں، نماز ہمارے دینِ اسلام کا دوسرا رکن ہے، اس کے ادا کرنے کے مقامات بھی علیحدہ ہیں، عورتوں کو گھروں میں نماز ادا کرنے، جبکہ مردوں کو باجماعت مسجد میں نماز ادا کرنے کا حکم فرمایا گیا ہے۔

قرآن پاک میں جماعت کا حکم: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0 (پ1، البقرہ:43)ترجمہ کنزالایمان:رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرویعنی مسجد میں ایک ہی صف میں سب کے ساتھ نماز باجماعت ادا کروں، نماز تو ہر حالت میں پڑھنا لازم ہے، قرآن حکیم میں نماز کی پابندی کا حکم کثیر مقام پر ہے، لیکن نماز کو اہتمام کے ساتھ پڑھنا بھی بحکمِ شریعت لازم ہے۔

احادیثِ مبارکہ:حضور اکرم ﷺ نے نماز باجماعت پڑھنے پر کافی فضیلت ووعید بیان فرمائی ہے، چنانچہ درج ذیل ہیں۔

صلاۃ الجماعۃ تفضل صلاۃ القذ بسمع وعشرین درجۃ۔یعنی باجماعت نماز ادا کرنا تنہا نماز پڑھنے سے 27 درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔(صحیح بخاری، حدیث 645)

2۔حضرت عبداللہ اور بعض کے نزدیک عمرو بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول ﷺ!مدینے میں کیڑے مکوڑے (سانپ، بچھو وغیرہ)اور درندے بہت ہیں،(اس لئے آپ مجھے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت عنایت فرما دیں) تو رسول اللہ ﷺ نے پوچھا:کیا تو حی علی الصلوۃ اور حی علی الفلاح سنتا ہے؟(اگر سنتا ہے) تو مسجد میں آ۔(ابوداؤد، حدیث4/1067)

سبحان اللہ سبحان اللہ!!کیا خوبصورت پیغام ہے، نماز باجماعت کا کہ آپ ﷺ نے سخت مشکلات میں بھی نماز باجماعت چھوڑنے کا حکم نہ دیا، بلکہ توکل علی اللہ کا پیغام دیا۔

3۔ جس بستی میں یا جنگل میں تین آدمی ہوں، جن میں با جماعت نماز کا اہتمام نہ کیا جائے تو ان پر یقیناً شیطان غالب آ گیا ہے، پس تم جماعت کو لازم پکڑو، یقیناً بھیڑیا اس بکری کو کھا جاتا ہے، جو ریوڑ سے دور رہتی ہے۔(ابو داؤد، حدیث 7/1070)

4۔ لوگ نماز باجماعت چھوڑنے سے ضرور باز آجائیں، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا، پھر ان کا شمار غافلوں میں ہونے لگے گا(سنن ابن ماجہ:794)

5۔ قسم ہے اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! یقیناً میں نے ارادہ کیا کہ میں لکڑی اکٹھی کرنے کا حکم دوں، پھر فرض نماز کا حکم دوں کہ اس کے لئے اذان دی جائے، پھر میں کسی ایک آدمی کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں خود ان لوگوں کی طرف جاؤں(جو مسجد میں نہیں آتے) اور ان سمیت ان کے گھروں کو آگ لگا دوں۔(بخاری و مسلم، 5/1068)

ترغیب: پیارے پیارے میٹھے میٹھے مسلمانوں! اللہ کریم کتنا مہربان ہے ہم پرکہ ہمیں نماز جیسی انمول دولت سے نوازا اور اس کے ساتھ ساتھ جماعت کا حکم بھی دیا، تاکہ نماز کے درجات و فضیلت میں اور اضافہ ہو جائے، لہٰذا تمام مسلمانوں کو نماز کی پابندی کرنی چاہیے اور مردوں کو نمازِ باجماعت کا اہتمام ضرور کرنا چاہیے۔


اے عاشقانِ نماز!بے شک اللہ پاک نے ہمیں بے شمار انعامات سے نوازا ہے، الحمدللہ عزوجل ان میں سے ایک عظیم الشان انعام نماز ہے اور باجماعت نماز بھی کسی نعمت سے کم نہیں، اللہ پاک کے فضل و کرم سے یہ بھی کثیر نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، اللہ پاک قرآن کریم سورۃ البقرہ آیت 43 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0 ترجمہ کنزالایمان:رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس یعنی رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو کا مطلب ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو، کیونکہ جماعت کی نماز تنہا نماز سے ستائیس27 درجہ افضل ہے۔(تفسیر نعیمی، جلد 1، صفحہ 335)

باجماعت نماز کی فضیلت پر احادیث مبارکہ:

1۔ اللہ عزوجل باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(پیارا)رکھتا ہے۔(مسند احمد، مسند اما احمد بن حنبل، جلد2، صفحہ 309، ح5112)

2۔ جب بندہ باجماعت نماز پڑھے، پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا سوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے لوٹ جائے۔(حلیۃ ال اولیٰ اء جلد 7، صفحہ 299، حدیث10591)

3۔ مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے 25 درجے زائد ہے۔(بخاری، جلد 1، صفحہ 233، ح647)

4۔ نماز باجماعت تنہا پڑھنے سے 27 درجہ بڑھ کر ہے۔

5۔ جس نے فجر اور عشاء کی نماز باجماعت پڑھی اور جماعت سے کوئی رکعت فوت نہ ہوئی تو اس کے لئے جہنم و نفاق سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔(شعب الایمان، جلد3، صفحہ 62، حدیث 2875)

درس:اے عاشقانِ نماز! جیسا کہ احادیث مبارکہ سے نماز باجماعت کی فضیلت و اہمیت اور فوائد بھی ظاہر ہو رہے ہیں، لہٰذا اللہ پاک کا پیارا بننے کے لئے، درجات کی بلندی کو پانے کے لئے، جنت میں داخلے کے لئے، جہنم سے آزادی کے لئے، منافقت سے نجات پانے کے لئے، شیطان سے حفاظت کے لئے اور اسی طرح اللہ پاک کی رحمت اور بہت سے فوائد حاصل کرنے کے لئے نماز باجماعت کی پابندی کیجئے اور دوسروں کو بھی نیکی کی دعوت دے کر باجماعت نماز پڑھنے کی ترغیب دلایئے۔


نماز ارکانِ اسلام میں سے ایک رکن ہے، معراج کی رات پیارے آقا  ﷺ کو جو تحفہ دیا گیا، وہ بھی نماز ہی کا تھا، نماز کوئی عام شےنہیں، کیونکہ نماز میں ہی سجدے کی حالت میں بندہ ربّ تعالیٰ کے بہت زیادہ قرب میں ہوتا ہے۔

قارئین کرام!میں آپ کو قرآن کریم کی ایک آیت مبارکہ کی طرف توجہ دلاتی چلوں ،پارہ 1 سورۃ البقرہ کی آیت 43: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0

ترجمہ کنزالایمان:اور رکوع کرو رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس آیت مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو، کیونکہ جماعت کی نماز تنہا نماز پر27 درجے افضل ہے۔(تدسیر نعیمی، ج1، ص230)

جماعت سے نماز مردوں پر واجب ہے، نیز بلاعذر محض سستی کے سبب نماز کو باجماعت ادا نہ کرنا گناہ ہے، جماعت سے نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل ہیں۔

پانچ فرامینِ مصطفیٰ :

1۔مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے 25 درجے زائد ہے۔(بخاری، جلد 1، صفحہ 233، ح647)

2۔نماز باجماعت تنہا پڑھنے سے 27 درجہ افضل ہے۔(بخاری، جلد 1، صفحہ 232، ح645)

3۔ اللہ عزوجل باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(پیارا)رکھتا ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل، ج2، ص309،حدیث 5112)

اے عثمان! جو شخص فجر کی نماز باجماعت ادا کریں، پھر طلوعِ آفتاب تک اللہ کا ذکر کرتا رہے، اس کے لئے حجِ مبرور اور مقبول عمرہ کا ثواب ہے۔(شعب الایمان، جلد 7، صفحہ 138، ح 9762)

5۔جس نے ظہر کی نماز باجماعت پڑھی، اس کے لئے اس جیسی پچیس نمازوں کا ثواب اور جنت الفردوس میں ستر درجات کی بلندی ہے۔(شعب الایمان، جلد 7، صفحہ 138، ح 9762)

قارئین کرام ذرا غور کیجئے! کہ کتنی عظیم الشان فضیلتیں ہیں نماز باجماعت پڑھنے والے کے لئے، اب وہ تو بدنصیب ہی ہے، محروم ہے وہ، جو بلا عذر جماعت سے نماز نہ پڑھے، امید ہے کہ جماعت ترک کرنے والوں کا ان احادیث مبارکہ کو پڑھ کر باجماعت نماز پڑھنے کا ذہن بن رہا ہوگا، اسلامی بہنوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے محارم کو ترغیب دیں کہ وہ باجماعت نمازیں پڑھیں، ان شاءاللہ عزوجل محارم کو نیکی کی دعوت دینے کا آپ کو بھی ثواب ملے گا کہ فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے:ان الدال علی الخیر کفاعلہبے شک نیکی کی راہ دکھانے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہے۔(ترمذی شریف)

اعلی حضرت علیہ رحمۃ الرحمن کی تحقیق کے مطابق:مسجد میں باجماعت نماز پڑھنا واجب ہے، جب شرعی مجبوری نہ ہو۔

افسوس! آج کل مسلمانوں کی اکثریت جماعت سے غافل ہے، جبکہ پہلے لوگ تو باجماعت نماز کا بہت زیادہ جذبہ رکھنے والے ہوتے تھے، چنانچہ حضرت امام ابو حامد محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمة اللہ علیہ لکھتے ہیں، پارۃ 18، سورۃ النور، آیت 37 میں اللہ پاک کا فرمان عالیشان ہے: رِجَالٌ١ۙ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّ لَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوةِ وَ اِيْتَآءِ الزَّكٰوةِ١۪ۙ يَخَافُوْنَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيْهِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُۗۙ0

ترجمہ کنزالایمان:وہ مرد جنہیں غافل نہیں کرتا کوئی سودا اور نہ خریدوفروخت، اللہ کی یاد اور نماز برپا رکھنے اور زکوۃ دینے سے ڈرتے ہیں، اس دن سے جس میں الٹ جائیں گے دل اور آنکھیں۔

اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے کہ ان میں جو لوہار ہوتا، وہ اگرضرب (یعنی چوٹ) لگانے کے لئے ہتھوڑا اوپر اٹھائے ہوئے ہوتا اور اذان کی آواز سنتا تو اب ہتھوڑا لوہے وغیرہ پر مارنے کے بجائے فوراً رکھ دیتا اور چمڑے کا کام کرنے والا چمڑے میں سوئے ڈالے ہوئے ہوتا اور اذان کی آواز اس کے کانوں میں پڑتی تو سوئی باہر نکالے بغیر چمڑا اور سوئی وہیں چھوڑ کر باجماعت نماز کے لئے مسجد کی طرف چل پڑتا۔(کیمیائےسعادت، جلد1، صفحہ 339)

سبحان اللہ عزوجل!کیا خوب ہے ہمارے اسلاف کرام کا انداز۔۔۔!!!

جماعت سے گر تو نمازیں پڑھے گا

خدا تیرا دامن کرم سے بھرے گا

بھائی مسجد میں جماعت سے نمازیں پڑھ سدا

ہوں گے راضی مصطفیٰ ہو جائے گا راضی خدا


اے عاشقانِ نماز! اللہ کریم کی رحمت سے ہمیں جو بے شمار انعامات عنایت ہوئے ہیں، الحمدللہ ان میں سے نماز بھی ہے اور یہ عظیم الشان انعام ہے اوراسی طرح نماز کی جماعت کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں، اللہ پاک کے فضل و کرم سے یہ بھی ہمارے لئے بے شمار نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے، چنانچہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:

ترجمہ کنزالایمان:رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

احادیث مبارکہ:

1۔ نماز باجماعت تنہا پڑھنے سے 27 درجہ افضل ہے۔(فیضان نماز، صفحہ 141)

2۔ اللہ عزوجل باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(پیارا)رکھتا ہے۔(فیضان نماز، صفحہ140)

3۔ جو اللہ عزوجل کے لئے چالیس دن باجماعت پڑھے اور تکبیر اولیٰ پائے، اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دی جاتی ہیں، ایک نار سے دوسری نفاق سے۔(بہار شریعت، جلد اول، حصہ الف، صفحہ 575)

4۔ جس نے باجماعت عشاء کی نماز پڑھی، گویا آدھی رات قیام کیااور جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی، گویا پوری رات قیام کیا۔(بہار شریعت، جلد اول، حصہ الف، صفحہ 577)

5۔رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ سے فرمایا:اے عثمان! جو شخص فجر کی نماز باجماعت ادا کرے، پھر طلوعِ آفتاب تک اللہ کا ذکر کرتا رہے، اس کے لئے حجِ مبرور اور مقبول عمرہ کا ثواب ہے۔(فیضان نماز، صفحہ152)

اے ہمارے پیارے اللہ پاک! اسلامی بھائیوں کو صفوں کی درستگی کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہماری نمازیں قبول فرما اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، اے اللہ ربّ العزت عزوجل ہمیں تیری پسند کی نماز ادا کرنے کی سعادت عطا فرما اور بے حساب مغفرت کر۔آمین


نماز ہر مکلف یعنی عاقل و بالغ پر فرضِ عین ہے، اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے، نماز خالص بدنی عبادت ہے، اس میں نیابت جاری نہیں ہو سکتی، انہیں ایک کی طرف سے دوسرا ادا نہیں کر سکتا اور فرضیتِ نماز کا سبب حقیقی امرِ الہی ہے، قرآن کریم میں تقریبا 700 سے زائد مرتبہ نماز پڑھنے کا حکم ارشاد فرمایا گیا ہے، ارشادِ باری  تعالیٰ ہے:نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ نماز پڑھو۔(پ 1، البقرۃ:43)یعنی مسلمانوں کے ساتھ رکوع ہماری ہی شریعت میں ہےیا باجماعت ادا کرو۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ0(پ 16، طٰہ:14) ترجمہ کنزالایمان:اور میری یاد کے لئے نماز قائم رکھ۔

احادیث مبارکہ میں متعدد جگہ باجماعت نماز پڑھنے کے فضائل بیان ہوئے ہیں۔

حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:باجماعت نماز تنہا نماز سے 27 درجے افضل ہے۔(احیاء العلوم، ج1، صفحہ 462)

اس حدیث مبارکہ سے باجماعت نماز پڑھنے کی اہمیت بیان ہوئی کہ باجماعت نماز پڑھنا کس قدر اہمیت کا حامل اور افضیلت کا باعث ہے۔

حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا؛کہ جس نے باجماعت نماز پڑھی، بے شک اس نے اپنے سینے کو عبادت سے بھر دیا۔

حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں؛کہ بیس سال سے میرا یہ معمول ہے کہ مؤذن کے اذان دینے سے پہلے ہی مسجد میں ہوتا ہوں۔

حدیث مبارکہ میں ہے کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا؛کہ جو اللہ ربّ العزت کے لئے چالیس دن باجماعت نماز پڑھے اور تکبیر اولیٰ پائے تو اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دی جائیں گی، ایک نار سے دوسری نفاق سے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:رات میرے ربّ کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور ایک روایت میں ہے:میں نے اپنے ربّ کو نہایت جمال کے ساتھ تجلی فرماتے ہوئے دیکھا، اس نے فرمایا: اے محمد! میں نے عرض کیا :لبیک وسعدیک، اس نے فرمایا: تمہیں معلوم ہے، ملاء اعلی کس اَمر میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے عرض کی: نہیں جانتا، اس نے اپنا دستِ قدرت میرے شانوں کے درمیان رکھا، یہاں تک کہ اس کے ٹھنڈک میں نے اپنے سینہ میں پائی تو جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، میں نے جان لیا اور ایک روایت میں ہے:جو کچھ مشرق و مغرب کے درمیان ہے، جان لیا۔

فرمایا: اے محمد! جانتے ہو، ملاء اعلی کس اَمر میں بحث کرتے ہیں؟ میں نے عرض کی:ہاں، درجات و کفارات اور جماعتوں کی طرف چلنے اور سخت سردی میں پورا وضو کرنے اور نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں اور جس نے ان پر محافظت اختیار کی، خیر کے ساتھ زندہ رہے گا اور خیر کے ساتھ مرے گا اور اپنے گناہوں سے ایسا پاک ہو گا، جیسے اس دن کے اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔(بہارشریعت، صفحہ 575)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جماعت کی طرف چلنے والوں یعنی جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے بارے میں ملائکہ آسمانوں پر گفتگو فرماتے ہیں، کس قدر خوش نصیب ہیں وہ لوگ، جو باجماعت نماز ادا کرتے اور اس فضیلت کو پاتے ہیں۔

جس طرح نماز باجماعت پڑھنے پر فضیلتیں بیان ہوئی ہیں، اسی طرح باجماعت نماز کو ترک کرنے پر وعیدیں بھی وارد ہوئی ہیں۔

حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم، رؤف الرحیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بعض نمازوں میں کچھ لوگوں کو غیر حاضر پایا تو ارشاد فرمایا:میں چاہتا ہوں کہ کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے، پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں، جو نماز(باجماعت) سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان پر ان کے گھر جلا دوں۔(احیاء العلوم، جلد 1، صفحہ 462)

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرماتے ہوئے سنا:جس کسی گاؤں یا بستی میں تین فرد بھی ہوں اور ان میں نماز باجماعت کا اہتمام نہ ہو تو شیطان ان پر مسلط ہو جاتا ہے، لہٰذا تم جماعت کو لازم پکڑو، بھیڑیا ہمیشہ دور رہنے والی اکیلی بکری ہی کو کھاتا ہے۔(سنن نسائی، ح844)

گزشتہ حدیث کے الفاظ تو ایسے ہیں، جو نماز کے لئے جماعت کے فرض ِعین ہونے کا اشارہ دیتے ہیں، اگر یہ عام سی سنت ہوتی تو اس کے ترک پر ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگائے جانے کی شدیدترین وعید نہ سنائی جاتی۔

جب صرف جماعت چھوڑنے پر اس قدر سخت وعید ہے تو پھر جو لوگ نماز ہی نہیں پڑھتے، وہ کتنی بڑی سزا کے مستحق ہوں گے، بلاشبہ ان کا دینِ اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔

ہمیں اللہ ربّ العزت کے احکامات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے فرامین جو نماز باجماعت کے متعلق ہیں، ان کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے جماعت کا ضرور بالضرور اہتمام کرنا چاہئے، کیونکہ انسان غلام ہیں اور اللہ عزوجل اور اس کے پیارے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام ہیں، توجو غلام ہوتے ہیں، وہ اپنے مالک کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کر دیتے ہیں، اپنی مرضیوں کو ترجیح نہیں دیتے۔

اللہ کریم ہمیں پابندی کے ساتھ باجماعت نماز اخلاص اور استقامت کے ساتھ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اللہ کریم کی رحمت سے ہمیں جو بے شمار انعامات عطا ہوئے ہیں، ان میں سے ایک عظیم الشان انعام نماز بھی ہے، جس طرح نماز ایک بہت بڑا انعام ہے، اسی طرح نماز کو باجماعت ادا کرنا بھی اجر وثواب کا ذریعہ ہے، باجماعت نماز ادا کرنے کا قرآن مجید فرقان حمید میں ذکر آیا ہے، چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید کے پارہ 1، سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 43 میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ0ترجمہ کنزالایمان:رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس یعنی رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو، کیونکہ جماعت کی نماز تنہا نماز سے 27 درجہ افضل ہے۔

جماعت کس پر واجب ہے؟

ہر عاقل، بالغ، قدرت رکھنے والے مسلمان مرد پر جماعت واجب ہے، شرعی مجبوری کے بغیر ایک بار بھی چھوڑنے والا گناہ گار اور عذابِ نار کا حقدار ہے، کئی بار ترکِ نماز کرنے والا فاسق ہے اور وہ گواہی کے قابل نہیں رہتا، حضور سیّد عالم ﷺ کا عمومی عمل یہ تھا کہ آپ فرض نمازیں باجماعت ادا فرماتے، مگر یہ کہ کوئی مجبوری پیش آجاتی۔

آیئے اب احادیث کی روشنی میں نماز باجماعت کی فضیلت و اہمیت ملاحظہ کرتے ہیں۔

1۔ مرد کا مسجد میں جماعت سے نماز ادا کرنا، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے 25 درجہ افضل ہے۔(بخاری، جلد 1، صفحہ 233، حدیث 647)

2۔ جب بندہ باجماعت نماز پڑھے، پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت یعنی ضرورت کا سوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے لوٹ جائے۔(حلیۃ ال اولیٰ اء جلد 7، صفحہ 299، حدیث10591)

3۔ اگر یہ نماز باجماعت سے پیچھے رہ جانے والا جانتا کہ اس رہ جانے والے کے لئے کیا ہے تو گھسٹتے ہوئے حاضر ہوتا۔(معجم کبیر، جلد 8، صفحہ 266، حدیث 7882)

4۔ جو اللہ عزوجل کے لئے چالیس دن باجماعت نماز پڑھے اور تکبیر اولیٰ پائے، اس کے لئے دو آزادیاں لکھ دی جاتی ہیں، ایک نار سے دوسری نفاق سے۔(جامع ترمذی، جلد 1، ص 274، صفحہ 241)

5۔ جس نے باجماعت عشاء کی نماز پڑھی، گویا اس نے آدھی رات قیام کیااور جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی، گویا پوری رات قیام کیا۔(صحیح مسلم، صفحہ 329، ح606)

سبحان اللہ کتنے خوش بخت ہیں وہ لوگ جو پانچوں نمازیں باجماعت پڑھنے کے عادی ہیں یقیناً وہ نہایت عظیم اجر و ثواب کے حقدار ہیں، اس حدیث پاک ”زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو“ کے مطابق اپنی زندگی سے پورا پورا فائدہ اٹھا کر جتنا ہو سکے باجماعت نمازیں ادا کر کے ہمیں زیادہ سے زیادہ ثواب کا ذخیرہ کر لینا چاہئے، ورنہ یاد رکھیں مرنے کے بعد ہمیں جماعت کا ثواب حاصل کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا اور اپنی غفلت میں گزری زندگی پر بے حد ندامت ہو گی، جتنا ہو سکے خود بھی باجماعت نماز ادا کریں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلاکر انہیں مسجد میں لے جایا کریں ، تو آپ کے اجر و ثواب میں اضافہ ہوگا۔ان شاءاللہ

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو پانچوں نمازیں باجماعت تکبیر ِ اولیٰ کے ساتھ پہلی صف میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین