قارئین کرام ۔اللہ پاک  کے نبی ، نبی مکرم ، شفیع معظم ، نور مجسم ،مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وسلم کو کئی خصوصیات سے نوازا ۔ان ہی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ,,من جانب اللہ جوامع الکلم ،، ہے۔پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے۔ بعثت جوامع الکلم۔ کہ مجھے جامع کلام عطا کیا گیا۔(صحیح بخاری ، حدیث نمبر:2977)

قارئین کرام ، اسی واسطے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے الفاظ مختصر مگر مفھوم وسیع ، عریض اور طویل ہوتا ہے۔ ایک ایک جملہ وسیع موضوع بن سکتا ہے۔تو آپ کے سامنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ ارشادات پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں ۔ جن میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ثلاث، ثلاثہ ( تین چیزیں) کے ذریعے اپنی امت کی اصلاح و تربیت فرمائی ۔ جن میں ہر ایک پر عمل کر کے اپنی زندگی کو دنیا و آخرت میں فلاح و کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔

01۔ { ایمان کی مٹھاس پانے (حاصل) کرنے والے تین لوگ}وَعَنْ أَنَسٍ قالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللّٰهُ وَرَسُولُهٗ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهٗ إِلَّا لِلّٰهِ وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ اللّٰهُ مِنْهُ كَمَا يُكْرَهُ أَنْ يُلْقٰى فِي النَّارِ ۔ترجمہ۔حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ۔ پیارے آقا مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جس میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کی لذت پالے گا ۔ (01) الله و رسول تمام ماسواءسےزیادہ پیارے ہوں (02) جوبندےسےصرف الله کے لیے محبت کرے (03) جو کفر میں لوٹ جانا جب کہ رب نے اس سے بچالیا ایسا بُرا جانے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔{صحيح البخاري،كِتَاب الْإِيمَان ،باب حَلاَوَةِ الإِيمَانِ، حدیث ، 16}

02۔ { منافق کی تین نشانیاں} عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ۔ترجمہ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ وسلم روایت کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، منافق کی تین علامتیں ہیں۔ (10) جب بات کرے جھوٹ بولے، (02) اور جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے(03) اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے۔ {صحیح بخاری ، حدیث نمبر: 33 ،کتاب الایمان ، باب علامۃ المنافق،}

03۔ { اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تربیت کرو }نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :(( ادبوا اولادکم علی ثلاث خصال: حب نبیکم و حب اھل بیتہ و قراۃ القرآن)) یعنی اپنی اولاد کو تین خصلتیں سکھاؤ (01) اپنے نبی کی محبت (02) نبی پاک کے اہل بیت کی محبت (03) اور قرآن کی قراءت ۔ { الجامع الصغیر مع التیسیر ، ج،1،ص،53}

04۔ { تین لوگوں کا خون(قتل) حلال ہے}عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ ر سُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِیٍٔ مُّسْلِـمٍ اِلَّا بِاِحْدٰی ثَلَاثٍ اَلثَّیِّبِ الزَّانِی وَالنَّفْسِ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِکِ لِدِیْنِہِ الْمُفَارِقِ لِلْجَمَاعَۃ۔ترجمہ ۔حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں سوائے یہ کہ تین میں سے کوئی ایک وجہ پائی جائے: (1)…شادی شدہ زانی، (2)… جان کے بدلے جان (قصاص) اور (3)… اپنے دین کوچھوڑ کرجماعت سے الگ ہونے والا۔‘‘ {بخاری، كتاب الديات،ج،4،ص،361، حدیث 6878،مسلم، کتاب القسامة، ص710، حدیث:4375}

شرحِ حدیث ۔یاد رکھئے! اسلام میں انسانی جان کی بے پناہ حرمت ہے اور کسی انسان کو قتل کرنا شدید کبیرہ گناہ ہے اور اس کی محدود صورتوں کے علاوہ کسی بھی طرح اجازت نہیں۔ (صراط الجنان،ج،5،ص،458)

قصاص میں قتل کرنا یعنی قتل کے بدلے قتل اور یہ بھی قاضی کے فیصلے کے بعد ہے ، یہ نہیں کہ بغیر قاضی کے فیصلے کے خود ہی قصاص لیتے پھریں ، اس کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں ۔ پھر قصاص میں قتل کی اجازت کے ساتھ اس کی بھی حدود و قُیود بیان فرمائی ہیں کہ قصاص میں قتل کرنے میں بھی مقتول کا وارث حد سے نہ بڑھے جیسے زمانَۂ جاہلیت میں ایک مقتول کے عِوض میں کئی کئی لوگوں کو قتل کردیا جاتا تو فرمایا گیا کہ صرف قاتل سے قصاص لیا جائے گا ، کسی اور سے نہیں۔ نیز قصاص لینے کا حق ولی کو ہے اور ولی میں وہی ترتیب ہے جو رشتے داروں کی ایک خاص قسم میں ہے اور جس کا ولی نہ ہو اس کا ولی سلطان ہے۔ پھر یہ کہ قصاص حَقُّ العبد ہے، اگر ولی چاہے تو معاف کردے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام میں انسانی جان کی کس قدر حرمت بیان کی گئی ہے اور آج ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ جس کا دل کرتا ہے وہ بندوق اٹھاتا ہے اور جس کو دل کرتا ہے قتل کردیتا ہے، کہیں سیاسی وجوہات سے، تو کہیں علاقائی اور صوبائی تَعَصُّب کی وجہ سے۔ ان میں سے کوئی بھی صورت جائز نہیں ہے۔ قتل کی اجازت صرف مخصوص صورتوں میں حاکِمِ اسلام کو ہے اور کسی کو نہیں۔ {{صراط الجنان، ج، 6،ص،458ملخصا}}

دین سے نکل جانے کی صورتیں: دین سے نکل جانے کی دو صورتیں ہیں: یا تو اسلام کو چھوڑکر یہودی،عیسائی،ہندو وغیرہ دوسری ملت میں داخل ہو جائے یا کلمہ گو تو رہے مگر کوئی کفریہ عقیدہ اختیارکرے ۔(مراٰۃ المناجیح ،ج،5،ص،214)

04۔ {وہ تین لوگ جن سے قیامت کے دن اللہ پاک کلام نہیں فرمائے گا}عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعاً: «ثلاثةٌ لا يُكلمهم الله يوم القيامة، ولا يُزَكِّيهم، ولا يَنظُر إليهم، ولهم عذابٌ أليم: شَيخٌ زَانٍ، ومَلِكٌ كذَّاب، وعَائِل مُسْتكبر». ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین قسم کے آدمیوں سے نہ تو اللہ تعالی روزِ قیامت کلام کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اورنہ ان کی طرف دیکھے گا اور انہیں درناک عذاب ہوگا:(01) بوڑھا زانی، (02) جھوٹا بادشاہ (03) اور تکبر کرنے والا مفلس“۔ {صحيح مسلم، ج، 1 ، ص، 102،حدیث نمبر،107 بيروت}

اللہ پاک ہمیں ان ارشادات کریمہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق رفیق عنایت فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امت سے انتہائی حساس اور محبت والا رشتہ ہے آپ اپنی امت سے بے انتہا محبت فرماتے ہیں آپ نے امت کی ہر حوالے سے تربیت فرمائی حتی کہ آپ نے استنجاء کے حوالے سے بھی غیر کا محتاج نہیں چھوڑا آپ نے اپنے اصحاب کو ہر حوالے سے تعلیم دی اس حوالے احادیث مبارکہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

1: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنی اولاد کو تین چیزوں کا ادب سیکھاؤ : اپنے نبی کی محبت، اہل بیت کی محبت اور قرآن کی تلاوت کا ادب۔سیوطی، الجامع الصغیر، 1 : 25، رقم 311، دار الکتب العلمیۃ بیروت۔ لبنان

2 : ترجمہ : عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین چیزوں کو واپس نہ کیا جائے: تکیہ، تیل اور دودھ ۔امام ترمذیؒ فرماتے ہیں، کہ تیل سے مراد "خوشبو"ہے۔ (أبواب الأدب ، باب ماجاء في كراهية ردالطيب ج : 4 ص : 405 )

3 : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی بندے کے تین قسم کے گناہ معاف نہیں کرے گا ،اُن گناہوں کے علاوہ جس قدر گناہ ہوں گے اُن کو معاف کر دے گا ،لیکن اُن تین گناہوں کو کبھی معاف نہیں فرمائے گا:

۱۔ اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ۔

۲۔جادو کرنا یا کروانا۔

۳۔اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حسد کرنا۔

4 : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تین باتوں کو ناپسند فرماتا ہے : (1)قِیل و قَال (2) مال ضائع کرنا (3) کثرت سے سوال کرنا ۔

5 : مروی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مجھے تمہاری دنیا میں سے عورتیں، خوشبو پسند ہے، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے، تو ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! مجھے بھی دنیا کی تین چیزیں پسندہیں:آپ کو دیکھتا رہنا، آپ پر خرچ کرنے کے لیے مال جمع کرنا، آپ کی قربت کے ذریعے آپ کا وسیلہ حاصل کرنا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ! مجھے تین چیزیں محبوب ہیں:امر بالمعروف کرنا( نیکی کا حکم دینا)، نہی عن المنکر کرنا( برائی سے روکنا) ، اللہ تعالی کا حکم نافذ کرنا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : یا رسول اللہ! میرے لیے تین چیزیں محبوب بنائی گئی ہیں:بھوکے کو کھانا کھلانا، پیاسے کو سیراب کرنا،اور برہنہ کو لباس پہنانا، حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ عرض کیا:یا رسول اللہ! میرے نزدیک تین چیزیں محبوب ہیں: موسم گرما میں روزے رکھنا، مہمان نوازی کرنا ، آپ کی حفاظت میں تلوار چلانا ۔مسند احمد، مسند أنس بن مالك، الرقم: 12292


آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے امت مسلمہ کی بہترین رہنمائی فرمائی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال مسلمانوں کی زندگی کے لیے بہترین نمونہ ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مسلمانوں کی تربیت کے لیے ایک بہترین خزانہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کے ذریعے امت مسلمہ کی تین چیزوں کے بارے میں بہترین رہنمائی فرمائی ہے ان میں سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں

حدیث نمبر . . . 1 عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَتْبَعُ الْمَیِّتَ ثَلَاثَۃٌ: اَہْلُہُ وَمَالُہُ وَعَمَلُہُ، فَیَرْجِعُ اِثْنَانِ وَیَبْقٰی وَاحِدٌ، یَرْجِعُ اَہْلُہُ وَمَالُہُ وَیَبْقٰی عَمَلُہُ.

ترجمہ:حضرت سَیِّدُنَا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےفرمایا: ’’ میت کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں ، گھر والے ، مال اور اس کاعمل، پس دو چیزیں یعنی اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس لوٹ آتے ہیں اور ایک چیز یعنی اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہتاہے۔ ‘‘(فیضان ریاض الصالحین ;جلد1:حدیث نمبر :104)

حدیث نمبر . . . . . 2 وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَبْغَضُ النَّاسِ إِلٰى اللهِ ثَلَاثَةٌ: مُلْحِدٌ فِي الْحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِي الإِسْلَامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَمُطَّلِبٍ دَمَ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقِّ لِيُهْرِيقَ دَمَهُ. روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے الله کی بارگاہ میں تین شخص ناپسند ترین ہیں حرم میں بے دینی کرنے والا اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی مسلمان کے خون ناحق کا جویاں تاکہ اس کی خونریزی کرے۔(مرآة المناجیح شرح مشکوةالمصابیح جلد 1:حدیث نمبر ' 142)

حدیث نمبر . . . . 3 عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗ اِلَّا مِنْ ثَلٰثَۃٍ اِلَّا مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ اَوْعِلْمٍ یُّنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہٗ۔ حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا ہے کہ جب انسا ن مرجاتا ہے تو اس سے اس کے عمل کا ثواب کٹ جاتا ہے مگر تین عمل سے (کہ ان کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ) { ۱ } صدقہ جاریہ کا ثواب { ۲ } یا اس علم کاثواب جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں { ۳ } یانیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔ ( مشکاۃ المصابیح،کتاب العلم،الفصل الاوّل، الحدیث:۲۰۳، ج۱،ص۶۰)

حدیث نمبر . . . . . 4وَعَنْ مُعَاذٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اتَّقُوْا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَةَ: الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَالظِّلِّ. روایت ہے حضرت معاذ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین لعنتی چیزوں سے بچو،گھاٹوں،درمیانی راستہ اور سایہ میں پاخانہ کرنے سے (مرآة المناجیح شرح مشکوةالمصابیح جلد 1:حدیث نمبر' :35)

حدیث نمبر . . 5عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبيّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ثَلاثٌ مَنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلاوَةَ الْاِيمَانِ : اَنْ يَكُونَ اللهُ وَرَسُوْلُهُ اَحَبَّ اِلَيْهِ مِمَّا سَوَاهُمَا وَاَنْ يُّحِبَّ المَرْءَ لا يُحِبُّهُ اِلَّا لِلهِ وَاَنْ يَّكْرَهَ اَنْ يَّعُوْدَ فِی الْكُفْرِ بَعْدَ اَنْ اَنْقَذَهُ اللهُ مِنْهُ كَمَا يَكْرَهُ اَنْ يُّقْذَفَ فِي النَّارِ. ترجمہ : حضرتِ سَیِّدُنااَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ دو عالم کے مالک ومختار ، مکی مَدَنی سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا : ’’جس میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پالے گا : ( 1 )اللہ عَزَّوَجَل اس کارسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں ۔ ( 2 ) صرف رضائے الٰہی کے لئے کسی سے محبت کرے اور ( 3 ) وہ جسےاللہ عَزَّ وَجَل نے کفر سے نجات دے دی تو اسے دوبارہ اس کی طرف جاناآگ میں ڈالے جانے کی طرح نا پسند ہو ۔ ‘‘فیضان ریاض الصالحین ;جلد4:حدیث نمبر :375)


 (1)اللہ پاک کی ناراضگی کا سب: حضرت سیدنا ابو زر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے۔ کہ حضور نبی مکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :3شخص ایسے ہیں جن سے اللہ عزو جل نہ کلام فرمائے گا نہ اللہ کی طرف نظر کرم فرمائے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے درد ناک عذاب ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات 3 بار ارشاد فرمائی تو میں نے عرض کی : وہ تو خائب و خاسر ہو گئے، یا رسول اللہ صلّی الله علیہ وسلم ، وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا : (1) - تکبیر سے اپنا تہبند لٹکاوالا(٢) احسان جتلانے والا۔(صحیح مسلم ، کتاب الإيمان، باب بیان غلظ تحريم إسبال الازار، الخ،الحدیث، ٢٩٣، ص٦٩٦)

(2)جن لوگوں سے اللہ پاک کلام نہیں فرمائے گا رسول اکرم، شاہ بنی آدم صلی اللہ علیہ و سلم کا فر مان عالیشان ہے، 3( قسم کے) لوگوں سے اللہ عزو جل نہ تو کلام فرمائے گا اور نہ ہی انہیں پاک فرمائے گا بلکہ ان کے لئے درد ناک عذاب ہے : (1) جو شخص اپنا اضافی پانی مسافر سے روک لے (۲) جو شخص عصر کے بعد کسی کو مال بیچے اور اللہ عزوجل کی قسم کھائے کہ اس نے یہ چیز اتنے اتنے میں خریدی ہے۔ اور خریدار اسے سچا سمجھے حالانکہ حقیقتاً ایسا نہ ہو اور (۳)جو شخص دنیا (کی دولت)کے لئے کسی حکمران کی بیعت کرے کہ اگر وہ اسے دے تو اس کا وفادار رہے اور اگر نہ دے تو وفا نہ کرے ۔ (المرجع السابق ،الحدیث:٢٩٧)

(3)روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہ جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال بھی ختم ہو جاتے ہیں ا، سوا تین اعمال کے ایک دائمی خیرات یا وہ علم جس سے نفع پہنچتا رہے یا وہ نیک بچہ جو اس کے لئے دعا خیر کرتا رہے ۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح باب العلم ج ۱ ح192 ص 178)

5(بحث مباحثہ اور جھگڑنے کی ممانعت) (4) اللہ کے محبوب دانا ئے عیوب منزہ عن العیوب عزوجل صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عزت نشان ہے اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو، نہ اس سے مذاق کرو اور اس سے وعدہ کرو تو اس کی خلاف ورزی نہ کرو۔ (جامع الترمذی، ابواب البو والصلة ، باب ما جاء فى المراء الحدیث 1990،ص،1802)

(5)روایت ہےکہ یارسول اللہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : اللہ تعالٰی تمہاری تین باتوں سے راضی ہوتا ہے اور تین باتوں کو نا پسند کرتا ہے جن باتوں سے راضی ہوتا ہے وہ یہ ہیں کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور اللہ کی رسی کو مل کر تھا مے رہو۔ اور متفرق نہ ہو اور تم سے جن باتوں کو نا پسند کرتا ہے وہ فضول اور بیہودہ گفتگو اور سوال کی کثرت اور مال کو ضائع کرنا ہیں۔ (صحیح مسلم شریف ،کتاب: فیصلوں کا بیان ،حدیث نمبر4475)


دارالمدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے پروفیسرز کے ایک وفدنے چانسلر ڈاکٹر دانش اقبال عطاری کی سربراہی میں دارالمدینہ ہیڈآفس کا مختصر دورہ کیا۔ اس دورے میں اُنھیں دارالمدینہ سے متعلق بریفنگ دی گئی  اور ادارے کے مختلف شعبوں کا دورہ کروایا گیا۔ وفد کو دارالمدینہ کے نصاب اور نظام تعلیم کی خصوصیات سےبھی آگاہ کیا گیا۔) غلام محی الدین ترک ،اردو کانٹینٹ رائیٹر(مارکیٹنگ اینڈ کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ دارالمدینہ ،ہیڈ آفس کراچی)


اے عاشقانِ رسول و اہلِ بیت الله رب العالمين نے حضرتِ شعیب علیہ السلام کو اہلِ مدین اور اصحابِ ایکہ کی طرف تبلیغ و نصیحت کے لیے نبی بنا کر بھیجا۔ آئیے اب ہم پہلے اہلِ مدین کو ذکر کرتے ہیں کہ جن میں آپ علیہ السلام نےوعظ و نصیحت فرمائی  قرآنِ مجید میں ارشادِ خُدا وندی ہے جو حضرتِ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے نصیحت فرمائی:

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85) ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔ (پارہ 8،سورہِ اَعراف، آیت 85)

گناہوں کی تاریکی میں پھنسے ہوئے اہلِ مدین کو راہِ نجات دِکھانےاور اُن کے اعمال و کردار کی اصلاح کے لیے الله تعالٰی نے انہی کے ہم قوم حضرتِ شعیب علیہ السلام کو منصبِ نبوت پر فائز فرماکر اُن کی طرف بھیجا. چنانچہ آپ علیہ السلام نے اس قوم کو بتوں کی پوجا چھوڑنے اور صرف عبادتِ الٰہی کرنے کی دعوت دی اور آپ علیہ السلام نے اِن سے فرمایا کہ خریدو فروخت کے وقت ناپ تول پورا کرو اور لوگوں کو اُن کی چیزیں کم کر کے نہ دو اورکفرو گناہ کر کے زمین میں فساد برپا نہ کرو. (سیرت الانبیاء ص508)

اے عاشقانِ رسول اس مذکورہ اقوال سے معلوم ہوا کہ حضرتِ شعیب علیہ السلام نے اہلِ مدین کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم الله رب العالمين کی عبادت کرو کہ الله تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں وہی مالکِ حقیقی ہے صرف اُس کی وحدانیت کا اقرار کرو اور اس کی ہی عبادت کرو اور تم ناپ تول میں ہرگز کمی نہ کرو پورا پورا ناپ تول کرو اور لوگوں کو اُن ہی کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ.

حضرتِ شعیب علیہ السلام نے قوم کو تبلیغ و نصیحت کا سلسلہ جاری رکھا. چنانچہ دعوتِ توحید کے بعد قوم سے فرمایا اے لوگو! ناپ تول میں کمی نہ کرو تم یقیناً خوشحال نظر آرہے ہو اور خوشحال آدمی کو تو نعمت کی شُکر گزاری اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچانا چاہیے نہ کہ وہ اِن کے حقوق میں کمی کر کے ناشُکری اور حق تلفی کا مرتکِب ہو.

یاد رکھو! ناپ تول میں کمی کی اس بدترین عادت سے اندیشہ ہے کہ کہیں تمہیں اس خوشحالی سے محروم نہ کر دیا جائے اور اگر تم اس سے باز نہ آئے تو ڈر ہے کہ تم پر ایسا عذاب نہ آئے جس سے کسی کی رہائی میسّر نہ ہو اور سب کے سب ہلاک ہوجاؤ.( سیرت الانبیاء ص512، 513)

جیسا کہ قرآنِ کریم میں اس مذکورہ اقوال کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ الله تعالٰی قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے جو آپ علیہ السلام نے اہلِ مدین کو نصیحت فرمائی: وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ(84) ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔(پارہ 12،سورہِ ھود، آیت 84)

اسی مذکورہ آیتِ مبارکہ کے آگے الله تعالٰی کا فرمانِ عالی شان ہے جو حضرتِ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو ارشاد فرمایا : وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ (85) بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﳛ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(86) ترجمہ کنز الایمان: اور اے میری قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ اللہ کا دیا جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں کچھ تم پر نگہبان نہیں۔ (پارہ 12،سورہِ ھود، آیت 85،86)

مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام نے ناپ تول سے متعلق مزید اہلِ مدین کی نصیحت اور اصلاح فرمائی کہ انصاف کے ساتھ ناپ اور تول پورا پورا کرو اِن دونوں میں کسی بھی قسم کی کمی نہ کرو اور زمین میں فساد پھیلانے سے بچنے کی تلقین بھی فرمائی کہ زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ حرام مال چھوڑنے کے بعد جس قدر تمہارے پاس مال بچے وہی مال تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم اس پر یقین رکھتے ہو.

آئیے اب ہم أصحابِ ایکہ کو ذکر کرتے ہیں جن میں حضرتِ شعیب علیہ السلام نے تبلیغ اور وعظ و نصیحت فرمائی : حضرتِ شعیب علیہ السلام نے اصحابِ ایکہ کو جو وعظ و نصیحت، تبلیغ اور اصلاح فرمائی اُسے قرآنِ کریم میں اس طرح بیان فرمایا ہے : كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــٴَـیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَ(176) اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(177)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(178)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(180)اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ(181)وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ(182)وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(183)وَ اتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الْجِبِلَّةَ الْاَوَّلِیْنَ(184)

ترجمہ کنز الایمان: ایکہ (جنگل) والوں نے رسولوں کو جھٹلایا جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔اور میں اس پر کچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ناپ پورا کرو اور گھٹانے والوں میں نہ ہو۔ اور سیدھی ترازو سے تولو۔ اور لوگوں کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ اور اس سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا اور اگلی مخلوق کو۔(پارہ 19،سورہِ شُعَراء، آیت 176تا184)

اس مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام نے اِن سے فرمایا کہ میں امانت دار رسول ہوں تو تم میری اطاعت کرو اور الله سے ڈرو کہ الله رب العالمين کے سِوا کوئی اور معبود نہیں. اُس کی عبادت کرو اور میں اِس تبلیغ پر تم سے کچھ اُجرت نہیں لیتا کہ میرا اجر تو الله دینے والا ہے.

اے لوگو! تم ناپ تول پورا پورا کرو، بلکل صحیح ترازو سے تولو، زمین میں فساد نہ پھیلاؤ اور اُس ذات سے ڈرو جس نے تمہیں اور پہلی مخلوق کو پیدا کیا. الله رب العالمين حضرتِ شعیب علٰی نبیّناو علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پُر انوار پر کروڑوں رحمتوں و برکتوں کا نزول فرمائے اور آپ کے وسیلہ سے ہم سب کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے( آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہِ خاتم النبيّين صلّى الله تعالٰی علیہ والہ واصحابہ وسلم)

رسولُ اللہ ﷺ کا تین چیزوں کے بیان سے تربیت فرمانا


انبیاء ومرسلین علیھم السلام انتہائی اعلیٰ اور  عمدہ اوصاف کے مالک تھے قرآن وحدیث میں انبیاء ومرسلین علیھم السلام کے انفرادی اور مجموعی بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں  نبی اور رسول خدا کے خاص اور معصوم بندے ہوتے ہیں، ان کی نگرانی اور تربیت خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ صغیر و کبیرہ گناہوں سے بالکل پاک ہوتے ، عالی نسب، عالی حسب (یعنی بلند سلسلہ خاندان)، انسانیت کے اعلی مرتبے پر پہنچے ہوئے، خوبصورت ، نیک سیرت ، عبادت گزار، پرہیز گار ، تمام اخلاق حسنہ سے آراستہ اور ہر قسم کی برائی سے دور رہنے والے ہوتے ہیں۔ انہیں عقل کامل عطا کی جاتی ہے جو اوروں کی عقل سے انتہائی بلند و بالا ہوتی ہے۔ کسی حکیم اور فلسفی کی عقل اور کسی سائنسدان کی فہم و فراست اس کے لاکھویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتی اور عقل کی ایسی بلندی کیوں نہ ہو کہ یہ خدا کے لاڈلے بندے اور اس کے محبوب ہوتے ہیں۔ ان انبیاء کرام علیہم السلام میں حضرت شعیب علیہ السلام بھی ہیں  اللہ عزوجل نے ان کا تذکرہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر فرمایا ہے اور ان کی نصیحتوں کو بھی قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے  آپ بھی پڑھیے اور اپنے قلوب و اذہان کو معطر کیجیے

1) اللہ عزوجل کی عبادت کرو: اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَترجمۂ کنز الایمان:اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔(پارہ 8 سورہ اعراف آیت 85)

2)راہ گیروں کو نہ ڈرانا :اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَترجمۂ کنز الایمان:اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی چاہو اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اس نے تمہیں بڑھادیا اور دیکھو فسادیوں کا کیسا انجام ہوا۔

ظاہر یہ ہے کہ یہ کلام بھی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے۔ آپ اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ اپنے سے پہلی امتوں کے تاریخی حالات معلوم کرنا،قوم کے بننے بگڑنے سے عبرت پکڑنا حکمِ الٰہی ہے۔ ایسے ہی بزرگانِ دین کی سوانح عمریاں اور خصوصاً حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ بہترین عبادت ہے اس سے تقویٰ، رب عَزَّوَجَلَّ کا خوف اور عبادت کا ذوق پیدا ہو تا ہے۔(پارہ 8 سورہ اعراف آیت 86 تفسیر صراط الجنان )

3)اللہ عزوجل کا فیصلہ سب سے بہتر : اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآىٕفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَاۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان:اور اگر تم میں ایک گروہ اس پر ایمان لایا جو میں لے کر بھیجا گیا اور ایک گروہ نے نہ مانا تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ اللہ ہم میں فیصلہ کرے اور اللہ کا فیصلہ سب سے بہتر۔

{ وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ:اور اگر تم میں ایک گروہ ۔}یعنی اگر تم میری رسالت میں اختلاف کرکے دو فرقے ہوگئے کہ ایک فرقے نے مانا اور ایک منکر ہوا تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے کہ تصدیق کرنے والے ایمانداروں کو عزت دے اور ان کی مدد فرمائے اور جھٹلانے والے منکرین کو ہلاک کرے اور انہیں عذاب دے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سب سے بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے کیونکہ وہ حاکمِ حقیقی ہے  اس کے حکم میں نہ غلطی کا احتمال ہے نہ اس کے حکم کی کہیں اپیل ہے۔

(پارہ 8 سورہ اعراف آیت 87 تفسیر صراط الجنان )

4) اللہ عزوجل سے ڈرو :اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ. اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ  فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ. وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.  ترجمۂ کنز الایمان:جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔اور میں اس پر کچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔(پارہ 19 سورہ شعراء آیت 177تا 180)

5) قوم کو عذاب الٰہی سے ڈرا کر نصیحت :حضرت شعیب علیہ السلام نےارشاد فرمایا: اے میری قوم! مجھ سے تمہاری عداوت و بغض، میرے دین کی مخالفت، کفر پر اصرار ، ناپ تول میں کمی اور توبہ سے اعراض کی وجہ سے کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نازل نہ ہو جائے جیسا قوم نوح یا قوم عاد و ثمود اور قوم لوط پر نازل ہوا اور ان میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا زمانہ دوسروں کی بنسبت تم سے زیادہ قریب ہے، لہذا ان کے حالات سے عبرت حاصل کرو اور اس بات سے ڈرو کہ کہیں میری مخالفت کی وجہ سے تم بھی اسی طرح کے عذاب میں جس میں وہ لوگ مبتلا ہوئے۔ لہذا توبہ کرو، بیشک میرا رب اپنے ان بندوں پر بڑا مہربان ہے جو توبہ استغفار کرتے ہیں  اور وہ اہلِ ایمان سے محبت فرمانے والا ہے۔۔ اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍؕ-وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ۔  وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ ترجمہ کنزالایمان :اور اے میری قوم تمہیں میری ضد یہ نہ کموا دے کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں۔ اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بیشک میرا رب مہربان محبت والا ہے۔(پارہ 12 سورہ ھود آیت 89 90 سیرت الانبیاء صفحہ 516)


جس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن پاک میں جابجا انبیاء کرام کے تذکرے بیان فرمائے  اسی طرح اللہ عزوجل نے اپنے پیارے نبی حضرت شعیب علیہ السلام کی قرآنی نصیحتیں بیان فرمائیں.

1)ناپ تول میں کمی نہ کرو: اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان:اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔(پارہ 8 سورہ اعراف آیت 85)

2) اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں : وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ ترجمۂ کنز الایمان:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔(پارہ 12 سورہ ھود آیت 84)

3) کیا تم ڈرتے نہیں :اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ترجمہ کنزالایمان :جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں۔ (پارہ 19 سورہ شعراء آیت 177)

4) اللہ عزوجل سے ڈرو : فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ ترجمہ کنزالایمان : تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو (پارہ 19 سورہ شعراء آیت 179)

5) زمین میں فساد نہ پھیلاؤ :وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاۙ-فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ترجمہ کنزالایمان :مدین کی طرف اُن کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو اس نے فرمایا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی امید رکھو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔(پارہ 20 سورہ عنکبوت آیت 36 )


اللہ پاک نے عالم دنیا کو وجود بخشا اس میں طرح طرح کی مخلوق پیدا فرمائی پھر ان کی ہدایت کے لیے اپنے مقرب بندوں انبیاء علیہ السلام کو مبعوث فرمایا جن کا تذکرہ بطور خاص قرآن پاک میں ذکر کیا جس کا مطالعہ آنکھوں کو روشنی دل کو چاشنی اور روح کو تازگی بخشتا ہے کہ جن کے واقعات اور سیرت میں ہمارے لیے وعظ و نصیحت کا بے بہا سمندر موجود ہے انہی انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام میں سے ایک حضرت شعیب علیہ الصلوۃ السلام بھی ہیں آپ نے اپنی قوم کو متعدد نصیحتیں ارشاد فرمائیں چنانچہ آپ بھی حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کی پانچ نصیحتیں پڑھیے اور عمل کی کوشش کیجئے

(1) ناپ تول میں کمی نہ کرنا :وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85) ترجمۂ کنز الایمان:اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔ (سورۃ الاعراف آیت نمبر 85)

(2)( اللہ کی عبادت کرنا)وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ(84) ترجمۂ کنز الایمان:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔ (سورۃ ھود آیت نمبر84)

(3)( زمین میں فساد نہ کرو) وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاۙ-فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(36)فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ(37) ترجمۂ کنز الایمان:مدین کی طرف اُن کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو اس نے فرمایا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی امید رکھو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔تو انھوں نے اُسے جھٹلایا تو اُنھیں زلزلے نے آلیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے۔سورۃ العنکبوت آیت نمبر (36,)(37)

(4)(حضرت شعیب علیہ السلام کا اپنی قوم سے منہ پھیرنا )فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْۚ-فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ(93) ترجمۂ کنز الایمان:تو شعیب نے ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیونکر غم کروں کافروں کا۔(سورۃ الاعراف آیت نمبر 93)


اللہ تعالیٰ کے  تمام نبی علیہم السلام اپنی اپنی امتوں کی اصلاح فرماتے رہے ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ،حکم خداوندی پر عمل کرنے کی ترغیبات ارشاد فرماتے رہے ان کو نصیحتیں بھی فرماتے رہے ان کی نصیحتوں کا ذکر اللہ پاک نے قرآن کریم میں بھی فرمایا ہے ان میں سے ایک اللہ پاک کے بہت پیارے نبی حضرت شعیب علیہ السلام بھی ہے آپ علیہ السلام نے بھی اپنی امت کی اصلاح کے لیے ان کو نصیحتیں فرمائیں جن کا ذکر قرآن پاک میں ہے آئیے دیکھتے ہیں

اللہ کی عبادت کے بارے قوم کو نصیحت :وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ( الاعراف ، نمبر 85)

ترجمۂ کنز الایمان:اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔

تفسیر صراط الجنان

{ وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا ۔} مدین حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے، مدین اور مصر کے درمیان اَسّی دن کے سفر کی مقدار فاصلہ تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دادی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیٹی تھیں ، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اہلِ مدین کے ہم قوم تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انبیاءِ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 85، 2 / 118، تفسیر صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: 85، 2 / 691،ملتقطاً)

2۔ اپنی رسالت کے بارے میں قوم کو نصیحت فرمائی :فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْۚ-فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ(سورۃالاعراف، تحت الآیۃ: 93) ترجمۂ کنز الایمان:تو شعیب نے ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیونکر غم کروں کافروں کا۔

تفسیر صراط الجنان: {وَ قَالَ:اورفرمایا۔} جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب آیا تو آپ نے ان سے منہ پھیر لیا اور قوم کی ہلاکت کے بعد جب آپ ان کی بے جان نعشوں پر گزرے تو ان سے فرمایا اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دئیے اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم کسی طرح ایمان نہ لائے ۔( صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: 93، 2 / 694، ملخصاً)

قوم کو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کی نصیحت فرمائی:اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(177)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(178) فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(180) ترجمۂ کنز الایمان:جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔اور میں اس پر کچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔

تفسیر صراط الجنان:

ِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ: جب ان سے شعیب نے فرمایا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ جنگل والوں نے ا س وقت حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جھٹلا کر تمام رسولوں کو جھٹلایا جب حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان سے فرمایا: ’’کیا تم کفر و شرک پر اللہ تعالٰی کے عذاب سے نہیں ڈرتے!بے شک میں تمہارے لئے اللہ تعالٰی کی وحی اور رسالت پر امانت دار رسول ہوں تو تم اللہ تعالٰی کے عذاب سے ڈرو اور میں تمہیں جو حکم دے رہا ہوں اس میں میری اطاعت کرو۔

{وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍ: اور میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا۔} ان تمام انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعوت کا یہی عنوان رہا کیونکہ وہ سب حضرات اللہ تعالٰی کے خوف اور اس کی اطاعت اور عبادت میں اخلاص کا حکم دیتے اور رسالت کی تبلیغ پر کوئی اجرت نہیں لیتے تھے، لہٰذا سب نے یہی فرمایا۔( خازن، الشعراء، تحت الآیۃ: 180، 3 / 394)

علم خدا کا ذکر فرماتے ہوئے نصیحت :قَالَ یٰقَوْمِ اَرَهْطِیْۤ اَعَزُّ عَلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اتَّخَذْتُمُوْهُ وَرَآءَكُمْ ظِهْرِیًّاؕ-اِنَّ رَبِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ(سورہ ہود : 92) ترجمۂ کنز العرفان:شعیب نے فرمایا: اے میری قوم ! کیا تم پر میرے قبیلے کا دباؤ اللہ سے زیادہ ہے اور اسے تم نے اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال رکھا ہے بیشک میرا رب تمہارے تمام اعمال کو گھیرے ہوئے ہے۔

حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان لوگوں کا جواب سن کر ان سے فرمایا :میرا رب عَزَّوَجَلَّ تمہارے اعمال کو اور جس عذاب کے تم مستحق ہو اسے خوب جانتا ہے، وہ اگر چاہے گا تو آسمان کا کوئی ٹکڑ اتم پر گرا دے گایاتم پر کوئی اور عذاب نازل کرنا اس کی مَشِیَّت میں ہو گا تو میرا رب عَزَّوَجَلَّ وہ عذاب تم پر نازل فرمادے گا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: 188)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ جو اچھی بات ہوئی اللہ پاک اسے قبول فرمائے اور ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنائے اور اگر کوئی غلطی یا کمی بیشی رہ گئی ہو تو اللہ پاک اسے معاف فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


حضرت شعیب علیہ السلام کا تعارف :

نام و لقب :ا آپ علیہ السلام کا اسم گرامی شعیب ہے اور حسن بیان کی وجہ سے آپ کو خطیب الانبیاء کہا جاتا ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :کہ حضور پرنور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم جب حضرت شعیب علیہ السلام کا تذکرہ کرتے تو فرماتے وہ خطیب الانبیاء تھے۔

حضرت شعیب علیہ السلام کی بعثت:اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا،1 (اہل مدین) اور 2 (اصحاب ایکہ) - حضرت عکرمہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے حضرت شعیب علیہ السلام کے علاوہ کسی نبی کو دوبارہ مبعوث نہیں فرمایا،آپ علیہ السلام کو ایک بار اہل مدین کی طرف بھیجا جن کی اللہ تعالی نے ہولناک چیخ( اور زلزلے کے عذاب) کے ذریعے گرفت فرمائی اور دوسری بار اصحاب ایکہ کی طرف بھیجا جن کی اللہ تعالی نے شامیانے والے دن کے عذاب سے گرفت فرمائی۔

مدین کا مختصر تعارف: یہاں مدین سے مراد وہ شہر ہے جس میں رہنے والوں کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو رسول بنا کر بھیجا گیا تاکہ آپ علیہ السلام انہیں توحید رسالت پر ایمان لانے،، ناپ تول میں کمی نہ کرنے اور دیگر گناہوں سے بچنے کی دعوت دے کر راہ راست پر لائیں ،

اصحاب الایکہ کا مختصر تعارف: جنگل وجھاڑی کوایکہ کہتے ہیں،ان لوگوں کا شہر چونکہ سر سبز جنگلوں اور مر غزاروں کے درمیان تھا اس لیے انہیں قرآن پاک میں اصحاب الایکہ یعنی جھاڑی والے فرمایا گیا یہ شہر مدین کے قریب واقعہ تھا اور اس کے لوگ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم سے تعلق نہ رکھتے تھے -

حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو نصیحتیں:گناہو ں کی تاریکی میں پھنسے ہوئے اہل مدین کو راہ نجات دکھانے اور ان کے اعمال و کردار کی اصلاح کے لیے اللہ تعالی نے انہی کے ہم قوم حضرت شعیب علیہ السلام کو منصب نبوت پر فائز فرما کر ان کی طرف بھیجا چنانچہ آپ علیہ السلام نے قوم کو بتوں کی پوجا چھوڑنے اور صرف عبادت الہی کرنے کی دعوت دی اور فرمایا کہ خرید و فروخت کے وقت ناپ تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دو - کفر و گناہ کر کے زمین میں فساد برپا نہ کرو-

قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85) (پارہ نمبر 8 سورۃ الاعراف آیت نمبر 85) (ترجمہ کنز الایمان) اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔ (تفسیر صراط الجنان)

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا } مدین حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قبیلے کا نام ہے اور ان کی بستی کا نام بھی مدین تھا، اس بستی کا نام مدین اس لئے ہوا کہ یہ لوگ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ایک بیٹے مدین کی اولاد میں سے تھے، مدین اور مصر کے درمیان اَسّی دن کے سفر کی مقدار فاصلہ تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد سے ہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دادی حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیٹی تھیں ، حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اہلِ مدین کے ہم قوم تھے اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انبیاءِ بنی اسرائیل میں سے نہ تھے۔ (خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: 85، 2 / 118، تفسیر صاوی، الاعراف، تحت الآیۃ: 85، 2 /91،ملتقطاً)

{ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ:بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آگئی۔} اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معجزہ لے کر آئے تھے البتہ قرآنِ پاک میں معین نہیں کیا گیا کہ ان کا معجزہ کیا اور کس قسم کا تھا۔ حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے معجزات میں سے ایک معجزہ یہ بھی ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو بکریاں تحفے میں دے کر فرمایا یہ بکریاں سفید اور سیاہ بچے جنیں گی۔ چنانچہ جیسے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ویسے ہی ہوا۔ (البحر المحیط، الاعراف، تحت الآیۃ: 85، 4 / 339)

یا رب العالمین ہمیں حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کے فیضان سے مالا مال فرما اور حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں برائی سے روکنے کی اور نیکی کی دعوت دینے کی توفیق عطا فرما اور حضرت شعیب علیہ الصلوۃ والسلام کے صدقے سے مجھے اور میرے والدین کو بخش دے ،، امین ثم امین یا رب العالمین،


اللہ تعالٰی نے  اپنی مخلوق کی اصلاح کیلئے کم و پیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام علیھم الصلوۃ والسلام کو بھیجا تاکہ وہ انکو وعظ و نصیحت فرمائیں انہی انبیاء کرام علیھم الصلوۃ والسلام میں سے بعض کا تذکرہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں بھی فرمایا جن کا تذکرہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا انہیں میں سے ایک حضرت شعیب علیہ السلام بھی ہیں آپ علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کی راہنمائی فرمائی اور نصیحت بھی فرمائی آئیں آپ کا تذکرہ خیر قرآن پاک کی روشنی میں پڑھتے ہیں

(1)میں نے تمہاری خیر خواہی کی۔فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْۚ-فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ(93الاعراف) ترجمۂ کنز العرفان:تو شعیب نے ان سے منہ پھیرلیا اور فرمایا، اے میری قوم! بیشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دئیے اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی تو کافر قوم پر میں کیسے غم کروں ؟۔

(2)تمام اعمال کو گھیرے ہوئے ہے۔قَالَ یٰقَوْمِ اَرَهْطِیْۤ اَعَزُّ عَلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِؕ-وَ اتَّخَذْتُمُوْهُ وَرَآءَكُمْ ظِهْرِیًّاؕ-اِنَّ رَبِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ(92ھود) ترجمۂ کنز العرفان: شعیب نے فرمایا: اے میری قوم ! کیا تم پر میرے قبیلے کا دباؤ اللہ سے زیادہ ہے اور اسے تم نے اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال رکھا ہے بیشک میرا رب تمہارے تمام اعمال کو گھیرے ہوئے ہے۔

(3)کیا تم ڈرتے نہیں۔اِذقَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(177الشعراء)جب ان سے شعیب نے فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں ؟

(4)میری اطاعت کرو۔ اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ - فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ - وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (الشعراء178۔179-180) ترجمۂ کنز العرفان: بیشک میں تمہارے لیے امانتدار رسول ہوں ۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔ اور میں اس (تبلیغ) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔

(5)ناپ تول پورا کرو۔وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ۔ بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﳛ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظَ۔(سورہ ھود آیت 85 86) ترجمۂ کنز العرفان: اور اے میری قوم !انصاف کے ساتھ ناپ اور تول پوراکرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ اللہ کا دیا ہوا جو بچ جائے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں تم پر کوئی نگہبان نہیں ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں انبیاء کرام علیھم السلام کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلى الله عليه وسلم