حافظ محمد
احمد عطاری (درجۂ سادسہ جامعۃ المدینہ
شاہ عالم مارکیٹ لاہور، پاکستان)
اے عاشقانِ
رسول و اہلِ بیت الله رب العالمين نے حضرتِ شعیب علیہ السلام کو اہلِ مدین اور
اصحابِ ایکہ کی طرف تبلیغ و نصیحت کے لیے نبی بنا کر بھیجا۔ آئیے اب ہم پہلے اہلِ
مدین کو ذکر کرتے ہیں کہ جن میں آپ علیہ السلام نےوعظ و نصیحت فرمائی قرآنِ مجید میں ارشادِ خُدا وندی ہے جو حضرتِ شعیب
علیہ السلام نے اپنی قوم سے نصیحت فرمائی:
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ
اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ
مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا
النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ
خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85) ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی
عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے
روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین
میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔ (پارہ 8،سورہِ
اَعراف، آیت 85)
گناہوں کی تاریکی
میں پھنسے ہوئے اہلِ مدین کو راہِ نجات دِکھانےاور اُن کے اعمال و کردار کی اصلاح
کے لیے الله تعالٰی نے انہی کے ہم قوم حضرتِ شعیب علیہ السلام کو منصبِ نبوت پر
فائز فرماکر اُن کی طرف بھیجا. چنانچہ آپ
علیہ السلام نے اس قوم کو بتوں کی پوجا چھوڑنے اور صرف عبادتِ الٰہی کرنے کی دعوت
دی اور آپ علیہ السلام نے اِن سے فرمایا کہ خریدو فروخت کے وقت ناپ تول پورا کرو
اور لوگوں کو اُن کی چیزیں کم کر کے نہ دو اورکفرو گناہ کر کے زمین میں فساد برپا
نہ کرو. (سیرت الانبیاء ص508)
اے عاشقانِ
رسول اس مذکورہ اقوال سے معلوم ہوا کہ حضرتِ شعیب علیہ السلام نے اہلِ مدین کو نصیحت
کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم الله رب العالمين کی عبادت کرو کہ الله تعالٰی کے
سوا کوئی معبود نہیں وہی مالکِ حقیقی ہے صرف اُس کی وحدانیت کا اقرار کرو اور اس کی
ہی عبادت کرو اور تم ناپ تول میں ہرگز کمی نہ کرو پورا پورا ناپ تول کرو اور لوگوں
کو اُن ہی کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ.
حضرتِ شعیب علیہ
السلام نے قوم کو تبلیغ و نصیحت کا سلسلہ جاری رکھا. چنانچہ دعوتِ توحید کے بعد
قوم سے فرمایا اے لوگو! ناپ تول میں کمی نہ کرو تم یقیناً خوشحال نظر آرہے ہو اور
خوشحال آدمی کو تو نعمت کی شُکر گزاری اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچانا
چاہیے نہ کہ وہ اِن کے حقوق میں کمی کر کے ناشُکری اور حق تلفی کا مرتکِب ہو.
یاد رکھو! ناپ
تول میں کمی کی اس بدترین عادت سے اندیشہ ہے کہ کہیں تمہیں اس خوشحالی سے محروم نہ
کر دیا جائے اور اگر تم اس سے باز نہ آئے تو ڈر ہے کہ تم پر ایسا عذاب نہ آئے جس
سے کسی کی رہائی میسّر نہ ہو اور سب کے سب ہلاک ہوجاؤ.( سیرت الانبیاء ص512، 513)
جیسا کہ قرآنِ
کریم میں اس مذکورہ اقوال کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ الله تعالٰی قرآنِ پاک میں
ارشاد فرماتا ہے جو آپ علیہ السلام نے اہلِ مدین کو نصیحت فرمائی: وَ
اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ
مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ
اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ(84)
ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی
طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی
معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھتا ہوں اور
مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔(پارہ 12،سورہِ ھود، آیت 84)
اسی مذکورہ آیتِ
مبارکہ کے آگے الله تعالٰی کا فرمانِ عالی شان ہے جو حضرتِ شعیب علیہ السلام نے
اپنی قوم کو ارشاد فرمایا : وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ
الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا
تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ (85) بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ
كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﳛ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(86) ترجمہ کنز الایمان: اور اے میری قوم ناپ اور تول
انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد
مچاتے نہ پھرو۔ اللہ کا دیا جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو
اور میں کچھ تم پر نگہبان نہیں۔ (پارہ 12،سورہِ ھود، آیت 85،86)
مذکورہ آیتِ
مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام نے ناپ تول سے متعلق مزید اہلِ مدین کی نصیحت
اور اصلاح فرمائی کہ انصاف کے ساتھ ناپ اور تول پورا پورا کرو اِن دونوں میں کسی
بھی قسم کی کمی نہ کرو اور زمین میں فساد پھیلانے سے بچنے کی تلقین بھی فرمائی کہ
زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ حرام مال چھوڑنے کے
بعد جس قدر تمہارے پاس مال بچے وہی مال تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم اس پر یقین
رکھتے ہو.
آئیے اب ہم
أصحابِ ایکہ کو ذکر کرتے ہیں جن میں حضرتِ شعیب علیہ السلام نے تبلیغ اور وعظ و نصیحت
فرمائی : حضرتِ شعیب علیہ السلام نے
اصحابِ ایکہ کو جو وعظ و نصیحت، تبلیغ اور اصلاح فرمائی اُسے قرآنِ کریم میں اس طرح بیان فرمایا ہے : كَذَّبَ
اَصْحٰبُ لْــٴَـیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَ(176) اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا
تَتَّقُوْنَ(177)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(178)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179)وَ
مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ
الْعٰلَمِیْنَ(180)اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ(181)وَزِنُوْا
بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ(182)وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ
لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(183)وَ اتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ
الْجِبِلَّةَ الْاَوَّلِیْنَ(184)
ترجمہ کنز الایمان:
ایکہ (جنگل) والوں نے رسولوں کو جھٹلایا جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ۔
بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم
مانو۔اور میں اس پر کچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے
جہان کا رب ہے۔ناپ پورا کرو اور گھٹانے والوں میں نہ ہو۔ اور سیدھی ترازو سے تولو۔
اور لوگوں کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ اور اس سے
ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا اور اگلی مخلوق کو۔(پارہ 19،سورہِ شُعَراء، آیت
176تا184)
اس مذکورہ آیتِ
مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام نے اِن سے فرمایا کہ میں امانت دار رسول
ہوں تو تم میری اطاعت کرو اور الله سے ڈرو کہ الله رب العالمين کے سِوا کوئی اور
معبود نہیں. اُس کی عبادت کرو اور میں اِس تبلیغ پر تم سے کچھ اُجرت نہیں لیتا کہ
میرا اجر تو الله دینے والا ہے.
اے لوگو! تم ناپ تول پورا پورا کرو، بلکل صحیح
ترازو سے تولو، زمین میں فساد نہ پھیلاؤ اور اُس ذات سے ڈرو جس نے تمہیں اور پہلی
مخلوق کو پیدا کیا. الله رب العالمين حضرتِ شعیب علٰی نبیّناو علیہ الصلوۃ والسلام
کے مزار پُر انوار پر کروڑوں رحمتوں و برکتوں کا نزول فرمائے اور آپ کے وسیلہ سے
ہم سب کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے( آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہِ خاتم
النبيّين صلّى الله تعالٰی علیہ والہ واصحابہ وسلم)