محمد لیاقت
علی قادری (درجۂ سابعہ مرکزی جامعۃُ
المدینہ فیضان مدینہ گجرات ، پاکستان)
قارئین کرام ۔اللہ
پاک کے نبی ، نبی مکرم ، شفیع معظم ، نور
مجسم ،مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وسلم کو کئی خصوصیات سے نوازا ۔ان ہی خصوصیات میں سے ایک
خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ,,من جانب اللہ جوامع الکلم ،، ہے۔پیارے آقا صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے۔ بعثت جوامع الکلم۔ کہ مجھے جامع کلام عطا کیا گیا۔(صحیح
بخاری ، حدیث نمبر:2977)
قارئین کرام ،
اسی واسطے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے الفاظ مختصر مگر مفھوم وسیع ،
عریض اور طویل ہوتا ہے۔ ایک ایک جملہ وسیع موضوع بن سکتا ہے۔تو آپ کے سامنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ ارشادات
پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں ۔ جن میں
پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ثلاث، ثلاثہ ( تین چیزیں) کے ذریعے اپنی امت کی
اصلاح و تربیت فرمائی ۔ جن میں ہر ایک پر عمل کر کے اپنی زندگی کو دنیا و آخرت میں
فلاح و کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔
01۔
{ ایمان کی مٹھاس پانے (حاصل) کرنے والے تین لوگ}وَعَنْ أَنَسٍ قالَ: قَالَ
رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيْهِ
وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللّٰهُ وَرَسُولُهٗ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا
سِوَاهُمَا وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهٗ إِلَّا لِلّٰهِ وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ
بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ اللّٰهُ مِنْهُ
كَمَا يُكْرَهُ أَنْ يُلْقٰى فِي النَّارِ ۔ترجمہ۔حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ۔
پیارے آقا مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا ۔ جس میں تین خصلتیں ہوں
وہ ایمان کی لذت پالے گا ۔ (01) الله و
رسول تمام ماسواءسےزیادہ پیارے ہوں (02) جوبندےسےصرف الله کے لیے محبت کرے (03) جو کفر میں
لوٹ جانا جب کہ رب نے اس سے بچالیا ایسا بُرا جانے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔{صحيح
البخاري،كِتَاب الْإِيمَان ،باب حَلاَوَةِ الإِيمَانِ، حدیث ، 16}
02۔
{ منافق کی تین نشانیاں} عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَ: آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا
وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ۔ترجمہ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ وسلم روایت کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، منافق کی تین
علامتیں ہیں۔ (10) جب بات کرے جھوٹ بولے،
(02) اور جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے(03) اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے۔ {صحیح بخاری ، حدیث نمبر: 33 ،کتاب الایمان ، باب علامۃ المنافق،}
03۔
{ اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تربیت کرو }نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :(( ادبوا اولادکم علی ثلاث خصال: حب نبیکم و حب
اھل بیتہ و قراۃ القرآن)) یعنی اپنی اولاد
کو تین خصلتیں سکھاؤ (01) اپنے نبی کی محبت (02) نبی پاک کے اہل بیت کی محبت (03) اور قرآن کی قراءت ۔ { الجامع الصغیر مع التیسیر ،
ج،1،ص،53}
04۔ { تین لوگوں کا خون(قتل) حلال ہے}عَنِ ابْنِ
مَسْعُوْدٍ رَضيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ ر
سُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ : لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِیٍٔ مُّسْلِـمٍ اِلَّا بِاِحْدٰی ثَلَاثٍ
اَلثَّیِّبِ الزَّانِی وَالنَّفْسِ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِکِ لِدِیْنِہِ
الْمُفَارِقِ لِلْجَمَاعَۃ۔ترجمہ ۔حضرت
سیدنا ابن مسعود رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا: ’’کسی مسلمان شخص کا خون
حلال نہیں سوائے یہ کہ تین میں سے کوئی ایک وجہ پائی جائے: (1)…شادی
شدہ زانی، (2)… جان کے بدلے جان (قصاص) اور (3)… اپنے دین کوچھوڑ کرجماعت سے الگ
ہونے والا۔‘‘ {بخاری، كتاب الديات،ج،4،ص،361، حدیث 6878،مسلم، کتاب القسامة، ص710،
حدیث:4375}
شرحِ حدیث ۔یاد
رکھئے! اسلام میں انسانی جان کی بے پناہ
حرمت ہے اور کسی انسان کو قتل کرنا شدید کبیرہ گناہ ہے اور اس کی محدود
صورتوں کے علاوہ کسی بھی طرح اجازت نہیں۔
(صراط الجنان،ج،5،ص،458)
قصاص میں قتل کرنا یعنی قتل کے بدلے قتل اور یہ بھی قاضی
کے فیصلے کے بعد ہے ، یہ نہیں کہ بغیر قاضی
کے فیصلے کے خود ہی قصاص لیتے پھریں ، اس
کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں ۔ پھر قصاص میں قتل کی اجازت کے ساتھ اس کی بھی حدود و قُیود بیان فرمائی ہیں کہ قصاص میں قتل کرنے میں بھی مقتول کا وارث حد
سے نہ بڑھے جیسے زمانَۂ جاہلیت میں ایک
مقتول کے عِوض میں کئی کئی لوگوں کو قتل کردیا جاتا تو فرمایا گیا کہ صرف قاتل
سے قصاص لیا جائے گا ، کسی اور سے نہیں۔ نیز قصاص لینے کا حق ولی کو ہے اور ولی میں وہی ترتیب ہے جو رشتے داروں کی ایک خاص قسم میں ہے اور جس کا ولی نہ ہو اس کا ولی سلطان ہے۔
پھر یہ کہ قصاص حَقُّ العبد ہے، اگر ولی
چاہے تو معاف کردے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام میں انسانی جان کی کس قدر حرمت بیان کی گئی ہے اور
آج ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ جس کا دل کرتا ہے وہ بندوق اٹھاتا ہے اور جس کو
دل کرتا ہے قتل کردیتا ہے، کہیں سیاسی
وجوہات سے، تو کہیں علاقائی اور صوبائی تَعَصُّب کی وجہ سے۔ ان میں سے کوئی بھی صورت جائز نہیں ہے۔ قتل کی اجازت صرف مخصوص صورتوں میں حاکِمِ اسلام کو ہے اور کسی کو نہیں۔ {{صراط الجنان، ج، 6،ص،458ملخصا}}
دین
سے نکل جانے کی صورتیں: دین سے نکل جانے کی دو صورتیں ہیں: یا تو
اسلام کو چھوڑکر یہودی،عیسائی،ہندو وغیرہ دوسری ملت میں داخل ہو جائے یا کلمہ گو
تو رہے مگر کوئی کفریہ عقیدہ اختیارکرے ۔(مراٰۃ المناجیح ،ج،5،ص،214)
04۔
{وہ تین لوگ جن سے قیامت کے دن اللہ پاک کلام نہیں فرمائے گا}عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعاً: «ثلاثةٌ لا يُكلمهم الله
يوم القيامة، ولا يُزَكِّيهم، ولا يَنظُر إليهم، ولهم عذابٌ أليم: شَيخٌ زَانٍ،
ومَلِكٌ كذَّاب، وعَائِل مُسْتكبر». ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین قسم کے آدمیوں سے نہ تو اللہ تعالی روزِ قیامت کلام کرے
گا، نہ انہیں پاک کرے گا اورنہ ان کی طرف دیکھے گا اور انہیں درناک عذاب
ہوگا:(01) بوڑھا زانی، (02) جھوٹا
بادشاہ (03) اور تکبر کرنے والا مفلس“۔ {صحيح مسلم، ج، 1 ، ص، 102،حدیث نمبر،107
بيروت}
اللہ پاک ہمیں
ان ارشادات کریمہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق رفیق عنایت فرمائے آمین بجاہ خاتم
النبیین صلی اللہ علیہ وسلم