محمد شاہ زیب
سلیم عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)
انبیاء ومرسلین
علیھم السلام انتہائی اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے قرآن وحدیث میں انبیاء
ومرسلین علیھم السلام کے انفرادی اور مجموعی بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں نبی
اور رسول خدا کے خاص اور معصوم بندے ہوتے ہیں، ان کی نگرانی اور تربیت خود اللہ
تعالیٰ فرماتا ہے۔ صغیر و کبیرہ گناہوں سے بالکل پاک ہوتے ، عالی نسب، عالی حسب (یعنی
بلند سلسلہ خاندان)، انسانیت کے اعلی مرتبے پر پہنچے ہوئے، خوبصورت ، نیک سیرت ،
عبادت گزار، پرہیز گار ، تمام اخلاق حسنہ سے آراستہ اور ہر قسم کی برائی سے دور
رہنے والے ہوتے ہیں۔ انہیں عقل کامل عطا کی جاتی ہے جو اوروں کی عقل سے انتہائی
بلند و بالا ہوتی ہے۔ کسی حکیم اور فلسفی کی عقل اور کسی سائنسدان کی فہم و فراست
اس کے لاکھویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتی اور عقل کی ایسی بلندی کیوں نہ ہو کہ یہ
خدا کے لاڈلے بندے اور اس کے محبوب ہوتے ہیں۔ ان انبیاء کرام علیہم السلام میں
حضرت شعیب علیہ السلام بھی ہیں اللہ عزوجل نے ان کا تذکرہ قرآن کریم میں کئی
مقامات پر فرمایا ہے اور ان کی نصیحتوں کو بھی قرآن کریم میں ارشاد فرمایا
ہے آپ بھی پڑھیے اور اپنے قلوب و اذہان کو معطر کیجیے
1)
اللہ عزوجل کی عبادت کرو: اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :وَ
اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ
مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا
الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا
تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ
كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَترجمۂ کنز
الایمان:اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی
عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے
روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین
میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔(پارہ 8 سورہ
اعراف آیت 85)
2)راہ
گیروں کو نہ ڈرانا :اللہ عزوجل
قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ
تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ
تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-وَ
انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَترجمۂ کنز الایمان:اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ
راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں
کجی چاہو اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اس نے تمہیں بڑھادیا اور دیکھو فسادیوں کا کیسا
انجام ہوا۔
ظاہر یہ ہے کہ
یہ کلام بھی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے۔ آپ اپنی قوم سے
فرما رہے ہیں کہ اپنے سے پہلی امتوں کے تاریخی حالات معلوم کرنا،قوم کے بننے بگڑنے
سے عبرت پکڑنا حکمِ الٰہی ہے۔ ایسے ہی بزرگانِ دین کی سوانح عمریاں اور خصوصاً
حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت ِ طیبہ کا
مطالعہ بہترین عبادت ہے اس سے تقویٰ، رب عَزَّوَجَلَّ کا خوف اور عبادت کا ذوق پیدا
ہو تا ہے۔(پارہ 8 سورہ اعراف آیت 86 تفسیر صراط الجنان )
3)اللہ
عزوجل کا فیصلہ سب سے بہتر : اللہ عزوجل
قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ
اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآىٕفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا
فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَاۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان:اور اگر تم میں ایک گروہ اس
پر ایمان لایا جو میں لے کر بھیجا گیا اور ایک گروہ نے نہ مانا تو ٹھہرے رہو یہاں
تک کہ اللہ ہم میں فیصلہ کرے اور اللہ کا فیصلہ سب سے بہتر۔
{ وَ
اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ:اور
اگر تم میں ایک گروہ ۔}یعنی اگر تم میری رسالت میں اختلاف کرکے دو فرقے ہوگئے کہ ایک
فرقے نے مانا اور ایک منکر ہوا تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے
درمیان فیصلہ کر دے کہ تصدیق کرنے والے ایمانداروں کو عزت دے اور ان کی مدد فرمائے
اور جھٹلانے والے منکرین کو ہلاک کرے اور انہیں عذاب دے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سب
سے بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے کیونکہ وہ حاکمِ حقیقی ہے اس کے حکم میں نہ
غلطی کا احتمال ہے نہ اس کے حکم کی کہیں اپیل ہے۔
(پارہ 8 سورہ
اعراف آیت 87 تفسیر صراط الجنان )
4)
اللہ عزوجل سے ڈرو :اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ.
اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ. وَ
مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ
الْعٰلَمِیْنَ. ترجمۂ کنز
الایمان:جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا
امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔اور میں اس پر کچھ تم سے
اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔(پارہ 19 سورہ
شعراء آیت 177تا 180)
5)
قوم کو عذاب الٰہی سے ڈرا کر نصیحت :حضرت
شعیب علیہ السلام نےارشاد فرمایا: اے میری قوم! مجھ سے تمہاری عداوت و بغض، میرے دین
کی مخالفت، کفر پر اصرار ، ناپ تول میں کمی اور توبہ سے اعراض کی وجہ سے کہیں تم
پر بھی ویسا ہی عذاب نازل نہ ہو جائے جیسا قوم نوح یا قوم عاد و ثمود اور قوم لوط
پر نازل ہوا اور ان میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا زمانہ دوسروں کی بنسبت تم
سے زیادہ قریب ہے، لہذا ان کے حالات سے عبرت حاصل کرو اور اس بات سے ڈرو کہ کہیں میری
مخالفت کی وجہ سے تم بھی اسی طرح کے عذاب میں جس میں وہ لوگ مبتلا ہوئے۔ لہذا توبہ
کرو، بیشک میرا رب اپنے ان بندوں پر بڑا مہربان ہے جو توبہ استغفار کرتے ہیں
اور وہ اہلِ ایمان سے محبت فرمانے والا ہے۔۔ اللہ
عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ
شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ
هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍؕ-وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ۔ وَ
اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ
وَّدُوْدٌ ترجمہ کنزالایمان :اور
اے میری قوم تمہیں میری ضد یہ نہ کموا دے کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا
ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں۔ اور اپنے رب
سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بیشک میرا رب مہربان محبت والا ہے۔(پارہ 12
سورہ ھود آیت 89 90 سیرت الانبیاء صفحہ 516)