فقہاء کے ہاں صرف دانت کھل جانا، آواز پیدا نہ ہونا تبسم یعنی مسکرانا ہے، تھوڑی آواز بھی پیدا ہونا، جو خود سنی جائے، دوسرا نہ سُنے ضحک ہے، زیادہ آواز پیدا ہو کہ دوسرا بھی سنے اور منہ کھل کھل جائے قہقہہ یعنی ٹھٹھا ہے۔(مراٰۃ، جلد6، باب الضحک، ص320، نعیمی کتب خانہ گجرات)

یاد رہے!حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے تھے ، قہقہہ مار کر کبھی نہ ہنسے کہ ہنسنا قلب میں غفلت پیدا کرتا ہے، تبسّم خوش اخلاقی ہے، اس سے سامنے والے کو خوشی ہوتی ہے، جہاں کہیں روایت میں ہنسنا لکھا ہے، اس سے مراد قہقہہ نہیں ہے۔

(مراٰۃ، جلد6، باب الضحک، ص320، نعیمی کتب خانہ گجرات)

ایک مرتبہ جب لوگوں نے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں بارش رُک جانے کی شکایت کی، تو میٹھے مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے منبر بچھانے کا حکم دیا، جو عید گاہ میں بچھا دیا گیا اور مقررہ دن وہاں تشریف لے جاکر بارش کے لئے دعا فرمائی اور ہاتھوں ہاتھ اس دعا کی قبولیت ظاہر ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسجد تک نہ آنے پائے تھے کہ سیلاب بہہ گئے۔

جب میٹھے مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے لوگوں کو پناہ کی طرف دوڑتے دیکھا تو ہنسے، حتی کہ دندانِ مبارک ظاہر ہوگئے، یہ تبسّم خوشی اور تعجب کے طور پر تھا کہ ابھی تو یہ لوگ بارش مانگ رہے تھے، جب آئی تو بھاگ رہے ہیں۔(مراٰۃ، جلد2، باب الاستسقاء، ص397۔398، نعیمی کتب خانہ گجرات)

غیب کی خبریں دینے والے پیارے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے آخری جنتی کے بارے میں خبر دی، جس پر قیامت کے دن اس کے چھوٹے گناہ پیش کرکے پوچھا جائے گا:تو نے فلاں فلاں دن فلاں فلاں گناہ کئے؟ وہ انکار کی طاقت نہ رکھے گا اور ڈر رہا ہوگا کہ بڑے گناہ تو ابھی باقی ہیں، کہیں وہ بھی پیش نہ کر دئیے جائیں، کہا جائے گا:تیرے لئے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی ہے، تو وہ کہے گا: میں نے اور بڑے کام کئے تھے، جنہیں یہاں نہیں دیکھ رہا ہوں، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نےدیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنس پڑے، حتی کہ داڑھیں چمک گئیں۔حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کی حالت کی تبدیلی پر تبسم فرمایا کہ ابھی تو گناہِ کبیرہ سے ڈر رہا تھا، اب خود مانگ رہا ہے۔(مراٰۃ، جلد7، باب الحوض والشفاعۃ، ص331۔332، ایضاً)

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سواری پر سوار ہونے کے بعد اللہ پاک کی حمد و ثنا بیان کی اور اللہ پاک کی بارگاہ میں کچھ یوں عرض کی: میں نے یقیناً اپنی جان پر ظلم کیا تو مجھے بخش دے اور تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا، پھر آپ ہنسے، وجہ پوچھنے پر فرمایا: تمہارا ربّ اپنے بندے سے خوش ہوتا ہے، جب وہ کہتا ہے: خدایا! میرے گناہ بخش دے، ربّ کریم فرماتا ہے: میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی گناہ نہیں بخشتا۔مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:گناہ تو خدا ہی بخشتا ہے،اس کے محبوب بندے شفاعت کرتے ہیں، مگر براہِ راست گناہ نہیں بخشتے۔(مراٰۃ، جلد4، باب خاص وقتوں کی دعا، ص41)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے عرفہ کی شام اپنی اُمّت کے لئے دعائے مغفرت کی، پھر مزدلفہ میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صبح دعا کی، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسے/ مسکرائے، خدمتِ عالی میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نے عرض کی:ہمارے ماں باپ فدا! اس گھڑی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسانہ کرتے تھے، اللہ پاک حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خوش و خرم رکھے۔ کیا چیز آپ کو ہنسا رہی ہے؟فرمایا:جب اللہ پاک کے دشمن ابلیس نے دیکھا کہ اللہ پاک نے میری دعا قبول کرلی اور میری اُمّت کو بخش دیا تو مٹی اٹھا کر اپنے سر پر ڈالنے لگا اور ہائے وائے پکارنے لگا، ہم نے جو اس کی گھبراہٹ دیکھی تو ہمیں ہنسی آگئی۔(مراٰۃ، جلد 4، صفحہ 321)

غزوۂ تبوک یا حنین سے واپسی پر جب حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے، ہوا چلی، جس سے طاق میں رکھی ہوئیں کھیل کی گڑیوں سے پردہ ہٹ گیا، ان گڑیوں کے درمیان ایک گھوڑا تھا، جن کے کپڑے کے دو پر تھے، سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے گھوڑے کے پروں کے متعلق پوچھا:یہ کیا ہے؟ تو بولیں:کیا آپ نے نہ سنا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے پر تھے؟ فرماتی ہیں:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسے، حتٰی کہ میں نے آپ کی داڑھیں دیکھ لیں۔(مراٰۃ، جلد5، ص113، نعیمی کتب خانہ گجرات)

جس کی تسکین سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پر لاکھوں سلام


دعوتِ اسلامی کے شعبہ  شب و روز کے زیر اہتمام یوکے ریجن میں ذمہ دار اسلامی بہنوں کا بذریعہ انٹرنیٹ مدنی مشورہ ہوا جس میں شعبہ شب و روز کی لندن زون، برمنگھم زون، اور مانچسٹر زون مشاورت کی اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

یوکے ریجن کی ذمہ دار اسلامی بہن نے’’ سستی کے نقصانات‘‘ کے موضوع پرترغیبی بیان کیا اور مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی کارکردگی کافالواپ کرتے ہوئے تربیت کی نیز شب و روز کے کام کو مزید اچھے انداز میں کرنے کا ذہن دیا ۔


جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں                     اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نور بلکہ قاسمِ نور(یعنی نور بانٹنے والے) ہیں۔شفا شریف میں ہے:جب نور والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے تھے تو در و دیوار روشن ہو جاتے۔(شمائل ترمذی، شفاء الباب الثانی)

حضرت ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گفتگو فرماتے تھے تو آپ کے دونوں اگلے دانتوں کے درمیان سے ایک نور نکلتا تھا اور جب کبھی اندھیرے میں مسکرا دیتے تو دندانِ مبارک کی چمک سے روشنی ہو جاتی تھی۔(سیرت مصطفی، صفحہ575، شمائل ترمذی)

ام المؤمنین صحابیہ بنتِ صحابی حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں: میں سحری کے وقت گھر میں کپڑے سی رہی تھی کہ اچانک سوئی ہاتھ سے گر گئی اور ساتھ ہی چراغ بھی بجھ گیا، اتنے میں نور والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم گھر میں داخل ہوئے اور سارا گھر نور والے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرہ ٔانور کے نور سے روشن ہو گیا اور گمی ہوئی سوئی مل گئی۔

سوزنِ گمشدہ ملتی ہے تبسم سے تیرے شام کو صبح بناتا ہے اُجالا تیرا(ذوقِ نعت)

(شان ِمصطفے پر 12بیانات، ص97)

صحابہ کرام علیہم الرضوان فرماتے ہیں:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم (موقع کی مناسبت سے) سب سے زیادہ مسکرانے والے تھے۔

حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔

عَنْ عَبْدَاللہ بِنْ الْحَارِثْ قَالَ مَا کَانَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اِلَّا تَبَسُّمَاحضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا صرف تبسم ہوتا تھا یعنی آپ غالب اوقات تبسم فرماتے اور مسکراتے۔

تبسم کے معنی ہیں:مُنہ کھل جاتا ہے، مگر آواز نہیں آتی۔(شانِ مصطفے پر 12بیانات، شمائل ترمذی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں :میں نے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کبھی پورا کھل کر ہنستا ہوا نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کے کوّے دیکھ لیتی۔وَاِنَّمَا کَانَ یَتَبَسَّمُ آپ تبسم بھی کرتے تھے۔

وضاحت:حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے قہقہہ لگانا، ٹھٹھا مارنا کبھی ثابت نہیں، بہت ہنسنا دل کو غا فل کر دیتا ہے جب کہ مسکرانے سے اپنا دل تازہ اور مخاطب کا دل خوش ہوتا ہے اور موہ لیتا ہے۔(مراۃالمناجیح، جلد نمبر 8، صفحہ نمبر 74، 81)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اُس شخص کو خوب جانتا ہوں، جو سب سے اوّل جنت میں داخل ہو گا اور اس سے بھی واقف ہوں، جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا، قیامت کے دن ایک آدمی دربارِ الہٰی میں حاضر کیا جائے گا، اس کے لئے یہ حکم ہوگا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ اس پر پیش کئے جائیں اور بڑے بڑے گناہ مخفی رکھے جائیں، جب اس پر چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کئے جائیں گے کہ تو نے فلاں دن، فلاں گناہ کئے ہیں، تو وہ اقرار کرے گا، اس لئے کہ انکار کی کوئی گنجائش نہ ہوگی اور اپنے دل میں نہایت خوفزدہ ہو گا( کہ ابھی تو صغائر ہی کا نمبر ہے، کبائر کا دیکھیں کہ کیا گزرے) کہ اس دوران میں یہ حکم ہو گا کہ اس شخص کو ہر ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی دی جائے تو وہ شخص یہ حکم سنتے ہی بول اٹھے گا: میرے تو ابھی بہت سے گناہ باقی ہیں، جو یہاں نظر نہیں آتے! حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس کا مقولہ فرماکر ہنسے، یہاں تک کہ آپ کے دانت مبارک ظاہر ہو گئے۔ہنسی اس بات پر تھی کہ جن گناہوں کے اظہار سے وہ ڈر رہا تھا، ان کے اظہار کا خود طالب ہو گیا۔

منزل کڑی ہے شانِ تبسّم کرم کرے تاروں کی چھاؤں نور کے تڑکے سفر کریں

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اس شخص کو جانتا ہوں جو سب سے آخر میں آگ سے نکلے گا، وہ ایک ایسا آدمی ہو گا، جو زمین پر گھسٹتا ہوا دوزخ سے نکلے گا، اس کو حکم ہوگا : جا! جنت میں داخل ہو جا! وہ جا کر دیکھے گا کہ لوگوں نے تمام جگہوں پر قبضہ کر رکھا ہے، سب جگہیں پُر ہو چکی ہیں، لوٹ کر بارگاہِ الہٰی میں اس کی اطلاع کرے گا، وہاں ارشاد ہوگا: کیا دنیاوی منازل کی حالت بھی یاد ہے؟ وہ عرض کرے گا :ربّ العزت خوب یاد ہے! اس پر ارشاد ہو گا: کچھ تمنائیں کرو، وہ اپنی تمنائیں بیان کرے گا۔ وہاں سے ارشاد ہوگا: تم کو تمہاری تمنائیں اور خواہشات بھی دیں اورتمام دنیا سے دس گنا زائد عطا کیا، وہ عرض کرے گا:اےاللہ پاک! تو بادشاہوں کا بادشاہ ہو کر مجھ سے تمسخر کرتا ہے(کہ وہاں ذرا سی بھی جگہ نہیں ہو تو تمام دنیا سے دس گنا زیادہ مجھے عطا کر رہا ہے)۔حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :میں نےنبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ اس شخص کا یہ مقولہ نقل فرما رہے تھے تو آپ کو ہنسی آگئی، یہاں تک کہ آپ کے دندانِ مبارک بھی ظاہر ہو گئے۔

واقعہ:حضرت ابنِ ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس(ان کے زمانہ خلافت میں)ایک مرتبہ(گھوڑا وغیرہ) کوئی سواری لائی گئی، آپ نے رکاب میں پاؤں رکھتے ہوئے بسم اللہ کہا اور سوار ہوئے تو الحمدللّٰہ کہا، پھر یہ دعا پڑھی:سُبْحٰنَ الَّذِیۡ سَخَّرَ لَنَا ہٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیۡنَ ﴿ۙ۱۳﴾ وَ اِنَّاۤ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنۡقَلِبُوۡنَ ﴿۱۴۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے الحمدللہ تین مرتبہ کہا، پھر اللّٰہُ اکبر تین مرتبہ کہا، پھر سبحنک انی ظلمت نفسی فاغفر لی فانہ لا یغفرالذنوب الا انت کہا، اس دعا کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے حضرت ابنِ ربیعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے ہنسنے کی وجہ پوچھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی اسی طرح دعائیں پڑھی تھیں اور اس کے بعد نبی رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی تبسم فرمایا تھا، میں نے بھی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے تبسم کی وجہ پوچھی تھی، جیساکہ تم نے مجھ سے پوچھی تو حضور انور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا:اللہ پاک بندے کے اس کے کہنے پر کہ میرے گناہ تیرے سوا کوئی معاف کر نہیں کر سکتا، خوش ہو کر فرماتا ہے:میرا بندہ یہ جانتا ہے کہ میرے سوا کوئی شخص گناہ معاف نہیں کر سکتا۔

جس تبسّم نے گلستاں پہ گرائی بجلی پھر دکھادے وہ ادائے گلِ خنداں ہم کو

حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے والد حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا:حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم غزوۂ خندق کے دن ہنسے،حتی کہ آپ کے دندانِ مبارک ظاہر ہوگئے،حضرت عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے پوچھا:کس بات پر ہنسے تھے؟ انہوں نے کہا:ایک کافر ڈھال لئے ہوئے تھا اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ گو بڑے تیر انداز تھے،لیکن وہ اپنی ڈھال کو ادھر اُدھر کر لیتا تھا،جس کی وجہ سے اپنی پیشانی کا بچاؤ کر رہا تھا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ تیر نکالا، جس وقت اس نے ڈھال سے سر اٹھایا، فوراً ایسا تیر مارا کہ پیشانی سے چوکا نہیں اور فوراً گر گیا، ٹانگ بھی اوپر کو اُٹھ گئی، پس حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس قصّہ پر ہنسے، میں نے پوچھا: اس میں کونسی بات پر؟ انہوں نے فرمایا:حضرت سعد کے اس فعل پر۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت سعد رضی اللہ عنہکی تیراندازی اور کافر کے ماہرانہ کرتب کے باوجود ہدف کا نشانہ بننے پر فرحت و سرور سے ہنسے کہ اللہ پاک کا دشمن ڈھیر ہو گیا۔(باب ماجاء فی ضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ، شمائل ترمذی)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے ایک دن کسی کام کے لئے بھیجا، میں نے کہا:اللہ پاک کی قسم! میں نہ جاؤں گا اور میرے دل میں یہ تھا کہ اس کام کے لئے جاؤں گا، جس کا مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حکم دیا، چنانچہ میں روانہ ہو گیا، حتی کہ میں کچھ بچوں کے پاس سے گزرا، جو بازار میں کھیل رہے تھے، اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے میرے پیچھے سے میری گردن پکڑی، فرماتے ہیں :میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی طرف دیکھا، آپ ہنس رہے تھے، فرمایا: اے انس! کیا تم وہاں جا رہے ہو،جہاں جانے کا میں نے تم کو حکم دیا تھا،میں نے عرض کی: ہاں! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میں جا رہا ہوں۔(مراۃ المنا جیح، ج8، ص67)

لو وہ آئے مسکراتے ہم اسیروں کی طرف خرمنِ عصیاں پر اب بجلی گراتے جائیں گے

معلوم ہوا!نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا تبسم کی صورت میں ہوتا تھا اور آپ کی یہ عادت و خصلتِ مبارکہ اس بات کی مقتضی ہے کہ ہم سے جتنا ہو سکے، اس عادت میں آپ کی متابعت کی کوشش کریں ۔


دعوت اسلامی کے زیر اہتمام یوکے لندن ریجن کے مختلف علاقوں (سلاؤ، واکنگ، ریڈنگ، ٹوٹنگ،ہنسلو، ولزڈن گرین ، سڈبری ، ہیرو، آئلسبری ، لوٹن ، چشم، واٹفورڈ، ہائی وکمب،ملٹن نیز) میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد کیا گیا جن میں کم وبیش 390اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

مبلغات دعوت اسلامی نےمختلف موضوعات پر بیانات کئے اور اجتماعات میں شریک اسلامی بہنوں کوقراٰنی آیات کی روشنی میں کرامت کا مفہوم بیان کیا نیز علم دین سیکھنے کےلئے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں باقاعدگی سے شرکت کرنے کا ذہن دیا۔


ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خوبصورت چہرے والے، مسکراتی شخصیت ہیں، ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمیشہ خندہ پیشانی اور بشاشت سے متصف رہے، مسکرانا پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتِ مبارکہ ہے اور سنت میں عظمت ہے، تبسم خوش اخلاقی ہے، اس سے سامنے والے کو خوشی ہوتی ہے۔

اعلیٰ حضرت ،امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

جس کی تسکیں سے روتے ہوئے ہنس پڑیں اس تبسم کی عادت پہ لاکھوں سلام

واقعات:

حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: میں جب سے مسلمان ہوا، مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا اور مجھے نہ دیکھا، مگر تبسم فرمایا۔ وضاحت:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ تبسم اظہارِ خوشی یا اظہارِ کرم کے لئے ہوتا تھا۔(مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 281)

حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ کسی کو مسکرانے والا نہ پایا۔(شرح خرپوتی، صفحہ 104)

تبسم میں ہزار ہا حکمتیں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہر ادا میں ربّ کریم کی حکمتیں ہوتی ہیں۔

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نہ اٹھتے تھے اپنے اس مصلے سے جس میں فجر کی نماز پڑھتے، حتی کہ سورج طلوع ہو جاتا، پھر جب سورج طلوع ہو جاتا تو اٹھتے اور لوگ باتیں کرتے تھے تو جاہلیت کے زمانہ کے کاموں کے ذکر میں مشغول ہو جاتے تو ہنستے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے تھے۔(مشکوٰۃ شریف مترجم، جلد دوم، صفحہ 492)


دعوتِ اسلامی کے شعبہ شارٹ کورسز کے زیرِ اہتمام یوکے لندن ریجن میں ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ ہوا جس میں ریجن تا ڈویژن سطح ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

شعبہ شارٹ کورسز کی ریجن ذمہ دار اسلامی بہن نے مدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کی کارکردگی کافالواپ کرتے ہوئے تربیت کی اور اسلامی بہنوں کوآئندہ ہونے والے 2کورس”شمائل مصطفی ﷺ“اور”احکام وراثت “ کے نکات سمجھائے نیز ڈویژن سطح پر کروانے کی ترغیب دلائی اجلاس میں شریک اسلامی بہنوں نے ان کورسز کو کروانے کے لیے اپنی اپنی اچھی نیتوں کا اظہار بھی کیا۔


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: فرماتی ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کبھی بھی کھل کر ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا گوشت نظر آئے، بلکہ آپ مسکراتے تھے۔ (بخاری، کتاب لآداب، باب التبسم و الضحک، 125/2،الحدیث 4092)

حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:میں نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ تبسم(مسکرا نے) والا نہیں دیکھا۔ (شمائل ترمذی، ہنسنے کا بیان، حدیث نمبر 216)

آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی اکثر ہنسی تبسم (مسکرانا) ہوتی تھی، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دندانِ مبارک اولے کی طرح چمک دار سفید ظاہر ہوتے تھے۔(شمائل ترمذی ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی گفتگو کیسی ہوتی، حدیث نمبر 213)

1۔عرش کے مالک سے کمی کا اندیشہ نہ کیجئے

ایک مرتبہ کسی ضرورت مند نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے سوال کیا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے پاس تو اس وقت کچھ موجود نہیں ہے، تم میرے نام سے خرید لو، جب کچھ آجائے گا تو میں ادا کردوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! آپ کے پاس جو کچھ تھا، آپ دے چکے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ مقولہ (کہنا)نا گوار گزرا تو ایک انصاری صحابی نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! جس قدر جی چاہے، خرچ کیجئے اور عرش کے مالک سے کمی کا اندیشہ نہ کیجئے، آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو انصاری کا یہ کہنا بہت پسند آیا اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تبسم فرمایا، جس کا اثرچہرۂ انور پر بھی ظاہر ہوتا تھا۔(شمائل ترمذی ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اخلاق وعادات، حدیث نمبر 333)

2۔بسم اللہ اولہ و آخرہ پڑھنے کی برکت

ایک شخص بغیر بسم اللہ پڑھے کھانا کھا رہا تھا، جب کھانا کھا چکا اور صرف ایک لقمہ باقی رہ گیا تو اس نے یہ لقمہ اٹھایا اور کہا : بسم اللہ اولہ وآخرہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تبسم کیا اور فرمایا: شیطان اس کے ساتھ کھا رہا تھا، جب اس نے اللہ(پاک)کا نام ذکر کیا تو جو کچھ اس شیطان کے پیٹ میں تھا، اُگل دیا۔(بہار شریعت، ح 16، ص 364)

3۔ اتنا مسکرائے کے مبارک داڑھوں کو دیکھ لیا

حضرت مہیب بن سنان رضی اللہ عنہ کی آنکھ دکھ رہی تھی اور وہ کھجور کھا رہے تھے تو حسن اخلاق کے پیکر صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : تمہاری آنکھ دُکھ رہی ہے اور تم کھجور کھا رہے ہو؟ عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! میں دوسری طرف سے کھا رہا ہوں، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ان کے جواب پر مسکرادیئے، راوی بیان کرتے ہیں:اتنا مسکرائے کہ میں نے آپ کی مبارک داڑھوں کو دیکھ لیا۔(احیاء العلوم، ج 3)

4۔ نماز میں مسکراتے چہرے مبارک کا دیدار

حضرت انس رضی اللہ عنہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بیماری کے دنوں کا واقعہ بیان کرتے ہوئے) فرماتے ہیں:پیر کے روز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرۂ مبارکہ کا پردہ اٹھایا اور صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کو صفوں کےاندر نماز میں دیکھ کر مسکرادیئے، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یہ گمان کرتے ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نماز کے لئے تشریف لانا چاہتے ہیں، صف میں پیچھے کی طرف آنے لگے اور خوشی کے مارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہمکی نظریں نماز ہی میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے چہرۂ مبارک کی طرف لگ گئیں اور قریب تھا کہ سب حضرات نماز توڑ دیتے، مگر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : نماز مکمل کرو، پھر مکانِ عالی شان میں تشریف لے گئے اور پردہ ڈال دیا۔(فیضان نماز، ص336 بخاری، ج1، ص404، ح 1205)

5۔اللہ پاک کی بندہ نوازی اور شانِ کریمی پر مسکراہٹ

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں یقیناً جانتا ہوں، سب کے بعد جنت میں کون داخل ہو گا اور سب سے آخر میں جہنم سے کون نکلے گا! ایک شخص ایسا ہو گا جسے قیامت کے دن اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کیا جائے گا، اللہ پاک فرشتوں سے فرمائے گا:اس شخص کے صغیرہ گناہ اس پر پیش کئے جائیں اور اس سے کہا جائے گا: تو نے فلاں دن فلاں فلاں کام کیا تھا؟ وہ شخص اقرار کرے گا اور کہے گا: میں اپنے اندر ان کاموں سے انکار کی سکت نہیں پاتا اور وہ ابھی اپنے کبیرہ گناہوں سے ڈر رہا ہو گا کہ ان کا حساب نہ شروع ہو جائے، اس شخص سے کہا جائے گا :جا تجھے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی دی جا تی ہے، حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:یہ بیان فرماتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خوشی ہوئی اور چہرۂ اقدس پر سُرور سے تبسم کے آثار نمایاں ہوئے۔(مسلم کتاب الایمان، باب ادنی اہل الجنۃ منزلہ فیھا، ص 119، ح 190)آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کبھی قہقہہ نہیں لگایا، لہٰذا ہمیں بھی کوشش کرنی چاہئے کہ یہ سنت بھی زندہ ہو اور ہم زور زور سے نہ ہنسیں۔فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:قہقہہ شیطان کی طرف سے اور مسکرانا اللہ پاک کی طرف سے ہے۔(المعجم الصغیر، للطبرانی، ج 2، ص104)


دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں یوکے اسکاٹ لینڈ ریجن میں ماہانہ مدنی مشورے کا انعقادہواجس میں کابینہ تا ذیلی سطح تک کی اسلامی بہنوں نے آن لائن اور فیس ٹو فیس شرکت کی۔

ریجن نگران اسلامی بہن نے’’ سستی کے نقصانات ‘‘کے موضوع پر ترغیبی بیان کیااورمدنی مشورے میں شریک اسلامی بہنوں کو مزید اچھے انداز میں 8 دینی کام کرنے کا ذہن دیا نیز دینی کاموں کو مزید بڑھانے اور اس میں بہتری لانے کے حوالے سے نکات فراہم کئے۔ 


دعوتِ اسلامی کےتحت گزشتہ دنوں شعبہ اسلامی بھائیوں کےمدرسۃالمدینہ کے معلمین کا مدنی مشورہ ہوا جس میں نگرانِ کابینہ محمد علی عطاری نے رکن ِزون و ناظمِ اعلیٰ مولانا محمد شعیب رضا عطاری مدنی نے ذمہ داران کی تربیت ورہنمائی کی۔

نگرانِ کابینہ نے دعوتِ اسلامی کے12دینی کاموں کا فالواپ لیتے ہوئے اہم نکات پر گفتگو کی۔اس کے علاوہ ذمہ دار نے چند مدنی پھولوں سے بھی نوازا جن میں سے چند یہ ہے: اپنے آپ میں احساسِ ذمہ داری پیدا کریں ، نگران و ذمہ داران کاآپس میں رابطے میں رہیں، مدرسۃالمدینہ سے فارغ التحصیل حفّاظِ کرام سے رابطہ کر کے ان کو پڑھانے کا ذہن دیں، پولیس ، وکلاء ، تعلیمی اداروں اور سیاست سے متعلقین افراد کو قراٰنِ پاک کی عظمت بتا کر ان کو تعلیم قرآن دیں، ہفتہ وارسنتوں بھرے اجتماع کے اختتام پر اپنے شعبہ اسلامی بھائیوں کے مدرسۃ المدینہ کےبستے(اسٹال) کو مستقل طور پر لگانا اور اس کے علاوہ شعبے و اخلاقیات کے حوالے سے بھی مزید مدنی پھولوں دیئے۔(رپورٹ: حافظ محمد اعظم عطاری کابینہ کارکردگی ذمہ دار شعبہ اسلامی بھائیوں کے مدرسۃ المدینہ ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، فرماتی ہیں :میں نےنبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پورا ہنستے نہ دیکھا، حتی کہ میں آپ کے انتہائی تالو کو دیکھ لیتی، آپ مسکرایا کرتے تھے۔(بخاری شریف، مراۃ المناجیح)

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے بہت تھے، حضرت جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جب سے مسلمان ہوا، مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پردہ نہ کیا اور مجھے نہ دیکھا، مگر تبسم فرمایا یعنی جس موقع پر اجازت لے کر حاضر ہونا ہوتا، مجھے بغیر اجازت حاصل کئے حاضری کی اجازت تھی اور آپ مجھے دیکھا کرتے تو تبسم فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ دیکھنااظہارِ خوشی یا اظہارِ کرم کے لئے ہوتا تھا۔

حضرت عبد اللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے حضور پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے زیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔(شمائل ترمذی:218)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:میں اس شخص کو بخوبی جانتا ہوں،جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہو گا اور اس شخص کو بھی جو سب سے آخر میں جہنم سے نکالا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک شخص کو دربارِ الٰہی میں پیش کیا جائے گا کہ اس کے چھوٹے گناہ اس کے سامنے رکھ دو اور اس کے بڑے گناہ اس سے مخفی رکھو۔ پھر کہا جائے گا: فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟فلاں دن تو نے یہ کیا تھا؟ وہ اقرار کرے گا،انکار نہ کر سکے گا اور اپنے بڑے گناہوں پر خوفزدہ ہو گا! پس کہا جائے گا :اسے ہر گناہ کے بدلے میں ایک نیکی دی جائے تو وہ بول اٹھے گا: میرے تو اور بھی بہت گناہ ہیں، جو میں نے یہاں نہیں دیکھے، جناب ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پس قسم ہے میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہنسے، یہاں تک کہ اگلے دانت نظر آئے۔(شمائل ترمذی، حدیث 221)یعنی حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ہنسنا، آپ کا مسکرانا تعجب کی وجہ سے تھا، جب اس شخص نے صغائر کو نیکیوں میں تبدیل ہوتے دیکھا تو اس کے اندر نیکیوں کی حرص و طمع پیدا ہوئی تو بول اٹھا: میرے بڑے گناہوں کی وجہ سے بھی مجھے نیکیاں دی جائیں۔تبسم میں ہزار حکمتیں ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہر ادا میں ربّ کریم کی حکمتیں ہوتی ہیں۔


دعوت اسلامی کے زیراہتمام یوکے برمنگھم ریجن میں گزشتہ ہفتے مختلف مقامات ( East, North, Central Birmingham, Coventry, Peterborough, Nottingham, Leicester, Derby, Burton, Stoke, Black Country, Telford, Walsall, Sandwell Worcester) میں آن لائن اور فیس ٹو فیس سنتوں بھرے اجتماعات منعقد کئے گئے جن میں کم وبیش 1ہزار144 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

مبلغات دعوت اسلامی نے سنتوں بھرے بیانات کئے اور اجتماعات میں شریک اسلامی بہنوں کو دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ رہنے کا ذہن دیتے ہوئے پابندی کے ساتھ ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کرنے کی ترغیب دلائی۔


دعوت اسلامی کے شعبہ علاقائی(اسلامی بہنیں ) کے زیر اہتمام یوکے برمنگھم(Birmingham) ریجن میں ماہ ستمبر2021ء میں ہونے والے دینی کاموں کی کارکردگی درج ذیل ہے:

ذیلی حلقوں میں ہونے والی نیکی کی دعوت کی تعداد: 40

اکثر علاقائی دورہ میں شرکت کرنے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 58

ماہ میں 1 یا 2 بار نیکی کی دعوت دینے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 61

انفرادی کوشش سے اپنے محارم کو مدنی قافلوں میں سفر کروانے والی اسلامی بہنوں کی تعداد: 6