
وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے
نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
فرمانِ مصطفیٰ
ﷺ: مومنوں میں سے بہترین شخص قناعت پسند اور بدترین شخص لالچی ہوتا ہے۔ (فردوس
الاخبار للدیلمی، 1/365، حدیث: 2707)
لالچ باطنی
امراض میں سے ایک بدترین مرض ہے اس انتہائی بری عادت سے نفس کو پاک رکھنا نہایت ہی
دشوار ہوتا ہے لالچ ایک ایسی خبیث عادت ہے جس کے نتیجے میں انسان بہت سے گناہوں
میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ جب کسی چیز کی لالچ انسان کے دل پر غالب آجائے تو شیطان
اس کو خوب آراستہ کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اس لالچی شخص کے لیے معبود بن جاتی ہے اور
پھر بندہ اس کی محبت کی رسی میں بندھا غور فکر کرتا رہتا ہے کہ کسی طرح اسے راضی
کرسکے، حاصل کرسکے اگرچہ اللہ پاک کو ناراض کر بیٹھے،جیسے حرام کا اقرار کرنے کے
باوجود اس کے لیے فریب کاری سے کام لینا،فرائض کو انجام دینے میں بخل کرنا مثلا:
مال کی لالچ کے سبب زکوۃ اور صدقات واجبہ ادا نہ کرنا،یوں ہی زیادہ سے زیادہ مال
کمانے کی لالچ میں فرض نمازوں کی اوقات کے پرواہ کیے بغیر مال کمانے میں مصروف
رہنا اور اسی طرح جائز و ناجائز کی پرواہ کیے بغیر کمائی کے حصول میں مگن رہنا
کیونکہ لالچی شخص صرف اپنے نفس کے لالچ کو پورا کرنے کی جستجو میں لگے رہتا ہے اسے
جہاں چارہ نظر آتا ہے وہیں راغب ہو جاتا ہے اس بات کو جانے بنا کہ وہ چارہ استعمال
کرنا اس کے لیے درست ہے بھی یا نہیں؟
لالچ وہ بلا
ہے جو انسان کی دنیا و آخرت کو برباد کر دیتی ہے لالچ انسان کے اندر بھڑکتی وہ آگ
جو زندگی کی کھیتی تباہ کر دیتی ہے اور رشتوں کو جھلسا دینے والی ہے کہ لالچی
انسان کسی رشتے کے ساتھ مخلص نہیں ہوتا لالچ کے سبب دوست دشمن بن جاتے ہیں، بھائی
بھائی کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے، اولاد ماں باپ کی نہیں رہتی کہ بے شمار گھروں میں
جائیداد کی لالچ میں بھائی بھائی کا جانی دشمن ہو جاتا ہے لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں
فتنہ و فساد جنم لیتا ہے اور بعض اوقات قتل و غارت گری تک نوبت آجاتی ہے اور کہیں
تو بد نصیبی اور بدبختی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ لالچی اولاد اپنی لالچ کے سبب اپنے
ہی ماں باپ کے دنیا سے جانے کے انتظار میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ (الامان والحفیظ)
فرمان مصطفی ﷺ
ہے: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں،لالچ نے
انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگی اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو
انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو گناہ میں پڑ گئے۔ (ابو داود،2/185،
حدیث: 1698)
لالچ دنیا و
آخرت میں ذلت اور رسوائی کا سبب ہے یہ ایسا مرض ہے جو بڑے سے بڑے نیکوں کو بھی ذلت
کے گڑھے میں ڈالنے کا سبب بن سکتا ہے، تاریخ میں اسکی بے شمار مثالیں موجود ہیں
جیسا کہ بلعم بن باعوراء،پرہیزگار عالم اور مستجاب الدعوات شخص ہونے کے باوجود بھی
لالچ کا شکار ہوالالچ ہی وہ بلا تھی جو اس کی دنیا و آخرت کو لے ڈوبی۔لالچ کبھی
ختم نہ ہونے والی بلا ہے کہ لالچی شخص تاعمر بھی اپنی لالچ کو پورا کرنے میں مصروف
و مشغول رہے جب بھی اس کا جی نہیں بڑھتا ایک کے بعد ایک خواہش دل میں جنم لیتی
جاتی ہے یوں لالچ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔
فرمان مصطفی ﷺ
ہے:اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وآدیاں بھی ہوں تب بھی وہ تیسری خواہش رکھتا ہے
اور ابن آدم کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
لالچ اور حرص
وہ شے ہے کہ مرد ہو یا عورت،بوڑھا ہو یا جوان، غریب ہو یا امیر، عالم ہو یا جاہل
الغرض کوئی شخص اس سے بچ نہیں سکتا، قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ
اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّؕ- (پ 5، النساء: 125) ترجمہ: اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں۔ مکمل
تفسیر خازن
میں اس آیت کے تحت ہے: لالچ دل کا لازمی حصہ ہے کیونکہ یہ اسی طرح بنایا گیا ہے۔ یعنی
لالچ دل سے جڑی ہوئی ہے، یہ ایک الگ بات ہے کہ کسی کو ثواب آخرت اور نیکیوں کی
لالچ ہوتی ہے،تو کسی کو مال و دولت،جاہ و حشمت، اور عزت و شہرت کی، یاد رکھیے!
لالچ اچھی اور بری دونوں طرح کی ہوتی ہے اور صرف مال و دولت ہی میں نہیں بلکہ ہر
شے میں پائی جاتی ہے۔
کسی چیز میں
حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔ حضرت
علامہ عبدالمصطفی اعظمی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں: لالچ اور حرص کا جذبہ خوراک، لباس،مکان،
سامان،دولت،عزت،شہرت الغرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔ (جنتی زیور، ص 111 ملخصا)
نیز لالچ کا
دل میں لازمی طور پر موجود ہونے کی بنا پر اس کا ازالہ یعنی نہ ہونا تو بہت ہی
مشکل بقریب ناممکن ہے لیکن اس کا ازالہ ہونا چاہیے یعنی اس کا رخ دوسری طرف پھر
جانا چاہیے کہ آخرت کے معاملے میں حریص اور لالچی بن جائیے اور دنیاوی نعمتوں میں
قناعت اختیار کیجیے ایک مومن کی شان یہی ہے کہ اس کے دل میں لالچ ہو تو نیکیوں کی
ہو،جاہ و عزت، شہرت، مرتبت کی لالچ ہو تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک جاہ و
محبت کی ہو۔
فرمان مصطفی ﷺ
ہے: جس نے قناعت کی اس نے عزت پائی اور جس نے لالچ کیا ذلیل ہوا۔ (روح البیان، 1/161)
اپنے دل پر
غور کیجئے! دنیاوی نعمتوں میں قناعت اختیار کیجئے، خواہشات کی کثرت پر روک تھام
کیجیے، مال و دولت کی محبت اور لمبی لمبی امیدوں سے چھٹکارا پائیے، خوف خدا اور
فکر آخرت پیدا کیجیے کہ دنیا اور اس کی چند روزہ زندگی فانی ہے اور آخرت اور اس کی
نعمتیں دائمی ہے، قبرستان اور اس میں بوسیدہ ہونے والوں پر نظر کیجئےاور سوچیے کہ
ایک دن ہم نے بھی اسی طرح قبر کی مٹی کے نیچے خاک کا سرمہ بننا ہے۔
ان شاء اللہ
بری لالچ سے نجات اور نیکیوں اور ثواب آخرت کی حرص و لالچ نصیب ہوگی۔
مال و دولت کی
ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو،یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ ختم
کردے، نہایت ہی بری گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی
بیماری ہے، مال و دولت کے لالچ میں پھنسنے والا شخص ناکام اور نامراد ہے اور جو ان
کے مکر و جال سے بچ گیا وہی کامیاب و کامران ہے۔ (گناہوں کی معلومات، ص 168)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں بری لالچ سے بچاۓ اور نیکیوں کا لالچی و حریص بنائے اور اپنی
فرمانبرداری والی زندگی گزر بسر کرنا نصیب فرمائے۔

لالچ باطنی
بیماریوں میں سے ایک خطرناک بیماری ہے جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے اور جو لالچ
جیسی بیماری سے بچ گیا وہ کامیاب ہوگیا، جیسا کہ قرآن پاک میں رب تعالیٰ نے ارشاد
فرمایا: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ
نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
لالچ ہوتی کیا
ہے اس کا مطلب کیا ہے پہلے یہ جان لیتے ہیں لالچ کی تعریف کسی چیز میں حد درجہ
دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہو نا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔(باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 190)
جس طرح آیت
مبارکہ میں لالچ سے بچنے کا حکم ارشاد فرمایا گیا اسی طرح حدیث مبارکہ میں بھی
لالچ سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔
جیساکہ حدیث
مبارکہ ہے: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں،
لالچ نے انہيں بخل پر آمادہ کيا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا
تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
لالچ
کے نقصانات:
لالچ کے نقصانات بیشمار ہیں جیسے: لالچ انسان کو اندھا کردیتا ہے، لالچ عقل پر
پردہ ڈال دیتا ہے، لالچ کی نحوست کے سبب دل سے خوف خدا نکل جاتا ہے،لالچ کی وجہ سے
انسان اپنوں کا دشمن بن جاتا ہے،لالچ کے سبب بندہ لوگوں کے احسانات کو بھلا دیتا
ہے،لالچ فتنوں کو جگاتا ہے،لالچ اچّھے برے کی تمیز بھلادیتا ہے،لالچ انسان کو ظلم
پر ابھارتا ہے،لالچ دنیا وآخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب بنتا ہے،لالچ انسان کو
کہیں کا نہیں چھوڑتا اور لالچ کا انجام انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔ الغرض لالچ کی
تباہ کاریاں اس قدر زیادہ ہیں کہ الامان والحفیظ۔
لالچ
سے متعلق حکایت: ایک
غریب آدمی کے3 بیٹے تھے،جو کچھ اسے دال روٹی نصیب ہوتی خود بھی کھاتا اور انہیں
بھی کھلاتا۔ ان میں سے ایک بیٹا باپ کی غربت اور دال روٹی سے خوش نہیں تھا چنانچہ
اس نے ایک مالدار نوجوان سے دوستی کرلی اور اچھا کھانا ملنے کے لالچ میں اس کے گھر
آنے جانے لگا۔ایک دن ان کے درمیان کسی بات پر ناراضی ہوگئی۔مالدار دوست نے اپنی
امیری کے غرور میں اسے خوب مارا پیٹا اور اس کے دانت توڑ ڈالے۔تب وہ غریب دل ہی دل
میں توبہ کرتے ہوئے کہنے لگا:میرے باپ کی پیار سے دی ہوئی دال روٹی اس مار دھاڑ
اور ذلت کے نوالے سے بہتر ہے،اگر میں اچّھے کھانے پینے کی لالچ نہ کرتا تو آج اتنی
مار نہ کھاتا اور میرے دانت نہیں ٹوٹتے۔ (حرص، ص 218)
اس حکایت میں
ہمارے لیے بھی عبرت ہے لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ جتنا اللہ پاک نے ہمیں نوازا ہے
ہم اسی پر قناعت کرنا سیکھیں اللہ پاک نے جس کا جتنا رزق لکھ دیا ہے اسے وہ مل کر
رہے گا لالچ اور حرص کا جذبہ خوراک، لباس، مکان، سامان، دولت، عزت، شہرت الغرض ہر
نعمت میں ہوا کرتا ہے۔ (جنتی زیور، ص 111)
پیارے آقا ﷺ نے
ارشاد فرمایا: اگر ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی ہوتوچاہے گا کہ اس کے پاس دو
وادیاں ہوں اور اس کے منہ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو اللہ پاک
کی بارگاہ میں توبہ کرے تو اللہ کریم اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2418)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ وہ ہمیں حرص و لالچ جیسی بری آفت سے محفوظ فرمائے۔
دل
میں حرص و ہوس و خواہش دنیا نہ رہے آپ
کا عشق رہے غیر کا خطرہ نہ رہے
آپ
کی یاد ہو سر میں کوئی سودا نہ رہے دل
مدینہ رہے اور دیر و کلیسا نہ رہے
نور
ایماں سے مرا سینہ منور کردو دل
میں عشق رخ پرنور کا جذبہ بھردو

لالچ ایک منفی
انسانی صفت ہے جو حد سے زیادہ خواہش، خود غرضی اور دوسروں کے حقوق کو نظرانداز
کرنے کی علامت ہوتی ہے۔ یہ صرف دولت تک محدود نہیں بلکہ طاقت، شہرت، مقام، اور
مادی چیزوں کی انتہا درجے کی طلب کو بھی ظاہر کرتا ہے۔
لالچ کے نتائج
اکثر نقصان دہ ہوتے ہیں۔ یہ انسان کو بے صبرا، بے رحم اور خود غرض بنا دیتا ہے، جس
سے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں اور اخلاقی زوال آ سکتا ہے۔ مذہبی، روحانی اور اخلاقی
تعلیمات میں لالچ کو سختی سے ناپسند کیا گیا ہے کیونکہ یہ معاشرتی ناہمواری اور
بدعنوانی کو جنم دیتا ہے۔
لالچ سے بچنے
کے لیے قناعت، صبر اور دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اگر ہم اپنے حصے پر
قناعت کر لیں اور دوسروں کے ساتھ بانٹنے کا جذبہ پیدا کریں، تو لالچ کا زہر ختم ہو
سکتا ہے اور معاشرہ زیادہ متوازن اور خوشحال بن سکتا ہے۔
اسلامی
تعلیمات میں لالچ (طمع) کی مذمت اور اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآن مجید اور
احادیث مبارکہ میں لالچ کے نقصانات اور قناعت کی فضیلت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: لالچ سے بچو، کیونکہ تم سے پہلے لوگ لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ لالچ نے
انہیں بخل پر اکسایا تو وہ بخیل بن گئے، قطع رحمی کا حکم دیا تو انہوں نے رشتہ توڑ
دیئے اور گناہوں کا حکم دیا تو وہ گناہوں میں مبتلا ہو گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
حضرت حکیم بن
حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کچھ مال طلب کیا، تو آپ
نے عطا فرمایا۔ پھر دوبارہ مانگا، آپ نے پھر دیا۔ تیسری مرتبہ مانگنے پر آپ نے
فرمایا: اے حکیم! یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے۔ جو اسے دل کی بے رغبتی کے ساتھ لے،
اس کے لیے اس میں برکت ہوتی ہے۔ اور جو اسے حرص اور لالچ کے ساتھ لے، اس کے لیے اس
میں برکت نہیں ہوتی۔ وہ اس شخص کی مانند ہے جو کھاتا ہے مگر سیر نہیں ہوتا۔ اوپر
والا ہاتھ (دینے والا) نیچے والے ہاتھ (لینے والے) سے بہتر ہے۔ (بخاری، 4/230، حدیث: 6441)
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مال کی محبت اور ایمان
کبھی بھی کسی بندے کے دل میں جمع نہیں ہو سکتے۔ (نسائی، حدیث: 2532)
ان احادیث سے
واضح ہوتا ہے کہ لالچ انسان کو بخل، قطع رحمی اور گناہوں کی طرف مائل کرتا ہے،
جبکہ قناعت برکت اور فلاح کا باعث بنتی ہے۔
اللہ پاک ہمیں
لالچ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔

لالچ
کی تعریف:کسی
چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ
کہلاتا ہے۔ (مفردات الفاظ القرآن، ص 524)
لالچ بہت ہی
بری خصلت اور نہایت خراب عادت ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو جو رزق و نعمت اور
مال و دولت یا جاہ و مرتبہ ملا ہے اس پر راضی ہو کر قناعت کر لینا چاہئے۔ دوسروں
کی دولتوں اور نعمتوں کو دیکھ دیکھ کر خود بھی اس کو حاصل کرنے کے پھیر میں پریشان
حال رہنا اور غلط و صحیح ہر قسم کی تدبیروں میں دن رات لگے رہنا یہی جذ بہ حرص و
لالچ کہلاتا ہے اور حرص و طمع در حقیقت انسان کی ایک پیدائشی خصلت ہے۔
یاد رکھئے!
حرص اور لالچ دو ایسے الفاظ ہیں جن کا معنی ایک ہی ہے، لالچ اردو زبان کا جبکہ حرص
عربی زبان کا لفظ ہے۔ حرص و لالچ کسی چیز کی مزید خواہش کرنے کا نام ہے اور یہ کسی
بھی چیز کی ہو سکتی ہے، جیسا کہ حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ الله علیہ
ارشاد فرماتے ہیں: کسی چیز سے جی نہ بھرنے اور ہمیشہ زیادتی کی خواہش رکھنے کو حرص
اور حرص رکھنے والے کو حریص (Greedy) کہتے ہیں۔ لہٰذا مزید مال کی خواہش رکھنے
والے کو مال کا حریص کہیں گے، مزید کھانے کی خواہش رکھنے والے کو کھانے کا حریص
کہا جائے گا، نیکیوں میں اضافے کے تمنائی (خواہش کرنے والے) کو نیکیوں کا حریص
جبکہ گناہوں کا بوجھ بڑھانے والے کو گناہوں کا حريص کہیں گے۔
شیخ الحدیث
حضرت علامہ عبد المصطفى اعظمی رحمۃ الله علیہ لکھتے ہیں: لالچ اور حرص کا جذبہ
خوراک، لباس، مکان، سامان، دولت، عزت، شهرت الغرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔ (جنتی
زیور، ص 111)
مال کے حریص
کے بارے ایک مقام پر حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ سے
روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ کا فرمان حقیقت نشان ہے: اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو
وادیاں بھی ہوں تب بھی یہ تیسری کی خواہش کرے گا اور ابن آدم کا پیٹ قبر کی مٹی ہی
بھر سکتی ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
لہذا حریصِ
مال برا مگر حریصِ عمل اچھا، رب تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی تعریف میں فرمایا: حريصٌ عليكم (پ11،
التوبۃ:125) ترجمہ کنز الایمان: تمہاری بھلائی کے
نہایت چاہنے والے۔ لیکن یہاں وہ لالچ کہ جس سے بچنے کا قرآن پاک میں فرمایا گیا اس
کے بارے میں سنیں گی، چنانچہ الله تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ
نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اس آیت مبارکہ
میں لالچ سے بچنے والے کو کامیاب فرمایا گیا اور حدیث مبارکہ میں بھی طمع یعنی
لالچ سے بچنے کا حکم فرمایا گیا:
نبی کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قو میں لالچ کی وجہ سے ہلاک
ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا
خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔
(ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
حضرت واثلہ
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لالچی ایسی کمائی طلب کرتا ہے جو حلال نہ ہو۔ (کنز العمال، جز: 3، 2/185، حديث: 7430)
حضرت انس رضی
اللہ عنہ سے مروی ہے کہ طمع علماء کے دلوں سے علم شریعت کو دور کر دیتی ہے۔ (کنز العمال، جز:3، 2/198، حديث:7573) لہذا
مال و دولت کی ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو، یا ایسی اچھی نیت نہ
ہو جو لالچ ختم کر دے، نہایت ہی قبیح، گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت
میں ڈالنے والی بیماری ہے، مال و دولت کے لالچ میں پھسنے والا شخص ناکام و نامراد
ہے، لالچ دنیا وآخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب بنتا ہے، لالچ بے سکونی میں مبتلا کر
دیتا ہے، لالچ اکیلا کر دیتا ہے، لالچ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا اور لالچ کا
انجام انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔ الغرض لالچ کی تباہ کاریاں اس قدر زیادہ ہیں کہ الامان
و الحفيظ
لہٰذا عقلمندی
اسی میں ہے کہ ہم لالچ اور دوسروں کے مال پر نظر رکھنے سے بچتے ہوئے قناعت اور
سادگی کو اپنائیں، یوں ہماری زندگی (Life) بھی پرسکون گزرے گی اور دنیا و آخرت میں
بھی ہمیں اس کی خوب خوب برکتیں نصیب ہوں گی۔
اللہ تعالیٰ
ہمیں لالچ اور اس جیسی باطنی بیماریوں سے محفوظ فرمائے اور قناعت کی دولت سے نوازے۔
آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ

طمع (لالچ) کی
تعریف: کسی چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع
یعنی لالچ کہلاتا ہے۔
وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے
نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اس آیت سے
معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیاگیا وہ حقیقی طور پر کامیاب
ہیں اوریہ بھی معلوم ہواکہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنابہت مشکل ہے اورجس پر
اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتووہی اس عادت سے بچ سکتاہے۔یہ عادت کس قدر نقصان دہ ہے
ا س کا اندازہ درج ذیل حدیث پاک سے لگایا جا سکتا ہے، چنانچہ
رسول اللہ ﷺ
نے ارشاد فرمایا: ظلم کرنے سے ڈرو کیونکہ ظلم قیامت کا اندھیرا ہے اور شح (یعنی
نفس کے لالچ)سے بچوکیونکہ شح نے تم سے پہلی امتوں کوہلاک کردیاکہ اسی نے ان کوناحق
قتل کرنے اورحرام کام کرنے پرابھارا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث:
6576)
آئیے لالچ کے
متعلق چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:
لالچ سے بچتے
رہو کیونکہ تم سے پہلی قو میں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہو ئیں، لالچ نے انہیں بخل پر
آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع رحمی
کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث:1698)
محبوب ربّ
العلمین ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: لالچ ایسی پھسلانے والی چٹان ہے جس پر علما بھی
ثابت قدم نہیں رہتے۔ (کنز العمال، 3/199، حدیث: 7579)
امیر المؤمنین
حضرت علیّ المرتضیٰ کرّم اللہ وجہہ الکریم کا فرمان ہے: لالچ کی چمک دیکھ کر عقل
اکثر مار کھا جاتی ہے۔ آپ کا ہی فرمان ہے: مردوں کی عقل کو شراب بھی اتنا خراب
نہیں کرتی جتنا کہ لالچ کرتی ہے۔
غلاموں
کی تین اقسام: ایک
فلسفی کا قول ہے: غلام تین قسم کے ہوتے ہیں: حقیقی غلام، شہوت کا غلام اور لالچ کا
غلام۔
ایک بزرگ کا
قول ہے: جو شخص یہ خواہش رکھتا ہے کہ زندگی بھرآزاد رہے تو اسے چاہیے کہ اپنے دل
میں لالچ کو نہ بسائے۔
مال و دولت کی
ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو، یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ ختم
کر دے، نہایت ہی قبیح، گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی
بیماری ہے، مال و دولت کے لالچ میں پھسنے والا شخص نا کام و نامراد اور جو ان کے
مکروہ جال سے بچ گیا وہی کامیاب و کامران ہے۔
میٹھی میٹھی
اسلامی بہنو! لالچ انسان کو اندھا کردیتی ہے، لالچ عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے، لالچ
کی نحوست کےسبب دل سے خوف خدا نکل جاتا ہے، لالچ کی وجہ سے انسان اپنوں کا دشمن بن
جاتا ہے، لالچ کے سبب بندہ لوگوں کے احسانات کو بھلا دیتا ہے، لالچ انسان کو غیبت،
چغلخوری، دل آزاری اور الزام تراشی پر ابھارتی ہے، لالچ فتنوں کو جگاتی ہے، لالچ
اچّھے برے کی تمیز بھلادیتی ہے،لالچ انسان کو ظلم پر ابھارتی ہے،لالچ بڑوں کے ادب
سے محروم کردیتی ہے،لالچ بھلائی اور خیر خواہی کا جذبہ ختم کردیتی ہے،لالچ انسان
کو مفاد پرستی سکھاتی ہے،لالچ انسان کے دلسے ہمدردی کا جذبہ نکال دیتی ہے۔
لہٰذا عقلمندی
اسی میں ہے کہ ہم لالچ اور دوسروں کے مال پر نظر رکھنے سے بچتے ہوئے قناعت اور
سادگی کو اپنائیں، یوں ہماری زندگی(Life) بھی پرسکون گزرے گی اور دنیا و آخرت میں
بھی ہمیں اس کی خوب خوب برکتیں نصیب ہوں گی۔
اللہ پاک ہمیں
لالچ سمیت دیگر امراض سے محفوظ فرمائے۔ آمین یارب العالمین

انسان کی
زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ انسانیت ہے۔ جو چیز مقام انسانیت کو محفوظ رکھنے اور
اسے بلند کرنے میں مدد کرتی ہے وہ انسانیت کے کمال کا ذریعہ کہلاتی ہے۔ مثلاً
انسانیت کی خدمت، خدمت کرنے والے کے مقام کو بڑھاتی ہے۔ اسی طرح کچھ ایسی گھٹیا
حرکات ہوتی ہیں جو انسان کو درجہ انسانیت سے گراتی ہیں ان میں سے ایک طمع یعنی
لالچ بھی ہے۔ آئیے لالچ کی تعریف ملاحظہ کرتی ہیں کہ لالچ کہتے کس کو ہیں۔ تعریف
کسی چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ
کہلاتا ہے۔ (گناہوں کی معلومات، ص 168)
لالچ ہمیشہ کی
غلامی ہے، یوں جس سے لالچ ہوتا ہے انسان اس کا بغیر زنجیر کے غلام بن جاتا ہے اس
کی خواہش اس کے گلے کا طوق بن چکی ہوتی ہے اور جب یہ لالچ عادت بن جائے تو پھر
ہمیشہ ساتھ رہتا ہے۔
مال و دولت کی
ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ ختم
کردے، نہایت ہی قبیح، گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی
بیماری ہے، مال ودولت کے لالچ میں پھنسنے والا شخص ناکام ونامراد اور جو ان کے
مکروہ جال سے بچ گیا وہی کامیاب وکامران ہے۔ (گناہوں کی معلومات، ص 168)
اللہ پاک قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اس آیت سے
معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیا گیا وہ حقیقی طور پر کامیاب
ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنا بہت مشکل ہے اور جس
پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہو تو وہی اس عادت سے بچ سکتا ہے۔ یہ عادت کس قدر
نقصان دہ ہے ا س کا اندازہ درج ذیل حدیث پاک سے لگایا جا سکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ
ﷺ نے ارشاد فرمایا: ظلم کرنے سے ڈروکیونکہ ظلم قیامت کااندھیراہے اورشح (یعنی نفس
کے لالچ)سے بچوکیونکہ شح نے تم سے پہلی امتوں کوہلاک کردیاکہ اسی نے ان کوناحق قتل
کرنے اورحرام کام کرنے پر ابھارا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث:
6576)
فرمانِ مصطفى
ﷺ: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔ (ابو داود،
2/185، حدیث: 1298)
اور اس سے
بچنا کس قدر فائدہ مند ہے اس کا اندازہ درج ذیل روایت سے لگایا جا سکتا ہے،چنانچہ مروی
ہے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بیت اللہ شریف کاطواف کررہے اور یہ
دعامانگ رہے تھے:اے اللہ! مجھے میرے نفس کی حرص سے بچا۔اس سے زائد وہ کچھ نہیں کہتے
تھے، جب ان سے اس کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: جب مجھے میرے
نفس کی حرص سے محفوظ رکھا گیا تو نہ میں چوری کروں گا، نہ زنا کروں گا اور نہ ہی
میں نے اس قسم کا کوئی کام کیا ہے۔ (تفسیر طبری، 12 / 42)
لالچ کے
نقصانات: لالچ انسان کو ابدی رنج و زحمت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ لالچ انسان کو ذلیل
و خوار کر دیتا ہے۔ مختلف گناہوں اور رذالت میں ملوث کر دیتی ہے، مثلاً جھوٹ،
خیانت، ظلم اور دوسروں کا مال غصب کرنا۔ اگر انسان چاہے کہ اللہ تعالیٰ کے حلال و
حرام کردہ کو سامنے رکھ کر کام کرے تو کبھی بھی لالچ کے معاملہ میں کامیاب نہیں ہو
سکتا ہے۔ لالچ انسان کو اللہ سے دور کر دیتا ہے۔
لالچ
کے بعض اسباب:
مال و دولت کی محبت، بڑی اور لمبی امیدیں، خواہشات کی کثرت۔
لالچ
کا علاج:
صبر و قناعت اختیار کریں، دنیا سے بے رغبتی اختیار کریں، مال و دولت کے آخرت میں
حساب دینے کے معاملے میں غوروفکر کریں۔ (گناہوں کی معلومات، ص 169)
اللہ تعالیٰ
ہم پر اپنا رحم فرمائے اور ہمیں نفس کے لالچ سے محفوظ فرمائے۔ آمین

انسانی فطرت
ہے کہ وہ اس دنیا میں رہتے ہوئے حرص و لالچ جیسی برائیوں میں مبتلا ہو سکتا ہے
لہٰذا ہر ایک کو چاہیے کہ وہ ان کے دینی و دنیاوی نقصانات سے مکمل طور پر آگاہ رہے
اور اپنے نفس کا جائزہ لیتا رہے۔چنانچہ لالچ اور حرص کی تعریف اور ان کے متعلق
حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے۔
لالچ:کسی
چیز میں حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ
کہلاتا ہے۔ عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ حرص کا تعلق صرف مال ودولت کے ساتھ ہوتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ
حرص تو کسی شے کی مزید خواہش کرنے کا نام ہے اور وہ چیز کچھ بھی ہوسکتی ہے، چاہے
مال ہو یا کچھ اور!چنانچہ مزید مال کی خواہش رکھنے والے کو مال کا حریص کہیں گے تو مزید کھانے کی خواہش رکھنے والے کو کھانے
کا حریص کہا جائے گااور نیکیوں میں اضافے
کے تمنائی کو نیکیوں کا حریص جبکہ گناہوں
کا بوجھ بڑھانے والے کو گناہوں کا حریص کہیں گے۔
حضرت علامہ
عبدالمصطفے اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: لالچ اور حرص کا جذبہ خوراک، لباس،
مکان،سامان، دولت،عزت، شہرت الغرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔ (جنتی زیور، ص 111)
حرص فی نفسہ
بری شے نہیں اس کا اچھا یا برا ہونا اس کے استعمال پر ہے،اگر حرص نیکیوں پر ہو تو
یہ قابلِ تعریف ہے اور اگر دنیا وی معاملات میں (بری نیت کے ساتھ) ہو تو یہ قابل
مذمت ہے لہذا دنیوی غرض سے بچتے ہوئے اخروی یعنی نیکیوں کا حریص بنناچاہیے۔
گناہوں
کی حرص سے بچنے کا نسخہ: گناہوں کی حرص سے بچنا بے حد ضروری ہے،
اس کے لئے سب سے پہلے گناہوں کی پہچان حاصل کیجئے، پھر ان کے نقصانات پر غور کیجئے
کیونکہ ہمارا نفس فائدے کی طرف لپکتا اور نقصان سے بھاگتا ہے۔ اگر حقیقی معنوں میں
احساس ہوجائے کہ ہمیں گناہوں کی کیسی ہولناک سزا ملے گی تو ہم گناہ کے خیال سے بھی
بھاگیں۔حصول عبرت کے لئے مختلف گناہوں میں ملوث ہونے والوں کے لرزہ خیز انجام کی
حکایات پڑھنا بھی بے حد مفید ہے۔
مال
کی حرص کے متعلق حدیث مبارکہ:
اگر ابن آدم
کے پاس سونے کی ایک وادی ہو توچاہے گا کہ اس کے پاس دو وادیاں ہوں اور اس کے منہ کو
مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو اللہ سے توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول
فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث:
2417)
انسان فطرتاً
حریص ہے علامہ ملا علی القاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس حدیث میں اس بات کی
تنبیہ ہے کہ انسان کی فطرت میں ایک ایسا بخل ہوتا ہے جو اسے حریص (لالچی) بناتا ہے
جیسا کہ اس کی خبر اللہ نے قرآن میں بھی دی۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ لَّوْ اَنْتُمْ
تَمْلِكُوْنَ خَزَآىٕنَ رَحْمَةِ رَبِّیْۤ اِذًا لَّاَمْسَكْتُمْ خَشْیَةَ
الْاِنْفَاقِؕ-وَ كَانَ الْاِنْسَانُ قَتُوْرًا۠(۱۰۰) (پ
15، بنی اسرائیل: 100) ترجمہ
کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تم لوگ میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مالک ہوتے تو
انہیں بھی روک رکھتے اس ڈر سے کہ خرچ نہ ہوجائیں اور آدمی بڑا کنجوس ہے۔ مکمل
پس یہ آیت ابن
آدم کے انتہائی حریص (لالچی) اور بخیل ہونے پردلیل ہے، ابن آدم اس پرندے سے بھی
زیادہ بخیل ہے جو ساحل سمندر پر اس خوف سے پیاسا مر جاتا ہے کہ کہیں پانی پینے سے
پانی ختم نہ ہو جائے اور اس کیڑے سے بھی زیادہ بخیل ہے جس کی خوراک مٹی ہے لیکن وہ
اس خوف سے بھوکا مر جاتا ہے کہ کہیں کھانے سے مٹی ختم نہ ہو جائے۔ (مرقاۃ
المفاتیح، 9/124، تحت الحدیث:5273)
دنیا کی محبت
تمام گناہوں کی جڑہے،یقینا دنیا کی زندگی تو بہت تھوڑی ہے جبکہ آخرت کی زندگی
ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی ہے اس لئے ہمیں چاہیے کہ دنیا میں جتنا رہنا ہے اتنی دنیا کے
لئے اور جتنا آخرت میں رہنا ہے اتنی آخرت کے لئے تیاری کریں۔ الحمد للہ تبلیغ قرآن
و سنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوت اسلامی کے مدنی ماحول میں خوف خدا اور عشق
مصطفیٰ کے جام بھر بھر کے پلائے جاتے ہیں، آپ سے مدنی التجا ہے کہ دعوت اسلامی کے
مدنی ماحول سے ہر دم وابستہ رہئے۔اللہ ہمارے دلوں سے دنیا کی محبت نکال کر اپنی
اور اپنے پیارے حبیب ﷺ کی محبت ڈال دے۔ آمین

دنیا میں رہتے
ہوئے اللہ پاک نے انسان کو طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا اور زندگی گزارنے کے اسباب
مہیا کیے، کسی کو امیر بنایا تو کسی کو غریب ہر ایک کی حالت جدا ہے انسان کی فطرت
بہت مختلف ہے وہ کسی کو خوشی میں عیش میں دیکھے تو بہت کم ہوتا کہ وہ حسد نہ کرے
اس کے دل میں کہیں نہ کہیں لالچ آ ہی جاتا جو ایک باطنی مرض ہے جس کے بارے میں پتا
ہی نہیں چلتا مثلاً کسی کے پاس گاڑی دیکھ کر یا خوبصورت گھر دیکھ کر اس کی طرف
مائل ہو جانا اس کی تمنا کرنا یہ لالچ کا ہی سبب ہے جو بہت برا ہے اس سے بچنا
چاہیے ورنہ عذاب کا سبب نہ بن جائے گا۔ آئیے لالچ کی تعریف ملاحظہ کرتی ہیں کہ
لالچ کہتے کس کو ہیں۔
کسی چیز میں
حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔ (گناہوں
کی معلومات، ص 168)
لالچ بہت بڑا
باطنی مرض ہے جس سے لالچ ہوتا ہے انسان اس سے حسد کرتا ہے انسان کو اس چیز کی
خواہش ہوتی ہے اس کی خواہش اس کے ذہن میں ہوتی ہے اور جب یہ لالچ عادت بن جاتی ہے
اور وہ ہر وقت اسی کے بارے میں سوچتا ہے جس کی وجہ سے کچھ کر نہیں پاتا۔
اللہ پاک قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اس آیت سے
معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیاگیا وہ حقیقی طور پر کامیاب
ہیں اوریہ بھی معلوم ہواکہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنابہت مشکل ہے اورجس پر
اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتووہی اس عادت سے بچ سکتاہے۔یہ عادت کس قدر نقصان دہ ہے
ا س کا اندازہ درج ذیل حدیث پاک سے لگایا جا سکتا ہے، چنانچہ
رسول اللہ ﷺ
نے ارشاد فرمایا: ظلم کرنے سے ڈرو کیونکہ ظلم قیامت کا اندھیرا ہے اور شح (یعنی
نفس کے لالچ)سے بچوکیونکہ شح نے تم سے پہلی امتوں کوہلاک کردیاکہ اسی نے ان کوناحق
قتل کرنے اورحرام کام کرنے پرابھارا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث:
6576)
فرمان مصطفىٰ
ﷺ: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں۔ (ابو داود،
2/185، حدیث: 1298)
لالچ
کے نقصانات: لالچ
انسان کو ابدی رنج و زحمت میں مبتلا کر دیتی ہے۔ لالچ انسان کو ذلیل و خوار کر
دیتا ہے۔ مختلف گناہوں اور رذالت میں ملوث کر دیتی ہے، مثلاً جھوٹ، خیانت، ظلم اور
دوسروں کا مال غصب کرنا۔ اگر انسان چاہے کہ اللہ تعالیٰ کے حلال و حرام کردہ کو
سامنے رکھ کر کام کرے تو کبھی بھی لالچ کے معاملہ میں کامیاب نہیں ہو سکتا ہے۔
لالچ انسان کو اللہ سے دور کر دیتا ہے۔
لالچ
کے بعض اسباب:
مال و دولت کی محبت، بڑی اور لمبی امیدیں، خواہشات کی کثرت وغیرہ۔
لالچ
کا علاج:
صبر و قناعت اختیار کریں، دنیا سے بے رغبتی اختیار کریں، مال و دولت کے آخرت میں
حساب دینے کے معاملے میں غوروفکر کریں۔ (گناہوں کی معلومات، ص 169)
آخر میں اللہ سے
دعا ہے کہ ہمیں لالچ جیسے باطنی مرض سے محفوظ فرمائے اور قناعت کی دولت سے نوازے۔ آمین

لالچ بہت ہی
بری خصلت اور نہایت خراب عادت ہے۔ یہ چوری، ڈاکہ، غصب، خیانت، قتل و غارت وغیرہ سینکڑوں
ایسے ایسےبدترین گناہوں کا سر چشمہ ہے جو جہنم میں لے جانے والے گناہ کبیرہ ہیں۔ لالچ
اور حرص کا جذبہ خوراک، لباس، مکان، سامان، دولت، عزت شہرت، غرض ہرنعمت میں ہوا
کرتا ہے۔
اگر لالچ کا
جذبہ کسی انسان میں بڑھ جاتا ہے تو وہ انسان طرح طرح کی بد اخلاقیوں اور بےمروتی
کے کاموں میں پڑ جاتا ہےاوربڑے سے بڑے گناہوں سے بھی نہیں بچتا، بلکہ سچ پوچھئے تو
حرص وطمع اور لالچ درحقیقت ہزاروں گناہوں کا سر چشمہ ہے، اس سے خدا کی پناہ مانگنی
چاہیے۔
اللہ تعالیٰ قرآن
کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
لالچ
کسے کہتے ہیں؟ دوسروں
کی دولتوں اور نعمتوں کو دیکھ دیکھ کر خود بھی اس کو حاصل کرنے کے پھیر میں پریشان
حال رہنا اور غلط و صحیح ہر قسم کی تدبیروں میں دن رات لگے رہنا،یہی جذبہ حرص
ولالچ کہلاتا ہے۔(جنتی زیور،ص72)
حرص وطمع
درحقیقت انسان کی ایک پیدائشی خصلت ہے۔ اسی طرح احادیث مبارکہ میں لالچ کی قباحت
مذمت کا بیان آیا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے: اگرآدمی کے پاس دو میدان بھر کر
سونا ہو جائے تو پھر وہ ایک تیسرے میدان کو طلب کریگا کہ وہ بھی سونے سے بھر جائے
اور ابن آدم کے پیٹ کو قبر کی مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو کوئی شخص
اس سے توبہ کرے اللہ پاک اس کی توبہ کو قبول فرمائے گا۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
ایک اور حدیث
مبارکہ میں ہے:کہ ابن آدم بوڑھا ہوجاتا ہے مگر اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں ایک
امید دوسری مال کی محبت۔ (احیاء العلوم،3/238)
لالچ
کا علاج: اس
قلبی مرض کاعلاج صبر و قناعت ہے،یعنی جو کچھ خدا تعالی کی طرف سے بندے کو مل جائے
اس پر راضی ہو کر خدا کا شکر بجا لائے اور اس کے عقیدہ پر جم جائے کہ انسان جب ماں
کے پیٹ میں رہتا ہے اسی وقت فرشتہ اللہ پاک کے حکم سے انسان کی چار چیزیں لکھ دیتا
ہے: انسان کی عمر، انسان کی روزی، انسان کی بدنصیبی، یہی انسان کا نوشہء تقدیر
ہے۔لاکھ سر مارو مگر وہی ملے گا جو تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے۔
اسکے بعد یہ
سمجھ کر اللہ پاک کی رضا اور اس کی عطا پر راضی ہو جاؤ اور یہ کہہ کر لالچ کے قلعے
کو ڈھا دو کہ جو میری تقدیر میں تھا وہ مجھے ملا اور جو میری تقدیر میں ہو گا وہ آئندہ
بھی ملے گا اور اگر کچھ کمی کی وجہ سے قلب میں تکلیف ہو اور نفس ادھر ادھر لپکے تو
صبر کر کے نفس کی لگام کھینچ لو۔
اسی طرح رفتہ
رفتہ قلب میں قناعت کا نور چمک اٹھے گا اور حرص ولالچ کا اندھیرا بادل چھٹ جائے
گا۔یادرکھو:
حرص
ذلت بھری فقیری ہے جو قناعت کرے
تو نگر ہے
اللہ پاک ہم
سب کو لالچ جیسی قبیح خصلت سے محفوظ فرمائے۔آمین

لالچ یا حرص
حد سے زیادہ یا ناقابل تشفی اندرونی جذبہ ہے کہ کسی طرح سے مادی وسائل کو حاصل کیا
جا سکے۔ یہ غذا، مال و دولت، سماجی اوقات یا اقتدار سے متعلق ہو سکتا ہے۔
لالچ عام طور
پر مایوسی کی ضد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے یہ دراصل کسی چیز کو پالینے اور اس
پر قبضہ کرنے کی خواہش کے معنی میں آتا ہے اگرچہ اس پر قبضہ کرنا غیر شرعی طریقہ
سے ہی کیوں نہ ہو۔ لالچ وہ نفسیاتی حالت ہے جو انسان کواپنی ان خواہشات کی تکمیل
پر آمادہ کرتی ہے کہ جس کو حاصل کر سکتا ہو یا پھراسے حاصل کر سکنے کی امید ہو اس
کی طرف قدم بڑھائے یہ چیز مادی اور روحانی ہر طرح کی ہو سکتی ہے
اللہ پاک قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
حضرت عبد اللہ
بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے
رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں، لالچ نے انہيں بخل پر آمادہ
کيا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی
اور جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
لالچ ایک گناہ
ہے اور جب بندہ اس گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ وہ مزید بہت سے گناہوں
میں مبتلا ہو جاتا ہے جیسے حسد وغیرہ البتہ نیکیوں کی حرص اور ان میں لالچ بہت
اچھی چیز ہے اور ہمیں تو نیکیوں میں آگے بڑھنے کا حکم دیا گیا ہے لہذا ہر وہ کام
جو نیک ہو ہمیں وہی اختیار کرنا چاہیے اور برے کاموں سے بچنا چاہیے۔
اللہ کریم سے
دعا ہے کہ وہ ہمیں لالچ جیسے قبیح کام سے بچا کر شریعت کے مطابق ہر کام کرنے کی
توفیق عطا فرمائے ہماری ہمارے والدین پیر و مرشد اساتذہ کرام اور ساری امت محمدیہ ﷺ
کی بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین

لالچ ایسی بری
عادت ہے کہ جو انسان کو نفس کا غلام بنا کر رکھ دیتی ہے نفس اسے طرح طرح کی
خواہشات میں مبتلا کر کے اسے لالچ جیسی بیماری میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جس کی وجہ
انسان کبھی مال کی لالچ میں تو کبھی بلند مرتبہ و سٹیٹس حاصل کرنے کی لالچ میں
پھنس جاتا ہے گویا کہ لالچ ایسی قبیح چیز ہے کہ علماء بھی اس بیماری میں مبتلا ہو
جاتے ہیں۔
جیسا کہ محبوب
رب العلمین، جناب صادق و امین وﷺ کا فرمان عالیشان ہے: لالچ ایسی پھسلانے والی
چٹان ہے جس پرعلما ء بھی ثابت قدم نہیں رہتے۔ (کنز العمال، 3/199، حدیث: 7579)
قرآن مجید
فرقان حمید کی سورۂ نساء کی آیت 128میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اُحْضِرَتِ
الْاَنْفُسُ الشُّحَّؕ- (پ 5،
النساء: 125) ترجمہ: اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں۔ مکمل تفسیر خازن میں اس آیت کے تحت ہے:لالچ دل
کا لازمی حصہ ہے کیونکہ یہ اسی طرح بنایا گیا ہے۔ (تفسیر خازن، 1/437)
احادیث مبارکہ
میں بھی اس کا ذکر ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ سرکار مدينہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں
لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں، لالچ نے انہيں بخل پر آمادہ کيا تو وہ بخل کرنے لگے
اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم ديا تو
وہ گناہ ميں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
ایک اور مقام
پر ارشاد فرمایا:اگر ابن آدم کے پاس سونے کی ایک وادی ہوتوچاہے گا کہ اس کے پاس
دو(2)وادیاں ہوں اور اس کے منہ کو مٹّی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھرسکتی اور جو
اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کرے تو اللہ کریم اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2418)
یاد رہے ہر
لالچ بری نہیں ہوتی جیسے نیکیوں کے معاملے میں لالچ رکھنا کہ ان شاءاللہ الکریم
میں آج اتنے نوافل پڑھوں گا یا اس کتاب کا اتنا مطالعہ کروں گا وغیرہ ہمیں چاہیے
کہ دنیاوی لالچ سے بچ کر آخرت کے معاملے میں لالچ کی جائے ہمیشہ نیکیوں میں دوسروں
سے آگے بڑھنے کی لالچ ہو۔ جیسا کہ سرکار ذی وقار، مدینے کےتاجدار ﷺ نے نیکیوں کا
حریص بننے کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: اس پرحرص کروجوتمہیں نفع دے اور اللہ
پاک سے مدد مانگو عاجز نہ ہو۔ (مسلم، ص 2341،
حدیث: 4662)
حضرت علامہ
شرف الدین نووی رحمۃ اللہ علیہ نےاس حدیث پاک کی شرح فرمائی: اللہ پاک کی عبادت میں
خوب حرص کرو اور اس پر انعام کا لالچ رکھو مگر اس عبادت میں بھی اپنی کوشش
پربھروسا کرنےکےبجائےاللہ پاک سے مدد مانگو۔ (شرح مسلم للنووی، جزء: 61، 8/ 512 ملخصًا)
لالچ سے بچنے
کا ایک سبب قناعت بھی ہے کہ اگر انسان قناعت کو اختیار کرلے اور طرح طرح کی
خواہشات کو بجالانے کی بجائے نفس کر قابو میں رکھے اور نفس کو ہر حال میں اللہ کا
شکر ادا کرنے کا عادی بنائے تو لالچ سے بچنا آسان ہو جائے گا۔
حکیم الامّت
حضرت مفتی احمد یارخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دنیاوی چیزوں میں قناعت اور صبر
اچھا ہے مگر آخرت کی چیزوں میں حرص اور بے صبری اعلیٰ ہے، دین کے کسی درجہ پرپہنچ
کر قناعت نہ کرلو آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ (مراۃ المناجیح، 7/ 211)
اللہ ہمیں
پیارے آقا ﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حرص کا معنی
ہے لالچ اور لالچ سے مراد یہ ہے کہ اپنی چیز پاس ہوتے ہوئے بھی کسی دوسرے کی چیز
کو دیکھ کر تمنا کرنا کہ یہ اس سے چھین لی جائے اور مجھے دے دی جائے یہ ہوتا ہے
لالچ۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے
نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اپنے حق و
ضرورت سے زیادہ کی طلب۔ کسی شخص کا کسی چیز کی یوں خواہش کرنا کہ وہ شے یا ضرورت
زندگی دوسروں کو ملے یا نہ ملے مجھے ملنی چاہئیں۔ ایسا حریص شخص اپنی من پسند چیز
کے حصول کے لئے ہر ذلّت اٹھاتا ہے اور ہر شخص کے سامنے دست سوال پھیلاتا ہے اور
یوں اپنی عزت و کرامت کو ذلت و خواری میں بدل لیتا ہے۔
وہ کام ہے جس
کی طرف انسان متوجہ ہوتا کہ وہ اسے کرے یا وہ چیز اسے حاصل ہو یہ نیک کام یا مقصد
ہوتا ہے۔جیسے علم کی طلب کرنا،نیک کام کرنے کی خواہش کرنا جیسے لوگوں کی ضروریات
کو پورا کرنے اور صدقہ کا ارادہ کرنا،اسی طرح گناہوں کے بخشوانے اور اسی طرح کے
دیگر اچھےکاموں کا ارادہ کرنا۔
قرآن مجید میں
ارشاد ہوتا ہے: وَ مَا لَنَا لَا نُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ مَا جَآءَنَا مِنَ الْحَقِّۙ-وَ
نَطْمَعُ اَنْ یُّدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصّٰلِحِیْنَ(۸۴) (پ 7،
المائدۃ: 84) ترجمہ:اور ہم اللہ پر اور اس حق پر کیوں نہ ایمان لائیں جو ہمارے پاس
آیا ہے؟ اور ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہمیں نیک بندوں کی صف میں شامل کر لے
گا۔ مکمل
لالچ جس کا
متعلق یعنی جس کی طلب کی جا رہی ہے ایسا کام ہو جو شر پر مبنی اور حرام کی طرف لے
جائے دراصل یہی لالچ ہمارا مقصود بحث ہے۔یعنی ہماری بحث کا موضوع بھی یہی لالچ ہے
جو قابل نفرت عمل ہے۔ لالچ ایک سنگین اخلاقی بیماری ہے جو انسان کے دل و روح کو
بگاڑ دیتی ہے۔جس میں لالچ آجاتا ہے وہ طرح طرح کے خطرات میں مبتلا ہو جاتا ہے اور
اس کے نتیجے میں کئی قسم کی بدنامیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔اس لالچ کے فرد اور
معاشرے پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
یہ لالچ
اخلاقی برائیوں میں سے ایک برائی ہے،یوں سمجھئے کہ لالچ اصل ہے اور اس کی کئی
شاخیں ہیں یعنی یہ جڑ ہے اور اس کے زمرے میں کئی ایسے چھوٹے بڑے گناہ آجاتے ہیں۔جن
کے نتیجے میں خون خرابے ہوتے ہیں،عزت داروں کی توہین ہوتی ہے، یہ گناہ مومنین کی
غیبت کا باعث بنتا ہے،چھوٹ بولنے کی وجہ قرار پاتا ہے اسی طرح کئی اور گناہ بھی اس
لالچ کی وجہ سے کیے جاتے ہیں۔لالچ ایک خطرناک چیز ہے اس کی تصدیق شریعت کی تعلیمات
سے بھی ہوتی ہے۔
حرص و لالچ
انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ ہر انسان حرص و لالچ میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے وہ
بے شمار مصائب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔یہ ایک ایسی بیماری ہے کہ جب انسان اس میں
مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کے دل میں مزید کی تمنا بڑھتی چلی جاتی ہے۔ حضورنبی کریم ﷺ
نے ارشاد فرمایا: انسان کے پاس اگر دو بڑے میدان سونے کے انباروں سے بھر جائیں پھر
بھی اس میں تیسرے کی تمنا رہے گی جب تک کہ وہ منوں مٹی کے نیچے نہیں پہنچ جاتا۔
لہذا عقلمندی
اسی میں ہے کہ ہم لالچ اور دوسروں کے مال پر نظر رکھنے سے بچتے ہوئے قناعت اور
سادگی کو اپنائیں۔یوں ہماری زندگی بھی پر سکون گزرے گی اور دنیا و آخرت میں بھی
ہمیں اس کی خوب خوب برکتیں نصیب ہوں گی۔
اس سے ہمیں یہ
معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے خلاف سازش کرنے کا انجام بہت برا ہوتا ہے کیونکہ جو کسی
کے لئے گڑھا کھودتا ہے بالآخر ایک دن وہ خود ہی اس گڑھے میں گر جاتا ہے۔ لہذا ہمیں
حرص و لالچ سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
اللہ ہمیں حرص
و لالچ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین