ڈائریکٹر آف دارالمدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کی
کنزالمدارس بورڈ، فیصل آباد آمد

26 جون 2025ء کو پنجاب کے شہر فیصل آباد میں واقع
دعوتِ اسلامی کے تعلیمی بورڈ کنزالمدارس میں
ایک اہم شخصیت ڈائریکٹر آف دارالمدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کراچی کیمپس ڈاکٹر مطیع اللہ عطاری کی آمد ہوئی ۔
اس موقع پر ڈاکٹر مطیع اللہ عطاری کی رکنِ شوریٰ و کنزالمدارس بورڈ کے صدر مولانا جنید عطاری مدنی سے ملاقات ہوئی اور بورڈ
کے مختلف اہم امور پر تفصیلی گفتگو کی گئی جن میں تعلیمی اور دینی خدمات کو بہتر
بنانے سے متعلق کلام کیا گیا۔
بعد ازاں ڈاکٹر مطیع اللہ عطاری نے کنزالمدارس بورڈ کے مختلف
شعبوں کا وزٹ کرتے ہوئے کنزالمدارس بورڈ کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔(رپورٹ:ابراراحمد کیمرہ مین سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ
کنزالمدارس بورڈ فیصل آباد، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

فیصل آباد، پنجاب 24 جون 2025ء :
پنجاب، پاکستان کے شہر فیصل آباد میں قائم دعوتِ
اسلامی کے تعلیمی بورڈ کنزالمدارس میں 24
جون 2025ء کو سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے نگران حاجی بغداد رضا عطاری کو باضابطہ طور
پر آمد کا موقع ملا۔
اس دوران سیّد ذیشان حسین بخاری (HOD سوشل میڈیا ٖیپارٹمنٹ، کنزالمدارس ورڈ)نے حاجی بغداد رضا عطاری کو کنزالمدارس بورڈ کا تفصیلی
دورہ کروایا اور سوشل میڈیا کے حوالے سے اہم امور پر بریف کیا۔
اس کے
علاوہ کنزالمدارس بورڈ کے تمام اہم اراکین
کے ہمراہ ایک میٹنگ بھی ہوئی جس میں
کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اور سابقہ کارکردگی پر بھی گفتگو کی گئی۔

فیصل آباد، پنجاب میں قائم مدنی مرکز فیضانِ
مدینہ میں AI (Artificial
intelligence ) کے استعمال کے حوالے سے ایک ٹریننگ سیشن منعقد
کیا گیا جس میں پاکستان مشاورت آفس کے ذمہ دار اسلامی بھائی شریک ہوئے۔
اس دوران صوبائی دارالحکومت لاہور سے آئے ہوئے مبلغِ
دعوتِ اسلامی نے ذمہ داران کی رہنمائی کرتے ہوئے بتایا کہ AI (Artificial intelligence) کا استعمال آفس ورک میں کافی مفید اور مؤثر ثابت ہو
سکتا ہے۔اس سے نہ صرف وقت کی بچت ہوتی ہے بلکہ کام کی درستگی اور کارکردگی بھی
بہتر ہوتی ہے۔
دورانِ سیشن پریزنٹیشن، سوشل میڈیا پوسٹس، بزنس
ڈاکومنٹس، مختلف زبانوں میں کمیونیکیشن کے لئے خود کار ترجمہ اوراس کے علاوہ دیگر
اہم نکات پر مشاورت کی گئی۔آخر میں ذمہ دار اسلامی بھائیوں کو بتایا گیا کہ اس جدید ٹیکنالوجی کو استعمال
کرتے ہوئے کیسے دینِ اسلام کی خدمت کی جاسکتی ہے۔ (رپورٹ:عبدالخالق
عطاری نیوز فالو اپ ذمہ دار نگرانِ پاکستان مشاورت، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
28 جون مدنی مذاکرہ، امیرِ اہلِ سنت دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے
رہنمائی فرمائی

کراچی (28 جون 2025ء)- دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ
کراچی میں 28 جون 2025ء بمطابق 3 محرم
الحرام 1447ھ کی شب ہفتہ وار مدنی مذاکرے کا انعقاد کیا گیا جس میں کراچی شہر کے
عاشقانِ رسول نے براہِ راست جبکہ دیگر شہروں اور دیگر ممالک کے اسلامی بھائیوں نے
مدنی چینل کے ذریعے شرکت کی۔
اس موقع پر شیخِ طریقت،
امیرِ اَہلِ سنّت، بانیِ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّاؔر
قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے ناظرین و حاضرین کے سوالات کے جوابات دیئے نیز دینی،
اخلاقی، تنظیمی، شرعی اور معاشرتی حوالے سے اُن کی رہنمائی کی جس سے شرکا کو اپنی زندگی کو مزید بہتر بنانے
اور معاشرتی فضا کو پاکیزہ بنانے میں مدد ملی۔
بعض سوالات کے جوابات:
سوال: مختلف ویڈیوزدیکھتے
رہنا کیسا؟
جواب:ویڈیوز مختلف قسم کی ہوتی ہیں، اچھی، بُری اورفضول وغیرہ
۔دعوتِ اسلامی کی ویڈیوز اچھی ہی ہوتی ہیں انہیں دیکھا جائے۔گنا ہ بھری ویڈیو سے
بچنا توبہت ضروری ہے اورفضول سے بھی بچا جائے۔ نیک لوگوں کے اوصاف میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو لہو و باطل یعنی غلط باتوں اورکھیل کُود میں ملوث نہیں ہونے دیتے،ایسی مجالس اور کاموں سے
منہ پھیرے رہتے ہیں۔رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مِنْ حُسْنِ اِسْلامِ
الْمَرْءِ تَرْکُہُ مَالَایَعْنِیْہِ
یعنی کسی شخص کے اسلام کی خوبی یہ ہے کہ بے کار باتیں چھوڑ دے۔(مسند امام احمد ،ج3،ص259،حدیث: 1737)نجات دلانے والے کاموں، ذکر و اذکار میں مصروف
رہیں تاکہ فضول کاموں میں نہ پڑیں ۔بندہ اللہ پاک کی رضاکے
کام کرے اورکرتا جائے ۔
سوال:درودشریف وغیرہ پڑھ کر اگرکسی کو ثواب مِلک کردیاجائے
تو کیا وہ مرحومین کو ایصال کرسکتاہے ؟
جواب:جی ہاں !جب کوئی کہے میں نے فلاں نیکی کا ثواب آپ کےمِلک
کیا تو اب ’’قبول کیا‘‘کہنے کی حاجت نہیں کیونکہ مِلک کرتےہی دوسرے کو ثواب
مِلک ہوجاتاہے ۔
سوال:امیراہل سنت دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے بوڑھوں کے
بارے میں کیا فرمایا؟
جواب:یہ میری برادری ہے ۔ عام طورپر بیماری وغیرہ کی وجہ سے
بوڑھے دکھی ہوتے ہیں، انہیں خوشیاں دینی
چاہئیں، ہم انہیں خوشیاں دیں گے تو ہمیں بھی خوشیاں ملیں گی۔اولادکو چاہیئے کہ
ہزار کام چھوڑ کر اپنے بوڑھے ماں باپ کا
کا م کردیا کریں ۔یہ بھی تو کام ہے، جنت
کاانعام ہے کہ ان کا کام کر کے جنت کے انعامات حاصل کرنے کی کوشش کریں ۔بزرگوں
کوسکون دیں گے تو خود بھی سکون پائیں گے۔جو بوڑھوں کی عزت کرتاہے، جب یہ خود
بوڑھاہوگا تو اللہ پاک ایسے لوگ پیدافرمائے گا جو اس کی عزت کریں گے۔اس میں ایک اوربھی بشارت ہے کہ اس عزت کرنے والے اور خدمت کرنے والے کی اپنی عمر بھی
لمبی ہوگی۔بزرگوں سے دعائیں لیں۔ اگریہ
کوئی سخت کلمات کہہ دیں(انہیں نہیں کہنا چاہیئے ) تو صبر کریں اور جواب نہ دیں۔تمام بزرگ بھی برف کی طرح ٹھنڈے ہو جائیں ۔مزاج کے خلاف بات ہوجائے اورغصہ آجائے توصبر کریں اور کچھ نہ بولیں۔ ورنہ نہ بولنے والے بول
دیں گے۔تِرمِذی شریف میں ہے :مَنْ صَمَتَ نَجَا یعنی جوچُپ رہا اُس نے نَجات پائی۔(سنن الترمذی،۴ /225 ، حدیث: 2509)اور یہ مُحاوَرہ بھی خُوب ہے:ایک چُپ سو کوہَرائے ۔
سوال:کاروبار اوردیگرکام کرنے والوں کے لئے کیا سیکھناضروری
ہے ؟
جواب:کاروبار اور کام کرنے والوں کو چاہیئے کہ اپنے
کاروبار اور کام کے بارے میں ضروری علمِ دین حاصل کریں تاکہ گناہ وحرام میں
نہ پڑجائیں۔اللہ پاک پر توکل وکامل بھروسہ کریں ،جوقسمت میں لکھا ہے وہ مل کررہے گا۔لوگ
کہتے ہیں میری روزی بندہوگئی ہے یہ نہیں کہنا چاہیئے کیونکہ جس کی روزی بندہوجائے وہ قبرستان چلا
جاتاہے جو زندہ ہے اس کی روزی کبھی بندنہیں ہوتی۔
سوال:وضو میں مسواک کرنے کا کیا فائدہ ہے ؟
جواب:مسواک کرکے نماز پڑھنا 70 نمازوں کے برابرہے ۔ جن کو
مسواک کی عادت ہوگی ان شاء اللہ الکریم ان کا خاتمہ ایمان پر ہوگا۔ رسالہ ”مسواک شریف
کے فضائل “پڑھیں ۔
سوال:بزرگوں کا مدنی چینل کب شروع ہوا،پہلا کون ساپروگرام تھا
اور روزانہ اس کی ٹرانسمیشن کب ہوتی ہے ؟
جواب:بزرگوں کا مدنی چینل 1 محرم شریف 1446ھ کوشروع ہوا۔پہلاپروگرام حضرت
عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے بارے میں تھا ۔ روزانہ اس کی ٹرانسمیشن صبح 10 تا 12 بجے ہوتی ہے ۔
سوال:اِس ہفتے کارِسالہ ” چھینک کے آداب “ پڑھنے یاسُننے
والوں کو امیراہل سنت دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے کیا دُعا دی ؟

لالچ
کی تعریف: کسی
چیز میں حد درجہ و دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ
کہلاتا ہے۔
ہمارے معاشرے
میں ہر طرح کے لوگ پائیں جاتے ہے اور ایسوں کی تعداد بھی ہے جو لالچ میں مبتلا نظر
آتے ہیں عموماً دوسروں کے مالوں اور گھروں اور کاروبار کو دیکھ کر لالچ کا شکار ہو
جاتے ہیں اور رب کی رضا سے سبکدوش ہو کر دنیا کو اپنا مستقل ٹھکانہ سمجھتے ہیں
جبکہ یہ دنیا عارضی و فانی ہے لالچ کے بہت سے نقصانات ہیں۔
دوسروں کے مال
کو دیکھ کر یہ خواہش کرنا میرے پاس بھی یہ مال ہوتا اور صاحبِ مال سے اس لیے میل
ملاپ زیادہ رکھنا کے وہ اسے مالی مدد کریں جبکہ مسلمان مسلمان کو رب کی رضا کے لیے
محبت کرنا چاہیے، اور یہاں مال کی وجہ سے دوستی اور محبت ہے جو کے خسارے کا باعث
ہے بہت سے لوگوں کے پاس کچھ نہیں ہوتا جب رب العالمین نوازتا ہے تو اور مزید کی چاہ
میں آکر لالچ کرنے لگتے ہے۔
اللہ پاک قرآن
میں فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
حدیث مبارکہ
میں طمع سے یعنی لالچ سے بچتے رہنے کا حکم ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے: حضرت عبد
اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لالچ سے
بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں بخل
پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے قطع
رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
مال و دولت کی
ایسی لالچ جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو، یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ ختم کردے،
نہایت ہی قبیح گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی بیماری ہے،
مال و دولت میں پھنسنے والا شخص ناکام و نامراد اور جو ان کے مکر و جال سے بچ گیا
وہی کامیاب و کامران ہے۔
ہم اپنا جائزہ
لیں کہ کہیں ہم بھی مال کی لالچ تو نہیں کرتی ہے اگر لالچ دل میں آجائے تو اسے
جھٹک دیجئے اور دل کو نیکیوں کا حریص بنائیں لالچ ہر صورت میں برا نہیں ہے بلکہ
نیکیوں میں لالچ کرنا بلندی درجات کا ذریعہ ہے۔
حضرت قطب
مدینہ رحمۃ الله علیہ ایک کریم النفس اور شریف الفطرت بزرگ تھے ان کی قربت میں انس
و محبت کے دریا بہتے تھے اور سلف و صالحین کی یاد تازہ ہوجاتی، آپ سخی اور بہت عطا
فرمانے والے تھے، آپ رحمۃاللہ علیہ فرمایا کرتے تھے: طمع نہیں، منع نہیں اور جمع نہیں
یعنی لالچ مت کرو کہ کوئی دے اور اگر کوئی بغیر مانگے دے تو منع مت کرو اور جب لے
لو تو جمع مت کرو۔
صحابی
رسول عمر فاروق کی طمع: ایک غزوہ کے لئے جب پیارے آقا ﷺ نے صحابہ کرام
علیہم الرضوان سے جنگ کے لئے مال طلب فرمایا تو صحابی رسول عمر فاروق رضی اللہ عنہ
نے سوچا آج میں ابو بکر سے نیکیوں میں آگے بڑھ جاؤں گا اور اپنا کل مال کا آدھا
حصہ لیکر بارگاہ رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے تو پیارے آقاﷺ نے پوچھا کیا لائے ہو؟ تو
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا: کل مال کا آدھا حصہ لایا ہوں، پھر ابو بکر صدیق
رضی اللہ عنہ حاضر بارگاہ ہوئے پیارے آقا صلی ﷺ نے پوچھا: ابو بکر کیا لائے ہو؟ تو
ابو بکر نے عرض کیا: میں نے سارا گھر کا مال آپکی خدمت میں حاضر کر دیا ہے۔ پیارے
آقا ﷺ نے پوچھا: گھر کے لئے کچھ چھوڑا! ابو بکر نے فرمایا: گھر کے لئے اللہ اور اس
کا رسول کافی ہے۔
سبحٰن اللہ
کیسا جذبہ ہے! صد کروڑ مرحبا صحابہ کرام علیہم الرضوان میں مقابلہ بازی ہوتی بھی
تھی تو نیکیوں میں، یہ نفوس قدسیہ نیکیوں کی طمع کیا کرتے تھے وہ لوگ جانتے تھے
مال و دولت دنیا کی زیب و زینت فنا ہونے والا ہے ایک دن فنا ہو جائیگا اس لئے وہ
آخرت میں کامیابی اور جنت میں داخلے کے لئے نیکیوں پر سبقت لے جانے کی کوشش میں
رہتے تھے۔
اللہ پاک ہمیں
نیکیوں کا طمع عطا کرے۔ آمین
مال و دولت کی
لالچ میں آکر آخرت کو فراموش کرنا یقیناً خسارے کا باعث ہے۔دنیاوی معاملات میں
لالچی انسان سے ہر کوئی دور بھاگتا ہے۔ عزت و جاہ کی لالچ بھی قبیح فعل ہے نیکیوں
میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کا لالچ اچھا عمل ہے علم دین سیکھنے کا لالچ باعث
اجر و ثواب ہے۔
امیر
اہل سنت کی طمع: امیر اہل
سنت دامت و برکاتہم العالیہ موجودہ دور کے
علمی و روحانی شخصیت ہیں ان کی گفتگو سے ہمیں یہی دیکھنے کو ملتا ہے وہ نیکیوں کے
حریص ہیں ان کی اعلیٰ خوبیوں میں سے ایک خوبی نیکی کرانے کی لالچ صاف ظاہر ہوتی ہے
وہ یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان سیدھی راہ پر آجائے نمازوں کا پابند ہو جائے نیک اعمال
پر عمل کرنے والا ہو گناہوں سے بچنے بچانے والا ہو آقا کریم ﷺ کی محبت کا دم بھرنے
والا ہو شریعت مطہرہ پر پابندی سے عمل کرنے کرانے والا ہو۔
امت کا درد دل
میں رکھتے ہیں اور نیکیوں کی طمع کے خواہاں ہے اللہ پاک سے دعا ہے اللہ رب
العالمین سیدی و مرشدی کی طمع کے صدقے ہمیں بھی نیکیوں کا حریص بنائے۔
قارون نے بھی
مال کی لالچ کی اور زکوٰۃ دینے سے انکار کیا اور موسیٰ علیہ السلام پر جھوٹا الزام
لگایا وہ بھی زمین میں دھنسا دیا گیا لالچ بری بلا ہے لالچی شخص کی خواہش کبھی
پوری نہیں ہوتی ہمیشہ زیادہ کی لالچ میں خوار ہوتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں
بری طمع سے محفوظ فرمائے، نیکیوں کا حریص بنائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

حرص اور لالچ
آپس میں مترادف ہیں یعنی دو ایسے الفاظ ہیں جن کا معنی ایک ہی ہے لالچ اردو زبان
کا جبکہ حرص عربی زبان کا لفظ ہے حرص و لالچ کسی چیز کی مزید خواہش کرنے کا نام ہے
اور یہ کسی بھی چیز کی ہوسکتی ہے۔
حرص
و لالچ کی تعریف: حکیم
الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: کسی چیز سے
جی نہ بھرنے اور ہمیشہ زیادتی کی خواہش رکھنے کو حرص کہتے ہیں جبکہ رکھنے والے کو
حریص کہتے ہیں۔ (مراۃ المناجیح، 7/86) لہذا
مزید مال کی خواہش رکھنے والے کو مال کا حریص، نیکیوں میں اضافے کے تمنائی کو
نیکیوں کا حریص، جبکہ گناہوں کا بوجھ بڑھانے والے کو گناہوں کا حریص کہیں گے۔
شیخ الحدیث
حضرت علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: لالچ اور حرص کا جذبہ
خوراک، لباس، مکان، سامان، دولت، عزت، شہرت، الغرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔
لالچی انسان
نہایت قابلِ رحم ہوتا ہے اس لیے کہ ہوشیار لوگ طرح طرح سے لالچ دے کر اسے بے وقوف
بنا کر اپنے کام نکلواتے ہیں، مثلاً کبھی کوئی نوکری کا جھانسہ دے کر اس سے پیسے
بٹورتا ہے کبھی انعام کا لالچ اسے زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم کروا دیتا ہے۔
کبھی راتوں رات امیر و کبیر بننے کا لالچ اسے لے ڈوبتا ہے، مگر جب آنکھ کھلتی ہے
تو اسے اپنے کیے پر بہت پچھتاوا ہوتا ہے۔
دعوت اسلامی
کے اشاعتی ادارے مکتبہ المدینہ کی کتاب حرص کے صفحہ نمبر 218 پر ہے: ایک غریب آدمی
کے 3 بیٹے تھے جو کچھ اسے دال روٹی میسر آتی خود بھی کھاتا اور انہیں بھی کھلاتا۔ ان
میں سے ایک بیٹا باپ کی غربت اور دال روٹی سے ناخوش تھا چنانچہ اس نے ایک دولت مند
نوجوان سے دوستی کر لی اور اچھا کھانا ملنے کے لالچ میں اس کے گھر آنے جانے لگا۔ ایک
دن ان کے درمیان کسی بات پر ان بن ہوگئی دولت مند نے اپنی امیری کے غرور میں اسے
خوب مارا پیٹا اور اس کے دانت توڑ ڈالے۔ تب وہ غریب دل ہی دل میں توبہ کرتے ہوئے
کہنے لگا کہ میرے باپ کی پیار سے دی ہوئی دال روٹی اس مار دھاڑ اور ذلت کے تر
نوالے سے بہتر تھی۔ اگر میں اچھے کھانے پینے کی حرص نہ کرتا تو آج اتنی مار نہ
کھاتا اور میرے دانت نہ ٹوٹتے۔
مال
کی حرص مت کرو اس میں دو جہاں کا
وبال رکھا ہے
اس حکایت میں بالخصوص
ان کے لیے عبرت کے مدنی پھول ہیں جو مال و دولت یا جاہ و منصب وغیرہ کی ہوس میں
اپنی آخرت کو داؤ پر لگا دیتے ہیں، در در کی ٹھوکریں کھاتے اور پھر بعد میں
پچھتاتے ہیں۔
یاد رکھیے! اللہ
پاک نے جس کا جتنا رزق مقدر فرما دیا ہے اسے وہ مل کر رہے گا لہذا عافیت اسی میں
ہے کہ جتنا اللہ تعالیٰ نے ہمیں نوازا ہے ہم اسی پر قناعت کرنا سیکھیں۔بقدر ضرورت
ہی روزی کمائیں اور زیادہ کا خیال بھی اپنے دل ودماغ سے نکال دیں، کیونکہ انسانی
فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ اگر اس کے پاس مال و دولت کا ڈھیر سارا خزانہ بھی ہاتھ
لگ جائے تب بھی اس کی حرص پوری نہیں ہو سکتی اور مزید مال و دولت کی تمنا اس کے دل
میں باقی رہے گی۔ چنانچہ رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بوڑھے کا دل دو چیزوں کی
محبت میں جوان ہی رہتا ہے: زندگی اور مال کی محبت۔ (مسلم، ص 403، حدیث: 2410)
ایک اور مقام
پر ارشاد فرمایا: اگر ابن آدم کے پاس سونے کی ایک اور وادی ہو تو چاہے گا کہ اس کے
پاس دو وادیاں ہوں اور اس کے منہ کو مٹی کے سوا کوئی چیز نہیں بھر سکتی اور جو
اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے تو اللہ کریم اس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
سرکار مدینہ ﷺ
نے کس قدر بہترین انداز میں حرص کے بارے میں ہماری رہنمائی فرمائی۔
ہمارے بزرگان
دین مال کی حقیقت سے اچھی طرح آگاہ تھے، چنانچہ حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی
رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: اللہ
پاک کی قسم! جو درہم کی عزت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ذلت دیتا ہے۔ منقول ہے، سب سے
پہلے درہم و دینار بنے تو شیطان نے اٹھا کر اپنی پیشانی پر رکھا پھر ان کو چوما
اور بولا: جس نے ان سے محبت کی وہ میرا غلام ہے۔
نیکیوں کی حرص
میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے، جبکہ مال کی لالچ میں مبتلا ہو کر بسا اوقات جھوٹ
جیسی بری بیماری میں مبتلا ہو جاتا ہے دنیوی لالچ کا نشہ انسان کو اچھی صحبت سے
محروم کروادیتا ہے اور بالآخر اسے تباہی کے کنارے لا کھڑا کرتا ہے۔
اللہ کریم
ہمیں لالچ جیسی آفت سے محفوظ فرما کر نیکیوں کے حرص کی لازوال نعمت سے سرفراز
فرمائے۔ آمین یارب العالمین

لالچ ایک
چھوٹا سا لفظ، لیکن عملی طور پر یہ انتہائی برا ہے۔ یہ ایک بند دروازے کی طرح ہوتا
ہے جس کے پیچھے انسان سوچتا ہے کہ ایک خوبصورت جہاں بسا ہوا ہے، اس کی ساری زندگی
خوبصورت ہو گی اس کے پیچھے، مگر حقیقت کیا ہے؟ وہ دروازہ کھولتا ہے تو اسے بنجر
زمین نظر آتی ہے۔ لالچ ایک دھوکہ ہے جو انسان خود کو دیتا ہے اور یہ واحد دھوکہ ہے
جو انسان خود اپنی مرضی سے خود کو دیتا ہے۔ بچپن سے ہمیں پڑھایا جاتا ہے لالچ بری
بلا ہے لیکن کاش ہمارے تعلیمی اداروں میں اس کہانی کا راٹہ لگانے کی بجاے اگر بچوں
کو عملی زندگی میں اس کے نقصانات کے بارے میں بتا دیا جاتا تو آج بچہ صرف یہ نہ
کہتا کہ کتے نے لالچ کی اور اس نے نقصان اٹھایا۔ بلکہ اس کے نتیجہ پر زیادہ غور
کرتے تو سمجھتے کے لالچ ہر ایک کے لئے نقصان دہ ہے۔
بھائی بھائی آپس
میں جائیداد کے لالچ میں ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ بہن سے تعلق ختم کر کے اس کی حق
تلفی کی جاتی ہے۔ اسے جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا کرسی کی لالچ میں لوگ اپنا
وقار گرا دیتے ہیں۔لالچ کی وجہ سے دودھ میں پانی ملایا جاتا ہے۔ مسالوں میں ملاوٹ
کی جاتی ہے۔
لالچ سے ہم
دوسروں کو نقصان نہیں پہنچاتے بلکہ اپنے ساتھ بھی زیادتی کرتے ہیں لالچ ہمیں
انسانیت کے مرتبے سے گرا دیتی ہے۔ ہم اشرف المخلوقات کی بجائے ایک جانور بن جاتے
ہیں جسے تمیز اور لحاظ کے بنا ہر چیز کو چھیننا آتا ہے۔ وہ ایک ایسا جانور بن جاتا
ہے جسے صرف اپنے مفاد سے غرض ہے۔ ادب، لحاظ، مروت،ہمدردی ان سب جذبات سے خالی ہو
جاتا ہے۔پس منظر صرف اپنا مفاد۔
لالچ مختصر
خسارا ہے عزیز رشتوں کا، انسانی وقار کا، عزت نفس کا۔ لالچ سے انسان دماغی طور پر
بیمار ہو جاتا ہے۔ ہمیشہ زیادہ کی چاہ ایک چیز مل گئی اب دوسری چاہیے دوسری مل گی
تو تیسری چاہیے۔ صرف زیادہ کی چاہ جس کی وجہ سے انسان ناشکرا بھی ہو جاتا ہے۔وہ
پہلے موجود چیزوں کا شکر ادا نہیں کرتا بلکہ ناشکرا ہو جاتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتا
کہ میرے پاس جو چیز موجود ہے وہ شائد دوسرو کے پاس نہ ہو اور الله نے مجھے۔اس
محرومی سے بچایا مجھے اتنا نوازا لیکن عقل پر پڑے ہووے پردوں کو کون ہٹا سکتا ہے۔ سوائے
الله کے۔
اگر ہم کہیں کہ
کیا ہم لالچ سے بچ سکتے ہیں، تو اس کے لئے کچھ نتائج سامنے ہیں۔ نفس امارہ ہمیں ہر
وقت برائیوں کی طرف مائل کرتا رہتا ہے اور شیطان ہمیں اکساتا رہتا ہے اس کی مثال
ہمارا آج کل کا ماحول ہے گانے باجے، بےحیائی ہر طرف پھیلی ہوئی ہے تو کیا اس کا
مطلب ہے کہ ہم بھی ان سب چیزوں میں گھس جائیں گی کہ یہ عام ہیں؟ نہیں ہم اس سے
بچنے کی کوشش کریں گے کیونکہ چاہے ہم جنگل میں بھی رہیں ہمیں اپنے آپ کو بچانا ہے،
کیونکہ یہ حکم خدا ہے اور لالچ سے بھی ہمیں خود کو بچانا ہے چاہے شیطان ہمیں جتنا
مرضی اکسائے۔

لالچ ایک
خطرناک بیماری ہے جو انسان کے دل و دماغ کو اس طرح متاثر کرتی ہے کہ انسان اپنے
مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اخلاقی حدود کو پامال کر دیتا ہے۔ لالچ انسان کو اللہ کی
رضا اور انسانیت کے اصولوں سے منحرف کرتا ہے، اور ایک شخص کی زندگی میں اضطراب اور
پریشانی کی فضا پیدا کرتا ہے۔ اس مضمون میں ہم قرآن، حدیث اور بزرگان دین کے اقوال
کی روشنی میں لالچ کی حقیقت اور اس کے نقصانات پر گفتگو کریں گے۔
قرآن مجید میں
اللہ تعالیٰ نے لالچ اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی برائیوں سے متعلق کئی آیات
میں واضح رہنمائی دی ہے۔
اللہ تعالیٰ
نے فرمایا: اِنَّمَاۤ
اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌؕ- (پ 28، التغابن:
15) تمہاری دولت اور تمہاری اولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں۔ اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے
کہ انسان کا مال و دولت اور دنیاوی نعمتوں کی محبت اسے آزمائش میں مبتلا کرتی ہے۔
اگر انسان ان چیزوں کی محبت میں مبتلا ہو جائے اور لالچ کا شکار ہو، تو وہ اللہ کے
راستے سے بھٹک سکتا ہے۔
حضور ﷺ نے
فرمایا: اگر آدمی کے پاس دو وادیاں مال سے بھری ہوئی ہوں
تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا۔ابن آدم کے پیٹ کو مٹی کے سوا کوئی چیز
نہیں بھر سکتی۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
لالچ ایک ایسی
بری بلا ہے جس کی حوصلہ شکنی ہر اہل بصیرت نے کی ہے۔چنانچہ بزرگان دین فرماتے ہیں:
لالچ انسان کے دل کو داغ دار کر دیتا ہے اور اس کی اخلاقی حالت کو تباہ کر دیتا ہے۔
جو شخص مال و دولت کی لالچ میں مبتلا ہو جاتا ہے وہ دنیا میں کبھی سکون نہیں پاتا۔
لالچ اس شخص کے دل میں ہوتا ہے جس کا دل اللہ کی محبت سے خالی ہو۔
لالچ ایک ایسا
مرض ہے کہ اس کی وجہ سے روحانیت ختم ہو جاتی ہے۔ لالچ اخلاقی زوال کا سبب ہے۔ لالچی
انسان ہر پل دکھ و اضطراب میں مستغرق رہتا ہے۔ لالچ اللہ سے دوری کا سبب ہے۔
اس کی انہیں
خامیوں کی وجہ اول دور سے اخیر تک اس کو پزیرائی نہیں ملی۔ لالچ ایسی بلا ہے جس نے
تخت نشینوں کو خاک میں ملا دیا۔معزز کو ذلیل کروا دیا۔
اللہ پاک ہمیں
اس بری بلا سے محفوظ فرمائے اور قناعت پسند بنائے۔ آمین

کسی چیز میں
حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔ (مفردات
الفاظ القرآن، ص 524)
لالچ دولت، طاقت
یا مادی املاک کی ضرورت سے زیادہ خواہش ہے۔ یہ ایک عالمگیر انسانی جذبہ ہے جس کے
تباہ کن نتائج ہونے کے ساتھ ساتھ افراد کو دوسروں کی بھلائی پر اپنے مفادات کو
ترجیح دینے کا باعث بن سکتی ہے۔جس سے تعلقات،برادریوں اور مجموعی طور پر معاشرے تک
کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔لہذا اس موذی باطنی بیماری کے نقصانات سے بچنے کیلئے تین
اہم باتوں کو مد نظر رکھا جائے:
قناعت:
قناعت
میں عزت اور لالچ میں ذلت ہے۔ دنیا سے بے رغبتی اختیار کیجئے مال و دولت کے آخرت میں
حساب دینے کے معاملے میں غور و فکر کیجئے۔ (گناہوں کی معلومات، ص 169)
وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے
نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
نفس کے لالچ
سے پاک کئے جانے والے پاک ہیں: اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو
لالچ سے پاک کردیا گیا ہے وہ حقیقی طور پر کامیاب ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نفس
کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنا بہت مشکل ہے اور جس پر اللہ پاک کی خاص رحمت ہو تو
وہی اس سے بچ سکتا ہے۔
لالچ
کا نقصان: رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شح (یعنی نفس کے لالچ)سے بچو کیونکہ شح نے تم سے پہلی
امتوں کو ہلاک کردیا کہ اسی نے ان کو ناحق قتل کرنے اور حرام کام کرنے پر ابھارا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث: 6576)
مروی ہے حضرت
عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ بیت اللہ شریف کا طواف کررہے اور یہ دعا مانگ رہے
تھے: اے اللہ! مجھے میرے نفس کی حرص سے بچا۔ اس سے زائد وہ کچھ نہیں فرماتے تھے۔جب
ان سے اس کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: جب مجھے میرے نفس سے
محفوظ رکھا گیا تو نہ میں چوری کروں گا، نہ زنا کروں گا اور نہ ہی میں نے اس قسم
کا کوئی کام کیا ہے۔ (تفسیر طبری، 12/42)
اللہ پاک ہم
پر رحم فرمائے اور ہمیں نفس کے حرص اور لالچ سے محفوظ فرمائے۔ آمین

مشہور مقولہ
ہے کہ لالچ بری بلا ہے۔لالچ نہ صرف بری بلا ہے بلکہ یہ ایک نہایت ہی بدخصلت ہے یہ
خصلت جسکو لگ جاۓ تو اسکاچھو ٹنا محال ہے۔کیو نکہ لالچ انسان کو حریص بنا دیتی ہے
اور لا لچ کی کوئی حد نہیں ہوتی یہ انسان کو اندھا بنا دیتی ہے اور انسان مزید سے
مزید تر کی خواہش کی وجہ سے اس میں پھنستا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ انسان اپنا
ایمان تک بیچ ڈالتا ہے، بظاہر اس کو لگتا ہے کہ دنیاوی دولت کے باعث وہ کامیاب شخص
ہے در حقیقت وہ ناکام اور دنیا و آخرت میں ناکام ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن پاک
میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
حدیث پاک میں
بھی لالچ کو نا پسند قرار دیا ہے اور اسکو ہلاکت و بربادی میں ڈالنے والی شے بتایا
گیا ہے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین چیزیں ہلاکت میں ڈالنے والی ہیں: لالچ
جسکی اطاعت کی جائے، خواہش جسکی پیروی کی جائے اور بندے کا اپنے عمل کو پسند کرنا
یعنی خود پسندی۔ (معجم اوسط، 4/212، حدیث: 5754)
ایک اور جگہ
ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلا ک ہوئیں،لالچ
نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلا یا تو
انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑھ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
ان احادیث سے
واضح ہے کہ لالچ ہلاک کرنے اور برباد کرنے والی شے ہے گناہوں کی طرف رغبت دلانے
والی ہے، انسان کے کردارکو مسخ کر دیتی ہے، مال و زر کی لالچ خونی رشتوں میں
دڑاریں ڈال دیتی ہے نسل در نسل دشمنی کی بنیاد ڈال دیتی ہے، ایمان کو اور اللہ پر
توکل کو کمزور کر دیتی ہے انسان خود کو کچھ سمجھنے لگ جاتا ہے اور اس میں غرور و
تکبر آجاتا ہے دیکھا جاۓ تو اس ایک لالچ کی وجہ سے دیگر باطنی امراض بھی جنم لیتے
ہیں۔
لالچی انسان
ایک اضطراب کا شکار ہتا ہے اسکا ذہن اسی توڑ جوڑ میں رہتا ہے کہ کس طرح میں اپنی
دولت کو مزید بڑھاؤں؟ ایسا کیا کروں کہ راتوں رات امیر ہوجاؤں، جسکی وجہ سے وہ
شارٹ کٹ استعمال کرتا ہے اورنقصان کر بیٹھتا ہے لالچ و حرص کی وجہ سے ذہنی حالت
ابتر ہوجاتی ہے ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے اور ایسے شخص میں قوت
فیصلہ ختم ہوجاتی ہے۔ لالچ کی وجہ سے انسان دنیا کی محبت اور مادی چیزوں کی محبت
میں گرفتار ہو جاتا ہے دین سے دور ہوجاتا ہے اور ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ اپنا
ایمان اپنا ضمیر بھی بیچ ڈالتا ہے،لالچ انسان کو سماجی تنہائی کا شکار بنادیتی ہے
کیونکہ ایسے افراد رشتوں پر دولت اور مادیت کو ترجیح دیتے ہیں وہ رشتے داروں دوست
احباب سے ملنا چھوڑ دیتے ہیں کہ کہیں وہ ادھار نہ مانگ لیں یا کسی مالی مدد کا
تقاضہ نہ کر دیں اس وجہ سے لالچ اخلاقیات اور اقدار کو کمزور کر دیتی ہے اس سے
حقوق العباد تلف ہوتے ہیں الغرض لالچ انسان کو مادہ پرست بنا دیتی ہے۔
جہاں لالچ کے
نقصان ہیں وہاں ہم لالچ کو اپنے فائدے کیلیے بھی استعمال کر سکتے ہیں وہ اسطرح کہ
ہم زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کے لالچی بن جائیں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے
اور درود پاک پڑھنے کے لالچی بن جائیں لیکن خیال رہے کسی کے حقوق یا اپنی ذمہ داریاں
نہ تلف ہوں۔
یاد رہے پچھلی
قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں اور نام و نشان مٹ گئے لیکن انبیائے کرام نے کسی
لالچ کے بغیر دین کی تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا اور باقاعدہ اس کا اظہار بھی
فرمایا کہ تبلیغ سے ان کا مقصد مال یا کوئی منصب حاصل کرنا نہیں بلکہ وہ صرف اپنے
رب کی رضا اور اسکی طرف سے ملنے والے اجر کے طلبگار ہیں،اسی لیے ہم مسلمانوں کو
بھی چاہیے کہ بغیر لالچ و غرض کے حقوق اللہ، حقوق العباد اور تبلیغِ دین کا فریضہ
انجام دیں، کیونکہ لالچ ہلاک اور ناکام کرنے والی شے ہے۔
اللہ پاک ہمیں
اس موذی خصلت سے نجات دے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

کسی چیز میں
حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔ (مفردات
الفاظ قرآن، ص 524)
وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے
نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اس آیت مبارکہ
سے معلوم ہوا کہ جن حضرات کہ نفس کو لالچ سے پاک کر دیا گیا ہو وہ حقیقی طور پر
کامیاب ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نفس کہ بری عادت سے بچنا بہت مشکل ہے اور جس
پر اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہو وہ اس عادت سے بچ سکتا ہے۔یہ عادت کس قدر نقصان دہ
ہے اس کا اندازہ اس حدیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے۔چنانچہ
حضرت جابر بن
عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ظلم کرنے سے ڈرو
کیونکہ ظلم قیامت کا اندھیرا ہے اور شحی یعنی (نفس کے لالچ) سے بچو کیونکہ شح نے
تم سے پہلی امتوں کو ہلاک کر دیا کہ اسی نے ان کو ناحق قتل کرنے اور حرام کام کرنے
پر ابھارا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث: 6576)
رسول اللہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں
لالچ نے انہیں بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگی اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا
تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
طمع (لالچ) کے
بارے میں تنبیہ مال و دولت کی ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہویا ایسی
اچھی نیت نہ ہو جو لالچ کر دے نہایت ہی قبیح گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور
ہلاکت میں ڈالنے والی بیماری ہے مال و دولت کے لالچ میں پھنسنے والا شخص ناکام
ونامراد ہے اور جو ان کے مکرو جال سے بچ گیا وہی کامران وکامیاب ہے۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 191)
لالچ
کے اسباب: لالچ انسان کے دل سے ہمدردی کا جذبہ نکال
دیتی ہے۔ لالچ دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب بنتی ہے۔ لالچ انسان کو بے
سکونی میں مبتلا کر دیتی ہے۔ لالچ انسان کو اکیلا کر دیتی ہے۔ لالچ انسان کو کہیں
کا نہیں چھوڑتی ہے اور لالچ کا انجام انتہائی بھیانک ہوتا ہے۔الغرض لالچ کی تباہ
کاریاں اس قدر زیادہ ہیں کہ الامان والحفیظ۔ لہذا عقلمندی اسی میں ہے کہ ہم لالچ
اور دوسروں کے مال پر نظر رکھنے سے بچتے ہوئے قناعت اور سادگی کو اپنائیں یوں
ہماری زندگی (life)
بھی پرسکون گزرے گی اور دنیا و آخرت میں بھی اس کی خوب خوب برکتیں نصیب ہوں گی۔
لالچ
سے بچنے کے لیے:
قناعت اختیار کیجئے قناعت میں عزت اور
لالچ میں ذلت ہے دنیا سے بے رغبتی اختیار
کیجئے مال و دولت کے آخرت میں حساب دینے کے معاملے میں غور و فکر کیجئے۔
اللہ تعالیٰ
ہم پر اپنا رحم فرمائے اور ہمیں نفس کے حرص اور لالچ سے محفوظ فرمائے۔

کسی چیز میں
حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔(باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص: 190)
عام طور پر
یہی سمجھا جاتا ہے کہ لالچ کا تعلق صرف مال و دولت کے ساتھ ہوتا ہے حالانکہ ایسا
نہیں ہے کیونکہ کسی بھی چیز میں حددرجہ دلچسپی لینا لالچ ہے۔
تلمیذ صدر
الشریعہ حضرت علامہ عبد المصطفی اعظمی رحمۃ الله علیہ لکھتے ہیں: لالچ اور حرص کا
جذبہ خوراک، لباس، مکان، سامان، دولت، عزت، شہرت الغرض ہر نعمت میں ہوا کرتا ہے۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 116)
قرآن کریم میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل اس آیت سے
معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیا گیا وہ حقیقی طور پھر کامیاب
ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنا بہت مشکل ہے اور
جس پر اللہ کی خاص رحمت ہو تو وہیں اس عادت سے بچ سکتا ہے یہ عادت کس قدر بری اور
نقصان دہ ہے اس کا اندازہ درج ذیل حدیث مبارک سے لگایا جاسکتا ہے۔
چنانچہ حضرت
عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: لالچ
سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں، لالچ نے انہیں
بخل پر آمادہ کیا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطعی رحمی کا خیال دلایا تو انہوں نے
قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ میں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
قرآن کریم میں
ارشاد باری تعالیٰ ہے: قَالُوْا لَا ضَیْرَ٘-اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا
مُنْقَلِبُوْنَۚ(۵۰) اِنَّا نَطْمَعُ اَنْ یَّغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطٰیٰنَاۤ
اَنْ كُنَّاۤ اَوَّلَ الْمُؤْمِنِیْنَؕ۠(۵۱) (پ 19، الشعراء:
50، 51) ترجمہ كنز العرفان: جادوگروں نے کہا: کچھ نقصان نہیں،بیشک ہم اپنے رب کی
طرف پلٹنے والے ہیں۔ ہم اس بات کی لالچ کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہماری خطائیں بخش دے
اس بنا پر کہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں۔ اس آیت مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ
فرعون کی دھمکی سن کر ان جادو گروں نے کہا اللہ کی خاطر جان دینے میں کچھ نقصان
نہیں چاہے دنیا میں کچھ بھی ہو کیونکہ ہم اپنے رب کی طرف ایمان کے ساتھ پلٹتے ہیں
اور ہمیں اللہ کی رحمت سے امید ہے اور لالچ ہے کہ اللہ پاک ہماری خطائیں معاف
فرمادے گا۔
اس آیت مبارکہ
میں جو لالچ کا ذکر ہے تو یہاں اچھی لالچ مراد ہے کہ وہ اس بات کی لالچ رکھتے ہیں
کہ ان کی خطائیں معاف کر دی جائیں اور یہ لالچ اچھی ہے اور اس پر اللہ کی رحمت سے
ثواب بھی ہے۔
لالچ
کے متعلق حدیث مبارکہ:
لالچ ایسی
پھسلانے والی چٹان ہے جس پر علماء بھی ثابت قدم نہیں رہتے۔ (کنز العمال، 2/198، جز: 3، حدیث: 7576)
اگر ابن آدم
کے پاس سونے کی دو وادیاں بھی ہوں تب بھی یہ تیسری کی خواہش کرے گا اور ابن آدم کا
پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث:
2419)
لالچ
کا حکم: مال
و دولت کی ایسی لالچ جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ
ختم کر دے، نہایت ہی قبیح گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی
بیماری ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات ص 191)
کچھ لوگ نیک و
پرہیزگار ہوتے ہیں لیکن لالچ جب ان کے دل میں گھر کر جاتا ہے تو ان کا عبرت ناک
انجام ہوتا ہے جیسے بلعم بن باعورء کی ایک مشہور مثال ہے کہ وہ اپنے دور کا بہت
بڑا عالم اور عابد و زاہد تھا ایسے اسم اعظم کا بھی علم تھا اور بہت ہی مستجاب
الدعوات تھا کہ اس کی دعائیں بہت زیادہ قبول ہوتی تھی ایک مرتبہ اس کی قوم نے حضرت
سیدنا موسی علیہ السلام کے لئے بددعا کرنے کا کہا تو پہلے تو اس نے انکار کردیا
لیکن جب اس کی قوم نے اس کو راضی کرنے کی بہت کوشش کی اور یہ کسی طرح راضی نہ ہوا تو
اس کی قوم نے اسے مال و دولت کا لالچ دیا یہ لالچی شخص مال و دولت کا بھوکا ان کے
جال میں آگیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بد دعا دینے کے لئے راضی ہو گیا، لیکن
جب یہ بددعا دینے کی کوشش کرتا تو اس کے منہ سے اپنے قوم کے لئے بد دعا نکلتی،
بلعم بن باعوراء نے مال و دولت کی لالچ میں آکر اپنی دنیا و آخرت برباد کر ڈالی۔
اس میں ہمارے
لئے لمحہ فکریہ ہے کہ ہم نیک کاموں کی لالچ رکھ کر اپنی قبر کو سنوارتے ہیں اور اس
کے مکروہ جال سے بچ کر کامیاب و کامران ہوتے ہیں یا برے کاموں کی لالچ رکھ کر اپنی
دنیا و آخرت برباد کرتے ہیں اور مال و دولت کی لالچ میں پھنس کرنا کام و نامراد
ہوتے ہیں۔
یقیناً نیکیوں
اور اچھے کاموں کی حرص و لالچ اچھی ہے اور اس پر ثواب بھی ہے لیکن اگر ہم برے
کاموں کی لالچ و حرص رکھیں تو زندگی کا کیا بھروسہ کہ یہ چند روزہ زندگی فانی ہے سب
مال یہی چھوڑ کر ایک دن اندھیری قبر میں جانا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔
اللہ سے دعا
ہے کہ ہمیں نیک کاموں کی حرص و لالچ اور ہر ایک کام کو بغیر کسی غرض کے کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔ آمین