طلاق کا معنی کھل جانا اصطلاح میں طلاق سے مراد کہ عورت مرد کے نکاح سے کھل جاتی ہے۔

طلاق کا حکم: اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بلاوجہ شرعی طلاق دینا ناپسندیدہ و مبغوض و مکروہ ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 12/323)

میاں بیوی کا رشتہ اللہ پاک کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے

مگر ان دونوں کےرشتوں میں کچھ وجوہات کی بناء پر جدائی ہو جاتی ہے جسے عرف میں طلاق کہا جاتا ہے موجودہ دور میں طلاق بہت عام سے عام تر ہوتی جارہی ہے ایک روایت میں طلاق کے متعلق آقا جان ﷺ کی ایک روایت بیان ہوئی حضر ت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو عورت اپنے خاوند سے بلا ضرورت طلاق مانگے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (ترمذی، 2/402، حدیث: 1190) یہاں جنت کی خوشبو حرام ہے اس سے مراد یہ نہیں کہ وہ جنت میں جائے گی ہی نہیں یہاں اس سے ابتدائی داخلہ مراد ہے ہر مسلمان جنت میں جائے گا خوشبو سے مراد جنتیوں کو جو خوشبو عطا ہوگی وہ اس کی مہک سے محروم رہے گی مگر وہ جنت میں داخل ہو جائے گی۔

موجودہ دور میں طلاق کی بہت ساری وجوہات سامنے ہیں آئیے ان وجوہات جو ملاحظہ کرتے ہیں اور طلاق جیسی بری عادت کو اپنے معاشرے سے مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔

(1)بے اولادی: طلاق کی ایک بڑی وجہ بے اولادی بھی ہے اولاد اللہ پاک کی بہت ہی پیاری نعمت ہے مگر اولاد کا ہونا نہ ہونا یہ عورت کے اختیار میں نہیں ہوتا بلکہ اللہ پاک کے اختیار میں ہے جسے چاہتا ہے اولاد دیتا جیسے چاہتا اس سے محروم کر دیتا ہے جسے چاہے بیٹی عطا فرماتا ہے جسے چاہے بیٹے عطا فرماتا ہے بے شک اللہ پاک ہر چیز پر قادر ہے۔

(2) کم عمری میں شادی کرنا: طلاق کی دوسری وجہ کہ لوگ اپنی اولاد کی کم عمری میں شادی کردیتے ہیں کم عمری میں شادی کرنا دیہات میں زیادہ تر ترکیب ہوتی ہے کہ لڑکی 12اور لڑکے کی 18سال میں شادی کر دیتے ہیں اس چیز کا خیال کیے بغیر کہ انکی آئندہ زندگیاں کیسے متاثر ہوں گی کم عمری میں شادی کرنے کی وجہ سے بھی میاں بیوی اپنے رشتے کو قائم نہ رکھ پاتے تو طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔

(3)شوہر کی نافرمانی: بڑھتی ہوئی طلاقوں کی ایک وجہ شوہر کی نافرمانی بھی ہے شوہر کے حقوق پورے نہ کرنا جب اسکو حاجت ہو اس وقت انکار کر دینا اسکی نافرمانی کرنا اور اگر نیکی کی طرف ترغیب دلائے شریعت کے مطابق چلنے کا کہے تو اس کی بات نہ ماننا اس سے زبان درازی کرنا یہ بھی طلاق کی ایک وجہ ہے۔

(4) عدم برداشت: موجودہ دور میں طلاق کی وجہ عدم برداشت بھی ہے اگر کوئی لڑائی جھگڑا ہو بھی جائے تو برداشت کرنے کی ہمت نہیں رکھتے فورا ہی غصے میں آکر نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے اگر مرد عورت کو ایک بات کہے تو عورت آگے سے چار سناتی ہے۔

(5) سوشل میڈیا: سوشل میڈیا پر فلمیں ڈرامے یا دیگر عشق و محبت کی کہا نیاں پڑھ کر دیکھ کر اسکو اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کرنا یہ بھی طلاق کی بہت بڑی وجہ بن جاتی ہے۔

(6) کفو (برابری) نہ ہونا: بعض اوقات معاشرے میں طلاق کی جو وجہ بنتی ہے ایک وجہ کفو نہ ہونا بھی ہے کیونکہ اگر لڑکی کم علم یا غریب گھرانہ کی ہو اور لڑکا امیر اور پڑھا لکھا ہوا تو وہ اپنے علم اور امیر ی کا غرور کرتا ہے جس وجہ سے لڑکی کو کم علم اور غریب گھرانہ سے ہونے کی وجہ سے طعنے دئیے جاتے ہیں یوں ہی اگر کوئی لڑکی عالمہ ہے یا لڑکا عالم ہے تو ان کی شادی انکے برابری میں نہ کرنا کہ اگر لڑکا عالم ہو وہ اپنے علم کی وجہ سے ان پڑھ عورت کو کم سمجھتا ہو اور یوں لڑکی عالمہ ہو اور اسکی شادی کسی ان پڑھ سے ہو جائے برادری میں کفو نہ ہونے کی وجہ سے بھی نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔

(6)سسرال کی باتیں میکے میں آکر کرنا: بعض لڑکیوں کی عادت ہوتی ہے کہ اپنے سسرال کی اک اک بات میکے میں کرتی ہیں اپنی ماں اور اپنی بہن سے جب وہ اپنے سسرال کی باتیں میکے میں کرتی ہیں تو والدین اسکی باتوں سے آگ بگولہ ہو جاتے ہیں کہ انکی ہمت کیسے ہوئی ہماری بیٹی کو ایسے کہنے کی اس طرح دو فیملیز میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں اور پھر والدین اپنی بیٹی کو گھر لے آتے اور نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے اس لیے ہر بیٹی کو چاہیے کہ اپنے سسرال کی باتیں میکے میں نہ کرے اور میکے کی باتیں سسرال میں نہ کرے۔

(8)فیملی کا غیر ضروری مداخلت کو منقطع کرنا: میاں بیوی کو اپنے ذاتی معاملات میں ازخود مختار ہونا چاہیے کسی تیسرے کو اپنے معاملات میں نہیں آنے دینا چاہیے خاندان والوں کو بھی انکے فیصلوں کا احترام کرنا چاہیے اور انکے فیصلوں پر متفق رہنا چاہیے۔

(9)معاشی دباؤ: معاشی حالات بھی ازدواجی زندگی کے تعلقات کو متاثر کرتے ہیں میاں بیوی دونوں مالی اخراجات کی تقسیم پر اختلاف ہو یا دونوں میں سے کوئی ایک مالی بوجھ نہ اٹھا سکے تو اس وجہ سے بھی میاں بیوی کے رشتے میں دڑار واقعہ ہو جاتی ہے۔

(10)پسند کی شادی: پسند کی شادی کرنے والے افراد یہ فیصلہ بڑی توقعات کے ساتھ کرتے ہیں یہ توقعات اکثر فلموں ڈراموں اور بے کار کہانیوں کے ذریعے پیدا ہونے والے خوابوں پر مبنی ہے شادی کے بعد دونوں کو حقیقی زندگی کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جسکی وجہ سے انکا رشتہ کمزور ہو جاتا ہے اور انکے لیے ذمہ داریوں کو پورا کرنا مشکل ہوتا ہے جسکی وجہ سے یہ اپنا رستہ برقرار نہیں رکھ پاتے۔

ہم نے موجودہ دور میں ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی چند وجوہات اور اسباب کے بارے میں ملاحظہ کیا اسکے علاوہ بھی بہت سی طلاق کی وجوہات ہیں مگر ان میں سے چند آپکی خدمت میں پیش گی گئی اللہ پاک ہمیں طلاق جیسی بری عادت سے بچائے۔ آمین اللہ پاک میاں بیوی کو محبت کے ساتھ رہنے ایک دوسرے کے حقوق کو سمجھنے اور ان تمام وجوہات کو کنٹرول کر کے اسکا حل تلاش کرنے کی توفیق عطا فرمائے اللہ پاک ہمیں شیطان کے وسوسے سے بچائے۔ آمین


طلاق کا لفظی معنی چھوڑنا ہے طلاق میاں بیوی کے درمیان نکاح کے معاہدہ کو توڑنے کا نام ہے۔ طلاق کی وجہ سے نا صرف ایک رشتہ ختم ہوتا ہے بلکہ بچوں کی زندگیوں پر اسکا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے اور یوں خاندانی دشمنیاں جنم لیتی ہیں۔ طلاق اللہ پاک کو ناپسند ہے، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حلال چیزوں میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ اور مبغوض چیز طلاق ہے۔ (ابو داود، 2/370، حدیث: 2178)

مگر افسوس اسکی شرح میں اضافہ ہی ہوا ہے ایک تحقیق کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں 35 فیصد طلاق میں اضافہ ہوا ہے، آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت اپنے خاوند سے بلاضرورت طلاق مانگے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (ترمذی، 2/402، حدیث: 1190)

طلاقوں کی چند وجوہات:

1۔ برداشت کا نا ہونا: طلاق ہونے میں ایک بنیادی سبب برادشت کی کمی ہے، جو شوہر بیوی ایک دوسرے کی ناپسندیدہ بات پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور پھر عدم برداشت کو اپنا معمول بنالیتے ہیں انکے رشتے کیلیے یہ بہت بری چیز ثابت ہوتی ہے۔

2۔ بدگمانی: مرد کا عورت پر اور عورت کا مرد پر شک کرکے بدگمانیوں میں مبتلا ہوجانا کہ یہ کسی اور سے ترکیب میں ہے اور اپنے ذہن میں ہی اس بات کو حقیقت جاننا، چاہے وہ بات سچ میں حقیقت ہو یا نہ ہو۔

3۔ ذہنی ہم آہنگی کا نہ ہونا: ذہنی ہم آہنگی ازدواجی رشتے میں بہت ضروری ہے۔ ذہنی ہم آہنگی جب تک میاں بیوی کے درمیان قائم نہ ہو تو یوں ہوتا ہے کہ کہا کچھ جاتا سمجھا کچھ اور جاتا۔

4۔ بے جا خواہشات: بیویاں شوہر کی مالی حالت جاننے کے باوجود جب اس سے غیر ضروری اشیاء کی فرمائش کرتی ہیں اور وہ چاہ کر بھی اسکی خواہش پوری نا کر پائے تو عورت شوہر کو برا بھلا کہتی ہے جس سے رشتے میں خرابیاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔

5۔ شوہر کے حکم کی عدم تکمیل: جو بیویاں شوہر کی اہمیت سے بے خبر ہوتی ہیں وہ شوہر کی نافرمان ہو جاتی ہیں اور شوہر کے ضروری حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتی ہیں جسکا نتیجہ ان کو طلاق کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔

6۔ ناشکری: کچھ عورتیں اپنے شوہروں کی طرف سے ملی ہوئی آسائشوں کا شکر ادا کرنے کی بجائے یہ کہتی ہیں: میں نے تمہارے پاس کوئی بھلائی نہیں دیکھی، فلاں کو دیکھو اپنی بیوی کو کیا کیا لے کر دیتا ہے۔ یوں ان کے درمیان لڑائیاں بڑھتی جاتی ہیں۔


اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ نکاح اور طلاق جیسے اہم مسائل پر بھی قرآن و حدیث میں واضح احکام موجود ہیں۔ طلاق کو شریعت میں ناپسندیدہ ترین حلال عمل قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے:

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ حلال چیز طلاق ہے۔ (ابو داود، 2/370، حدیث: 2178)

آج کے دور میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح ایک تشویشناک مسئلہ بن چکی ہے۔ ان وجوہات پر غور کرتے ہیں جو ازدواجی زندگی میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں اور قرآن و حدیث کی روشنی میں ان کے ممکنہ حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

دین سے دوری: قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى(۱۲۴) (پ 16، طہ: 124) ترجمہ: اور جو میرے ذکر سے منہ موڑے گا، اس کی زندگی تنگ ہو جائے گی۔

جب میاں بیوی اللہ کے احکامات اور نبی کریم ﷺ کی تعلیمات سے دور ہو جاتے ہیں تو ان کے درمیان محبت و رحمت کی جگہ خودغرضی، نفرت اور بداعتمادی لے لیتی ہے، جو طلاق کا سبب بنتی ہے۔

صبر و برداشت کی کمی: ازدواجی زندگی میں صبر ایک بنیادی شے ہے، لیکن آج کل میاں بیوی چھوٹی چھوٹی باتوں پر عدم برداشت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ میاں بیوی کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کی خامیوں کو برداشت کریں اور معاملات کو صبر و حکمت سے حل کریں، بجائے اس کے کہ طلاق جیسے انتہائی قدم کی طرف جائیں۔

غیر ضروری توقعات اور مادی خواہشات: آج کے دور میں میاں بیوی ایک دوسرے سے غیر ضروری توقعات وابستہ کر لیتے ہیں، خاص طور پر مادی خواہشات کے حوالے سے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: حقیقی دولت مال و دولت کی فراوانی میں نہیں، بلکہ دل کی تونگری میں ہے۔ (بخاری، 4/233، حدیث: 6446) اگر شوہر بیوی کو مہنگے تحائف نہ دے سکے یا بیوی شوہر کی توقعات کے مطابق نہ ہو، تو اس سے رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، جو طلاق کی نوبت تک پہنچ جاتی ہیں۔

خاندان کا غیر ضروری دباؤ: بہت سی طلاقیں سسرال اور میکے کی مداخلت کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ اگر والدین اور دیگر رشتہ دار بلاوجہ ازدواجی زندگی میں مداخلت کریں تو یہ اختلافات کو جنم دیتا ہے، جو طلاق تک پہنچ سکتا ہے۔

عزت اور حقوق کی پامالی: اسلام نے میاں بیوی دونوں کو حقوق دیئے ہیں۔ شوہر پر لازم ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ حسن سلوک کرے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے اہل کے لیے سب سے بہتر ہوں۔ (ترمذی، 5/475، حدیث: 3895)

اسی طرح بیوی کو بھی شوہر کا ادب و احترام کرنا چاہیے۔ جب میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق کو نظر انداز کرتے ہیں، تو ازدواجی زندگی میں دراڑ آ جاتی ہے، جو بالآخر طلاق کا سبب بنتی ہے۔

طلاق ایک ناپسندیدہ مگر بعض صورتوں میں جائز عمل ہے۔ تاہم اس کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنی ازدواجی زندگی کو سنوارا جائے۔ اگر میاں بیوی اللہ کے احکامات پر عمل کریں اور ایک دوسرے کے ساتھ صبر، محبت اور احترام کا برتاؤ کریں، تو ازدواجی زندگی خوشگوار بن سکتی ہے اور طلاق جیسے مسائل سے بچا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

والدین کے لیے وہ دن کتنا سہانا ہوتا ہے کہ جب وہ اپنی اولاد کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کردیتے اور خوشی سے نہال ہوتے ہیں کہ ان کے ناتواں کندھوں سے ایک بھاری ذمے داری کا بوجھ اتر گیا۔ وہ اپنے آپ کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں۔ لیکن شادی کے کچھ ہی عرصے بعد جب اس جوڑے کی آپس میں نہیں بنتی، روز کے چھوٹے موٹے جھگڑے بڑھ جاتے ہیں اور نوبت طلاق تک آپہنچتی ہے، تب والدین کو ایسا شدید صدمہ ہوتا ہے جو انہیں اندر سے مکمل طور پر ہلا کر رکھ دیتا ہے۔

یہ صرف ایک گھر کا نہیں بلکہ دونوں خاندانوں کا چین و سکون چھین لیتا ہے۔ طلاق، گھروں کے گھر اجاڑ دیتی ہے۔ بدنصیبی سے ہمارے سماج میں بھی یہ ایک سنگین صورت حال اختیار کرچکی ہے۔ اب تو معمولی رنجشوں پر بھی طلاق عام ہے۔ جس میں سر فہرست صبر و برداشت کی کمی ہے۔

آج معاشرے میں طلاق عام ہوتی جارہی ہے اور معمولی باتوں پر گھر اجڑ رہے ہیں۔ آخر طلاقیں کیوں بڑھ رہی ہیں ؟آئیے اسکے بارے میں ملاحظہ فرمائیے:

یہ ایک اہم سماجی مسئلہ ہے جو مختلف وجوہات کی بنا پر بڑھ رہا ہے۔ طلاق کے بڑھنے کی وجوہات کو سمجھنا ضروری ہے، جن میں میاں بیوی کے درمیان عدم ہم آہنگی، مالی مسائل، جذباتی ناچاقی، سماجی دباؤ، اور خواتین کی خود مختاری کی بڑھتی ہوئی سوچ شامل ہیں۔

طلاق کی اہم وجوہات اور انکا حل:

1۔ عدم برداشت: آج کے دور میں مرد ہو یا عورت دونوں میں صبر و برداشت کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے اور بنیادی وجہ یہی ہے کہ گھروں میں لڑائی جھگڑے بڑھتے جاتے ہیں۔ زبان درازی عام ہے اور چھوٹی سی بات تو تو میں میں سنگین صورت اختیار کر جاتی ہے۔ مرد غصے میں ایک بات کرتا ہے تو بیوی آگے سے چار سناتی ہے۔ بس پھر یہی سلسلہ چلتا ہوا طلاق تک آ پہنچتا ہے۔ اگر دونوں صبر کا مظاہرہ کریں اور مرد کے ساتھ عورت بھی زبان پر قابو رکھے تو گھر کو نار کے بہ جائے گل زار بنا سکتی ہے۔

2۔ بے اولادی: خود سوچیے کیا اولاد نرینہ کا ہونا نہ ہونا عورت کے اختیار میں ہے؟ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے کہ آسمانوں کی اور زمین کی سلطنت اللہ تعالی ہی کے لیے ہے وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے۔ جس کو چاہے بیٹیاں دیتا ہے اور جسے چاہے بیٹا دیتا ہے یا انہیں (بیٹے اور بیٹیاں) جمع کر کے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اولاد کی عطا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ اور اگر نرینہ اولاد کے خواہش مند افراد دوسری شادی کرنا چاہیں تو بیوی جھٹ یہ کہہ کر طلاق کا مطالبہ کردیتی ہے کہ یہاں میں رہوں گی یا وہ رہے گی۔ ایسے عورتوں کے بارے میں حدیث مبارکہ میں ہے کہ ایک روایت حضرت ثوبان رضی الله عنہ اس طرح نقل کرتے ہیں کہ رسول ﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: جو عورت بھی بلا وجہ اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ (ترمذی، 2/402، حدیث: 1190)

کئی جگہ تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مرد حضرات دوسری بیوی کی خاطر پہلی کو طلاق دے دیتے ہیں۔ یہ انتہائی برا عمل ہے کہ وہ ایک کا گھر آباد کرنے کی خاطر دوسری کا گھر برباد کر دیتے ہیں۔ایسے مردوں کو چاہئے کہ وہ الله سے ڈریں کہ اولاد دینا نہ دینایہ الله پاک کے اختیارات میں سے ہے اس میں خود عورت کاکوئی عمل دخل نہیں اور اگر وہ نہیں دے رہا تو اس میں بھی الله کی کوئی حکمت ہی ہے تو مرد کو چاہئے کہ وہ صبر سے کام لے الله کی ذات پر بھروسہ رکھے کہ الله کے ہاں دیر ہے لیکن اندھیر نہیں اور جو چیز تاخیر سے ملے اسکا پھل یقینا میٹھا ہوتا ہے۔لہذا دعا کرتے رہئے اور یقین قائم رکھئے۔

3۔ سسرال کی باتیں میکے میں بتانا: طلاق کی سب سے بڑی وجہ، جو میرے سروے میں نمایاں ہو کر سامنے آئی، وہ نئی نویلی شادی شدہ لڑکیوں کی اپنی ماؤں یا بڑی بہنوں کے ساتھ غیر معمولی موبائل رابطے ہیں۔ یہ لڑکیاں اپنے سسرال میں ہونے والی ہر چھوٹی بڑی بات کو روزانہ تفصیل سے اپنی ماں یا بہن کے ساتھ شیئر کرتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں، ان کی مائیں یا بہنیں نہ صرف ان باتوں کو اپنی رائے یا جذبات کے ساتھ مزید پیچیدہ بناتی ہیں، بلکہ اکثر لڑکی کو مختلف معاملات میں غیر ضروری مشورے اور ہدایات بھی دیتی ہیں۔ یہ عمل نہ صرف نئے رشتے میں اعتماد کو کمزور کرتا ہے بلکہ لڑکی کے شوہر اور اس کے خاندان کے ساتھ تعلقات میں غلط فہمیاں اور تناؤ بھی پیدا کرتا ہے۔ مداخلت کے اس انداز کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان معاملات کو خود حل کرنے کی صلاحیت ختم ہو جاتی ہے اور چھوٹے مسائل وقت کے ساتھ بڑے تنازعات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور پھر نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے۔ ایسی لڑکیوں کی خدمت میں عرض ہے کہ خدارا اپنے سسرالی مسائل خود حل کرنے کی کوشش کریں نہ کہ میکے جاکر ان کا مزید بگاڑ بنائیں ایسے کرنے سے ناصرف سسرال میں آپکی عزت خراب ہوگی بلکہ میکے والوں کے سامنے بھی آپکی حیثیت کم ہوگی۔ آپکے والدین نے کتنی جتنوں اور مسائل کا سامنا کرکے آپکی شادی کی پھر اگر آپ آکر چھوٹی چھوٹی باتیں میکے میں شکایت کریں تو اس سے والدین کا ہی دکھ بڑھے گا کسی کا کیا جانا؟ آپ ہی کے والدین پریشان ہونگے لہذا سمجھ بوجھ سے کام لیں اور ہر حال میں اپنے شوہر اور سسرال والوں کی خدامت گزار بن کررہیں اور اپنے شوہر سے اختلاف پیدا کرنے والے اسباب سے بچیں ان شاء الله الکریم آپ خود اسکے بہترین نتائج دیکھیں گے۔

4۔ بے جوڑ رشتے کرنا: بے جوڑ رشتے بھی طلاق کا ایک اہم سبب ہیں۔ کئی والدین اپنی اولاد کے لیے بڑے ہی سہانے خواب دیکھتے ہیں جیسے اچھا بنگلہ ہو، عیش و عشرت کی زندگی ہو، لڑکا اچھا کمانے والا ہو اور خود مختار ہو اور بیٹی جب اپنے سے اونچے گھر میں جاتی ہے تو وہاں کے ماحول میں خود کو ڈھال نہیں پاتی یا کبھی کبھار کچھ ایسے مسائل رونما ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ساری زندگی کے لیے طلاق کا دھبا لیے گھر میں آبیٹھتی ہے۔ کئی جگہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دین دار والدین اپنی بیٹی کو بے دین لڑکے کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ لڑکی جب لڑکے کو دین کی طرف مائل کرنا چاہتی ہے تو لڑکا اپنے جواز پیش کرتا ہے اور پھر طلاق تک نوبت چلی جاتی ہے۔والدین سے گزارش ہے کہ خدارا! اپنے بچوں کی زندگی مت خراب کریں، انہیں اس بندھن میں جوڑنے سے پہلے خوب دیکھ بھال کرلیں۔ اپنی حیثیت کے مطابق رشتے کریں اور اپنے بچوں کی تربیت ایسے خطوط پر کریں کہ وہ دوسرے گھر کو بھی اپنا سمجھیں اور اپنے آپ کو اسی ماحول میں ڈھالیں اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کو صبر و برداشت کی تلقین کریں۔ تاکہ وہ اپنے گھر کو سنواریں اور اسے برباد ہونے سے بچائیں۔ ایک وقت تھا جب ہمارے معاشرے میں لفظ طلاق کا ذکر بھی معیوب سمجھا جاتا تھا اور لوگ اسے چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن وقت کے ساتھ سماجی رویے بدل گئے ہیں، اور اب یہ لفظ نہ صرف عام طور پر بولا جاتا ہے بلکہ طلاق کی شرح میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

آئیے ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے۔ ایک موقع پر رسول اﷲﷺ نے حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے فرمایا: اے معاذ! روئے زمین پر اﷲ تعالیٰ نے کوئی ایسی چیز پیدا نہیں فرمائی جو غلام آزاد کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہو اور روئے زمین پر کوئی ایسی چیز پیدا نہیں فرمائی جو اس کے نزدیک طلاق سے زیادہ ناپسندیدہ ہو۔ (دار قطنی، 4/40، حدیث: 3939)

مزید ایک مقام پر میرے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بلاوجہ شرعی طلاق دینا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند و مبغوض و مکروہ ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 12/323)

لہذا نوجوان نسل سے بھی گزارش ہے کہ اپنے دلوں میں وسعت پیدا کریں، اگر دونوں میں کسی ایک سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو معذرت میں پہل کریں۔ غصے کے وقت خاموشی اختیار کریں۔ بحث سے جتنا ممکن ہوسکے بچیں۔ معمولی باتوں پر لڑنے کے بہ جائے درگزر سے کام لیں، تاکہ آپ کا گھر امن کا گہوارہ بن سکے۔

اللہ پاک ہمیں سمجھ عطا فرمائے اور ہمارے گھروں کو جنت کا باغ بنائے۔ آمین


بڑھتی ہوئی طلاقوں کی کئی وجوہات ہوسکتی ہے جن میں سے کثرت سے پائے جانے والے درج ذیل اسباب ہیں:

بے پردگی: عورتوں کی بے پردگی طلاقوں کی کثرت میں ایک اہم کردار ادا کرتی ہے،جیسے کہ نام کے ترقی یافتہ مغربی ممالک جن میں پردہ ترقی میں رکاوٹ ہے جو عورتوں کے بےپردہ ہونے کے خواہاں ہے۔اور پردہ کو آزادی کے خلاف سمجھتے ہیں ان ہی ممالک میں زنا کی کثرت ہے۔ اور حرام و ناجائز روابط عام،نتیجۃ میاں بیوی میں محبت کا فقدان ہے،گھر میں سکون کی دولت لاحاصل اور ایک دوسرے کی مرضی کے خلاف ہونے پر فورا طلاق۔ یوں مغربی ممالک میں کثرت طلاق میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

لاعلمی: لاعلمی یعنی شریعت میں جو خاوند و بیوی کے حقوق مذکور ہے ان کےعدم علم کی وجہ سے خاوند بیوی کو مثل نوکرانی تصور کیے ہوئے ہے اور بیوی خاوند کو اپنے زیر قدرت دیکھنا چاہتی ہے۔حالانکہ شریعت نے عورت کو اپنے شوہر کی اتنی تعظیم کا حکم دیا کہ اللہ کے علاوہ اگر کسی کو سجدہ کا حکم ہوتا ہو بیوی کو حکم ہوتا کہ خاوند کو سجدہ کرے۔دوسری جانب خاوند کو بیوی کے حقوق بتاتے ہوئے کہا کہ اگر وہ کماکر لقمہ بھی اپنی بیوی کے منہ پر ڈالتاہے تو یہ اسکے لیے صدقہ ہے۔لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے۔ نہ لوگ شریعت و علم سیکھتے ہیں کہ حقوق پتاچلے نہ حقوق ادا کرنے کا کوئی ذہن نتیجۃ فریق اول صرف اپنی من مانی چاہتا ہے اور فریق ثانی اس سے رہائی کا متلاشی ہوتاہے اور طلاق ہوجاتی ہے۔

کثرت خواہش: اس وجہ کا تعلق عورت کے ساتھ ہی ہے کہ عورت اپنے خاوند سے کثرت نفقہ کی خواہاں ہوتی ہے جبکہ شوہر کے اندر اتنی طاقت نہیں ہوتی کہ عورت کی ہر ہر خواہش پر لبیک کہےنتیجۃ عورت اس شوہر کے ساتھ رہنا پسند نہیں کرتی۔

حالانکہ شریعت نے خاوند و بیوی کو گاڑی کے دو پہیے قراردیا کہ حالات جیسے بھی ہو ایک دوسرے کا ساتھ دے کر جتنا ہے اس پر قناعت کرکےاپنی زندگی کی گاڑی کو لے کر آگے بڑھے۔

ٹی وی اور سوشل میڈیا: میرے نزدیک طلاقوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا ایک اہم سبب معاشرے میں ٹی وی اور ٹی وی کے ذریعے دیکھے جانے والے بے حیاء ڈرامے ہے،ان ڈراموں میں ساس بہو اور میاں بیوی کا جو منفی کردار سامنے لایا جاتا ہے بلاشبہ معاشرے پر اپنا اثر چھوڑتا ہے۔ٹی وی کے ساتھ سوشل میڈیا بھی گھروں کو تباہ کرنے میں اپنا پورا پورا کردار ادا کرتا ہے۔

فقدان اعتماد: میاں بیوی کا ہر وقت ایک دوسرے پر شک کرتے رہنا اور ایک دوسرے پر کسی دوسری عورت یا مرد کے ساتھ ناجائز تعلق کا الزام لگاتے رہنا بھی اس رشتہ ازدواج کو کمزور کردیتاہے۔

اسکے علاوہ بھی درج ذیل وجوہات بھی طلاق کے لیے سبب بنتی ہے:

سنی سنائی باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑتےرہنا،ذہنی ہم آہنگی کا نا ہونا،عدم بردداشت وغیرہ وغیرہ۔


نکاح کے ذریعے مردو عورت رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں۔ یہ رشتہ ان دونوں کے ما بین ایک پختہ عہد ہوتاہے۔ مرد یہ عہد کرتا ہے کہ وہ اپنی ہونے والی بیوی کے نان ونفقہ کا ذمہ دار ہو گا اور اس کے تمام حقوق کی پاسداری کرے گا۔ عورت یہ عہد کرتی ہے کہ وہ اپنے خاوند کی فرمانبرداری کرے گی، اس کی خدمت کرکے اسے سکون پہنچائے گی اور اس کے گھر اور ان کے ہاں ہونے والی اولاد کی پرورش کرے گی۔ لیکن ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ اس عظیم رشتہ کو باوجود اس کے عظیم فوائد کے اسے قائم رکھنے میں کامیاب نہیں ہوتے اور طلاق کے واقعات ہیں کہ رفتہ رفتہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ بسا اوقات معمولی معمولی باتوں پر نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے اور ہنستا بستا گھر برباد ہو جاتا ہے۔

ویسے تو طلاق کے اسباب بہت زیادہ ہیں لیکن ہم یہاں چند اہم اسباب کا تذکرہ کرتے ہیں اور نیت کرتی ہیں کہ ہم اپنی زندگی کے معاملات میں ان اسباب سے بچنے کی بھرپور کوشش کریں گی:

1۔ شکوک وشبہات اور بد گمانیاں: شکوک وشبہات اور بد گمانیوں کی بناء پر زوجین کے درمیان باہمی تعلقات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اور نوبت طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ اور بعض لوگ تو بے انتہاء شک و شبہ اور بد گمانی میں مبتلا رہتے ہیں۔اور بے بنیاد اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہی بد گمانی کر لیتے ہیں۔ اور بغیر کسی ثبوت یا دلیل کے محض سنی سنائی باتوں پر ہی یقین کرکے زوجین اپنے تعلقات کو بگاڑ لیتے ہیں۔ پھر اتنی بد اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے کہ مرد طلاق دینے کا پختہ عزم کر لیتا ہے یا بیوی اپنے خاوند سے بار بار طلاق کا مطالبہ شروع کردیتی ہے۔

2۔ عورت کی زبان درازی: بعض خواتین نہایت بد زبان ہوتی ہیں حتی کہ اپنے شوہروں کا بھی احترام نہیں کرتیں۔ ان سے بد کلامی کرتی ہیں۔ انہیں برا بھلا کہتی ہیں اور بے عزت تک کرتی ہیں ! ان میں سے بعض کو جب ان کے خاوند دھمکی دیتے ہیں کہ تم باز آجاؤ ورنہ طلاق دے دونگا۔ تو وہ جوابا کہتی ہیں: طلاق دینی ہے تو دے دو یا چیلنج کرتی ہیں کہ تم طلاق دے کر دکھاؤ ! چنانچہ مرد طیش میں آجاتے ہیں اور طلاق دے دیتے ہیں۔

3۔ خاوند کی نافرمانی: بعض بیویاں اپنے شوہروں کی نافرمان ہوتی ہیں۔ وہ ان کی کوئی پروا نہیں کرتیں۔ ہر کام میں من مانی کرتی ہیں اور ان کے شوہر انہیں جس بات کا حکم دیں یا کسی کام سے منع کریں تو وہ اس کے الٹ ہی کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اپنے خاوندوں کی شکر گذار بھی نہیں ہوتیں۔ ایسی عورتوں کا یہ طرز عمل ان کیلئے تباہ کن ہوتا ہے اور ان کے شوہر آخر کار انہیں طلاق دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

4۔ خود مختار زندگی گزارنے کی خواہش: طلاق کی شرح میں اضافے کی ایک اور اہم وجہ خود مختار زندگی گزارنے کی خواہش ہے۔ آج کی خواتین نہ صرف اپنے تعلیمی اور پیشہ ورانہ سفر میں آگے بڑھ رہی ہیں بلکہ وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کی خواہش بھی رکھتی ہیں۔ یہ خواہش انہیں ایک ایسے رشتے میں رہنے سے روکتی ہے جہاں انہیں محدود کیا جائے یا ان کی آزادی پر پابندی لگائی جائے۔ خود مختاری کی یہ خواہش اس بات کا ثبوت ہے کہ خواتین اب اپنی صلاحیتوں اور خود اعتمادی پر یقین رکھتی ہیں۔ وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ان کی زندگی کا مقصد صرف گھر کی چار دیواری میں محدود رہنا نہیں بلکہ اپنی قابلیت کے ذریعے اپنی پہچان بنانا اور سماج میں اپنا کردار ادا کرنا ہے۔ تاہم، یہ خواہش بعض اوقات ازدواجی رشتے میں چیلنج پیدا کرتی ہے، خاص طور پر جب شوہر یا سسرال کے لوگ اس آزادی کو قبول نہیں کرتے یا اسے رشتے کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

5۔ عدم برداشت: ہمیں لاحق ہو چکا ہے زندگی میں کوئی ایسا پہلو نہیں جہاں ہماری برداشت کی حد ختم نہ ہوچکی ہو میاں بیوی جیسے نازک رشتے میں برداشت کے عنصر کا ہر وقت موجود ہونا لازم وملزوم ہےاگر میاں بیوی ایک دوسرے کی باتوں کو برداشت نہیں کریں گے لچک کا مظاہرہ نہیں کریں گے تو رشتے کبھی قائم نہیں رہ سکتے۔

6۔ ذہنی ہم آہنگی کا فقدان: تمام والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بیٹے یا بیٹی کے جیون ساتھی میں لازمی طور پر وہ اخلاقی اقدار موجود ہوں جن اخلاقی اقدار کے ساتھ انہوں نے اپنے بچوں کی پرورش کی ہے رشتے طے کرتے ہوئے جب مطابقت اور ہم آہنگی کو ہی پس پشت ڈال دیا جائے تو نتیجہ پھر طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔

7۔ بے میل خاندان میں رشتہ جوڑنا: اکثر خاندان اپنے سے اونچے یا بہت نیچے خاندانوں سے رشتے جوڑ لیتے ہیں جن کے رہن سہن طور طریقوں اور زندگی گزارنے کے سٹائل میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے اور پھر انہی مس میچ رشتوں کے بیچ پڑنے والی دراڑیں طلاقوں تک پہنچ جاتی ہیں لہٰذا لومیرج ہویا ارینجڈ میرج کسی بھی صورت میں مناسب خاندانوں کا انتخاب سب سے زیادہ ضروری ہے اپنے بچوں کی زندگی خراب کرنے سے بہتر ہے کہ رشتہ ہی مناسب جگہ پر کر لیا۔

یہ چند اسباب طلاق بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اللہ پاک ہمیں ان اسباب سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اسلام آباد، 24 جون 2025 :

عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت دنیا بھر میں نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے جاری سرگرمیوں میں ایک اہم سرگرمی شعبہ قافلہ بھی ہے جس کے تحت نابینا اسلامی بھائیوں پر مشتمل ایک ماہ کا قافلہ اسلام آباد کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ سے 24 جون 2025ء کو سفر پر روانہ ہوا جس کا مقصد علمِ دین سیکھنا /سکھانا اور نیکی کی دعوت کو عام کرنا تھا۔

اس سفر کے دوران نابینا اسلامی بھائیوں کو فرض علوم، نماز و وضو کا عملی طریقہ، دعائیں، سنتیں و آداب اور نیکی کی دعوت کے اہم اصول سکھائے جائیں گے۔

اس کے علاوہ بنیادی عقائد، معمولاتِ اہلِ سنت اور دعوتِ اسلامی کے شعبہ جات کا تعارف بھی کروایا جائے گا نیز دینی ماحول سے وابستہ رہنے، ماں باپ کا ادب و احترام کرنے اور معاشرے میں ایک مثالی فرد بننے کے لئے شرکائے قافلہ کی ذہن سازی کی جائے گی تاکہ وہ دعوتِ اسلامی کے پیغام کو آگے پہنچانے کے لئے تیار ہوں۔(رپورٹ: کامران عطاری صوبائی ذمہ دار اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری) 


حیدرآباد،سندھ:

24 جون 2025ء کو مدنی مرکز فیضان مدینہ، آفندی ٹاؤن، حیدرآباد میں شعبہ مدنی کورسز دعوتِ اسلامی کے تحت گزشتہ 63 دن سے جاری رہنے والے مدنی تربیتی کورس اور اصلاحِ اعمال کورس کی اختتامی نشست کا انعقاد کیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق ان کورسز میں اسلامی بھائی نہ صرف فرائض و نوافل کی ادائیگی میں مشغول رہے بلکہ معلم کورس خالدحسین عطاری نے نماز کے مختلف پہلوؤں، شرائط اور مفسداتِ نماز کے بارے میں انہیں مفید معلومات فراہم کیں۔

مدنی تربیتی کورس میں اسلامی بھائیوں نے نمازِ تہجد، نمازِاشراق و چاشت، نمازِاوابین اور نماز جنازہ کے طریقہ کٔار سمیت دیگر اہم دینی امور سیکھے جبکہ نماز کی شرائط، فرض، واجبات، مفسدات اور نماز کے مکروہات کے بارے میں اُن کی تربیت بھی کی گئی۔

اس کے علاوہ کپڑوں کی پاکیزگی، نیکی دعوت اور 12 اہم دینی کاموں جیسے فجر کے لئے جگانے، تفسیر سننے سنانے کے حلقے، مدرسۃ المدینہ بالغان نیز نیک اعمال کے سلسلے میں اسلامی بھائیوں کی رہنمائی کی گئی۔

بعدازاں اصلاحِ اعمال کورس بھی منعقد ہوا جس میں تکبر، ریاکاری، غیبت، جھوٹ، پیٹ کا قفل اور پیٹ بھر کر کھانے کے نقصانات کے موضوعات پر روشنی ڈالی گئی جبکہ شرکائے کورس نے نگاہیں جھکا کر چلنے، نیک اعمال کے مطابق زندگی گزارنے اور دیگر اہم اسلامی اخلاقیات سیکھیں۔اختتامی نشست میں شعبہ رابطہ برائے تاجران کے ذمہ دار اسلامی بھائی نے ”استقامت“ کے موضوع پر بیان کیا۔ (رپورٹ: محمداحمدسیالوی عطاری رکن شعبہ مدنی کورسزواعتکاف، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)

شعبہ قافلہ دعوتِ اسلامی کے تحت 20جون 2025ء کو سندھ کی مختلف ڈویژنز (جن میں حیدرآباد ، بھنبھور،نوابشاھ ، میر پور خاص ، سکھر اور لاڑکانہ شامل ہیں) سے کثیر عاشقانِ رسول ایک ماہ قافلے میں سفر کرنے کے لئے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مدنی مرکز فیضانِ مدینہ میں جمع ہوئے۔

اس دوران عاشقانِ رسول کی تربیت و رہنمائی کے لئے 2 دن کا تربیتی اجتماع ہوا جس میں عرفات رضا عطاری (صوبائی مشاورت معاون نگران)، سہیل عطاری (صوبائی قافلہ ذمہ دار)،اویس چشتی عطاری اور مولانا شاکر عطاری مدنی (12 ماہ پاکستان سطح کے ذمہ دار) سمیت مختلف ذمہ داران نے شرکا کی ذہن سازی کی۔

بعدازاں امیرِ قافلہ کا مدنی مشورہ ہوا اور تمام عاشقانِ رسول کشمیر KPK کے مختلف سمتوں میں روانہ ہو گئے۔(رپورٹ: علی حسن عطاری شعبہ قافلہ 12 ماہ سندھ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


لوگوں کے عقائد و نظریات کی درستگی کرنے اور  اُن کی اصلاح کے لئے 25 جون 2025ء کو کراچی کے علاقے لانڈھی میں قائم جامع مسجد حنفیہ چشتیہ میں مقامی عاشقانِ رسول کے لئے ”اصلاحِ عقیدہ کورس“ منعقد ہوا۔

اس موقع پر دارالافتاء اہلسنت دعوتِ اسلامی کے مفتی شفیق عطاری مدنی نے نہ صرف عقائد کے موضوع پر بیان کیا بلکہ عقائد سے متعلق عاشقانِ رسول کی جانب سے کئے گئے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔

اسی طرح مفتی محمد شفیق عطاری نے کورس میں موجود عاشقانِ رسول کی ذہن سازی کرتے ہوئے انہیں اپنے عقائد کی اصلاح کے لئے دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے ہردم وابستہ رہنے کی ترغیب دلائی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔(رپورٹ:مولانا محمد حاشر عطاری مدنی ، ڈویژن ساؤتھ کورسز ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


کرچی کے علاقے ڈیفنس، فیز 4 میں واقع جامع مسجد فیضانِ رمضان میں دعوتِ اسلامی کے شعبہ مدنی کورسز کے تحت اسلامی معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے  3 دن کا Basics of Islam کورس کروایا گیا جس میں اسٹوڈنٹس کی شرکت ہوئی ۔

معلومات کے مطابق یہ کورس 20، 21 اور 22 جون 2025ء کو منعقد ہوا جس میں اسٹوڈنٹس کو نماز، اخلاقیات اور سنتیں و آداب جیسی بنیادی اسلامی باتیں سکھائی گئیں۔

کورس کے اختتام پر اسٹوڈنٹس سے ٹیسٹ لیا گیا جس میں کامیاب ہنے والے اسٹوڈنٹس کی حوصلہ افزائی کے لئے اُن کے درمیان سرٹیفیکٹس تقسیم کئے گئے۔(رپورٹ:مولانا محمد حاشر عطاری مدنی ، ڈویژن ساؤتھ کورسز ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دعوت اسلامی کے شعبہ قافلہ کے زیر اہتمام 24 جون 2025ء بروز بدھ مدنی مرکز فیضانِ مدینہ فیصل آباد مدینہ ٹاؤن میں عظیم الشان ”قافلہ اجتماع“ کا انعقاد کیا گیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں عاشقانِ رسول شریک ہوئے۔  اس موقع پرنگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری، اراکین شوریٰ حاجی محمد امین عطاری، حاجی وقار المدینہ عطاری، حاجی محمد اسلم عطاری، حاجی محمد اظہر عطاری اور مولانا حاجی محمد جنید عطاری مدنی بھی موجود تھے۔

عالمی اسلامک اسکالر و نگرانِ شوریٰ مولانا حاجی محمد عمران عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے”علم دین حاصل کرنے“ کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان کیا ۔ نگران شوریٰ نے فرمایا کہ دعوتِ اسلامی کے ماحول میں علمِ دین حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ مدنی قافلے میں سفر کرنا اور مدنی مذاکرہ دیکھنا بھی ہے۔مدنی قافلوں میں سیکھنے سکھانے کے حلقے لگائے جاتے ہیں جس میں نماز، غسل اور وضوکا طریقہ سکھایا جاتا ہے ، فرائض و واجبات بتائے جاتے ہیں، بیانات کا سلسلہ ہوتا ہے۔آپ نےکہا کہ دنیا میں ہر انسان کسی نہ کسی کی محبت میں گرفتار ہوتا ہے لیکن خوش نصیب ہے وہ شخص جسے اللہ پاک علم دین کی محبت عطا کرتا ہے۔دین اسلام کو سیکھنے، قرآن و حدیث کی تعلیمات کو سمجھنے اورآقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری پیاری سنتوں پر عمل کرنے کے لئے علم دین کا سیکھنا بہت ضروری ہے اور علم دین سیکھنے کا آسان ذریعہ مدنی قافلوں میں سفر کرنا ہے۔دعوتِ اسلامی ہمیں علم دین سیکھنے کے لئے وقتاً وقتاً بہت سارے مواقع فراہم کرتی رہتی ہے ۔

علم دین سیکھنے پر نگرانِ شوریٰ نے فرمان رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سناتے ہوئے فرمایا کہ ”جو طلب علم کے لئے کسی راستے پر چلاتو اللہ پاک اُسے جنت کے راستے پر چلا دے گا“ تونہ صرف ہم نے قافلے میں سفر کرنا ہے بلکہ اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب کو بھی احسن طریقے سے قافلے کی دعوت دینی ہے اور اپنے ساتھ مدنی قافلے میں سفر کروانا ہے۔

اجتماع میں شرکا کو گناہوں سے بچنے، بے حیائی سے بچنے اور نیکیوں بھری زندگی گزارنے کی ترغیب دلائی گئی۔صلوۃ و سلام اور دعا پر اجتماع کا اختتام ہوا۔