خواہشات کی
زیادتی کے ارادے کا نام حرص ہے اوربری حرص یہ ہے کہ اپنا حصہ حاصل کرلینے کے
باوجود دوسرے کے حصے کی لالچ رکھے۔ یا کسی چیز سے جی نہ بھرنے اور ہمیشہ زیادتی کی
خواہش رکھنے کو حرص،اور حرص رکھنے والے کو حریص کہتے ہیں۔
حرص ایک ایسا
باطنی عمل ہے کہ جو ہوتا تو باطن میں ہے لیکن اظہار ظاہر سے بھی ہو جاتا ہے۔ حرص
کا تعلق فقط مال و دولت سے نہیں حرص کسی شے کی مزید خواہش کرنے کا نام ہے چنانچہ
مزید مال کی خواہش رکھنے والے کو مال کا حریص مزید کھانے کی خواہش رکھنے والے کو
کھانے کا حریص نیکیوں میں اضافے کے تمنائی کو نیکیوں کی حریص جبکہ گناہوں کا بوجھ
بڑھانے والےکو گناہوں کا حریص کہیں گے لالچ اور حرص خوراک، لباس، مکان، سامان، دولت،
عزت، شہرت الغرض ہر نعمت میں ہو سکتی ہے۔
حرص کی تین
قسمیں ہیں: حرص محمود یعنی اچھی حرص، حرص مذموم یعنی بری اور قابلِ مذمت حرص اور حرص
مباح یعنی جائز حرص۔ اچھی چیز کی حرص اچھی اور بری چیز کی حرص بری ہے لہذا نیکیوں مثلا
نماز، روزہ، زکوة، حج، صدقہ، خیرات، تلاوت، ذکر اللہ، درود پاک، حصول علم دین، صلہ
رحمی، خیر خواہی اور نیکی کی دعوت عام کرنے کی حرص محمود یعنی اچھی ہے۔ گناہوں
مثلا رشوت، چوری، بدنگاہی، زنا، اغلام بازی، امرد پسندی، حب جاہ، فلمیں ڈرامے دیکھنے،
گانے باجے سننے، نشے، جوئے کی حرص، غیبت، تہمت، چغلی، گالی دینے، بدگمانی، لوگوں
کے عیب ڈھونڈنے اور انہیں اچھالنے و دیگر گناہوں کی حرص مذموم یعنی برا اور اس سے
بچنا لازم۔ کھانا پینا،سونا، پینا، دولت اکھٹی کرنا، مکان بنانا،تحفہ دینا، عمدہ
یا زائد لباس پہننا،و دیگر کئی کام مباح یعنی جائز کہ ان کے کرنے میں نہ گناہ نہ
ثواب، لہذا ان کی حرص میں بھی نہ گناہ نہ ثواب البتہ اچھی نیت سے کیا جائے تو اچھا،اس
کی حرص بھی اچھی اور بری نیت سے برا اور اس کی حرص بھی بری اور اس سے بچنا لازم ہے۔
وَ لَتَجِدَنَّهُمْ اَحْرَصَ
النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍۚۛ-وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْاۚۛ-یَوَدُّ اَحَدُهُمْ
لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍۚ-وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ الْعَذَابِ اَنْ
یُّعَمَّرَؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۠(۹۶) (پ 1،
البقرۃ:96)ترجمہ: بےشک تم ضرور انہیں پاؤ گے کہ سب لوگوں سے زیادہ جینے کی ہوس
رکھتے ہیں اور مشرکوں سے ایک کو تمنا ہے کہ کئی ہزار پر سے جی ہیں اور وہ اس سے
اعزاز سے دور نہ کر کرے گا اتنی عمر دی ہے جانا کہ اللہ ان کے کو تک یعنی برے عمل
کو دیکھ رہا ہے۔ مکمل
فرمانِ مصطفیٰ
ﷺ ہے: اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں بھی ہوں تب بھی وہ تیسرے کی خواہش کرے
گا اور ابن آدم کا پیٹ قبر کی مٹی ہی بھر سکتی ہے۔ (مسلم، ص 404، حدیث: 2419)
نیکیوں کی حرص
بڑھانے کے لئے نیکیوں کے فضائل کا مطالعہ کیجیے، نیک لوگوں کی صحبت اختیار کیجیے، رضائے
الہی پانے کی نیت سے راہ عمل پر قدم رکھ دیجیے، بزرگان دین کے شوق عبادت کے واقعات
کا مطالعہ کیجیے۔
گناہوں کی حرص
سے بچنے کے لئے گناہوں کی پہچان حاصل کیجیے
گناہوں کے نقصانات و عذابات پر غور کیجیے نیک لوگوں کی صحبت اختیار کیجیے دینی کتب
و رسائل کا مطالعہ کیجیے برے خاتمے سے ڈریئے اور حسن خاتمہ کی دعا کیجیے اللہ۔پاک
کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہیے۔
لالچ ایک منفی
جذبہ ہے جو انسان کو بے پناہ خواہشات میں مبتلا کر دیتا ہے۔ یہ جذبہ انسان کے دل و
دماغ میں اس طرح گھر کر لیتا ہے کہ وہ دوسروں کی چیزوں کی خواہش میں اپنی عقل و
فطرت کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔ لالچ کی بنا پر انسان اپنی اصل ضروریات سے
تجاوز کر جاتا ہے اور اسے ہمیشہ زیادہ کی طلب رہتی ہے، چاہے اس کا حاصل کرنا ممکن
نہ ہو۔
لالچ کا آغاز
انسان کی فطری خواہشات سے ہوتا ہے، لیکن جب یہ خواہشات حد سے بڑھ جاتی ہیں تو یہ
لالچ میں بدل جاتی ہیں۔ انسان اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے دوسروں کے حقوق کو
پامال کرنے لگتا ہے۔ اس سے نہ صرف اخلاقی نقصان ہوتا ہے، بلکہ معاشرتی تعلقات بھی
متاثر ہوتے ہیں۔ لالچ کی وجہ سے فرد اپنی زندگی میں سکون کی بجائے بےچینی کا سامنا
کرتا ہے، کیونکہ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو کبھی تسلی نہیں پاتا۔
لالچ کا اثر
نہ صرف فرد کی شخصیت پر پڑتا ہے بلکہ یہ پورے معاشرے میں بھی پھیل سکتا ہے۔ جب لوگ
ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں، تو ان کے درمیان حسد اور بغض پیدا ہوتا
ہے۔ اس کے نتیجے میں انسانی تعلقات میں دراڑ آتی ہے اور معاشرتی ہم آہنگی ختم ہوتی
ہے۔
اسلام میں بھی
لالچ کو برا قرار دیا گیا ہے۔ قرآن اور حدیث میں اس کے بارے میں سختی سے متنبہ کیا
گیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص لالچ
میں مبتلا ہوتا ہے، وہ کبھی بھی سکون کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا
ہے کہ لالچ انسان کو دلی سکون سے دور کر دیتا ہے۔
آخرکار، لالچ
کے اثرات انتہائی منفی ہوتے ہیں۔ اس سے انسان اپنے اصولوں اور اخلاقیات سے ہٹ کر
کام کرتا ہے اور اپنی اصل ضروریات کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ اس لیے انسان کو اپنی
خواہشات کو معتدل رکھنا چاہیے اور لالچ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وہ ایک
کامیاب اور خوشحال زندگی گزار سکے۔
قرآن مجید میں
لالچ یا حرص کے بارے میں کئی مقامات پر ذکر آیا ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے انسانوں
کو اس منفی جذبے سے بچنے کی ہدایت دی ہے۔ لالچ انسان کو ہمیشہ زیادہ کی طلب میں
مبتلا کرتا ہے اور اس کی روحانی اور دنیاوی سکون کو چھین لیتا ہے۔
قرآن مجید میں
سورہ آل عمران کی آیت 14 میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی حرص و طمع کو ذکر کیا ہے: زُیِّنَ لِلنَّاسِ
حُبُّ الشَّهَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ
الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّةِ وَ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَ
الْاَنْعَامِ وَ الْحَرْثِؕ-ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ اللّٰهُ
عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ(۱۴)ترجمہ: لوگوں کے لیے خواہشات (کی محبت)
خوشنما بنا دی گئی ہے، جیسے عورتیں، بچے، سونے چاندی کے خزانے، نشان زدہ گھوڑے،
مویشی اور کھیت۔ یہ سب دنیا کی زندگی کا سامان ہیں، لیکن اللہ کے پاس بہترین انجام
ہے۔ مکمل
اس آیت میں
اللہ تعالیٰ نے دنیا کی عارضی چیزوں کی محبت کو لالچ کے طور پر بیان کیا ہے اور
فرمایا کہ یہ سب فانی ہیں، جبکہ اللہ کے پاس حقیقی انعام اور سکون ہے۔
قرآن میں حرص
کو انسان کی ایک بری صفت کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس سے بچنے کی تاکید کی
گئی ہے۔ قرآن مجید کی روشنی میں لالچ ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو دنیا کی فانی
چیزوں کی طرف راغب کرتی ہے اور اس سے اس کا دل اور روح سکون سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی خواہشات کو اعتدال میں رکھنے اور دنیا کی محبت کو آخرت کی
محبت سے کم کرنے کی ہدایت دی ہے تاکہ ہم اپنے اعمال میں توازن رکھ سکیں اور اللہ
کے راستے پر چل سکیں۔
حدیث کی روشنی
میں لالچ (حرص) کو ایک بہت ہی ناپسندیدہ اور منفی صفت قرار دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ
نے اپنی مختلف حدیثوں میں اس پر زور دیا کہ انسان کو لالچ سے بچنا چاہیے، کیونکہ
یہ انسان کو اپنی ضروریات سے زیادہ خواہشات میں مبتلا کر دیتا ہے اور اس کے اندر
سکون نہیں رہتا۔
لالچ
کے نقصانات: لالچ
انسان کو سکون سے محروم کر دیتا ہے، لالچ سے انسان کے اخلاق اور عمل متاثر ہوتے
ہیں، جو شخص دنیا کی لالچ میں مبتلا ہوتا ہے، وہ کبھی خوش نہیں رہ سکتا، دل میں
لالچ پیدا کرنا انسان کے اندر ہر برائی کو جنم دیتا ہے اور وہ دنیا اور آخرت میں
خسارے میں پڑتا ہے، لالچ انسان کو ہر قسم کی برائیوں کا شکار بناتا ہے اور اس کی
دنیا و آخرت میں ناکامی کا سبب بنتا ہے۔
کسی چیز میں
حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہو نا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔ (باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص 190)
اللہ قرآن پاک
میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اس سے یہ
معلوم ہوا کہ جن شخصیات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیا گیا وہی حقیقی طور پر کامیاب
ہیں اور یہ بھی پتہ چلا کہ یہ ایسی باطنی بیماری ہے کہ جس سے بچنا مشکل ہے جس پر
اللہ کا خاص فضل و کرم ہو وہی حرص و لالچ سے بچ سکتا ہے۔
اخروی معاملات
میں (نیکیوں میں) لالچ، حرص اچھی ہے اور لالچ اگر دنیاوی چیزوں میں ہو تو برا ہے مثلا
کسی کو مال و دولت کا لالچ ہوتا ہے کسی کو کھانے کا کسی کو اچھے کپڑے بیگ جوتے یا عزت وغیرہ حاصل کرنے کا (اگر کوئی اچھی نیت نہ ہو)۔
لالچ انسان کو
اندھا کر دیتا ہے جیسے بلعم بن باعوراء جو اپنے دور کا بہت بڑا عالم عابداور زاہد
تھا وہ مستجاب الدعوات تھا لیکن مال و دولت کی حرص نے اس کا ایمان تک تباہ کردیا۔
حضور سید
المرسلین ﷺ نے ارشاد فرمایا: دو بھوکے بھیڑئے بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دئیے جائیں
تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور مرتبے کی حرص کرنے والا اپنے دین کیلئے
نقصان دہ ہے۔ (ترمذی، 4/ 166، حدیث: 2383)
حضرت حکیم بن
حزام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اکرم ﷺ نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے حکیم! یہ
مال تروتازہ اور میٹھا ہے، جو اسے اچھی نیت سے لے تو اس میں اسے برکت دی جاتی ہے
اور جو اسے قلبی لالچ سے لے گا تو اس میں ا سے برکت نہیں دی جاتی اور وہ اس شخص کی
طرح ہو جاتا ہے جو کھائے اور شکم سیر نہ ہو اور (یاد رکھو) اوپر والا ہاتھ نیچے
والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ (بخاری، 4/ 230،
حدیث: 6441)
حضرت عبد اللہ
بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئيں،
لالچ نے انہيں بخل پر آمادہ کيا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خيال دلايا
تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
حکم مال ودولت
کی ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو، یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ
ختم کردے، نہایت ہی قبیح، گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی
بیماری ہے، مال ودولت کے لالچ میں پھنسنے والا شخص ناکام ونامراد اور جو ان کے
مکروہ جال سے بچ گیا وہی کامیاب وکامران ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 191)
لالچ جب کسی
چیز سے متعلق دل میں محسوس ہو تو اس بارے میں غور کر لیا جائے کہ کیا یہ آخرت کے
لیے بہتر ہے یا دنیاوی چیز سے متعلق ہے کیا کوئی اچھی نیت بھی ہے؟ شح، طمع یعنی
لالچ غفلت میں ڈال دیتی ہے اس سے بچنا
چاہیے کہ اس نے بلعم بن باعورا کی دنیا و آخرت کیسے برباد کر دی تھی؟
اللہ پاک ہمیں
تمام جسمانی و باطنی بیماریوں سے نجات عطا فرمائے آمین اور ہمارا دل نور حق سے
منور فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ
ہم میں سے ہر
ایک کو اس دنیا میں اپنے اپنے حصے کی زندگی گزار کرجہان آخرت کے سفر پر روانہ
ہوجانا ہے۔اس سفر کے دوران ہمیں قبرو حشر اور پل صراط کے نازک مرحلوں سے گزرنا پڑے
گا، اس کے بعد جنت یا دوزخ ٹھکانہ ہوگا۔ اس دنیا میں کی جانے والی نیکیاں دار آخرت
کی آبادی جبکہ گناہ بربادی کا سبب بنتے ہیں۔جس طرح کچھ نیکیاں ظاہری ہوتی ہیں جیسے
نماز اورکچھ باطنی مثلاً اخلاص۔ اسی طرح بعض گناہ بھی ظاہری ہوتے ہیں جیسے قتل
اوربعض باطنی جیسے لالچ۔لہذا اب یہاں ایک باطنی گناہلالچ کے بارے میں کچھ ملاحظہ
ہو۔
کسی چیز میں
حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا طمع یعنی لالچ کہلاتا ہے۔
(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 190)
اللہ پاک قرآن
کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اس آیت سے
معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیاگیا وہ حقیقی طور پر کامیاب
ہیں اوریہ بھی معلوم ہواکہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنابہت مشکل ہے اورجس پر
اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتووہی اس عادت سے بچ سکتاہے۔یہ عادت کس قدر نقصان دہ ہے
اس کا اندازہ درج ذیل حدیث پاک سے لگایا جاسکتا ہے، چنانچہ
حضر ت جابربن
عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ظلم کرنے سے ڈرو کیونکہ
ظلم قیامت کا اندھیراہے اور شح (یعنی نفس کے لالچ) سے بچو کیونکہ شح نے تم سے پہلی
امتوں کوہلاک کردیا کہ اسی نے ان کوناحق قتل کرنے اور حرام کام کرنےپرابھارا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث: 6576)
ایک اور جگہ
ارشاد فرمایا: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدينہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قوميں لالچ کی وجہ سے ہلاک
ہوئيں، لالچ نے انہيں بخل پر آمادہ کيا تو وہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا
خيال دلايا تو انہوں نے قطع رحمی کی اور جب گناہ کا حکم ديا تو وہ گناہ ميں پڑ
گئے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث: 1698)
حجۃ الاسلام
حضرت امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ظاہری اعمال کا باطنی اوصاف کے
ساتھ ایک خاص تعلق ہے۔ اگر باطن خراب ہو تو ظاہری اعمال بھی خراب ہوں گے اور اگر
باطن حسد، ریا اور تکبّر وغیرہ عیوب سے پاک ہو تو ظاہری اعمال بھی درست ہوتے ہیں۔
(منہاج العابدین، ص 13 ملخصًا)
باطنی گناہوں
کا تعلق عموماً دل کے ساتھ ہوتا ہے۔ لہٰذا دل کی اصلاح بہت ضروری ہے۔ مال ودولت کی
ایسی طمع (لالچ) جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو، یا ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ ختم
کردے، نہایت ہی قبیح، گناہوں کی طرف رغبت دلانے والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی
بیماری ہے، مال ودولت کے لالچ میں پھنسنے والا شخص ناکام ونامراد اور جو ان کے
مکروہ جال سے بچ گیا وہی کامیاب وکامران ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 191)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں لالچ سے بچا کر قناعت کی عظیم دولت سے مالا مال فرمائےاور
لالچ جیسی اور مہلک بیماریوں سے بچائے۔ آمین
کسی چیز سے جی
نہ بھرنے اور ہمیشہ زیادتی کی خواہش رکھنے کو حرص یعنی لالچ اور حرص رکھنے والے کو
حریص یعنی لالچی کہتے ہیں۔ (مراۃ المناجیح، 7/86) عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ
لالچ کا تعلق صرف مال ودولت اور کھانے کے ساتھ ہوتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے
کیونکہ لالچ یعنی حرص تو کسی شے کی زیادتی کا نام ہے اور وہ چیز کچھ بھی ہو سکتی
ہے چاہے مال ہو یا کچھ اور۔ چنانچہ مزید مال کی خواہش رکھنے والے مال کا حریص،
زیادہ کھانے کی خواہش رکھنے والے کو کھانے کا حریص، نیکیوں میں اضافے کی تمنا کرنے
والوں کو نیکیوں کا حریص کہیں گے۔
اللہ پاک قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ
الشُّحَّؕ- (پ 5، النساء: 125) ترجمہ: اور دل لالچ
کے پھندے میں ہیں۔ مکمل تفسیر خازن میں اس
آیت کے تحت ہے: لالچ دل کا لازمی حصہ ہے کیونکہ یہ اسی طرح بنایا گیا ہے۔ لالچ کی
تین قسمیں ہیں لالچ کا تعلق جن کاموں سے ہوتا ہے ان سے کچھ کام باعث ثواب ہوتے ہیں
اور کچھ باعث عتاب۔ بعض کام محض مباح یعنی جائز ہوتے ہیں یعنی اس کو کرنے پر کوئی
ثواب ملتا ہے اور نہ ہی چھوڑنے پر عتاب ہوتا ہے لیکن مباح کام اگر اچھی نیت سے کرے
تو ثواب کا مستحق، برے ارادے سے کرے تو عذاب نار کا حقدار ہوگا۔ 1 حرص محمود (اچھی چیزوں کی لالچ) 2 حرص مذموم (برائیوں اور گناہوں کی لالچ) 3 حرص مباح (یعنی جائز چیزوں کی لالچ)۔ (حرص، ص 13)
ہمیں کونسی
حرص یعنی لالچ اپنانی چاہیے پیاری پیاری اسلامی بہنوں حرص یعنی لالچ کی تینوں
قسمیں ہمارے سامنے ہیں اور یہ بھی کھلی حقیقت یے لالچ ہماری طبیعت رچی بسی ہے ہم
اس سے مکمل طور پر کنارہ کشی اختیار نہیں کر سکتے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں
کونسی لالچ اپنانی چاہیے۔ حرص محمود ایسی لالچ ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں مفید
ہے اور نقصان کچھ نہیں۔ حرص محمود جو انسان کو جنت کے اعلی درجوں تک پہنچانے کا وسیلہ
بنتی ہے۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: اس پر حرص کرو جو تمہیں نفع دے اور اللہ تعالیٰ سے مدد
مانگو عاجز نہ ہو۔ شارح مسلم حضرت علامہ شرف الدین نووی اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں:
یعنی اللہ پاک کی عبادت میں خوب حرص کرو اور اس پر انعام کا لالچ رکھو اور اس
عبادت میں بھی اتنی کوشش پر بھروسہ کرنے کی بجائے اللہ سے مدد مانگو۔ (حرص، ص 19)
حضور ﷺ نے
فرمایا: یعنی نیکی کی کسی بات کو حقیر نہ سمجھو چاہے وہ تمہارا اپنے بھائی سے خندہ
پیشانی سے ملاقات کرنا ہی ہو برائی چاہے چھوٹی ہو اس کو چھوٹا نہ سمجھنا ہر گناہ
جہنم میں لے جانے کا سبب بن سکتا ہے۔ (حرص، ص 21) معلوم ہوا گناہ چاہے چھوٹا ہی ہو
جہنم میں لے جانے کا سبب ہے ثابت ہوا گناہوں کی حرص مذموم ہے۔
اللہ پاک ہمیں
نیکیوں کی حرص عطا فرمائے آمین
وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ
فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر: 9) ترجمہ: اور جو اپنے
نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
کسی چیز میں
حد درجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہونا لالچ کہلاتا ہے اس کا دوسرا
نام طمع بھی ہے۔ لالچ ایک باطنی بیماری ہے اس سے حفاظت بندے کے لیے بہت ضروری ہے
یہ معاشرے میں پایا جانے والا عام اور چھوٹا گناہ سمجھا جاتا ہے ہمیں اس چھوٹے
گناہ سے بھی بچنا ہے کہ حضرت بلال بن سعد فرماتے ہیں: گناہ کے چھوٹا ہونے کو نہ
دیکھو بلکہ یہ دیکھوں کہ تم کس کی نافرمانی کر رہے ہو۔ (الزواجر عن اقراف الکبائر،
1/ 27)
مال و دولت کی
ایسی طمع جس کا کوئی دینی فائدہ نہ ہو،یا
ایسی اچھی نیت نہ ہو جو لالچ ختم کر دے،نہایت ہی بری،گناہوں کی طرف رغبت دلانے
والی اور ہلاکت میں ڈالنے والی بیماری ہے،مال و دولت کے لالچ میں پھنسنے والا شخص
ناکام ونامراد اور جوان کے مکرو ہ جال سے بچ گیا وہی کامیاب و کامران ہے۔
رسول اللہﷺ
فرماتے ہیں: ظلم کرنے سے ڈرو کیونکہ ظلم قیامت کا اندھیرا ہے اور شح(نفس کےلالچ)
سے بچو کہ تم سے پہلی امتوں کو ہلاک کردیا کہ اسی نے ان کو ناحق قتل کرنے اور حرام
کام کرنے پر ابھارا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث: 6576)
مروی ہے کہ
حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے اور یہ دعا مانگ
رہے تھے: اے اللہ! مجھے میرے نفس کی حرص سے بچا۔اس سے زائد وہ کچھ
نہیں کہتے تھے، جب ان سے اس کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: جب
مجھے میرے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا گیا تو نہ میں چوری کروں گا،نہ زنا کروں گا
اور نہ ہی میں نے اس قسم کا کوئی کام کیا ہے۔
(صراط الجنان، 10/76)
لالچ
کے اسباب: مال
و دولت سے محبت، طول امل یعنی لمبی امیدیں، خواہشات کی کثرت، اپنے ذاتی مفادات کا
حصول، لالچ کے اسباب یوں تو بہت ہیں لیکن قلم یہاں لکھنے سے قاصر ہے۔
اللہ پاک ہمیں
لالچ اور اس جیسی تمام باطنی و ظاہری بیماریوں سے بچائے۔
لالچ ایک ایسی
آفت ہے کہ دودھ پیتا بچہ ہو یا کڑیل جوان ہو یا پھر سو سال کا بوڑھا، مرد ہو یا
عورت، حاکم و محکوم ہو یا مزدور، غریب ہو یا امیر، عالم ہو یا جاہل اس سے بچ نہیں
سکتا یہ الگ بات ہے کہ کسی کو آخرت کی حرص(لالچ) ہوتی ہے تو کسی کوو مال و دولت
کی، کسی کو عزت و شہرت کی۔
لالچ
کی تعریف: کسی
چیز میں حد ردرجہ دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہو نا طمع یعنی لالچ
کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 190)
ارشادِ
خداوندی ہے: وَ
اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّؕ- (پ 5، النساء: 125) ترجمہ: اور دل لالچ کے پھندے میں ہیں۔ مکمل تفسیر خازن میں اس آیت کے تحت ہے: لالچ دل
کا لازمی حصہ ہے کیونکہ یہ اسی طرح بنایا گیا۔ (تفسیر خازن، 1/437)
قرآن کریم میں
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
اس آیت سے
معلوم ہوا کہ جن حضرات کے نفس کو لالچ سے پاک کر دیاگیا وہ حقیقی طور پر کامیاب
ہیں اوریہ بھی معلوم ہواکہ نفس کے لالچ جیسی بری عادت سے بچنابہت مشکل ہے اورجس پر
اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتووہی اس عادت سے بچ سکتاہے۔
رسول اللہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: ظلم کرنے سے ڈروکیونکہ ظلم قیامت کااندھیراہے اورشح (یعنی نفس کے
لالچ)سے بچوکیونکہ شح نے تم سے پہلی امتوں کوہلاک کردیاکہ اسی نے ان کوناحق قتل
کرنے اور حرام کام کرنے پرابھارا۔ (مسلم، ص 1069، حدیث:
6576)
لالچ
کا علاج:
لالچ سے بچنے کی دعا کیجیے، دعا مومن کا ہتھیار ہے، اس ہتھیار کو لالچ(حرص) کے
خلاف بھی استعمال کیجیے لالچ سے نجات کے لیے بارگاہ الٰہی میں گڑگڑا کر دعا مانگیے،
لالچ کے نقصان پر غور کیجیے لالچ کا علاج مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں، اگر اسکے
نقصانات پر ہماری توجہ ہو جائے تو ان شاءاللہ علاج کی مشقت برداشت کرنا سہل ہو
جائیگا۔ صبر و قناعت سے علاج کیجیے لالچ کا ایک علاج صبر و قناعت بھی ہے یعنی بندے
کو جو کچھ رب کی طرف سے مل جائے اس پر راضی رہے اور شکر ادا کرے۔
لہذا ایک
پرامن اور خوشحال زندگی کیلئے اپنی بنیادی ضروریات کو ترجیح دینا، اپنی خواہشات کو
محدود رکھنا اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر مطمئن ہونا لازمی ہے۔ ہمیں زندگی میں
مثبت رویہ اختیار کر کے اللہ کی نعمتوں کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ ہمیں چاہئے کہ ہر
حال میں صبر، اطمینان اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرکے بہترین زندگی گزارنے کا نمونہ
پیش کریں۔
اللہ پاک ہمیں
لالچ جیسی بری آفت سے محفوظ رکھے۔ آمین
کسی چیز میں حددرجہ
دلچسپی کی وجہ سے نفس کا اس کی جانب راغب ہو جانا یا اس یا کسی چیز سے جی نہ بھرنے
اور ہمیشہ اس کی خواہش رکھنے کو حرص کہتے ہیں اور حرص رکھنے والے کو حریص کہتے ہیں۔
حرص کی تین
قسمیں ہیں: حرص محمود یعنی اچھی حرص، حرص مذموم اور حرص مباح یعنی جائز حرص۔ ہم نے
کون سی حرص اپنانی ہے دنیا کی محبت میں زیادتی اور آخرت کی الفت میں کمی کی وجہ سے
مسلمانوں کی بھاری اکثریت شوق و عبادت سے کوسوں دور گناہوں کی حرص کے بہت قریب ہے۔
حرص کی تینوں قسمیں ہمارے سامنے ہیں اور یہ کھلی حقیقت ہے کہ حرص یعنی لالچ ہماری
طبیعت میں رچی بسی ہے ہم اس سے مکمل طور پر کنارہ کش نہیں ہو سکتے لیکن اس حرص کا
رخ موڑنا ہمارے اختیار میں ہے اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے ہمیں کون سی حرص بنانی
چاہیے اور ہمیں اس حرص کو کہاں اپنانا چاہیے تو اس کا جواب بڑا آسان سا ہے کہ ان
کاموں میں جن سے دنیا و آخرت کا نفع ہی نفع حاصل ہوتا ہے نقصان کچھ نہ ہو اور یہ
خوبی صرف اور نیکیوں کی حرص میں ہی پائی جاتی ہے۔
قرآن پاک میں
ارشاد ہے: وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ
نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) (پ 28، الحشر:
9) ترجمہ: اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل
فرمان مصطفیٰ ﷺ:
لالچ سے بچتے رہو کیونکہ تم سے پہلی قومیں لالچ کی وجہ سے ہلاک ہوئیں لالچ نے
انہیں بخل پر آمادہ کیا اور یہ بخل کرنے لگے اور جب قطع رحمی کا خیال دلایا تو
انہوں نے قطع رحمی کی جب گناہ کا حکم دیا تو وہ گناہ کرنے لگے۔ (ابو داود، 2/185، حدیث:
1698) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: جوں جوں ابنِ آدم کی عمر بڑھتی ہے اس کے ساتھ دو
چیزیں بھی بڑھتی ہیں: مال کی محبت اور لمبی عمر کی خواہش۔ (بخاری، 4/224، حدیث: 6421)
بزرگان دین کو
اپنا آئیڈیل بنا لیجئے جس طرح مال کے حریص لوگ مالداروں کو اپنا آئیڈیل بناتے ہیں
کہ مجھے بھی انہیں کی طرح مالدار بننا ہے اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ نیکیاں کرنے
کا جذبہ بڑھانے اور اس راہ میں پیش آنے والی مشقتوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ پانے
کے لیے اور دیگر اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ بزرگان دین کو اپنا آئیڈیل بنا لیجئے،
کیونکہ ان پاکیزہ ہستیوں کی زندگیاں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
حضرت جنید
بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کو وقت نزع قرآن پاک پڑھ رہے تھے ان سے استفسار کیا گیا کہ
اس وقت میں بھی تلاوت؟ ارشاد فرمایا: میرا نام اعمال لپیٹا جا رہا ہے تو جلدی جلدی
اس میں اضافہ کر لوں! جوانی نے ساتھ دیا مگر نوافل نہ چھوڑے، حضرت جنید بغدادی جب
بڑھاپے کو پہنچے تو لوگوں نے عرض کی: حضور آپ ضعیف ہو گئے ہیں لہذا بعض عبادات
نوافل باقاعدہ ترک فرما دیجئے آپ نے فرمایا: یہی تو وہ چیزیں ہیں جن کو ابتدا کر
کے اس مرتبے کو پایا ہے اب یہ کیسے ممکن ہے کہ انتہا پر پہنچ کر ان کو چھوڑ دوں۔ سبحان
اللہ! ہمارے بزرگان دین کتنی اچھی سوچ رکھنے والے تھے کہ آخری وقت میں بھی آپ نے
نوافل ترک نہ فرمائیں جتنی فکر ایک دنیا دار کو اپنی دنیا بنانے کے لیے ہوتی ہے اس
سے کہیں زیادہ ان نفوس قدسیہ کو اپنی آخرت سنوارنے کے لیے ہوتی ہے اور یہ اس کے
لیے بہت زیادہ کوشش فرمایا کرتے تھے اگر ہم ان کے حالات زندگی تفصیل سے پڑھیں تو
ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ یہ حضرات کرام نیکیوں کی کس قدر حرص رکھنے والے
تھے اور فرائض و واجبات کی پابندی کے ساتھ نفلی عبادتوں کے لیے بھی ان کا ذوق
مثالی اور قابل رشک ہوا کرتا تھا۔
لالچ
کی تعریف:
کسی چیز سے جی نہ بھرنے اور ہمیشہ زیادتی کی خواہش رکھنے کو حرص یعنی لالچ کہتے
ہیں اور حرص رکھنے والے کو حریص یعنی لالچی کہتے ہیں۔ حرص کی تین اقسام ہیں حرص
محمود، حرص مذموم اور حرص مباح۔ ہرچیز کی حرص بری نہیں ہوتی بلکہ اچھی چیز کی حرص
اچھی اور بری چیز کی حرص بری ہے مگر اچھائی یا برائی کی طرف جانا ہمارے ہاتھ میں
ہے حرص کسی چیز کی مزید خواہش کرنے کا نام ہے چنانچہ مزید مال کی خواہش رکھنے والے
کو مال کا حریص مزید کھانے کی خواہش رکھنے والے کو کھانے کا حریص اور نیکیوں میں
اضافے کے تمنائی کو نیکیوں کا حریص جبکہ گناہوں کا بوجھ بڑھانے والے کو گناہوں کا
حریص کہیں گے لالچ اور حرص خوراک لباس مکان سامان دولت عزت شہرت الغرض ہر نعمت میں
ہوتی ہیں۔ (جتنی زیور، ص 111)
ہم حرص کی
اقسام کی تفصیل مزید سنتے ہیں: حرص محمود یعنی اچھی حرص لہٰذا نیکیوں مثلاً نماز
روزہ حج زکوٰۃ صدقہ و خیرات تلاوت ذکر اللہ درود پاک حصول علم دین صلہ رحمی
خیرخواہی اور نیکی کی دعوت عام کرنے کی حرص محمود یعنی اچھی ہے۔
حرص مذموم بری
اور قابل مذمت حرص مثلا رشوت چوری بد نگاہی زنا امرد پسندی حب جاہ فلمیں ڈرامے
دیکھنے گانے باجے سننے جوہے کی حرص غیبت تمہت چغلی گالی دینے بد گمانی لوگوں کے
عیب ڈھونڈنے اور انہیں اچھالنے آور دیگر گناہوں کی حرص مذموم یعنی بری ہے اور اس
سے بچنا لازم ہے۔
حرص مباح یعنی
جائز حرص لیکن اگر اس میں اچھی نیت ہوگی تو یہ محمود بن جائے گی اور اگر بری ہوگی
تو یہ مذموم بن جائے گی جیسے کھانا پینا دوست بنانا اما کام بنانا تحفہ دینا یا
زاہد لباس پہننا دیگر قائم مبا یعنی جائز کے ان کے کنے میں نہ گناہ نہ ثواب لہذا
ان کی حرص بھی نہ گناہ نہ ثواب البتہ اچھی نیت سے کی جائے تو اچھا اس کی حرص بھی
اچھی اور اگر بری نیت سے دیا جائے تو اس کی حرص کی وہ بری اور اس سے بچنا بھی لازم
ہے۔
ارشاد باری
تعالیٰ ہے: وَ لَتَجِدَنَّهُمْ
اَحْرَصَ النَّاسِ عَلٰى حَیٰوةٍۚۛ-وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْاۚۛ-یَوَدُّ
اَحَدُهُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَةٍۚ-وَ مَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهٖ مِنَ
الْعَذَابِ اَنْ یُّعَمَّرَؕ-وَ اللّٰهُ بَصِیْرٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ۠(۹۶) (پ 1،
البقرۃ:96)ترجمہ: بےشک تم ضرور انہیں پاؤ گے کہ سب لوگوں سے زیادہ جینے کی ہوس
رکھتے ہیں اور مشرکوں سے ایک کو تمنا ہے کہ کئی ہزار پر سے جی ہیں اور وہ اس سے اعزاز
سے دور نہ کر کرے گا اتنی عمر دی ہے جانا کہ اللہ ان کے کو تک یعنی برے عمل کو
دیکھ رہا ہے۔ مکمل
فرمان مصطفیٰ ﷺ
ہے: اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تب بھی تیسرے کی خواہشیں کرے گا اور
ابن آدم کا پیٹ صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے۔(مسلم، ص 404، حدیث: 2419)بس ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ اور اس کے
رسول کی فرمانبرداری کرتے ہوئے وہ کام کریں جس سے وہ راضی ہو اور ہم نیکیوں کی
حریص بن جائیں سرکار ﷺ بھی ہم میں نیکیوں اور عبادت پر حرص کرنے کا فرما رہے ہیں، چنانچہ
آپ کا فرمان نعمت نشان ہے: اس پر حرص کرو جو تمہیں نفع دے اور اللہ سے مدد مانگو
عاجز نہ ہو۔ (مسلم، ص 432، حدیث: 2001)
مفتی احمدیار
خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دنیاوی چیزوں میں قناعت اور صبر اچھا ہے مگر آخرت کی
چیزوں میں حرص اور صبر اعلی درجے کی ہے کسی درجے میں پر پہنچ کر قناعت نہ کرو بلکہ
آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ (مراۃ المناجیح، 7/112)
اب یہ سوال
پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کون سی چیزوں کی حرص اپنانی چاہیے اور اسے کہاں استعمال کرنا
چاہیے تو یہ تو کھلی حقیقت ہے کہ حرص ہماری طبیعت میں رچی بسی ہے، ہم اسی سے مکمل
طور پر کنارہ کش نہیں ہو سکتے لیکن اس حرص کا رخ بدلنا ہمارے اختیار میں ہے ہمیں
وہ حرص اپنانی چاہیے جس سے ہمیں دنیا و آخرت کا نفع حاصل ہو اور نقصان کچھ بھی نہ
ہو، یہ خوبی صرف اور صرف نیکیوں کی حرص میں پائی جاتی ہے کیونکہ یہ حرص محمود بھی
ہے جو انسان کے آخرت کے اعلیٰ درجات میں پہنچنے کا وسیلہ بنتی ہے جبکہ حرص مذموم
میں سراسر نقصان ہے۔
21 جون 2025ء کو امام مساجد ڈیپارٹمنٹ دعوتِ
اسلامی کے تحت انٹرنیشنل سطح پر آن لائن نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں مڈلسٹ،بحرین،عمان،بنگلہ دیش،سری لنکا اور سے تعلق رکھنے والے امام مساجد نے شرکت کی۔
نشست کے دوران دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن
مولانا حاجی محمد عقیل عطاری مدنی نے شرکا کی جانب سے ہونے والے سوالات کے جوابات دیئے
اور انہیں ذہن دیا کہ وہ اپنی مساجد کو آباد کریں اور مقامی افراد کو دینِ اسلام نیز
دعوتِ اسلامی سے قریب کریں۔
رکنِ شوریٰ نے امام صاحبان کی رہنمائی کرتے ہوئے
انہیں کہا کہ وہ مقامی زبان سیکھ کر درس و بیان دیں اور تدریس کا جذبہ اپنائیں
تاکہ اسلام کی تعلیمات کو مقامی سطح پر پھیلایا جا سکے۔
رکنِ شوریٰ کا کہنا تھا کہ بیرون ملک مقیم حنفی امام صاحبان اور شافعی سمیت
دیگر مسالک کے پیروکاروں کو فقہی مسائل کے مطابق سکھایا جائے۔ (رپورٹ: مولانا محمد عابد عطاری مدنی، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
امام مساجد ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی کے تحت انٹرنیشنل
سطح پر 21 جون 2025ء کو ایک اہم ٹریننگ سیشن
کا انعقاد کیا گیا جس میں ہانگ کانگ، نیوزی
لینڈ، ساؤتھ کوریا، تھائی لینڈ اور آسٹریلیا
سے تعلق رکھنے والے امام مساجد نے شرکت کی۔
اس سیشن
میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن مولانا حاجی
محمد عقیل عطاری مدنی نے شرکا کی جانب سے ہونے والے سوالات کے جوابات دیئے اور انہیں
ذہن دیا کہ وہ اپنی مساجد کو آباد کریں اور مقامی افراد کو دینِ اسلام نیز دعوتِ اسلامی
سے قریب کریں۔
رکنِ شوریٰ نے امام صاحبان کی رہنمائی کرتے ہوئے
انہیں کہا کہ وہ مقامی زبان سیکھ کر درس و بیان دیں اور تدریس کا جذبہ اپنائیں
تاکہ اسلام کی تعلیمات کو مقامی سطح پر پھیلایا جا سکے۔ (رپورٹ: مولانا
محمد عابد عطاری مدنی، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
لیاقت آباد ٹاؤن کراچی میں 21 جون 2025ء کو شعبہ
کفن دفن دعوتِ اسلامی کے تحت ایک ٹریننگ سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں غسل میت دینے، کفن کاٹنے / پہنانے، نمازِ جنازہ اور تدفین کے مراحل کے بارے میں تفصیلی معلومات
فراہم کی گئیں۔
اس موقع پر ڈسٹرکٹ ذمہ دار عزیر عطاری نے شرکا
کو غسل میت دینے کے طریقۂ کار، فضیلت اور
اس کی اہمیت کے بارے میں بتایا اور سیشن میں شریک جامعۃ المدینہ فرقانیہ لیاقت
آباد کے طلبۂ کرام کو کفن دفن کے عملی طریقۂ کار سے آگاہ کیا۔
اس ٹریننگ سیشن میں شعبہ کفن دفن کے ذمہ دار فرید
عطاری اور جامعۃ المدینہ کے اساتذۂ کرام
سمیت دیگر اسلامی بھائی بھی موجود تھے۔ (رپورٹ: شعبہ کفن دفن ، کانٹینٹ:غیاث
الدین عطاری)
Dawateislami