بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ
مصطفیٰ از بنت عبد الستار، فیضان عائشہ صدیقہ نند پور سیالکوٹ

کسی مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشبہ برا ہے لیکن کسی پر
گناہوں اور برائیوں کا جھوٹا الزام لگانا اس سے کہیں زیادہ برا ہے،ہمارے معاشرے
میں جوبرائیاں ناسور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک تہمت و بہتان یعنی
"جھوٹا الزام" لگانا بھی ہے،چوری،رشوت،جادو ٹونے،بدکاری،خیانت،قتل جیسے
جھوٹے الزامات نے ہماری گھریلو کاروباری،دفتری زندگی کا سکون برباد کر کے رکھ دیا
ہے۔
بہتان کی تعریف:کسی شخص
کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔
5 احادیث:
1۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں
پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال (یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں
کا پیپ اور خون جمع ہوگا)اس میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ
ہولے۔(ابو داود،3/427، حدیث:3597)
اس حدیث پاک میں پیارے آقا ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں پر جھوٹے بہتان لگانے والا
بہت سخت سزا پائے گا کہ اللہ پاک اسے اس کے جرم کی سزا پوری ہونے تک عذاب والوں کی
پیپ اور خون جمع ہونے والی جگہ پر رکھے گا اور اسے اس کے کیے کی سزا ملے گی۔
2۔جناب رسالت مآب ﷺ نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرماکر یہ بھی
فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا تھا،میں نے جبرائیل سے ان کے بارے
میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بلاوجہ الزامِ گناہ لگانے والے ہیں۔(شرح
الصدور:ص 184)
اس حدیث مبارکہ میں پیارے آقا ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں پر بلاوجہ گناہ کے الزام
لگانے والوں کو بہت سخت عذاب دیا جائے گا کہ اسے زبان سے لٹکا دیا جائے گا یہ سزا
ہوگی اس کی لوگوں پر الزام لگا کر ان کو ذلیل کرنے کی کہ اس سے لوگوں کو تکلیف
ہوتی ہے۔اللہ پاک ہم سب کو اس بہتان جیسے گناہ سے محفوظ فرمائے۔ آمین
3۔ کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا
ہے۔(معجم کبیر، 3/168، حدیث: 3023)
اس حدیث مبارکہ میں سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ زنا کی سزا بہت سخت ہے
یعنی جو عورت مسلمان ہو اور پاک دامن ہو نیک پرہیزگار ہو اور اس پر کوئی زنا کی
تہمت لگا دے تو اس کی سو سال کی نیکیاں برباد ہو جائیں گی،جس دن انسان ایک ایک
نیکی کو ترسے گا اور یہ تو پھر بھی سو سال کی نیکیاں ہیں،سوچیے کہ زنا کی سزا کتنی
سخت ہے۔
4۔سات تباہ کن گناہوں سے بچتے رہو وہ 1)اللہ پاک کے ساتھ شرک کرنا۔ 2) جادو
کرنا۔ 3) اس جان کو قتل کرنا جس کا قتل اللہ پاک نے حرام قرار دیا ہے۔ 4) سود خوری۔
5) یتیم کا مال کھانا۔ 6) کافروں سے مقابلے کے دن بھاگ جانا۔ 7)پاک دامن اور بھولی
بھالی مسلمان عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگانا۔(بخاری، ص 719،حدیث:2766ملتقطا)
اس حدیث مبارکہ میں پیارے آقا ﷺ نے مسلمانوں کو سات
تباہ کرنےوالی چیزوں سے پرہیز کرنے کا حکم دیا ہے کہ ان سے تباہی ہوتی ہے اور
سزائیں ملتی ہیں،ان سے شرک،جادو،سود خوری،یتیم کا مال کھانا ناحق اور کسی جان کو
قتل کرنا جس کے قتل کو اللہ پاک نے ناحق قرار دیا ہو اور جنگ کے دوران بھاگنا اور
ایک جو بہتان تراشی کے متعلق ہے یعنی پاک دامن عورتوں پر زنا کا جھوٹا الزام
لگانا۔
5۔نبی پاک ﷺ نے صحابہ کرام سے استفسار فرمایا کہ کیا
تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ عرض کی ہم میں سب سے مفلس یعنی غریب مسکین وہ ہے جس کے
پاس نہ درہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ارشاد فرمایا:میری امت میں مفلس وہ ہے جو
قیامت کے دن نماز،روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فلاں کو گالی دی
ہوگی،فلاں پر تہمت لگائی ہوگی،فلاں کا مال کھایا ہوگا،فلاں کا خون بہایا ہوگا اور
فلاں کو مارا ہوگا۔پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کا حصہ دے دیا جائے گا اگر
اس کے ذمے آنے والے حقوق پورے ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو لوگوں کے
گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔(مسلم، ص 1029، حدیث: 2581)
اس حدیث پاک میں رسول ﷺ نے مفلس کے بارے میں فرمایا ہے کہ مفلس وہ نہیں جس کے
پاس درہم یا دینار نہ ہو بلکہ مفلس وہ ہے جو نیک اعمال کے ساتھ آیا ہو قیامت کے
دن اور اس کے ساتھ ساتھ کسی پر تہمت بھی لگائی ہو،قتل بھی کیا ہو،کسی کا مال کھایا
ہو،کسی کو گالی دی ہو تو پھر جن کے ساتھ اس نے بہتان لگایا ہوگا تو الزام لگانے والے
کی نیکیاں انہیں دے دی جائیں گی، اگر اس کا حساب پھر بھی برابر نہ ہوگا تو پھر جس
پر الزام لگایا گیا ہوگا اس کی برائیاں لے کر اس کے نامۂ اعمال میں ڈال دی جائیں
گی پھر اس کے بعد اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔
بہتان سے بچنے کا درس:بہتان جیسے کبیرہ گناہ سے بچنے کی ہر وقت کوشش کیجیے اس کے لیے سب سے پہلے
زبان پر قابو رکھنا سیکھئے،کیونکہ زیادہ تر گناہ زبان سے ہی ہوتے ہیں،قرآن و حدیث
میں ذکر کئے گئے بہتان کے ہولناک عذابات پر غور کیجیے کہ اگر اس کی وجہ سے کوئی
عذاب میں مبتلا کر دیا گیا تو نازک بدن کا کیا ہوگا،مسلمانوں کے بارے میں حسن ظن
رکھیے اور بد گمانی سے ہمیشہ بچتے رہیے،سلام اور مصافحہ کو عام کیجیے ان شاء اللہ
دل سے بغض و کینہ دور ہوگا محبت بڑھے گی،عداوت دور ہوگی اور الزام تراشی کا مرض
بھی ختم ہوگا،کسی کے خلاف دل میں غصہ ہو اس پر بہتان باندھنے کو دل کرے تو اپنے
آپ کو یوں ڈرائیے کہ اگر اس گناہ کے سبب جہنم کا حق دار اور گنہگار قرار پایا تو
کیا بنے گا،کیونکہ گناہ کے ذریعے غصہ ٹھنڈا کرنا ہوا،حدیث مبارکہ ہے:جہنم میں ایک
دروازہ ہے اس سے وہی داخل ہوں گے جن کا غصہ کسی گناہ کے بعد ٹھنڈا ہوتا ہے۔(مسند
الفردوس،1/205،حدیث: 784)
بہتان کی چند مثالیں: پیٹھ پیچھے یا منہ پر کسی کو چور کہہ دیا حالانکہ اس نے کوئی چوری نہیں کی تو
اس کو چور کہنا بہتان ہوا۔
اسی طرح کسی پاک دامن اور نیک عورت پر زنا کی تہمت
لگانا کہ اس نے زنا کیا ہے حالانکہ اس نے ایسا کچھ نہیں کیا تو یہ بھی بہتان ہے۔
کسی کے پیٹھ پیچھے یا اس کے روبرو یعنی سامنے اس پر کوئی بھی برائی منسوب کر
دینا جو اس میں موجود ہی نہ ہو وہ بہتان ہے جو کہ حرام،گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے
جانے والا کام ہے۔
چند معاشرتی نقصانات:بہتان تراشی سے لوگوں میں لڑائی جھگڑا بڑھتا ہے،لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرنے
لگتے ہیں،ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات لگانے سے ایک دوسرے پر یقین ختم ہو جاتا
ہے،آپس میں بد گمانیاں بڑھتی ہیں،لوگ ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں،بہتان تراشی کرنے
والا جھوٹے الزامات لگا کر دو فریقوں کے درمیان لڑائی جھگڑا کرواکر خود اپنے طور
پر تفریح کر رہا ہوتا ہے ایسے شخص کا غیبت،چغلی اور جھوٹ جیسے گناہوں سے بچنا بھی
دشوار ہوجاتا ہے۔
جھوٹ حسد وعدہ
خلافی غیبت و تہمت
مجھے ان سب
گناہوں سے ہو نفرت یا رسول اللہ
بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت ارشد،فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ

کسی مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشبہ برا ہے لیکن کسی پر
برائیوں اور گناہوں کا جھوٹا الزام لگانا اس سے بھی کہیں زیادہ برا ہے،ہمارے
معاشرے میں جو برائیاں ناسور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک بہتان و تہمت یعنی
جھوٹا الزام لگانا بھی ہے،چوری،رشوت،جادو ٹونے،بدکاری اور خیانت جیسے جھوٹے
الزامات نے ہماری زندگیوں کا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
بہتان کی تعریف:کسی شخص
کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے،آسان لفظوں
میں یوں سمجھیے کہ وہ برائی جو اس شخص میں نہ ہو اوراس کی طرف منسوب کر دی۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔جو مسلمان کسی کی برائی بیان کرے جو اس میں نہ ہو تو اس کو اللہ پاک اس وقت
تک ردغۃ الخبال (یعنی جہنم کی وہ جگہ جہاں جہنمیوں کا خون اورپیپ جمع ہوگا) میں رکھے گا جب تک
اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہو۔(ابو داود،جلد 3)
2۔پیارے آقا ﷺ نے فرمایا:میں نے معراج کی رات کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکا
ہوا دیکھا تو میں نے جبرائیل سے ان کے بارے میں پوچھا،تو انہوں نے بتایا کہ یہ
لوگوں پر بلاوجہ الزام لگانے والے ہیں۔(شرح الصدور،ص 184)
3۔حضرت علی سے روایت ہے کہ بے گناہ لوگوں پر الزام لگانا آسمانوں سے زیادہ
بوجھل ہے یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔(کنز العمال)
4۔مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ لعن طعن کرنے والا ہو۔(مشکاۃ المصابیح)
مثالیں: کسی کو ریاکار
کہہ دیا حالانکہ وہ ریا کار نہیں ہے،کسی کو چور کہہ دینا حالانکہ اس نے چوری نہیں
کی تو اس کو چور کہنا بہتان ہوا،اسی طرح غلط بیانی کرنا یاکسی کی اولاد کو دوسرے
کی طرف منسوب کر دینا وغیرہ۔
معاشرتی نقصان:تہمت،بہتان،الزام
تراشی اور بدگمانی ہمارے معاشرتی سکون کے لیے زہر قاتل ہے یہ رویے جاری خوشیوں کو
برباد کر دیتے ہیں اور ہر گھر ہر فرد ان سے متاثر ہوتا ہے اگر تہمت اور بہتان کا
رواج عام ہو جائے تو لوگوں کا ایک دوسرے پر سے اعتماد اٹھ جائے گا اور پھر ہر شخص
کے اندر یہ جرأت پیدا ہو جائے گی کہ وہ جس کے خلاف جو چاہے زبان پر لائے گا اور اس
پر جھوٹ،بہتان اور الزام لگادے گا جس سے معاشرتی نظام تباہ و برباد ہو جائے
گا،قرآن کریم نے سورۃ النساء،نور،احزاب اور حجرات میں اس بارے میں تفصیلی احکام
دیئے ہیں جن پر عمل کر کے ہم خوشنودی باری تعالیٰ حاصل کر سکتے ہیں وہاں تعلقات
میں آنے والی دوریوں کو بھی ختم کر سکتے ہیں،ان پر عمل کی صورت میں ہمارا معاشرہ
امن اور دوستی کا گہوارہ بن سکتا ہے،ہمیں انفرادی،معاشرتی اور قومی سطح پر ان
ہدایات کو ملحوظ نظر رکھنا چاہیے۔
بچنے کا درس:جہاں تہمت کا رواج بہت زیادہ ہوگا وہاں دوستی کی جگہ
کینہ اور عداوت لے لے گی اور عوام میں میل و محبت کم ہو جائے گی،لہٰذا ہمیں اس عمل
سے بازآنا چاہیے اور جس پر تہمت یا بہتان لگایا اس سے معافی مانگنی چاہیے تاکہ
آخرت میں گرفت نہ ہو اللہ پاک اس لعنت سے ہماری حفاظت فرمائے،آمین۔بہتان جیسے
گناہ سے بچنے کے لیے قرآن و حدیث میں ذکر کیے گئے عذابات کا مطالعہ کریں کہ اگر
وہ عذابات ہم پر مسلط کر دیے گئے تو ہمارا کیا بنے گا؟اسی طرح سلام اور مصافحہ کی
عادت اپنائیے اور مسلمانوں کے بارے میں حسن ظن رکھیں بدگمانی اور شک کرنے سے پرہیز
کریں،اس کے علاوہ بچوں کی تعلیمی نصاب میں بھی اس برائی کے متعلق آگاہی فراہم کی
جانی چاہیے اور مساجد میں خطبات اور درس و بیان کے ذریعے اس برائی سے بچنے کی
ترغیب دی جانی چاہیے تاکہ یہ گناہ جو ہمارے معاشرے میں وبا کی طرح سرایت کر رہا ہے
اس کا تدارک ہو سکے اور اگر آج تک کسی کے بارے میں تہمت یا بہتان جیسا گناہ ہو
گیا تو اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے توبہ کر لیجیے۔بہارِ شریعت حصہ 16 پر
ہے:بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان
باندھا ہے ان کے سامنے جا کر کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا،نفس کے لیے
یقینا سخت دشوار ہے مگر دنیا کی تھوڑی سی ذلت اٹھانی آسان مگر آخرت کا معاملہ
بہت سنگین ہے،خدا کی قسم دوزخ کاعذاب برداشت نہیں ہو سکے گا۔
کرلے توبہ رب کی
رحمت ہے بڑی
قبر میں ورنہ سزا
ہوگی کڑی
بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت اصغر،فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ

کسی بے گناہ مسلمان پر عیب لگانا بہت بری بات ہے اور یہ اس مسلمان کی دل
آزاری کا بھی سبب بنتا ہے،ہمیں بے گناہ مسلمانوں پر عیب لگانے سے بچنا چاہیے کہ
جو کسی مسلمان کے عیب چھپائے گا اللہ پاک بروز قیامت اس کے عیب چھپائے گا۔
بہتان کی تعریف:کسی شخص
کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔
احادیث مبارکہ:
1۔کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔(معجم
کبیر، 3/168، حدیث: 3023)
2۔پیارے آقا ﷺ نے خواب میں دیکھے ہوئے
کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا
تھا میں نے جبرائیل امین سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں
پر بلاوجہ الزام گناہ لگانے والے ہیں۔(شرح الصدور، ص184)
3۔جو مسلمان کسی کی برائی بیان کرے جو اس میں نہ ہو تو اس کو اللہ پاک اس وقت
تک جہنمیوں کے خون اور پیپ میں رکھے گاجب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہو۔(ابو
داود،ج 3)
4۔مسلمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔(مشکاۃ المصابیح)
5۔حضرت علی سے روایت ہے:بے گناہ لوگوں پر الزام گناہ لگانا آسمانوں سے زیادہ
بوجھل ہے یعنی بہت بڑا گناہ ہے۔(کنز العمال)
مثالیں:بہتان،تہمت اور الزام تراشی ہمارے معاشرے کے لیے بہت
خطرناک ہیں، منفی خیالات اور غلط سوچ کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں
اگر معاشرے میں تہمت اور بہتان کا رواج عام ہو جائے گا تو لوگوں کا ایک دوسرے پر
سے اعتماد اٹھ جائے گا اور معاشرہ تباہی کے قریب پہنچ جائے گا اور ہر شخص کے اندر
یہ جرأت پیدا ہو جائے گی کہ جس کے خلاف جو چاہے بولے اور اس پر تہمت اور بہتان لگا
دے،اگر ہمارے معاشرے میں تہمت اور بہتان کا رواج ختم ہو جائے تو ہمارا معاشرہ پر
امن اور پر سکون رہے گا۔
درس:اس سے ہمیں یہ
درس حاصل ہوا کسی بے عیب شخص پر بہتان لگانے سے دنیا و آخرت میں رسوائی
ہوگی،لہٰذااپنی دنیا اور آخرت کی فکر کرتے ہوئے اس گناہ سے بچنا ہر مسلمان پر
لازم ہے،ہر شخص کو چاہیے کہ وہ جس طرح اپنی عزت کی حفاظت کرتا ہے اسی طرح اپنے
مسلمان بھائی کی عزت اپنے منہ اور ہاتھوں سے محفوظ رکھے،اگر کوئی بہتان جیسا گناہ
کر چکا ہے تو توبہ کر لیجیے اس سے پہلے کہ اس دنیا سے رخصت ہونا پڑے توبہ کرنے کے
ساتھ ساتھ جس پر بہتان باندھا اس سے معافی بھی مانگ لیجیے۔
بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت الطاف،فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ

بہتان تراشی یعنی تہمت لگانا سخت حرام اور گناہ کبیرہ ہے ایسا کرنے والا سخت
گناہگار اور عذاب نار کا حقدار ہے اس کے متعلق بہت سی آیات و احادیث اور روایات
میں اس کی مذمت بیان کی گئی ہے جیسا کہ پارہ 14 سورۃ النحل آیت نمبر 105 میں رب
تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ
بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵) ترجمہ کنز الایمان:جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی
آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں۔
بہتان کی تعریف:کسی شخص
کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔
بہتان کی مذمت پر فرامین مصطفیٰ:
1۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی
بات سے نکل نہ آئے۔(سنن ابی داود، 3/426،حدیث: 3597) یعنی اس حدیث مبارکہ سے
معلوم ہوا کہ کسی مسلمان پر بلا اجازت شرعی بہتان باندھنا یعنی اس کی ایسی برائی
بیان کرنا جو اس میں نہ ہو تو ایسے شخص پر اللہ پاک کا کس قدر عذاب ہوتا ہے، اتنا
سوچ لیجیے کہ جس شخص کی بھی برائی بیان کی جو اس میں نہیں پائی جاتی اس بارے میں
جان کر اس شخص پر کیسا گزرے گا،چنانچہ بہتان کے دنیاوی و اخروی نقصانات بے شمار
ہیں۔
2۔ کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا سو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا
ہے۔(معجم کبیر، 3/168، حدیث: 3023)یعنی اس حدیث
مبارکہ سے معلوم ہوا کسی عورت پر بدکاری کا جھوٹا الزام لگانا بہت زیادہ خطرناک ہے
لیکن بعض بے باک لوگ یہ بھی کر گزرتے ہیں اور اتنا نہیں سوچتے کہ اس عورت اور اس
کے گھر والوں پر کیا گزرے گی،جو کسی عورت پر زنا کا الزام لگائے اور چار گواہوں کی
مدد سے اسے ثابت نہ کر سکے تو اس کی شرعی سزا حد قذف ہے یعنی سلطان اسلام یا قاضی
شرع کے حکم سے اسے 80 کوڑے مارے جائیں گے۔
3۔جناب رسالت مآب ﷺ نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی
مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا تھا
میں نے جبرائیل سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بلاوجہ
الزام گناہ لگانے والے ہیں۔(شرح الصدور،ص 184) یعنی اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بہتان لگانے والے پر قیامت میں کیسا شدید عذاب
ہوگا وہ کیسی تکلیف میں مبتلا کیا جائے گا،قیامت کے دن جب گناہگاروں کو اپنے
گناہوں سے بھرپور نامۂ اعمال ملیں گے تو کیا حال ہوگا اور جب کسی مسلمان پر بہتان
باندھنے والے کو زبان سے لٹکایا جائے تو اس وقت بندے پر کس قدر تکلیف گزرے گی اس
کا اندازہ لگا لیجیے۔
4۔پیارے آقا ﷺ نے صحابۂ کرام سے استفسار فرمایا:کیا
تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صحابۂ کرام نے عرض کی ہم میں مفلس یعنی غریب مسکین وہ
ہے جس کے پاس نہ درہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ارشاد فرمایا:میری امت میں مفلس وہ
ہے جو قیامت کے دن نماز،روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فلاں کو گالی دی
ہوگی،فلاں پر تہمت لگائی ہوگی،فلاں کا مال کھایا ہوگا،فلاں کا خون بہایا ہوگا،فلاں
کو مارا ہوگا،پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کا حصہ دے دیا جائے گا اگر اس کے
ذمے آنے والے حقوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو لوگوں کے گناہ
اس پر ڈال دیے جائیں گے پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم، ص 1029، حدیث: 2581)
شرح:اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ لوگوں پر تہمت لگانے والا بروز قیامت جب آئے
گا تو اس حال میں آئے گا کہ اگرچہ اس نے دنیا میں بہت زیادہ عبادتیں کی ہوں گی
لیکن بے شمار گناہوں کے ساتھ ساتھ ایک گناہ دوسروں پر بہتان بھی لگایا ہوگا تو جس
پر بہتان لگایا یا مال کھایا ہوگا تو اس یعنی بہتان لگانے والے کی عبادات کی
نیکیاں ان کو دے دی جائیں گی اور اسے بالآخر جہنم میں جانا ہوگا۔
5۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(ابو داود،3 / 427،
حدیث: 3597) ردغۃ الخبال جہنم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوگا۔(بہار شریعت، 2/364،
حصہ 9) یعنی اس حدیث مبارکہ میں مسلمان پر بہتان باندھنے والے کے اخروی سزا کے
بارے میں بیان فرمایا بہتان لگانے والے کو اول تو جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور
جہنم کی گرمی کو کوئی بھی ایک سیکنڈ کے لیے برداشت نہیں کر سکتا اور دوسرا جہنم
میں اس جگہ بہتان لگانے والے کو رکھا جائے گا جہاں جہنمیوں کے خون اور پیپ ہوں گے
وہاں رہنا اور عذاب کو کوئی سہہ نہ سکے گا۔
بہتان سے بچنے کا درس:بہتان و تہمت سے توبہ کر لیجیے اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے۔بہار
شریعت حصہ 16 ص 538 پر ہے:بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے
بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے
جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔
نفس کے لیے یقینا یہ سخت گراں ہے مگر دنیا کی تھوڑی سے ذلت اٹھانی آسان جبکہ
آخرت کا معاملہ انتہائی سخت ہے خدا کی قسم دوزخ کا عذاب برداشت نہیں ہو سکے گا۔
کر لے توبہ رب کی
رحمت ہے بڑی
قبر میں ورنہ سزا
ہوگی کڑی
بہتان لگانے سے جس پر جھوٹا الزام لگاہے اس کی سخت دل آزاری بھی ہوگی مسلمان
کی دل آزاری کرنا کبیرہ گناہ ہے،چنانچہ بہتان کے گناہ کے ساتھ اس گناہ کا بھی مرتکب
ہوں گے لہٰذا بہتان سے سچی توبہ کر لیجیے۔
بہتان کی چند مثالیں:پیٹھ پیچھے یا منہ پر کسی کو چور کہہ دیا حالانکہ اس نے کوئی چوری نہیں کی تو
اس کو چور کہنا بہتان ہوا،کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانا، کسی کو شرابی
کہنا یعنی کہنا کہ فلاں شراب پیتاہے اور در حقیقت وہ شراب نہیں پیتا تو اس پر
بہتان لگایا، کسی کے بارے میں کہنا کہ وہ فحش گوئی کرتا ہے حالانکہ وہ فحش گوئی
نہیں کرتا تو اس پر بہتان لگایا۔
بہتان کے چند معاشرتی نقصانات:بہتان تراشی سے معاشرے میں لڑائی جھگڑے کو فروغ ملتا ہے،معاشرے میں فساد برپا
ہوتا ہے،بہتان تراشی سے معاشرے میں بغض و کینہ جنم لیتا ہے،بہتان باندھنے والے کو
معاشرے میں عزت نہیں ملتی تو وہ معاشرے میں فساد پیدا کرتا ہے۔
بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت سجاد،فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ

کسی مسلمان کے عیب تلاش کرنا ان کو دوسروں کے سامنے بیان کرنا انتہائی بری
عادت ہے اور جو عیب یا برائی اس میں نہ ہو اس کی نسبت کسی مسلمان کی طرف کرنا کتنا
بڑا گناہ ہوگا اور اس کا وبال کتنا بڑا ہوگا؟اس کا اندازہ ہم درج ذیل روایات سے
لگا سکتے ہیں۔ کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان
کہلاتا ہے،اس کو یوں آسان لفظوں میں سمجھیے کہ برائی نہ ہونے کے باوجود اگر پیٹھ
پیچھے یا روبرو برائی اس کی طرف منسوب کر دی تو یہ بہتان ہوا۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال میں رکھے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(ابو داود،3 / 427،
حدیث: 3597) ردغۃ الخبال جہنم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوگا۔(غیبت کی تباہ
کاریاں،ص 295)
2۔کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگاناسو سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔(معجم
کبیر، 3/168، حدیث: 3023)
3۔رسالت مآب ﷺ نے خواب میں دیکھے ہوئے
کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا
تھا،میں نے جبرائیل سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر
بلاوجہ الزام گناہ لگانے والے ہیں۔(شرح الصدور،ص 184)
4۔جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے
ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس
کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل عرصے تک عذاب
میں مبتلا رہے گا۔(تفسیر النور،ص 600)
5۔پیارے آقا ﷺ نے صحابۂ کرام سے استفسار
فرمایا:کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟صحابۂ کرام نے عرض کی ہم میں مفلس وہ ہے جس
کے پاس نہ درہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال ہو۔ارشاد فرمایا:میری امت میں مفلس وہ ہے
جو قیامت کے دن نماز،روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فلاں کو گالی دی
ہوگی فلاں پر تہمت لگائی ہوگی فلاں کا مال کھایا ہوگا،پس اس کی نیکیوں میں سے ان
سب کو ان کا حصہ دے دیا جائے گا،اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر
ڈال دیئے جائیں گے پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔(مسلم، ص 1029،
حدیث: 2581)
آسان شرح:تمام روایات کو سامنے رکھ کر سوچیے اور اپنے گناہوں
سے توبہ کر لیجیے اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے بہتان جیسے گناہوں سے توبہ
کرلیں اور اپنے نازک بدن پر غور کریں کہ بہتان کے سبب اگر ان میں سے کوئی عذاب ہم
پر مسلط کر دیا گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔مسلمانوں کے بارے میں حسن ظن رکھیے
بدگمانی اور شک تہمت لگانے سے پرہیز کریں۔اللہ کریم سب کو توفیق عطا فرمائے۔آمین
کسی کے خلاف غصہ میں آکر اس پر بہتان باندھنے کو دل چاہے تو فورا اپنے آپ کو
یوں ڈرائیے کہ اگر میں غصے میں آکر بہتان باندھوں گا تو گنہگار اور جہنم کا حق
دار قرار پاؤں گا کہ یہ گناہ کے ذریعے غصہ ٹھنڈا کرنا ہوا اور فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے
جہنم میں ایک دروازہ ہے اس سے وہی داخل ہوں گے جن کا غصہ کسی گناہ کے بعد ہی ٹھنڈا
ہوتا ہے۔
معاشرتی نقصان:بہتان اور اس کے
علاوہ بہت سارے گناہ زیادہ تر زبان سے ہی ہوتے ہیں لہٰذا اسے قابو رکھنا بہت ضروری
ہے،بہتان الزام تراشی سے ہمارے معاشرے میں سکون برباد ہوگیا ہے اس گناہ میں گھر کا
ہر فرد مبتلا ہے،اس گناہ میں مبتلا ہونے کی وجہ سے آپس کے اتفاق میں بے برکتی
پیدا ہوتی ہے اور آپس میں دوری پیدا ہوتی ہے،بہت سے عزیز رشتہ دار دور ہو جاتے
ہیں۔
بچنے کا درس:سلام مصافحہ کرنے
کی عادت اپنائیے ان شاء اللہ اس کی برکت سے دل سے بغض و کینہ دور ہوگا اور محبت
بڑھے گی اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا مرض بھی ختم ہوگا۔
بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت عبد الرحمٰن،فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ

کسی شخص کی موجودگی یاغیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا
ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات)اس کو آسان لفظوں میں یوں سمجھیے کہ برائی نہ ہونے
کے باوجود اگر پیٹھ پیچھے یا سامنے وہ برائی اس کی طرف منسوب کردی تو یہ بہتان
ہوا۔
بہتان کی مذمت پر 5 احادیث مبارکہ:
1۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(ابو داود،3 / 427،
حدیث: 3597)
ردغۃ الخبال جہنم میں
ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوگا۔
2۔جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے
اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ
اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل جائے۔(تفسیر سورۃ النور)یعنی وہ اس شخص کو راضی کر کے
یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پا کر نہ نکل جائے۔
3۔جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے
ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے
بارے میں کہی ہوئی بات ثابت کرے۔(تفسیر سورۃ النور)اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل
عرصے تک عذاب میں مبتلا رہے گا۔
4۔جہاں کسی مسلمان شخص کی بے حرمتی اور بے عزتی کی جاتی ہو ایسی جگہ جس نے اس
کی مدد نہ کی تو اللہ پاک اس کی مدد نہیں کرے گا جہاں اسے پسند ہو کہ اس کی مدد کی
جائے اور جو شخص ایسے موقع پر کسی مسلمان شخص کی مدد کر ے گا جہاں اس کی بے حرمتی
اور بے عزتی کی جا رہی ہو تو اللہ پاک ایسے موقع پر اس کی مدد فرمائے گا جہاں اسے
محبوب ہو کہ مدد کی جائے۔(تفسیر سورۃ النور)مدد نہ کرنے سے مراد یعنی وہ سنتا رہا
اور ان کو منع نہ کیا۔
5۔نبی کریم ﷺ نے صحابۂ کرام سے استفسار فرمایا:تم جانتے ہو مفلس کون
ہے؟صحابۂ کرام نے عرض کی:ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس نہ درہم ہو نہ ہی کوئی
مال۔ارشاد فرمایا:میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز،روزہ اور زکوٰۃ لے
کر آئے گا لیکن اس نے فلاں کو گالی دی ہوگی،فلاں پر تہمت لگائی ہوگی،فلاں کا مال
کھایا ہوگا،فلاں کا خون بہایا ہوگا،پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کا حصہ دیا
جائے گا اگر اس کے ذمے آنے والے حقوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں
تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے
گا۔(مسلم، ص 1029، حدیث: 2581)
بہتان سے بچنے کا درس:بہتان اور اس کے علاوہ بہت سارے گناہ
زیادہ تر زبان سے ہی ہوتے ہیں لہٰذا اسے قابو میں رکھنا ضروری ہے۔قرآن و حدیث میں
ذکر کیے گئے بہتان کے ہولناک عذابات کا مطالعہ کیجیے اور اپنے نازک بدن پر غور
کیجیے۔کسی کے خلاف دل میں غصہ ہو اور اس پر بہتان باندھنے کا دل کرے تو فورا اپنے
آپ کو یوں ڈرائیے کہ اگر میں غصے میں آکر بہتان باندھوں تو گنہگار اور جہنم کا
حق دار قرار پاؤں گا،کیونکہ یہ گناہ کے ذریعے غصہ ٹھنڈا کرنا ہوا۔مسلمانوں کے بارے
میں حسن ظن رکھیے بدگمانی اور شک کرنے سے پرہیز کیجیے۔
بہتان کی چند مثالیں:پیٹھ پیچھے یا منہ پر کسی کو چور کہہ دیا حالانکہ اس نے چوری نہیں کی تو اس کو
چور کہنا بہتان ہوا،یا پھر کسی کے بارے میں کوئی غلط بات کی جو کہ اس میں نہیں ہے
تو بھی بہتان ہوا،کسی پاکدامن عورت پر زنا وغیرہ کی تہمت لگانا یہ بھی بہتان ہے۔
چند معاشرتی نقصانات:کسی پر بہتان لگانا اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضگی کا باعث ہے،بہتان
تراشی سے اچھا خاصا معاشرہ فساد اور لڑائی میں مبتلا ہو کر رہ جاتا ہے،لوگوں پر
بہتان لگانے والے کو معاشرے میں نا پسندیدہ سمجھا جاتا ہے،بہتان تراش شخص اپنی
نظروں میں گر جاتا ہے،نیک بختیوں اور سعادتوں سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت عبد المالک،فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ

کسی مسلمان کی طرف وہ بات منسوب کرنا جو اس میں نہ ہو اور پھر اسے دوسروں تک
پہنچادینا یہ نہایت بری عادت ہے اور بہت بڑا گناہ اور اس کا وبال بھی بہت سخت
ہے۔بہتان اور اس کے علاوہ بہت سارے گناہ زبان سے ہی ہوتے ہیں،لہٰذا اسے قابو میں
رکھنا بہت ضروری ہے۔
تعریف:کسی شخص کی
موجودگی یاغیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔ برائی نہ ہونے کے
باوجود اگر پیٹھ پیچھے یا روبرو وہ برائی اس کی طرف منسوب کردی تو یہ بہتان ہوا۔
آیت مبارکہ: اِنَّمَا
یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ
هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵) (پ 14، النحل: 105)ترجمہ کنز الایمان:جھوٹ بہتان وہی
باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(ابو داود،3 / 427،
حدیث: 3597) ردغۃ الخبال جہنم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوگا۔(ظاہری گناہوں کی
معلومات،ص 56)
2۔رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی
فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا تھا،میں نے جبرائیل سے ان کے بارے
میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بلاوجہ الزام گناہ لگانے والے
ہیں۔(شرح الصدور)
3۔کسی پاک دامن عورت پر تہمت لگانا سو
سال کی نیکیوں کو برباد کرتا ہے۔(معجم کبیر، 3/168، حدیث: 3023)
4۔ جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی
ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ اسے
جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں کہی ہوئی بات ثابت کرے۔(تفسیر
سورۃ النور)اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل عرصے تک عذاب میں مبتلا رہے گا۔
5۔مسلمان کو یہ روا نہیں کہ وہ لعن طعن کرنے والا ہو۔
وضاحت:لہٰذا ہر شخص کو
چاہیے کہ بہتان تراشی سے بچے اور جس نے کسی پر بہتان لگایا ہے اسے معلوم ہونے کی
صورت میں توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے۔
بہتان تراشی کے گناہ میں مبتلا ہونے کے اسباب:
1)لڑائی جھگڑا۔2)غصہ۔3)بغض و کینہ۔ 4)حسد۔ 5)زیادہ بولنے کی عادت۔ 6)بدگمانی۔
بہتان تراشی سے بچنے کے لیے:قرآن و حدیث میں ذکر کیے گئے ان ہولناک عذابات سے ڈرے اور اپنے نازک بدن پر
غور کرے کہ بہتان کے سبب اگر ان میں سے کوئی عذاب ہم پر مسلط کر دیا گیا تو ہمارا
کیا بنے گا؟سلام و مصافحہ کرنے کی عادت اپنائے ان شاء اللہ اس کی برکت سے دل سے
بغض و کینہ دور ہوگا اور محبت بڑھے گی اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا مرض بھی
ختم ہوگا۔
بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت رشید،جامعۃ المدینہ اسلام پورہ لاہور

کسی شخص کے پوشیدہ عیب کو جس کا وہ دوسروں کے سامنے ظاہر ہونا پسند نہ کرے اس
کی برائی کرنے کے طور پر ذکر کرنا غیبت ہے اور اگر اس میں وہ بات ہو ہی نہ تو وہ
غیبت نہیں بلکہ بہتان ہے،بہتان تراشی غیبت سے زیادہ تکلیف دہ ہے یہ کبیرہ گناہ ہے
اس کی حدیث مبارکہ میں بھی مذمت بیان کی گئی ہے،لہٰذا ہر شخص کو چاہیے کہ بہتان سے
بچے اور اگر کسی پر بہتان لگایا ہے تو توبہ بھی کرے اور معافی مانگنا بھی ضروری
ہے۔
بہتان کی تعریف:کسی شخص
کی موجودگی یاغیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔
آیت مبارکہ: اِنَّمَا
یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ
هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵) (پ 14، النحل: 105) ترجمہ کنز الایمان:جھوٹ بہتان وہی
باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں۔
احادیث مبارکہ:اس سلسلے میں 5
فرامینِ مصطفیٰ ملاحظہ فرمائیے؛
1۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(ابو داود،3 / 427،
حدیث: 3597)
ردغۃ الخبال جہنم میں
ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوگا۔
2۔جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے
پل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(ابو
داود،کتاب الادب،4/354، حدیث:4883)
3۔جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس کو عیب زدہ کرے تو
اللہ اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں کہی ہوئی بات ثابت
کرے۔اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل عرصے تک عذاب میں مبتلا رہے گا۔(معجم الاوسط، 6/327،حدیث:8936)
4۔رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی
فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا تھا،میں نے جبرائیل سے ان کے بارے
میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بلاوجہ الزام گناہ لگانے والے
ہیں۔(شرح الصدور،ص 184)
5۔بد گمانی سے بچو کیونکہ بد گمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔(بخاری، 4/313،حدیث:6724)
مثالیں: کسی پاکدامن
عورت پر صرف غلط فہمی کی بنا پر فاحشہ ہونے کا الزام لگا دینا،کسی کے بارے میں
کہنا کہ اس نے آپ کے بارے میں فلاں بات کی ہے جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہو۔
معاشرتی نقصانات:بہتان
لگانے سے آپس میں دشمنی پیدا ہوتی ہے،بغض و کینہ جنم لیتا ہے،لڑائی جھگڑے ہوتے
ہیں،زیادہ بولنے کی عادت ہو جاتی ہے،بلا وجہ ہر کسی پر غور کرتا رہتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں برے گمان سے بچائے اور دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ
رکھے۔آمین
بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت شاہد حمید،فیضان عائشہ صدیقہ تاجپورہ لاہور

کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔اس
کو ہم آسان لفظوں میں یوں سمجھتے ہیں کہ برائی نہ ہونے کے باوجود اگر پیٹھ پیچھے
یا روبرو وہ برائی اس کی طرف منسوب کر دی تو یہ بہتان ہوا،مثلا پیٹھ پیچھے یا منہ
پر کسی کو چور کہہ دیا حالانکہ اس نے کوئی چوری نہیں کی تو اس کو چور کہنا بہتان
ہوا،بہتان تراشی حرام گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
آیت مبارکہ: اِنَّمَا
یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ
هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵) (پ 14،النحل:105)ترجمہ کنز الایمان:جھوٹ بہتان وہی باندھتے
ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں۔
بہتان کی مذمت پر پانچ فرامین مصطفیٰ:
1۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔ (ابو داود،3 / 427،
حدیث: 3597) ردغۃ الخبال جہنم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوگا۔(ظاہری گناہوں کی
معلومات،ص 55-56)
2۔لوگوں پر گناہوں کی تہمت لگانے والوں کے عذاب کی ایک دل دہلا دینے والی
روایت ملاحظہ ہو،چنانچہ جناب رسالت مآب ﷺ نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا
بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا تھا،میں نے جبرائیل
سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بلاوجہ الزام گناہ
لگانے والے ہیں۔(شرح الصدور،ص 184)
3۔حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ شرح الصدور میں نقل کرتے
ہیں:ایک شخص نے خواب میں جریر خطفی کو دیکھا تو پوچھا مَا فَعَلَ
اللہُ بِکَ یعنی اللہ پاک نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا تو انہوں نے
کہا میری مغفرت کر دی۔میں نے پوچھا مغفرت کا کیا سبب بنا؟کہا اس تکبیر کہنے پر جو
میں نے ایک جنگل میں کہی تھی، میں نے پوچھا فرزدق کا کیا ہوا؟تو انہوں نے
کہا؟افسوس پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانے کے باعث وہ ہلاکت میں گرفتار ہوا۔(شرح
الصدور،ص 275)
4۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ،پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی
بات سے نہ نکل آئے۔(ابو داود،3 / 427، حدیث: 3597)
5۔کسی کے خلاف دل میں غصہ ہو اور اس پر بہتان باندھنے کو دل چاہے تو فورا اپنے
آپ کو یوں ڈرائیے کہ اگر میں غصے میں آکر بہتان باندھوں گا تو گناہ گار اور جہنم
کا حق دار قرار پاؤں گا کہ یہ گناہ کے ذریعے غصہ ٹھنڈا کرنا ہوا اور فرمانِ مصطفیٰ
ﷺ ہے جہنم میں ایک دروازہ ہے اس میں وہی داخل ہوں گے جن کا غصہ کسی گناہ کے بعد ہی
ٹھنڈا ہوتا ہے۔(بہار شریعت،2/364)
بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت اشرف،جامعۃ المدینہ سمندری فیصل آباد

کسی پر بہتان لگانا انتہائی سخت گناہ اور حرام ہے،مسلمان پر بہتان باندھنے یا
اس پر بے بنیاد الزامات لگانے پر بڑی وعیدیں آئی ہیں۔ کسی شخص کی موجودگی یا غیر
موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔اس کو آسان لفظوں میں یوں سمجھیے
کہ برائی نہ ہونے کے باوجود اگرپیٹھ پیچھے یا سامنے برائی اس کی طرف منسوب کر دی
تو یہ بہتان ہے۔
بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ؛
1۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا جانتے ہو غیبت کیا ہے؟سب نے عرض کیا اللہ اور
رسول ہی خوب جانیں۔ فرمایا:اپنے بھائی کا ناپسندیدہ ذکر کرنا۔ عرض کیا گیا فرمائیے
تو اگر میرے بھائی میں وہ عیب ہو جو میں کہتا ہوں؟فرمایا:اگر اس میں وہ ہو جو کہتا
ہے تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ اس میں نہ ہو جو تو کہتا ہے تو تو نے اسے
بہتان لگایا۔(مراٰۃ المناجیح،جلد 6،حدیث:4828)
2۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں جب میری پاکدامنی قرآن مجید میں نازل ہوئی تو نبی
کریم ﷺ نے منبر پر قیام فرمایا جب منبر سے اترے تو دو مردوں ایک عورت کے متعلق حکم
دیا تو انہیں ان کی سزا دی گئی۔(مراٰۃ المناجیح،جلد 5،حدیث:3579)
یعنی جب مجھ کو لوگوں نے بہتان لگایا اور رب تعالیٰ نے میری پاکدامنی کی گواہی
دیتے ہوئے سورۃ النور کی 16 آیات اتاریں۔
3۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ،پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی
بات سے نکل نہ جائے۔(سنن ابی داود،3/427،حدیث:3597)
لوگوں پر گناہوں کی تہمت لگانے والوں کے عذاب کی ایک دل دہلا دینے والی روایت
ملاحظہ ہو؛چنانچہ
4۔ جناب رسالت مآب ﷺ نے خواب میں دیکھے
ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا
گیا تھا،میں نے جبرائیل سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر
بلاوجہ الزام گناہ لگانے والے ہیں۔(شرح الصدور،ص 182)
ہمیں ان بیان کردہ الزامِ گناہ کے عذاب کی روایت سے
عبرت حاصل کرنی چاہیے،اس ضمن میں ایک عبرت انگیز حکایت ملاحظہ ہو؛چنانچہ
حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ
اللہ علیہ شرح الصدور میں نقل کرتے ہیں:ایک شخص نے خواب میں جریر خطفی کو دیکھا تو
پوچھا مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ یعنی اللہ پاک نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا تو انہوں نے کہا میری مغفرت کر
دی۔میں نے پوچھا مغفرت کا کیا سبب بنا؟کہا اس تکبیر کہنے پر جو میں نے ایک جنگل
میں کہی تھی، میں نے پوچھا فرزدق کا کیا ہوا؟تو انہوں نے کہا؟افسوس پاک دامن
عورتوں پر تہمت لگانے کے باعث وہ ہلاکت میں گرفتار ہوا۔(شرح الصدور،ص 275)
افسوس!ہم نے نہ جانے زندگی میں کتنوں پر بہتان باندھے ہوں گے!
ہر جرم پہ جی
چاہتا ہے پھوٹ کے روؤں افسوس
مگر دل کی قساوت نہیں جاتی
جلدی کیجیے اپنے گناہوں سے سچی توبہ کیجیے اس سے پہلے کہ زندگی کی سانسیں بند
ہوجائیں۔
حضرت امام نووی علیہ الرحمۃ سے منقول ہے:جوں ہی گناہ وارد ہو فورا توبہ کرلینا
واجب ہے خواہ صغیرہ گناہ ہی کیوں نہ ہو۔(شرح النووی علی صحیح مسلم،ص 9)
اپنے تمام گناہوں سے سچی توبہ کیجیے کہ گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے
جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں،اگر آپ نے بہتان جیسا قبیح گناہ کیا ہے تو معافی
تلافی کیجیے اور اللہ کے حضور سچی توبہ کیجیے۔
اللہ پاک توفیق عطا فرمائے اور ہمارے گناہوں سے درگزر فرمائے۔آمین
بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت اقبال،ٹوبہ ٹیک سنگھ ڈویژن فیصل آباد

ہر انسان میں
کوئی نہ کو ئی خامی ضرور ہوتی ہے اور خوبی بھی تو ہم سامنے والے کی خامی ہی ہمیشہ
دوسروں کے سامنے کیوں لاتے ہیں اور جس کی خامی بیان کر رہے ہوتے ہیں اس کو خبر تک
نہیں ہوتی، نگران شوریٰ فرماتے ہیں کہ میری برائی ہے تو مجھے بتائیں اگر یہ سوچ سب
کی بن جائے تو معاشرے میں کافی حد تک بہتری کے امکانات آ سکتے ہیں، سامنے والے کی
خوبی اگر ثواب کی نیت سے بیان کی جائے بھلے پیٹھ پیچھے ہی ہو تو ثواب بھی ان شاء
اللہ ملے گا اور کل کو عزت بھی، ہم سب نے سنا ہوا ہے کہ جو بوؤ گے وہی کاٹو گے اگر
ہم اچھائی بوئیں گے تو کل اچھائی ہی کاٹیں گے، پیٹھ پیچھے کسی کا عیب کھولنا غیبت
کہلاتا ہے اور اگر کسی میں برائی نہیں ہے جھوٹی برائی کرنا بہتان کہلاتا ہے، غیبت
اور جھوٹ دونوں کا گناہ۔
فرامین مصطفیٰ:
1۔ جنابِ رسالت مآب ﷺ نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی
مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔
میں نے جبرئیل سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بلاوجہ
الزامِ گُناہ لگانے والے ہیں۔(شرح الصدور، ص184)
2۔پیارے آقا ﷺ
نے صحابہ کرام سے استفسار فرمایا:کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صَحابہ کرام نے
عرض کی: ہم میں مفلِس(یعنی غریب مسکین) وہ ہے جس کے پاس نہ دِرہم ہوں
اور نہ ہی کوئی مال۔ ارشاد فرمایا:میری اُمّت میں مُفلِس وہ ہے جو قِیامت کے دن
نَماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فُلاں کوگالی دی ہو گی،فُلاں پر
تہمت لگائی ہو گی،فُلاں کا مال کھایا ہوگا،فُلاں کا خون بہایا ہو گا اورفُلاں کو
مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کاحصّہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے
ذمّے آنے والے حُقُوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے
گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائےگا۔(مسلم، ص 1029، حدیث: 2581)
3۔جو کسی
مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس
وقت تک ردْغَۃُ الخَبال(یعنی
جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پِیپ اور خون جمع ہوگا) میں رکھے گا جب
تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔(ابو داود،3 /
427، حدیث: 3597)
4۔ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: غیبت کسے
کہتے ہیں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم کسی شخص کی ایسی بات ذکر کرو جسے وہ سننا پسند
نہیں کرتا۔ تو اس نے کہا: اللہ کے رسول! چاہے وہ سچ ہی کیوں نہ ہو؟ تو فرمایا: اگر
تم جھوٹ بولتے ہو تو یہ بہتان بازی ہے۔
5۔فرمایا: کیا
جانتے ہو غیبت کسے کہتے ہیں؟ صحابہ نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔
فرمایا: تم اپنے بھائی کا ایسے انداز میں تذکرہ کرو جو اسے پسند نہیں ہے۔ عرض کیا
گیا: اگر جو بات میں کہہ رہا ہوں وہ میرے بھائی میں موجود ہے تب بھی غیبت ہوگی؟ فرمایا:
اگر آپ کی کہی ہوئی بات اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی ہے اور اگر اس میں
وہ چیز موجود ہی نہیں ہے تو یہ تم نے بہتان بازی کی ہے۔(مسلم، حدیث: 2589)
اللہ پاک ہم
سب کو حسن ظن کی توفیق عطا فرمائے دعوت اسلامی میں اخلاص اور استقامت عطا فرمائے۔
آمین
بہتان کی مذمت پر 5 فرامینِ مصطفیٰ
از بنت مشتاق احمد عطاریہ،جامعۃ المدینہ کنیز فاطمہ کوٹ ادو

کسی مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشبہ برا ہے لیکن کسی پر
گناہوں اور برائیوں کا جھوٹا الزام لگانا اس سے کہیں زیادہ برا ہے،ہمارے معاشرے
میں جو برائیاں ناسور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک تہمت وبہتان یعنی جھوٹا
الزام لگانا ہے،چوری،رشوت،قتل جیسے جھوٹے الزامات نے ہماری گھریلو،کاروباری،دفتری
زندگی کا سکون برباد کر کے رکھ دیا ہے۔
بہتان کی تعریف:کسی شخص
کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔بہتان تراشی
حرام گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔
فرامینِ مصطفیٰ:
1۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ
پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال (وہ جگہ جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع ہوگا) میں رکھے گا جب تک وہ اپنی کہی
ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(ابوداود، 3/427،حدیث: 3597)
2۔جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ پاک
جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک وہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب
پالے۔(ابوداود،4/354،حدیث: 4883)
3۔جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ پاک اس کے لیے جہنم واجب کر
دے گا۔(ابن ماجہ 3/3،حدیث: 2373)
بہتان سے بچنے کا درس:اس سے پہلے کہ دنیا سے رخصت ہونا پڑے تہمت و بہتان سے توبہ کر لیجیے، بہار شریعت
حصہ 16 صفحہ 538 پر ہے:بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور جس پر بہتان لگایا ہے اسے
معلوم ہونے کی صورت میں معافی مانگنا ضروری ہے،بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے
ان کے پاس جا کر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان
باندھا تھا۔نفس کے لیے یقینا یہ سخت گراں ہے مگر دنیا کی تھوڑی سے ذلت اٹھانی
آسان جبکہ آخرت کا معاملہ انتہائی سنگین ہے،خدا کی قسم دوزخ کا عذاب برداشت نہیں
ہو سکے گا۔
مثال:اس کو اس مثال سے
سمجھیے کہ پیٹھ پیچھے یا منہ پر کسی کو چور کہہ دیا حالانکہ اس نے کوئی چوری نہیں
کی تو اس کو چور کہنا بہتان ہوا۔
اللہ پاک ہمیں بہتان جیسے کبیرہ گناہ سے محفوظ فرمائے اور ہمیں اپنے اعضا کو
اللہ پاک اور اس کے حبیب ﷺ کی اطاعت و رضا و خوشنودی والے کاموں میں استعمال کرنے
کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ