ہمارے معاشرے میں جن برائیوں نے جنم لیا ہوا ہے ان میں سے ایک برائی بہتان ہے، بعض نادان بغیر سوچے سمجھے اپنے مسلمان بھائی پر بہتان رکھ دیتے ہیں جبکہ معاملہ اس کے بر عکس ہوتا ہے۔

بہتان کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا، تہمت لگانا بہتان کہلاتا ہے۔(غیبت کی تباہ کاریاں،ص 294)یعنی برائی نہ ہونے کے باوجود اگر پیٹھ پیچھے یا روبرو وہ برائی اس کی طرف منسوب کر دی تو یہ بہتان ہوا۔

بہتان تراشی غیبت سے زیادہ تکلیف دہ ہے، کیونکہ یہ جھوٹ ہے اس لیے یہ ہر ایک پر گراں گزرتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ بہتان تراشی کبیرہ گناہ ہے اور حدیث پاک میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔

5 فرامین مصطفیٰ:

1۔جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پا کر) نہ نکل جائے۔(صراط الجنان،6)

2۔جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا۔

3۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(سنن ابو داود،3/427،حدیث:3597)

نبی کریم ﷺ نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا تھا،میں نے جبرائیل سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر بلاوجہ الزام گناہ لگانے والے ہیں۔

5۔طعنہ دینے،غیبت و چغل خوری کرنے اور بے گناہ لوگوں کے عیوب تلاش کرنے والوں کو اللہ پاک بروز قیامت کتوں کی شکل میں اٹھائے گا۔

لہٰذا ہر شخص کو چاہیے کہ وہ بہتان تراشی سے بچے اور جس نے کسی پر بہتان لگایا ہے اسے توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے،بہتان کے دنیاوی نقصانات بھی بہت ہیں،اس سے بغض و عداوت ہوتی ہے اور ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی جان کے دشمن تک ہو جاتے ہیں۔

جس کے سامنے کسی مسلمان پر کوئی بہتان باندھا جا رہا ہو اور کسی مسلمان پر بہتان تراشی کر کے اسے ذلیل کیا جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ خاموش نہ رہے بلکہ بہتان لگانے والوں کا رد کرے اور انہیں اس سے منع کرے اور جس پر بہتان لگایا جا رہا ہو اس کی عزت کا دفاع کرے۔افسوس ہمارے معاشرے میں لوگوں کا یہ حال ہو چکا ہے کہ وہ کسی کے بارے میں ایک دوسرے سے ہزاروں غلط اور بے سر و پا باتیں سنتے ہیں لیکن اکثر جگہ پر خاموش رہتے ہیں اور بہتان تراشی کرنے والوں کو منع کرتے ہیں نہ ان کا رد کرتے ہیں،یہ طرز عمل اسلامی احکام کے بر خلاف ہے اور ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ ایسا طرز عمل اختیار کرے۔

اللہ پاک مسلمانوں کو عقل سلیم اور ہدایت عطا فرمائے۔آمین


کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔

حکم:بہتان تراشی حرام،گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔جو شخص دوسرے پر کفر اور فاسق کی تہمت لگائے اور وہ شخص ایسانہ ہو تو وہ تہمت کہنے والے کی طرف لوٹ آتی ہے۔

2۔جس نے کسی مومن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جو اس میں نہ تھی تو اللہ پاک اس کا ٹھکانہ ردغۃ الخبال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔ ردغۃ الخبال جہنم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہوگا۔

3۔نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں ایک شخص کا ذکر کیا گیا تو لوگوں نے عرض کی:وہ کتنا عاجز ہے! آپ نے ارشاد فرمایا:تم نے اپنے بھائی کی غیبت کی۔عرض کی گئی:یا رسول اللہ ﷺ ہم نے تو وہی بات کہی جو اس میں موجود ہے۔ارشاد فرمایا:اگر تم ایسی بات کہتے جو اس میں موجود نہیں تو تم بہتان باندھتے۔

قرآن کی روشنی میں: ترجمہ کنز الایمان:اور جو ایمان والے مردوں اور عورتوں کو بے کئے ستاتے ہیں انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے سر لے لیا۔

معاشرے میں بہتان کے نقصانات:معاشرے میں بہتان لگانے کی وجہ سے لوگ غلط فہمیوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس سے تعلق میں خرابی ہونے کا اندیشہ ہے،کیونکہ لوگ ایک دوسرے پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں اور وہ اس میں عیب نہیں ہوتا مگر پھر بھی لوگ سچ سمجھ کر اس سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں اور آپس میں لا تعلقی پیدا ہو جاتی ہے۔

مثالیں:مثلا پیٹھ پیچھے یا منہ پر کسی کو چور کہہ دیا حالانکہ اس نے کوئی چوری نہیں کی تو اس کو چور کہنا بہتان ہے،اگر کسی نے یہ کہا کہ دودھ بیچنے والا دودھ میں پانی ملاتا ہے حالانکہ وہ بہت ایمانداری سے دودھ بیچتا ہے پانی نہیں ملاتا تو اس نے اس پر جھوٹا بہتان باندھا۔

بہتان کے اسباب:لڑائی جھگڑا،غصہ،بغض و کینہ،حسد اور بدگمانی۔

آسان شرح:اس کو یوں سمجھیے کہ برائی نہ ہونے کے با وجود اگر پیٹھ پیچھے یا رو برو وہ برائی اس کی طرف منسوب کر دی تو یہ بہتان ہوا۔

بچنے کا درس:مسلمانوں کے بارے میں حسن ظن رکھیے،بدگمانی اور شک کرنے سے پرہیز کیجیے،جو شخص بہتان لگا رہے ہیں اسے چاہیے کہ پہلے اپنا محاسبہ کرے اگر کوئی اس کے ساتھ ایسا کرے تو اس کو کیسا محسوس ہوگا،سلام و مصافحہ کرنے کی عادت اپنائیے ان شاء اللہ اس کی برکت سے دل سے بغض و کینہ دور ہوگا اور محبت بڑھے گی اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا مرض ختم ہوگا،زبان کا قفل مدینہ لگائیے کہ بہتان اور اس کے علاوہ بہت سارے گناہ زیادہ تر زبان سے ہی ہوتے ہیں۔


یقینا اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو انسانی حقوق کا علمبردار ہے انسانی حقوق کا اس قدر پاس اور لحاظ ہے کہ کافر تک کے حقوق اسلام میں بیان کیے گئے ہیں،اپنی ضرورت اور حقوق العباد جاننے کے لیے علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے،معاشرتی،سماجی اور اخلاقی زندگی کو بہتر بنانے کےلیے کتنے ہی ایسے امور ہیں جن کے مسائل کا جاننا فرض ہے انہی میں ایک امر بہتان بھی ہے،معاشرے کے بگاڑ اور اخلاقی پستی میں اس کا بہت بڑا کردار ہے۔

بہتان کیا ہے؟کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے،(حدیقہ ندیہ،2/200)آسان لفظوں میں یوں سمجھیے کہ برائی نہ ہونے کے باوجود پیٹھ پیچھے یا اس شخص کے سامنے اس برائی کو اس سے جوڑنا بہتان ہوا۔

اللہ کے نزدیک بڑا گناہ:اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓــٴَـةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ بَرِیْٓــٴًـا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۱۱۲) (پ 5،النساء:112) ترجمہ:اور جو شخص کوئی خطا یا گناہ کا کام تو خود کرے پھر اسے کسی بے گناہ کے ذمہ تھوپ دے اس نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد دیا۔

ذرا سوچئے کس قدر منافق ہوگا وہ شخص جس نے ایک گناہ تو خود ہی کر کے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا پھر ستم بالائے ستم یہ کیا کہ اس کا الزام دوسرے پر تھوپ دیا اور اپنے آپ کو سزا سے بچانے کی کوشش میں اس نے بے قصور کو پھنسا دیا اور اس طرح وہ پہلے سے بھی بڑے گناہ کا مرتکب ہوگیا۔

اس آیت مبارکہ سے واضح ہوا کسی پر بہتان لگانا حرام ہے، نیز اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کا بھی علم ہوا۔

بہتان اور غیبت میں فرق:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟صحابہ نے عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا:کسی مسلمان کی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں ایسی بات کہنا جو اسے ناپسند ہو تو یہ غیبت ہے۔کسی نے عرض کی اگر وہ ناپسندیدہ بات اس کے اندر موجود ہو تو پھر؟فرمایا:اگر وہ ناپسندیدہ بات اس میں ہے تو یہی غیبت ہے اگر وہ بات اس میں نہیں ہے تو وہ بہتان ہے۔(مسلم)

بہتان کی مذمت پر فرامینِ مصطفیٰ:

1۔جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو اے زانیہ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی،کیونکہ دنیا میں ان کے لیے کوئی حد نہیں۔(مستدرک،5/528،حدیث: 8171)اس حدیث پاک سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے جو بنا سوچے سمجھے لوگوں کو گالیوں یا غلط القابات سے مخاطب کرتے ہیں۔

2۔جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔(معجم الاوسط،6/327، حدیث:8936)نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہم کسی پر الزام لگا کر سوچتے ہی نہیں کہ وہ کس تکلیف سے گزر رہا ہوگا لیکن اللہ بخوبی جانتا ہے۔

3۔میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز،روزہ زکوٰۃ وغیرہ لے کر آئے اور اس کا حال یہ ہو کہ اس نے دنیا میں اسے گالی دی،اسے تہمت لگائی،مال کھایا،خون بہایا تو اس کی نیکیاں اس مظلوم کو دی جائیں گی اگر اس کے ذمہ حقوق کی ادائیگی سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو مظلوموں کی خطائیں اس ظالم پر ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم،حدیث:59)

4۔رسول اللہ ﷺ نے جن سات چیزوں سے بچنے کا فرمایا جو انسان کو ہلاک کر دینے والی ہیں ان میں ایک پاک دامن مسلمان اور بھولی بھالی عورتوں پر بہتان لگانا بھی ہے۔(مسلم)

5۔ذلیل ترین وہ شخص ہے جو دوسروں کی توہین کرے۔(میزان الحکمۃ،1/124،حدیث:460)اس حدیث سے ہمیں بہتان تہمت الزام تراشی جیسے گناہ کی نحوست کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے جو اللہ کو ناراض کرنا ہے اور ہلاکت میں ڈالنے کا سبب بھی ہے۔

بہتان کے معاشرتی نقصانات:کسی پر بہتان لگانا شرعا انتہائی سخت اور حرام ہے اور اخلاقیات کے بھی منافی ہے،ہمارے معاشرے کی انتہائی برائی میں سے ایک برائی ہے،بعض اوقات لوگ کسی کی خوشامد یا کسی کی نظر میں اچھا بننے کےلیے یہ گھٹیا کام سر انجام دیتے ہیں،بہتان،الزام تراشی معاشرے میں فتنہ و انتشار پھیلانا ہے،بعض دفعہ لوگو ں کے گھر اجڑ جاتے ہیں آپس میں قطع تعلق کر لیتے ہیں،ایک دوسرے سے بدگمان ہوجاتے ہیں،جلن،حسد،بہتان،غیبت،جھوٹ، لگائی بجھائی جیسی بری عادات دور جدید میں گپ شپ میں ڈھل چکی ہیں وجہ دین سے دوری کم علمی اور جہالت ہے،بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور جس پر بہتان لگایا ہے اسے معلوم ہونے کی صورت میں معافی مانگنا ضروری ہے۔

اللہ پاک ہمیں ایسی بری عادات مسلمانوں کی دل آزاری اور عیب جوئی کرنے سے بچائے۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے: وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓــٴَـةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ بَرِیْٓــٴًـا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۱۱۲) (پ 5،النساء:112)ترجمہ:اور جو شخص کوئی خطا یا گناہ کمائے پھر اسے کسی بے گناہ پر تھوپ دے اس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ بے گناہ کو تہمت لگانا سخت جرم ہے وہ بے گناہ خواہ مسلمان ہو یا کافر۔(صراط الجنان،ص 339)

پہلے جان لیتے ہیں کہ بہتان کہتے کسے ہیں؟

بہتا ن کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا عدم موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے،مثلا کسی شخص کے پیٹھ پیچھے یا اس کے منہ کےسامنے اسے ریاکار کہنا جبکہ وہ ریاکار نہ ہو۔(غیبت کی تباہ کاریاں،ص 294)

بہتان کے بارے میں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں،چنانچہ؛

1۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابو داود، 4/354، حدیث: 4883)اس حدیث مبارکہ میں بہتان باندھنے پر وعید بیان فرمائی گئی جس سے معلوم ہوا کہ بہتان باندھنا حرام اور کبائر میں سے ہے اور مسلمان کو اس فعل حرام سے بچنا چاہیے۔

2۔ایک روایت میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی نہ جانتا ہو تو اللہ پاک اسے ردغۃ الخبال میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(مصنف عبد الرزاق،11/425،حدیث:20905)اس حدیث مبارکہ میں بہتان باندھنے والوں کا مقام بیان کیا گیا یہ جہنم میں وہ مقام ہے جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع ہوگا۔

3۔بہتان کے عذاب کی ایک دل ہلا دینے والی روایت ملاحظہ ہو،چنانچہ جناب رسالت مآب ﷺنے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا تھا،میں نے جبرائیل سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر جھوٹی تہمت لگانے والے ہیں۔(شرح الصدور، ص183)لہٰذا ہمیں اس سے نصیحت پکڑتے ہوئے اپنی زبان کو اللہ کے بندوں پر الزام تراشی سے محفوظ رکھ کر اپنی عاقبت سنوارنی چاہیے،یقینا رب کا قہر برداشت کرنے کی ہم میں قوت نہیں۔

4۔مسلمان کی حرمت کے بارے میں حدیث مبارکہ میں ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:بد ترین سود یہ ہے کہ کسی مسلمان بھائی کی عزت میں ناحق دست درازی کرے۔(مرقاۃ المفاتیح،ص375)اس حدیث شریف کا مفہوم اس طرح ہے کہ بغیر حق اور بغیر کسی صحیح تصدیق کے کسی مسلمان کی عیب جوئی کرنا بدترین سود ہے،کیونکہ اربابِ کمال کے نزدیک عزت و آبرو مال و زر سے زیادہ قیمتی ہے۔اس ضمن میں حضرت عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو "اے زانیہ" کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی،کیونکہ دنیا میں ان کے لیے کوئی حد نہیں۔(کتاب الحد و الجہاد،5/528)اس حدیث میں عبرت کا سامان ہے کہ اپنے سے کم مرتبہ لوگوں کو حقیر جان کر ان کی عزت نفس مجروح کرنا ان پر بنا ثبوت الزام دھرنا انتہائی سخت جرم ہے۔

درج بالا تمام احادیث کریمہ سے معلوم ہوا کہ دین اسلام میں مسلمانوں پر بہتان باندھنے سے بچنا خاص اہمیت کا حامل ہے اور نا حق جھوٹ باندھ کر ایذا پہنچانا انتہائی قبیح جرم ہے جس کی سخت سزا مقرر ہے۔افسوس فی زمانہ الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں،ہر ایک کو اپنے اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہیے۔

بہتان کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں؛کسی پاک دامن عورت کو زانیہ کہہ دینا،کسی مسلمان کو ریاکار کا لقب دے دینا،بغیر تصدیق جھوٹا کہہ دینا،اپنے ملازم کو محض شک کی بنیاد پر چور قرار دینا وغیرہ۔

بہتان کے معاشرتی نقصانات کو دیکھا جائے تو ان کی بھی ایک فہرست ہے،کسی ادنیٰ درجے والے کو چور قرار دینا،آپ کے لیے یہ الزام تھوپنا آسان ہے مگر اس کی نسلوں تک کے لیے یہ باعث ذلت بن جاتا ہے،اسی طرح کسی پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت باندھ کر اسے سارے زمانے میں رسوا کر دیا جاتا ہے اور بسا اوقات ایسے حالات میں خود کشی جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں،لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اپنے دین اسلام کے عمدہ اخلاق اپنائیں اور انہیں اپنے عمل سے فروغ دیں اور بہتان جیسے ناسور مرض سے خود کو اور دوسرے مسلمانوں کو بچائیں نہ کہ کسی پر الزام تراشی کریں اور نہ کسی کے بارے میں سنیں بلکہ ایک مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی موجودگی اور غیر موجودگی دونوں حالتوں میں اس کی عزت کی حفاظت کرے کہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ مومن کی حرمت کعبہ معظمہ سے بھی زیادہ ہے۔

حقوق العباد آہ ہوگا مرا کیا! کرم مجھ پہ کر دے کرم یا الٰہی

بڑی کوششیں کیں گناہ چھوڑنے کی رہے آہ ناکام ہم یا الٰہی


کسی مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشبہ برا ہے لیکن کسی پر گناہوں اور برائیوں کا جھوٹا الزام لگانا اس سے کہیں زیادہ برا ہے،ہمارے معاشرے میں جو برائیاں ناسور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک تہمت و بہتان بھی ہے۔

بہتان کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا، تہمت لگانا بہتان کہلاتا ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال (یعنی جہنم میں وہ جگہ جہاں دوزخیوں کا پیپ اور خون جمع ہوگا) میں رکھے گا جب تک اس کے گناہ کی سزا پوری نہ ہولے۔(ابو داود،3/427،حدیث: 3597)اس حدیث پاک سے یہ معلوم ہوا کہ بہتان لگانے والوں کو پیپ اور خون میں رکھا جائے گا جب تک کہ وہ پوری سزا نہ پالے۔

2۔تم لوگوں کو اپنے شر سے محفوظ رکھو یہ ایک صدقہ ہے جو تم اپنے نفس پر کروگے۔(بخاری،2/150، حدیث:2518)اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو ناحق ایذا اور تکلیف نہیں دینی چاہیے اگر ہم کسی پر بہتان لگائیں گے تو اس سے اسے تکلیف پہنچے گی اور حدیث میں دوسروں کو اپنے شر سے محفوظ رکھنے کی تلقین فرمائی گئی ہے۔

3۔سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا:کیا تم جانتے ہو کہ مسلمان کون ہے؟صحابہ کرام نے عرض کی:اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ارشاد فرمایا:مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(مسند امام احمد،2/54،حدیث:4942) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں وہ مسلمان ہے یعنی مسلمان وہ ہے جو اپنی زبان سے کسی پر جھوٹا الزام نہ لگائے نہ کسی کو تکلیف پہنچائے۔

4۔بے شک کسی مسلمان کی ناحق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔(ابو داود،4،حدیث:427)کسی مسلمان کی نا حق بے عزتی کرنا کبیرہ گناہ ہے مگر افسوس اب ایسا دور آگیا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے پیچھے پڑا ہوا ہے بلا تکلف تہمت لگانا تو ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔

5۔خاتم النبیین ﷺ نے کعبہ معظمہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا:مومن کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے۔ (ابن ماجہ، 4/319، حدیث: 3932)اس حدیث پاک سے ہمیں مومن کی عزت و حرمت معلوم ہوتی ہے کہ وہ کس قدر زیادہ ہے،ہم نے احادیث ملاحظہ کیں جن میں پیارے آقا ﷺ نے بہتان کی مذمت، کسی پر تہمت لگانا اور مومن کی حرمت کے بارے میں بیان فرمایا،ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بہتان تراشی سے بچیں اگر کسی پر بہتان باندھنے کو دل چاہے تو فورا اپنے آپ کو یوں ڈرائیے کہ اگر میں کسی پر بہتان باندھوں تو جہنم کا حقدار قرار پاؤں گا۔

بہتان کی مثالیں:بہتان کی چند مثالیں ملاحظہ کیجیے مثلا کسی عورت پر بدکاری کا جھوٹا الزام لگانا،کسی پر چوری کا الزام لگانا،کسی پر بدسلوکی کا الزام لگانا وغیرہ۔

بہتان کے معاشرتی نقصانات:بہتان کے بہت سے معاشرتی نقصانات بھی ہیں جیسا کہ اگر کسی پر بہتان و تہمت لگائی گئی ہوگی تو وہ دل برداشتہ ہو کر اپنی جان بھی لے سکتا ہے،اگر کسی عورت پر تہمت لگائی گئی ہوگی تو معاشرے میں اس کی عزت و وقار باقی نہیں رہے گا وغیرہ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں تہمت و بہتان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


 کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا، تہمت لگانا بہتان کہلاتا ہے۔ اس کو آسان لفظوں میں یوں سمجھیے کہ برائی نہ ہونے کے باوجود اگر پیٹھ پیچھے یا روبرو وہ برائی اس کی طرف منسوب کر دی تو یہ بہتان ہوا،مثلا پیٹھ پیچھے یا منہ کے سامنے ریاکار کہہ دیا اور وہ ریا کار نہ ہو یا اگر ہو بھی تو آپ کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو کیونکہ ریاکاری کا تعلق باطنی امراض سے ہے لہٰذا اس طرح کسی کو ریا کار نہیں کہیں گے،کیونکہ یہ بہتان ہے۔بہتان تراشی غیبت سے زیادہ تکلیف دہ ہے کیونکہ یہ جھوٹ ہے اس لیے یہ ہر ایک پر گراں گزرتی ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ بہتان تراشی کبیرہ گناہ ہے۔ حدیث مبارکہ میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کر کے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پا کر) نہ نکل جائے۔

2۔ جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔اس سے مراد یہ ہے کہ وہ طویل عرصے تک عذاب میں مبتلا رہے گا۔

3۔جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال (دوزخیوں کے کیچڑ پیپ اور خون) میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل جائے۔(ابو داود،3 / 427، حدیث: 3597)

جہنم کا عذاب ایک منٹ کے کروڑویں حصے میں بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ بہتان تراشی سے بچے۔

معاشرتی نقصانات:سورۂ نور کی آیت نمبر 16 میں فرمایا گیا ہے: وَ لَوْ لَاۤ اِذْ سَمِعْتُمُوْهُ قُلْتُمْ مَّا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّتَكَلَّمَ بِهٰذَا ﳓ (النور:16) ترجمہ: اور کیوں نہ ہوا کہ جب تم نے سنا تھا تو کہہ دیتے کہ ہمارے لیے جائز نہیں کہ یہ بات کہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ جس کے سامنے کسی مسلمان پر کوئی بہتان باندھا جا رہا ہو اور کسی مسلمان پر بہتان تراشی کر کے اسے ذلیل کیا جا رہا ہو تو اسے چاہیے کہ خاموش نہ رہے بلکہ بہتان لگانے والوں کا رد کرے اور انہیں اس سے منع کرے او ر جس مسلمان پر بہتان لگایا جا رہا ہو اس کی عزت کا دفاع کرے۔افسوس ہمارے معاشرے میں لوگوں کا حال یہ ہو چکا ہے کہ وہ کسی کے بارے میں ایک دوسرے سے ہزاروں غلط اور بے سر و پا باتیں سنتے ہیں لیکن اکثر جگہ پر خاموش رہتے ہیں اور بہتان تراشی کرنے والوں کو منع کرتے ہیں نہ ان کا رد کرتے ہیں یہ طرز عمل اسلام کے احکام کے بر خلاف ہے اور ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ ایسا طرز عمل اپنائے۔

اللہ پاک مسلمان کو عقل سلیم اور ہدایت عطا فرمائے۔آمین


جھوٹ بولنا غیبت کرنا گناہ کبیرہ میں سے ہیں جن کے حوالے سے صریح طور پر وعیدات وارد ہوئی ہیں یہ دونوں گناہ مذموم تو ہیں ہی مگر اس سے انتہائی سخت اور بدتر گناہ بہتان تراشی ہے کیونکہ اس سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے، اس لیے یہ ایک الگ کبیرہ گناہ میں شمار ہوتا ہے۔کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اُس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔(حدیقہ نديہ، 2/ 200) اس کو آسان لفظوں میں یوں سمجھئے کہ بُرائی نہ ہونے کے باوجود اگر پیٹھ پیچھے یا رُوبَرو وہ برائی اس کی طرف منسوب کردی تو یہ بُہتان ہوا، مثلاً پیچھے یا منہ کے سامنے ریاکار کہہ دیا اور وہ ریاکار نہ ہو یا اگر ہو بھی تو آپ کے پاس کوئی ثبوت نہ ہو کیوں کہ ریاکاری کا تعلق باطنی امراض سے ہے لہٰذا اس طرح کسی کو ریاکار کہنا بہتان ہوا۔ کسی مسلمان کو تہمت لگانی حرامِ قطعی ہے خصوصاً مَعَاذَاﷲ اگر تہمتِ زنا ہو۔(فتاویٰ رضویہ،24/386) قرآن و حدیث میں اس کی نہ صرف مذمت بیان ہوئی بلکہ کئی وعیدات بھی واضح طور پر بیان کی گئی ہیں، چنانچہ

1۔ حضور ﷺنے گناہ کبیرہ کی فہرست بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ پاک دامن مومن انجان عورتوں کو تہمت لگانا۔ (صحیح بخاری،2/242،حدیث:2766)

2۔حضورﷺ نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مَناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر جھوٹی تُہمت لگانےوالے ہیں۔ (شرح الصدور، ص182)

3۔جو کسی مسلمان کی بُرائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وَقت تک ردغۃ الخبال (دوزخیوں کے کیچڑ، پِیپ اور خون) میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔(سنن ابی داود،3/427،حدیث:3597)

4۔میری اُمّت میں مُفلِس وہ ہے جو قِیامت کے دن نَماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے فُلاں کوگالی دی ہو گی،فُلاں پر تہمت لگائی ہو گی،فُلاں کا مال کھایا ہو گا،فُلاں کا خون بہایا ہو گا اورفُلاں کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کاحصّہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حُقُوق پورے ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم،ص1069،حدیث:6578)

5۔جس نے کسی شخص کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تا کہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا۔(معجم الاوسط، 6/327،حدیث:8936)

تو ہمیں چاہیے کہ ہم اس گناہ سے باز رہنے کی کوشش کرتے ہوئے اللہ پاک سے اس سے بچنے کی دعا کرتے رہیں اس کی صورتوں کے حوالے سے علم حاصل کریں اور مسلمان کا احترام بجا لائیں،اور اگر یہ گناہ سرزد ہو چکا تو توبہ کے ساتھ اس سے معافی طلب کریں۔اللہ پاک ہمیں اس گناہ سے بچائے۔ آمین


کسی شخص کی موجودگی یا غیرموجودگی میں اُس پر جھوٹ باندھنا بُہتان کہلاتا ہے۔ (حدیقہ ندیہ،2/200) ہمارے مُعاشرے میں موجود برائیوں میں سے ایک ناسور تُہمت وبہتان (جھوٹا اِلزام لگانا) بھی ہے۔ چوری، رشوت، جادو ٹونے، بدکاری، خِیانت، قتل جیسے جھوٹے اِلزامات نے ہماری گھریلو، کاروباری، دفتری زندگی کا سُکون برباد کرکے رکھ دیا ہے۔

دشمنی، حسد، اپنا راستہ صاف کرنے، بدلہ لینے کیلئے تُہمت و بہتان تراشی کرنے والے تو اِلزام لگانے کے بعد اپنی راہ لیتے ہیں لیکن جس پر جھوٹا الزام لگا، اس کو بقیہ زندگی رُسوائی اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ویسے تو زِنا کے علاوہ کسی دوسرے عیب مثلاً چوری یا ڈاکہ یا قتل وغیرہ کا اپنی طرف سے گھڑ کر الزام لگا دینا بھی بہتان ہے البتہ کسی عورت پر بدکاری کا جھوٹا الزام لگانا زیادہ خطرناک ہے۔ لیکن بعض بے باک لوگ یہ بھی کر گزرتے ہیں اور اتنانہیں سوچتے کہ اس عورت اور اس کے گھر والوں پر کیا گزرے گی۔

مختصر یہ کہ بہتان نہ صرف انسان کی انفرادی زندگی کیلئے بلکہ معاشرتی اعتبار سے بھی بہت زیادہ خرابیاں پیدا ہونے کا باعث ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام میں یہ سخت گناہ و حرام ہے اور اس کی مذمت میں بہت سی احادیث مبارکہ وارد ہیں۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔جس نے کسی کے بارے میں کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اس کے بارے میں اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ طویل عرصے تک وہ عذاب میں مبتلا رہے گا۔(معجم الاوسط،6/ 327، حدیث: 8936)

2۔حضور ﷺ نے صحابہ کرام سے استفسار فرمایا:کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے؟ صَحابہ کرام نے عرض کی: ہم میں مفلِس(غریب) وہ ہے جس کے پاس نہ دِرہم ہوں اور نہ ہی کوئی مال۔ ارشاد فرمایا: میری اُمّت میں مُفلِس وہ ہے جو قِیامت کے دن نَماز، روزہ اور زکوٰۃ لے کر آئے گا لیکن اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا اور کسی کو مارا ہو گا۔ پس اس کی نیکیوں میں سے ان سب کو ان کا حصّہ دے دیا جائے گا۔ اگر اس کے ذمّے آنے والے حُقُوق پورا ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں تو لوگوں کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے، پھر اسے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم، ص 1029، حدیث: 2581)

3۔کبیرہ گناہوں کی فہرست بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: پاک دامن مومن بےخبر عورتوں کو تہمت لگانا۔ (صحیح بخاری، 2/242-243،حدیث:2766)

4۔جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک اسے جہنم کے پُل پر اس وقت تک روکے گا جب تک وہ اپنی کہی ہوئی بات (کے گناہ) سے (اس شخص کو راضی کرکے یا اپنے گناہ کی مقدار عذاب پاکر) نہ نکل جائے۔ (ابو داؤد،4 / 354، حدیث: 4883)

5۔رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مَناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زَبانوں سے لٹکایا گیا تھا۔ میں نے جبرئیل سے اُن کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر جھوٹی تُہمت لگانےوالے ہیں۔(شرح الصدور، ص182)

لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ بہتان تراشی سے بچے اور جس نے کسی پربہتان لگایا ہے اسے توبہ کرنا اور معافی مانگنا ضروری ہے بلکہ جن کے سامنے بہتان باندھا ہے ان کے پاس جاکر یہ کہنا ضروری ہے کہ میں نے جھوٹ کہا تھا جو فلاں پر میں نے بہتان باندھا تھا۔

جس کے سامنے کسی مسلمان پر کوئی بہتان باندھا جارہا ہو اور کسی مسلمان پر بہتان تراشی کر کے اسے ذلیل کیا جارہا ہو تو اسے چاہئے کہ خاموش نہ رہے بلکہ بہتان لگانے والوں کا رَد کرے اور انہیں اس سے منع کرے اور جس مسلمان پر بہتان لگایا جا رہاہے اس کی عزت کا دفاع کرے۔ افسوس! ہمارے معاشرے میں لوگوں کا حال یہ ہو چکا ہے کہ وہ کسی کے بارے میں ایک دوسرے سے ہزاروں غلط اور بے سرو پاباتیں سنتے ہیں لیکن اکثر جگہ پر خاموش رہتے ہیں اور بہتان تراشی کرنے والوں کو منع کرتے ہیں، نہ ان کا رد کرتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل اسلامی احکام کے برخلاف ہے اور ایک مسلمان کی یہ شان نہیں کہ وہ ایساطرزِ عمل اپنائے۔

اللہ پاک ہمیں بہتان سے بچنے اور مسلمانوں کی عزت کی حفاظت کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ 


کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے۔آسان لفظوں میں یوں کہ برائی نہ ہونے کے باوجود اگر پیٹھ پیچھے غیر موجودگی یا سامنے وہ برائی اس کی طرف منسوب کر دیں تو یہ بہتان ہوا مثلاً پیچھے یا منہ پر کسی کو چور کہہ دیا حالانکہ اس نے کوئی چوری نہیں کی تو اس کو چور کہنا بہتان ہوا۔

بہتان کا حکم: بہتان تراشی حرام گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔

قرآن پاک میں بہتان پر بہت سی آیتیں نازل ہوئی، ارشاد ہوا: اِنَّمَا یَفْتَرِی الْكَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰهِۚ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ(۱۰۵) ترجمہ کنزالایمان: جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو اللہ کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں۔

بہتان پر احادیث مبارکہ:

1۔ جو کسی مسلمان کی برائی بیان کرے جو اس میں نہیں پائی جاتی تو اس کو اللہ پاک اس وقت تک ردغۃ الخبال میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے۔ (ابو داود،3 / 427، حدیث: 3597)ردغۃ الخبال جہنم میں ایک جگہ ہے جہاں جہنمیوں کا خون اور پیپ جمع ہو گا۔ (بہار شریعت،جلد 2، حصہ: 9)

2۔ جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے ذریعے اس شخص کو عیب دار کرے اللہ پاک اسے جہنم میں قید کرے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات ثابت کریں۔(معجم الاوسط، 6/328حدیث:8936)

3۔جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو اے زانیہ! کہہ کر پکارا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو قیامت کے دن وہ لونڈی اسے کوڑے لگائے گی، کیونکہ دنیا میں اس کے لئے کوئی حد نہیں۔( مستدرک،5/528،حدیث: 8171)

بہتان تراشی کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب: لڑائی جھگڑا، غصہ، بغض و کینہ، حسد، زیادہ بولنے کی عادت اور بدگمانی۔

ہمیں بہتان تراشی کے گناہ میں مبتلا ہونے والے اسباب پر نظر رکھ کر ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے جیسے کہ بہتان اور اس کے علاوہ بہت سارے گناہ زیادہ تر زبان سے ہی ہوتے ہیں لہٰذا اسے قابو میں رکھنا بہت ضروری ہے قرآن و حدیث میں ذکر کئے گئے ہیں ان کے ہولناک عذابات کا مطالعہ کیجئے اور غور کیجیے کہ بہتان کے سبب اگر ہم پر کوئی عذاب مسلط کردیا گیا تو کیا بنے گا۔


ادب وہ شے ہے جو نصیب بدل دیتی ہے۔ہر بارگاہ کا ایک ادب ہوتا ہے، اس کو بجالانے والوں اور اس کے خلاف کرنے والوں کا حال جدا جدا ہوتا ہے۔ کہیں موسیٰ علیہ اسلام کا ادب کرنے والے کا فرجادوگر مسلمان ہو جاتے ہیں تو کہیں جناب آدم علیہ السلام کی بے ادبی کی وجہ سے مُعَلِّمُ الْمَلَکُوت، عابد و موحد،ابلیس و ملعون ٹھہرتا ہے۔ تو کیا مقام ہوگا اس بارگاہ کا جو تمام نبیوں علیہم السلام کے سردار اور وجہ تخلیق کائنات ہیں۔

استاذ کی بارگاہ کا ادب شاگرد بتائے، پیر کی بارگاہ کا ادب مرید سمجھائے اور (الله الله کہ) مصطفٰے ﷺکی بارگاہ کا ادب خدا بیان فرمائے۔ (شرح حدائقِ بخشش،ص 195)

(1)چنانچہ حضورﷺ صحابہ کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی کلام اقدس کو اچھی طرح سمجھنے کیلئے عرض کرتے:رَاعِنَا یَارَسُولَ اللّٰه! یعنی ہمارے حال کی رعایت فرمائیے۔ اب یہودیوں کی لغت میں” راعنا“بے ادبی کا معنی رکھتا تھا اور انہوں نے اسی نیت سے کہنا شروع کر دیا،لہٰذا رب کریم نے اپنے حبیبﷺ کی بارگاہ کا ادب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-(البقرۃ: 104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو۔

معلوم ہوا کہ رب کریم کو حضور ﷺ کا ادب کتنا ملحوظ ہے کہ جس لفظ کے ایک معنی میں بے ادبی ہوئی اسے کہنے سے اپنے کلام پاک میں منع فرما دیا۔

(2)اور ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (الحجرات:02) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے۔ سبحان الله ! خدا کو اپنے حبیب ﷺسے کسی کی آواز بھی اونچی پسند نہیں۔

حاضر ہوئے جبریل امیں بھی تو ادب سے نازل ہوا قرآن بھی تو بے صوت و صدا تھا

(شرح حدائق بخشش،ص 339)

(3)اور فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔حضور ﷺ جب بھی بلائیں تو ان کی بارگاہ میں حاضر ہونا ضروری ہے۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ حضورﷺ بلائیں اور بندہ نماز میں ہو تو بھی فورا ًحاضر ہو جائے اور اس سے نماز بھی فاسد نہ ہوگی کہ حضور ﷺ کا بلا نارب ہی کا بلانا ہے۔

مصطفی و ایں چنیں سوء الادب ایں قدر ایمنِ شدید از اخذِرب

(4)فرمایا: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ اس لئے یا محمد کہنے کی اجازت نہیں۔ ثابت ہوا کہ ”یا محمد!، یااحمد!، یا ابنِ عبدالله!“ یا اے بھائی ! اے باپ! وغیرہ خطابات سے پکارنا حرام ہے۔ بلکہ یا رسول اللہ !یا حبیب اللہ !وغیرہ القاب سے پکارو۔ (شان حبیب الرحمن، ص 162)

(5)حضور ﷺ کے گھر ایک تقریب کے موقع پر فارغ ہونے کے بعد بھی کچھ لوگوں کا بیٹھے رہنا الله پاک کو پسند نہ آیا کیونکہ یہ بات حضورﷺ کیلئے باعث تکلیف تھی اور وہ حیا کی وجہ سے کچھ نہیں کہتے تھے۔چنانچہ ارشاد ہوا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ(الاحزاب: 53) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ۔

ادب گاہ ہیست زیر آسمان از عرش نازک تر نفس گم کرده می آید جنید و بایزید ایں جا

الله پاک ہمیں حضور جانِ عالم ﷺ کا سچاعشق وادب نصیب فرمائے اور ہمارے حق میں یہ دعا قبول فرمائے۔ آمین

محفوظ سدا رکھنا شہا بے ادبوں سے اور ہم سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو


ادب گاہ ہیست زیر آسمان از عرش نازک تر                     نفس گم کرده می آید جنید و بایزید ایں جا

اس بارگاہ میں جنید بغدادی اور بایزید بسطامی جیسے بڑے بڑے بھی سر جھکائے کھڑے ہیں۔ اس بارگاہ کا ادب ہی ایسا ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ بارگاہ محبوبِ رب کریم ﷺکی ہے۔ یہاں تو زور سے سانس لینا بھی بے ادبی ہے۔ عشق کا دعویٰ کرنے والا بغیر ادب کے اپنے قول میں کیسے صادق ہو سکتا ہے! محبت کی کہانی میں جب محبوب کا لقاء آجاتا ہے تو پھر محب کچھ نہیں کہتا، کوئی عرض نہیں کرتا، بس دور کھڑا رو رہا ہوتا ہے۔ ارے جہاں یار کا جلوہ ہو وہاں عرضیں نہیں کی جاتیں۔ وہاں تو نگاہیں جھکی ہوئی سب جان لیتی ہیں۔ یہ تو وہ بارگاہ ہے کہ رب کریم خود اس کے آداب سکھاتا ہے۔

(1)فرمایا: لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (پ 26، الحجرات:2 ) ترجمہ کنزالعرفان: اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔

محبوب کی آواز سے اپنی آواز پست رکھو۔ وہ تم سے کلام فرمائیں اور تم کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز میرے حبیب سے اونچی نہ ہو بلکہ ایسے عرض کرو کہ جیسے عرض کرنے والے کو زیب دیتا ہے۔

(2) اور فرمایا: وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ (الحجرات: 02)ترجمہ کنز العرفان: ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو۔ اور یہ ادب سکھایا کہ ان کے حضور پورا پورا لحاظ رکھو اور آپس میں جیسےایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو کہ آپ ﷺ کی شان میں بے ادبی ہو۔ بلکہ جو عرض کرنا ہو یوں کہو:یا رسول الله، یانبی اللہ۔ ان کی تعظیم و توقیر کا خیال رکھو۔ (تفسیر صراط الجنان، الحجرات:2ملتقطاً)

(3)فرمایا: لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-(البقرۃ: 104) ترجمہ کنز الایمان: راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان کو جب پیارے آقا ﷺ تلقین ونصيحت فرماتے تو کبھی صحابہ کرام عرض کرتے: را عنا یار سول الله یعنی یا رسول اللہﷺ!ہمارے حال کی رعایت فرمائیے تو یہودی زبان دباکر”را عینا “ کہتے جس کے معنی چرواہا کے ہیں۔ جب مسلمان ناراض ہوتے تو وہ کہتے کہ تم بھی تو یہی کہتے ہو اس پر وہ رنجیدہ ہو کر بارگاہ عالی میں حاضر ہوتے تو رب کریم نے یہ آیت نازل فرمادی کے را عنا نہ کہو بلکہ” انظرنا“ کہو اور پہلے سے ہی بغور سنو۔

(4)فرمایا: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ حضور علیہ السلام جب کسی کو پکاریں تو اس پر جواب دینا اور عمل کرنا واجب اور ادب سے حاضر ہونا لازم ہو جاتا ہے۔ تو اے لوگو! میرے حبیب کے پکارنے کو آپس میں ایسا معمولی نہ بنا لو کہ جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔(اے ایمان والو!، ص 69 ملتقطاً)

(5)فرمایا: وَ مَا كَانَ لَكُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ لَاۤ اَنْ تَنْكِحُوْۤا اَزْوَاجَهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖۤ اَبَدًاؕ (الاحزاب:53) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہیں نہیں پہنچتا کہ رسول اللہ کو ایذا دو اور نہ یہ کہ ان کے بعد کبھی ان کی بیبیوں سے نکاح کرو۔ الله پاک بارگا ہ رسالت کا کمال ادب سکھاتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہیں ایذا نہ دینا، ان کے وصال کے بعد بھی ان کی ازواج مطہرات باقیوں کیلئے حرام ہیں۔ آپ کے وصال ظاہری کے بعد بھی امتیوں کو چاہئے کہ ایسے کام نہ کریں کہ جس سے قلب مقدس رنجیدہ ہو کہ نبی ﷺاپنی امت کے ہر حال سے واقف ہیں اور آپ ہمیں ہمارے سب سے قریبی دوست سے بھی بڑھ کر جانتے اور پہچانتے ہیں۔ ادب میں یہ بھی ہے کہ آپ سے منسوب ہر چیز کا ادب کیا جائے۔ آپ کی مسجد،روضہ انور، مکان و دیوار و خار و گل و سگانِ دربار۔ آپ کی طرف منسوب موئے مبارک کی تصدیق کرنا بھی ہمارا کام نہیں۔ جان لو کہ عزت و عظمت اسی کی ہے جس کی پلکیں محبوب خدا کے قدموں میں ہوں۔ جو اکڑا وہ تو مردود ہو گیا اور جو جھکا اس نے معراج پائی۔پھرجب محبت کے قصے لکھنے بیٹھے تو لکھ ہی دیا کہ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔


قرآنِ پاک میں جہاں نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کا بیان ہے وہیں آپ کے ادب واحترام کا حکم بھی ہے۔ اسی طرح آپ کے سامنے ادب و احترام کے تقاضے بجالانے کی تعلیم بھی ملتی ہے بے شمار آیات مبارکہ اس پر شاہد ہیں کہ اہل ایمان پر نبی کریم ﷺ کا ادب اور تعظیم کرنا ایمان کی سلامتی کے لیے لازم اور ضروری ہے۔

آیت نمبر1: آداب بارگاہ نبوی کے متعلق سورۃ الحجر ات کی آیت نمبر 02 میں الله پاک ار شاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں۔

پہلا ادب: یہ ہے کہ اے ایمان والو!جب نبی کریم ﷺ تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پست آواز سے کرو۔

دوسرا ادب: یہ ہے کہ حضور اقدس ﷺ کو ندا کرنےمیں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف و تکریم کے کلمات اور عظمت والے القابات کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسول اللہ!یا نبی اللہ! کیونکہ ترک ادب سے نیکیوں کے بربادہونے کا اندیشہ ہے اوراس کی تمہیں خبر نہ ہوگی۔

آیت نمبر02:سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 1میں آدابِ بارگاہِ نبوی کے متعلق اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

اس آیت میں الله پاک ایمان والوں سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے:اللہ اور رسول ﷺ دونوں سے آگے نہ بڑھو۔ اللہ پاک سے آگے بڑھنا ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ وہ نہ زمان میں نہ کسی مکان میں اور آگے ہونا یا زمان میں ہوتا ہے یا جگہ میں۔ معلوم ہوا کہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ سے آگے نہ بڑھو، ان کی بے ادبی دراصل اللہ پاک کی بے ادبی ہے۔

آیت نمبر03: اللہ پاک نے سورۃ النور کی آیت نمبر 63 کے کچھ حصے میں آداب بارگاہ نبوی ﷺ کے متعلق کچھ یوں ارشاد فرمایا: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ فرمایا گیا کہ اے لوگو ! میرے حبیبﷺ کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنا لو جیسے تم ایک دوسرے کو پکارتے ہو۔ اس کا ایک معنی یہ ہے کہ اے لوگو ! میرے حبیب ﷺکے پکارنے کو آپس میں ایسا معمولی نہ بنا لو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے کیونکہ رسول الله ﷺ جسے پکاریں اس پر جواب دینا اورعمل کرنا واجب اور ادب سے حاضر ہونا لازم ہوجاتا ہے۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے لوگو! میرے حبیب ﷺ کا نام لے کرنہ پکارو بلکہ تعظیم، تکریم،نرم آواز کے ساتھ انہیں اس طرح کے الفاظ کے ساتھ پکارو: یارسول اللہ،یا نبی الله، یا حبیب اللہ، یا امام المرسلین، یا خا تم النبین۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ ہر قسم کی ظاہری حیات طیبہ میں اور وصالِ ظاہری کے بعد بھی انہیں ایسے الفاظ کے ساتھ ندا کر نا جائز نہیں جن میں ادب و تعظیم نہ ہو۔

آیت نمبر 04:سورۃ الانفال کی آیت نمبر 24 کے پہلے حصے میں رسول کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے آداب کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔

اس آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدار رسالت ﷺ جب بھی کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہو۔

آیت نمبر 05:سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 53کے پہلے حصے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّؕ- ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والونبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلا کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکوہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہو جاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ بے شک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور الله حق فرمانے میں نہیں شرماتا۔

اس آیت میں اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺکی بارگاہ میں حاضری کے آداب خود بیان فرمائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں جو مقام حضور کو حاصل ہے وہ مخلوق میں سے کسی اور کو حاصل نہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے تاجدار رسالت ﷺ کی ظاہری حیات مبارک میں بھی اور وصال ظاہری کے بعد بھی آپ کی بارگاہ کا بے حد ادب واحترام کیا اور اللہ پاک نے اپنے حبیب کی بارگاہ کے جو آداب انہیں تعلیم فرمائے انہیں دل و جان سے بجالائے۔ اسی طرح ان کے بعد تشریف لانے والے دیگر بزرگانِ دین نے بھی دربارِ سالت کے آداب کا خوب خیال رکھا اور دوسروں کو بھی وہ آداب بجالانے کی تلقین کی۔ ہمیں بھی صحابہ کرام اور بزرگان دین کے احکام کے مطابق اور آیت قرآنی کے مطابق بارگاہ نبوی کے آداب بجالانے چاہییں۔

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی میں دو شخصوں کی بلند آواز سنی تو آپ (ان کے پاس) تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم دونوں جانتے ہو کہ کہاں کھڑے ہو ؟ پھر ارشاد فرمایا:تم کس علاقے سے تعلق رکھتے ہو؟ دونوں نے عرض کی: ہم طائف کے رہنے والے ہیں، ارشاد فرمایا: اگر تم مدینہ منورہ کے رہنے والے ہوتے تو میں (یہاں آواز بلند کرنے کی وجہ سے )تمہیں ضرور سزا دیتا (کیونکہ مدینہ منورہ میں رہنے والے دربار رسالت کے آداب سے خوب واقف ہیں۔)(تفسیرابن کثیر،7/343)