قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے: وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓــٴَـةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ بَرِیْٓــٴًـا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۱۱۲) (پ 5،النساء:112)ترجمہ:اور جو شخص کوئی خطا یا گناہ کمائے پھر اسے کسی بے گناہ پر تھوپ دے اس نے ضرور بہتان اور کھلا گناہ اٹھایا۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ بے گناہ کو تہمت لگانا سخت جرم ہے وہ بے گناہ خواہ مسلمان ہو یا کافر۔(صراط الجنان،ص 339)

پہلے جان لیتے ہیں کہ بہتان کہتے کسے ہیں؟

بہتا ن کی تعریف: کسی شخص کی موجودگی یا عدم موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے،مثلا کسی شخص کے پیٹھ پیچھے یا اس کے منہ کےسامنے اسے ریاکار کہنا جبکہ وہ ریاکار نہ ہو۔(غیبت کی تباہ کاریاں،ص 294)

بہتان کے بارے میں چند احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں،چنانچہ؛

1۔رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کرے تو اللہ پاک جہنم کے پل پر اسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابو داود، 4/354، حدیث: 4883)اس حدیث مبارکہ میں بہتان باندھنے پر وعید بیان فرمائی گئی جس سے معلوم ہوا کہ بہتان باندھنا حرام اور کبائر میں سے ہے اور مسلمان کو اس فعل حرام سے بچنا چاہیے۔

2۔ایک روایت میں ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی نہ جانتا ہو تو اللہ پاک اسے ردغۃ الخبال میں اس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پالے۔(مصنف عبد الرزاق،11/425،حدیث:20905)اس حدیث مبارکہ میں بہتان باندھنے والوں کا مقام بیان کیا گیا یہ جہنم میں وہ مقام ہے جہاں دوزخیوں کی پیپ اور خون جمع ہوگا۔

3۔بہتان کے عذاب کی ایک دل ہلا دینے والی روایت ملاحظہ ہو،چنانچہ جناب رسالت مآب ﷺنے خواب میں دیکھے ہوئے کئی مناظر کا بیان فرما کر یہ بھی فرمایا کہ کچھ لوگوں کو زبانوں سے لٹکایا گیا تھا،میں نے جبرائیل سے ان کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ لوگوں پر جھوٹی تہمت لگانے والے ہیں۔(شرح الصدور، ص183)لہٰذا ہمیں اس سے نصیحت پکڑتے ہوئے اپنی زبان کو اللہ کے بندوں پر الزام تراشی سے محفوظ رکھ کر اپنی عاقبت سنوارنی چاہیے،یقینا رب کا قہر برداشت کرنے کی ہم میں قوت نہیں۔

4۔مسلمان کی حرمت کے بارے میں حدیث مبارکہ میں ہے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:بد ترین سود یہ ہے کہ کسی مسلمان بھائی کی عزت میں ناحق دست درازی کرے۔(مرقاۃ المفاتیح،ص375)اس حدیث شریف کا مفہوم اس طرح ہے کہ بغیر حق اور بغیر کسی صحیح تصدیق کے کسی مسلمان کی عیب جوئی کرنا بدترین سود ہے،کیونکہ اربابِ کمال کے نزدیک عزت و آبرو مال و زر سے زیادہ قیمتی ہے۔اس ضمن میں حضرت عمرو بن العاص سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو "اے زانیہ" کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی،کیونکہ دنیا میں ان کے لیے کوئی حد نہیں۔(کتاب الحد و الجہاد،5/528)اس حدیث میں عبرت کا سامان ہے کہ اپنے سے کم مرتبہ لوگوں کو حقیر جان کر ان کی عزت نفس مجروح کرنا ان پر بنا ثبوت الزام دھرنا انتہائی سخت جرم ہے۔

درج بالا تمام احادیث کریمہ سے معلوم ہوا کہ دین اسلام میں مسلمانوں پر بہتان باندھنے سے بچنا خاص اہمیت کا حامل ہے اور نا حق جھوٹ باندھ کر ایذا پہنچانا انتہائی قبیح جرم ہے جس کی سخت سزا مقرر ہے۔افسوس فی زمانہ الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں،ہر ایک کو اپنے اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہیے۔

بہتان کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں؛کسی پاک دامن عورت کو زانیہ کہہ دینا،کسی مسلمان کو ریاکار کا لقب دے دینا،بغیر تصدیق جھوٹا کہہ دینا،اپنے ملازم کو محض شک کی بنیاد پر چور قرار دینا وغیرہ۔

بہتان کے معاشرتی نقصانات کو دیکھا جائے تو ان کی بھی ایک فہرست ہے،کسی ادنیٰ درجے والے کو چور قرار دینا،آپ کے لیے یہ الزام تھوپنا آسان ہے مگر اس کی نسلوں تک کے لیے یہ باعث ذلت بن جاتا ہے،اسی طرح کسی پاکدامن عورت پر زنا کی تہمت باندھ کر اسے سارے زمانے میں رسوا کر دیا جاتا ہے اور بسا اوقات ایسے حالات میں خود کشی جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں،لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اپنے دین اسلام کے عمدہ اخلاق اپنائیں اور انہیں اپنے عمل سے فروغ دیں اور بہتان جیسے ناسور مرض سے خود کو اور دوسرے مسلمانوں کو بچائیں نہ کہ کسی پر الزام تراشی کریں اور نہ کسی کے بارے میں سنیں بلکہ ایک مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کی موجودگی اور غیر موجودگی دونوں حالتوں میں اس کی عزت کی حفاظت کرے کہ حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ مومن کی حرمت کعبہ معظمہ سے بھی زیادہ ہے۔

حقوق العباد آہ ہوگا مرا کیا! کرم مجھ پہ کر دے کرم یا الٰہی

بڑی کوششیں کیں گناہ چھوڑنے کی رہے آہ ناکام ہم یا الٰہی