یقینا اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو انسانی حقوق کا علمبردار ہے انسانی حقوق کا اس قدر پاس اور لحاظ ہے کہ کافر تک کے حقوق اسلام میں بیان کیے گئے ہیں،اپنی ضرورت اور حقوق العباد جاننے کے لیے علم سیکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے،معاشرتی،سماجی اور اخلاقی زندگی کو بہتر بنانے کےلیے کتنے ہی ایسے امور ہیں جن کے مسائل کا جاننا فرض ہے انہی میں ایک امر بہتان بھی ہے،معاشرے کے بگاڑ اور اخلاقی پستی میں اس کا بہت بڑا کردار ہے۔

بہتان کیا ہے؟کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اس پر جھوٹ باندھنا بہتان کہلاتا ہے،(حدیقہ ندیہ،2/200)آسان لفظوں میں یوں سمجھیے کہ برائی نہ ہونے کے باوجود پیٹھ پیچھے یا اس شخص کے سامنے اس برائی کو اس سے جوڑنا بہتان ہوا۔

اللہ کے نزدیک بڑا گناہ:اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے: وَ مَنْ یَّكْسِبْ خَطِیْٓــٴَـةً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِهٖ بَرِیْٓــٴًـا فَقَدِ احْتَمَلَ بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠(۱۱۲) (پ 5،النساء:112) ترجمہ:اور جو شخص کوئی خطا یا گناہ کا کام تو خود کرے پھر اسے کسی بے گناہ کے ذمہ تھوپ دے اس نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے اوپر لاد دیا۔

ذرا سوچئے کس قدر منافق ہوگا وہ شخص جس نے ایک گناہ تو خود ہی کر کے اپنی جان پر بڑا ظلم کیا پھر ستم بالائے ستم یہ کیا کہ اس کا الزام دوسرے پر تھوپ دیا اور اپنے آپ کو سزا سے بچانے کی کوشش میں اس نے بے قصور کو پھنسا دیا اور اس طرح وہ پہلے سے بھی بڑے گناہ کا مرتکب ہوگیا۔

اس آیت مبارکہ سے واضح ہوا کسی پر بہتان لگانا حرام ہے، نیز اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کا بھی علم ہوا۔

بہتان اور غیبت میں فرق:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟صحابہ نے عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا:کسی مسلمان کی پیٹھ پیچھے اس کے بارے میں ایسی بات کہنا جو اسے ناپسند ہو تو یہ غیبت ہے۔کسی نے عرض کی اگر وہ ناپسندیدہ بات اس کے اندر موجود ہو تو پھر؟فرمایا:اگر وہ ناپسندیدہ بات اس میں ہے تو یہی غیبت ہے اگر وہ بات اس میں نہیں ہے تو وہ بہتان ہے۔(مسلم)

بہتان کی مذمت پر فرامینِ مصطفیٰ:

1۔جس مرد یا عورت نے اپنی لونڈی کو اے زانیہ کہا جبکہ اس کے زنا سے آگاہ نہ ہو تو قیامت کے دن وہ لونڈی انہیں کوڑے لگائے گی،کیونکہ دنیا میں ان کے لیے کوئی حد نہیں۔(مستدرک،5/528،حدیث: 8171)اس حدیث پاک سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیے جو بنا سوچے سمجھے لوگوں کو گالیوں یا غلط القابات سے مخاطب کرتے ہیں۔

2۔جس نے کسی کی کوئی ایسی بات ذکر کی جو اس میں نہیں تاکہ اس کے ذریعے اس کو عیب زدہ کرے تو اللہ پاک اسے جہنم میں قید کر دے گا یہاں تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات ثابت کرے۔(معجم الاوسط،6/327، حدیث:8936)نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ہم کسی پر الزام لگا کر سوچتے ہی نہیں کہ وہ کس تکلیف سے گزر رہا ہوگا لیکن اللہ بخوبی جانتا ہے۔

3۔میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن نماز،روزہ زکوٰۃ وغیرہ لے کر آئے اور اس کا حال یہ ہو کہ اس نے دنیا میں اسے گالی دی،اسے تہمت لگائی،مال کھایا،خون بہایا تو اس کی نیکیاں اس مظلوم کو دی جائیں گی اگر اس کے ذمہ حقوق کی ادائیگی سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں تو مظلوموں کی خطائیں اس ظالم پر ڈال دی جائیں گی اور پھر اسے آگ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم،حدیث:59)

4۔رسول اللہ ﷺ نے جن سات چیزوں سے بچنے کا فرمایا جو انسان کو ہلاک کر دینے والی ہیں ان میں ایک پاک دامن مسلمان اور بھولی بھالی عورتوں پر بہتان لگانا بھی ہے۔(مسلم)

5۔ذلیل ترین وہ شخص ہے جو دوسروں کی توہین کرے۔(میزان الحکمۃ،1/124،حدیث:460)اس حدیث سے ہمیں بہتان تہمت الزام تراشی جیسے گناہ کی نحوست کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے جو اللہ کو ناراض کرنا ہے اور ہلاکت میں ڈالنے کا سبب بھی ہے۔

بہتان کے معاشرتی نقصانات:کسی پر بہتان لگانا شرعا انتہائی سخت اور حرام ہے اور اخلاقیات کے بھی منافی ہے،ہمارے معاشرے کی انتہائی برائی میں سے ایک برائی ہے،بعض اوقات لوگ کسی کی خوشامد یا کسی کی نظر میں اچھا بننے کےلیے یہ گھٹیا کام سر انجام دیتے ہیں،بہتان،الزام تراشی معاشرے میں فتنہ و انتشار پھیلانا ہے،بعض دفعہ لوگو ں کے گھر اجڑ جاتے ہیں آپس میں قطع تعلق کر لیتے ہیں،ایک دوسرے سے بدگمان ہوجاتے ہیں،جلن،حسد،بہتان،غیبت،جھوٹ، لگائی بجھائی جیسی بری عادات دور جدید میں گپ شپ میں ڈھل چکی ہیں وجہ دین سے دوری کم علمی اور جہالت ہے،بہتان کی صورت میں توبہ کرنا اور جس پر بہتان لگایا ہے اسے معلوم ہونے کی صورت میں معافی مانگنا ضروری ہے۔

اللہ پاک ہمیں ایسی بری عادات مسلمانوں کی دل آزاری اور عیب جوئی کرنے سے بچائے۔آمین بجاہ النبی الامین ﷺ