فرعونیوں پر آنے والے عذابات

الله پاک نے فرعون اور اس کی قوم کی طرف حضرت موسیٰ کلیمُ اللہ علیہ السّلام کو مبعوث فرمایا مگر اس قوم نے آپ کی نافرمانی کی اور عذاب الٰہی کا شکار ہوئی

ان لوگوں پر عذاب آنے کی اہم وجہ اللہ پاک کے احکامات کو جھٹلانا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور اس کی قوم کو دین حق کی دعوت دی مگر چند لوگوں کے علاوہ تمام اپنی سرکشی پر قائم رہے اور فرعونیوں کی سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے صاف صاف کہہ دیا تم کیسی بھی نشانی لے کر ہمارے پاس آؤ کہ ہم پر اس سے جادو کرو ہم کسی طرح تم پر ایمان لانے والے نہیں(پ9،الاعراف:132)

پھر ان پر مختلف قسم کے پانچ عذابات آئے جب بھی کوئی عذاب آتا ہے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آکر سرکشی کو ترک کرنے اور ایمان لانے کا وعدہ کرتے پھر جب وہ عذاب ٹل جاتا تو دوبارہ سرکشی میں مبتلا ہوجاتے ، اللہ پاک کا ارشاد ہے:ترجمۂ کنز الایمان: تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن (یا کلنی یا جوئیں) اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں اور وہ مجرم قوم تھی اور جب ان پر عذاب پڑتا کہتے اے موسیٰ ہمارے لیے اپنے رب سے دعا کرو اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے بیشک اگر تم ہم پر عذاب اٹھا دو گے تو ہم ضرور تم پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کر دیں گے پھر جب ہم ان سے عذاب اٹھا لیتے ایک مدت کے لیے جس تک انہیں پہنچنا ہے جبھی وہ پھر جاتے(پ9،الاعراف: 133-135)

الطوفان: ایک بادل آیا اندھیرا چھا گیا اور کثرت سے بارش ہوئی یہاں تک کہ قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا جس سے وہ کھڑے رہ گئے یہ لوگ نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کر سکتے تھے ہفتہ کے دن سے لے کر دوسرے ہفتہ تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے جبکہ بنی اسرائیل کے گھر قبطیوں کے گھروں سے قریب ہونے کے باوجود ان کے گھروں میں پانی نہ آیا بالآخر یہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایمان لانے کا عہد کیا پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے وہ مصیبت دور ہوئی اور ایسی سرسبزی اورشادابی آئی کہ پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی تو فرعونی کہنے لگے یہ پانی تو نعمت تھا اور اپنے وعدے سے پھر گئے پھر ایک مہینہ عافیت سے گزرا

الجراد: پھر اللہ پاک نے ٹڈیاں بھیجیں یہ عذاب بھی سات روز رہا وہ ٹڈیاں کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں، تختے اور سامان سب کھا گئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں اب قبطیوں نے دوبارہ عاجز آ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا عہد کیا لیکن یہ مصیبت ختم ہونے کے بعد دوبارہ عہد سے پھر گئے پھر ایک مہینہ عافیت سے گزرا

القمل: پھر اللہ پاک نے قمل بھیجے یہ عذاب بھی سات روز رہا بعض مفسرین فرماتے ہیں قمل گھن ہے بعض فرماتے ہیں جوں بعض فرماتے ہیں ایک اور چھوٹا سا کیڑا ہے (سیرت الانبیاء، ص580)

اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی تھے وہ کھا لیے یہ کپڑوں میں گھس جاتا ، جلد کو کاٹتا ، کھانے میں بھر جاتا ، اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تو تین سیر واپس لاتا باقی سب کیڑے کھا جاتے ، یہ فرعونیوں کے بال بھنویں پلکیں چاٹ گئے ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے یہاں تک کہ ان کا سونا دشوار کر دیا پھر فرعونیوں نے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا عہد کیا تو حضرت موسیٰ علیہ سلام کی دعا سے یہ مصیبت دور ہوئی لیکن فرعونیوں نے دوبارہ سرکشی کی اور پہلے سے زیادہ خبیث تر عمل شروع کیے پھر ایک مہینہ امن میں گزرا

الضفادع: پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی تو اللہ پاک نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ ہانڈیوں میں مینڈک کھانوں میں مینڈک چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی لیٹتے تو مینڈک اوپر سوار ہوتے پھر دوبارہ عاجز ہوئے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے معافی طلب کی پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا سے سات روز بعد یہ عذاب دور ہوا لیکن فرعونیوں نے دوبارہ عہد توڑ دیا۔

الدم: پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تو تمام کنوؤں کا پانی نہروں اور چشموں کا پانی دریائے نیل کا پانی غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز پینے کی میسر نہ آئی تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا فرمائی یہ مصیبت بھی دور ہوئی کوئی مگر وہ ایمان بھی نہ لائے۔

محترم قارئین فرعونی جب کسی مصیبت میں گرفتار ہوتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتےاور جب مصیبت ٹل جاتی تو دوبارہ نافرمانی میں مبتلا ہو جاتے آج مسلمانوں کی اکثریت ہے جنہیں مشکلات کے وقت ہی دین کے احکامات یاد آتے ہیں اور جب مشکلات ٹل جائیں تو کہتے ہیں کہ ابھی تو بہت وقت ہے جبکہ اس دنیائے فانی کی زندگی کا کچھ نہیں معلوم ہمیں اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے رہنا چاہئے اور آخرت کے لیے تیاری کرنی چاہیے جو باقی رہنے والی ہے۔

اللہ پاک ہمیں اپنے حفظ و امان میں رکھے اور ایمان پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


فرعونیوں کے عذابات

فرعون اصل میں ایک شخص کا نام تھا پھر دورِ جاہلیت میں یہ مصر کے ہر بادشاہ کا لقب بن گیا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے فرعون کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا۔(تفسیر صراط الجنان ، پ 9 ، الاعراف ، تحت الایۃ:103 )

مفسر سُدِّی کا قول ہے کہ فرعون نے اپنی قوم کے لئے بُت بنوا دیئے تھے اور ان کی عبادت کرنے کا حکم دیتا تھا اور کہتا تھا کہ میں تمہارا بھی رب ہوں اور ان بُتوں کا بھی۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ فرعون دَہری تھا یعنی صانعِ عالَم کے وجود کا منکر، اس کا خیال تھا کہ عالَمِ سِفْلِی کی تدبیر ستارے کرتے ہیں اسی لئے اُس نے ستاروں کی صورتوں پر بت بنوائے تھے، ان کی خود بھی عبادت کرتا تھا اور دوسروں کو بھی ان کی عبادت کا حکم دیتا تھا اور اپنے آپ کوزمین کا مُطاع و مخدوم کہتا تھا اسی لئے وہ ” اَنَا رَبُّكُمُ الْاَعْلٰى(میں تمہارا سب سے اعلیٰ رب ہوں ) کہتا تھا۔(تفسیر مدارک، پ 9، الاعراف، تحت الآیۃ: 127، ص381۔ تفسیر خازن، پ 9 ، الاعراف، تحت الآیۃ: 127، 2 / 128)

جب فرعون اور اس کی قوم اللہ پاک کی روشن نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائی اور اسی سرکشی اور ہٹ دھرمی پر اڑی رہی اور بنی اسرائیل پر مظالم کرتی رہی تو ان پر عذاب کا سلسلہ شروع ہوا ۔سورۃُ الاعراف میں اللہ پاک کا فرمان ہے :

وَ لَقَدْ اَخَذْنَاۤ اٰلَ فِرْعَوْنَ بِالسِّنِیْنَ وَ نَقْصٍ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یَذَّكَّرُوْنَ(۱۳۰)

ترجمہ کنزالایمان :اور بے شک ہم نے فرعون والوں کو برسوں کے قحط پھلوں کے گھٹانے سے پکڑا کہیں وہ نصیحت مانیں۔

قحط سالی کی سختی ان پر اس لئے ڈالی گئی کہ وہ اس سختی سے ہی خدا کو یاد کر لیں لیکن وہ کفر میں اس قدر راسخ ہو چکے تھے کہ ان تکلیفوں سے بھی ان کی سرکشی ہی بڑھتی رہی۔

فرعون کے مظالم سے تنگ دل ہوکر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداوند قدس کی بارگاہ میں اس طرح دعا مانگی کہ : یارب فرعون زمین میں بہت سرکش ہو گیا اور اسکی قوم نے عہدشکنی کی انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر جو ان کے لیے سزاوار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذابوں کو مسلط فرما دیا وہ پانچ عذاب یہ ہیں:

طوفان :

اللہ پاک نے طوفان بھیجا، ابر آیا،اندھیرا ہوا، کثرت سے بارش ہونے لگی قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی ہنسلیوں تک آگیا جو بیٹھا ڈوب گیا نہ ہل سکتے تھے نہ کچھ کام کر سکتے تھے ۔

ٹڈیاں :

اللہ پاک نے ڈیڈی بھیجیں وہ کھیتیاں ،پھل ،درختوں کے پتے ،مکان کے دروازے ، چھتیں ،تخت حتی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں۔

گھن :

اس میں مفسرین کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں قمل،بعض کہتے ہیں کہ یہ جوں ہے، بعض کہتے ہیں کہ ایک چھوٹا سا کیڑا ہےاس کیڑے نے بچے کچے پھل اور کھیتیاں کھالیں،کپڑوں میں گھس جاتا، کھانوں میں بھر جاتا یہ کیڑے فرعونیوں کے بال بھنویں پلکیں تک چاٹ گئے، سونا دشوار کر دیا تھا، اس مصیبت سے فرعونی چیخ گئے۔

مینڈک :

حال یہ تھا کہ آدمی بیٹھا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے تھے، بات کرنے کے لیے منہ کھولتے تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا،لیٹتے تھے تو مینڈک اوپرسوار ہو جاتےتھے،اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے۔

خون :

کنوؤں کا پانی ،نہروں کا پانی ،چشموں کا پانی اور دریا نیل کا پانی غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا۔فرعون خود پیاس سے مضطرب ہوا تو اس نے تر درختوں کی رطوبت چوسی اور وہ رطوبت منہ میں پہنچتے ہی خون ہو گئی ان عذابوں کو اللہ پاک نے سورہ اعراف میں اس طرح ذکر فرمایا :فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ- فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳) ( پ 9، الاعراف :133)

ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن (یا کلنی یا جوئیں) اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔

الغرض ان سرکشوں پر مسلسل پانچ عذاب آتے رہے اور ہر عذاب ساتویں دن ٹلتا رہا اور ہر دو عذابوں کے درمیان ایک ماہ کا فاصلہ ہوتا رہا مگر فرعون اور فرعونیوں کے دلوں پر شقاوت اور بدبختی کی ایسی مہر لگ چکی تھی کہ پھر بھی وہ ایمان نہیں لائے اور اپنے کفر پر اڑے رہے اور ہر مرتبہ اپنا عہد توڑتے رہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے قہر و غضب کا آخری عذاب آ گیا کے فرعون اور اس کے متبعین دریائے نیل میں غرق ہوکر ہلاک ہوگئے اور ہمیشہ کے لئے خدا کی دنیا ان عہد شکنوں اور مَردُودوں سے پاک و صاف ہو گئی اور یہ لوگ دنیا سے اس طرح نیست و نابود ہو گئے کہ روئے زمین پر ان کی قبروں کا نشان بھی باقی نہیں رہ گیا ۔

(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص۱۰۱)


فرعون کون تھا؟

فرعون بڑا سرکش تھا،اس نے ربوبیّت کا دعویٰ کیا اور بنی اسرائیل پر طرح طرح کے ظلم وستم ڈھاتا، انکے بچوں کو ذبح کرواتا تھا، جب اس کےمظالم حد سے بڑھ گئے تو اللہ کریم نے اسے سمجھانے کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو نبی بنا کر بھیجا، لیکن اس نے ایمان لانے سے انکار کر دیا اور باقاعدہ اس کا مقابلہ کیا،`مناظرہ کروایا، اس نے معجزات طلب کئے، اِتمامِ حُجت کیلئے فرعون اور اس کی قوم کو یدِ بیضاءاور عصاء کے معجزات بھی دکھائے، جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا عصا اَژدھا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگل گیاتوجادوگر سجدے میں گر کر ایمان لائے، مگر فرعون اور اس کے متبعین نے اب بھی ایمان قبول نہیں کیا، بلکہ فرعون کا کفر اور اس کی سرکشی اور زیادہ بڑھ گئی اور اس نے بنی اسرائیل کے مؤمنین اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دل آزاری اور اَذیّت رسانی میں بھر پور کوشش شروع کر دی اور طرح طرح سے ستانا شروع کر دیا، فرعون کے مظالم سے تنگ دل ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے اس طرح دعا مانگی:اے میرے ربّ!فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے، لہذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرما لے، جو ان کے لئے سزا وار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو۔ (روح البیان، جلد 3، صفحہ220، پارہ 9، اعراف133)

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں پر لگاتار 5 عذابوں کو مسلط فرما دیا، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

1. طوفان:ناگہاں ایک اَبر آیا اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا، پھر اِنتہائی زور دار بارش ہونے لگی، یہاں تک کہ طوفان آگیا اور فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا، پانی ان کی گردنوں تک آ گیا، ان میں سے جو بیٹھا، ہلاک ہو گیا، نہ ہِل سکتے تھے نہ کوئی کام کر سکتے تھے، ان کی کھیتیاں اور باغات طوفان کے دھاروں سے برباد ہو گئے، مسلسل 7روزتک وہ اسی مصیبت میں مبتلا رہے، مگربنی اسرائیل کے گھروں میں سیلاب کا پانی نہیں آیا، وہ نہایت ہی اَمن و چین کے ساتھ اپنے گھروں میں رہتے تھے، جب فرعونیوں کو اس کی برداشت کی تاب نہ رہی، بالکل عاجز ہو گئے تو انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے عرض کیا کہ آپ ہماری اس مصیبت کے ٹل جانے کی دعا فرمائیں تو ہم ایمان لے آئیں گے، چنانچہ آپ نے دعا مانگی تو طوفان کی بلا ٹل گئی اور زمین میں خوب سرسبزی اورشادابی نمودار ہوئی، کھیتیاں شاندار اورغلوں اور پھلوں میں فروانی، یہ دیکھ کر فرعونی پھر اپنے عہد سے پھر گئے اور ایمان نہ لائے، پھر ایک ماہ عافیت کے ساتھ گزر جانے کے بعد جب ان کا ظلم و تکبر اور بڑھنے لگا تو اللہ نے اپنے قہر کو

2. ٹڈیوں :کی شکل میں بھیج دیا کہ چاروں طرف سے ٹڈیوں کے جھنڈ کے جھنڈ آگئے، جو ان کی کھیتیوں اور باغوں کو یہاں تک کہ ان کے مکانوں کی لکڑیاں تک کھا گئیں اور فرعونیوں کے گھروں میں یہ ٹڈیاں بھر گئیں، یہ دیکھ کر فرعونیوں کو بڑی عبرت ہوگئی اور آخر اس سے تنگ آکر پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے عہد کیا کہ آپ اس عذاب کے دفع ہونے کے لئے دعا فرمائیں تو ہم ضرور ایمان لے آئیں گے، چنانچہ آپ کی دعا سے ساتویں دن یہ عذاب ٹل گیا، پھر ایک ماہ تک یہ لوگ نہایت آرام و راحت میں رہے، لیکن پھر عہد شکنی کی اور ایمان نہ لائے، ان کے کفر و عصیان میں پھر اضافہ ہونے لگاغرض ایک ماہ بعد ان لوگوں پر

3. قمل: کا عذاب مسلط ہو گیا، بعض مفسرین کا بیان ہے کہ یہ گھن تھا، جوان فرعونیوں کے اناجوں اور پھلوں میں لگ گیا اور تمام غلوں اور میوں کو کھا گیا اور بعض مفسرین کا بیان ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا کیڑا تھا، جو کھیتوں کی تیار فصلوں کو چَٹ کر گیا اور انکے کپڑوں میں گھس کر ان کے چمڑوں کو کاٹ کاٹ کر انہیں مرغِ بِسمل کی طرح تڑپانے لگا، یہاں تک کہ ان کے سر کر بالوں، داڑھی، مونچھوں، بھنووں اور پلکوں کو چاٹ چاٹ کر اور چہروں کو کاٹ کاٹ کر انھیں چیچک رو بنا دیا، یہاں تک کہ ایک ہفتہ میں اس قہر ِآسمانی و بلاءِ ناگہانی سے بِلبلا کر یہ لوگ چیخ پڑے اور پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے دعا کی درخواست کی، چنانچہ ان کی گریہ و زاری دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے دعا کی اور یہ عذاب بھی ٹل گیا، لیکن فرعونیوں نے پھر عہد کو توڑ ڈالا اور پہلے سے زیادہ ظلم و ستم کرنے لگے، پھر ایک ماہ بعد ان پر

4. مینڈک: کا عذاب آ گیا، ان فرعونیوں کی بستیوں میں اور گھروں میں اچانک بیشمار مینڈک پیدا ہو گئے، جو جہاں بیٹھتا، وہ مجلس مینڈک سے بھر جاتی، کوئی آدمی بات کرنے لگتا یا کھانے کے لئے منہ کھولتا تو اس کے منہ میں مینڈک کُود کر گھس جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک، ان کے جسموں پر سینکڑوں مینڈک سوار رہتے، اس عذاب سے فرعونی رو پڑے اور گڑگڑاتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی بارگاہ میں دعا کی بھیک مانگی، بڑی بڑی قسمیں کھا کر عہد و پیمان کیا، حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے پھر دعا فرمائی اور ساتویں دن یہ عذاب بھی اُٹھا لیا گیا، لیکن یہ مردود قوم پھر راحت ملتے ہی حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو ایذاء دینے لگے، ان کی توہین و بے ادبی کرنے لگے تو عذابِ الٰہی نے پھر ان ظالموں کو اپنی گرفت میں لے لیا اور ان لوگوں پر

5. خون :کا عذاب قہرِ الٰہی بن کر اُتر پڑا، ایک دم بالکل اَچانک ان لوگوں کے تمام کنوؤں، نہروں کا پانی خون ہو گیا، جس برتن سے مُنہ لگا کر پانی پیتے، وہ خون ہو جاتا، لیکن مؤمنین پر اس کا ذرا اثر نہ ہوا، یہاں تک کہ فرعونی بے قرار ہو کر مؤمنین کے پاس آئے اور کہا: ہم دونوں ایک ہی برتن سے ایک ساتھ منہ لگا کر پانی پئیں گے، مگر عجب ہی قدرتِ خُداوندی کا جلوہ تھا کہ ایک ہی برتن سے مُنہ لگا کر پانی پیتے تھے، مگر مؤمنین کے منہ میں جو جاتا، وہ پانی ہوتا اور فرعون والوں کے منہ میں جاتا، وہ خون ہوتا تھا، قرآنِ پاک نے ان پانچوں عذابوں کو اس طرح بیان فرمایا:

ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی اور جب ان پر عذاب پڑتا کہتے:اے موسیٰ! ہمارے لئے اپنے رَب سے دعا کریں، اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے، بےشک اگر تم ہم پر عذاب اٹھا دوگے تو ہم ضرور تم پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے، پھر جب ہم ان سے عذاب اٹھا لیتے، ایک مدت کیلئے جس تک انہیں پہنچا ہے، جبھی وہ پھر جاتے تو ہم ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا، اس لئے کہ ہماری آیتیں جھٹلاتے اور ان سے بے خبر تھے۔ (پ 9،الاعراف: 133تا136)


فرعون کا مختصر تعارف:

فرعون اصل میں ایک شخص کا نام تھا، پھر دورِ جاہلیت میں یہ مصر کے بادشاہ کا لقب بن گیا، جس طرح فارس کے بادشاہ کا لقب کسریٰ، روم کے بادشاہ کا لقب قیصر اور حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی تھا، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے زمانے کے فرعون کا نام ”ولید بن مصعب بن ریّان “تھا، اس کی عمر 400 سال سے زیادہ تھی۔(تفسیر صراط الجنان، جلد اوّل وسوم)

فرعونیوں پر آنے والے عذابات:

جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا عصا اَژدھا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگل گیا تو جادوگر سجدے میں گر کر ایمان لائے، مگر فرعون اور اس کے متبعین(پیروی کرنے والے)اب بھی ایمان قبول نہیں کیا، بلکہ فرعون کا کفر اور اس کی سرکشی اور زیادہ بڑھ گئی اور اس نے بنی اسرائیل کے مؤمنین اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دل آزاری اور اَذیّت رسانی میں بھر پور کوشش شروع کر دی اور طرح طرح سے ستانا شروع کر دیا، فرعون کے مظالم سے تنگ دل ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ پاک کے دربار میں اس طرح دعا مانگی:اے میرے ربّ!فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے، لہٰذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرما لے، جو ان کے لئے سزا وار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو۔ (تفسیر روح البیان،پ 9، الاعراف، تحت الایۃ: 133)

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں پر لگاتار 5 عذابوں کو مسلط فرما دیا، وہ لگاتار عذاب یہ ہیں:

1۔طوفان:

اچانک ایک اَبر(بادل)آیا اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا، پھر انتہائی زوردار بارش ہونے لگی، یہاں تک کہ طوفان آگیا اور فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا اور پانی ان کی گردنوں تک آ گیا، وہ نہ ہِل سکتے تھے اور نہ ہی کوئی کام کر سکتے تھے، ان کی کھیتیاں اور باغات طوفان کی وجہ سے برباد ہوگئے، مسلسل سات روز تک وہ اسی مصیبت میں رہے اور بنی اسرائیل کے مکانات فرعونیوں کے گھروں سے ملے ہوئے تھے، مگر بنی اسرائیل کے گھروں میں سیلاب کا پانی نہیں آیا اور وہ نہایت ہی اَمن و چین کے ساتھ اپنے گھروں میں رہتے تھے، جب فرعونیوں کو اس مصیبت کے برداشت کرنے کی تاب و طاقت نہ رہی اور وہ بالکل عاجز ہو گئے تو ان لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے عرض کیا کہ آپ ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت ٹل جائے تو ہم ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے پاس بھیج دیں گے، چنانچہ آپ نے دعا مانگی تو طوفان کی بلا ٹل گئی اور زمین ایسی سرسبزوشاداب ہوئی کہ اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی گئی، یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے کہ یہ طوفان کا پانی تو ہمارے لئے بہت بڑی نعمت کا سامان تھا، پھر وہ اپنے عہد سے پھر گئے اور ایمان نہ لائے۔

2۔ٹڈیاں:

ایک ماہ تک تو فرعونی نہایت عافیت سے رہے، لیکن جب ان کا کفر وتکبر بڑھنے لگا تو اللہ پاک نے اپنے قہرو عذاب کو ٹڈیوں کی شکل میں بھیج دیا کہ چاروں طرف سے ٹڈیوں کے جھنڈ کے جھنڈ آگئے، جو ان کی کھیتیوں اور باغوں کو، یہاں تک کہ ان کے مکانوں کی لکڑیوں تک کو کھا گئیں، مگر مؤمنین کے کھیت اور باغ اور مکانات ان ٹڈیوں سے بالکل محفوظ رہے، یہ دیکھ کر فرعونیوں کو بڑی عبرت ہوئی اور آخر اس عذاب سے تنگ آکر پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے آگے عہد کیا کہ آپ اس عذاب کے دفع ہونے کے لئے دعا فرما دیں تو ہم لوگ ضرور ایمان لے آئیں گے، چنانچہ آپ کی دعا سے ساتویں دن یہ عذاب بھی ٹل گیا، پھر ایک ماہ آرام کے بعد یہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور مومنین کو ایذاء دینے لگے اور کہنے لگے کہ ہماری جو کھیتیاں بچ گئی ہیں، وہ ہمارے لئے کافی ہیں، لہذا ہم اپنا دین چھوڑ کر ایمان نہیں لائیں گے۔

اسی طرح ہوتے ہوتے ان پر مزید عذابات بھی آئے اور آخرکار مسلسل نافرمانیوں اور عہد شکنیوں کے باعث فرعون اور اس کے متبعین(پیروی کرنے والے)دریائے نیل میں غرق ہوکر ہلاک ہوگئے اور ہمیشہ کے لئے اللہ پاک کی دُنیا ان عہد شکنوں سے پاک و صاف ہو گئی اور یہ لوگ اس طرح نیست و نابود ہو گئے کہ روئے زمین پر ان کی قبروں کا نشان بھی باقی نہ رہا۔

ان واقعات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عہد شکنی اور اللہ کے نبیوں کی تکذیب و توہین کتنا بڑا اور ہولناک جرم ِعظیم ہے، دوسرا یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا صبر و تحمل اِنتہا کو پہنچا ہوا تھا، اس سے معلوم ہوا کہ قوم کے پیشوا کے لئے صبر و تحمل اور عفو و درگزر کی خصلت نہایت ضروری ہے۔

حضرت شیخ سعدی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:کہ برائی کا بدلہ برائی سے دینا تو بہت آسان ہے، لیکن اگر تم جوان مرد ہو تو بُرائی کرنے والے کے ساتھ بھلائی کرو۔(عجائب القران مع غرائب القران)

اللہ پاک ہمیں ان واقعات سے عبرت حاصل کرنے اور معلوم ہونے والے مدنی پھولوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


پچھلےدنوں دعوتِ اسلامی کےشعبہ رابطہ برائےشخصیات کےذمہ داران نےکراچی میں سندھ سیکریٹریٹ کادورہ کیاجہاں انہوں نے سیکرٹری ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ راجہ خرم شہزاد، اسٹاف آفیسر ٹو اسپیکر سندھ اسمبلی محمد ہارون، سیکشن آفیسر  ایکسائز ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ خلیل احمد سومرواورسیکشن آفیسر ایکسائز ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ حسیب سمیت دیگرافسران سےملاقات کی۔

ذمہ داران نے سیکرٹری ایکسائزسےدعوتِ اسلامی کی عالمی سطح پرہونےوالی دینی وفلاحی کاموں کےبارےمیں تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے انہیں ٹیکس فری رجسٹریشن کے لئےایک درخواست دی۔

اس کےعلاوہ انہیں عالمی مدنی مرکزفیضانِ مدینہ کراچی کاوزٹ کرنےکی دعوت دی جس پرانہوں نےاچھی اچھی نیتوں کااظہارکیا۔(رپورٹ: شعبہ رابطہ برائےشخصیات ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری) 

فرعونیوں پر آنے والے عذابات

اللہ پا ک نے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے دنیا میں وقتاً فوقتاً اپنے انبیاءِ کرام علیہمُ السّلام کو مبعوث فرما یا تاکہ وہ اپنی قوم کو ایک اللہ کی عبادت کرنے اور باطل بتو ں (معبودوں)کو چھوڑ دینے کی تبلیغ کریں۔

اِسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو اللہ پاک نے فرعون اور اس کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا، فرعون نے خدائی کا دعویٰ کیا ہوا تھا اور اِس کی قوم اس کو سجدہ کرتی تھی، جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے فرعون کو اللہ پاک کی ربوبیّت کا اقرار کرنے اور اس پر ایمان لانے کی دعوت دی اوراس سے فرمایا کہ میں ربُّ العالمین کی طرف تیری اورتیری قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیاہوں تو فرعون نے کہا:تم جھوٹ بولتے ہو اور آپ کے رسول ہونے کا انکار کر دیا، آپ علیہ السّلام اپنی قوم کو برابر تبلیغ کرتے رہے، مگر وہ نہ مانے۔

جب فرعون اور اس کی قوم کی سَرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے صاف صاف کہہ دیا کہ اے موسیٰ! تم ہمارے اوپر جادو کرنے کے لئے کیسی بھی نشانی ہمارے پاس لے آؤ، ہم ہرگز تم پر ایمان نہ لائیں گےتوحضرت موسیٰ علیہ السّلام نے ان کے خلاف دعا کی، آپ علیہ السّلام چونکہ مُستجابُ الدّعوات (یعنی جس کی دعا قبول ہوتی ہو)تھے،اس لئے آپ کی دعا قبول ہوئی، حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعائے ضَرر کے بعد فرعون اور اس کی قوم پرجو عذابات آئے، ان کا ذکر اس آیتِ مبارکہ میں موجود ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133ماخوذا)

ترجمہ کنزالعرفان:تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور پسو(یاجوئیں) اور مینڈک اور خون کی جدا جدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔(پ 9،الاعراف: 133)

طوفان:

ناگہاں (اچانک )ایک بادل آیا اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا، پھر انتہائی زوردار بارش ہونےلگی، یہاں تک کہ طوفان آگیا اور فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا اور وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں تک آ گیا، ان میں سے جو بیٹھا وہ اس میں ڈوب کرہلاک ہوگیا، نہ ہل سکتے تھے، نہ کوئی کام کر سکتے تھے، پھر انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے عرض کیا کہ آپ ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ یہ مصیبت ٹل جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے، آپ علیہ السّلام نے دعا کی اور طوفان کی بلا ٹل گئی۔

ٹڈیاں:

ایک ماہ تک توفرعونی نہایت عافیت سے رہے، لیکن جب ان کا کفر و تکبر اورظلم و ستم پھربڑھنے لگا تو اللہ پاک نے اپنے قہر و عذاب کو ٹڈیوں کی شکل میں بھیج دیا، جو چاروں طرف سے جھنڈ کے جھنڈ آگئے، جو ان کے کھیتوں اور باغوں کو یہاں تک کہ ان کے مکانوں کی لکڑیاں تک کو بھی کھا گئیں اور فرعونیوں کے گھروں میں یہ ٹڈیاں بھرگئیں، جس سے ان کا سانس لینا دشوار ہو گیا، مگر بنی اسرائیل کے مؤمنین کے کھیت اور باغ اور مکانات ٹڈیوں سے بالکل محفوظ رہے، یہ دیکھ کر فرعونیوں کو بڑی عبرت ہوئی اور آخر اس عذاب سے تنگ آکر پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے آگے عہد کیا کہ آپ اس عذاب کے دفع ہونے کیلئے دعا فرما دیں، تو ہم لوگ ضرور ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل پر کوئی ظلم و ستم نہ کریں گے، چنانچہ آپ علیہ السّلام کی دعا سے ساتویں دن یہ عذاب ٹل گیا اور یہ لوگ پھر ایک ماہ تک نہایت آرام و راحت کے ساتھ رہے، لیکن پھر عہد شکنی کی اور ایمان نہیں لائے۔

اسی طرح ان پر کھٹمل اور مینڈکوں کا عذاب مسلط کیا گیا، اسی طرح خون کا عذاب کہ ان کے تمام کنوؤں، نہروں کا پانی خون ہوگیا تو ان لوگوں نے اس بار بھی حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے دعا کی درخواست کی تو آپ نے پیغمبرانہ رحم وکرم فرما کرپھر ان کے لئے دعائے خیر فرما دی، تو ان سے عذاب ٹل گیا، لیکن پھر بھی وہ ایمان نہ لائےاور اپنے کُفر پر ڈَٹے رہے اور ہر مرتبہ اپنا عہد توڑ تے رہے، یہاں تک کہ اللہ پاک کے قہر و غضب کا آخری عذاب آ گیا کہ فرعون اور اس کے متبعین(ماننے والے )سب دریائے نیل میں غرق ہو کر ہلاک ہوگئے اور ہمیشہ کے لئے خدا کی دنیا ان عہد شکنوں اور مَردُودوں سے پاک ہو گئی اور یہ لوگ دنیا سے اِس طرح نیست و نابود کر دیئے گئے کہ روئے زمین پر ان کی قبروں کا نشان بھی باقی نہ رہا۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، ص97 تا 101)

اللہ پاک ہمیں اپنے عذابات سے محفوظ رکھے اور ایمان کی سلامتی عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم


فرعونیوں پر آنے والے عذابات

جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر و سرکشی پر جمے رہے اور فرعون اور اس کی قوم کی سرکشی یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے صاف صاف کہہ دیا، جس کا ذکر پارہ9، سورۃُ الاعراف کی آیت نمبر 132 میں یوں ہے:

ترجمہ کنزالایمان:(اے موسیٰ!)تم ہمارے اوپر جادو کرنے کے لئے ہمارے پاس کیسی بھی نشانی لے آؤ، ہم ہرگز تم پر ایمان لانے والے نہیں۔(پ9 ،الاعراف: 132)

تو حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے ان کے خلاف دعا کی:یاربّ!فرعون زمین میں بہت سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے بھی عہد شکنی کی ہے، انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر، جو ان کے لئے سزا ہو اور میری قوم اور بعد والوں کیلئے عبرت و نصیحت ہو۔

مفسرین کے بیان کے مطابق جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے فرعونیوں کے خلاف دعا کی تو آپ علیہ السّلام کی دعا قبول ہوئی اور یوں ہوا کہ ایک بادل آیا، اندھیرا چھایا اور کثرت سے بارش ہونے لگی، جس سے قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا، یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آ گیا، ان میں سے جو بیٹھا وہ ڈوب گیا، یہ لوگ نہ ہِل سکتے تھے نہ کچھ کام کر سکتے تھے، ہفتے کے دن سے لے کر دوسرے ہفتے تک سات روز اسی مصیبت میں مبتلا رہے، جب کہ بنی اسرائیل کے گھر قبطیوں کے گھروں سے قریب ہونے کے باوجود ان کے گھروں میں پانی نہ آیا، جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے عرض کی: کہ ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے، حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے دعا فرمائی تو طوفان کی مصیبت دور ہوگئی اور زمین میں وہ سرسبزی وشادابی آئی، جو پہلے کبھی نہ دیکھی تھی، کھیتیاں خوب ہوئیں اور درخت خوب پھلے، یہ دیکھ کر فرعونی کہنے لگے:یہ پانی تو نعمت تھا اور ایمان نہ لائے۔ ایک مہینہ تو عافیت سے گزرا، پھر اللہ پاک نے ٹڈیاں بھیجیں، وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، تختے، سامان سب کھا گئیں اور قبطیوں کے گھروں میں بھر گئیں، لیکن بنی اسرائیل کے یہاں نہ آئیں، اب قبطیوں نے پریشان ہو کر پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، اس پر عہدوپیمان کیا، سات روز تک ٹڈی کی مصیبت میں مبتلا رہے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا سے نجات پائی، ایک مہینہ عافیت سے گزرا۔

پھر اللہ پاک نے قمل بھیجے، اس کیڑے نے جو کھیتیاں اور پھل باقی رہ گئے تھے وہ کھا لئے، یہ کیڑا کپڑوں میں گھس جاتا، جلد کو کاٹتا، کھانے میں بھر جاتا تھا، یہ کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں، پلکیں چاٹ گئے، ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے، حتیٰ کہ ان کیڑوں نے ان کا سونا دشوار کر دیا تھا، اس مصیبت سے فرعونی چیخ پڑے اور انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے عرض کی کہ ہم توبہ کرتے ہیں، آپ اس بَلا کے دور ہونے کی دعا فرمائیے، چنانچہ سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دُعا سے دور ہوئی۔

ایک مہینہ اَمن میں گزارنے کے بعد پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے دعا کی تو اللہ پاک نے مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ ہانڈیوں میں مینڈک، کھانوں میں مینڈک، چولھوں میں مینڈک بھر جاتے تو آگ بجھ جاتی، لیٹتے تھے تو مینڈک اُوپر سوار ہوتے تھے، اس مصیبت سے فرعونی رو پڑے اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے عرض کی کہ اب کی بار ہم پکّی توبہ کرتے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے ان سے عہد وپیمان لے کر دعا کی تو سات روز کے بعد یہ مصیبت بھی دور ہوئی اور ایک مہینہ عافیت سے گزرا، لیکن پھر انہوں نے عہد توڑ دیا اور اپنے کفر کی طرف لوٹے۔ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے دعا کی تو تمام کنوؤں کا پانی، نہروں اور چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی، غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا، سات روز تک خون کے سوا کوئی چیز میسر نہ آئی تو پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے دعا کی درخواست کی اور ایمان لانے کا وعدہ کیا، حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے دعا فرمائی، یہ مصیبت بھی دور ہوئی، مگر وہ ایمان پھر بھی نہ لائے۔(سیرت انبیاء، ص 579تا580 مخلصاً)

قرآن پاک نے ان مذکورہ بالا پانچوں عذابوں کی تصویر کشی ان الفاظ میں فرمائی ہے:

ترجمہ کنزالایمان: تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن (یا کلنی یا جوئیں ) اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی اور جب ان پر عذاب پڑتا، کہتے اے موسیٰ ہمارے لئے اپنے ربّ سے دعا کرو، اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے، بیشک اگر ہم پر سے عذاب اٹھادو گے تو ہم ضرور تم پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے، پھر جب ہم ان سے عذاب اٹھالیتے، ایک مدت کے لئے جس تک انہیں پہنچنا ہے جبھی وہ پھر جاتے تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا، اس لئے کہ ہماری آیتیں جھٹلاتے اور ان سے بے خبر تھے۔ (پ 9 ، الاعراف: 133تا 136)

درس:

ان واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ عہد شکنی اور اللہ کے نبیوں کی تکذیب و توہین کتنا بڑا اور ہولناک جرمِ عظیم ہے کہ اس کی وجہ سے فرعونیوں پر بار بار عذابِ الٰہی قسم قسم کی صورتوں میں اُترا، یہاں تک کہ آخر میں وہ دریا میں غرق کر کے دنیا سے فنا کر دیئے گئے، ہر مسلمان کو عہد شکنی اور سرکشی اور گناہوں سے بچتے رہنا لازم ہے کہ کہیں بد اعمالیوں کی نحوست سے ہم پر بھی قہرِ الٰہی عذاب کی صورت میں نہ اُتر پڑے۔اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے، ہر طرح کی آفات سے بچائے۔آمین


دعوتِ اسلامی کےڈونیشن سیل ڈیپارٹمنٹ کےتحت 4دسمبر2021ءبروزہفتہ گجرات فیضان مدینہ میں مدنی مشورےکااہتمام کیاگیاجس میں بستہ ذمہ داراسلامی بھائیوں نےشرکت کی۔

اس موقع پر رکنِ شعبہ منور حسین عطاری، رکنِ زون محمد ندیم عطاری اورسپر وائزر دانش فرحت محمود عطاری نےاسلامی بھائیوں کی تربیت ورہنمائی کی۔

اس مدنی مشورےمیں صدقہ وصول کرنے کی اہمیت ،مدنی قافلے میں سفر کرنےاوراخلاقیات کے حوالےسےذمہ داران کی ذہن سازی کی گئی نیزدعوتِ اسلامی کے12دینی کاموں میں عملی طورپرحصہ لینےکی ترغیب دلائی گئی جس پرانہوں نےاچھی اچھی نیتوں کااظہارکیا۔(رپورٹ: شعبہ ڈونیشن سیل ڈیپارٹمنٹ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


اللہ پاک نے قومِ فرعون کی ہدایت کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو مبعوث فرمایا، اس قوم نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی نافرمانی کی اور ایمان قبول نہیں کیا، بلکہ فرعون کا کفر اور سرکشی اور زیادہ بڑھ گئی، اس نے بنی اسرائیل کے مؤمنین اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دل آزاری وایذاء رسانی میں بھرپور کوشش شروع کردی اور طرح طرح سے ستانا شروع کر دیا، فرعون کے مظالم سے تنگ دِل ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے خداوند قدوس کے دربار میں اس طرح دعا مانگی کہ:

اے میرے ربّ!فرعون زمین میں بہت ہی سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے بھی عہد شکنی کی ہے، لہذا تو انہیں ایسے عذاب میں گرفتار کر، جو ان کے لئے سزاوار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کیلئے عبرت ہو۔

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں پر لگاتار پانچ عذابوں کو مسلط فرما دیا، وہ پانچوں عذاب یہ ہیں:

طوفان کا عذاب۔ ٹڈیاں۔گھن۔ مینڈک۔ خون

الغرض ان سرکشوں پر مسلسل پانچ عذاب آتے رہے اور ہر عذاب ساتویں دن حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا سے ٹلتا یوں کہ فرعونی عذاب سے تنگ آکر حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرتے کہ آپ ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت ٹل جائے تو وہ ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے پاس بھیج دیں گے، چنانچہ آپ کی دعا سے عذاب ٹل جاتا، لیکن پھر وہ اپنے عہد سے پھر جاتے تو اس طرح ان پر دوسرا عذاب نازل ہوتا، ہر دو عذابوں کے درمیان ایک ماہ کا فاصلہ ہوتا رہا، مگر فرعون اور فرعونیوں کے دلوں پر شقاوت و بدبختی کی ایسی مُہر لگ چکی تھی کہ پھر بھی وہ ایمان نہیں لائے اور اپنے کُفر پر اَڑے رہے اور ہر مرتبہ اپنا عہد توڑتے رہے، یہاں تک کہ اللہ پاک کے قہر و غضب کا آخری عذاب آگیا کہ فرعون اور اس کے متبعین سب دریائے نیل میں غرق ہوکر ہلاک ہوگئے اور ہمیشہ کے لئے خدا کی دنیا ان عہد شکنوں اور مَردُودوں سے پاک و صاف ہو گئی اور یہ لوگ دنیا سے اس طرح نیست و نابود کر دیئے گئے کہ روئے زمین پر ان کی قبروں کا نشان بھی باقی نہیں رہ گیا۔(عجائب القران مع غرائب القران، ص101)

قرآن پاک نے ان مذکورہ عذابوں کی تصویر کشی ان الفاظ میں فرمائی:

ترجمہ کنزالایمان:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن اور مینڈک اور خون جدا جدا نشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی اور جب ان پر عذاب پڑتا، کہتے اے موسیٰ ہمارے لئے اپنے ربّ سے دعا کرو، اس عہد کے سبب جو اس کا تمہارے پاس ہے، بیشک اگرتم ہم پر سے عذاب اٹھادو گے تو ہم ضرور تم پر ایمان لائیں گے اور بنی اسرائیل کو تمہارے ساتھ کردیں گے، پھر جب ہم ان سے عذاب اٹھالیتے، ایک مدت کے لئے جس تک انہیں پہنچنا ہے جبھی وہ پھر جاتے تو ہم نے ان سے بدلہ لیا تو انہیں دریا میں ڈبو دیا، اس لئے کہ ہماری آیتیں جھٹلاتے اور ان سے بے خبر تھے۔ (پ 9، الاعراف: 133تا 136)


فرعونیوں پر آنے والے عذابات

دریائے نیل میں غرق ہونے سے پہلے فرعونیوں پر کچھ خوفناک اور عجیب و غریب عذابات نازل ہوئے۔

جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام کا عصا(لاٹھی)اژدھا بن کر جادوگروں کے سانپوں کو نگل گیا تو وہ جادوگر تو ایمان لے آئے، مگر فرعون اور اس کے ماننے والے ایمان نہ لائے، بلکہ ان کی سرکشی اور بھی بڑھتی گئی اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام اور بنی اسرائیل کو طرح طرح سے تکلیفیں دینے لگے تو حضرت موسیٰ علیہ السّلام نےاللہ پاک کی بارگاہ میں دعا مانگی:اے میرے ربّ! فرعون بہت ہی سرکش ہو گیا اور اس کی قوم نے وعدہ خلافی کی ہے، لہٰذا تو انہیں ایسے عذابات میں گرفتار فرما، جو ان کے لئے سزاوار ہوں اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہوں۔

اس پر اللہ پاک نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا قبول فرمائی اور فرعونیوں پر لگاتار 5 عذابات نازل فرمائے، طوفان کے ذریعے، ٹڈیوں کے ذریعے، گھن کے ذریعے، مینڈک کے ذریعے اور خون کے ذریعے، اللہ کریم قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

فَاَرْسَلْنَا عَلَیْهِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَ الْقُمَّلَ وَ الضَّفَادِعَ وَ الدَّمَ اٰیٰتٍ مُّفَصَّلٰتٍ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا مُّجْرِمِیْنَ(۱۳۳) ( پ 9، الاعراف :133)ترجمہ کنزالایمان:تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور پِسُّو(یا جوئیں) اور مینڈک اور خون کی جدا جُدا نشانیاں بھیجیں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔

جب فرعونیوں پر عذابات نازل ہوتے تو وہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے پاس آتے اور کہتے کہ آپ ہمارے لئے دعا کریں کہ یہ عذاب ٹل جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے اور جب حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا سے اللہ پاک عذاب اُٹھا لیتا تو وہ اپنا کیا ہوا عہد توڑ دیتے۔

جب اللہ پاک نے بار بار فرعونیوں کو عذابات سے نجات دی اور وہ اپنے عہد پر قائم نہ رہے اور ایمان نہ لائے، تو جو مدّت ان کے لئے مقرر فرمائی گئی تھی، اس کے پورا ہونے کے بعد اللہ پاک نے فرعونیوں کو دریائے نیل میں غرق کر دیا اور ہلاک کردیا۔

درسِ ہدایت:

اس سے ہمیں یہ درسِ ہدایت ملتا ہے کہ جب فرعونیوں نے بار بار عہد شکنی کی تو اللہ پاک نے اُن لوگوں کو دریائے نیل میں غرق کر کے ہلاک کر دیا اور یہاں ہمارا حال ہے کہ جب ہم پر کوئی مصیبت آن پڑتی ہے تو ہم ذکرِ الٰہی میں مشغول ہو جاتی ہیں، اللہ پاک سے مدد طلب کرتی ہیں، یہ ایک بہت اچھا فعل ہے، لیکن جب مصیبت ٹل جاتی ہے تو ہم پھر سے دُنیاوی زندگی اور مصروفیات میں لگ جاتی ہیں اور اللہ پاک کو بھول جاتی ہیں، ہمیں اس سے ہر دم بچنے کی کوشش کرنی چاہئے اور فرعونیوں کے اس خوفناک انجام سے عبرت حاصل کرنی چاہئے۔


فرعون کون تھا:

فرعون حضرت سیّدنا موسیٰ علیہ السّلام کے دور کا ایک سرکش بادشاہ تھا، دعوتِ اسلام سے قبل فرعون حکومت و سلطنت کی وسعت، مال دولت کی کثرت، عیش و عشرت کی فراوانی اور طاقت و قوت کے نشے میں بےحد مغرور اور بے لگام ہو گیا تھا، بنی اسرائیل کے ہزاروں نادار وبے بس لوگوں کو اس نے اپنا غلام بنا رکھا تھا اور ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتا، چونکہ اس نے خدائی کا دعوی کررکھا تھا، اس لئے ہر کسی کو اپنا مملوک تصور کرتا، ان کے ساتھ ہرسلوک روا (درست) جانتا تھا۔

وقت یونہی گزرتا رہا، عرصے بعد اللہ پاک نے حضرت موسیٰ و ہارون عَلَیْہِمَا السَّلَام کو فرعون اور اس کی قوم کو دعوتِ ہدایت دینے کے لئے مبعوث فرمایا تھا، انہوں نے لوگوں کو باطل معبودوں کی پوجا پاٹ سے روکا اور خدائے واحد کی عبادت کی طرف بلایا، جو سب کا خالق و مالک ہے، لیکن ان ظالموں نے بجائے حق تسلیم کرنے کے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور ان دونوں پیغمبرانِ خدا کی سچائی پر دلالت کرنے والے روشن معجزات دیکھنے کے باوجود کفرو سرکشی پر قائم رہے اور معجزات کے مقابلے کے لئے جادوگروں کو اکٹھا کرنے لگے، لیکن خدائے رحمٰن کی نصرت سے ان جادوگروں کو شکست ہوئی تو وہ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے ۔( رسالہ فیضانِ حضرت آسیہ رحمۃ اللہ علیھا، صفحہ 3،4 مختصراً)

جب جادوگروں کے ایمان لانے کے بعد بھی فرعونی اپنے کفر و سرکشی پر جمے رہے تو ان پر اللہ کی نشانیاں پے در پے (مسلسل) وارد ہونے لگیں، کیوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے دعا کی تھی کہ: اے میرے ربّ! فرعون زمین میں بہت سرکش ہو گیا ہے اور اس کی قوم نے عہد شکنی کی ہے، لہذا تو انہیں ایسے عذابوں میں گرفتار فرمالے، جو ان کیلئے سزاوار ہو اور میری قوم اور بعد والوں کے لئے عبرت ہو۔( روح البیان جلد صفحہ 220 ،پارہ الاعراف 133)

تو اللہ پاک نے طوفان بھیجا، ہوا یوں کے باد ل آیا، اندھیرا ہوا اور کثرت سے بارش ہوئی، قبطیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا، یہ لوگ کچھ نہ کرسکتے تھے، مسلسل سات روز تک بارش رہی، جب یہ لوگ عاجز ہوئے تو حضرت موسیٰ سے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمائیے کہ یہ مصیبت دور ہو جائے تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور بنی اسرائیل کو آپ کے ساتھ بھیج دیں گے۔

حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی دعا سے یہ مصیبت دور ہوئی، ہر طرف سرسبز و شادابی آئی، جو پہلے کبھی نہ تھی، لیکن فرعونی پھر بھی ایمان نہ لائے، ایک مہینہ عافیت سے گزرا، لیکن پھر عذابِ الٰہی نے انہیں جکڑ لیا۔

ٹڈیاں:

پھر اللہ پاک نے ٹڈیاں بھیجیں، وہ کھیتیاں، پھل، درخت، مکان کے دروازے، چھتیں،تختے، سامان، حتی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں، قبطیوں نے دعا کروا کر عذاب سے نجات پائی، لیکن ایمان پھر بھی نہ لائے، ایک مہینہ عافیت سے گزرا، پھراللہ نے قمل بھیجے، قمل یا تو گھن ہے یا جوں، اس کیڑے نے بچے کھچے کھیت اور پھل بھی کھا لئے،حتی کہ فرعونیوں کی بھنویں اور پلکیں بھی چاٹ گئے، ان کے جسم میں چیچک کی طرح بھر جاتے، اس مصیبت سے تنگ آ کر انہوں نے دعائے موسیٰ کے ذریعے نجات پائی، لیکن انہوں نے عہد شکنی کی اور پھر بھی ایمان نہ لائے اور خبیث عمل شروع کر دیئے۔

ایک مہینہ عافیت سے گزرنے کے بعد اللہ نے مینڈک کا عذاب بھیجا اور حال یہ ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، منہ کھولتا تو مینڈک کود کراندر چلا جاتا، ہانڈیوں، کھانوں میں مینڈک تھے، اس مصیبت سے تنگ آکر فرعونیوں نے حضرت موسیٰ سے دعا کروائی، عذاب ٹلاتو فرعونی پھر ایمان سے منکر ہو گئے۔

پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے دعا کی تو تمام کنوؤں، نہروں، چشموں کا پانی، دریائے نیل کا پانی، غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا، انہوں نے فرعون سے اس کی شکایت کی تو کہنے لگا حضرت موسیٰ (علیہ السّلام)نے جادو سے تمہاری نظر بند کر دی ہے، یہاں تک کہ بنی اسرائیل پانی پیتے تو وہ پانی ہی رہتا، لیکن قبطی پانی پیتے تو وہ خون بن جاتا، سات روز تک فرعون اور اس کے پیروکار اس مصیبت میں مبتلا رہے، پھر حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے دعا کروائی، لیکن عہد شکنی کرتے ہوئے پھر بھی ایمان نہ لائے۔ (تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

جیسے کہ اللہ کا ارشاد ہے:تو بھیجا ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈی اور گھن اور مینڈک اور خون جداجدانشانیاں تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ مجرم قوم تھی۔

ان واقعات سے یہ سبق ملتا ہے کہ عہد شکنی اور اللہ کے نبیوں کی تکذیب و توہین کتنا بڑا ہولناک جرم ہے، اللہ پاک ہمیں اپنا اور اپنے رسولوں کا مطیع بنائے۔آمین(عجائب القرآن، صفحہ 100، 101) 


حضرت موسیٰ علیہ السّلام قومِ فرعون کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے، قوم بڑی سرکش تھی، آپ نے انہیں ایمان کی طرف بلایا، لیکن وہ وہ ایمان نہ لائے، اللہ پاک نے ان پر عذابات بھیجے، جب ان پر کوئی عذاب آتا تو حضرت موسیٰ کے پاس حاضر ہوتے، روتے اور دعا کا کہتے کہ اگر یہ عذاب ٹل گیا تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے، پھر آپ دعا کرتے، عذاب ٹل جاتا، یہ پھر آپ کو جھٹلانے لگتے، یہاں تک کہ اللہ پاک نے انہیں غرق کر دیا، قومِ فرعون پر مندرج ذیل عذابات آئے:

1. سب سے پہلے جو قومِ فرعون پر عذاب آیا، وہ قحط کا عذاب تھا، اللہ پاک نے انہیں پھلوں اور کھانے پینے کی چیزوں کی کمی میں مبتلا کر دیا، قحط کا یہ عالم تھا کہ ایک کھجور کے درخت پر صرف ایک ہی کھجور لگتی تھی۔( تفسیرصراط الجنان، پ 9، الاعراف، تحت الایۃ: 30)

2. فرعونیوں پر دوسرا عذاب طوفان کا آیا، ہوا یوں بادل آئے، اندھیرا ہوا، کثرت سے بارش ہونے لگی، یہاں تک کہ فرعونیوں کے گھروں میں پانی بھر گیا، یہاں تک کہ وہ اس میں کھڑے رہ گئے اور پانی ان کی گردنوں کی ہنسلیوں تک آ گیا، ان میں جو بیٹھا وہ ڈوب گیا، ان میں نہ کوئی ہِل سکتا تھا، نہ کوئی کام کرسکتا تھا، سات روز تک یہ عذاب ان پر رہا۔(تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

3. تیسرا عذاب اللہ پاک نے ان پر ٹڈی بھیجی، وہ کھیتیاں اور پھل، درختوں کے پتے، مکان کے دروازے، چھتیں، تختے، سامان حتی کہ لوہے کی کیلیں تک کھا گئیں، فرعونیوں کے گھروں میں بھرگئیں۔(تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

4. چوتھا عذاب اللہ پاک نے ان پر قمل کا عذاب بھیجا، بعض کہتے ہیں قمل گھُن ہے، بعض کہتے ہیں ایک چھوٹا سا کیڑا ہے، اس نے جو کپڑے، کھیتیاں اورپھل باقی رہے تھے، وہ کھا لئے، یہ کیڑا جِلد میں گھس جاتا تھا اور جلد کو کاٹتا تھا، کھانے میں بھر جاتا تھا، اگر کوئی دس بوری گندم چکی پر لے جاتا تھا تو تین سیر واپس لاتا، باقی سب کیڑے کھا جاتے، کیڑے فرعونیوں کے بال، بھنویں، پلکیں چاٹ گئے، ان کے جسم پر چیچک کی طرح بھر جاتے، ان کا جینا دشوار کر دیا۔(تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

5. پھر اللہ پاک نے ان پر مینڈک بھیجے اور یہ حال ہوا کہ آدمی بیٹھتا تھا تو اس کی مجلس میں مینڈک بھر جاتے، منہ کھولتا تو مینڈک کود کر منہ میں چلا جاتا، ہانڈیوں میں مینڈک، کھانوں میں مینڈک، چولہوں میں مینڈک بھر جاتے۔(تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

6. پھر اللہ پاک نے ان پر یہ عذاب بھیجا کہ ان کے کنوؤں کا پانی، نہروں ، چشموں کا پانی اور دریائے نیل کا پانی، غرض ہر پانی ان کے لئے تازہ خون بن گیا، یہاں تک کہ وہ پیاس سے درختوں کی رطوبت چُوسنے لگے، وہ رطوبت منہ میں جاتے ہی خون بن جاتی۔(تفسیر صراط الجنان، پ 9، الاعراف ، تحت الایۃ 133)

جب اتنے عذابات کے بعد یہ ایمان نہ لائے تو اللہ پاک نے انہیں سمندر میں غرق کردیا۔

آج ہمیں اپنی حالت پر غور کرنا چاہئے، جب ہم پر کوئی تکلیف آتی ہے تو ہم اللہ کو یاد کرتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں مگر جیسےہی وہ تکلیف ہم سے دور ہوتی ہے، ہم اللہ کو بھول جاتے ہیں، دنیا کی رنگینیوں میں گم ہوجاتے ہیں۔