محمد سہیل عطاری بن
اسلام الدین عطاری( درجہ خامسہ جامعۃ المدینہ
فیضانِ عطار ناگپور)
انسان
کی زندگی پر غور کرے تو پتا چلتا ہے کہ رونا گویا اس کی زندگی کا ایک حصہ ہے۔ پیدا
ہوتے وقت بھی رو رہا ہوتا ہے، کبھی کوئی نعمت ملنے پر بہت خوش ہونے کی بنا پراسکی
آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں، کبھی کسی مصیبت مثلا: کاروبار میں نقصان، گھر میں
فوتگی وغیرہ سے دوچار ہو جائے تو بھی اسکی آنکھیں آنسو بہا دیتی ہیں۔الغرض رونا
اسکی زندگی کا اہم جز ہے۔ مگر یہ رونا خوفِ خدا سے ہو عشقِ مصطفی صلی اللہ تعالی
علیہ والہ وسلم سے ہو، یادِ مدینہ میں ہو تو اِس رونے کی بات ہی الگ ہے۔
صاف
پانی کا یہ وصف ہے کہ وہ میل کچیل ختم کر دیتا ہے۔اگر کسی جگہ گندگی ہو اور پانی
بہائے تو وہ جگہ بھی صاف ہو جاتی ہے۔ خوفِ خدا میں بہنے والے آنسو نکلتے تو باہر
کو ہیں لیکن انسان کے "اندر" کو
صاف کر جاتے ہیں۔ آنسو بہتے تو ظاہر پر ہیں لیکن صفائی انسان کے باطن کی کرتے ہیں۔
خوفِ خدا میں بہنے والے آنسو دل کی سختی کو دور کرتے ہیں۔ خوفِ خدا میں بہنے والے
آنسو گناہوں کے بوجھ اور جہنّم کے عذاب سے نجات کا باعث بنتے ہیں۔
چنانچہ مکتبۃ المدینہ کی کتاب "خوفِ خدا " کے صفحہ:142 پر ہے۔
قیامت
کے دن ایک شخص کو بارگاہِ الہی میں لایا جائے گا اسے اس کا اعمال نامہ دیا جائے گا
تو وہ اس میں کثیر گناہ پائے گا۔ پھر عرض کرے گا یا الہی ! میں نے تو یہ گناہ کیے
ہی نہیں ؟ اللہ پاک ارشاد فرمائے گا : میرے پاس اس کے مضبوط گواہ ہیں۔ وہ بندہ
اپنے دائیں بائیں مڑ کر دیکھے گا لیکن کسی گواہ کو موجود نہ پائے گا۔ اور کہے گا :
یا رب وہ گواہ کہاں ہے تو اللہ کریم اس کے اعضاء کو گواہی دینے کا حکم دے گا۔ کان
کہیں گے: ہاں ! ہم نے (حرام )سنا اور ہم اس پر گواہ ہیں۔ آنکھیں کہیں گی: ہاں ! ہم
نے (حرام )دیکھا زبان کہے گی :ہاں ! میں نے ( حرام )بولا تھا۔ اسی طرح ہاتھ اور
پاؤں کہیں گے: ہاں ! ہم (حرام کی طرف )بڑھے تھے۔ وغیرہ وغیرہ ۔
وہ
بندہ یہ سب سن کر حیران رہ جائے گا۔پھر جب اللہ پاک اس کے لیے جہنم میں جانے کا
حکم فرما دے گا تو اس شخص کی سیدھی آنکھ کا ایک بال ربِ کریم سے کچھ عرض کرنے کی
اجازت طلب کرے گا اور اجازت ملنے پر عرض کرے گا : الہی ! کیا تو نے نہیں فرمایا
تھا کہ میرا جو بندہ اپنی آنکھ کے کسی بال کو میرے خوف میں بہائے جانے والے آنسوؤں
میں تر کرے گا، میں اس کی بخشش فرما دوں گا ؟ اللہ پاک ارشاد فرمائے گا : کیوں نہیں
! تو وہ بال عرض کرے گا میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا یہ گناہ گار بندہ تیرے خوف سے
رویا تھا۔جس سے میں بھیگ گیا تھا۔ یہ سن کر اللہ پاک اس بندے کو جنت میں جانے کا
حکم فرما دے گا۔ ایک منادی پکار کر کہے گا سنو ! فلاں بن فلاں اپنی آنکھ کے ایک
بال کی وجہ سے جہنم سے نجات پا گیا۔
(درتہ الناصحین،المجلس الخامس والستون،ص:253)
رحمتِ حق
"بہا" نمی جوید
رحمتِ حق "بہانہ" می جوید
(یعنی
اللہ پاک کی رحمت "بہا" یعنی( قیمت )طلب نہیں کرتی بلکہ اللہ پاک کی
رحمت تو بہانہ تلاش کرتی ہے)
اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں خوف خدا سے رونے کے
کثیر فضائل بیان کیے گئے ہیں۔ جن میں سے چند احادیثِ مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں
۔
(1) اللہ پاک کے
آخری نبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ پاک کے خوف
سے روتا ہے وہ ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہوگا حتی کہ دودھ (جانور کے ) تھن میں واپس
آجائے۔
(شعب الایمان :1/490،رقم الحدیث:800)
(2) حضرتِ
انس رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ والہ
وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے، وہ اس کی بخشش فرما دے گا۔
(کنز العمال:ج:3/64،رقم الحدیث:5909)
(3) ام
المومنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کیا آپ کی امت میں سے کوئی بلا حساب بھی جنت میں
جائے گا ؟ تو فرمایا، " ہاں ! وہ شخص جو اپنے گناہوں کو یاد کر کے
روئے"۔
(احیاء العلوم ، کتاب الخوف والرجاء :4/200)
ان احادیث کے علاوہ بھی کثیر احادیث خوفِ خدا میں
رونے کے فضائل پر مشتمل ہیں۔ بلکہ آج جدید سائنس بھی رونے کے طبی فوائد بیان کرتی
ہیں۔ لیکن شرعا جو رونا پسندیدہ ہے وہ خوفِ خدا سے، عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ والہ
وسلم میں رونا ہے۔
رونے والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں
ذکرِ محبت عام ہے لیکن سوزِ محبت عام نہیں۔
اللہ
پاک ہم سب کو اپنے خوف سے رونے والی آنکھیں عطا فرمائے۔
مِرے اشک بہتے رہیں کاش ہر دم
تِرے خوف سے یا خدا یا الہی
اٰمین
بجاہِ خاتمِ النّبِیِّین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم