مدینہ منورہ نہایت افضل شہر ہے،کیونکہ وہاں مزارِ مصطفیٰ ہے،جہاں صبح و شام ستر ستر ہزار فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔مدینے کی زمین کا وہ مبارک حصّہ جس پر رسولِ انور، مدینے کے تاجور  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا جسمِ منور تشریف فرما ہے،وہ ہر مقام حتی کہ خانہ کعبہ،بیت المعمور،عرش وکرسی اور جنت سے بھی افضل ہے۔مدینے پاک کی حاضری، اس کا سرور،اس کا احساس،اس کا خیال ایسا ہے کہ ذہن میں آتے ہی عشاق کی آنکھیں بہنے لگتی ہیں۔مدینے پاک کی زیارت کے لئے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں دل تڑپتے ہیں،دنیا میں کوئی ایسا شہر نہیں، جس کے لئے دل بے چین ہوں، آنکھیں اشکبار ہوں، بس وہ مدینہ ہی ہے۔

کہاں کوئی روتا ہے جنت کی خاطر رلاتی ہے عاشق کو یادِ مدینہ

مدینہ منورہ کے فضائل پر مشتمل10 فرامینِ مصطفی ملاحظہ کیجئے:

1۔فرمایا:میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا، مگر میں قیامت کے دن اس کاشفیع(یعنی شفاعت کرنے) والا ہوں گا۔ (مسلم712، حدیث1378)

2۔مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں میں فرشتے ہیں،اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری، ج1/619، حدیث:1880)

3۔مسجد نبوی شریف میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ،ج2/176، حدیث1413)

4۔اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے،مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ، مگر اس پر دو فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ (مسلم714، حدیث:1374)

5۔مدینہ منورہ میں کیا جانے والا ہر عمل ایک ہزار کے برابر ہے۔ (احیاء العلوم، 1/739)

6۔جب کوئی مسلمان زیارت کی نیت سے مدینہ منورہ آتا ہے تو فرشتے رحمت کے تحفوں سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔ (جذب القلوب،ص211)

7۔خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔ (جذب القلوب،ص22)

8۔مجھےایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(سب پر غالب آئے گی) لوگ اس یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، یہ بستی لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی، جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔ (صحیح بخاری، ج1/617، حدیث1871)

مدینے کو یثرب کہنا گناہ ہے:

ایک روایت میں مدینہ منورہ کو یثرب کہنے کی ممانعت کی گئی ہے۔فتاویٰ رضویہ،جلد21،صفحہ 116 پر ہے: مدینہ منورہ کو یثرب کہنا نا جائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے والا گنہ گار،کیونکہ یہ زمانہ جاہلیت کا نام ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: جو مدینےکو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے، مدینہ طابہ ہے، مدینہ طابہ ہے۔

امام بخاری رحمۃُ اللہِ علیہ اپنی تاریخ میں ایک حدیث لاتے ہیں کہ جو کوئی ایک مرتبہ (مدینے کو)یثرب کہ دے تو اسے کفارے میں دس مرتبہ مدینہ کہنا چاہئے۔

کیوں طیبہ کو یثرب کہو ممنوع ہے قطعاً موجود ہیں جب سینکڑوں اسمائے مدینہ(قبائل بخشش/235)

9۔فرمایا:جس نے میری وفات کے بعد حج کیا اور میری قبر کی زیارت کی تو وہ ایسا ہے، جیسے میری حیات میں زیارت سے مشرف ہوا۔(ار قطنی، کتاب الحج، ج2/351، حدیث2667)

10۔فرمایا:جو مدینے میں مرسکے، وہ وہیں مرے، کیوں کہ میں مدینے میں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا۔(ترمذی، جلد 5، صفحہ483، حدیث3943)

مشہور مفسرحکیم الامت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:ظاہر یہ ہے کہ یہ بشارت اور ہدایت سارے مسلمانوں کو ہے نہ کہ صرف مہاجرین کو،یعنی جس مسلمان کی نیت مدینہ پاک میں مرنے کی ہو،وہ کوشش بھی وہاں مرنے کی کرے، خدا نصیب کرے تو وہاں ہی قیام کرے،خصوصاً بڑھاپے میں بلا ضرورت مدینہ پاک سے باہر نہ جائےکہ موت و دفن وہاں کا ہی نصیب ہو۔

زمیں تھوڑی سی دیدے بہرِ مدفن اپنے کوچے میں لگادے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے(ذوق نعت)

درس: ذکر کی گئی احادیث ِمبارکہ سے مدینہ منورہ کی فضیلت معلوم ہوئی کہ مدینہ منورہ امن کی جگہ ہے، اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے،مدینے کی زیارت کرنے والے کے لئے شفاعت کی بشارت ہے، وہاں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے وسیلہ سے مانگی گئی دعا سے مغفرت کی بشارت ہے، دل میں محبتِ مدینہ اور غمِ مدینہ کی لازوال دولت پانے اور بڑھانے کے لئے مدینہ منورہ کے فضائل و خصائص کی معرفت حاصل کیجئے، ان شاءاللہ اس کی برکت سے دل میں محبتِ مدینہ اور عشقِ رسول کی ایسی لازوال شمع روشن ہوگی، جس کی روشنی ہماری دنیا کے ساتھ ساتھ قبرو آخرت کو بھی جگمگا دے گی۔

یا نبی! بس مدینے کا غم چاہئے کچھ نہیں اورربّ کی قسم چاہئے

( وسائل بخشش،ص 514)


یوں تو مدینہ منورہ کو تمام شہروں پر بے شمار خوبیوں کی وجہ سے فضیلت و برتری حاصل ہے، مگر اس کی عزت و عظمت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مدینۃ الرسول ہے، ہجرت گاہِ کو نین ہے اور اسے رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے نسبت حاصل ہے اور اسی مقدس شہر میں حضور آرام فرما ہیں۔

ہم کو پیارا ہے مدینہ اس لئے کہ رہتے ہیں اس میں شاہِ بحرو بر میٹھا مدینہ مرحبا

یثرب سے مدینہ:

مدینہ منورہ کا پرانا نام یثرب تھا جو ثَبَرَّب،ثَرَابَ اور اَثْرَبَ سے بنا ہے،یہاں کی آب وہوا ایسی تھی کہ اگر تندرست آئے تو بیمار ہو جاتا تھا، لیکن جب اس جگہ کو سرکارِ دو عالم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی قدم بوسی کا شرف ملا تو یہ مدینہ منورہ بن گیا، اب یہاں کی مٹی میں بھی الله پاک نے شفا رکھ دی۔چنانچہ فرمانِ مصطفٰے ہے:اس ذات کی قسم!جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے،بیشک خاکِ مدینہ ہر بیماری سے شفا ہے۔

(الترغيب والترهيب، ج 2، ص 122، حدیث 1885)

جن کے آنے سے یثرب مدینہ بنا اُس قدم کی کرامت پہ لاکھوں سلام

شہر نبوی کے 10 فضائل حدیث کی روشنی میں:

1۔پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جو شخص مدینے میں رہائش اختیار کرے گا اور مدینے کی تکالیف پر صبر کرے گا تو میں قیامت کے دن اُس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا۔(مشكاۃ المصابیح، حدیث 2755)

2۔اس محبوب شہر کے لئے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمیوں دعا فرماتے:اے اللہ پاک! ہمارے لئے مدینہ کو اتنا ہی محبوب کردے، جتنا مکہ کو کیا تھا ، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔(بخاری شریف، ج1، میں 253)

3۔سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ہے:المدينۃ معلقۃ بالجنۃ۔یعنی مدینہ منورہ جنت میں داخل ہے۔(کتاب البلدان، ص23)

4۔مدینہ طیبہ کے پھل بھی باعثِ شفا ہیں،حضور سیّد العالمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جو شخص سات عدد عجوہ کھجور نہار منہ کھائے، اس پر زہر اور جادو اثر نہ کرے گا۔(جذب القلوب، ص31)

5۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعافرمائی:اے اللہ پاک! مکہ معظمہ کی بنسبت مدینہ طیبہ میں دو چند (دو گنی) برکت عطا فرما۔(بخاری شریف، ج 1، ص 253)

6۔حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:جس نے میری قبر کی زیارت کی،اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔(دارقطنی، کتاب الحج ، حدیث 2669)

7۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:تم میں سے جس سے ہو سکے کہ وہ مدینے میں مرے تو مد ینے ہی میں مرے،کیونکہ میں مدینے میں مرنے والے کی شفاعت کروں گا۔(ترمذی،کتاب المناقب، باب فی فضل المدینہ، حدیث 3943)

8۔فرمانِ مصطفٰے:خاکِ مدینہ میں جذام سے شفا ہے۔(جامع صغیر، حدیث 5754)

9۔سرکار علیہ الصلوۃ والسلام مدینہ کا گرد و غبار اپنے چہرہ انور سے صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی اس سے منع فرماتے اور ارشاد فرماتے: خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب القلوب، ص 22)

10۔پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:خاکِ مدینہ جذام(کوڑھ)کو اچھا کر دیتی ہے۔(جامع صغیر، ص355)

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے اُٹھا لے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے

مدینے شریف کا ذکرِ خیر ہوتے ہی عاشقانِ رسول، مدینے کے عاشقوں کے دل خوشی سے جھوم اٹھتے، چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے،جس پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے ہم بے پناہ محبت کرتے ہیں، خود وہ آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینے سے بہت محبت کرتے ہیں، لہٰذا محبتِ رسول کا تقاضا یہ ہے کہ مدینے کے کوچہ وبازار، گلشن و صحرا ، درو دیوار ، اس کے پھول حتٰی کہ کانٹے کی محبت بھی دل میں بسائے رکھیں۔ ذکرِ مدینہ عاشقانِ رسول کے لئے دل وجان کو سکون دیتا ہے، مدینے کے عشاق اس کی جدائی میں تڑپتے اور اشک بہاتے ہیں۔ الله پاک ہمیں بھی مدینے کی محبت اور اس کی جدائی میں تڑپنا نصیب فرمائے۔اللہ پاک ہمیں مدینہ طیبہ میں ایمان کے ساتھ موت اور بقیع مبارک میں خیر کے ساتھ مدفن نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

ہے یہی عطار کی حاجت مدینے میں مرے ہو عنایت سیدا ، یا غوثِ اعظم دستگیر


اللہ پاک نے اس کائنات رنگ و بُو میں بعض انسانوں کو دوسروں سے افضل و برتر بنایا ہے،ایسے ہی انبیاعلیہم السلام کو دوسرے تمام انسانوں پر فضیلت بخشی اور پھر انسانوں میں سے علما، صلحا، اتقیا، عابدین اور زاہدین کو بقیہ تمام لوگوں پر فضیلت بخشی۔لیکن فضیلت و برتری ایک ایسی چیز ہے جس کا دائرہ صرف انسانوں تک محدود نہیں،بلکہ نوعِ انسان سے متجاوز ہوکر حیوانات،نباتات،مقاماتِ امکنہ تک پہنچتا ہے،ایسے ہی اللہ پاک نے مقامات و امکنہ میں سے بعض مخصوص و مقدس مقامات کو دوسرے بعض پر فوقیت بخشی ہے، ان مقدس مقامات میں سے ایک دار ہجرتِ نبی بھی ہے۔یہ مبارک زمین بہت سے فضائل و مناقب کی حامل ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینہ سے اتنی محبت تھی کہ مدینہ کو قابلِ احترام قرار دے دیا۔

حضرت سعد سے روایت ہے،انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا ارشاد ہے:میں حرم قرار دیتا ہوں اس علاقے کوجو مدینہ کی دو پہاڑوں کے درمیان ہے، کہ اس کے خار دار درختوں کو کاٹا جائے یا اس کے شکار کو قتل کیا جائے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، باب مساحۃ حرم المدینہ7/295)

مدینہ میں مرنے والوں کے لئے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے بشارت دی ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے ہی میں مرے، کیونکہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(شعب الایمان، ج 3، ص 497، حدیث 1482)

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر ِشفاعت نگر کی ہے

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری شريف،ج1،ص619، حدیث 1880)

نبیِّ مکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ معظم ہے:اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ، مگر اُس پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔

(مسلم شریف ، ص 714، حدیث 1378)

اللہ پاک نے اس کا نام طابہ رکھا۔روئے زمین کا کوئی ایسا شہر نہیں جس کے اسمائے گرامی یعنی مبارک نام اتنی کثرت کو پہنچے ہوں، جتنے مدینہ منورہ کے نام ہیں۔ بعض علمانے 100 تحریر کئے ہیں۔

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب سفر سے واپس آتے تو مدینہ کے قریب پہنچ کر زیادتی ِشوق سے اپنی سواری تیز کردیتے۔

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمیہاں کاگردوغبار اپنے چہرہ ٔانور سے صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی اس سے منع فرماتے اور ارشاد فرماتے :خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب القلوب ،صفحہ22)

مسجدِ نبوی میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ، ج 2، ص 176، حدیث 1413)

قیامت کے قریب تمام اہلِ ایمان دنیا کے گوشے گوشے سے سمٹ کر مدینہ آ جائیں گے۔روایت ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے،فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:ایمان سمٹ کر اس طرح مدینہ آ جائے گا جس طرح سانپ سمٹ کر اپنے بل میں چلا جاتا ہے۔(بخاری، باب الایمان بارز الی المدینہ1/252)


مدینہ منورہ کے فضائل و برکات کے کیا کہنے!سبحن اللہ !یہ تو محبوبِ خدا، محمد ِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا شہر ہے، یہ شہر ایسا شہر ہے جو ہمیشہ آباد رہے گا، کبھی بھی ویران نہ ہو گا، اگر کوئی قوم یا جماعت اسے چھوڑ جائے تو دوسری جماعت اسے آباد کرے گی، بہت سے عاشقِ مدینہ ایسے ہیں، جو یہاں آباد ہونے کی آرزو کرتے ہیں اور کتنے ہی ایسے ہیں، جن کے سینے میں وہاں کی تڑپ ہے۔

آرزو ہے سینے میں گھر بنے مدینے میں ہو کرم جو بندے پر بندہ پروری ہو گی

یثرب سے مدینہ نام ہونے کی وجہ:

نبیِّ پاک ، رؤف الرحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنےفرمایا:میں اس مدینہ کے گوشوں کو حرم بناتا ہوں، تب سے یہ سرزمین حرمِ مدینہ بن گئی، جو پہلے عظمت والی نہ تھی، بلکہ لوگ اس سے گھبراتے تھے، یہ وباؤں کی جگہ تھی، اس جگہ پر وباؤں کی کثرت کی وجہ سے اس کا نام بھی یثرب (یعنی بلاؤں کا گھر)تھا، مگر اب اسے یثرب کہنا سخت منع ہے، جو بھی اسے ایک بار یثرب کہے تو وہ توبہ کرے اور بطورِ کفارہ اسے دس بار مدینہ کہنا چاہئے۔

مدینہ منورہ کے نام:

مدینہ منورہ کے سو سے بھی زیادہ نام ہیں: طیبہ، طابہ، بطحا، مدینہ اور ابطح وغیرہ، لوحِ محفوظ میں مدینہ منورہ کا نام طابہ، طیبہ ہے۔ نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اللہ پاک نے مدینہ منورہ کا نام طابہ رکھا، جس کے معنی پاک و صاف اور خوشبودار جگہ۔ اس مقدس شہر کو اللہ پاک نے کفر و شرک سے پاک کیا اور یہاں کے رہنے والوں کے اخلاق و عادات بھی بہت اعلیٰٰ ہیں۔ مدینہ منورہ تمام شہروں سے افضل ہے۔ اس شہر کے لئے نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے یہ دعا بھی فرمائی:یا اللہ پاک! ہمیں مدینہ ایسا پیارا کردے، جیسا مکہ تھا یا اس سے بھی زیادہ پیارا اور اسے صحت بخش اور یہاں برکت دے اور یہاں کے بخار کو حجفہ میں منتقل کر دے۔چنانچہ نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی تمام دعائیں قبول ہوئیں، چنانچہ آج ہر مسلمان کو مدینہ منورہ مکہ مکرمہ کے مقابلے میں زیادہ پیارا ہے اور مدینہ کی آب و ہوا صحت بخش ہے، حتی کہ وہاں کی خاک ”خاکِ شفا “کہلاتی ہے، وہاں کی روزی میں برکت ہے۔

احادیث کی روشنی میں شہرِ نبی کے دس فضائل:

پیاری بہنو! آئیے!حدیث کی روشنی میں شہرِ نبی کے فضائل ملاحظہ کیجئے:

1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینہ کی تکلیف اور شدت پر میری امت میں سے جو کوئی صبر کرے ، قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا۔(مسلم شریف ، ص 716، حدیث 1378)

2۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف(ہجرت) کاحکم ہوا،جو تمام بستیوں کو کھا جائےگی(سب پر غالب آئے گی) لوگ اسے یثرب کہتے اور وہ مدینہ ہے(یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک وصاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔(صحیح بخاری،ص 617، حدیث 1379)

3۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینہ کے راستوں پر فرشتے پہرا دیتے ہیں، اس میں نہ دجال آئے گا نہ ہی طاعون۔(مسلم شریف ، ص 716، حدیث 1379)

4۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے، اگر جانتے۔مدینہ کو جو بطورِ اعراض چھوڑے،اللہ پاک اس کے بدلے میں اسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے روزِ قیامت میں اس کا شفیع یاشہید ہوں گا۔(مسلم شریف ، ص 809، حدیث 1363)

5۔حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہماسے مروی ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے ہی میں مرے، کیونکہ جو مدینے میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا ۔(جامع ترمذی، ج 5، ص 483، حدیث 3943)

6۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب سفر سے آتے اور مدینہ پاک کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز فرما دیتے، اگر گھوڑے پر ہوتے تو ایڑی لگا دیتے، اس کی محبت کی وجہ سے۔(مراۃ المناجیح، جلد 4،ص255، حدیث2622)یعنی آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینہ اتنا پیارا تھا کہ ہر سفر سے واپسی میں یوں تو معمولی رفتار پر جانور چلاتے، مگر مدینہ پاک کو دیکھتے ہی وہاں جلد پہنچ جانے کے لئے سواری تیز فرمادیتے تھے۔

7۔حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینہ میں مسیح دجال کا رعب نہ آ سکے گا، اس دن مدینے کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے۔(مراۃ المناجیح، جلد 4،ص260، حدیث2631)

8۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اسلام کی بستیوں سے آخری بستی پر جو ویران ہو گی،وہ مدینہ پاک ہے۔(مرآۃ المناجیح، جلد 4،ص209، حدیث2629، ترمذی شریف)

اس حدیث میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں:ایک یہ کہ قربِ قیامت بڑی بڑی بستیاں ویران ہوجائیں گی، مگر مدینہ منورہ آباد رہے گا، دوسری یہ کہ عالم کی آبادی مدینہ پاک کی آبادی سے وابستہ ہے، جب یہ اجڑ گیا تو دنیا اجڑ جائے گی، قیامت آجائے گی۔

9۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو اہلِ مدینہ والوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا، اللہ پاک اسے آگ میں اس طرح پگھلائے گا، جیسے سیسہ یا اس طرح جیسے پانی میں نمک گھلتا ہے۔(مسلم شریف ، ص 710، حدیث 1363)

10۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے سامنے احد چمکا تو فرمایا:یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔یقیناً حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا اور میں مدینہ کے گوشوں کے درمیان کو حرم بناتا ہوں ۔(مرآۃ المناجیح، جلد 4،ص255، حدیث2623)

اے عاشقانِ مدینہ!ہمیں مدینے کی محبت کو اپنے سینوں میں بسانا چاہئے،عشقِ مدینہ میں ڈوب کر مدینے جانے کی آرزو کرنی چاہئے اور جس کو مدینے کی حاضری کی سعادت نصیب ہو تو اسے چاہئے کہ وہاں کا ادب کرے، مدینے کی گلیوں میں تھوکنے اور کچرا وغیرہ ڈالنے سے گریز کریں۔اللہ پاک ہم سب کو مدینے کی حاضری نصیب فرمائے اور وہاں کی چیزوں کا ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


مدینہ پاک یہ تو وہ شہر ہے، جس کو ربّ کریم نے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے لئے پسند فرمایا، اس کی فضیلت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ پیارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا اس مبارک شہر میں مزارہے۔

یثرب سے مدینہ:

ہمارے پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی کیا شان ہے کہ جس چیز کو آپ نواز دیں، وہ چیز شرف و بزرگی والی ہو جاتی ہے،اسی طرح مدینہ پاک بھی نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی اس کی طرف ہجرت سے قبل یہ یثرب کہلاتا تھا، لیکن جب نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماس کی طرف ہجرت کر کے تشریف لائے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے قدم مبارک اس میں پڑے، جب سے یہ مدینہ بن گیا اور جو مدینہ کو یثرب کہے، اس پر توبہ واجب ہے، مدینہ طابہ ہے، مدینہ طابہ ہے۔(مسند امام احمد، مسندالکونین، ح40914)

جب سے قدم پڑے ہیں رسالتِ مآب کے جنت بنا ہوا ہے مدینہ حضور کا

1۔دعائے مصطفٰے:

جب آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لائے اور یہاں کی آب و ہوا صحابہ کرام علیہم الرضوان کو ناموافق ہوئی کہ پیشتر یہاں وبائی بیماریاں بکثرت ہوتیں تو اس وقت نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس کے لئے دعا فرمائی:یا اللہ پاک! تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنا دےجیسے ہم کو مکہ محبوب ہے، بلکہ اس سے زیادہ اور اس کی آب و ہوا کو ہمارے لئے درست فرما دے اور اس کے صاع و مد میں برکت عطا فرما اور یہاں کے بخار کو منتقل کرکے حجفہ میں بھیج دے۔(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب سکنی المدینہ۔الخ،ص715، ح1374)

2۔اور ایک حدیث میں ہے:نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دعا فرمائی:اے اللہ پاک!جتنی برکتیں مکہ میں نازل کی ہیں،اس سے دوگنی برکتیں مدینہ میں نازل فرما۔(بخاری، کتاب فضائل المدینہ11، باب1/625، ح1885)

3۔حرم اور امن کا گہوارہ:

پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنے دستِ اقدس سے مدینہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:بے شک یہ حرم ہے اور امن کا گہوارہ ہے۔(معجم الکبیر، باب السین،سیرین عمرو عن سہل بن حنیف،6/92،ح5611)

4۔شفاعتِ مصطفٰے:

رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینہ کی تکلیف اور شدت پر میری امت میں سے جو کوئی صبر کرے،قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا۔(صحیح مسلم، باب الحج، الترغیب فی سکنی المدینہ۔الخ،ص716، ح1378)

5۔فرشتوں کا پہرہ:

پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینے کے راستوں پر فرشتے(پہرہ دیتے ہیں)اس میں نہ دجال آئے نہ طاعون ۔(صحیح مسلم، باب الحج، باب میانۃ المدینہ من الدخول الطاعون۔الخ،ص716، ح1379)

6۔جنت کے باغوں میں سے ایک باغ :

فرمانِ مصطفٰے:میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

(بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجدمکۃ المدینہ، باب فضل ما بین القبر والمنبر1/452، ح1195)

سبحان اللہ!یہ جگہ مدینہ پاک میں ہے۔

7۔مدینے کا نام طابہ:

نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:بے شک اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔(مسلم، کتاب الحج، باب المدینہ تنفی شرارہا، ص717، ح491(1385)

8۔لوگوں کو پاک صاف کرنے والی بستی:

نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف(ہجرت) کاحکم ہوا،جو تمام بستیوں کو کھا جائےگی(سب پر غالب آئے گی)لوگ اسے یثرب کہتے اور وہ مدینہ ہے،(یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک وصاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔(صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینہ، باب فضل المدینہ،ج 1،ص 617، حدیث 1871)

9۔حرم قرار دیا گیا:

نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینہ منورہ کو دونوں پتھریلے کناروں کے درمیان کی جگہ کو میری زبان سے حرام قرار دیا گیا ہے۔(بخاری، کتاب فضائل المدینہ، باب حرم المدینہ، 1/616، ح1869)

10۔مدینے پاک میں مرنے کی فضیلت:

نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جس کو مدینے میں موت آ سکے، اسے مدینے ہی میں مرنا چاہئے، کیونکہ میں یہاں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا ۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینہ، ج 5، ص 483، حدیث 3943)

سبحن اللہ!کیا بات ہے مدینے کی!اتنی فضیلتوں والا شہر ہے، اسی لئے تو عاشقانِ رسول،غمِ مدینہ میں آنسو بہاتے، تڑپتے اور اس میں مرنے کی دعا کرتے ہیں۔اللہ پاک ہمیں بھی مدینہ پاک کی بار بار حاضری اور مدینہ پاک میں شہادت والی موت عطا فرمائے۔آمین


درودشریف کی فضیلت:

فرمانِ مصطفٰے:جس نے مجھ پر دس مرتبہ درود پاک پڑھا اللہ پاک اس پر سو رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

صلوا علی الحبیب صلی اللہ علی محمد

1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول ِاکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کاحکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جاتی ہے، لوگ اسے یثرب کہتے اور وہ مدینہ ہے اور وہ برے لوگوں کو اس طرح دور کرتا ہے، جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کرتی ہے۔(صحیح بخاری، فضائل المدینہ، باب فضل المدینہ والنہا تنفی الناس،ج 1،ص 617، حدیث 1871)

2۔حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔(مسلم،کتاب الحج، باب المدینہ تنفی شرارہا،ص 717، حدیث 1385)

3۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینہ منورہ کے دونوں پتھریلے کناروں کے درمیان کی جگہ کو میری زبان سے حرام قرار دیا گیا ہے۔(بخاری، کتاب فضائل المدینہ، باب حرم المدینہ،جلد 1،ص 618، ح 1879)

4۔حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سیدالمرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنے دستِ اقدس سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:بے شک یہ حرم ہے اور امن کا گہوارہ ہے۔(معجم الکبیر، باب السین، سیرین عمرو بن سہل بن حنیف4/92، ح5411)

5۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دعا فرمائی :اے الله پاک! جتنی برکتیں تونے مکہ میں نازل فرمائی ہیں، مدینہ میں اس سے دوگنی برکتیں عطا فرما۔( صحیح بخاری، کتاب فضائل المدینہ،جلد1، صفحہ 620، حدیث 1885)

6۔حضرت عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔(صحیح بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکہ والمدینہ، باب فضل ما بین القبر والمنبر،جلد1، صفحہ 604، حدیث 1195)

7۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جس کو مدینہ منورہ میں موت آ سکے تو اسے یہاں ہی مرنا چاہئے، کیونکہ میں یہاں مرنے والوں کی(خاص طور پر) شفاعت کروں گا۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینہ،5/683،ح3963)

8۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:اہلِ ایمان سمٹ کر اس طرح مدینہ آ جائیں گے،جس طرح سے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں چلا جاتا ہے۔(صحیح بخاری، باب الایمان یارزال المدینہ1/252)

9۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اسلام کی بستیوں میں سب سے آخر میں فنا ہونے والی بستی مدینہ ہے۔(سنن ترمذی، شاکر باب ما جاء فی فضل المدینہ،5/825)

10۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں، اس لئے طاعون اور دجال داخل نہیں ہوسکتے۔

اعلیٰٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی کیا خوب فرماتے ہیں:

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر ِشفاعت نگر کی ہے


مدینہ منورہ کے فضائل و برکات بے شمارہیں۔اللہ  پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے نزدیک بھی بہت برکتوں والا اور عمدہ شہر ہے، یہ شہر نیکیوں اور بھلائیوں کا مرکز ہے، تمام بستیوں کا سردار، نیکیوں کا مرکز، لازوال بھلائیوں کی جگہ، شہرِامن، نیک لوگوں کا شہر، ایمان و یقین سے آباد، اعمالِ حسنہ کی یادوں کا خزانہ، قلبی مسرتیں بخشنے والا، سلامتی والا، گناہوں سے پاک کرنے والا، روحانی و جسمانی بیماریوں سے شفا دینے والا، خالص اوصافِ انسانیت بخشنے والا، بدارادوں کی کمر توڑ دینے والا،ایمان کا دل،ربّ کریم کی رحمتوں کا گہوارہ، رزق سے فیضیاب، امن وسلامتی والا، قلبی سکون والا، پاکیزہ خوشبوؤں سے معطر،مستقر رسول، وفاؤں کا منبع، غرضیکہ نجات والا شہر مقدس ہے۔

ارے اس کی فضیلت و اہمیت کے لئے تواتنا کافی ہے کہ آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا دارالہجرت، مسکن و مدفن ہے، وہ پاک سرزمین جس نے دنیا کے کونے کونے تک اسلام پھیلایا، جہاں ہر نیکی کا کئی گنا بڑھ جائے، جس کے ثمرات دنیا کے تمام ثمرات سے افضل،استراحت گاہِ رسول ،روئے زمین کی سب سے بابرکت، عاشقوں کے دل کی ٹھنڈ ک، دنیاکی سب سے عظم ترین زیارت گاہ روضہ رسول رکھنے والا مقدس مقام، جس کاذکرعاشقوں کے دل کی ٹھنڈک، جہاں کی مٹی خاکِ شفا، جہاں کی کھجوریں سراپا شفا، تاریخِ اسلام کی پہلی مسجد قبا رکھنے والی عظیم جگہ۔دنیا کی ہر زبان میں جتنے قصیدےاس مقدس شہر کی فضیلت و اہمیت میں لکھے گئے، اتنے کسی اور کے لئے نہیں لکھے گئے، اس کی تو جتنی فضیلتیں بیان کریں، بیان ہوتی چلی جائیں، کیونکہ یہ محبوب دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا پسند یدہ شہر ہے۔

یثرب سے مدینہ:

مدینہ منورہ کے سو سے زائد نام ہیں، ہجرت سے پہلے لوگ اسے یثرب کہتے تھے،اس لئے کہ یہاں قومِ عمالقہ کا جو پہلا آدمی آیا تھا، اس کا نام یثرب بن قافیہ تھا اور کافرکے نام پر اس مقدس شہر کا نام رکھنا اس کی شان کے لائق نہ تھا، اس لئے اسے تبدیل کر دیا گیا۔ یا یثرب اس لئے بولا کہ علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں:یہ ثَرْبٌ سے بناہے، جس کے معنی ہلاکت و فساد ہے اور تثریبٌ بمعنی سرزنش اور ملامت ہے، آقائے دو جہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے وہاں مختلف لوگوں کے رہنے سہنے اور جمع ہونے اور اس شہر سے محبت کی وجہ سے اس کا نام مدینہ رکھا یا یثرب کا معنی بلا و مصیبت ہے، چونکہ پہلے یہ جگہ بہت بیماریوں والی تھی، جب آقائے دو جہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمتشریف لائے تو یہ دارالوباء سے دارالشفا بن گئی تو آقائے کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس کا نام مدینہ رکھا، یعنی اجماع کی جگہ، اب اسے یثرب کہنا منع ہے اور کہنا گناہ ہے۔

بخاری شریف کی حدیث میں ہے:جو کوئی ایک مرتبہ یثرب کہہ دے تو کفارہ میں دس دفعہ مدینہ کہے، قرآنِ پاک میں جو یَااَھْلَ یَثْرَبْ ہے،وہ دراصل منافقوں کا قول آیا ہے۔یثرب کہنے والا استغفار کرے۔ بعض کے نزدیک جو مدینہ کو یثرب کہےاسے سزا دی جائے، لہٰذا نہ کہا جائے کہ منافقین مدینہ کو یثرب کہہ کر تو ہین کاارادہ رکھتے تھے۔

فضائلِ مدینہ پر 10احادیث:

1۔ بخاری شریف کی ایک حدیث میں ہے،سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:علی القاب المدينۃ ملائکۃ لايدخلها الطاعون ولا الدجال مدینے کے داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں،اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری، جلد 1، ص 619، حدیث1880)

2۔نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشادفرمایا: اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ،مگر اُس پر دو فرشتے ہیں،جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔(مسلم للنووی،ص714، ح1374)

شرح:

امام نووی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے زمانے میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی، کثرت سے فرشتے حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کوآقائے دو جہاںصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی عزت افزائی کیلئے گھیرا ہوا ہے۔

ملائک لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنی شب و روز خاکِ مزار مدینہ

3۔حضور دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کاحکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جائےگی(سب پر غالب آئے گی) لوگ اسے یثرب کہتے اور وہ مدینہ ہے(یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک وصاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔(صحیح بخاری، ج 1،ص 617، حدیث 1871)

شرح :

یعنی اس شہر کو اللہ پاک نے تمام شہروں کے مقابلہ میں حلال و جمال کے اعتبار سے بلند فرمایا ہے اور یہ شہر بستیوں کا سردار ہے، اسے یثرب نہیں کہہ سکتے کہ کہنے والا گنہگار ہوگا، کیونکہ یثرب بمعنی و باو بیماری ہے اور یہ برکتوں والا بلند مرتبہ اور پاک وصاف شہر ہے، مدینہ منورہ میں جہاد فی سبیل اللہ کے اموال لائے گئے، اس لئے بھی اسے غالب آنے والا کہا جاتا ہے۔

4۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:اللهم اجعل بالمدينۃ ضعفی ماجعلت بمکۃ من البركۃ۔ اے الله پاک!جتنی تونے مکہ میں برکت عطا فرمائی ہے، مدینہ میں اس سے دوگنا برکت عطا فرما۔( صحیح بخاری، جلد1، صفحہ 620، حدیث 1885)

شرح :

حدیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا !یہ شہر رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے لئے حبیب کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس کے لئے برکت کی دعا فرمائی، اسی دعا کی برکت سے آج مد ینہ طیبہ ہر عاشق کی آنکھوں کا نور اور دلی ٹھنڈک ہے، دعا کی برکت سے اس شہر نے اس قدر فضیلت پائی کہ مدینے میں رہنا عافیت اور مرنا شفاعتِ مصطفٰےکی ضمانت قرارپایا۔

5۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے ہی میں مرے،کیونکہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(شعب الایمان، ج 3، ص 497، حدیث 1482)

6۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا، مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع(یعنی شفاعت کرنے والا)ہوں گا۔ (مسلم شریف ، ص 716، حدیث 1378)

شرح :

یعنی جو سفرِ مدینہ میں یاقیامِ مدینہ میں صبر کے ساتھ تکالیف برداشت کرے ، آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماس کو اپنی خصوصی شفاعت سے نوازیں گے۔

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے

7۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:إِنَّ الْإِيمَانَ لَيَأْرِزُ إِلَى الْمَدِينَۃ، كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّۃ إِلَى جُحْرِهَا ۔ایمان مدینہ کی طرف اس طرح واپس لوٹے گا،جس طرح کہ سانپ اپنے بل میں واپس لوٹتا ہے۔(بخاری ومسلم)

شرح:

یعنی آخری دور میں ایمان سمٹ کر مدینہ منورہ میں آجائے گا اور مدینہ طیبہ کی علاوہ کسی جگہ پر بھی ایمان نہ ہو گا، بلکہ کفر ہی کفر ہوگا۔

8۔پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ عالی شان ہے:ما بین بیتی ومنبری روضۃ من ریاض الجنۃ۔یعنی میرے گھر اور منبر کی درمیانی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک ہے۔(بخاری، جلد اول، ص2، حدیث 1195)

شرح:

یعنی یہ جنت کا ٹکرا ہےجو مدینہ منورہ میں موجود ہےاور بروزِقیامت اسے جنت میں دوبارہ منتقل کیا جائے گا۔

9۔نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:ان اللّٰه سمی مدینۃ طابۃ۔یعنی اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔

شرح :

طابہ طیب سے مشتق ہے اور طیب بمعنی عمدہ وبہترین، اللہ پاک نے اس مقدس شہر کو پاک و عمده و بہترین قرار دیا۔

10۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینہ منورہ میں ایک رمضان دوسرے شہروں کے ہزار رمضانوں سے بہتر ہے۔

غمِ مدینہ ومحبتِ مدینہ کادرس:

وہ مدینہ جو میرے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا محبوب ہے، اس سے ہر مسلمان کو بھی ایسی محبت ہونی چاہئے کہ بس ہر وقت مدینہ مدینہ کا ورد کرے،غمِ مدینہ و محبتِ مدینہ کے لئے کتبِ مدینہ کا مطالعہ کرے، وہ مدینہ جس کے غم میں جانور وبے جان شے بھی روتے تھے کہ یہ دیارِ محبوب ہے،محبتِ مدینہ تو ایسی دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہو کر وہاں کی ہر چیز حتی کہ جانوروں سے بھی پیار کرو کہ یہ ہمارے علما کا بھی طریقہ ہے، غمِ مدینہ ایسا ہو کہ آنکھیں غمِ مدینہ میں ہر لمحہ تر رہیں، وہ مدینہ جو کونین کا تاج ہونا چاہئے، مؤمن کے دل کی معراج ہونا چاہئے۔

قطبِ مد ینہ ضیاء الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:ایک مرتبہ انتظامیہ نے حرمِ انورکو صاف رکھنے کے لئے وہاں موجود کبوتروں کو دانہ ڈالنے سے منع کر دیا، تاکہ کبوتر دانے کی تلاش کے لئے دوسری جگہ منتقل ہو جائیں گے، مگر جب حکم کی تعمیل ہوئی، کبوتروں کوکئی دن تک دانہ نہ ڈالا، مگر دیارِ محبوب سے محبت کا عالم یہ تھا کہ بھوک سے مر رہے تھے،مگر درِ محبوب نہ چھوڑا، اہلِ مدینہ نے جب محبت کا یہ عالم دیکھا تو حکومت سے بہت اصرار کر کے دوبارہ دانہ ڈالنا شروع کر دیا گیا۔ (انوارِقطبِ مدینہ ،ص54ملخصا ً)

امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ مدینہ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ زندگی میں بس ایک حج کیا اور مدینہ آگئے، پھر وہاں سے واپس نہ گئے کہ کہیں دیارِ محبوب کے علاوہ کہیں میری موت واقع نہ ہو جائے۔اللہ پاک اپنے ان پیاروں کے صدقے ہمیں غمِ مدینہ و محبت عطا فرمائے۔آمین


مدینہ پاک وہ مبارک شہر  ہےجس میں ہمارے آقا و مولا، تاجدارِ انبیا، آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دس سال تک قیام فرمایا،یہ وہ واحد شہر ہےجسے مدینۃ النبی کے نام سے موسوم کیا، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اسے اپنا حرم فرمایا، وہ شہرجس کے لئے عشاق کے دل تڑپتے، آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں، اس کے دیدار کی تمنا اور آرزو دن بدن بڑھتی رہتی ہے،یقیناً مدینہ پاک سے محبت حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے محبت ہے، کسی عاشقِ رسول نے کیا خوب کہا:

میری الفت مدینے سے یونہی نہیں میرے آقا کا روزہ مدینے میں ہے

میں مدینے کی جانب نہ کیسے کھچوں میرا دین اور دنیا مدینے میں ہے

یثرب سے مدینہ پاک بننے کی تحقیق:

یثرب مدینہ پاک کا پرانا نام ہے، یثرب آفات و بلیات والی جگہ تھی، مگر حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا مدینہ پاک میں تشریف لانا ایسا مبارک ٹھہرا، یہاں کی مٹی خاکِ شفا بن گئی اور اس جگہ کا نام مدینۃ النبی پڑگیا، پھر یہ نام مختصر ہو کر مدینہ مشہور ہو گیا۔

تاریخی حیثیت سے یہ بہت پرانا شہر ہے، اس شہر میں اعلانِ نبوت کے وقت دو قبیلے اوس اور خزرج اور کچھ یہودی آباد تھے، عرب کی فطرت کے مطابق ان میں بہت لڑائیاں ہوئیں، آخری جنگ بعاث میں ان کے بڑے بڑے سردار مارے گئے، مگر اسلام قبول کرنے کے بعد رسولِ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی مقدس تعلیم وتربیت کی بدولت اوس و خزرج کے تمام اختلافات ختم ہوگئے اور یہ دونوں قبیلے شیرو شکر ہو کر رہنے لگے،ان خوش بختوں کو انصار کے معزز لقب سے سرفراز فرما دیا گیا۔

مدینہ پاک کے دس فضائل:

خوبصورت نقطہ:

شرح خر پوتی میں ہے:علما فرماتے ہیں:سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی جسدِ مبارک سے مس ہونے والی مٹی بیت اللہ، مسجدِ اقصی، عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔

مدینہ پاک کی افضلیت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے آقا و مولیٰ،خاتم النبین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلموہاں تشریف فرما ہیں اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنی زبانِ حقِّ ترجمان سے مدینہ پاک کے فضائل ارشاد فرمائے، جن میں سے کچھ عرض کرنے کی سعی کرتی ہوں۔

ارشاداتِ مبارکہ:

1۔حضور خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے ہی میں مرے، کیونکہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(شعب الایمان، ج 3، حدیث 1482)

2۔حضور انور، آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:وہ( منافقین) اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ تو مدینہ ہے اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:بے شک اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا۔(صراط الجنان، جلد 7، صفحہ 575)

تنبیہ:

اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مدینہ کو یثرب کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے۔ملا علی قاری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:مدینہ کا نام یثرب رکھنا حرام ہے۔(صراط الجنان، جلد 7، صفحہ 756 تا 757)

3۔حضور آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ، مگر اُس پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ (مسلم، ح1374)

4۔آقائے کریم، خاتم النبین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔

5۔شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ باقرینہ دل کو راحت پہنچانے والا کیا خوب ہے، فرماتے ہیں:میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا، مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع(یعنی شفاعت کرنے والا)ہوں گا۔ ( عاشقان رسول کی 130 حکایات، صفحہ 254)

6۔حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اللہ پاک نے جو کچھ مدینہ کے دونوں پتھروں کے درمیان ہے، میری زبان پر حرم بنادیا ہے۔(رواہ بخاری)

7۔حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:ایک نماز میری اس مسجد میں زیادہ بہتر ہے، دوسری مسجدوں میں میں ادا کی ہوئی ہزار نمازوں سے، سوا مسجد حرام کے۔(رواۃ بخاری و مسلم)

8۔نبیِّ مکرم،حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:نبی انتقال(وصال)نہیں فرماتا، مگر اس جگہ پر جو اُسے سب جگہوں سے زیادہ محبوب ہو۔

وضاحت:

اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا!مدینہ پاک دنیا بھر کے تمام شہروں سے زیادہ آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکوپیارا اور پسندیدہ تھا اور یہ اللہ پاک کے محبوب ہیں تو جو انہیں محبوب، وہ ربّ پاک کو محبوب۔(فضائل مدینہ طیبہ، صفحہ 17)

9۔حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:سب سے پہلے اپنی امت میں اہلِ مدینہ کی شفاعت کروں گا، پھر مکہ والوں کی اور پھر طائف والوں کی۔(رواہ طبرانی فی الکبیر)

10۔حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:خاکِ مدینہ شفا ہے جذام کے لئے۔(رواہ ابو نعیم فی العب)

ایک خصوصیت:

مدینہ پاک کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس کے سو سے زائد نام ہیں، دنیا میں کوئی شہر ایسا نہیں کہ اس کے اتنے نام ہوں۔( عاشقان رسول کی 130 حکا یات ، صفحہ 260)

تو کیوں نہ ایسے شہر سے محبت رکھیں جس سے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے محبت فرمائی، ہر کسی کے دل میں خواہش ہوگی مدینہ پاک کی زیارت کی، تو کیوں نہ زندگی یادِ مدینہ میں رو رو کر گزاریں اور التجا کرتی رہیں۔اللہ پاک ہم سب کو غم ِمدینہ اور یادِ مدینہ میں رونےاور تڑپنے کی توفیق نصیب فرمائے۔آمین ۔ آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنگاہِ کرم!!!!۔اے کاش!ہم بھی اس شعر کی مصداق بن جائیں!

آئی پھر یاد مدینے کی رلانے کے لئے دل تڑپ اٹھا ہے دربار میں جانے کے لئے


الحمدللہ ذکر ِمدینہ عاشقانِ رسول کے لئے باعثِ راحتِ قلب و سینہ ہے اور عشاقِ مدینہ اس کی فرقت میں تڑپتے اور زیارت کے بے حد مشتاق رہتے ہیں، دنیا کی جتنی زبانوں میں جس قدر قصیدے مدینہ منورہ کے ہجر وفراق اور اس کے دیدار کی تمنا میں پڑھے گئے، پڑھے جاتے ہیں، اتنے دنیا کے کسی اور شہر یا خطے کے لئے نہیں پڑھے گئے اور نہیں پڑھے جاتے۔جسے ایک بار  بھی مدینہ کا دیدار ہو جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو بخت بیدار سمجھتا اور مدینے میں گزرے ہوئے حسین لمحات کو ہمیشہ کے لئے یادگار قرار دیتا ہے۔ کسی عاشقِ رسول نے کیا خوب کہا ہے:

وہی ساعتیں تھیں سرور کی، وہی دن تھے حاصلِ زندگی بحضور شافعِ امتاں، میری جن دنوں طلبی ر ہی

قرآنِ پاک میں ذکرِ مدینہ:

قرآن ِکریم میں متعدد مقامات پر ذکرِ مدینہ کیا گیا ہے، مثلاً پارہ 28 سورۃ المنافقون آیت نمبر 8 میں ہے: یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآاِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَِیُخْرِجَنَّ اْلاَعَزُّ مِنْھَا اْلاَذَلَّ وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ترجمۂ کنزالایمان: کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزّت والا ہے وہ اس میں سے نکال دے گا اسے جو نہایت ذلّت والا ہے اور عزّت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں۔(پارہ 28، سورہ منافقون: 8)

فضائلِ مدینہ:

1۔مدینہ لوگوں کو پاک و صاف کرے گا:

رسولِ نذیر، سراج منیر، محبوب ربِّ قدیر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان دلپذیر ہے:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کاحکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(سب پر غالب آئے گی) لوگ اسے یثرب کہتے اور وہ مدینہ ہے، (یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک وصاف کرے گی،جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔(عاشقان رسول کی 130 حکایات، ص252)

مدینہ کو یثرب کہنا گناہ ہے:

اس روایت میں مدینہ منورہ کو یثرب کہنے کی ممانعت کی گئی ہے،فتاویٰ رضویہ جلد 21 صفحہ 116 پر ہے: مدینہ طیبہ کو یثرب کہنانا جائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے والا گنہگار ۔رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر تو یہ واجب ہے، مدینہ طابہ ہے، مدینہ طابہ ہے۔

علامہ مناوی تفسیر شرح ِجامع ِصغیر میں فرماتے ہیں:اس حدیث سے معلوم ہوا! مدینہ طیبہ کا یثرب نام رکھنا حرام ہے کہ یہ یثرب کہنے سے توبہ کا حکم فرمایا اور توبہ گناہ سے ہی ہوتی ہے۔(عاشقان رسول کی 130 حکایات، صفحہ 253)

فتاویٰ رضویہ جلد 26 صفحہ 119 پر ہے:حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ میں فرماتے ہيں:آنحضرت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے وہاں لوگوں کے رہنے سہنے اور جمع ہونے اور اسی شہر سے محبت کی وجہ سے اس کا نام مدینہ رکھا اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اسے یثرب کہنے سے منع فرمایا، اس لئے کہ یہ زمانہ جاہلیت کا نام ہے یا اس لئے کہ یہ ثرب سے بنا ہے، جس کے معنی ہلاکت اور فسادہے اور تثریب بمعنی سرزنش اور ملامت یا اس وجہ سے کہ یثرب کسی بت یہ کسی جابر و سرکش بندے کا نام ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں ایک حدیث لائے ہیں کہ جو کوئی ایک مرتبہ یثرب کہہ دے تو اسے کفارے میں دس مرتبہ مدینہ کہنا چاہئے۔قرآن مجید میں جو یٰاَہْلَ یَثْرِبَ(یعنی اے یثرب والو) آیا ہے، وہ دراصل منافقین کا قول ہے کہ یثرب کہہ کر وہ مدینہ منورہ کی توہین کا ارادہ رکھتے تھے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ یثرب کہنے والا اللہ پاک سے استغفار(توبہ) کرے اور معافی مانگے اور بعض نے فرمایا: جو مدینہ منورہ کویثرب کہے،اسے سزا دینی چاہئے، حیرت کی بات ہے کہ بعض بڑے لوگوں کی زبان سے اشعار میں لفظی ثرب صادر ہوا ہے اور اللہ پاک خوب جانتا ہے اور عظمت و شان والے کا علم بالکل پختہ اور ہر طرح سے مکمل ہے۔( عاشقان رسول کی 130 حکا یات ، صفحہ 254)

زندگی کیا ہے مدینہ کے کسی کوچے میں موت موت پاک و ہند کے ظلمت کدے کی زندگی

2۔مدینہ منورہ میں مرنے کی فضیلت:

دوجہاں کے تاجور، سلطانِ بحر و بر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ روح پرور ہے:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے ہی میں مرے، کیونکہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(شعب الایمان، ج 3، ص 497، حدیث 1482)

3۔دجال مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہو سکتا:

سرکارِ والا تبار،ہم بے کسوں کے مددگار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا ارشادِ خوشگوار ہے:مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں،اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری شريف،ج1،ص619، حدیث 1880، عاشقان رسول کی 130 حکا یات، صفحہ 250)

4۔مدینہ منورہ ہر آفت سے محفوظ:

نبیِّ مکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ معظم ہے:اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے،مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ،مگر اُس پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔

(مسلم شریف ، ص 714، حدیث 1374)

5۔مدینہ منورہ بہتر ہے:

نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ روح پرور ہے:اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا کہ لوگ خوشحالی کی تلاش میں یہاں سے چراگاہوں کی طرف نکل جائیں گے،پھر جب وہ خوشحالی پا لیں گے تو لوٹ کر آئیں گے اور اہلِ مدینہ کو اس کشادگی کی طرف جانے پر آمادہ کریں گے، حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ ان کیلئے بہتر ہے۔( مسند امام احمد بن حنبل، ج 5، ص 106، حدیث 14686، عاشقان رسول کی 130 حکا یات، صفحہ 250)

6۔خاکِ شفا:

مدینہ منورہ میں آپ کا قلب مبارک سکون پاتا،یہاں کاگردوغبار اپنے چہرۂ انور سے صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی اس سے منع فرماتے اور ارشاد فرماتے:خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب القلوب ،صفحہ22)

7۔ہر بیماری سے شفا:

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،جب رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمغزوۂ تبوک سے واپس تشریف لارہے تھے تو تبوک میں شامل ہونے سے رہ جانے والے کچھ صحابہ کرام علیہم الرضوان ملے، انہوں نے گرد اڑائی ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ان کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم!جس کےقبضہ قدرت میں میری جان ہے!مدینے کی خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔

(جامع الاصول للجزری، ج9، ص297، حدیث6962، عاشقان رسول کی 130 حکا یات،صفحہ 260،261)


مدینہ منورہ کے دس فضائل حدیث کی روشنی میں ملاحظہ ہوں:

1۔ نبیِّ پاک علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:مدینے کے راستوں پر فرشتے پہرے دار ہیں،لہٰذا اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری،کتاب فضائل المدینہ، باب لا یدخل دجال 619، حدیث نمبر 1880)

2۔ارشاد فرمایا:بے شک آسمان سمٹ کر مدینہ کی طرف لوٹ آیا ہے،جیسے سانپ اپنی بل میں لوٹتا ہے۔

(بخاری شریف، کتاب فضائل المدینہ، باب الایمان252، حدیث1094)

3۔ارشاد فرمایا:اے اللہ پاک!جتنی برکتیں مکہ میں نازل کی ہیں،اس کی دوگنی برکتیں مدینہ میں نازل فرما۔

(صحیح مسلم، باب فضائل المدینہ ودعا النبی، جلد1، حدیث 3322)

4۔نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا:یہ حرم ہے اور امن کی جگہ ہے۔(مسلم، جلد1، باب فضائل المدینہ ودعا۔الخ،حدیث3237)

5۔فرمایا:جو مدینہ کی سختیوں پرصبر کرے ، میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(مسلم، جلد1، باب الترغیب فی سکنی، حدیث3245)

6۔ارشاد فرمایا:اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔(مسلم شریف، جلد1، باب المدینہ، حدیث3253)

7۔فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھاجائے گی(یعنی سب پر غالب ہوگی) لوگ اسے یثرب کہیں گے، حالانکہ وہ مدینہ ہے، یہ بستی لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جس طرح بھٹی لوہے کے میل کو صاف کر دیتی ہے۔(مشکاۃ المصابیح، کتاب المناسک، باب حرم المدینہ، حدیث3737)

وضاحت: کھا جانے کے معنی یہ ہیں کہ یہاں کے لوگ تمام ملکوں کو فتح کریں گے اور ان کے مال اور خزانے مدینے میں پہنچ جائیں گے۔ (مرآۃالمناجیح، 4/215)

8۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،جب رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی خدمت میں پہلا پھل پیش کیا جاتا تو آ پ فرماتے:الٰہی !ہمارے مدینہ، ہمارےپھلوں اور ہمارے مد اور صاع میں برکت فرما، پھر وہ پھل موجود بچوں میں سے چھوٹے بچے کو دے دیتے۔(مسلم شریف، باب فضائل المدینہ، ج1،حدیث 3231)

9۔ ارشاد فرمایا:تم میں سے جس سے ہو سکے وہ مدینہ میں مرے تو مدینے ہی میں مرے، کیونکہ میں مدینے میں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا۔(کتاب المناقب، باب فضائل المدینہ، ج5، ص 483، حدیث3943)

10۔ نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب سفر سے آتے اور مدینے کی دیواروں کو دیکھتے تو مدینے سے محبت کی وجہ سے اپنی سواری کو تیز فرما دیتے اور اگر گھوڑے پر ہوتے تو اسے ایڑ لگاتے۔( بخاری شریف، باب فضائل المدینہ، ص625، حدیث 1886)

مدینے شریف کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پیارے پیارے آ قا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینے سے بہت محبت کیا کرتے ہیں۔یاد رکھئے!محبت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جس سے محبت کی جائے، اس سے نسبت رکھنے والی چیزوں اور بالخصوص جس سے محبوب کو محبت ہو، اس سے انتہائی عقیدت و محبت رکھی جائے، لہٰذا محبتِ رسول کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی میٹھے مدینے کی محبت کو دل میں بسائے رکھیں، اس کی یاد میں تڑپتی رہیں، اس کے غم میں آنسو بہائیں اور مدینے کی حاضری کے لئے اللہ پاک سے دعائیں کرتی رہیں۔

رہیں ان کے جلوے بسیں ان کے جلوے مرا دل بنے یادگارِ مدینہ(ذوقِ نعت، ص131)

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


الحمدللہ ذکرِ مدینہ عاشقانِ رسول کے لئے باعثِ راحتِ قلب و سینہ ہے، عشاقِ مدینہ اس کی فرقت میں تڑپتے اور زیارت کے بے حد مشتاق رہتے ہیں، دنیا کی جتنی زبانوں میں جس قدر قصیدے مدینہ منورہ کے ہجر فراق اور اس کے دیدار کی تمنا میں پڑھے گئے یا پڑھے جاتے ہیں، اتنے دنیا کی کسی اور شہر یا خطے کے لئے نہیں پڑھے گئے اور نہیں پڑھے جاتے۔جسے ایک بار مدینہ کا دیدار ہو جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو بخت بیدار سمجھتا اور مدینہ میں گزرے ہوئے لمحات کو ہمیشہ کے لئے یادگار قرار دیتا ہے۔ کسی عاشق نے کیا خوب کہا ہے:

وہی ساعتیں تھیں سرور کی، وہی دن تھے حاصلِ زندگی بحضور شافعِ امتاں، میری جن دنوں طلبی ر ہی

قرآنِ پاک میں متعدد مقامات پر ذکرِ مدینہ کیا گیا ہے:

آیت مبارکہ:ترجمۂ کنزالایمان: کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزّت والا ہے وہ اس میں سے نکال دے گا اسے جو نہایت ذلّت والا ہے اور عزّت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں۔(پارہ 28، سورہ منافقون: 8)

مدینہ منورہ کا پرانا نام یثرب ہے،جب حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس شہر میں سکونت فرمائی تو اس کا نام مدینۃ النبی(نبی کا شہر) پڑ گیا، پھر یہ نام مختصر ہو کر مدینہ مشہورہوگیا۔(سیرت مصطفٰے، صفحہ 149)

فضائلِ مدینہ:

1۔نبیِّ مکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ معظم ہے:اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینہ منورہ کی ہر گھاٹی اور ہر راستے پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔(مسلم شریف، صفحہ 714، حدیث 1374)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس روایت میں مدینہ منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے زمانے میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی،کثرت سے فرشتے حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی عزت افزائی کیلئے گھیرا ہوا ہے۔(شرح صحیح مسلم للنووی، ج5،ص148)

2۔سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا ارشادِ خوشگوار ہے:مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری شريف،ج1،ص619، حدیث 1880)

3۔آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ دلپذیر ہے:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف(ہجرت) کاحکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی (سب پر غالب آئے گی) لوگ اسے یثرب کہتے اور وہ مدینہ ہے،(یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک وصاف کرے گی، جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔(صحیح بخاری، ج 1،ص 617، حدیث 1871)

اس حدیثِ مبارکہ میں مدینہ کو یثرب کہنے کی ممانعت کی گئی۔فتاویٰ رضویہ،جلد21،صفحہ 116 پر ہے: مدینہ کو یثرب کہنا ناجائز و ممنوع ہے اور گناہ ہے اور کہنے والا گنہ گار۔

4۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ باقرینہ ہے:میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا، مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع(یعنی شفاعت کرنے والا)ہوں گا۔ (مسلم شریف ، ص 716، حدیث 1378)

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:شفاعت خصوصی حق یہ ہے کہ یہ وعدہ ساری امت کے لئے ہے کہ مدینے میں مرنے والے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی شفاعت کے مستحق ہیں۔

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے

5۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سردار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا کہ لوگ خوشحالی کی تلاش میں یہاں سے چراگاہوں کی طرف نکل جائیں گے، پھر جب وہ خوشحالی پا لیں گے تو لوٹ کر آئیں گے اور اہلِ مدینہ کو اس کشادگی کی طرف جانے پر آمادہ کریں گے، حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ ان کیلئے بہتر ہے۔( مسند امام احمد بن حنبل، ج 5، ص 106، حدیث 14686)

6۔مدینہ منورہ میں آپ کا قلب مبارک سکون پاتا، یہاں کاگردوغبار اپنے چہرہ مبارک سے صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو بھی اس سے منع فرماتے اور ارشاد فرماتے:خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب القلوب، صفحہ 22)

7۔مسجدِ نبوی شریف میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ، ج2،ص176، حدیث1413)

8۔رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو ارادۃً میری زیارت کو آیا، وہ قیامت کے دن میری محافظت میں رہے گا اور جو مدینے میں سکونت کرے گا اور مدینے کی تکالیف پر صبر کرے گا تو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا اور جو حرمین (یعنی مکے مدینے) میں سے کسی ایک میں مرے گا، اللہ پاک اس کو اس حال میں قبر سے اٹھائے گا کہ وہ قیامت کے خوف سے امن میں رہے گا۔(بہشت کی کنجیاں، صفحہ 116)

9۔مدینہ منورہ کی سرزمین پر مزارِ مصطفٰے ہے، جہاں صبح وشام ستر ہزار فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔

10۔جب کوئی مسلمان زیارت کی نیت سے مدینہ منورہ آتا ہے تو فرشتے رحمت کے تحفوں سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔(جذب القلوب، ص91)

ہر عاشقِ رسول پر لازم وملزوم ہے کہ وہ ہر اس چیز کی تعظیم و ادب بجا لائے، جس کو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے نسبت حاصل ہے ،مدینہ پاک وہ مقدس شہر ہے، جس میں آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے سکونت فرمائی، وہیں آپ کا مزارِ پر انوار ہے،عشاق کے دل تڑپتے ہیں کہ وہ مدینہ جائیں، سنہری جالیاں، روضۂ رسول دیکھیں، خاکِ مدینہ کو چومیں۔ آہ! مدینہ

کہاں کوئی روتا ہے جنّت کی خاطر رلاتی ہے عاشق کو یادِ مدینہ


مدینہ منورہ نام بھی مبارک، اس کی جانب سفر کرنا بھی مبارک، وہاں مرنا اور دفن ہونا بھی مبارک، نہ صرف مبارک، بلکہ دونوں جہانوں سے بہتر و برتر ہے، حقیقی جنت تو مدینۃ المنورہ ہے۔حضرت امام یحیی بن معین رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:سفرۃ الی المدینۃ احب الی من مأتیی طواف۔مدینہ منورہ کی طرف سفر کرنا مجھے دو سو طواف کرنے سے زیادہ پسند ہے۔(معرفۃ الرجال، جلد دوم، صفحہ نمبر29)

مر کے جیتے ہیں جو ان کے در پہ جاتے ہیں حسن جی کے مرتے ہیں جو آتے ہیں مدینہ چھوڑ کر

(مولانا حسن رضا بریلوی رحمۃ اللہ علیہ)

جب اللہ پاک کے حکم سے نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچے تو اس مقام کو کیا کیا عظمتیں حاصل ہوئیں، ان میں سے دس عظمتیں ملاحظہ ہوں۔

1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مجھے اس بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا ہے، جو تمام بستیوں کو کھا جاتی ہے،لوگ اسے یثرب کہتے ہیں، حالانکہ وہ مدینہ ہے اور وہ برے لوگوں کو اس طرح دور کرتا ہے، جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کرتی ہے۔(بخاری کتاب فضائل مدینہ، باب فضل المدینہ وانھا تنفی الناس1/617، حدیث1871)

2۔حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:بے شک اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔(مسلم، کتاب الحج المدینہ تنفی شرارہا، صفحہ 717، حدیظ491(1385))

3۔حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:سیدالمرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنےاپنےدستِ اقدس سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:بے شک یہ حرم ہے اور امن کا گہوارہ ہے۔(معجم الکبیر، باب السین، یسر بن عمرو عن سہل بن حنیف6/92، ح5611)

4۔ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:یقیناً حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم کردیا اور مدینہ کے دونوں پتھروں کے درمیان کو حرم بناتا ہوں۔( رواہ مسلم، و المعجم الکبیر للطبرانی4/305، رقم4325 ومسند امام احمد4/141)

5۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:جو کوئی مدینہ والوں کو تکلیف دے، اللہ پاک اسے ایذا دے گا یا جو اس حرمِ نبوی کے آداب کے خلاف کرے گا، اس پر اللہ پاک کی اور تمام فرشتوں اور سب انسانوں کی لعنت ہے، قیامت کے روز اللہ پاک نہ اس کا فرض قبول کرے گا اور نہ نفل۔(البخاری1/251، مسلم1۔442، والمعجم الکبیر1/248)

6۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:تمام آبادیوں کا افتتاح تلوار سے ہوا اور مدینہ کے افتتاح قرآن کریم سے ہوا۔(رواہ البہیقی فی الشعب عن سیدتنا المؤمنین عائشہ صدیقہ، جامع الصغیر اول، ص78، رقم1222،الدالی مصنوعہ ج2،ص128)

7۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:مدینہ میں دجّال اکبر کا رعب بھی داخل نہ ہو گا، اس دن مدینہ کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے مقرر ہوں گے۔(رواہ البخاری1/251،عن ابی بکرۃ)

8۔حضور نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرما تے ہیں:نبی انتقال نہیں فرماتا، مگر اس جگہ جو اسے سب جگہوں سے زیادہ محبوب ہو۔(رواہ ابو یعلی1/46، رقم، ح45، عن ابی بکرن الصدیق ومسند بزار71، رقم18)

اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوا! حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو مدینہ منورہ دنیا بھر کے تمام شہروں سے زیادہ پیارا اور پسندیدہ ہے اور حضور نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماللہ پاک کےمحبوب ہیں تو جو انہیں محبوب ہے، وہ اللہ پاک کو بھی محبوب ہے۔

9۔حضور نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:جو کوئی مدینہ کی تکلیف و مشقت پر صبر کرے گا تو میں قیامت کے روز اس کاشفیع اور گواہ ہوں گا۔(رواہ مسلم1/443، عن ابی سعید الخدری رضی اللہ عنہ)

10۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے،حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا: جس کو مدینہ منورہ میں موت آ سکے تو اسے یہاں ہی مرنا چاہئے کیونکہ میں یہاں مرنے والوں کی خاص طور پر شفاعت کروں گا۔(ترمزی کتاب المناقب، باب فی فضل المدینہ5/483، ح3943)اعلیٰٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے

اللہ پاک ہمیں مدینہ پاک کی با ادب حاضری نصیب فرمائے۔آمین