مدینہ منورہ
کے فضائل و برکات بے شمارہیں۔اللہ پاک اور
اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے
نزدیک بھی بہت برکتوں والا اور عمدہ شہر ہے، یہ شہر نیکیوں اور بھلائیوں کا مرکز
ہے، تمام بستیوں کا سردار، نیکیوں کا مرکز، لازوال بھلائیوں کی جگہ، شہرِامن، نیک
لوگوں کا شہر، ایمان و یقین سے آباد، اعمالِ حسنہ کی یادوں کا خزانہ، قلبی مسرتیں بخشنے
والا، سلامتی والا، گناہوں سے پاک کرنے والا، روحانی و جسمانی بیماریوں سے شفا دینے
والا، خالص اوصافِ انسانیت بخشنے والا، بدارادوں کی کمر توڑ دینے والا،ایمان کا
دل،ربّ کریم کی رحمتوں کا گہوارہ، رزق سے فیضیاب، امن وسلامتی والا، قلبی سکون
والا، پاکیزہ خوشبوؤں سے معطر،مستقر رسول، وفاؤں کا منبع، غرضیکہ نجات والا شہر
مقدس ہے۔
ارے اس کی فضیلت
و اہمیت کے لئے تواتنا کافی ہے کہ آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا دارالہجرت، مسکن و مدفن ہے، وہ پاک سرزمین جس نے
دنیا کے کونے کونے تک اسلام پھیلایا، جہاں ہر نیکی کا کئی گنا بڑھ جائے، جس کے
ثمرات دنیا کے تمام ثمرات سے افضل،استراحت گاہِ رسول ،روئے زمین کی سب سے بابرکت،
عاشقوں کے دل کی ٹھنڈ ک، دنیاکی سب سے عظم ترین زیارت گاہ روضہ رسول رکھنے والا مقدس مقام، جس کاذکرعاشقوں کے دل کی
ٹھنڈک، جہاں کی مٹی خاکِ شفا، جہاں کی کھجوریں سراپا شفا، تاریخِ اسلام کی پہلی
مسجد قبا رکھنے والی عظیم جگہ۔دنیا کی ہر زبان میں جتنے قصیدےاس مقدس شہر کی فضیلت
و اہمیت میں لکھے گئے، اتنے کسی اور کے لئے نہیں لکھے گئے، اس کی تو جتنی فضیلتیں
بیان کریں، بیان ہوتی چلی جائیں، کیونکہ یہ محبوب دو عالم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا پسند یدہ شہر ہے۔
یثرب
سے مدینہ:
مدینہ منورہ
کے سو سے زائد نام ہیں، ہجرت سے پہلے لوگ
اسے یثرب کہتے تھے،اس لئے کہ یہاں قومِ عمالقہ کا جو پہلا آدمی آیا تھا، اس کا نام یثرب بن قافیہ
تھا اور کافرکے نام پر اس مقدس شہر کا نام رکھنا اس کی شان کے لائق نہ تھا، اس لئے
اسے تبدیل کر دیا گیا۔ یا یثرب اس لئے بولا کہ علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ
اللہ علیہ
اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں:یہ ثَرْبٌ سے بناہے، جس کے معنی ہلاکت و فساد ہے
اور تثریبٌ
بمعنی
سرزنش اور ملامت ہے، آقائے دو جہاں صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمنے
وہاں مختلف لوگوں کے رہنے سہنے اور جمع ہونے اور اس شہر سے محبت کی وجہ سے اس کا
نام مدینہ رکھا یا یثرب کا معنی بلا و مصیبت ہے، چونکہ پہلے یہ جگہ بہت بیماریوں
والی تھی، جب آقائے دو جہاں صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمتشریف
لائے تو یہ دارالوباء سے دارالشفا بن گئی تو آقائے کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس کا نام مدینہ رکھا، یعنی اجماع کی جگہ، اب
اسے یثرب کہنا منع ہے اور کہنا گناہ ہے۔
بخاری شریف کی
حدیث میں ہے:جو کوئی ایک مرتبہ یثرب کہہ دے تو کفارہ میں دس دفعہ مدینہ کہے، قرآنِ
پاک میں جو یَااَھْلَ
یَثْرَبْ
ہے،وہ دراصل منافقوں کا قول آیا ہے۔یثرب کہنے والا استغفار کرے۔ بعض کے نزدیک جو
مدینہ کو یثرب کہےاسے سزا دی جائے، لہٰذا نہ کہا جائے کہ منافقین مدینہ کو یثرب
کہہ کر تو ہین کاارادہ رکھتے تھے۔
فضائلِ
مدینہ پر 10احادیث:
1۔ بخاری شریف
کی ایک حدیث میں ہے،سرکار صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمنے
ارشاد فرمایا:علی
القاب المدينۃ ملائکۃ لايدخلها الطاعون ولا الدجال مدینے کے
داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں،اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری،
جلد 1، ص 619، حدیث1880)
2۔نبیِّ پاک صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمنے
ارشادفرمایا: اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، مدینے میں نہ کوئی
گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ،مگر اُس پر دو فرشتے ہیں،جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔(مسلم
للنووی،ص714، ح1374)
شرح:
امام نووی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:آقاصلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے زمانے میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی، کثرت سے
فرشتے حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کوآقائے دو جہاںصلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی عزت افزائی کیلئے گھیرا ہوا ہے۔
ملائک
لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنی شب
و روز خاکِ مزار مدینہ
3۔حضور دو
عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
ارشاد فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کاحکم ہوا،
جو تمام بستیوں کو کھا جائےگی(سب پر غالب آئے گی) لوگ
اسے یثرب کہتے اور وہ مدینہ ہے(یہ بستی) لوگوں کو اس
طرح پاک وصاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔(صحیح بخاری،
ج 1،ص 617، حدیث 1871)
شرح :
یعنی اس شہر کو اللہ پاک نے تمام شہروں کے
مقابلہ میں حلال و جمال کے اعتبار سے بلند
فرمایا ہے اور یہ شہر بستیوں کا سردار ہے، اسے یثرب نہیں کہہ سکتے کہ کہنے والا
گنہگار ہوگا، کیونکہ یثرب بمعنی و باو بیماری ہے اور یہ برکتوں والا بلند مرتبہ
اور پاک وصاف شہر ہے، مدینہ منورہ میں جہاد فی سبیل اللہ کے اموال لائے گئے، اس
لئے بھی اسے غالب آنے والا کہا جاتا ہے۔
4۔حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:اللهم اجعل بالمدينۃ ضعفی
ماجعلت بمکۃ من البركۃ۔ اے الله پاک!جتنی تونے مکہ میں برکت عطا فرمائی ہے، مدینہ
میں اس سے دوگنا برکت عطا فرما۔( صحیح بخاری، جلد1، صفحہ 620، حدیث
1885)
شرح :
حدیثِ مبارکہ
سے معلوم ہوا !یہ شہر رسول الله صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمکے
لئے حبیب کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس کے لئے برکت کی دعا فرمائی، اسی دعا کی برکت سے
آج مد ینہ طیبہ ہر عاشق کی آنکھوں کا نور اور دلی ٹھنڈک ہے، دعا کی برکت سے اس شہر
نے اس قدر فضیلت پائی کہ مدینے میں رہنا عافیت اور مرنا شفاعتِ مصطفٰےکی ضمانت
قرارپایا۔
5۔حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی
استطاعت رکھے، وہ مدینے ہی میں مرے،کیونکہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت
کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(شعب الایمان، ج 3، ص 497، حدیث
1482)
6۔حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور
سختی پر صبر نہ کرے گا، مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع(یعنی شفاعت
کرنے والا)ہوں
گا۔
(مسلم شریف ، ص 716، حدیث 1378)
شرح :
یعنی جو سفرِ مدینہ میں یاقیامِ مدینہ میں صبر
کے ساتھ تکالیف برداشت کرے ، آقا کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماس کو اپنی خصوصی شفاعت سے نوازیں گے۔
طیبہ
میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی
سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے
7۔حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:إِنَّ
الْإِيمَانَ لَيَأْرِزُ إِلَى الْمَدِينَۃ، كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّۃ إِلَى
جُحْرِهَا ۔ایمان
مدینہ کی طرف اس طرح واپس لوٹے گا،جس طرح کہ سانپ اپنے بل میں واپس لوٹتا ہے۔(بخاری
ومسلم)
شرح:
یعنی آخری دور
میں ایمان سمٹ کر مدینہ منورہ میں آجائے گا اور مدینہ طیبہ کی علاوہ کسی جگہ پر بھی
ایمان نہ ہو گا، بلکہ کفر ہی کفر ہوگا۔
8۔پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ عالی شان ہے:ما بین بیتی ومنبری روضۃ
من ریاض الجنۃ۔یعنی
میرے گھر اور منبر کی درمیانی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک ہے۔(بخاری،
جلد اول، ص2، حدیث 1195)
شرح:
یعنی یہ
جنت کا ٹکرا ہےجو مدینہ منورہ میں موجود ہےاور بروزِقیامت اسے جنت میں دوبارہ
منتقل کیا جائے گا۔
9۔نبیِّ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:ان اللّٰه سمی مدینۃ طابۃ۔یعنی
اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔
شرح :
طابہ طیب سے
مشتق ہے اور طیب بمعنی عمدہ وبہترین، اللہ پاک نے اس مقدس شہر کو پاک و عمده و
بہترین قرار دیا۔
10۔حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینہ منورہ میں ایک رمضان دوسرے شہروں
کے ہزار رمضانوں سے بہتر ہے۔
غمِ
مدینہ ومحبتِ مدینہ کادرس:
وہ مدینہ جو میرے
محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا
محبوب ہے، اس سے ہر مسلمان کو بھی ایسی محبت ہونی چاہئے کہ بس ہر وقت مدینہ مدینہ
کا ورد کرے،غمِ مدینہ و محبتِ مدینہ کے لئے کتبِ مدینہ کا مطالعہ کرے، وہ مدینہ جس
کے غم میں جانور وبے جان شے بھی روتے تھے کہ یہ دیارِ محبوب ہے،محبتِ مدینہ تو ایسی
دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہو کر وہاں کی ہر چیز حتی کہ جانوروں سے بھی پیار کرو کہ یہ
ہمارے علما کا بھی طریقہ ہے، غمِ مدینہ ایسا ہو کہ آنکھیں غمِ مدینہ میں ہر لمحہ
تر رہیں، وہ مدینہ جو کونین کا تاج ہونا
چاہئے، مؤمن کے دل کی معراج ہونا چاہئے۔
قطبِ مد ینہ ضیاء
الدین مدنی رحمۃ اللہ علیہفرماتے
ہیں:ایک مرتبہ انتظامیہ نے حرمِ انورکو صاف رکھنے کے لئے وہاں موجود کبوتروں کو
دانہ ڈالنے سے منع کر دیا، تاکہ کبوتر دانے کی تلاش کے لئے دوسری جگہ منتقل ہو جائیں
گے، مگر جب حکم کی تعمیل ہوئی، کبوتروں کوکئی دن تک دانہ نہ ڈالا، مگر دیارِ محبوب
سے محبت کا عالم یہ تھا کہ بھوک سے مر رہے تھے،مگر درِ محبوب نہ چھوڑا، اہلِ مدینہ
نے جب محبت کا یہ عالم دیکھا تو حکومت سے بہت اصرار کر کے دوبارہ دانہ ڈالنا شروع
کر دیا گیا۔ (انوارِقطبِ مدینہ ،ص54ملخصا ً)
امام مالک رحمۃُ
اللہِ علیہ مدینہ
سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ زندگی میں بس ایک حج کیا اور مدینہ آگئے، پھر وہاں سے
واپس نہ گئے کہ کہیں دیارِ محبوب کے علاوہ
کہیں میری موت واقع نہ ہو جائے۔اللہ پاک اپنے ان پیاروں کے صدقے ہمیں غمِ مدینہ و
محبت عطا فرمائے۔آمین