اللہ پاک نے
اس کائنات رنگ و بُو میں بعض انسانوں کو دوسروں سے
افضل و برتر بنایا ہے،ایسے ہی انبیاعلیہم السلام کو دوسرے
تمام انسانوں پر فضیلت بخشی اور پھر انسانوں میں سے علما، صلحا، اتقیا، عابدین اور
زاہدین کو بقیہ تمام لوگوں پر فضیلت بخشی۔لیکن فضیلت و برتری ایک ایسی چیز ہے جس
کا دائرہ صرف انسانوں تک محدود نہیں،بلکہ نوعِ انسان سے متجاوز ہوکر حیوانات،نباتات،مقاماتِ
امکنہ تک پہنچتا ہے،ایسے ہی اللہ پاک نے مقامات و امکنہ میں سے بعض مخصوص و مقدس
مقامات کو دوسرے بعض پر فوقیت بخشی ہے، ان مقدس مقامات میں سے ایک دار ہجرتِ نبی بھی
ہے۔یہ مبارک زمین بہت سے فضائل و مناقب کی حامل ہے، حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینہ سے اتنی محبت تھی کہ مدینہ کو قابلِ
احترام قرار دے دیا۔
حضرت سعد سے روایت
ہے،انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا
ارشاد ہے:میں حرم قرار دیتا ہوں اس علاقے کوجو مدینہ کی دو پہاڑوں کے درمیان ہے،
کہ اس کے خار دار درختوں کو کاٹا جائے یا اس کے شکار کو قتل کیا جائے۔(مصنف
ابن ابی شیبہ، باب مساحۃ حرم المدینہ7/295)
مدینہ میں
مرنے والوں کے لئے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
بشارت دی ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے ہی میں مرے، کیونکہ
جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(شعب
الایمان، ج 3، ص 497، حدیث 1482)
طیبہ
میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی
سڑک یہ شہر ِشفاعت نگر کی ہے
حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینے میں داخل ہونے کے تمام
راستوں پر فرشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری شريف،ج1،ص619،
حدیث 1880)
نبیِّ مکرم، نورِ
مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا
فرمانِ معظم ہے:اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی
ہے نہ کوئی راستہ، مگر اُس پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔
(مسلم
شریف ، ص 714، حدیث 1378)
اللہ پاک نے
اس کا نام طابہ رکھا۔روئے زمین کا کوئی ایسا شہر نہیں جس کے اسمائے گرامی یعنی
مبارک نام اتنی کثرت کو پہنچے ہوں، جتنے مدینہ منورہ کے نام ہیں۔ بعض علمانے 100
تحریر کئے ہیں۔
حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب سفر سے واپس آتے تو مدینہ کے قریب پہنچ کر زیادتی
ِشوق سے اپنی سواری تیز کردیتے۔
حضور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمیہاں
کاگردوغبار اپنے چہرہ ٔانور سے صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم
الرضوان کو
بھی اس سے منع فرماتے اور ارشاد فرماتے :خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب
القلوب ،صفحہ22)
مسجدِ نبوی میں
ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر
ہے۔(ابن
ماجہ، ج 2، ص 176، حدیث 1413)
قیامت کے قریب تمام اہلِ ایمان دنیا کے گوشے
گوشے سے سمٹ کر مدینہ آ جائیں گے۔روایت ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہسے،فرماتے
ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:ایمان
سمٹ کر اس طرح مدینہ آ جائے گا جس طرح سانپ سمٹ کر اپنے بل میں چلا جاتا ہے۔(بخاری،
باب الایمان بارز الی المدینہ1/252)