تعریف کے لائق جب الفاظ نہیں ملتے                     تعریف کرے کوئی کس طرح مدینے کی

مدینے شریف کی عظمت و رفعت بیاں کیسے ہو !جس میں ہمارے پیارے آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنی حیات مبارکہ گزاری۔ پیارے آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مکہ شریف سے مدینہ تشریف لانے سے پہلے اس شہر کو یثرب کہا جاتا تھا ،پھر مکی مدنی آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی جب مدینہ شریف میں تشریف آوری ہوئی تو یہ جہالت میں ڈوبا ہوا یثرب نامی شہرِ مدینہ بن گیا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے یوں دعا مانگی:اے اللہ پاک! تو نے جو برکت مکہ میں رکھی ہے مدینہ کو اس سے دُگنی برکت عطا فرما۔

(بخاری، کتاب فضائل مدینہ، رقم1885 ،ج1، ص620)

مذکورہ حدیثِ پاک میں نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے برکت کی دعا فرمائی۔ بہت سی خیر کا نام برکت ہے۔ چونکہ مدینہ شریف کو پیارے آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے شرفِ قیام بخشا، سر زمینِ مدینہ کو اپنے مبارک قدموں کے بوسے لینے کی سعادت عطا فرمائی اس دعا کا ظہور وہاں کی آب و ہوا اور اشیا میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ان سعادتوں سے فیض یاب ہو کر شہرِ مدینہ نے عظمت و رفعت پائی۔ آپصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی دعا سے اس مبارک شہر کو اتنی برکت میسر آئی کہ مدینے میں رہنا عافیت کی علامت اور مدینے میں مرنا شفاعتِ مصطفےکی ضمانت قرار پایا۔

یوں یہ شہر بہت فضیلت اور دُگنی خیر و برکت کا ایسا مرکز بنا کہ جسے دیکھنے کے لئے ہر عاشقِ رسول تڑپتا ہے۔

آئیے !مدینہ منورہ کی فضیلت کے بارے میں پیارے آقاصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی چند احادیثِ مبارکہ پڑھئے:

1۔پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ہے:یہ طیبہ ہے اور گناہوں کو اس طرح مٹاتا ہے جیسے آگ چاندی کا کھوٹ دور کر دیتی ہے۔(بخاری، ج3، ص36، حدیث4050)

2۔حضرت اَفلَح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :میں حضرتِ یزید بن ثابت اور ابو ایوب رضی اللہ عنہماکے قریب سے گزرا۔ یہ دونوں مسجدِ جنائز کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا :کیا تمہیں وہ بات یاد ہے جو رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ہمیں اسی مسجد میں بیان فرمائی تھی؟ تو دوسرے نے کہا :ہاں۔ مدینہ شریف کے بارے میں آپصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا خیال تھا کہ عنقریب لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں زمین کی فتوحات کھول دی جائیں گی اور لوگ اس کی طرف نکل کھڑے ہونگے تو وہ خوشخالی اور عیش و عشرت اور لزیز کھانے پائیں گے پھر اپنے حج یا عمرہ کرنے والے بھائیوں کے پاس سے گزریں گے تو ان سے کہیں گے:تم تنگدستی اور سخت بھوک کی زندگی کیوں گزار رہے ہو؟رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے کئی مرتبہ یہ جملہ دہرایا کہ جانے والا اور رہ جانے والا اور مدینہ ان کے لئے بہتر ہے جو اس میں ٹھہرا رہے اور مرنے تک تنگدستی و سختی پر صبر کرے میں اس کی گواہی دوں گا یا شفاعت کروں گا۔ (طبرانی کبیر، رقم 3985، ج4، ص153)

وہاں اک سانس مل جائے یِہی ہےزِیست کا حاصل وہ قسمت کا دھنی ہے جو گیا دم بهر مدینے میں

3۔حضرت بلال بن حارث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی پاکصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: مدینہ منورہ میں رمضان کا ایک مہینہ گزارنا دیگر شہروں میں رمضان کے ایک ہزار مہینے گزارنے سے بہتر ہے اور مدینہ منورہ میں ایک جمعہ ادا کرنا دیگر شہروں میں ایک ہزار جمعے ادا کرنے سے بہتر ہے۔ (طبرانی کبیر، رقم1144، ج1، ص372)

4۔حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دعا مانگی:یا اللہ پاک! تیرے بندے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تجھ سے مکہ والوں کے لئے برکت کی دعا کی اور میں محمد تیرا بندہ اور رسول ہوں میں مدینہ والوں کے لئے برکت کی دعا کرتا ہوں تو ان کے صاع اور مُد (یہ دونوں پیمانے ہیں) میں ویسی برکت عطا فرما جیسی برکت تُو نے مکہ والوں کے لئے عطا فرمائی اور اس برکت کے ساتھ دو برکتیں اور عطا فرما۔ (مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب جامع فی الدعالھا، رقم 5815، ج3، ص656)

5۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے اور جو اس شہر سے منہ پھیر کر اسے چھوڑ دے گا اللہ پاک اس سے بہتر لوگوں کو اس شہر میں بسا دے گا اور جو اس میں تنگدستی اور یہاں کی تکالیف پر ثابت قدم رہے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا گواہی دوں گا۔ (مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینہ، رقم 1363، ص709)

6۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ اکرمصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: جو میری اُمت میں سے مدینہ میں تنگدستی پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے لئے گواہی دوں گا۔ (مسلم، کتاب الحج، باب الترغیب فی سکنی المدینہ، رقم1378، ص716)

7۔حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:میری اس مسجد میں نماز پڑھنا مسجدِ حرام کے علاوہ دیگر مساجد میں ایک ہزار نمازیں پڑھنے سے افضل ہے اور میری اس مسجد میں ایک جمعہ ادا کرنا مسجدِ حرام کے علاوہ دیگر مساجد میں ایک ہزار جمعہ ادا کرنے سے افضل ہے اور میری اس مسجد میں رمضان کا ایک مہیناگزارنا مسجدِ حرام کے علاوہ دیگر مساجد میں ایک ہزار ماہ رمضان گزارنے سے افضل ہے۔(شعب الایمان، باب فی المناسک فضل الحج والعمرۃ، رقم 4147، ج3، ص476)

8۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ،نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو مدینہ میں مرنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ مدینہ میں ہی مرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔

(ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینہ، رقم3943، ج5، ص483)

میں ہوں سنی، رہوں سنی، مروں سنی مدینے میں بقیعِ پاک میں بن جائے تربت یا رسول اللہ

9۔رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ہے:تم میں سے جس سے ہو سکے وہ مدینہ میں مرے کیونکہ جو مدینہ میں مرے گا میں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔

(طبرانی کبیر مسند، رقم747، ج24، ص294)

10۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِّ پاکصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو دو حرموں(یعنی مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ) میں سے کسی ایک میں مرے گا قیامت کے دن امن والوں میں اٹھایا جائے گا اور جو ثواب کی نیت سے مدینہ میں میری زیارت کرنے آئے گا وہ قیامت کے دن میرے پڑوس میں ہو گا۔

(شعب الایمان، باب فی مناسک فضل الحج و العمرۃ، رقم4158، ج3، ص490)

نصیب والوں میں میرا بھی نام ہو جائے جو زندگی کی مدینے میں شام ہو جائے

اللہ پاک ہمیں بھی مدینہ منورہ کی یاد میں رونا اور تڑپنا نصیب فرمائے جو روتے اور تڑپتے ہیں مدینے کے لئے اللہ پاک ان کے صدقے ہمیں دنیاوی غموں سے بچا کر غمِ مدینہ عطا فرمائے کہ جسے مدینے کا غم نصیب ہو جائے اسے کوئی بھی دنیاوی غم نہیں ستاتا۔اللہ پاک ہمیں بیمارِ مدینہ بنا دے،ہمیں بھی مدینہ منورہ میں ایمان والی، شہادت والی موت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامینصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

مجھے ہریالے گنبد کے تلے قدموں میں موت آئے سلامت لے کے جاؤں دین و ایماں یا رسول اللہ


مدینہ منورہ  عاشقانِ رسول کی محبتوں کا مرکز ہے اور کیوں نہ ہو کیونکہ مدینہ منورہ ہی روئے زمین کا وہ ٹکڑا یا گوشہ ہے جو تمام عالم سے افضل ہے اس کے افضل ہونے کی وجہ یہاں موجود وہ ہستی ہے جو تمام خلق سے افضل و اعلیٰ ہےبلکہ وجہِ تخلیقِ کائنات ہے اور وہ ہستی جنابِ سیدُ المرسلین،رحمۃ العالمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی ذات بابرکت ہے۔

میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں میرے آقا کا روضہ مدینے میں ہے

مدینہ کو یثرب کہنے کی ممانعت :

ہجرت سے پیشتر لوگ مدینہ کو یثرب کہتے تھے مگر اس نام سے پکارنا جائز نہیں کہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔بعض شاعراپنے اشعار میں مدینہ طیبہ کو یثرب لکھا کرتے ہیں انہیں اس سے احتراز لازم اور ایسے شعر کو پڑھیں تو اس لفظ کی جگہ طیبہ پڑھیں کہ یہ نام حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے رکھا ہے۔بلکہ صحیح مسلم شریف میں ہے:اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔ (بحوالہ: بہار شریعت ، حصہ ششم ، ص : 1220 )

مدینہ منورہ کے فضائل احادیث کی روشنی میں پیش کرنے کی سعی کی جارہی ہے۔ چنانچہ

آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جس سے ہوسکے کہ مدینے میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے جو مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت فرماؤں گا ۔ (بحوالہ: جامع الترمذی ،باب ما جاء فی فضل المدینہ ،حدیث :3943، ص483 )

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مکہ ومدینہ کے سوا کوئی شہر ایسا نہیں کہ وہاں دجال نہ آئے ۔ مدینہ کا کوئی راستہ ایسا نہیں جس پر ملائکہ پہرا نہ دیتے ہوں ۔دجال ( قریبِ مدینہ ) شور ِزمین میں اترے گا ۔اس وقت مدینہ میں تین زلزلے ہوں گے جن سے ہر کافر و منافق یہاں سے نکل کر دجال کے پاس چلا جائے گا۔

( بحوالہ: صحیح مسلم ، کتاب الفتن ، حدیث: 2943 ، ص ، 716)

نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھاجائے گی (سب پر غالب آئے گی) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔( بحوالہ :صحیح بخاری ، کتاب فضائل المدینہ ، حدیث: 1871 ، ص ،618 )

آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینہ کے راستے پر فرشتے (پہرا دیتے ہیں ) اس میں نہ دجال آئے ،نہ طاعون۔ (بحوالہ : صحیح مسلم ، کتاب الحج ، حدیث: 1379 ، ص ، 716)

پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ منورہ کے لیے یوں دعائیں کیا کرتے تھے ،چنانچہ،

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:لوگ جب شروع شروع پھل دیکھتے اسے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی خدمت میں حاضر کرتے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماسے لے کر یہ کہتے:الہٰی! تو ہماری کجھوروں میں برکت دے اور ہمارےلیے مدینہ میں برکت دے اور ہماری صاع ومد میں برکت کر۔ یااللہ پاک!بے شک حضرت ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی ہیں اور بے شک میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں ۔ انہوں نےمکہ کے لیے تجھ سے دعا کی اورمیں مدینہ کے لیے تجھ سےدعا کرتا ہوں اسی کی مثل جس کی دعا مکہ کے لیے انہوں نے کی اور اتنی ہی اور( مدینہ کی برکتیں مکہ سے دوچند ہوں ) ۔پھر جو چھوٹا بچہ سامنے آتا اسے بلاکر وہ کجھور عطا فرما دیتے۔( بحوالہ: صحیح مسلم ، کتاب الحج ، حدیث: 1373، ص : 713)

مروی ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا : یا اللہ پاک ! تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنادے جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے بلکہ اس سے زیادہ اور اس کی آب ہوا کو ہمارے لیے درست فرمادے اور اس کے صاع و مد میں برکت عطا فرمااور یہاں کے بخار کو منتقل کر کے جحفہ میں بھیج دے۔

(بحوالہ: (صحیح مسلم ، کتاب الحج حدیث : 1376،ص:715)

توضیح:

علامہ قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ مسند ِابو یعلی میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:نبی پر اس جگہ موت طاری کی جاتی ہے جو جو جگہ نبی کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوتی ہے اور جو جگہ نبی کوسب سےزیادہ محبوب ہوتی ہے وہ اللہ پاک کو بھی محبوب ہے اور جو جگہ اللہ پاک اور اس کے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب ہوگی وہی جگہ سب سے افضل ہوگی۔

(شرح صحیح مسلم ،ص: 735:736)

ان کے طفیل حج بھی خدا نے کرادیے اصل ِمراد حاضری اس پاک در کی ہے

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:اے اللہ پاک! ان کے پیمانے میں برکت عطا فرما۔ اےاللہ پاک! ان کے صاع میں برکت عطا فرما۔اے اللہ پاک! ان کے مد میں برکت عطا فرما۔(شرح صحیح مسلم ،کتاب الحج ،جلد ،3 ،حدیث ، 3221)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:اے اللہ پاک!جتنی برکتیں مکہ میں نازل کی ہیں اس کی دگنی برکتیں مدینہ میں نازل فرما۔

(بحوالہ: شرح صحیح مسلم، کتاب الحج، حدیث ، 3222: ص: 720)

وضاحت:

آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ کے لیے دعا فرمائی تاہم امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہما کا نظریہ یہ ہے کہ مکہ مدینہ سے افضل ہے تاہم مکہ کی افضلیت آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے روضہ کے ماسواہے اور ان احادیث کے پیشِ نظر حق یہ ہے کہ خواہ مکہ افضل ہو لیکن اجرو ثواب اور خیر وبرکت مدینہ میں مکہ سے دو چند ہےنیز فتحِ مکہ کے بعد بھی حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینہ میں رہنا فرض تھا اگر مکہ افضل ہوتا تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مکہ میں رہنے کا حکم دیا جاتا۔ (شرح صحیح مسلم ، ص: 729 )

طبرانی کبیر کی ایک طویل حدیث میں حضرت ابی اسید ساعدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ سرسبز ملک کی طرف چلے جائیں گے ، وہاں کھانا اور لباس اور سواری انہیں ملے گی پھر وہاں سے اپنے گھر والوں کو لکھ بھیجیں گے کہ ہمارے پاس چلے آؤ تم حجاز کی خشک زمین پر پڑے ہو حالانکہ مدینہ ان کے لیے بہتر ہے اگر جانتے۔ (بحوالہ: المعجم الکبیر ، للطبرانی ، حدیث : 587 ، ج: 19 ، ص، 265 )

آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ پاک کو حرم قرار دیا ،چنانچہ

حضرت رافع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا :حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں اس کے دونوں پتھریلے کنارے یعنی مدینہ کو حرم قرار دیتا ہوں۔

(بحوالہ: شرح صحیح مسلم، کتاب الحج ، حدیث : 3211)

حرم کی زمین اور قدم رکھ کر چلنا ارے سر کا موقع ہے او جانے والے

درس :

دنیا میں بے شمار ممالک اور شہر اپنی خوبصورتی و دلکشی کے باعث سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں لیکن جس نے مدینہ کی بہاریں دیکھ لی ہیں وہ جانتی ہے اس سے بڑھ کر نہ کوئی شہر ہے اور نہ ہوگا۔لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے قلوب واذہان کو مدینہ کی یادوں سے بسائیں اور صرف اسی کی خواہش کریں اور اذنِ طیبہ کے لیے خوب تڑپیں۔

پیرس پہ مرنے والی پیرس کو بھول جاتی تو بھی جو دیکھ لیتی سرکار کا مدینہ

کہاں کوئی روتی ہے جنت کی خاطر رلاتی ہے عاشقہ کو یاد ِمدینہ

مدینہ منورہ کے 10 فضائل حدیث کی روشنی میں:

روضہ رسول کی فضیلت اس سے بڑھ کر کیا ہوگی کہ یہ وہ سر زمین پاک ہے جو عرش و کرسی سے بھی اعلیٰ جگہ ہے کہ یہاں میرے محبوب کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمآرام فرمااور جلوہ فرما ہیں۔ یہ وہ سر زمین ہے جسے میرے آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنی ذات کی رہائش سے ایسا منور فرمایا کہ یہ جگہ یثرب سے مدینہ ہوگئی۔

یثرب بنا مدینہ:

یثرب زمانۂ جاہلیت کا نام ہے یا اس لئے کہ یہ ’’ ثربٌ ‘‘ سے بنا ہے جس کا معنیٰ ہلاکت اور فساد ہے اور’’ تَثْرِ یْب ‘‘ بمعنیٰ سرزنِش اور مَلامَت ہے یا اس وجہ سے کہ ’’ یَثْرِبْ ‘‘ کسی بُت یا کسی جابِر و سَرکش بندے کا نام تھا۔ ‘‘

(اَشِعۃ اللَّمعات ،کتاب المناسک ، باب حرم المدینۃ...الخ ، الفصل الاول ،2/417 کوئٹہ)

اَحادیثِ مُبارَکہ میں مدینۂ منوَّرہ کو یَثْرِبْ کہنے کی سخت ممانعت آئی ہے چنانچہ سردارِ مکۂ مکرمہ، تاجدارِ مدینۂ منورہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اِرشاد فرمایا:جو مدینہ کو یَثْرِبْ کہے تو اِستغفار کرے۔مدینہ طابہ(پاک و صاف خوشبودار جگہ)ہے،مدینہ طابہ ہے۔( کنزالعمال ،کتاب الفضائل ، فضائل المدینۃ...الخ،الجزء: 12،6/107،حدیث: 34836 دار الکتب العلميۃ بیروت)

عرصہ ہوا طیبہ کی گلیوں سے وہ گزرے تھے اس وقت بھی گلیوں میں خوشبو ہے پسینے کی

1۔احادیثِ طیبہ کی روشنی میں فضیلتِ مدینہ:

مدینہ طیبہ میں مرنے والوں کی حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمشفاعت فرمائیں گے:

سرکارِدو عالَم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:’’جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت فرماؤں گا۔

(ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5 / 483، حدیث: 3943)

2۔ مدینہ خیر و عافیت کی جگہ ہے:

والمدينۃ خيرٌ لهم لو كانوا يعلمون مدینہ خیروبرکت کی جگہ ہے ۔(صحيح البخاري:1875)

إنها حرَمٌ آمِنٌ بیشک مدینہ امن والا حرم ہے۔ (صحيح مسلم:1375)

4۔ تا قیامت مدینہ دجال اور 5 ۔ طاعون سے محفوظ ہے:

على أنقابِ المدينۃ ملائكۃ،لايدخُلُها الطاعونُ،ولا الدجالُ۔(صحيح البخاري:7133)
ترجمہ:مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ تو طاعون اور نہ ہی دجال داخل ہو سکتا ہے۔

6۔ آخری زمانے میں ایمان مدینہ طیبہ میں سمٹ آئے گا:

نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا : ایمان سمٹ کر مدینہ طیبہ میں اس طرح داخل ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں داخل ہوتا ہے۔(ابن ماجہ، السنن، کتاب المناسک، باب فضل المدينہ، 3 : 524، رقم : 3111)

7۔ مدینہ طیبہ میں آنے والی مصیبت پر

8 ۔ صبر کا بھی بڑا اجر ہے:

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا :جو مدینہ منورہ کی سختیوں اور مصیبتوں پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑے گا قیامت کے روز میں اس کے حق میں گواہی دوں گا یا اس کی شفاعت کروں گا۔‘‘

(مسلم، الصحيح، کتاب الحج، باب الترغيب فی سکنی المدينۃ والصبر علی لاوائها، 2 : 1004، رقم : 1377)

9۔ بدعت سے شہر ِمدینہ پاک ہے:

10۔ مدینے میں بدعت ایجاد کرنے والوں پر لعنت ہے:

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :جو کوئی مدینے میں بدعت ایجاد کرے یا بدعت ایجاد کرنے والے کو پناہ دے، اس پر اللہ پاک، اس کے فرشتے اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔( 2127 سنن ترمذی کتاب فضائل و مناقب)

اللہ اکبر! اتنی رحمتیں اور برکتیں اور کیوں نا ہو کہ یہاں وہ ہیں کے جنہیں اللہ پاک نے رحمۃ العلمین بنایا جن کا ذکر بلند فرمایا،ہر عالم میں آپ کا چرچہ ہے۔ہر مومن کا دل آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی محبت سے لبریز ہے خواہ عمل کے میدان میں کتنا ہی کمزور مومن ہو لیکن اس کا دل محبتِ رسول سے بھرا ہوتا ہے اور کیوں نہ ہو کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ،اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب(یعنی پیارا) نہ ہو جاؤں۔ (بخاری،ج1،ص17،حدیث:15)

عشق ہو تو ایسا کہ جو بھی کام کریں جو بھی عبادت کریں ذہن میں سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی ادا ہو کہ میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نماز ایسے ادا کی ، رکوع کروں تو آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا رکوع یاد آجائے سجدہ میں جاؤں تو یاد آجائے کہ یہ وہی سجدہ ہے جسے میرے کریم آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ادا فرمایا۔ سبز گنبد دیکھوں تو سما بندھ جائے کہ گنبد خضرا اسی جگہ ہے جو حجرۂ عائشہ صدیقہ ہے۔ ارے یہ تو وہی جگہ ہے جہاں حضرت جبرئیل علیہ السلام میرے رب کا پیغام لے کر آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوتے تھے یہ مدینہ وہی جگہ ہے جہاں صحابہ کرام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کے جھرمٹ میں مدینے والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمتشریف فرما ہوتے تھے یہ وہی مدینہ ہے جہاں سے میرے غریب پرور گزرا کرتے تھے تو آپ کی مہک سے گلی کوچے محلے معطر ہوجاتے کہ صحابہ کرام علیہم الرضوان آپ کو آپ کی خوشبو سے تلاش فرمالیا کرتے ۔

عرصہ ہوا طیبہ کی گلیوں سے وہ گزرے تھے اس وقت بھی گلیوں میں خوشبو ہے پسینے کی

پیاری اسلامی بہنو! عشق و محبت بہت ضروری چیزیں ہے جس کی بدولت ہم ایمان کی حلاوت(مٹھاس) کو پاسکتے ہیں اور عشق ِمدینہ میں تڑپنا، غمِ مدینہ میں رونا یہ اہلِ سنت کا طرہ ٔامتیاز ہے۔ بیشک شروع میں تکلف سے ایسا کرنا پڑے تو کیجئے ۔ضرور رقت اور غم ِمدینہ بلا تکلف حاصل ہو ہی جائے گا۔ اللہ پاک ہمیں حقیقی عشقِ رسول و غمِ مدینہ عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


مدینہ منورہ کے فضائل:

ہے شہد سے بھی میٹھاسرکارکامدینہ کیاخوب مہکامہکاسرکار کامدینہ

روئے زمین کا کوئی ایساشہر نہیں جس کے اسمائے گرامی یعنی مبارَک نام اتنی کثرت کوپہنچے ہوں جتنے مدینۃُ المنوَّرہ کے نام ہیں ۔بعض عُلما نے 100تک نام تحریر کئے ہیں ۔

مدینۃُ المنوَّرہ ایسا شہر ہے جس کی محبَّت اورہِجرو فُرقت میں دنیا کے اندر سب سے زیادہ زبانوں اور سب سے زیادہ تعداد میں قصیدے لکھے گئے ، لکھے جارہے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے۔مدینہ منورہ کے فضائل کےتوکیاکہنے!یہ وہ مبارک شہر ہے جس کو پیارے آقا،مدینے والے مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنی ہجرت کاشرف بخشا،اس کو اپنی رہائش کامسکن ہونے کاشرف فضیلیت عطافرمایا۔جو وضو کرکے آئے اورمسجِدُالنَّبَوِیِّ شریف میں نَماز ادا کرے اسے حج کا ثواب ملتا ہے۔یہ وہ مدینہ ہےجس میں موت کاآنا کیسی بڑی سعادت کی بات ہےکہ حضرتِ عبداللہ بنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، فرماتے ہیں: رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشادفرمایا:’’مَنِ اسْتَطَاعَ أَنْ یَّمُوْتَ بِالْمَدِیْنَۃِ فَلْیَمُتْ بِہَا فَإِنِّی أَشْفَعُ لِمَنْ یَّمُوْتُ بِہَا یعنی جو مدینے میں مرسکے وہ وَ ہیں مرے کیونکہ میں مدینے میں مرنے والوں کی شَفاعت کروں گا ۔‘‘ (ترمذی ج5 ص483 حدیث3943)

حکیمُ الْاُمَّت حضر ت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ظاہر یہ ہے کہ یہ بِشارت اورہِدایت سارے مسلمانوں کو ہے نہ کہ صِرْف مُہاجِرین کو یعنی جس مسلمان کی نیَّت مدینۂ پاک میں مرنے کی ہو وہ کوشِش بھی وہاں ہی مرنے کی کرے کہ خدا نصیب کرے تو وہاں ہی قِیام کرے خُصُوصاً بڑھاپے میں اور بِلاضَرورت مدینۂ پاک سے باہَر نہ جائے کہ موت ودفْن وہاں کاہی نصیب ہو ۔

حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ دعا کرتے تھے :’’مولا! مجھے اپنے محبوب کے شہر میں شہادت کی موت دے۔ ‘‘

آپ کی دعا ایسی قَبول ہوئی کہ سُبْحٰنَ اللہِ! فجر کی نماز، مسجدِ نبوی ، مِحرابُ النبی، مُصلّٰیِ نبی اور وہاں شہادت ۔ میں نے بعض لوگوں کو دیکھا کہ تیس چالیس سال سے مدینۂ مُنَوَّرہ میں ہیں ، حُدودِ مدینہ بلکہ شہرِ مدینہ سے بھی باہَر نہیں جاتے اِسی خطرے سے کہ موت باہَر نہ آجائے۔ حضرتِ امام مالِک رحمۃُ اللہِ علیہ کا بھی یہ ہی دستور رہا۔

(مراٰۃ المناجیح ج4ص222)

یہ فضیلت بھی صرف مدینہ طیبہ کے حصے میں ہی آئی کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ظاہری وصالِ مبارکہ کے بعداسی شہر کو اپنے مزار ِمبارک کے لئے شرف ِقبولیت عطافرمایا اور تا قیامت آپ اسی شہر میں آرام فرمارہیں گے ۔

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے سرور مدینے میں

لفظ مدینہ کے معنی:

مدینہ کے معنی شہر کےہیں لیکن جب یہ لفظ مطلقابولاجائےتو ذہن میں فورا ًمدینہ منورہ ہی آتا ہے ۔مدینہ کالفظ مدن سے ماخوذہے جس کامعنی ہے :ہموار زمین جس میں بکثرت کھجور کے درخت ہوں۔

مدینہ شریف کاسابقہ نام:

مدینہ منورہ کانام پہلے یثرب تھا ۔یثرب کا لغوی معنی ہے:جھڑکنا/ملامت کرنایایثرب ثرب سے ماخوذ ہے، اس کے معنی فساد کے ہیں ۔اس کو یثرب اس لئے کہتے تھے کہ یہ بیماریوں کاگھر تھا جووہاں جاتا بیمار ہوجاتا تھا ۔پھر لوگ اس کو ملامت کرتے کہ تم یثرب کیوں گئے تھے صحت مند تھے بیمار ہوکر آئے ،طاقت ورسے کمزور ہوکر آ گئے ہووغیرہ وغیرہ۔

ایک روایت ہے:حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:جب پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ طیبہ تشریف لائے توحضرت ابوبکرصدیق اور حضرت بلال رضی اللہ عنہماکو بخار آگیا(جب یہ حضرات مدینہ میں ہجرت کرکے آئے)تووہ دونوں مکہ مکرمہ کویادکرتے اور بلند آواز سے مکہ کی یاد میں اشعار پڑھتے۔چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کہا:اے اللہ پاک! ان پہ لعنت فرما جنہوں نے ہمیں اپنی سرزمین سے اس وباؤں اور بلاؤں کی زمین کی طرف نکال دیا۔ پھر آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے دعافرمائی:اے اللہ پاک! ہماری طرف مدینہ کو مکہ کی طرح محبوب بنادے یااس سے زیادہ محبوب بنادے۔اے اللہ پاک !ہمارے لیے ہمارے صاع (چار کلو کا پیمانہ)میں اور ہمارے مد(ایک کلو کاپیمانہ)میں برکت ڈال دےاور اس کو ہمارے لئے صحت کاسبب بنادے اور اس کے بخار کو جحفہ (ایک وادی کانام)کی طرف منتقل کردے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہامزید بیان فرماتی ہیں:جب ہم مدینے میں آئے تو یہ جگہ اللہ پاک کی زمین میں سب سے زیادہ وباؤں والی تھی ۔مدینہ میں بطحان نام کاایک نالہ تھااس میں تھوڑاتھوڑاپانی بہتاتھا اور وہ بدبودار تھا۔

(صحیح مسلم1376)

لیکن جب ہمارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس شہر کی طرف ہجرت کی تو وہی مدینہ آپ کی تشریف آوری و دعاکی برکت سے صحت و شفا کامرکز بن گیا۔اب کوئی بیمار جاتاہے توشفا پاکر آتاہے کمزور و لاغر جاتاہے تو تواناہوکر آتاہے غم زدہ جائے تو اس شہرِ مدینہ پہنچ کر اپنے دکھ و غم بھول جاتاہے۔اب یہ حال ہےکہ اگر کوئی حج کرکے آئے اور مدینہ نہ جائے اس کو ملامت کیاجاتاہےکہ افسوس! تم حج کر آئے لیکن مدینہ ہوکر نہ آئے۔

مکے سے ہوکر آیامدینے نہ گیا جاتابھی کیسے تجھے سرکارنے بلایاہی نہیں

یعنی بغیر آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے بلاوے کےتو کوئی مدینہ جاہی نہیں سکتا۔پہلے اس شہر کانام یثرب تھا چونکہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ نام پسند نہ تھالہٰذا اب اس کانام طیبہ و طابہ رکھ دیاگیا۔ایک روایت میں ہے :آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:جس نے مدینہ کانام یثرب لیاوہ اللہ پاک سے مغفرت طلب کرے یہ طابہ ہے یہ طابہ ہے۔(یعنی پاکیزہ و برکت والی سرزمین)

عشاق ِمدینہ کا کہناہے:اگر کوئی مدینہ کانام غلطی سے یثرب لے لے تواس کو چاہیے کہ اس کے کفارے میں10بار مدینہ کہے۔

محفوظ صدارکھنابے ادبوں سے اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے ادبی ہو

شہر ِنبوی کے فضائل احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں :

1..حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مجھے ایسی بستی میں جانے کاحکم دیاگیاہےجو تمام بستیوں کو کھالے گی۔(منافق)لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے وہ بُرے لوگوں کواس طرح دور کردے گی جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کردیتی ہے۔

اس حدیثِ مبارکہ میں بستیوں کو کھانے کایہ معنی ہوسکتاہے کہ وہ بستی فضائل کے اعتبار سے تمام بستیوں پر غالب آ جائے گی۔اس حدیث کے پیشِ نظر اہلِ علم کے نزدیک اس میں علمی اختلاف ہے کہ مکہ افضل ہے یامدینہ۔بعض کے نزدیک مدینہ افضل ہے جبکہ بعض مکہ مکرمہ کی افضلیت کے قائل ہیں۔ہر ایک نے اپنے موقف کے مطابق اپنے دلائل بھی پیش کئے۔

یوں تو شہر مکہ افضل ہے لیکن روئے زمین پر سب سے افضل وہ جگہ ہے جہاں اس وقت کائنات کی سب سے عظیم و افضل ہستی تشریف فرماہے اور وہ روضہ انور ہے۔ لہٰذا بالخصوص آپ کاروضہ انور و مزار ِمبارک کی جگہ دونوں جہاں کی تمام جگہوں سے افضل ہے ۔

طیبہ نہ سہی افضل مکہ ہی بڑازاہد ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے

2..حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:ہم نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے ساتھ غزوۂ تبوک سے واپس آئے حتی کہ جب ہم نے سراٹھا کرمدینہ کو دیکھاتو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:ھذہ طابۃ یعنی یہ طابہ ہے۔(صحیح بخاری1872)

اس سے مراد یہ ہے کہ یعنی آقاعلیہ الصلوۃ والسلام نے مدینہ طیبہ کو طابہ کے لفظ سے یاد فرمایا۔طابہ کے معنی ہیں: پاکیزہ و برکت والی جگہ یعنی یہ بستی وشہر پاکیزہ خوشبودار و برکت والی بستی وشہر ہے ۔ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں:بے شک اللہ پاک نے مدینہ کانام طیبہ رکھا ۔

3..حضرت جابر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے،پیارے آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:ضرور لوگوں پر مدینہ میں ایسازمانہ آ ئے گا کہ لوگ مدینہ سے نکل کر مختلف شہروں میں چلے جائیں گے وہ وسعت و کشادگی کی طلب میں دوسرے شہروں میں جائیں گے پس وہ کشادگی کو پالیں گے پھروہ اپنےگھروالوں کو بھی اس کشادگی کی طرف لے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر تھا۔کاش !ان کو علم ہوتا۔(مسنداحمدج3ص342طبع قدیم)

صحیح مسلم و بخاری شریف کی روایات میں مختلف شہروں کے نام بھی ذکر ہیں جو یمن،شام اور عراق ہیں۔یعنی جب یہ شہر فتح ہوجائیں گے تو اہلِ مدینہ ان میں موجود اس وقت کی آسائشوں کو دیکھتے ہوئے اپنے اہل و عیال و سواریوں کیساتھ ان شہروں کی طرف نکل جائیں گے ۔حالانکہ اگر یہ شہرِ مدینہ میں ہی قیام و رہائش رکھتے ہیں اور وقتی آزمائشوں پہ صبر کرلیتے تو یہ شہرِ مدینہ ہی ان کے لئے بہتر تھا۔لیکن وہ اس فضیلت کونہ جان سکے اور دوسرے شہروں کواپنامسکن بنالیا۔کسی نے کیاخوب کہا:

یاد آتی ہے مجھے اہلِ مدینہ کی وہ بات زندہ رہناہے تو انسان مدینے میں رہے

4..حدیثِ مبارکہ میں ہے :جو مدینہ منورہ کی سختیوں اورمشقتوں پر صبر کرتاہوافوت ہوگامیں بروزِ قیامت اس کے لئے شفاعت کروں گااس کے حق میں گواہی بھی دوں گا بشرطیکہ وہ مسلمان ہو۔

(صحیح مسلم رقم حدیث1374)

اس میں صراحتاًاس بات کی طرف اشارہ ہے جس کو مدینہ شریف میں کوئی مصیبت یاتکلیف پہنچی چاہے وہ کسی صورت میں ہواگر وہ اس پہ ثابت قدم رہے گا،یہ شہر چھوڑ کر نہیں جائے گانیز اگر وہ حالتِ ایمان میں مدینہ طیبہ میں انتقال کرجائے توپیارے آقاعلیہ الصلاۃ والسلام کی شفاعت سے حصہ پائے گا۔ان شاءاللہ

یاد رہے! مدینۃُالمنوَّرہ میں صِرْف اُسی کو قِیام کی اجازت ہے جو یہاں کا احتِرام برقرار رکھ سکتا ہو ، جو ایسا نہیں کر سکتا اُس کیلئے یہاں مُستِقل یا زیادہ عرصے رِہائش کی مُمانَعَت ہے چنانچِہ

فتاویٰ رضویہ جلد10 صَفْحَہ695 پر ہے: (صاحبِ فتح القدیر رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں ) میں کہتا ہوں : کیونکہ مدینۂ طیِّبہ میں رحمت اکثر، لُطف وافِر، کرم سب سے وسیع اورعَفْوْ (یعنی مُعافی ملنا) سب سے جلدی ہوتا ہے جیسا کہ شاہِد مُجرَّب (یعنی تجرِبے سے ثابت) ہے ۔وَالْحَمْدُلِلّٰہِ ربِّ العٰلمین۔اس کے باوُجُود اُکتا نے کا ڈر اور وہاں کے احترام وتَوقیر میں قلّت ِادب کا خوف تو موجود ہے او ریہ بھی تو مُجاوَرَت سے مانِع(یعنی مستقل رہائش سے رکاوٹ) ہے۔ ہاں! وہ افراد جو فِرِشتہ صفت ہوں تو اُن کا وہاں ٹھہرنا اور (طویل رِہائش اختیار کر کے) فوت ہونا سعادتِ کامِلہ ہے ۔

اللہ مصطفٰے کے قدموں میں موت دے دے مدفن بنے ہمارا سرکار کامدینہ

5...حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینے کے دروازوں پر فرشتے ہیں ،وہاں طاعون داخل ہوگانہ دجال(داخل ہوسکےگا)(صحیح بخاری1880)

مختصر وضاحت:

طاعون ایک وباکانام ہے۔یہ جسم میں نکلنے والی گلٹیاں(غدود)ہیں۔ان کیساتھ جسم میں سوجن ہوجاتی ہےاور سخت درد ہوتاہےیہ گلٹیاں جلن کیساتھ نکلتی ہیں اور ان کی جگہ سیاہ ،سرخ یاسبزہوجاتی ہے اس کی وجہ سے گھبراہٹ ہوتی ہے ۔اللہ پاک اس وباسےہماری حفاظت فرمائے ۔آمین۔قرب ِقیامت میں جب دجال کے فتنے کاظہور ہوگا،اس کافتنہ دنیاکے تمام شہروں میں پھیل جائے گالیکن یہ مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ میں داخل نہ ہوسکے گا۔ایک روایت میں اس طرح کے الفاظ ہیں:مکہ و مدینہ کے سواہر شہر کو دجال روندےگا مدینہ کے راستوں پر صفیں باندھے ہوئے فرشتے اس کی حفاظت کررہے ہیں ۔پھر مدینہ وہاں کے رہنے والوں پر تین بارلرزے گا(یعنی زلزلہ) آئے گا۔پھر اللہ پاک ہرکافرو منافق کونکال دے گا یعنی کفار و منافقین خود مدینہ سے نکل کردجال کے پاس چلے جائیں گے ۔اللہ پاک ہم سب کوفتنۂ دجال سے محفوظ رکھے۔ آمین ۔

6..حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دعافرمائی:اے اللہ پاک! تونے مکہ میں جتنی برکتیں نازل کی ہیں ،مدینہ میں اس کی دوگنی برکتیں نازل فرما ۔یعنی اس سے مراد یہ تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاکی برکت سے مکہ مکرمہ میں جو برکتیں نازل ہوئیں مدینہ منورہ میں اس سے چار گنا برکتوں کانزول فرما۔اس حدیث میں برکت سے مراد کثرتِ خیر ہے چنانچہ

قاضی عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:برکت سے مراد عام ہے خواہ دین کے امور میں ہو یا دنیا کی چیزوں میں یعنی وہ چیزیں بڑھ جائیں گی اور زیادہ ہوجائیں گی اور دین میں برکت کایہ معنی ہے کہ زکوٰۃ اور کفارہ میں اضافہ ہو جائے۔الحمدللہ آ قاعلیہ الصلاۃ والسلام کی اس دعاکااثر ہر مومن مدینہ طیبہ میں محسوس کرسکتاہے۔

7.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:میرے حجرہ اور میرے منبرکے درمیان(جگہ)جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر میرے حوض پر ہے۔(صحیح بخاری1888)

امام شہاب الدین رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں :اس حدیث کامعنی یہ ہے کہ رحمت کےنزول اور حصولِ سعادت میں میرے حجرہ اور میرے منبرکی جگہ جنت کے باغات میں سے ایک باغ کی مثل ہے یامعنی یہ ہے کہ اس جگہ پر عبادت کرناجنت تک پہنچادیتاہےیایہ معنی ہیں کہ یہ جگہ حقیقتاً جنت ہے بایں معنی کہ آخرت میں بعینہ یہ جگہ جنت کی طرف منتقل کردی جائے گی ۔واللہ پاک اعلم بالصواب۔

8..حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ علیہ الصلاۃ والسلام نےفرمایا:جس نے خاص مدینہ شریف کی سات کھجوریں صبح کے وقت کھالیں توشام تک اسے کوئی چیز نقصان نہیں دے گی ۔

(صحیح مسلم رقم حدیث2047)

یعنی اس شخص پر اس دن جادو و زہر وغیرہ کوئی چیز اثر نہیں کرے گی اس کو اس سے نقصان نہیں پہنچے گا۔ان شاءاللہ ۔

9..حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرمانِ مصطفٰےصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہے:ایمان مدینہ کی طرف لوٹ جائے گا،جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف لوٹ جاتاہے۔(صحیح مسلم147)

یعنی دنیاسے محبت رکھنے والے اور دن رات گناہوں میں مشغول افراد اسلام کے احکام اور اس کے تقاضوں سے ڈر کراس طرح بھاگتے ہیں جیسے سانپ سے دور بھاگتے ہیں۔ آخر زمانہ میں اسلام پر عمل کرنے والے مومن صرف مدینہ منورہ میں رہ جائیں گےاور اسلام مدینہ میں اس طرح لوٹ جائے گاجس طرح جب سانپ کوکوئی گوشہ عافیت نہ ملے تووہ اپنے بل میں چلاجاتاہے۔اللہ پاک ہماراایمان سلامت رکھے۔ آمین۔

10..حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا :جس نے میری قبرکی زیارت کی،اس کےلئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔(سنن دارقطنی2658ج2ص531)

اگر کوئی مومن خاص قصداً روضۂ رسول کی زیارت کی نیت سے مدینہ طیبہ کاسفر کرے گا اور قبرِانور کی زیارت سے مشرف ہوگااس کے لئے شفاعتِ رسول کی خوشخبری ہے۔جبکہ اس کے برعکس ایک روایت میں روضۂ رسول پر حاضری نہ دینے والوں سے اظہار ِناراضی فرماتے ہوئے اس طرح فرمایا: جس نے بیت اللہ کاحج کیا،پھرمیری (قبرِانور/روضہ ٔرسول کی) زیارت نہیں کی اس نے مجھ سے بے وفائی کی۔

اللہ پاک ہمارا بھی اس سعادت سے مشرف ہوکر شفاعتِ رسول پانے والوں میں شمار فرمائے۔

محبتِ مدینہ:

مدینہ طیبہ کے فضائل سن کر ہر عاشقِ مدینہ کے دل میں یہ تڑپ پیداہوتی ہے کہ اے کاش !کوئی ایساسبب بن جائے کہ جلد مدینہ طیبہ پہنچ جائے اورآقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے قدموں میں حاضری نصیب ہوجائے۔ آئیے ! ایک عاشق ِمدینہ کے بارے میں کچھ ذکر خیرک پڑھتی ہیں ۔

امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ کاعشقِ مدینہ:

کروڑوں مالکیوں کے عظیم پیشوا حضرتِ امام مالِک رحمۃُ اللہِ علیہ زبردست عاشقِ رسول تھے ، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینۂ پاک کی گلیوں میں ننگے پَیر چلا کرتے تھے ۔ ( الطبقاتُ الکُبریٰ لِلشَّعرانی الجزء الاول ص 76)اللہ پاک ان عشاقِ مدینہ کے صدقے ہمیں بھی عشقِ مدینہ و ادب مدینہ منورہ نصیب فرمائے۔

گستاخ کے لئے حکم سزا:

امام مالِک رحمۃُ اللہِ علیہ کے سامنے کسی نے یہ کہہ دیا:’’مدینے کی مِٹّی خراب ہے ‘‘ یہ سن کر آپ نے فتویٰ دیا : اِس گستاخ کو تیس دُرّے لگائے جائیں اور قید میں ڈال دیا جائے ۔ (ایضاً ص57 )

جس خاک پہ رکھتے تھے قدم سیِّدِ عالَم اُس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا

عشق ِرسول و محبتِ مدینہ بڑھانے کے لئے ایک عاشق ِمدینہ خاتون کا واقعہ پیش خدمت ہے،چنانچہ

اُمُّ الْمؤمِنین حضرتِ عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا کی خدمتِ بابَرَکت میں حاضر ہو کرایک خاتون نے عَرْض کی: مجھے تاجدارِ رسالت، شَہَنْشاہِ نُبُوّت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی مبارَک قبرکی زیارت کروا دیجئے ۔حضرتِ عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا نے حُجر ۂ شریفہ کھولا اور اُس عاشِقِ رسول خاتون نے قبر ِانور کی زیارت کرکے روتے روتے جان دیدی۔ (الشفا جزء 2 ص 23)

آپ کے عشق میں اے کاش !کہ روتے روتے یہ نکل جائے مِری جان مدینے والے

یقیناًہر مسلمان کی دل کی یہ آرزو ہوتی ہے اس کو بھی مدینہ طیبہ کی حاضری نصیب ہوجائے۔ہزاروں لاکھوں عشاقِ مدینہ زیارتِ مدینہ کے شوق میں دن رات آنسو بہاتے ہیں، یادِ آقامیں تڑپتے ہیں ۔یہی تو ایک ذریعہ و سبب ہے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے دربار میں حاضری کاورنہ بڑے بڑے امراء جن کےپاس مال و دولت کی فراوانی ہے لیکن ان کے خواب دنیاکے عیش و عشرت و لندن و پیرس کے ہیں ۔مگر قربان جائیے! ان عشاقِ مدینہ کے جن کی بس ایک ہی آرزو ہے کہ مدینے کابلاوہ آجائے۔اور جن کی آہ وزاری بارگاہ ِرسول میں قبول ہوجاتی ہے یقیناًان کو بلاوہ بھی آجاتاہے جس کامظہر مدینہ طیبہ میں ان زائرین کی بھی حاضری ہے جن کابظاہر کوئی سبب نہیں ہوتامگر آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنے در کی حاضری کے لئے چن لیاہوتاہے۔

کہاں کامنصب کہاں کی دولت قسم خداکی ہے یہ حقیقت جنہیں بلایاہے مصطفٰے نے وہی مدینے کوجارہے ہیں

جن کو واقعی سچی لگن وتڑپ ہوتی ہے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کرم فرماتے ہیں۔

فریاد امتی جوکرے حالِ زار میں ممکن نہیں کہ خیر ِبشر کوخبر نہ ہو

مگر شرط یہ ہے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی سچی محبت دل میں ہو۔حاضریِ مدینہ کے شوق میں دل بے چین و بے قرار ہو۔آنکھیں اشکبار ہوں۔ آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے عشق کادل بھرنے کیساتھ اعمال بھی ایسے ہوں کہ جو آقاعلیہ الصلاۃ والسلام کی آنکھوں کی ٹھنڈک کاباعث بنیں۔ جیساکہ فرمان ِمصطفٰے ہے:جعلت قرۃ عینی فی الصلوۃیعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے ۔اخلاص شاملِ حال رہا،اعمال درست ہوئے، مدینہ کی تڑپ ہوئی تو بلاوہ بھی جلدآجائے گا۔ ان شاءاللہ

روایت:دیکھومدینہ آگیا:

حضرتِ ابراہیم خواص رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: میں ایک سَفَر میں شدّتِ پیاس سے بے تاب ہوکر گر پڑا، تو کسی نے میرے مُنہ پر پانی چِھڑکا، میں نے آنکھیں کھولیں توکیا دیکھتا ہوں کہ ایک حسین وجمیل بُزرگ خوب صورت گھوڑے پر سُوار کھڑے ہیں ۔اُنہوں نے مجھے پانی پِلایا اورفرمایا: میرے ساتھ سُوار ہوجاؤ ۔ ابھی چند قَدَم ہی چلے تھے کہ فرمایا: دیکھو! کیا نظر آرہاہے؟ میں نے کہا: ’’یہ تو مدینۂ منوَّرہ ہے۔ ‘‘ فرمایا: اُترو اور جاؤ، رَسُوْلُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی خدمتِ اَقدَس میں سلام عَرض کرو اور یہ بھی عرض کرنا کہ خِضَر (علیہ السلام) نے بھی آپ کی خدمت میں سلام عرض کیا ہے۔ (رَوضُ الرَّیاحین ص126)

کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سَہارا دے دیا ورنہ کہاں میں اور کہاں یہ راستے پیچیدہ پیچیدہ

محبتِ مدینہ و غمِ مدینہ پانے کے لئے عاشقانِ رسول کی صحبت اختیار کی جائے ۔الحمدللہ دعوت ِاسلامی کادینی ماحول محبتِ مدینہ و غمِ مدینہ پانے کاایک انمول ذریعہ ہے ۔امیر ِاہل ِسنت دامت برکاتہم العالیہ کے فیضان کی برکت آج دعوتِ اسلامی کے بچے بڑے مردو عورت ہر ایک کی بس ایک ہی تمناو تڑپ ہے:

اذنِ طیبہ مجھے سرکارِ مدینہ دےدو لے چلے مجھ کوجو طیبہ وہ سفینہ دے دو

مجھ کو دنیاکی دولت نہ ذر چائیے شاہ ِکوثر کی میٹھی نظر چائیے

اللہ پاک سے دعاہے کہ جو جومدینے کی حاضری کے طلبگار ہیں مولاکریم اپنے کرم کے صدقے جلد ان کو باادب حاضریِ مدینہ کی سعادت عطافرمائے ۔ان کے صدقے مجھ گنہگار کے حق میں بھی یہ دعاقبول فرمائے۔


مدینہ اس لیے عطار جان و دل سے ہے پیارا                      کہ رہتے ہیں مرے آقا مرے دلبر مدینے میں

مدینے کی مدح کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ زندگیاں ختم ہوگئیں اور قلم ٹوٹ گئے مگر مدینے کی تعریف ختم نہ ہوئی تو مبالغہ نہ ہوگا اور کیوں نہ ہو کہ سرورِ کائنات ، شہنشاہ ِعالمیان ، سیدِ ثقلین ، نبیُّ الحرمین ، دکھی دلوں کے چین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلموہاں جلوہ گر ہیں، ذکرِ مدینہ کے صدقے مدینے کے پانچ حروف کی نسبت سے مدینے کے پانچ مختصر فضائل:

1:روئے زمین کا کوئی ایسا شہر نہیں جس کے مبارک نام اتنے زیادہ ہوں جتنے مدینہ کے ہیں ۔بعض علمائے کرام نے اس کے 100 نام بھی تحریر فرمائے ہیں ۔

2 :اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اسی شہر مبارک کی طرف ہجرت فرمائی اور یہیں قیام پذیر ہوئے ۔

3 : اللہ پاک نے اس کا نام طابہ رکھا ۔

4 : مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا قلبِ اطہر سکوں پاتا ۔

5 : حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینے میں مرنے کی ترغیب ارشاد فرمائی ۔

سبحان اللہ العظیم!عاشقوں کے جان و دل ، ہوش و خرد جہاں موجود ہیں اب اسی شہر مقدسہ کے مدینہ بننے کے ذکر ِخیر سے اپنی روح کو مہکائیے ، چنانچہ

حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالْحقّ مُحَدِّث دِہلَوی رحمۃُ اللہِ علیہ اَشِعَّۃُ اللَّمعات شَرْحُ الْمِشْکٰوۃ میں فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے وہاں لوگوں کے رَہنے سَہنے اور جَمْع ہونے اوراس شہر سے مَحَبَّت کی وجہ سے اس کا نام ’’مدینہ ‘‘ رکھا اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اسے یَثرِب کہنے سے مَنْعْ فرمایا ،اِس لئے کہ یہ زمانۂ جاہلیّت کانام ہے یا اِس لئے کہ یہ ’’ثَرْبٌ ‘‘سے بنا ہے جس کے معنیٰ ہلاکت اورفَساد ہے اور تَثْرِیْبٌ بمعنیٰ سَرزَنِش اورملامت ہے یا اس وجہ سے کہ یَثرِب کسی بُت یا کسی جابِر و سَرکَش بندے کانام تھا۔

(عاشقانِ رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں ، ص 253 )

اعلیٰ حضرت،امامِ اہل ِسنت مولانا شاہ امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں: مدینۂ طیِّبہ کو یَثرِب کہنا ناجائز و ممنوع اور گناہ ہے اور کہنے والا گنہگار۔ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں: جو مدینے کویَثرِب کہے اُس پر توبہ واجِب ہے، مدینہ طابہ ہے،مدینہ طابہ ہے۔علّامہ مُنَاوِی (حدیثِ پاک کی مشہور کتاب )جامعِ صغیر کی شرح میں فرماتے ہیں:اِس حدیث سے معلوم ہوا! مدینَۂ طیِّبہ کایَثرِب نام رکھنا حرام ہے کہ یَثرِب کہنے سے توبہ کا حکم فرمایا اور توبہ گناہ ہی سے ہوتی ہے۔(فتاویٰ رضویہ،21/116بتغیر قلیل)

اب شہرِ مدینہ کے متعلق دس احادیثِ نبوی کے گوہر پیشِ نظر ہیں :

1: نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب سفر سے آتے اور مدینۂ پاک کی دیواروں کودیکھتے تو مدینے سے محبت کی وجہ سے اپنی سواری کو تیز فرما دیتے اور اگر گھوڑے پر ہوتے تو اسے اَیڑ لگاتے۔(بخاری ،کتاب فضائل المدينہ،11:باب ،1 /620، حديث: 1886)

2: مدینے کے راستوں پر فِرِشتے (پہرہ دار) ہیں،لہٰذا اس میں طاعون اور دجّال داخل نہ ہوں گے۔

(بخاری، کتاب فضائل المدینۃ،باب لا یدخل الدجال المدینۃ ،1 /619،حدیث:1880)

3: مَنِ اسْتَطَاعَ اَنْ يَّمُوتَ بِالْمَدِينَۃ فَلْيَمُتْ بِهَا تم میں سے جس سے ہو سکے کہ وہ مدینے میں مرے تو مدینے ہی میں مرے،فَاِنِّي اَشْفَعُ لِمَنْ يَمُوْتُ بِهَا کیونکہ میں مدینے میں مرنے والے کی شفاعت کروں گا۔

(ترمذی ،کتاب المناقب،باب فی فضل المدینۃ، 5/483، حدیث:3943)

حکیم الاُمَّت مُفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:یہ بشارت اور ہدایت سارے مُسلمانوں کو ہے نہ کہ صرف مہاجرین کو یعنی جس مسلمان کی نیت مدینَۂ پاک میں مرنے کی ہو،وہ کوشش بھی وہیں مرنے کی کرے تو وہیں قیام کرے،خصوصًا بڑھاپے میں اوربِلا ضرورت مدینۂ پاک سے باہر نہ جائے تاکہ موت و دفن وہیں نصیب ہو۔(مرآۃ المناجیح ، 4/222 ملتقطاً بتغیر ٍ قلیل)

4: جو میری زیارت کا ارادہ کرتے ہوئے آیا وہ قِیامت کے دن میری حفاظت میں رہےگا،جو مدینے میں رِہائش اِختیارکرےگا اور مدینےکی تکالیف پر صَبْرکرےگا تو میں قِیامت کےدن اُس کی گواہی دوں گااوراُس کی شَفاعت کروں گا۔ جو حَرمَین (یعنی مکے،مدینے)میں سے کسی ایک میں مرے گا،اللہ پاک اُس کو اِس حال میں قَبْر سے اُٹھائے گا کہ وہ قِیامت کے خَوْف سے اَمْن میں رہے گا۔(مشکاۃ المصابیح،1/512،حدیث 2755)

5: مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہٗ شَفَاعَتِیْ یعنی جس نے میری قَبْر کی زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔(دارقطنی،کتا ب الحج،2/ 351، حدیث: 2669)

6:(قِیامت میں جب سب کو قَبْروں سے اُٹھایا جائے گا)سب سے پہلے میری پھر ابُو بَکْر و عُمَر (رضی اللہ عنہما) کی قَبْریں کھلیں گی،پھر میں جَنّتُ الْبَقِیْع والوں کے پاس جاؤں گا،تو وہ میرے ساتھ جمع ہوں گے،پھر میں اَہل ِمکہ کا اِنتظار کروں گا حتّٰی کہ مکے مدینے کے درمیان اُنہیں بھی اپنے ساتھ کرلوں گا۔

(ترمذی،ابواب المناقب،باب(م:تابع17،ت:56) … الخ،5/388، حدیث: 3712)

7: اُس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اُ س پر دو فِرشتے ہیں جو اِس کی حفاظت کررہے ہیں ۔ ‘‘ ( مسلم ص714 حدیث1374)

امام نَوَوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : اس روایت میں مدینۃُالمنوَّرہ کی فضیلت کا بیان ہے اورتاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے زمانے میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی،کثرت سے فِرِشتے حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی عزّت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے۔

(شرح صحیح مسلم للنووی ج5 جزء 9 ص148)

8:میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع(یعنی شفاعت کرنے والا) ہوں گا۔ (مسلم صفحہ 716 ، حدیث 1378 )

9:اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا کہ لوگ خوشحالی کی تلاش میں یہاں سے چراگاہوں کی طرف نکل جائیں گے ، پھر جب وہ خوشحالی پالیں گے تو لوٹ کر آئیں گے اور اہلِ مدینہ کو اس کشادگی کی طرف جانے پر آمادہ کریں گے حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔( مسند امام احمد بن حنبل ، ج 5 ، ص ، 106 ، حدیث 14686 )

10: مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی ( سب پر غالب آئے گی ) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے ( یہ بستی ) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو ۔ (صحیح بخاری حدیث 1871 ، ج 1 ، ص 617 )

نوٹ:اکثر احادیث مکتبۃ المدینہ کی کتاب عاشقان ِرسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں سے لی گئی ہیں ۔

عشقِ مدینہ تو گویا مومنوں کی گھٹی میں شامل ہے ، اور غمِ مدینہ اس عاشق سے پوچھا جائے جو ہر سال مدینہ دیکھ آتا ہے اور پھر بھی ذکرِ مدینہ پہ زار و قطار روتا ہے ، یا پھر اس عاشق سے پوچھئے کہ جس نے مدینہ دیکھا نہیں مگر اس امید پہ اشک بہاتا ہے کہ ہمیں بلوائیں گے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ ہم بھی دیکھیں گے ، دونوں کی حالت ایک سی ہوتی ہے ، یا یہ کہیے کہ عشاق کو غمِ مدینہ ہے ہی اس قدر پیارا کہ طیبہ سے پلٹ آنا بھی محال اور طیبہ کو نہ جانا بھی محال اور کیوں نہ ہو کہ رہتے ہیں میرے آقا،میرے دلبر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینے میں۔

کہاں کوئی روتا ہے جنت کی خاطر رلاتی ہے عاشق کو یادِ مدینہ

اللہ پاک ہمیں بار بار مدینہ طیبہ کی با ادب ، با ذوق ، با شوق حاضری نصیب فرمائے اور اے کاش !حبیبِ خدا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہی کے شہر مقدسہ میں ہمیں مدفن نصیب ہوجائے ۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اسلامی تاریخ کے لحاظ سے مدینہ منورہ دوسرا بڑا اسلامی مرکز اور تاریخی شہر ہے ۔مدینہ طیبہ ایسا بابرکت مقام ہے کہ جو وہاں جاتا ہے اس کو واپس آنے کو دل ہی نہیں چاہتا ۔مدینہ طیبہ میں وہ دلی سکون ملتا ہے دنیا کے بڑے سے بڑے مقام میں نہیں ملتا اور  ایسا کیوں نہ ہو کہ وہاں ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا روزہ مبارک اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے منسوب بہت سی یادگار چیزیں ہیں۔یہی وہ مقدس مقام ہے جہاں جینا بھی سعادت ہے اور مرنا بھی سعادت ۔اس مقام کی شان و عظمت کا کیا کہنا جیسا کہ وادی طویٰ انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کی گزرگاہ ہے جبکہ مدینہ سید الانبیا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی رہائش گاہ، وادیِ طویٰ میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام سے خطاب ہوتا ہے اور مدینہ میں حبیب اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے ،حضرت موسی علیہ السلام وادی ِطویٰ تشریف لائے جبکہ آخری نبی محمد عربی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینہ پاک ہجرت کا حکم دیا گیا ۔الغرض مدینہ پاک کی شان وعظمت بیان کرنا ہمارے بس کا کام نہیں ۔شہنشاہِ سخن مولانا حسن رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :

بنا شہ نشین خسرو دوجہاں کا بیاں کیا ہو عزو وقار مدینہ

شرف جن سے حاصل ہوا انبیا کو وہی حسن افتخار مدینہ

(ذوق نعت، ص212)

یثرب سے مدینہ :

لغت میں یثرب کے معنی ملامت ،فساد اور خرابی ہیں ۔قبل از اسلام شہرِمدینہ یثرب کہلاتا تھا ۔جیسا کہ ایک مرتبہ نبیِّ پاک ،رؤفٌ رَّحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف(ہجرت) کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(یعنی سب پر غالِب آئے گی)لوگ اسے یَثرِب کہتے ہیں حالانکہ وہ مدینہ ہے،(یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹّی لوہے کے مَیل کوصاف کر دیتی ہے۔

(مشکا ۃ المصابیح،کتاب المناسک،باب حرم المدینۃ…الخ ،2/509، حدیث: 2737)

حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خانرحمۃ اللہ علیہاس حدیث ِ مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:کھا جانے کے معنی یہ ہیں کہ یہاں کے لوگ تمام ملکوں کو فتح کریں گے اور ان کے مال اور خزانے مدینے میں پہنچ جائیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ شام،فارس اور رُوم کے خزانے مدینےپہنچے(مزید فرماتے ہیں :)مدینۂ منورہ کے نام سو (100)سے بھی زیادہ ہیں:طیبہ،طابہ، بطحٰے، مدینہ،اَبْطَح وغیرہ۔ہجرت سے پہلے لوگ اسے یثرِب کہتے تھے ، اس لیے کہ یہاں قومِ عَمَالِقَہ کا جو پہلا آدمی آیا اس کا نام یثرِب تھا۔حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جو مدینۂ منورہ کو یثرب کہے وہ توبہ کرے۔حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جو ایک بار اسے یثرب کہے وہ بطورِ کفّارہ دس(10)بار مدینہ کہے۔صُوفیا رحمۃ اللہ علیہم اَجْمَعِیْنفرماتے ہیں:اگر کوئی خبیث وہاں مر کر دفن بھی ہوجائے تو فرشتے وہاں سے اس کی نعش کسی دوسری جگہ منتقل کردیتے ہیں اور اگر کوئی وہاں کا عاشق دوسری جگہ دفن ہوجائے تو اس کی نعش مدینَۂ منورہ پہنچادیتے ہیں۔(مرآۃ ُ المناجیح،4/216:215ملخصاً و ملتقطا)

مدینہ طیبہ کے دس فضائل :

مدینہ منورہ کے بے شمار فضائل و خصوصیات ہیں جن میں سے دس فضائل ذکر کئے جاتے ہیں :

1:مدینہ میں جینا حصولِ برکت اور مَرنا شفاعت پانے کا ذریعہ ہے چنانچہ رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد ہے:جو مدینے میں مَرسکے وہ وَ ہیں مَرے کیونکہ میں مدینے میں مَرنے والوں کی شَفاعت کروں گا۔

( ترمذی ، 5 / 483 ، حدیث : 3943)

2: خاکِ مدینہ کو شفا قرار دیا ہے چنانچہ،جب غزوۂ تَبوک سے واپس تشریف لارہے تھے تو تبوک میں شامل ہونے سے رہ جانے والے کچھ صحابۂ کرام علیہم الرضوانملے انہوں نے گرد اُڑائی،ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی آپ نے اس کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قُدرَت میں میری جان ہے!مدینے کی خاک میں ہربیماری سےشفاہے۔(جامع الاصول،9/297، حدیث:6962)

3: مسجد ِنبوی شریف میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔

(ابن ماجہ ج2 ،ص176، حدیث1413)

4:رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو ارادۃ ًمیری زیارت کو آیا وہ قیامت کے دن میری حفاظت میں رہے گا،جو مدینہ میں رہائش اختیار کرے گا اور مدینے کی تکالیف پر صبر کرے گا تو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا اور جو حرمین( مکہ یا مدینہ) میں سے کسی ایک میں مرے گا اللہ پاک اس کو اس حال میں قبروں سے اٹھائے گا کہ وہ قیامت کے خوف سے امن میں رہے گا۔

(مشکاۃ المصابیح ،1/ 512، حدیث2755)

5:رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جس نے میری قبر کی زیارت کی اس پر میری شفاعت واجب ہوگئی۔ (دار قطنی، کتاب الحج،2/ 351 حدیث2669 )

6:مدینے کی حفاظت پر فرشتے معمور ہیں چنانچہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا : اُس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اُس پر دو فِرشتے ہیں جو اِس کی حفاظت کر رہے ہیں۔(مسلم ، ص548 ، حدیث : 1374)

7:فرشتوں کے ذریعہ طاعون اور دجال سے مدینے کی حفاظت:على أنقابِ المدينۃ ملائكۃ ، لا يدخُلُها الطاعونُ ، ولا الدجالُ(صحيح البخاری:7133)ترجمہ:مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ تو طاعون اور نہ ہی دجال داخل ہو سکتا ہے۔

8: نبیِّ پاک،رؤفٌ رَّحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ دلنشین ہے:(قیامت میں جب سب کو قبروں سے اُٹھایا جائے گا)سب سے پہلے میری پھر ابو بکر و عمر (رضی اللہ عنہما)کی قبریں شَق ہوں گی،پھر میں جنّت البقیع والوں کے پاس جاؤں گا،تو وہ میرے ساتھ اکٹھے ہوں گے،پھر میں اہل ِمکہ کا انتظار کروں گا حتّٰی کہ حرمینِ شریفین کے درمیان انہیں بھی اپنے ساتھ کر لوں گا۔(ترمذی،ابواب المناقب، باب  (م: تابع17، ت:56)…الخ،5/388،حدیث:3712)

9:مکۂ مکرمہ اور مدينَۂ منورہ کے علاوہ کوئی شہر ايسا نہيں جسے عنقريب دَجّال روندتا ہوا نہ جائے، جبکہ ان شہروں کے ہر راستے پر فرشتے صفیں باندھے پہرہ دے رہے ہوں گے،لہٰذا وہ ایک دلدلی زمین پر پڑاؤ ڈالے گا پھر شہرِ مدینہ3 مرتبہ لرزے گا تو اللہ پاک کفر و نفاق میں مبتلا ہر شخص کو وہاں سے نکال دے گا۔

( بخاری،کتاب فضائل المدینۃ،باب لاید خل الدجال المدینۃ ،1/ 619،حدیث: 1881)

10:جو حج کے ارادے سے نکلے اور مرجائے اس کے لئے قیامت تک حج کرنے والے کا ثواب لکھا جاتا رہے گا اور جو عمرے کے ارادے سے نکلے اور مرجائے اس کے لئے قیامت تک عمرہ کرنے والے کاثواب لکھا جاتا رہے گااور جو جہاد کے ارادے سے نکلے اور مر جائے تو اس کے لئے قیامت تک جہاد کرنے والے کاثواب لکھا جائے گا۔(الترغیب والترہیب ،کتا ب الحج ، باب التر غیب فی الحج والعمرۃ …الخ، 2/79، رقم:1718)اللہ پاک سے دعا ہے کہ جب تک ہم زندہ رہیں عشق ِرسول میں گم رہیں اوریادِ مدینہ کرتی رہیں۔اللہ پاک ہمیں مدینہ کی سچی تڑپ نصیب فرمائے۔ آمین

اے کاش! مدینے میں مجھے موت یوں آئے چوکھٹ پہ تِری سر ہو مری روح چلی ہو


الحمد للہ  ذکرِ مدینہ عاشقانِ رسول کے لئے باعثِ راحت و سکون ہے۔دنیا کی جتنی زبانوں میں جس قدر قصیدے مدینہ پاک کے ہجر و فراق اور اس کے دیدار کی تمنا میں پڑھے جاتے ہیں،اتنے دنیا کے کسی اور شہر یا خطے کے لئے نہیں پڑھے گئے ۔مدینہ پاک کے علمائے کرام نے کم و بیش 100 نام لکھے ہیں اور دنیا کے کسی بھی شہر کے اتنے نام نہیں جنتے مدینہ کے ہیں جیسے طابہ،طیبہ، وغیرہ ہجرت سے پہلے لوگ اسے یثرب کہتے تھے اس لیے کہ یہ لفظ ثرب سے مشتق ہے : بمعنی سرزنش ، مصیبت و بلا ۔

پیاری بہنو! آیئے! مدینہ منورہ کے فضائل پر مشتمل احادیثِ مبارکہ پڑھئے!

1)فرمانِ نبی:جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے،مدینہ طابہ ہے،مدینہ طابہ ہے۔

( فتاویٰ رضویہ جلد 21 صَفْحَہ116)

2)فرمان ِ آخری نبی:’’تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی اِستِطاعت رکھے وہ مدینے ہی میں مرے کیونکہ جو مدینے  میں مرے گا میں اُس کی شَفاعت کروں گا اور اُس کے حق میں گواہی دوں گا۔“

(شعب الایمان،ج3/ 497حدیث1482)

3) فرمانِ نبی:مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فِرِشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجّال داخل نہ ہوں گے۔( بُخاری ج1 ص619حدیث 1880)

4)فرمانِ نبی: الٰہی !جو برکتیں تو نے مکہ مکرمہ میں دی ہیں اس سے دو گنی برکتیں مدینہ میں رکھ دے۔

(مسلم، بخاری۔ مراۃ المناجیح،باب حرم مدینہ معظمہ)

5)فرمانِ رسولِ عربی:’’اُس ذات کی قسم !جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اُس پر دو فِرشتے ہیں  جو اِس کی حفاظت کررہے ہیں۔

( مسلم ص714 حدیث1374)

6) فرمانِ نبی:مدینے والوں کے ساتھ جو بھی مکر کرے گا وہ یوں پگھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔(نزھۃ القاری شرح صحیح بخاری،ج3،حدیث1095)

7) فرمانِ رسولِ ہاشمی: اس ذات کی قسم !جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ! مدینے کی خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔(جامع الاصول للجزری ج9ص297حدیث6962)

8) فرمانِ آخری نبی:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت)کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی (سب پر غالِب آئے گی لوگ اسے”یَثرِب“کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے،(یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹّی لوہے کے مَیل کو۔(بخاری حدیث1871،  ج1،  ص617)

9)فرمانِ نبی: اسلام کی بستیوں میں سے آخری بستی جو ویران ہوگی وہ مدینہ ہے۔ (ترمذی ،مراۃ المناجیح،باب حرم مدینہ معظمہ)

شرحِ حدیث:

٭قریبِ قیامت بڑی بڑی بستیاں ویران ہوجائیں گی مگر مدینہ پاک آباد رہے گا۔یہ (شہر) بالکل قیامت سے متصل ویران ہوگا۔ ٭ عالَم کی آبادی مدینہ پاک کی آبادی سے وابستہ ہے جب یہ اجڑ گیا دنیا اجڑ جائے گی قیامت آجائے گی۔

10)حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب سفر سے آتے اور مدینہ پاک کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز فرمادیتے اگر گھوڑے پر ہوتےتوسے ایڑی لگاتے اس (مدینے) کی محبت کی وجہ سے۔(بخاری،مراۃ المناجیح،باب حرم مدینہ معظمہ)

یہ آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی مدینہ پاک سے محبت کا انداز تھا اسی محبت کا اثر ہے کہ مسلمان مدینہ پر دل و جان سے فدا ہیں کیونکہ یہ (شہرِ مدینہ )محبوبصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا محبوب ہے ۔


الحمد للہ پاک دنیا میں ایک ایسی بستی ہے جس کی یاد عشاق کے دل و دماغ کی فرحت کا باعث بنتی ہے۔ جس کے دیدار کے لئے عشاق مشتاق رہتے اور اس کے فراق میں بے قرار رہتے ہیں۔ اس بستی کی فرقت و جدائی اور زیارت کی تمنا میں جس قدر قصیدے پڑھے گئے اور پڑھے جاتے ہیں اتنے دنیا کے کسی اور خطے کے لئے نہیں پڑھے گئے اور نہ ہی پڑھے جاتے ہیں۔

جی ہاں! اس بستی سے مراد میرے اور آپ کے دلوں کا سُرور مدینہ الرسول ہے۔زمانہ جہالیت میں مدینہ پاک کا نام یَثْرَب تھا۔سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ رکھا جیسا کہ

حدیثِ پاک ہے:مجھے ایک بستی کی طرف (ہجرت) کا حکم ہوا خو تمام بستیوں کو کھا جائے گی (سب پر غالب آئے گی) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے۔ (یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹی لویے کے میل کو۔(صحیح البخاری حدیث 1871،ج 1، ص 617)

فتاوی ٰرضویہ جلد 21 صفحہ 116 پر ہے:مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے والا گنہگار۔

مدینہ پاک کے اتنے فضائل ہیں کہ جن کا احاطہ ممکن نہیں۔ مگر برکت حاصل کرنے کے لئے مدینہ کے 10 فضائل پیشِ خدمت ہیں:

1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:مدینہ منورہ کے دونوں  پتھریلے کناروں کے درمیان کی جگہ کو میری زبان سے حرم قرار دیاگیا ہے۔

( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، باب حرم المدینۃ، 1 / 616، حدیث: 1869)

2۔حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:سیّد المرسَلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنے دست ِ اَقدس سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:’’ بے شک یہ حرم ہے اور امن کا گہوارہ ہے۔

( معجم الکبیر، باب السین، یسیر بن عمرو عن سہل بن حنیف، 6 / 92، حدیث: 5611)

3۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ پاک!جتنی برکتیں مکہ میں نازل کی ہیں ا س سے دگنی برکتیں مدینہ میں نازل فرما۔

( بخاری، کتاب فضائل المدینۃ، 11:باب، 1 / 620، حدیث: 1885)

4۔حضرت عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

( بخاری، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ، باب فضل ما بین القبر والمنبر، 1 / 402، حدیث: 1195)

5۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،حضورِ اَقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ جس کو مدینہ منورہ میں  موت آسکے تو اسے یہاں  ہی مرنا چاہئے،کیونکہ میں  یہاں  مرنے والوں  کی(خاص طور پر)شفاعت کروں گا۔( ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5 / 483، حدیث: 3943)

6 ۔اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔

7 ۔اللہ پاک کے پیارے اور آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اس پر دو فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ (مسلم ص 714 حديث 1374)

8 ۔نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے کا فرمان ہے: میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع ہوں گا۔ (مسلم ص 716 حديث 1378)

9 ۔سرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:جو ارادۃ میری زیارت کو آیا وہ قیامت کے دن میری محافظت میں رہے گا اور جو مدینے میں رہائش اختیار کرے گا اور مدینے کی تکالیف پر صبر کرے گا تو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا۔ (مشکوۃ المصابیح ج 1 ص 512 حدیث 2755)

10۔پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ضرور ایسا آئے گا کہ لوگ خوشحالی کی تلاش میں یہاں سے چرا گاہوں کی طرف نکل جائیں گے، پھر جب وہ خوشحالی پا لیں گے تو لوٹ کر آئیں گے اور اہلِ مدینہ کو اس کشادگی کی طرف جانے پر آمادہ کریں گے حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔

(مسند امام احمد بن حنبل ج 5 ص 106 حديث 14676)

اللہ پاک ہمارا سینہ عشقِ مدینہ و غمِ مدینہ معمور فرمائے اور ہمیں مدینہ پاک کی بادب حاضری نصیب فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


مدینہ منورّہ  کے القابِ مبارکہ

مدینہ منورّہ کے القابِ مبارکہ کثرتِ اسمائے شرف و عظمت پر دلیل ہے۔ جس طرح کثرتِ اسمائےالہٰی اور القاب حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اس پر دلیل ہیں۔سوائے مدینہ منورّہ کے ایسا کوئی شہر نہیں ہے جس کے اتنے کثرت کے ساتھ نام ہو جتنے اس پاک شہر کے ہیں۔

علما محققین نے اس کے پچانوے(95) نام بتائے ہیں ان میں سے چند نام پیش کیے جاتے ہیں جو اس کے شرف و کرامت پر دلالت کرتے ہیں جو محبوبِ خدا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی احادیث سے ثابت ہیں:طابہ، طیبہ، طائبہ،جابرہ و جبارہ، جزیرۃ العرب،مجبورہ،محبّہ و حبیبہ،حرم وحرم رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم، حسنہ، شافیہ، دارالایمان، المسکینہ، الدار،دارالاخیار،البلد، اُلجُنّۃ،مدینۃ الرسول،دارالسنۃ،دارالاسّلام،دارالابرار،عاصمہ، مبارکہ، مسکیہ،المبارکہ،مرزوفہ،محفوظہ،المحبّبہ،محروسہ، قبّۃ الاسلام،ناجیہ،الغرّاء،المدینہ۔

(سبل الہدیٰ، جلد3ص 414 تا 426)

یثرب سے مدینہ:

یثرب کا معنی ہے: بیماریوں کا مرکز چونکہ یثرب بیماریوں کا مرکز تھا اس کا پانی کڑوا تھا اور زمین بنجر تھی لیکن پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی تشریف آوری سے اس کا پانی میٹھا ہوگیا زمین آباد ہوگئی اور یثرب مدینہ بن گیا جو پہلے دارالوباءتھا دارلشفا بن گیا ایسا دارلشفا جس کے گردوغبار میں بھی شفا ہے جس میں ہر بیماری کے لئے شفا ہے۔

جن کی آمد سے یثرب مدینہ بنا ان کے قدموں کی برکت پر لاکھوں سلام

مدینے کو یثرب نہ کہو!

مدینہ منورّہ کو یثرب نہ کہا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینے کو یثرب کہنے سے سختی سے منع فرمایا:حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:من سمی المدینۃ بیثرب فلیستغفر اللہ ھی طابۃ ھی طابۃ ھی طابۃ۔(سبل الہدیٰ جلد3، ص 427)جس نے مدینہ کو یثرب نام سے پکارا تو وہ اللہ پاک سے مغفرت طلب کرے کیونکہ وہ (مدینہ وبائی امراض سے) پاک ہے، پاک ہے، پاک ہے۔

اس سے معلوم ہوا!مدینے کو یثرب کہنا حرام ہے کیونکہ اس پر استغفار کا حکم فرمایا اور استغفار گناہ سے ہی ہوتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:من قال للمدینۃ يثرب فكفَّارته ان يَّقول المدينۃ عشر مرَّاتیعنی جو (غیر ارادی طور پر) مدینہ کو یثرب کہ بیٹھے اسے کفارے کے طور پر دس(10)مرتبہ مدینہ کہنا چاہئے۔(کنزالعمال، کتاب الفضائل، فضائل الامکنۃ و الازمنۃ، فضائل المدینہ.....الخ الجز 6، 12/ 116، حديث 34938)

مدينہ منورّه كےدس(10)فضائل:

1: رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:اَنَا اُحَرِّمُ المَدِینَۃمیں مدینہ کو حرم بناتا ہوں۔

(الجامع الکبیر 2ص97)

2:رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:ان غبارھا شفا من کل داء (خلاصۃالوفاء)مدینے کا غبار ہر بیماری کا علاج ہے۔

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے اٹھا لے جائے تھوری خاک اُن کے آستانے سے

3:رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:المدینۃ خیر من مکۃ ( الوفاء الوفاء ج 1 ص 37)مدینہ شریف مکہ شریف سے افضل ہے۔

جس شہر کے کانٹوں میں پھولوں کا قرینہ ہے وہ شہرِ مدینہ ہے وہ شہرِ مدینہ ہے

4:حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضورِ اکرم ،نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنے دستِ اقدس سے مدینہ منورّہ کی طرف اشارہ کرکے فرمایا :بے شک یہ حرم ہے اور امن کا گہوارہ ہے۔

(معجم الکبیر، باب السین، یسیر بن عمرو عن سہل بن حنیف، 6 /92، حدیث  5611)

5: حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا: جو اہلِ مدینہ کے ساتھ فریب کرے گا وہ ایسے گھل جائے گا جیسے نمک پانی میں گھلتا ہے۔

( بخاری کتاب فضائل المدینہ، باب اثم من کا داہل المدینہ، 1 / 618،حدیث 1877)

6:صحیح مسلم و ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ،رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: مدینے کی تکلیف وشدّت پر میری امت میں سے جو کوئی صبر کرے قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا۔(صحیح مسلم، کتاب الحج ، باب الترغیب فی سکنی المدینۃ... الخ، حدیث 1378،ص 716)

7: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا :جو اہلِ مدینہ کو ایذا دے گا اللہ پاک اسے ایذا دے گا اور اس پر اللہ پاک اور فرشتوں اور تمام آدمیوں کی لعنت اور اللہ پاک اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا نہ نفل۔

( مجمع الزوائد، کتاب الحج، باب فیمن اخاف اہل المدینۃ واراد ہم بسوء، 3/ 659، حدیث5826)

8:حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دعافرمائی:اے اللہ پاک!جتنی برکتیں مکہ میں نازل کی ہیں اس سے دگنی برکتیں مدینے میں نازل فرما۔

(بخاری کتاب فضائل مدینہ 11۔باب، 1 / 260 ، حدیث1885)

9:رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:علی انقاب المدینۃ ملائکۃ تحر سونھا لا یدخلھا الطاعون والدجال (بخاری ج 1 ص252)مدینہ کے راستوں پہ فرشتے مقرر ہیں اس شہر میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوسکتے(فرشتے ان کو داخل ہونے نہ دیں گے)۔

سبحان اللہ! سبحان اللہ! مدینے شریف کی عظمت و شان کی تو کیا ہی بات ہے کہ اس مبارک بستی میں نہ تو دجال داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی طاعون جیسی مہلک بیماری کیونکہ مدینے راہوں پر اللہ پاک کی طرف سے اس کے معصوم فرشتے مقرر ہیں جو ہرگز ہرگز شہرِ مدینہ کے اندر طاعون اور دجال کو داخل ہونے نہ دیں گے۔

ساری دولت خدا کی مدینے میں ہے ساری رحمت خدا کی مدینے میں ہے

10:حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:قال رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممن استطاع ان یّموت بالمدینۃ فلیمت بھا فانّی اشفع لمن یّموت بھارسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جس کے لئے ممکن ہو کہ مدینہ میں مرے تو اسے مدینہ میں مرنا چاہئے کیونکہ جو مدینہ میں وفات پائے گا میں اس کی(خاص طور پر) شفاعت کروں گا۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینۃ، 5 / 483، حدیث 3943)

اعلٰی حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے

عشقِ مدینہ:

مدینہ منورّہ کی بھی کیا ہی بات ہے! اس کی فضیلت کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ اس میں نبیوں کے سردار ،وجہِ تخلیقِ کائنات ،رحمۃ اللعٰلمین،شفیع المذنبین،خاتم النبین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجلوہ فرما ہیں۔جس شہر میں محبوبِ ربِ اکبر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمتشریف فرما ہوں اس کی برکتوں اور رحمتوں کہ کیا ہی کہنے! مدینہ منوره مرکزِ کرم، مرکزِ ہدایت، مرکز ِمحبت ہے۔ اس کی ایک دید کے لئے عشاق ٹرپتے ہیں، ساری عمر بلاوے کا انتظار کرتے ہیں، دیدار کے بعد بار بار ایسی مبارک معطر مطہر جگہ کے دیدار کی آرزو میں رو رو کر اپنے دن گزارتے ہیں۔

کہاں کوئی روتا ہے جنت کی خاطر رلاتی ہے عاشق کو یادِ مدینہ

اور عاشقِ مدینہ کیوں نہ تڑپے کہ اس شہر کا ذرہ ذرہ آفتابِ نبوت کے نور سے روشن ہے جس کا گوشہ گوشہ خوشبوئے رسول سے مہک رہا ہے یہاں گنبد خضریٰ ہے جو اہلِ ایمان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کا سرور ہے جس کی محبت دراصل حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی محبت ہے جس کے بغیر ایمان کامل نہیں۔

جس خاک پہ رکھتے ہیں قدم سید ِعالم اس خاک پہ قرباں دلِ شیدا ہے ہمارا

اللہ پاک ہم سب کو باآدب حاضریِ مدینہ کی سعادت عطا فرمائے۔آمین


مدینہ منورہ کی فضیلت و اہمیت:

پیاری اسلامی بہنو!مدینے شریف کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جس پیارے پیارے آقا،مکی مدنی مُصْطَفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے ہم بے پناہ محبت کرتی ہیں ،خود وہ آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینے سے بہت محبت کیا کرتے ہیں،لہٰذا محبتِ رسول کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی نہ صرف میٹھے  مدینے کی محبت بلکہ مدینے کے کُوچہ و بازار کی محبت ،وہاں کے گلشن و کوہسار کی محبت،اس کے در و دِیوار کی محبت،اس کے پُھول حتی کہ اس کے خار تک کی محبت اپنے دل میں بسائے  رکھیں،اس کی یاد میں تڑپیں اور اس کی باادب حاضری کی نہ صرف آرزو کریں بلکہ اللہ پاک سے اس کی دُعائیں بھی مانگیں۔

غریب جائے کہاں یا ربّ تڑپتی رُوح کو لے کر تجھے محبوب کاصدقہ تُو پہنچا دے مدینے میں

صلوا علی الحبیب! صلی اللہ علی محمد

  یاد رکھئے! محبت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جس سے محبت کی جائے، اس سے نسبت رکھنے والی چیزوں سے بھی محبت کی جائے اور بالخصوص جس سے محبوب کو محبت ہو،اس سے تو انتہائی محبت و عقیدت رکھی جائے۔ حضورِ اکرم،نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینے کی سرزمین سے کس قدر محبت تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ  آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماگر کبھی مدینے سے باہر سفر کو جاتے تو واپسی پر مدینے کے در و دیوار دیکھتے ہی جلد سے جلد وہاں قدم رنجا فرمانے کی کوششیں کِیا کرتے تھے۔چنانچہ

حدیثِ پاک میں ہے :نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب سفر سے آتے اور مدینۂ پاک کی دیواروں کودیکھتے تو مدینےسے محبت کی وجہ سے اپنی سواری کو تیز فرما دیتے اور اگر گھوڑے پر ہوتے تو اسے اَیڑ لگاتے۔

(بخاری ،کتاب فضائل المدينہ،11:باب ،1 /620، حديث: 1886)

حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:حضورِ انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینۂ پاک اتنا پیارا تھا کہ ہر سفر سے واپسی میں یُوں تو معمولی رفتار پر جانور چلاتے تھے مگر مدینۂ پاک کو دیکھتے ہی وہاں جلد پہنچ جانے کے لیے سواری تیز فرمادیتے تھے،اسی محبت کا اثر ہے کہ مسلمان مدینے پر دل و جان سے فِدا ہیں کیونکہ یہ محبوب کا محبوب ہے۔ (مرآۃ المناجیح،4/219)

مدینہ اس لیے عطاؔر جان و دِل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں مِرے آقا مِرے سرور مدینے میں

(وسائلِ بخشش مُرمّم،ص283)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                 صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

احادیثِ مبارکہ:

حضور ِانورصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مدینہ منورہ کو بے حد محبوب رکھتے تھے۔ جب کبھی سفر سے واپس ہوتے تو چہرۂ مبارک پر خوشی کے آثار ظاہر ہوتے اپنی چادر کو بازو سے ہٹادیتے اور چہرۂ مبارک کو صاف نہیں فرماتے۔نیز ارشاد فرماتے: ’’مدینہ کی خاک میں شفا ہے‘‘۔

حضورصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :’’مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری امت میں سے جو کوئی صبر کرےگا قیامت کے دن میں اس کا شفیع رہوں گا‘‘۔ (مسلم وترمذی)

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں لوگ جب شروع شروع کے پھل لے کر حاضر ہوتے تو آپ اس کو لے کر فرماتے:’’الٰہی! تو ہمارے لئے ہمارے کھجوروں میں برکت دے اور ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں برکت دے‘ ہمارے صاع و مد میں برکت فرما۔ یااللہ پاک! بے شک حضر ت ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور بے شک میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں ۔انہوں نے مکہ کے لئے تجھ سے دعاکی اور میں مدینہ کیلئے تجھ سے (خیر و برکت کی) دعا کرتا ہوں کہ انہیں بھی مکہ والوں جیسی برکت (عطا) فرما اور مکہ والوں کو جہاں ایک برکت دی تو مدینہ والوں کو اس کے برابر دو دو برکتیں عطافرما‘‘۔ (مسلم شریف)

یثرب سے مدینہ بننے کی مختصر تحقیق:

یثرب مدینہ منورہ کا پرانا نام تھا ،اس کا مطلب ہلاکت و بیماری ہے ۔ رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس کا نام بدلا تو پہلے مدینہ پھر مدینتہ النبی اور پھر مدینہ منورہ ہوا۔مدینہ منورہ کو یثرب کہا گیا ہے لیکن اس کے بعد اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس نام کو ناپسندفرمایا۔ اس کے بجائے طیبہ، طابہ اور مدینہ نام رکھے گئے۔چنانچہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہنے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت  کی ہے ،انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو فرماتے ہوئے سنا:إنَّ اللّٰهَ تَعَالٰى سَمَّى الْمَدِيْنَۃ طَابَۃاللہ پاک نے مدینہ کا نام طیبہ رکھا ہے۔ (صحيح مسلم، الحج، باب المدينۃ تنفي خبثها وتسمّى طابۃ وطيبۃ، حديث: 1385)اس حدیث کو  اسی سند اور متن کے ساتھ ابنِ ابی شیبہ نے بھی روایت کیا ہے، دیکھیے:( تاريخ المدينۃ: 1/164)) 

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:إِنَّهَا طَيْبَۃ يَعْنِي الْمَدِيْنَۃ وَإِنَّهَا تَنْفِي الْخَبَثَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّۃمدینہ طیبہ ہے۔یہ گندگی کو(یوں)دور کرتا ہے جیسے آگ چاندی کا میل کچیل دور کردیتی ہے۔ ((صحيح مسلم، الحج، باب المدينۃ تنفي خبثها وتسمى طابۃ و طيبۃ، حديث: 1384))

حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث ِ مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:کھا جانے کے معنی یہ ہیں کہ یہاں کے لوگ تمام ملکوں کو فتح کریں گے اور ان کے مال اور خزانے مدینے میں پہنچ جائیں گے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ شام،فارس اور رُوم کے خزانے مدینےپہنچ۔مزید فرماتے ہیں:مدینۂ منورہ کے نام سو  (100)سے بھی زیادہ ہیں،طیبہ،طابہ، بطحٰے، مدینہ،اَبْطَح وغیرہ،ہجرت سے پہلے لوگ اسے یثرِب کہتے تھے ،اس لیے کہ یہاں قومِ عَمَالِقَہ کا جو پہلا آدمی آیا اس کا نام یثرِب تھا۔حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :جو مدینۂ منورہ کو یثرب کہے وہ توبہ کرے۔حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جو ایک بار اسے یثرب کہے وہ بطورِ کفّارہ دس (10بار مدینہ کہے۔صُوفیا رحمۃ اللہ علیہم اَجْمَعِیْن فرماتے ہیں:اگر کوئی خبیث وہاں مر کر دفن بھی ہوجائے تو فرشتے وہاں سے اس کی نعش کسی دوسری جگہ منتقل کردیتے ہیں اور اگر کوئی وہاں کا عاشق دوسری جگہ دفن ہوجائے تو اس کی نعش مدینَۂ منورہ پہنچادیتے ہیں۔

پیاری اسلامی بہنو!بیان کردہ حدیثِ پاک اور اس کی شرح سے معلوم ہوا! جس طرح زنگ آلود لوہا اگر بھٹی میں ڈال دیا جائے، پھر مقررہ وقت پر اسے نکالا جائے تو اس پر میل کچیل کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا،اسی طرح مدینۂ طیبہ بھی اپنی پُر کیف فضاؤں میں آنے والوں کو صاف سُتھرا کردیتا ہے،لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے پاک پروردگار سے بار بار وہاں جانے بلکہ وہاں پر دفن ہونے کی بھیک طلب کرتے رہیں کہ ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑی اور کیا سعادت کی بات ہوسکتی ہے کہ اللہ پاک اسے اپنے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے محبوب شہر یعنی مدینۂ منورہ میں موت اور ہزاروں صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے وجودِ مسعود کے فیوض و برکات سے مالا مال بقیعِ پاک میں دفن ہونے کی نعمت عطا  فرمادے کہ وہاں پر مرنا اور جنت البقیع میں دفن ہوجانا مقدر والوں کا ہی حصہ ہے۔

نبیِّ پاک ،رؤفٌ رَّحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ دلنشین ہے :(قیامت میں جب سب کو قبروں سے اُٹھایا جائے گا) سب سے پہلے میری پھر ابو بکر و عمر (رضی اللہ عنہما)کی قبریں شَق ہوں گی، پھر میں جنّت البقیع والوں کے پاس جاؤں گا،تو وہ میرے ساتھ اکٹھے ہوں گے،پھر میں اہل ِمکہ کا انتظار کروں گا  حتّٰی کہ حرمینِ شریفین کے درمیان انہیں بھی اپنے ساتھ کر لوں گا۔(ترمذی،ابواب المناقب، باب  (م: تابع17، ت:56)…الخ،5/388،حدیث:3712)

عاشقِ مدینہ،امیرِ اہل ِسنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ مدینے پاک میں مرنے اور بقیع ِپاک میں دفن ہونے کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے نعتیہ دیوان”وسائلِ بخشش “میں لکھتے ہیں :

عطا کر دو عطا کر دو بقیعِ پاک میں مدفن     مِری بن جائے تُربت یا شہِ کوثر مدینے میں

(وسائلِ بخشش مرمم،ص283)

پیاری اسلامی بہنو!حدیثِ پاک سے ہمیں یہ مدنی پھول بھی حاصل ہوا کہ مدینے شریف کو یثرِب کہنا منع ہے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم یہ لفظ بولنے اور لکھنے سے بچیں۔افسوس ! اب جہالت کا دور دورہ ہے، بعض نادان مسلمان علمِ دین سے دُوری کی بِنا پر مدینے پاک کا ذکرِ خیر کرنے کے لئے قرآن و حدیث میں بیان کردہ ناموں کے بجائے لفظِ یثرِب لکھتے اور پڑھتے ہیں،حالانکہ لفظِ یثرِب اپنے معنی کے اعتبار سے کسی بھی طرح مدینے شریف کے شایانِ شان نہیں،جیساکہ حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :یثرِب کا معنی ہے: مصیبت و آفات کی جگہ،چونکہ پہلے یہ جگہ بڑی بیماریوں والی تھی اس لیے یثرِب کہلاتی تھی،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی برکت سے طَیْبَہ یعنی صاف کی ہوئی زمین ہوگئی اب وہ جگہ بجائے دارُالوَباء(یعنی مقامِ مصیبت) کے دارُالشفا بن گئی۔(مرآۃ المناجیح،6/294)

عاشقانِ رسول کے لئے اس لفظ سے بچنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے میٹھے میٹھے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنے پاکیزہ شہر کو یثرب کہنے سے منع فرمایاہے جیساکہ پیارے آقا،مکی مدنی مُصْطَفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مَنْ قَالَ لِلْمَدِيْنَۃ يَثْرِبَ فَكَفَّارَتُهُ اَنْ يَّقُوْلَ الْمَدِيْنَۃ عَشَرَ مَرَّاتٍ یعنی جو (غیر ارادی طور پر) مدینے کو یثرِب کہہ بیٹھے اسے کفاّرے کے طور پر دس(10)مرتبہ مدینہ کہنا چاہئے۔

مدینے شریف کو یثرِب کہنا تو اس قدر بُرا ہے کہ عُلمائے کرام نے مدینَۂ طیبّہ کو یثرِب کہنا ناجائز و گناہ قرار دِیا ہے چنانچہ

اعلیٰ حضرت،امامِ اہلِ سنت مولانا شاہ امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں: مدینۂ طیِّبہ کو یَثرِب کہنا ناجائز و ممنوع اور  گناہ ہے اور کہنے والا گنہگار ہے۔نیز رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:

جو مدینے کویَثرِب کہے اُس پر توبہ واجِب ہے،مدینہ طابہ ہے،مدینہ طابہ ہے۔علّامہ مُنَاوِی(حدیثِ پاک کی مشہور کتاب )جامعِ صغیر کی شرح میں فرماتے ہیں:اِس حدیث سے معلوم  ہوا ! مدینَۂ طیِّبہ کایَثرِب نام رکھنا حرام ہے کہ یَثرِب کہنے سے توبہ کا حکم فرمایا اور توبہ گناہ ہی سے ہوتی ہے۔(فتاویٰ رضویہ،21/116بتغیر قلیل)

محفوظ سدا رکھنا شہا! بے اَدَبوں سے اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے اَدَبی ہو

(وسائلِ بخشش مُرَمَّم،ص315)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:عَلٰى أَنْقَابِ الْمَدِيْنَۃ مَلٰئِكَۃ لَّا يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ وَلَا الدَّجَّالُمدینہ کے دروازوں پر فرشتے مقرر ہیں۔اس میں نہ طاعون داخل ہوگا اور نہ دجال۔((صحيح البخاري، الفتن، باب: لايدخل الدجال المدينۃ: 7133)) 

قرآن ِکریم میں سورۂ احزاب کی آیت نمبر 13 میں لفظ یثرب ، منافقین کے قول کے طور پر آیا ہے:وَاِذْقَالَتْ طَّآ ءِفَۃٌ مِّنْھُمْ یٰٓاَھْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمْ(اور جب کہ ان(منافقوں)کی ایک پارٹی(یعنی اوس بن قبطی اور اس کے ساتھیوں ) نے کہا۔اے یثرب والو!(یہاں) تمہارے قیام کا کوئی موقع نہیں۔

رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمبرے مطلب والے ناموں کو بدل دیا کرتے تھے ۔ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے نہ صرف یثرب کا نام بدلا بلکہ اسے یثرب کہنے سے منع بھی فرمایا ۔ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ہیں:یقولون یثرب و ھی المدینۃلوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ یہ مدینہ ہے ۔

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مدینہ کو یثرب کہنا اس لیے پسند نہیں فرمایا کیوں کہ یثرب کا لفظ ثَرَبَہٗ ، یَثْرِبُہاور ثَرَّ بَہٗ اور ثَرَّبَ عَلَیْہ اور اَثَرَبَہٗ سے مشتق ہے(یعنی مادہ سب کا ایک ہے لیکن استعمال فَعَلَ یَفْعَلُ اور تَفْعِیْل اور افعال سے ہوتا ہے)اور ثرب ہو یا اثراب یا تثریب سب کا معنی ہے ملامت کرنا، عاردلانا، کسی جرم پر ذلیل کرنا اور مُثْرِبْ اس کو کہتے ہیں جو بخشش میں دراز دست نہ ہو۔

خوف کہتا ہے کہ یثرب کی طرف تنہا نہ چل شوق کہتا ہے کہ تو مسلم ہے ، بے باکانہ چل

احادیثِ رسول کی روشنی میں مدینہ نبویہ کے بے شمار فضائل ہیں چند فضائل پیش خدمت ہیں:

مدینہ خیروبرکت کی جگہ ہے:والمدينۃ خيرٌ لهم لو كانوا يعلمون ترجمہ:اور مدینہ ان کے لئے باعث خیروبرکت ہے اگر علم رکھتے ۔ (صحيح البخاري:1875)

یہ حرم پاک ہے:إنها حرَمٌ آمِنٌترجمہ: بے شک مدینہ امن والا حرم ہے۔ (صحیح مسلم:1375)

فرشتوں کے ذریعہ طاعون اور دجال سے مدینے کی حفاظت:على أنقابِ المدينۃ ملائكۃ ، لا يدخُلُها الطاعونُ، ولا الدجالترجمہ:مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ تو طاعون اور نہ ہی دجال داخل ہو سکتاہے۔(صحيح البخاري:7133)

مدینے میں ایمان سمٹ جائے گا:إن الإيمانَ ليأْرِزُ إلى المدينۃ ، كما تأْرِزُ الحيۃ إلى جُحرِهاترجمہ: مدینہ میں ایمان اسی طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنے بل میں سمٹ جاتا ہے۔(صحيح البخاري:1876)

مدینہ سے محبت کرناہے:اللهمَّ حَبِبْ إلينَا المدينۃ كحُبِّنَا مكۃ أو أَشَدَّترجمہ:اے اللہ پاک !مدینے کو ہمیں مکہ کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب بنادے۔ ( صحيح البخاري:1889)

مدینہ میں مرنے والے کے لئے شفاعت نبوی:منِ استطاع أن يموتَ بالمدينۃ فلْيفعلْ فإني أشفعُ لمن ماتَ بهاترجمہ: جو مدینہ شریف میں رہے اور مدینے ہی میں اس کو موت آئے میں اس کی شفارش کروں گا۔ ( السلسلۃ الصحيحۃ:6/1034)

قابلِ صدرشک ہیں وہ لوگ جو مدینے میں ہیں یا اس کی زیارت پہ اللہ پاک کی طرف سے بلائے گئے ۔ اس مبارک سرزمین پہ مسجد ِنبوی ہے جسے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنے دست ِمبارک سے تعمیرکیا۔ اللہ پاک کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس مسجد کی زیارت کا حکم فرمایاہے:لا تُشَدُّ الرحالُ إلا إلى ثلاثۃ مساجدَ : مسجدِ الحرامِ، ومسجدِ الأقصَى، ومسجدي هذاترجمہ:مسجدِ حرام،مسجدِ نبوی اور بیت المقدس کے علاوہ ( حصول ثواب کی نیت سے) کسی دوسری جگہ کا سفر مت کرو۔ (صحيح البخاري:1995) حدیث میں جو فرمایا گیا ہے وہ نماز کے ساتھ خاص ہے کہ زیادہ ثواب کے لیے دوسری مسجد میں نہ جاؤ سوائے ان تین مساجد کے۔البتہ جولوگ مدینے میں مقیم ہوں یا کہیں سے بحیثیت زائر آئے ہوں تو ان کے لئے مسجدِ نبوی کی زیارت کے علاوہ مسجدِقبا،بقیعُ الغرقد اور شہدائےاُحد کی زیارت مشروع ہے ۔

مجھے مدینے کی دو اجازت،               نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت

پِلاؤ بُلوا کے جامِ الفت،                 نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت

اگر نہیں میری ایسی قسمت،             سدا حُضُوری کی پاؤں لذَّت

رُلائے مجھ کو تمہاری فُرقت،            نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت

عطا ہو مجھ کو غمِ مدینہ،                  تَپاں جگر چاک چاک سینہ

بڑھے محبت کی خوب شِدّت،            نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت

حُسین ابنِ علی کا صدقہ،                ہمارے غوثِ جلی کا صدقہ

عطا مدینے میں ہو شہادت،              نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت

ہر اِک نبی ہر ولی کا صدقہ،               تجھے تِری ہر گلی کا صدقہ

دے طیبہ میں مرنے کی سعادت،       نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت

(وسائلِ بخشش مرمم،ص207)

پیاری اسلامی بہنو!مدینے شریف کی  عظمت و حرمت کی تو کیا ہی بات ہے ! اس مبارک بستی میں نہ تو دجال داخل ہوسکتا ہے اور نہ ہی طاعون جیسی مُہلک بیماری کیونکہ مدینے شریف کی راہوں پر اللہ پاک کی طرف سے اس کے معصوم فرشتے  مقرَّر  ہیں جو ہر گز ہرگز شہرِ مدینہ کے اندر طاعون اور دَجال کو داخل نہیں ہونے دیں گےجیساکہ

نبیِ اکرم،نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینے کے راستوں پرفِرِشتے(پہرہ دار)ہیں،لہٰذا اس میں طاعون اور دجّال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری، کتاب فضائل المدینۃ،باب لا یدخل الدجال المدینۃ ،1 /619،حدیث:1880)

طاعون ایک وبائی بیماری ہے جس میں بغل یا ران پر پھوڑا نکلتاہے،اس کا زہر اتنا خطرناک ہوتا ہےکہ اس بیماری میں مبتلا انسان کے بچ جانے کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے،عموماً اس بیماری میں اُلٹیاں آنے، بیہوشی طاری ہونے اور دل کی دھڑکن بڑھ جانےکا غلبہ رہتاہے،یہ مرض پہلے چوہوں میں پھیلتا ہے پھر انسانوں میں منتقل ہوجاتاہے۔


مدینہ کے لغوی معنی بڑی آبادی کے ہیں ۔لفظ مدینہ  شہر کے لیے بولا جاتا ہے۔ لیکن یہ لفظِ عام حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی نسبت کے سبب اس طرح خاص ہوگیا کہ یہ جب بھی بولا جاتا ہے تو خیال کسی اور شہر کی طرف جاتا ہی نہیں ہے۔یہ اتنا مبارک شہر ہے کہ اللہ پاک نے اس کا ذکر قرآنِ پاک میں فرمایا ۔اتنا عظیم ہے کہ اللہ پاک نے اس شہر کو ایمان سے تعبیر فرمایا۔مدینہ طیبہ کا پرانا نام یثرب تھا۔یثرب حقیقت میں اس میدان کا نام ہے جس کے ایک حصے میں مدینہ طیبہ آباد ہے ۔ابوعبیدہ بكری نے کہا:ارم بن سام علیہ السلام کی اولاد میں یثرب بن قانیہ کوئی گزرا ہے۔ جو سب سے پہلے یہاں آباد ہوا تھا اس کے نام پر (اس جگہ کا نام )ہے۔ پھر یہ قوم تباہ ہو گئی۔تبع ِاکبر کا اس سرزمین پر گزر ہوا ، اسے یہ بشارت دی گئی کہ یہاں پہ نبی آخر الزماں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہجرت کر کے تشریف لائیں گے تواس نے اس جگہ کو آباد کیا۔اس کے بعد اوس خزرج یہاں آکر آباد ہو گئے۔ (نزھۃلقاری،ج 3،ص358 ،مخلصا)اس مبارک شہر کے کثیر فضائل خود حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنی مبارک زبان سے بیان فرمائے۔جنانچہ

1. حرم ِمدینہ میں ایک نماز (کا ثواب ) 10 ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(قوۃالقلوب۔ مخلصا،احیاء العلوم ،ج1،ص739)

2. مدینہ شریف کے راستوں میں فرشتے (پہرا دیتے) ہیں ۔( مخلصا،مسلم ،کتاب الفتن۔الخ،بابقصۃ الجساسۃ،ص 1577،ح:2943)

3. مدینہ میں دجال داخل نہ ہو سکے گا ۔(ایضا)

4. مدینہ ایسی بستی ہے لوگوں(کفار ،منافقین، فتنہ پرورافراد)کو ایسے دور پھینکتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے زنگ کو پھینکتی ہے۔(مخلصا نزھۃالقاری،باب فضل المدینہ۔الخ،ص،265،ح:1090)

5. مدینہ پاک کی تکلیف و شدت پر صبر کرنے والے کی حضورصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمشفاعت فرمائیں گے۔(مخلصا ، بہار شریعت،ج1،حصہ6،ص1217)

6. اہلِ مدینہ کے ساتھ برائی کا ارادہ کرنے والے کو اللہ پاک آپ میں اس طرح پگھلائے گا۔(ایضا)

7. مدینہ شریف میں مرنے والے کی شفاعت حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم خود فرمائیں گے ۔(مخلصا ،ترمذی،ابواب المناقب، باب ماجاء فی فضل المدینہ،ح:3943، ص:483)

8. حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مدینہ شریف ،اس کے پھل ،صاع ،مد وغیرہ میں برکت کی دعا فرمائی۔(مخلصا ،مسلم، كتاب الحج،باب فضل المدینہ۔الخ،ح 1373،ص:713)

9. اہلِ مدینہ کو فریب دینے والا پانی میں نمک کی طرح گھل جائے گا۔( مخلصا ،بخاری،کتاب فضائل مدینہ ۔ص،618،ح،1877)

10.اہلِ مدینہ کو ڈرانے والے کو اللہ پاک خوف میں مبتلا فرمائے گا۔( مخلصا ، بہار شریعت،ج1،حصہ6،ص1219)

ان فضائل کے علاوہ مدینے شریف کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جن مَدَنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے ہم بے پناہ محبت کرتے ہیں،خود وہ مدینے سے بہت مَحَبَّت کیا کرتے ہیں، لہٰذا مَحَبَّتِ رسول کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی نہ صرف مدینے کی مَحَبَّت بلکہ مدینے کے کُوچہ و بازار، گلشن و صحرا کی ، در و دِیوار ، پُھول حتّٰی کہ اس کے کانٹے تک کی مَحَبَّت اپنے دل میں بسائے  رکھیں،اس کی یاد میں تڑپیں اور اس کی باادب حاضری کی نہ صرف آرزو کریں بلکہ اللہ کریم سے اس کی دُعائیں بھی مانگیں۔اللہ پاک ہمیں بھی غم و محبتِ مدینہ عطا فرمائے۔آمین


اللہ پاک نے اپنے محبوب مکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بلند مقام و مرتبہ عطافرمایا ہے۔ہر وہ چیز جو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت رکھتی ہے وہ بارگاہِ خداوندی میں معزز و مکرم ہو جاتی ہے۔ خواہ وہ مٹی کے ذرات ہوں یا پتھر ہو، ثمر و اشجار ہوں، مسجد و محراب ہوں یا منبر و دیوار ہو۔

رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا شہرِمدینہ الرسول، جس کی محبت اور ہجر و فرقت میں دنیا میں کئی قصیدے لکھے گئے اور لکھے جاتے ہیں۔یہیں رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر جبریلِ امین کے اترنے کی جگہ ہے۔ یہی انصار اور مسلمانوں کی پہلی دارالسلطنت ہے۔ یہیں سے نور کی کرن پھوٹی اور یہیں سے زمین نور ہدایت سے منور ہوئی۔ یہیں پر آپ نے اپنے آخری ایام گزارے، یہیں وفات پائی، یہیں مدفون ہوئے، اور یہیں سے آپ اٹھائے جائیں گے۔

دورِ جاہلیت میں مدینہ منورہ کا نام یثرب تھا۔یثرب مصری زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ملامت کرنا، فساد پھیلانا ہے۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بُرے ناموں کو سخت ناپسند فرماتے تھے۔چنانچہ آپ نے یثرب کا نام تبدیل کرکے طیبہ رکھ دیا۔جس کے معنی (عمدہ اور بہترین) ہیں۔

اس مبارک شہر کو اللہ پاک نے شرف و فضیلت بخشا ہے۔اس کے کئی فضائل قرآن اور احادیث کی روشنی میں بیان کئے گئے ہیں۔ کچھ فضائل صحیح مسلم اور بخاری سے درج ذیل ہیں:

•اس شہر میں کسی مسلمان کے مرنے کی یہ فضیلت ہےکہ دو جہاں کے تاجور، سلطانِ بحر و بر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے وہ مدینے میں مرے کیونکہ جو مدینے میں مرےگا میں اس کی شفاعت کروں گااور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔

• اس مبارک شہر کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کا نام طیبہ اور طابہ رکھا۔ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اس کا نام طابہ رکھا ہے ۔(صحیح مسلم)

• مدینہ کی یہ بھی فضیلت ہے کہ ایمان اس کی طرف واپس لوٹ آئےگا۔ آپ کا فرمان ہے: ایمان مدینہ کی طرف اس طرح واپس لوٹ آئےگا جس طرح سانپ بل میں واپس لوٹ آتا ہے۔ ( صحیح مسلم)اس کے معنی ہیں کہ ایمان اس کی طرف مرکوز ہو جائےگا اور مسلمانوں کو اس کی محبت اس کی طرف کھینچ لائےگی۔

•ایک اور حدیث میں رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کی فضیلت ارشاد کرتے ہوئے فرمایا: مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا گیا جو بستیوں کو کھا جائے گی۔ جسے لوگ یثرب کہتے ہیں حالانکہ وہ مدینہ ہے۔(بخاری)اس کی تفسیر یہ بیان کی گئی کہ اسے دیگر بستیوں پر غلبہ اور فتح حاصل ہوگا۔

•نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس شہر کی مشقت و پریشانی، رنج و غم پر صبر کرنے کی فضیلت بیان کی ہے،چنانچہ

مدینہ ا ن کے لئے بہتر ہے۔ کاش !وہ جانتے۔ (مسلم)

•حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں آپ کا فرمان ہے:میری امت کا جو بھی فرد مدینہ کی پریشانی اور سختیوں پر صبر کرے گا قیامت کے دن میں اس کا سفارشی یا گواہ ہوں گا۔(مسلم)

•مدینہ شہر کی یہ بھی فضیلت ہے کہ نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم یہاں کا گرد و غبار اپنے چہرۂ انور سے صاف نہیں کرتے تھے اور فرماتے: خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔ (جامع الاصول الجزری)

•اس شہر کو یہ بھی فضیلت حاصل ہے کہ نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس شہر کی برکت کے لیے اللہ پاک سے یہ دیا مانگی: اے اللہ پاک!ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما، ہمارے شہر(مدینہ) میں برکت عطا فرما، ہمارے صاع میں برکت عطا فرما، اور ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔(مسلم)

•اس شہر کی یہ فضیلت ہے کہ یہاں کے باشندوں کو ایذا اور تکلیف پہنچانا حرام ہے۔

امام بخاری نے صحیح کے اندر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ،انہوں نے فرمایا:میں نے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے:جو بھی اہلِ مدینہ کے ساتھ مکروفریب کرےگا۔ وہ اس طرح پگھل کر ختم ہو جائےگا جس طرح نمک پانی میں گل ہو جاتا ہے۔

•مدینہ کے فضائل میں یہ بھی ہے کہ اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوں گے۔ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : مدینے کے راستوں پر فرشتے مامور ہیں اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوں گے۔(بخاری و مسلم)

مدینہ منورہ کے بے شمار فضائل ہیں۔ یوں تو دنیا میں بے شمار شہر ہیں مگر ان دو شہر (مکہ و مدینہ) کو جو فضیلت حاصل ہے وہ کسی اور شہر کو حاصل نہیں۔

مدینہ منورہ وہ شہر جس کے ہجر میں مسلمان تڑپتے ہیں۔ کتنا بلندبخت ہے وہ انسان جس کے سینے میں عشقِ رسول مچلتا ہے اورعاشق کو تو محبوب سے نسبت والی ہرشے سے عشق ہوتا ہے تو پھر عاشق کو محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے شہر، درودیوار، وہاں کی خاک و عنبر سے کیوں نہ محبت ہو۔ہمارے دل میں جس طرح اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا عشق پیوست ہے۔ اسی طرح محبوب کے شہر سے بھی محبت ہو، ان گلیوں سے بھی محبت ہو جن سے میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم گزرتے۔ ان اہلِ مدینہ سے بھی محبت ہو کیونکہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اہلِ مدینہ میرے پڑوسی ہیں انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھو۔اہلِ مدینہ خوش بخت ہیں کہ وہ حبیبِ کبریا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمسائے ہیں۔اللہ پاک ہمیں بھی حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ساتھ عطا فرمائے اور غمِ مدینہ نصیب فرمائے۔ آمین


اللہ ربّ العزت کی اس بنائی ہوئی دنیا میں انسان بہت سے شہروں میں، بہت سے ممالک کا مشاہدہ کرتا ہے، اللہ  پاک کی قدرت کے نظارے دیکھنے کے لئے دور دراز شہروں کا سفر کرتا ہے، سفر کی مشقتیں برداشت کرتا ہے اور انسان کی فطرت سے ہے کہ وہ تکرار سے اکتا جاتا ہے، اس طرح وہ کسی ملک و شہر میں اگر چند بار چلا جائے تو وہ بالآخر اس شہر سے اکتا جاتا ہے اور آئندہ کچھ نیا دیکھنے کسی اور مقام پر جانے کا ارادہ کرتا ہے، لیکن دنیا میں ایک شہر ایسا بھی ہے کہ اگر وہاں ہزار بار جانے کا موقع ملے، تب بھی انسان بخوشی جاتا، اس سفر کا انسان مدتوں تک انتظار کرتا، اس سفر سے کبھی بیزار نہیں ہوتا، اس سفر کے مسافروں میں شامل ہونے کی آرزو اور تمنا سے بے چین و بے قرار اور اس کی آنکھوں کو غمناک رکھتی ہے، میری مراد میرے اور آپ کے چاند سے بھی حسین و جمیل، بے مثل و بے مثال، دل و جان کے قرار، مدنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا مقدس شہر ِمدینہ ہے، اس شہر کا ادب و احترام ہر عاشقِ رسول کے دل میں ہوتا ہے، عاشق وہاں کے کانٹے کو بھی سینے سے لگاتا ہے، خوشی سے چومتا ہے، اس راہ میں آنے والی چوٹ پر مسکرا دیتا ہے، اس شہرِ مقدس کے، اس کی آب و ہوا کے، اس کی خاکِ پاک کے، وہاں کی سختی پر صبر کرنے کے، وہاں کی نماز کے اور وہاں پر موت آ جانے کے احادیثِ طیبہ میں بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں، آپ بھی جھومتے ہوئے، تڑپتے ہوئے، مچلتے ہوئے مدینہ طیبہ کے فضائل پڑھئے، اللہ ربّ العزت ہم سب کو اس پاک در کی جلد از جلد حاضری کا شرف عطا فرمائے۔آمین

دنیا دیاں سفراں تو بندہ تھک وی تے جاندا اے پر سفر مدینے دا ہر بار بڑا سوہنا

1۔ سرکارِ نامدار،مدینے کے تاجدار، دو عالم کے مالک و مختار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ عظمت نشان ہے:اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، مدینہ منورہ کی ہر گھاٹی اور ہر راستے پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔(مسلم شریف، صفحہ 714، حدیث 1378، عاشقان رسول کی 130 حکایات، صفحہ 250)

2۔مدینہ طابہ ہے:دل و جان کے قرار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:مدینہ منورہ کو یثرب کہنے والے پر توبہ واجب ہے، مدینہ طابہ ہے، مدینہ طابہ ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد21، صفحہ 116)معلوم ہوا! مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا حرام ہے اور کہنے والا گنہ گار ہے۔

یثرب کہنے کی ممانعت کیوں؟

مدینہ طیبہ کو یثرب کہنے سے چند وجوہات کی بنا پر منع کیا گیا ہے:

1۔ زمانہ جاہلیت کا نام تھا، اس لئے منع فرمایا۔

2۔یثرب ہلاکت وفساد کو کہتے ہیں اور مدینہ منورہ تو خود مطیب و پاکیزہ، اس کی آب و ہوا پاکیزہ، اس کی مٹی شفا، اس لئے یثرب کہنے سے منع فرمایا۔(فتاوی رضویہ، جلد21، صفحہ 119)

3۔وجہ ِتخلیق کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:تم میں سے جس سے ہوسکے وہ مدینے میں مرے، کیوں کہ جو مدینے میں مرے ، میں اس کی شفاعت کروں گا۔(شعب الایمان، جلد 3، صفحہ497، حدیث1482)

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر ِشفاعت نگر کی ہے (حدائق بخشش )

کب تک میں پھروں در در، مرنے بھی دو اب سرور دہلیز پہ سر رکھ کر، سرکار مدینے میں( وسائل بخشش)

4۔شفاعت کی بشارت:حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جس نے مدینہ منورہ کی سختی اور اس کی شدت پر صبر کیا،قیامت کے دن میں اس کی شفاعت کروں گا۔

(صحیح مسلم،کتاب الحج، باب الترغیب فی المدینہ، حدیث 1378، احیاء العلوم، جلد 1، صفحہ 739)

راہ جاناں کا ہر ایک کانٹا بھی گویا پھول ہے جو کوئی شکوہ کرے اس کی یقیناً بھول ہے (وسائل بخشش)

5۔ہزار نمازوں سے بہتر:حضور نبیِّ رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مسجد ِنبوی میں ایک نماز دس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(قوت القلوب، جلد 2، صفحہ 204)

6۔مدینہ طیبہ میں مسجدِ نبوی کے اندر ایک حصّہ ہے جو ریاض الجنہ کہلاتا ہے۔ حدیثِ مبارکہ میں اس کی بھی فضیلت آئی ہے، چنانچہ آقائے دو جہاں، مکے مدینے کے سلطان صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ہے:میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر خوض پر ہے۔

(صحیح مسلم، کتاب الحج، حدیث 1390۔1391)

7۔دجال، طاعون سے محفوظ:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینے کے راستوں پر فرشتے پہرہ دیتے ہیں، اس میں نہ دجّال آئے گا،نہ طاعون۔(صحیح مسلم، کتاب الحج، حدیث 1379،بہار شریعت،حصہ ششم، ص1220)

8۔خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!بے شک مدینہ پاک کے غبار میں ہر بیماری کی شفا ہے۔

(الترغیب والترہیب، فی مکنی المدینہ، صفحہ 416، حدیث 28، اسمائے مدینہ منورہ، صفحہ23)

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے اٹھا لے جائے تھوڑی خاک ان کے آستانے سے

واقعہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ:

میں مدینہ منورہ میں حاضر تھا، کسی بیماری کی وجہ سے میرا پاؤں سوج گیا تھا، ڈاکٹروں نے بتایا : یہ ایک خطرناک بیماری ہے اور انہوں نے علاج سے بھی منع کردیا اور اپنے ہاتھ روک لئے، چنانچہ میں نے حضور نبی آخر الزماں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مقدس و مطہر و مطیب شہر مدینہ طیبہ کی خاک(مٹی)لی اور اسے استعمال کرنا شروع کر دیا، اللہ پاک کے کرم سے کچھ ہی دنوں میں سوجن ختم ہوگئی اور اس مرض سے نجات مل گئی۔

(اسمائے مدینہ منورہ مطبوعہ مکتبہ المدینہ، صفحہ 24)

تو خاکِ مدینہ میرے لاشے پر چھڑکنا پھر ملنا کفن پہ جو ملے ان کا پسینہ(وسائل بخشش)

9۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو اہلِ مدینہ کو ڈرائے گا،اللہ پاک اسے خوف میں مبتلا فرمائے گا۔(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الحج، باب فضل المدینہ، حدیث3730، بہار شریعت، حصہ اول، جلد 6، صفحہ 1219)

سنبھل کر پاؤں رکھنا زائرو شہرِ مدینہ میں کہیں ایسا نہ ہو سارا سفر بیکار ہو جائے

10۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جس نے حج کیا اور میری وفات کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ ایسا ہے، گویا میری حیات میں میری زیارت سے مشرف ہوا۔

(سنن دارقطنی، کتاب الحج، باب المواقیت، حدیث 2667،جلد دوم)

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں مرے آقا مرے دلبر مدینے میں

تو وہ شہر جس کے اس قدر فضائل ہوں تو عاشق کیوں نہ اس کا ادب کریں، کیوں نہ وہاں جانے کے لئے تڑپیں، کیوں نہ صبح وشام اس کے ذکر سے اپنے دل کو منور کریں، ہر عاشقِ رسول پر حق ہے کہ وہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم، ان کے شہر اور ان سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا ادب کرے، اس سے محبت رکھے، اس کا تذکرہ کرے اور اپنے دل و دماغ کو اس ذکر سے چین بخشے۔اللہ ربّ العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مدینہ طیبہ کی با ادب، با ذوق، باشوق، اخلاص سے بھرپور اور ریا سے پاک، حاضری کا شرف عطا کرے اور ایسا جانا نصیب کرے کہ پھر واپس نہ آئیں، وہیں آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قدموں میں جان نکل جائے اور جنت البقیع ہماری آخری آرام گاہ بنے، ہمارا مدفن بنے۔آمین

مجھے ہریالے گنبد کے تلے قدموں میں موت آئے سلامت لے کے جاؤں دین و ایماں یا رسول اللہ