اسلامی تاریخ
کے لحاظ سے مدینہ منورہ دوسرا بڑا اسلامی مرکز اور تاریخی شہر ہے ۔مدینہ طیبہ ایسا
بابرکت مقام ہے کہ جو وہاں جاتا ہے اس کو واپس آنے کو دل ہی نہیں چاہتا ۔مدینہ
طیبہ میں وہ دلی سکون ملتا ہے دنیا کے بڑے سے بڑے مقام میں نہیں ملتا اور ایسا کیوں نہ ہو کہ وہاں ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمکا
روزہ مبارک اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے
منسوب بہت سی یادگار چیزیں ہیں۔یہی وہ مقدس مقام ہے جہاں جینا بھی سعادت ہے اور مرنا بھی سعادت ۔اس مقام کی شان و عظمت
کا کیا کہنا جیسا کہ وادی طویٰ انبیا علیہم الصلوۃ والسلام کی
گزرگاہ ہے جبکہ مدینہ سید الانبیا صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمکی
رہائش گاہ، وادیِ طویٰ میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام سے
خطاب ہوتا ہے اور مدینہ میں حبیب اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے ،حضرت
موسی علیہ السلام وادی ِطویٰ
تشریف لائے جبکہ آخری نبی محمد عربی صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمکو
مدینہ پاک ہجرت کا حکم دیا گیا ۔الغرض مدینہ پاک کی شان وعظمت بیان کرنا ہمارے بس
کا کام نہیں ۔شہنشاہِ سخن مولانا حسن رضا خان رحمۃ
اللہ علیہ
لکھتے ہیں :
بنا
شہ نشین خسرو دوجہاں کا بیاں کیا ہو عزو
وقار مدینہ
شرف
جن سے حاصل ہوا انبیا کو وہی حسن افتخار
مدینہ
(ذوق
نعت، ص212)
یثرب
سے مدینہ :
لغت میں یثرب
کے معنی ملامت ،فساد اور خرابی ہیں ۔قبل از اسلام شہرِمدینہ یثرب کہلاتا تھا ۔جیسا
کہ ایک مرتبہ نبیِّ پاک ،رؤفٌ رَّحیم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف(ہجرت)
کا
حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(یعنی سب پر غالِب آئے گی)لوگ
اسے یَثرِب کہتے ہیں حالانکہ وہ مدینہ ہے،(یہ
بستی) لوگوں
کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹّی لوہے کے مَیل کوصاف کر دیتی ہے۔
(مشکا
ۃ المصابیح،کتاب المناسک،باب حرم المدینۃ…الخ ،2/509، حدیث:
2737)
حکیم الاُمَّت
مفتی احمد یار خانرحمۃ اللہ علیہاس
حدیث ِ مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:کھا جانے کے معنی یہ ہیں کہ یہاں کے
لوگ تمام ملکوں کو فتح کریں گے اور ان کے مال اور خزانے مدینے میں پہنچ جائیں گے۔ چنانچہ
ایسا ہی ہوا کہ شام،فارس اور رُوم کے خزانے مدینےپہنچے(مزید فرماتے
ہیں :)مدینۂ
منورہ کے نام سو (100)سے بھی زیادہ ہیں:طیبہ،طابہ، بطحٰے،
مدینہ،اَبْطَح وغیرہ۔ہجرت سے پہلے لوگ اسے یثرِب کہتے تھے ، اس لیے کہ یہاں
قومِ عَمَالِقَہ کا جو پہلا آدمی آیا اس کا نام یثرِب تھا۔حضرت امام
احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں:جو مدینۂ منورہ کو یثرب کہے وہ توبہ کرے۔حضرت امام بخاری رحمۃ
اللہ علیہ نے
فرمایا: جو ایک بار اسے یثرب کہے وہ بطورِ کفّارہ دس(10)بار مدینہ کہے۔صُوفیا رحمۃ
اللہ علیہم اَجْمَعِیْنفرماتے
ہیں:اگر کوئی خبیث وہاں مر کر دفن بھی ہوجائے تو فرشتے وہاں سے اس کی نعش کسی
دوسری جگہ منتقل کردیتے ہیں اور اگر کوئی وہاں کا عاشق دوسری جگہ دفن ہوجائے تو اس
کی نعش مدینَۂ منورہ پہنچادیتے ہیں۔(مرآۃ ُ المناجیح،4/216:215ملخصاً و ملتقطا)
مدینہ
طیبہ کے دس فضائل :
مدینہ منورہ
کے بے شمار فضائل و خصوصیات ہیں جن میں سے دس فضائل ذکر کئے جاتے ہیں :
1:مدینہ میں
جینا حصولِ برکت اور مَرنا شفاعت پانے کا ذریعہ ہے چنانچہ رحمتِ عالم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد ہے:جو مدینے میں مَرسکے وہ وَ ہیں
مَرے کیونکہ میں مدینے میں مَرنے والوں کی شَفاعت کروں گا۔
( ترمذی
، 5 / 483 ، حدیث : 3943)
2: خاکِ مدینہ
کو شفا قرار دیا ہے چنانچہ،جب غزوۂ تَبوک سے واپس تشریف لارہے تھے تو تبوک میں
شامل ہونے سے رہ جانے والے کچھ صحابۂ کرام علیہم
الرضوانملے
انہوں نے گرد اُڑائی،ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی آپ نے اس کی ناک سے کپڑا
ہٹایا اور ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قُدرَت میں میری جان
ہے!مدینے کی خاک میں ہربیماری سےشفاہے۔(جامع الاصول،9/297، حدیث:6962)
3: مسجد ِنبوی
شریف میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔
(ابن
ماجہ ج2 ،ص176،
حدیث1413)
4:رسولِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو ارادۃ ًمیری زیارت کو آیا وہ قیامت کے
دن میری حفاظت میں رہے گا،جو مدینہ میں رہائش اختیار کرے گا اور مدینے کی تکالیف
پر صبر کرے گا تو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا اور
جو حرمین( مکہ یا مدینہ) میں سے کسی
ایک میں مرے گا اللہ پاک اس کو اس حال میں قبروں سے اٹھائے گا کہ وہ قیامت کے خوف
سے امن میں رہے گا۔
(مشکاۃ
المصابیح ،1/ 512، حدیث2755)
5:رسولِ اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جس نے میری قبر کی زیارت کی اس پر میری
شفاعت واجب ہوگئی۔ (دار قطنی، کتاب الحج،2/ 351
حدیث2669 )
6:مدینے کی
حفاظت پر فرشتے معمور ہیں چنانچہ آپ صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلمنے
ارشاد فرمایا : اُس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ
کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اُس پر دو فِرشتے ہیں جو اِس کی حفاظت کر رہے
ہیں۔(مسلم
، ص548 ، حدیث : 1374)
7:فرشتوں کے
ذریعہ طاعون اور دجال سے مدینے کی حفاظت:على أنقابِ المدينۃ ملائكۃ ، لا يدخُلُها
الطاعونُ ، ولا الدجالُ(صحيح البخاری:7133)ترجمہ:مدینہ
کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ تو طاعون اور نہ ہی دجال داخل ہو سکتا ہے۔
8: نبیِّ پاک،رؤفٌ
رَّحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا
فرمانِ دلنشین ہے:(قیامت
میں جب سب کو قبروں سے اُٹھایا جائے گا)سب سے پہلے میری پھر ابو بکر و
عمر (رضی
اللہ عنہما)کی
قبریں شَق ہوں گی،پھر میں جنّت البقیع والوں کے پاس جاؤں گا،تو وہ میرے ساتھ اکٹھے ہوں
گے،پھر میں اہل ِمکہ کا انتظار کروں گا حتّٰی کہ حرمینِ شریفین کے درمیان انہیں
بھی اپنے ساتھ کر لوں گا۔(ترمذی،ابواب المناقب، باب (م:
تابع17، ت:56)…الخ،5/388،حدیث:3712)
9:مکۂ مکرمہ
اور مدينَۂ منورہ کے علاوہ کوئی شہر ايسا نہيں جسے عنقريب دَجّال روندتا ہوا نہ
جائے، جبکہ ان شہروں کے ہر راستے پر فرشتے صفیں باندھے پہرہ دے رہے ہوں گے،لہٰذا
وہ ایک دلدلی زمین پر پڑاؤ ڈالے گا پھر شہرِ مدینہ3 مرتبہ لرزے گا تو اللہ پاک کفر و نفاق میں مبتلا ہر شخص کو وہاں سے نکال
دے گا۔
(
بخاری،کتاب فضائل المدینۃ،باب لاید خل الدجال المدینۃ ،1/ 619،حدیث:
1881)
10:جو حج کے
ارادے سے نکلے اور مرجائے اس کے لئے قیامت تک حج کرنے والے کا ثواب لکھا جاتا رہے
گا اور جو عمرے کے ارادے سے نکلے اور مرجائے اس کے لئے قیامت تک عمرہ کرنے والے
کاثواب لکھا جاتا رہے گااور جو جہاد کے ارادے سے نکلے اور مر جائے تو اس کے لئے
قیامت تک جہاد کرنے والے کاثواب لکھا جائے گا۔(الترغیب
والترہیب ،کتا ب الحج ، باب التر غیب فی الحج والعمرۃ …الخ، 2/79،
رقم:1718)اللہ پاک سے دعا ہے کہ جب تک ہم زندہ
رہیں عشق ِرسول میں گم رہیں اوریادِ مدینہ
کرتی رہیں۔اللہ پاک ہمیں مدینہ کی سچی تڑپ نصیب فرمائے۔ آمین
اے
کاش! مدینے میں مجھے موت یوں آئے چوکھٹ پہ تِری سر ہو مری روح چلی ہو