مدینہ اس لیے عطار جان و دل سے ہے پیارا                      کہ رہتے ہیں مرے آقا مرے دلبر مدینے میں

مدینے کی مدح کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ زندگیاں ختم ہوگئیں اور قلم ٹوٹ گئے مگر مدینے کی تعریف ختم نہ ہوئی تو مبالغہ نہ ہوگا اور کیوں نہ ہو کہ سرورِ کائنات ، شہنشاہ ِعالمیان ، سیدِ ثقلین ، نبیُّ الحرمین ، دکھی دلوں کے چین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلموہاں جلوہ گر ہیں، ذکرِ مدینہ کے صدقے مدینے کے پانچ حروف کی نسبت سے مدینے کے پانچ مختصر فضائل:

1:روئے زمین کا کوئی ایسا شہر نہیں جس کے مبارک نام اتنے زیادہ ہوں جتنے مدینہ کے ہیں ۔بعض علمائے کرام نے اس کے 100 نام بھی تحریر فرمائے ہیں ۔

2 :اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اسی شہر مبارک کی طرف ہجرت فرمائی اور یہیں قیام پذیر ہوئے ۔

3 : اللہ پاک نے اس کا نام طابہ رکھا ۔

4 : مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا قلبِ اطہر سکوں پاتا ۔

5 : حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینے میں مرنے کی ترغیب ارشاد فرمائی ۔

سبحان اللہ العظیم!عاشقوں کے جان و دل ، ہوش و خرد جہاں موجود ہیں اب اسی شہر مقدسہ کے مدینہ بننے کے ذکر ِخیر سے اپنی روح کو مہکائیے ، چنانچہ

حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالْحقّ مُحَدِّث دِہلَوی رحمۃُ اللہِ علیہ اَشِعَّۃُ اللَّمعات شَرْحُ الْمِشْکٰوۃ میں فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے وہاں لوگوں کے رَہنے سَہنے اور جَمْع ہونے اوراس شہر سے مَحَبَّت کی وجہ سے اس کا نام ’’مدینہ ‘‘ رکھا اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اسے یَثرِب کہنے سے مَنْعْ فرمایا ،اِس لئے کہ یہ زمانۂ جاہلیّت کانام ہے یا اِس لئے کہ یہ ’’ثَرْبٌ ‘‘سے بنا ہے جس کے معنیٰ ہلاکت اورفَساد ہے اور تَثْرِیْبٌ بمعنیٰ سَرزَنِش اورملامت ہے یا اس وجہ سے کہ یَثرِب کسی بُت یا کسی جابِر و سَرکَش بندے کانام تھا۔

(عاشقانِ رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں ، ص 253 )

اعلیٰ حضرت،امامِ اہل ِسنت مولانا شاہ امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں: مدینۂ طیِّبہ کو یَثرِب کہنا ناجائز و ممنوع اور گناہ ہے اور کہنے والا گنہگار۔ رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں: جو مدینے کویَثرِب کہے اُس پر توبہ واجِب ہے، مدینہ طابہ ہے،مدینہ طابہ ہے۔علّامہ مُنَاوِی (حدیثِ پاک کی مشہور کتاب )جامعِ صغیر کی شرح میں فرماتے ہیں:اِس حدیث سے معلوم ہوا! مدینَۂ طیِّبہ کایَثرِب نام رکھنا حرام ہے کہ یَثرِب کہنے سے توبہ کا حکم فرمایا اور توبہ گناہ ہی سے ہوتی ہے۔(فتاویٰ رضویہ،21/116بتغیر قلیل)

اب شہرِ مدینہ کے متعلق دس احادیثِ نبوی کے گوہر پیشِ نظر ہیں :

1: نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب سفر سے آتے اور مدینۂ پاک کی دیواروں کودیکھتے تو مدینے سے محبت کی وجہ سے اپنی سواری کو تیز فرما دیتے اور اگر گھوڑے پر ہوتے تو اسے اَیڑ لگاتے۔(بخاری ،کتاب فضائل المدينہ،11:باب ،1 /620، حديث: 1886)

2: مدینے کے راستوں پر فِرِشتے (پہرہ دار) ہیں،لہٰذا اس میں طاعون اور دجّال داخل نہ ہوں گے۔

(بخاری، کتاب فضائل المدینۃ،باب لا یدخل الدجال المدینۃ ،1 /619،حدیث:1880)

3: مَنِ اسْتَطَاعَ اَنْ يَّمُوتَ بِالْمَدِينَۃ فَلْيَمُتْ بِهَا تم میں سے جس سے ہو سکے کہ وہ مدینے میں مرے تو مدینے ہی میں مرے،فَاِنِّي اَشْفَعُ لِمَنْ يَمُوْتُ بِهَا کیونکہ میں مدینے میں مرنے والے کی شفاعت کروں گا۔

(ترمذی ،کتاب المناقب،باب فی فضل المدینۃ، 5/483، حدیث:3943)

حکیم الاُمَّت مُفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:یہ بشارت اور ہدایت سارے مُسلمانوں کو ہے نہ کہ صرف مہاجرین کو یعنی جس مسلمان کی نیت مدینَۂ پاک میں مرنے کی ہو،وہ کوشش بھی وہیں مرنے کی کرے تو وہیں قیام کرے،خصوصًا بڑھاپے میں اوربِلا ضرورت مدینۂ پاک سے باہر نہ جائے تاکہ موت و دفن وہیں نصیب ہو۔(مرآۃ المناجیح ، 4/222 ملتقطاً بتغیر ٍ قلیل)

4: جو میری زیارت کا ارادہ کرتے ہوئے آیا وہ قِیامت کے دن میری حفاظت میں رہےگا،جو مدینے میں رِہائش اِختیارکرےگا اور مدینےکی تکالیف پر صَبْرکرےگا تو میں قِیامت کےدن اُس کی گواہی دوں گااوراُس کی شَفاعت کروں گا۔ جو حَرمَین (یعنی مکے،مدینے)میں سے کسی ایک میں مرے گا،اللہ پاک اُس کو اِس حال میں قَبْر سے اُٹھائے گا کہ وہ قِیامت کے خَوْف سے اَمْن میں رہے گا۔(مشکاۃ المصابیح،1/512،حدیث 2755)

5: مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہٗ شَفَاعَتِیْ یعنی جس نے میری قَبْر کی زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔(دارقطنی،کتا ب الحج،2/ 351، حدیث: 2669)

6:(قِیامت میں جب سب کو قَبْروں سے اُٹھایا جائے گا)سب سے پہلے میری پھر ابُو بَکْر و عُمَر (رضی اللہ عنہما) کی قَبْریں کھلیں گی،پھر میں جَنّتُ الْبَقِیْع والوں کے پاس جاؤں گا،تو وہ میرے ساتھ جمع ہوں گے،پھر میں اَہل ِمکہ کا اِنتظار کروں گا حتّٰی کہ مکے مدینے کے درمیان اُنہیں بھی اپنے ساتھ کرلوں گا۔

(ترمذی،ابواب المناقب،باب(م:تابع17،ت:56) … الخ،5/388، حدیث: 3712)

7: اُس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے! مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اُ س پر دو فِرشتے ہیں جو اِس کی حفاظت کررہے ہیں ۔ ‘‘ ( مسلم ص714 حدیث1374)

امام نَوَوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : اس روایت میں مدینۃُالمنوَّرہ کی فضیلت کا بیان ہے اورتاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے زمانے میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی،کثرت سے فِرِشتے حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی عزّت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے۔

(شرح صحیح مسلم للنووی ج5 جزء 9 ص148)

8:میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع(یعنی شفاعت کرنے والا) ہوں گا۔ (مسلم صفحہ 716 ، حدیث 1378 )

9:اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا کہ لوگ خوشحالی کی تلاش میں یہاں سے چراگاہوں کی طرف نکل جائیں گے ، پھر جب وہ خوشحالی پالیں گے تو لوٹ کر آئیں گے اور اہلِ مدینہ کو اس کشادگی کی طرف جانے پر آمادہ کریں گے حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔( مسند امام احمد بن حنبل ، ج 5 ، ص ، 106 ، حدیث 14686 )

10: مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی ( سب پر غالب آئے گی ) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے ( یہ بستی ) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو ۔ (صحیح بخاری حدیث 1871 ، ج 1 ، ص 617 )

نوٹ:اکثر احادیث مکتبۃ المدینہ کی کتاب عاشقان ِرسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں سے لی گئی ہیں ۔

عشقِ مدینہ تو گویا مومنوں کی گھٹی میں شامل ہے ، اور غمِ مدینہ اس عاشق سے پوچھا جائے جو ہر سال مدینہ دیکھ آتا ہے اور پھر بھی ذکرِ مدینہ پہ زار و قطار روتا ہے ، یا پھر اس عاشق سے پوچھئے کہ جس نے مدینہ دیکھا نہیں مگر اس امید پہ اشک بہاتا ہے کہ ہمیں بلوائیں گے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ ہم بھی دیکھیں گے ، دونوں کی حالت ایک سی ہوتی ہے ، یا یہ کہیے کہ عشاق کو غمِ مدینہ ہے ہی اس قدر پیارا کہ طیبہ سے پلٹ آنا بھی محال اور طیبہ کو نہ جانا بھی محال اور کیوں نہ ہو کہ رہتے ہیں میرے آقا،میرے دلبر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینے میں۔

کہاں کوئی روتا ہے جنت کی خاطر رلاتی ہے عاشق کو یادِ مدینہ

اللہ پاک ہمیں بار بار مدینہ طیبہ کی با ادب ، با ذوق ، با شوق حاضری نصیب فرمائے اور اے کاش !حبیبِ خدا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہی کے شہر مقدسہ میں ہمیں مدفن نصیب ہوجائے ۔آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم