مدینہ منورہ کی فضیلت و اہمیت:

پیاری اسلامی بہنو!مدینے شریف کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جس پیارے پیارے آقا،مکی مدنی مُصْطَفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے ہم بے پناہ محبت کرتی ہیں ،خود وہ آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینے سے بہت محبت کیا کرتے ہیں،لہٰذا محبتِ رسول کا تقاضا یہ ہے کہ ہم بھی نہ صرف میٹھے  مدینے کی محبت بلکہ مدینے کے کُوچہ و بازار کی محبت ،وہاں کے گلشن و کوہسار کی محبت،اس کے در و دِیوار کی محبت،اس کے پُھول حتی کہ اس کے خار تک کی محبت اپنے دل میں بسائے  رکھیں،اس کی یاد میں تڑپیں اور اس کی باادب حاضری کی نہ صرف آرزو کریں بلکہ اللہ پاک سے اس کی دُعائیں بھی مانگیں۔

غریب جائے کہاں یا ربّ تڑپتی رُوح کو لے کر تجھے محبوب کاصدقہ تُو پہنچا دے مدینے میں

صلوا علی الحبیب! صلی اللہ علی محمد

  یاد رکھئے! محبت کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جس سے محبت کی جائے، اس سے نسبت رکھنے والی چیزوں سے بھی محبت کی جائے اور بالخصوص جس سے محبوب کو محبت ہو،اس سے تو انتہائی محبت و عقیدت رکھی جائے۔ حضورِ اکرم،نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینے کی سرزمین سے کس قدر محبت تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہےکہ  آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماگر کبھی مدینے سے باہر سفر کو جاتے تو واپسی پر مدینے کے در و دیوار دیکھتے ہی جلد سے جلد وہاں قدم رنجا فرمانے کی کوششیں کِیا کرتے تھے۔چنانچہ

حدیثِ پاک میں ہے :نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب سفر سے آتے اور مدینۂ پاک کی دیواروں کودیکھتے تو مدینےسے محبت کی وجہ سے اپنی سواری کو تیز فرما دیتے اور اگر گھوڑے پر ہوتے تو اسے اَیڑ لگاتے۔

(بخاری ،کتاب فضائل المدينہ،11:باب ،1 /620، حديث: 1886)

حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:حضورِ انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینۂ پاک اتنا پیارا تھا کہ ہر سفر سے واپسی میں یُوں تو معمولی رفتار پر جانور چلاتے تھے مگر مدینۂ پاک کو دیکھتے ہی وہاں جلد پہنچ جانے کے لیے سواری تیز فرمادیتے تھے،اسی محبت کا اثر ہے کہ مسلمان مدینے پر دل و جان سے فِدا ہیں کیونکہ یہ محبوب کا محبوب ہے۔ (مرآۃ المناجیح،4/219)

مدینہ اس لیے عطاؔر جان و دِل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں مِرے آقا مِرے سرور مدینے میں

(وسائلِ بخشش مُرمّم،ص283)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                 صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

احادیثِ مبارکہ:

حضور ِانورصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مدینہ منورہ کو بے حد محبوب رکھتے تھے۔ جب کبھی سفر سے واپس ہوتے تو چہرۂ مبارک پر خوشی کے آثار ظاہر ہوتے اپنی چادر کو بازو سے ہٹادیتے اور چہرۂ مبارک کو صاف نہیں فرماتے۔نیز ارشاد فرماتے: ’’مدینہ کی خاک میں شفا ہے‘‘۔

حضورصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :’’مدینہ کی تکلیف و شدت پر میری امت میں سے جو کوئی صبر کرےگا قیامت کے دن میں اس کا شفیع رہوں گا‘‘۔ (مسلم وترمذی)

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں لوگ جب شروع شروع کے پھل لے کر حاضر ہوتے تو آپ اس کو لے کر فرماتے:’’الٰہی! تو ہمارے لئے ہمارے کھجوروں میں برکت دے اور ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں برکت دے‘ ہمارے صاع و مد میں برکت فرما۔ یااللہ پاک! بے شک حضر ت ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے اور تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور بے شک میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں ۔انہوں نے مکہ کے لئے تجھ سے دعاکی اور میں مدینہ کیلئے تجھ سے (خیر و برکت کی) دعا کرتا ہوں کہ انہیں بھی مکہ والوں جیسی برکت (عطا) فرما اور مکہ والوں کو جہاں ایک برکت دی تو مدینہ والوں کو اس کے برابر دو دو برکتیں عطافرما‘‘۔ (مسلم شریف)

یثرب سے مدینہ بننے کی مختصر تحقیق:

یثرب مدینہ منورہ کا پرانا نام تھا ،اس کا مطلب ہلاکت و بیماری ہے ۔ رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس کا نام بدلا تو پہلے مدینہ پھر مدینتہ النبی اور پھر مدینہ منورہ ہوا۔مدینہ منورہ کو یثرب کہا گیا ہے لیکن اس کے بعد اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس نام کو ناپسندفرمایا۔ اس کے بجائے طیبہ، طابہ اور مدینہ نام رکھے گئے۔چنانچہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہنے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت  کی ہے ،انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو فرماتے ہوئے سنا:إنَّ اللّٰهَ تَعَالٰى سَمَّى الْمَدِيْنَۃ طَابَۃاللہ پاک نے مدینہ کا نام طیبہ رکھا ہے۔ (صحيح مسلم، الحج، باب المدينۃ تنفي خبثها وتسمّى طابۃ وطيبۃ، حديث: 1385)اس حدیث کو  اسی سند اور متن کے ساتھ ابنِ ابی شیبہ نے بھی روایت کیا ہے، دیکھیے:( تاريخ المدينۃ: 1/164)) 

حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:إِنَّهَا طَيْبَۃ يَعْنِي الْمَدِيْنَۃ وَإِنَّهَا تَنْفِي الْخَبَثَ كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّۃمدینہ طیبہ ہے۔یہ گندگی کو(یوں)دور کرتا ہے جیسے آگ چاندی کا میل کچیل دور کردیتی ہے۔ ((صحيح مسلم، الحج، باب المدينۃ تنفي خبثها وتسمى طابۃ و طيبۃ، حديث: 1384))

حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث ِ مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:کھا جانے کے معنی یہ ہیں کہ یہاں کے لوگ تمام ملکوں کو فتح کریں گے اور ان کے مال اور خزانے مدینے میں پہنچ جائیں گے۔چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ شام،فارس اور رُوم کے خزانے مدینےپہنچ۔مزید فرماتے ہیں:مدینۂ منورہ کے نام سو  (100)سے بھی زیادہ ہیں،طیبہ،طابہ، بطحٰے، مدینہ،اَبْطَح وغیرہ،ہجرت سے پہلے لوگ اسے یثرِب کہتے تھے ،اس لیے کہ یہاں قومِ عَمَالِقَہ کا جو پہلا آدمی آیا اس کا نام یثرِب تھا۔حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :جو مدینۂ منورہ کو یثرب کہے وہ توبہ کرے۔حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جو ایک بار اسے یثرب کہے وہ بطورِ کفّارہ دس (10بار مدینہ کہے۔صُوفیا رحمۃ اللہ علیہم اَجْمَعِیْن فرماتے ہیں:اگر کوئی خبیث وہاں مر کر دفن بھی ہوجائے تو فرشتے وہاں سے اس کی نعش کسی دوسری جگہ منتقل کردیتے ہیں اور اگر کوئی وہاں کا عاشق دوسری جگہ دفن ہوجائے تو اس کی نعش مدینَۂ منورہ پہنچادیتے ہیں۔

پیاری اسلامی بہنو!بیان کردہ حدیثِ پاک اور اس کی شرح سے معلوم ہوا! جس طرح زنگ آلود لوہا اگر بھٹی میں ڈال دیا جائے، پھر مقررہ وقت پر اسے نکالا جائے تو اس پر میل کچیل کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا،اسی طرح مدینۂ طیبہ بھی اپنی پُر کیف فضاؤں میں آنے والوں کو صاف سُتھرا کردیتا ہے،لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے پاک پروردگار سے بار بار وہاں جانے بلکہ وہاں پر دفن ہونے کی بھیک طلب کرتے رہیں کہ ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑی اور کیا سعادت کی بات ہوسکتی ہے کہ اللہ پاک اسے اپنے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے محبوب شہر یعنی مدینۂ منورہ میں موت اور ہزاروں صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے وجودِ مسعود کے فیوض و برکات سے مالا مال بقیعِ پاک میں دفن ہونے کی نعمت عطا  فرمادے کہ وہاں پر مرنا اور جنت البقیع میں دفن ہوجانا مقدر والوں کا ہی حصہ ہے۔

نبیِّ پاک ،رؤفٌ رَّحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ دلنشین ہے :(قیامت میں جب سب کو قبروں سے اُٹھایا جائے گا) سب سے پہلے میری پھر ابو بکر و عمر (رضی اللہ عنہما)کی قبریں شَق ہوں گی، پھر میں جنّت البقیع والوں کے پاس جاؤں گا،تو وہ میرے ساتھ اکٹھے ہوں گے،پھر میں اہل ِمکہ کا انتظار کروں گا  حتّٰی کہ حرمینِ شریفین کے درمیان انہیں بھی اپنے ساتھ کر لوں گا۔(ترمذی،ابواب المناقب، باب  (م: تابع17، ت:56)…الخ،5/388،حدیث:3712)

عاشقِ مدینہ،امیرِ اہل ِسنت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ مدینے پاک میں مرنے اور بقیع ِپاک میں دفن ہونے کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے نعتیہ دیوان”وسائلِ بخشش “میں لکھتے ہیں :

عطا کر دو عطا کر دو بقیعِ پاک میں مدفن     مِری بن جائے تُربت یا شہِ کوثر مدینے میں

(وسائلِ بخشش مرمم،ص283)

پیاری اسلامی بہنو!حدیثِ پاک سے ہمیں یہ مدنی پھول بھی حاصل ہوا کہ مدینے شریف کو یثرِب کہنا منع ہے، لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم یہ لفظ بولنے اور لکھنے سے بچیں۔افسوس ! اب جہالت کا دور دورہ ہے، بعض نادان مسلمان علمِ دین سے دُوری کی بِنا پر مدینے پاک کا ذکرِ خیر کرنے کے لئے قرآن و حدیث میں بیان کردہ ناموں کے بجائے لفظِ یثرِب لکھتے اور پڑھتے ہیں،حالانکہ لفظِ یثرِب اپنے معنی کے اعتبار سے کسی بھی طرح مدینے شریف کے شایانِ شان نہیں،جیساکہ حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :یثرِب کا معنی ہے: مصیبت و آفات کی جگہ،چونکہ پہلے یہ جگہ بڑی بیماریوں والی تھی اس لیے یثرِب کہلاتی تھی،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی برکت سے طَیْبَہ یعنی صاف کی ہوئی زمین ہوگئی اب وہ جگہ بجائے دارُالوَباء(یعنی مقامِ مصیبت) کے دارُالشفا بن گئی۔(مرآۃ المناجیح،6/294)

عاشقانِ رسول کے لئے اس لفظ سے بچنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ ہمارے میٹھے میٹھے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنے پاکیزہ شہر کو یثرب کہنے سے منع فرمایاہے جیساکہ پیارے آقا،مکی مدنی مُصْطَفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مَنْ قَالَ لِلْمَدِيْنَۃ يَثْرِبَ فَكَفَّارَتُهُ اَنْ يَّقُوْلَ الْمَدِيْنَۃ عَشَرَ مَرَّاتٍ یعنی جو (غیر ارادی طور پر) مدینے کو یثرِب کہہ بیٹھے اسے کفاّرے کے طور پر دس(10)مرتبہ مدینہ کہنا چاہئے۔

مدینے شریف کو یثرِب کہنا تو اس قدر بُرا ہے کہ عُلمائے کرام نے مدینَۂ طیبّہ کو یثرِب کہنا ناجائز و گناہ قرار دِیا ہے چنانچہ

اعلیٰ حضرت،امامِ اہلِ سنت مولانا شاہ امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں فرماتے ہیں: مدینۂ طیِّبہ کو یَثرِب کہنا ناجائز و ممنوع اور  گناہ ہے اور کہنے والا گنہگار ہے۔نیز رسولُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:

جو مدینے کویَثرِب کہے اُس پر توبہ واجِب ہے،مدینہ طابہ ہے،مدینہ طابہ ہے۔علّامہ مُنَاوِی(حدیثِ پاک کی مشہور کتاب )جامعِ صغیر کی شرح میں فرماتے ہیں:اِس حدیث سے معلوم  ہوا ! مدینَۂ طیِّبہ کایَثرِب نام رکھنا حرام ہے کہ یَثرِب کہنے سے توبہ کا حکم فرمایا اور توبہ گناہ ہی سے ہوتی ہے۔(فتاویٰ رضویہ،21/116بتغیر قلیل)

محفوظ سدا رکھنا شہا! بے اَدَبوں سے اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بے اَدَبی ہو

(وسائلِ بخشش مُرَمَّم،ص315)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:عَلٰى أَنْقَابِ الْمَدِيْنَۃ مَلٰئِكَۃ لَّا يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ وَلَا الدَّجَّالُمدینہ کے دروازوں پر فرشتے مقرر ہیں۔اس میں نہ طاعون داخل ہوگا اور نہ دجال۔((صحيح البخاري، الفتن، باب: لايدخل الدجال المدينۃ: 7133)) 

قرآن ِکریم میں سورۂ احزاب کی آیت نمبر 13 میں لفظ یثرب ، منافقین کے قول کے طور پر آیا ہے:وَاِذْقَالَتْ طَّآ ءِفَۃٌ مِّنْھُمْ یٰٓاَھْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمْ(اور جب کہ ان(منافقوں)کی ایک پارٹی(یعنی اوس بن قبطی اور اس کے ساتھیوں ) نے کہا۔اے یثرب والو!(یہاں) تمہارے قیام کا کوئی موقع نہیں۔

رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمبرے مطلب والے ناموں کو بدل دیا کرتے تھے ۔ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے نہ صرف یثرب کا نام بدلا بلکہ اسے یثرب کہنے سے منع بھی فرمایا ۔ حدیثِ مبارکہ کے الفاظ ہیں:یقولون یثرب و ھی المدینۃلوگ اسے یثرب کہتے ہیں حالانکہ یہ مدینہ ہے ۔

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مدینہ کو یثرب کہنا اس لیے پسند نہیں فرمایا کیوں کہ یثرب کا لفظ ثَرَبَہٗ ، یَثْرِبُہاور ثَرَّ بَہٗ اور ثَرَّبَ عَلَیْہ اور اَثَرَبَہٗ سے مشتق ہے(یعنی مادہ سب کا ایک ہے لیکن استعمال فَعَلَ یَفْعَلُ اور تَفْعِیْل اور افعال سے ہوتا ہے)اور ثرب ہو یا اثراب یا تثریب سب کا معنی ہے ملامت کرنا، عاردلانا، کسی جرم پر ذلیل کرنا اور مُثْرِبْ اس کو کہتے ہیں جو بخشش میں دراز دست نہ ہو۔

خوف کہتا ہے کہ یثرب کی طرف تنہا نہ چل شوق کہتا ہے کہ تو مسلم ہے ، بے باکانہ چل

احادیثِ رسول کی روشنی میں مدینہ نبویہ کے بے شمار فضائل ہیں چند فضائل پیش خدمت ہیں:

مدینہ خیروبرکت کی جگہ ہے:والمدينۃ خيرٌ لهم لو كانوا يعلمون ترجمہ:اور مدینہ ان کے لئے باعث خیروبرکت ہے اگر علم رکھتے ۔ (صحيح البخاري:1875)

یہ حرم پاک ہے:إنها حرَمٌ آمِنٌترجمہ: بے شک مدینہ امن والا حرم ہے۔ (صحیح مسلم:1375)

فرشتوں کے ذریعہ طاعون اور دجال سے مدینے کی حفاظت:على أنقابِ المدينۃ ملائكۃ ، لا يدخُلُها الطاعونُ، ولا الدجالترجمہ:مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں اس میں نہ تو طاعون اور نہ ہی دجال داخل ہو سکتاہے۔(صحيح البخاري:7133)

مدینے میں ایمان سمٹ جائے گا:إن الإيمانَ ليأْرِزُ إلى المدينۃ ، كما تأْرِزُ الحيۃ إلى جُحرِهاترجمہ: مدینہ میں ایمان اسی طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ اپنے بل میں سمٹ جاتا ہے۔(صحيح البخاري:1876)

مدینہ سے محبت کرناہے:اللهمَّ حَبِبْ إلينَا المدينۃ كحُبِّنَا مكۃ أو أَشَدَّترجمہ:اے اللہ پاک !مدینے کو ہمیں مکہ کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ محبوب بنادے۔ ( صحيح البخاري:1889)

مدینہ میں مرنے والے کے لئے شفاعت نبوی:منِ استطاع أن يموتَ بالمدينۃ فلْيفعلْ فإني أشفعُ لمن ماتَ بهاترجمہ: جو مدینہ شریف میں رہے اور مدینے ہی میں اس کو موت آئے میں اس کی شفارش کروں گا۔ ( السلسلۃ الصحيحۃ:6/1034)

قابلِ صدرشک ہیں وہ لوگ جو مدینے میں ہیں یا اس کی زیارت پہ اللہ پاک کی طرف سے بلائے گئے ۔ اس مبارک سرزمین پہ مسجد ِنبوی ہے جسے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنے دست ِمبارک سے تعمیرکیا۔ اللہ پاک کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس مسجد کی زیارت کا حکم فرمایاہے:لا تُشَدُّ الرحالُ إلا إلى ثلاثۃ مساجدَ : مسجدِ الحرامِ، ومسجدِ الأقصَى، ومسجدي هذاترجمہ:مسجدِ حرام،مسجدِ نبوی اور بیت المقدس کے علاوہ ( حصول ثواب کی نیت سے) کسی دوسری جگہ کا سفر مت کرو۔ (صحيح البخاري:1995) حدیث میں جو فرمایا گیا ہے وہ نماز کے ساتھ خاص ہے کہ زیادہ ثواب کے لیے دوسری مسجد میں نہ جاؤ سوائے ان تین مساجد کے۔البتہ جولوگ مدینے میں مقیم ہوں یا کہیں سے بحیثیت زائر آئے ہوں تو ان کے لئے مسجدِ نبوی کی زیارت کے علاوہ مسجدِقبا،بقیعُ الغرقد اور شہدائےاُحد کی زیارت مشروع ہے ۔

مجھے مدینے کی دو اجازت،               نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت

پِلاؤ بُلوا کے جامِ الفت،                 نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت

اگر نہیں میری ایسی قسمت،             سدا حُضُوری کی پاؤں لذَّت

رُلائے مجھ کو تمہاری فُرقت،            نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت

عطا ہو مجھ کو غمِ مدینہ،                  تَپاں جگر چاک چاک سینہ

بڑھے محبت کی خوب شِدّت،            نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت

حُسین ابنِ علی کا صدقہ،                ہمارے غوثِ جلی کا صدقہ

عطا مدینے میں ہو شہادت،              نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت

ہر اِک نبی ہر ولی کا صدقہ،               تجھے تِری ہر گلی کا صدقہ

دے طیبہ میں مرنے کی سعادت،       نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت

(وسائلِ بخشش مرمم،ص207)

پیاری اسلامی بہنو!مدینے شریف کی  عظمت و حرمت کی تو کیا ہی بات ہے ! اس مبارک بستی میں نہ تو دجال داخل ہوسکتا ہے اور نہ ہی طاعون جیسی مُہلک بیماری کیونکہ مدینے شریف کی راہوں پر اللہ پاک کی طرف سے اس کے معصوم فرشتے  مقرَّر  ہیں جو ہر گز ہرگز شہرِ مدینہ کے اندر طاعون اور دَجال کو داخل نہیں ہونے دیں گےجیساکہ

نبیِ اکرم،نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینے کے راستوں پرفِرِشتے(پہرہ دار)ہیں،لہٰذا اس میں طاعون اور دجّال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری، کتاب فضائل المدینۃ،باب لا یدخل الدجال المدینۃ ،1 /619،حدیث:1880)

طاعون ایک وبائی بیماری ہے جس میں بغل یا ران پر پھوڑا نکلتاہے،اس کا زہر اتنا خطرناک ہوتا ہےکہ اس بیماری میں مبتلا انسان کے بچ جانے کا امکان بہت ہی کم ہوتا ہے،عموماً اس بیماری میں اُلٹیاں آنے، بیہوشی طاری ہونے اور دل کی دھڑکن بڑھ جانےکا غلبہ رہتاہے،یہ مرض پہلے چوہوں میں پھیلتا ہے پھر انسانوں میں منتقل ہوجاتاہے۔