لو مدینے کا
پھول لایا ہوں
میں حدیث
رسول لایا ہوں
درود پاک کی فضیلت : فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم:تم جہاں بھی ہو مجھ پر درود پڑھو کہ تمہارا درود
مجھ تک پہنچتاہے۔
صلو اعلی
الحبیب صلی اللہ تعالیٰ علیٰ محمد
تمہید: علمِ
حدیث ایک ایسا علم ہےجس کے ذریعے ہم اپنی زندگی اسلامی اصولوں کے سانچے میں ڈھال
سکتے ہیں،درجِ ذیل نکا ت میں ہم علم حاصل کرنے کی سعادت حاصل کریں گے۔ اِنْ شَآءَ اللہ
حدیث کی تعریف : حدیث سے مراد ہے جو نبی اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول،
فعل،تقریر یا وصف کے بارے
میں منقول ہوں۔
ضرورت حدیث:
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی گزارنے کے اصول اور کئی
مثالیں ایسی بیان فرمائی ہیں جن کی تفسیر و تشریح یعنی سمجھنا بغیراحادیث نبویہ کے
ممکن ہی نہیں ہے، احادیث رسول ہمیں قرآنی احکام پرعمل کرنے کی چلتی پھر عملی تصویر
بنادیتا ہے، اگر احادیثِ رسول موجود نہ ہوں تو ہمارے پاس قرآن کریم کے معنی کو
سمجھنے کااور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
حجیت حدیث :
اللہ تعالیٰ نے
قرآن پاک میں بعض جگہ پر نبی اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال اور افعال کی پیروی کرنے کا حکم دیا ہے
چنانچہ ارشاد فرمایا گیا ہے:
اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا
الرَّسُوْلَ
ترجمہ کنز الایمان : حکم مانو اللہ کا اور حکم
مانو رسول کا۔(سورہ النساء 59)
اللہ تعالیٰ ایک
اور جگہ ارشاد فرماتا ہے۔
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ
رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-
ترجمہ
کنز الایمان : او رہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے۔(سورہ النساء
64)
ہم نے رسول کو صرف اس لیے بھیجا ہے تاکہ اللہ کے حکم کے
تحت اس کی اطاعت کی جائے۔
ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے احکام کی اطاعت قیامت تک
کے لیے مسلمانوں پر واجب ہے۔
محبت سکھا دیتی ہے رضا با راضی رہنا:
جب ہمیں اس دنیا میں کوئی شخص پسند آجائے تو ہم اس
سے تو محبت کرتے ہی ہیں بلکہ اس کے ساتھ اس کی عادتوں، باتوں، اس کے گھر بار، محلے
یہاں تک کہ اس سے تعلق رکھنے والے ہر انسان سے بھی محبت کرتے ہیں، کیونکہ محبوب کی
تو ہر ہر ادا ہی سے محبت ہوتی ہے جب کہ نبی پاک سے محبت کرنا تو ہم عاشقوں پر فرض کردی گئی ہے، الحمدللہ عزوجل
ہم اپنے پیارے آقا شفیع محشر صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کا دم تو بھرتے ہیں۔
کہ :یارسول اللہ میں جی رہا ہوں زمانے میں آپ ہی کے لیے !
تو آقا صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں بروز قیامت بخشوائیں گے، پل صراط پار
کروائیں گے، حوضِ کوثر سے جام پلائیں گے تو کیا ہی اچھا ہو کہ ہم عشق کا دم بھرنے
کے ساتھ ساتھ اپنے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے ہر قول و فعل پر عمل کرنے
والے بھی بن جائیں ہمارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم سے بہت محبت کرتے ہیں، آقا صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
احادیث پر عمل کرکے ہم اپنی دنیا وآخرت سنوار سکتے ہیں اس بات کا ثبوت میرے پیارے آقا صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
اس حدیث مبارک سے لیجئے:
حضرت ابوذر جندب بن جنادہ رضی اللہ تعالٰی عنہ اور حضرت ابو عبدالرحمن معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ نبی اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا
یہ فرمان نقل کرتے ہیں۔
تم جہاں بھی ہو اللہ سے ڈرتے رہو اور گناہ کرنے کے بعد نیکی کرلیا کرو
وہ اس گناہ کو مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔
(جامع ترمذی
1987، سنن دارمی، 2791، مسند احمد 21392)
اے اللہ عزوجل ہمیں علم حدیث
پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسانی معیشت کے اصول
اور مبادیات اجمالاً بیان فرمائے ہیں، جن
کی تعبیر و تشریح بغیر احادیث نبویہ کے ممکن نہیں ہے نیز احکام کی عملی صورت بیان
کرنے کے لئے اسوۂ رسول کی ضرورت ہے، احادیث رسول ہمیں قرآنی احکام کی عملی تصویر
مہیا کرتی ہے۔
علاوہ ازیں مثلاً صلوة ، زکوة، حج ، عمرہ تیمم پرمحض الفاظ ہیں، لغت عربی
ان الفاظ کے وہ معانی نہیں بتاتی جو شرع میں مطلوب ہیں، پس اگر احادیث رسول موجود نہ ہوں تو ہمارے پاس
قرآن کے معانی شرعیہ بیان کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہے گا، اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اقوال اور افعال کی
پیروی کا حکم دیا ہے، وَ
مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا
فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز
رہو۔(حشر:7)
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ
اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک تمہیں رسول
اللہ کی پیروی بہتر ہے (احزاب :21)
ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کی اطاعت اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کی اتباع قیامت تک کے مسلمانوں پر واجب ہے۔ اب اصول
یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ ظاہری
کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور افعال کا
علم کس ذریعہ سے ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو ہمارے لئے
نمونہ بنایااور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
ز ندگی ہمارے سامنے نہ ہو تو ہم اپنی زندگی کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ میں کیسے ڈھال سکیں گے تو
اسوۂ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم پر عمل صرف احادیث سے ہی ممکن ہے تو معلوم ہوا
کہ جس طرح صحابہ کرام کے لئے خود حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ،ہدایت تھی اسی طرح ہمارے لئے حضور پاک صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کی احادیث ہدایت ہیں، اگر احادیث ِرسول
صلی ا للہ
تعالیٰ علیہ وسلم کو حضور کی سنت اور آپ کے اسوہ حسنہ
کے لئے معتبر ماخذ نہ مانا جائے، تو اللہ تعالیٰ کی محبت بندوں پر نا تمام رہے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت کے لئے صرف قرآن کو کافی نہیں قرار دیا بلکہ قرآن کے احکام
کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے افعال کی پیروی کو
بھی لازم قرار دیا ہے۔
حدیث مبارک کو اگر معتبر نہ مانا جائے تو نہ صرف یہ کہ
حضور کی د ی ہوئی ہدایات سے ہم محروم ہوں
گے بلکہ قرآن کریم کی دی ہوئی ہدایات سے بھی ہم مکمل طور پر مستفید نہیں ہوسکیں گے
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لئے قرآن نازل فرمایالیکن اس کے معانی کا بیان اور اس کے
احکام کی تعلیم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
سپرد کردی، چنانچہ ارشاد فرمایا:
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ تَرجَمۂ کنز الایمان: اور اے محبوب ہم نے تمہاری طرف یہ یادگار اتاری کہ تم لوگوں سے بیان کردو۔
اسی طرح قرآن کریم کے نفس مضمون کو سمجھنے کے لئے بھی ہمیں احادیث کی ضرورت پڑتی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جس طرح معانی
قران کے مبیّن اور معلم ہیں اسی طرح آپ
بعض احکام کے شارع بھی ہیں، حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جن چیزوں کو حلال اور حرام کیا قرآن میں کہیں ان کا ذکر نہیں ہے، ان کا
ذکر صرف احادیث رسو ل صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم سے ہی ممکن ہے،اگراحادیث رسول کو حجت
نہ مانا جائے تو حلت و حرمت کے تمام احکام
کے لئے شریعت اسلامیہ کافی نہیں ہوگی، حاصل کلام یہ ہے کہ اگر فہم قرآن کے لئے احادیث نبو یہ کو ایک معتبر ماخذ
اورحجت نہ مانا جائے تو قران مجید کی بعض آیات معمہ بن کر رہ جائیں گی اور ان کے
معانی و مفاہیم ہمارے لئے سمجھنا مشکل ہوجائیں گی جب سمجھ نہیں پائیں گے تو عمل
مشکل ہوجائے گا، اس کے لئے ایک مثال نماز کی لے لیں کہ قرآن پاک میں بےشمار مقامات
پر نماز ادا کرنے کا حکم ہے مگر نماز کب
کیسے اور کتنی رکعتیں پڑھنی ہیں اس کا علم ہمیں سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم سے ملتا ہے ، لہذا حدیث پاک ہمارے لئے مشعل راہ ہے،
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴)
تَرجَمۂ
کنز الایمان: اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی
جاتی ہے ۔(النجم: 3،4)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کا ہر قول و
فعل اللہ عزوجل کی رضا کے مطابق ہوتا ہے، اللہ عزوجل خود فرمارہا ہے کہ آپ اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں کرتے مگر وہی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔
حدیث کہتے ہیں حضور صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے قول کو وہ صراحتا ً ہو
یا حکما ًاور حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی تقریر
اور فعل کو اور حضور صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تقریر کا مطلب یہ ہے کہ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روبرو کوئی کام کیا گیا اور
حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے اسے منع
نہیں فرمایا۔
(انوار الحدیث کتاب ، صفحہ ۵۰)
حدیث کی
اہمیت :
دینِ اسلام کے تمام اصولی و فروعی احکامات کا دار و مدار قرآن ِ مجید اور
احادیثِ کریمہ پر ہی ہے حالانکہ اجتماع امت اور قیاس سے بھی احکامات کا استخراج و
استنباط کیا جاتا ہے لیکن اجماع امت اور قیاس بھی صرف اسی صورت میں قابلِ اعتماد و
قبول ہے کہ ان کی موافقت قرآن و حدیث کی سند سے حاصل ہے، قرآن و حدیث کے خلاف ہونے
والا اجماعِ امت اور کیا جانے والا قیاس قطعا واجب الاعتقاد و العمل نہیں یعنی حضور اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مقدس زبان فیضِ ترجمان سے کبھی
قرآن مجید کی آیاتِ مقدسہ سماعت پذیر ہوتی ہے تو کبھی احکامِ الہیہ بمشکل احادیثِ
مصطفی وجود پذیر ہوتی ہے۔(جامع الاحادیث کتاب صفحہ نمبر۲۹)
حجیت ِ حدیث
:
جس طرح قرآن احکام شرع میں حجت ہے، اسی طرح حدیث بھی اور اس سے بھی بہت سے
احکام ِ شریعت ثابت ہوتے ہیں چنانچہ رب عزوجل فرماتاہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ
اللّٰهَۚ- ترجمہ
کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔(النسا80)
(نصابِ اصول حدیث کتاب، صفحہ نمبر۱۴)
تدوین حدیث
اور تصانیف:
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہکی
تحریک پر فنِ حدیث میں سب سے پہلی کتاب حضرت ابن حزم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تصنیف فرمائی اس کے بعد حدیث کی
کتابوں کی تصنیف و تالیف اور جمع و ترتیب کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا، مختلف
شہروں میں مختلف بزرگوں نے حدیث میں بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیں اور اصول حدیث کے
نام سے علم و فکر کی دنیا میں ایک نئے فن کا آغاز ہوا۔اصول و شرائط کے سخت سے سخت
معیار پر احادیث کی نئی نئی کتابیں لکھی گئی کہ آج اس فن کی جملہ تصانیف میں صحیح
بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ اور سنن نسائی بہت مشہور
اور متداول بین الناس ہیں۔(انوار الحدیث کتاب صفحہ نمبر۷۹)
صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان کے واقعات:
چار دن میں
30 احادیث :
حضرت
سیدنا عمرو بن ابی سلمہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان
کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا امام اوزاعی سے عرض کی چار دن سے میں آپ رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ کی صحبت میں ہوں اور اتنے دنوں میں
میں نے صرف 30 احادیث سنی ہیں۔
آپ رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا 4 دنوں میں 30 احادیث سن
لینا تمہیں کم نظر آتا ہے ، جب کہ حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے صرف
ایک حدیث کے متعلق پوچھنے کے لئے سواری کا جانور خریدا اور اس پر سوار ہو کر مصر
کا سفر فرمایا تھا اور تم ہو کہ تمہیں چار دنوں میں 30 احادیث کم لگتی ہیں۔
(عاشقانِ حدیث کی حکایات، صفحہ
نمبر27)
حضرت سیدنا عبید اللہ حضرمی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں، کاش ! میں ایک حدیث کی سماعت کے لئے
ملک بہ ملک سفر کرتا رہتا۔(عاشقانِ حدیث کی حکایت صفحہ نمبر38)
عمر گزری ہے لکھنے پڑھنے میں
سب کتابوں سے ہوچکا دل سیر
اب لگن ہے حدیث وقرآن سے
اسکو کہتے ہیں خاتمہ بالخیر
(عبدالمصطفی اعظمی رحمہ اللہ علیہ)
رب
کائنات عَزَّوَجَلَّ نے اپنا فضل و عدل ،قدرت
و کمال ظاہر کرنے کے لئے مخلوق کو پیدا فرمایا اور مخلوق کی ہدایت اور سیدھے راستے
کے لئے انبیاء کرام علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، انہی میں ہمارے پیارے نبی خاتم النبیین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی مبعوث فرمایا اور قرآن پاک
جیسی لاریب کتاب کو نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قلب انور پر نازل فرمایا کہ جس میں کائنات کی
ہر شے کا علم موجود ہے ۔
کلام
اللہ کے بعدجس کلام کا مرتبہ کائنات میں سب سے بلند ہے وہ کلام
حضور علیہ السلام کی احادیث ہیں جن میں آپ کے اقوال و افعال اور تقریرات شامل ہیں۔(تقریر کہتے
ہیں کہ کوئی ایسا فعل جو حضور علیہ
السلام کے
سامنے ہوا ہوں اور آپ نے اس سے منع نہ کیا )۔
یعنی
قرآن پاک کے بعد حدیث شریف کا مرتبہ سب سے بلند ہے،مفتی احمد یار خان نعیمی حدیث
شریف کی اہمیت پر بڑی پیاری مثال دیتے
ہوئے فرماتے ہیں کہ گویا قرآن پاک ایک لیمپ کی بتی ہے اور حدیث شریف اس کی رنگین
چمنی، جہاں قرآن پاک کا نور ہوتا ہے وہاں حدیث شریف کا رنگ ہوتا ہے ۔
ایک
اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ قرآن و حدیث اسلام کی گاڑی کے دو پہیے ہیں یا مومن کے
دو پر ہیں کہ جن میں سے ایک کے بغیر نہ ہی گاڑی چل سکتی ہے اور نہ ہی مومن
پرواز کرسکتا ہے ،
(مراٰۃالمناجیح ،ص 23)
تو معلوم ہوا کہ قرآن پاک کو سمجھنے کے لئے علم
حدیث کو جاننا ضروری
ہے اور علم حدیث کی اہمیت کے بارے میں رب کائنات خود ارشادفرماتاہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ
اللّٰهَۚ- تَرجَمۂ
کنز الایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم
مانا ۔(النساء: 80)
مفتی
احمد یار خان نعیمی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت بہرحال واجب ہے۔ قول میں، عمل میں، خصوصیات میں، اور آپ کا فرمان واجب
العمل ہے۔اگر کسی کو ایسا حکم دیں جو بظاہر قرآن کے خلاف ہو تو اس پر بھی عمل کرنا
لازم ہے۔ اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں جیسے
کہ خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی گواہی دو کے برابر ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنھا کی موجودگی میں
غیر سے نکاح حرام قرار دے دیاگیا اور حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کو سونے کے کنگن پہنا
دیئے گئے وغیرہ۔ (نورالعرفان پارہ 5 سورہ نساء آیت نمبر80)
جس طرح قرآن پاک میں نماز روزہ زکوۃ وغیرہ کا
ثبوت ہے ،اس کا انکار کرنے والا کافر ہوتا ہے اسی طرح احادیث سے بھی اس کاثبوت ہے
اور ان کی تفاصیل بھی اسی سے ثابت ہے۔
جیسے
نماز کی تعداد، رکعتوں کی تعداد، زکوۃکانصاب، ادا کرنے کا طریقہ کار، روزے کے فرائض
،طریقہ حج و ارکان حج، ان سب کا ثبوت احادیث سے ہے۔تو پھر واضح ہوگیا کہ قرآن کے
احکام وہ احادیث کے احکام ہیں۔ لہذا ماننا پڑے گا کہ دین میں ضروری ہے کہ احادیث
پر عمل کیا جائے ورنہ کئی سو احکامات ثابت ہی نہیں ہو سکیں گے ۔
اور اسلام مکمل ضابطہ حیات ہونے کی حیثیت سے
سمجھانے اور اعتقادی و عملی طور پر اپنانے کے لئے قرآن مجید اور احادیث کریمہ کی
طرف رجوع کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ ان دونوں سے اعتقادی و عملی مسائل اور احکام
کے چشمے جاری ہوتے ہیں۔
حدیث کہتے ہیں حضور صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول کو صراحتاً ہو یا حکما ًاور حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فعل کو اور تقریر کو۔
حدیث کی
دینی حیثیت:
یہ امر محتاج بیان نہیں کہ احکام شریعت کا پہلا سرچشمہ قران عظیم ہے کہ وہ
خدا کی کتاب اور قرآن ہی کی صراحت کے بموجب رسول خدا کی اطاعت و اتباع بھی ہر
مسلمان کے لئے لازم ہے کہ بغیر اس کے احکام الہی کی تفصیلات کا جاننا اور آیاتِ
قرآن کا منشا و مراد سمجھنا ممکن نہیں ہے اس لئے لا محالہ حدیث بھی اس لحاظ سے
احکام شرع کا ماخذ قرار پاگئی۔حدیث، رسول خدا کے احکام و فرامین ان کے اعمال افعال
اور آیات قرآن کی تشریحات و مرادات سے باخبر ہونے کا ایک واحد ذریعہ ہے، آیاتِ
مبارکہ ملاحظہ فرمائیے جس میں نہایت وضاحت کے ساتھ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت اور پیروی کا حکم ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ترجمہ کنز الایمان : اے ایمان والو اللہ
اور اس کے رسول کا حکم مانو ( سورہ انفال
۔17)
تاریخ تدوین
حدیث :
جب کاغذ کے ٹکڑوں ، ہرن کی جھلیوں، کھجور کے پتوں اور الواح القلوب میں
بکھری ہوئی قرآن مجید کی آیتیں عہد صدیقی سے لے
کر عہد عثمان تک کتابی شکل میں ایک جگہ جمع کردی گئیں اور ساری دنیا میں اس کے
نسخے پھیلا دیئے گئے اور احادیث کے ساتھ آیاتِ قرآنی کے التباس کا کوئی اندیشہ
نہیں رہاتو حضرت عمر بن عبدالعزیز کےزمانہ خلافت میں احادیث کی تدوین و تصنیف و
کتابت کا کام شروع ہوا۔ جب یہ بات طے
ہوگئی کہ قرآن و اسلام پر عمل درآمد کا حکم قیامت تک کے لئے ہے اور یہ بھی طے
ہوگئی کہ قرآن و اسلام کی تفصیلات کا علم اور ان پر عمل درآمد بغیر اطاعت و رسول
کے ممکن نہیں ہے، دریافت طلب یہ امر ہے کہ آج رسول کے وہ احکام کہاں ہیں جن کی
اطاعت کا قرآن ہم سے مطالبہ کرتا ہے کیونکہ احکام کے بغیر اطاعت رسول کا
مطالبہ سراسر عقل وشریعت کے خلاف ہے، جب
آج بھی قرآن ہم سے اطاعت رسول کا طالب ہے تو ہمارے سامنے احکامِ رسول کا ہونا
ضروری ہے۔
واقعہ:
حضرت جابر بن عبداللہ کے بارے میں امام نیشا
پوری نے نقل کیا کہ ایک عظیم محدث حضرت عمر بن ابی سلمہ امام الحدیث حضرت امام
اوزاعی کی خدمت میں چار سال رہے اور طویل عرصے میں انہوں نے صرف تیس حدیثیں ان سے
سماعت فرمائیں ایک دن وہ حضرت امام اوزاعی سے بڑی حسرت کے ساتھ کہنے لگے، آپ کی
خدمت میں رہتے ہوئے مجھے چار سال ہوگئے لیکن اس طویل عرصے میں صرف تیس حدیثیں میں آپ سے حاصل کرسکا، امام اوزاعی نے
جواب دیا دیا، چار سال کی مدت میں تیس حدیثوں کا ذخیرہ تم کم سمجھ رہے ہو !حالانکہ
حضرت جابر بن عبداللہ نے صرف ایک حدیث کے لئے مصر کاسفر
کیا، سواری خریدی اور اس پر سوار ہو کر مصر گئے اور حصرت عقبہ بن عامرسے ملاقات
کرکے مدینہ واپس لوٹ گئے یعنی تیس احادیث
کی سماعت کو بھی غنیمت جانو کہ یہ ایک عظیم نعمت تمہیں کم مدت میں حاصل ہوگئی۔
(انوار الحدیث، ص ، ۳۹ تا ۴۶)
حضرت
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بڑا پیارا واقعہ مسند امام احمد میں ہے کہ وہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث لکھا کرتے تھے کچھ لوگوں نے ذہن میں یہ
وسوسہ ڈالا کہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم کبھی غصے کی حالت میں ہوتے ہیں تو کبھی خوشی میں
اور آپ ہر بات لکھ لیتے ہیں انہوں نے
لکھنا موقوف کیا چند دن بعد پیارے آقا علیہ
السلام نے خود ہی پوچھ لیا کہ لکھتے کیوں نہیں تو انہوں
نے سارا ماجرہ عرض کر دیا تو حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری
جان ہے میرے زبان سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا (مشکاۃ المصابیح،صفحہ 40)
یہ
بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں کلام اللہ (قرآن) کے بعد حدیث کا درجہ ہے، کیوں نہ ہو کہ اللہ کے بعد رسول کا مرتبہ ہے قرآن گویا کہ لیمپ کی بتی ہے اور حدیث
اس کی رنگین چمنی ہے جہاں قرآن کا نور ہے وہیں حدیث کا رنگ ہےقرآن سمندر تو حدیث
اس کا جہاز، قرآن اجمال ہے تو حدیث اسکی تفصیل ہے قرآن میں اگر ابہام ہے تو حدیث
نے اس کی شرح کی ہے ۔ قدرت نے ہمیں داخلی و روحانی دو نوروں کا محتاج کیا ہے۔ (1)قرآن
(2) حدیث۔
اندھے
کے لئے سورج بیکار اور اندھیرے میں آنکھ بے فائدہ ہے ایسے ہی قرآن اگر سورج ہے تو
حدیث گویا کہ مومن کی آنکھ کا نور یا قرآن ہمارے آنکھ کا نور ہے اور حدیث آفتاب
نبوت کی شعائیں ہیں اگر ایک بھی نہ ہو تو ہم اندھیرے میں رہ جائیں اس لئے رب
العالمین نے قرآن کو کتاب اور حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کو نور فرمایا قد جاءکم من اللہ نوروکتاب مبین
حدیث
کا قرآنی مفاہیم اور تعین معانی اور احکام کے استنباط میں بڑا دخل ہے ، فہم معانی
کی توضیح و تفسیر حدیث کے ذریعے ہوتی ہے جیسے
لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى
وَ زِیَادَةٌؕ-
تَرجَمۂ کنز الایمان: بھلائی والوں کے لئے بھلائی ہے اور اس سے بھی زائد(یونس ، 26)
یہ (زیادہ) کیا ہے؟ حدیث نے
بتایا کہ دیدار الہی ہے تو ہم کبھی نہ سمجھ سکتے اگر حدیث نہ ہوتی ۔
ائمہ
اربعہ کا حدیث کے بارے میں موقف :
(1)امام
اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : لولا السن ما فہم احد منا القرآن۔ اگر حدیث نہ ہو تو ہم میں سے کوئی قرآن نہ سمجھ سکے ۔مزید فرمایا جب تک
لوگ علم حدیث کو طلب کرتے رہیں گے بھلائی میں رہیں گے اور جب حدیث کو ترک کردیں گے
تو ان میں فساد آجائے گا
(2)امام
شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا اس بارے میں مسلک یہ ہے : اس بات پر تمام اہل
اسلام کا اجماع ہے کہ جب کسی کو نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کی حدیث مل جائے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ حدیث
کو چھوڑ کر کسی قول پر عمل کریں ۔
(3)
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے جو کچھ کتاب وسنت کے مطابق ہو اسے لے
لو اور جو کتاب وسنت کے موافق نہ ا سے
چھوڑ دو ۔
اما بعد! جاننا چاہیے کہ اسلام میں
قرآن کے
بعد کلام رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
کا درجہ ہے، اور یہ بھی کیوں نہ ہو کہ اللہ کے
بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مرتبہ ہے،
قرآن گویا لیمپ کی بتی ہے اور حدیث اس کی رنگین چمنی ، جہاں قرآن کا نور ہے
وہاں حدیث کا رنگ ہے، قرآن سمندر ہے حدیث
اس کا جہاز، قرآن موتی ہے اور حدیث کے مضامین ان کے غوّاص ،قرآن اجمال ہے حدیث اس
کی تفصیل قرآن ابہام ہے حدیث اس کی شرح، قدرت نے ہمیں داخلی خارجی دونوں نوروں کا
محتاج کیا ہے نور بصر کے ساتھ نور قمر
وغیرہ بھی ضروری ہے، اندھے کے لیے سورج بیکار، اندھیرے میں آنکھ بے فائدہ ، ایسے
ہی قرآن گویا سورج ہے حدیث گویا مومن کی آنکھ کا نور یا قرآن ہماری آنکھ کا نور
ہے، اور حدیث آفتاب نبوت کی شعاعیں کہ ان میں سے اگر ایک بھی نہ ہو تو ہم اندھیرے
میں رہ جائیں اسی لیے رب العالمین نے ہمیں یہ عطا فرمایا اگر
ایک بھی نہ ہو تو ہم اندھیرے میں رہ جائیں اسی لیے رب العالمین نے قرآن کو کتاب فرمایا اور حضور علیہ الصلوة والسلام
کو نور ، قال اللہ تعالیٰ:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ
كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵) تَرجَمۂ کنز الایمان: بے
شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب (المائدہ ،15) وہ قال ہے یہ حال ۔ع
تیرے کردار
کو قرآن کی تفسیر کہتے ہیں
غرضیکہ قرآن و حدیث اسلام کی گاڑی کے دو پہیے ہیں
یا مومن کے دوپر، جن میں سے ایک کے بغیر نہ یہ گاڑی چل سکتی ہے نہ
مومن پرواز کرسکتا ہے۔موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو قرآن و حدیث کے تراجم کا بہت
شوق ہے ،ہر شخص چاہتا ہے کہ میں اپنے رب اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کے کلام کو سمجھوں، اور یہ
جذبہ نہایت قابل قدر ہے، مگر بعض پڑھے لکھوں نے اس سے غلط فائدے اٹھائے کہ قرآن و حدیث کے ترجموں کے بہانوں سے
برے عقائد خیالات پھیلادیئے، آج مسلمانوں کے بیسیوں فرقے اور ان کاآپس میں اختلاف ان
ہی ترجموں کا نتیجہ ہے، پھر شامتِ اعمال سے اب وہ بھی پیدا ہوگئے جو سرے سے
حدیث کا انکار ہی کرنے لگے،ان کا فتنہ بہت پھیل رہا ہے، انکار حدیث پر بے شمار دلائل قائم کیے جانے لگے مگر سب کی بنیاد چار شبہوں پر ہے
، اگر یہ زائل ہوجائیں تو تمام اعتراضوں کی عمارت خود بخود ہی گر جاتی ہے۔(بحوالہ
مراة المناجیع)
اعتراضات اور ان کا علاج:
پہلا شبہ :
قرآن مکمل کتاب ہے اور اس میں ہر چیز کا بیان ہے
پھر حدیث کی کیا ضرورت ، نیز اس کا سمجھنا بھی آسان ہے کیونکہ رب فرماتا ہے، وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ
لِلذِّكْرِ ، تَرجَمۂ کنز الایمان: اور بےشک ہم نے قرآن یاد کرنے کے لیے آسان فرمادیا۔(القمر ،17)
پہلے شبہ کا ازالہ:
بے شک قرآن مکمل کتاب ہے مگر اس مکمل کتاب سے لینے
والی کوئی مکمل ہستی چاہیے اوروہ نبی کریم
صلی اللہ تعالیٰ وسلم ہیں۔ سمندر سے
موتی ہر شخص نہیں نکال سکتا شناور کی ضرورت ہوتی ہے قرآن
حفظ کے ليے آسان ہے کہ بچے بھی یاد کرلیتے ہیں نہ کہ مسائل
نکالنے کےلیے اس لیے للذکر
فرمایا گیا ، یعنی یاد کرنے کے لیے
( بحوالہ مراة المناجیح)
دوسرا شبہ:
رسُول ربّ کے قاصد ہیں جن کا کام ڈاکئے (الفاظ تبدیل کریں ۔۔۔مفتی صاحب) (رب کا پیغام بندوں تک پہنچانا ہے۔یہ ایڈ کر دئیے جائیں ۔۔جاوید)( کی طرح رب کا پیغام پہنچاناہے۔ نہ کہ
کچھ سمجھانااور بتانا ۔ رب فرماتا ہے : لَقَدْجَآءَ کُمْ رَسُوْل
دوسرے شبہ کا ازالہ :
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رسول بھی ہیں خدائی کے
معلم بھی، مسلمانوں کو پاک ستھر افرمانے والے رب نے فرمایا۔ وَ
یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان: اور انہیں تیری
کتاب اور پختہ علم سکھائے (البقرہ ،169)
کیا بعض آیات پر ایمان ہے بعض پر نہیں مشین کا استعمال سکھانے کے لیے مشین
والوں کی طرف سے کتاب بھی دی جاتی ہے،
اور معلم بھی بھیجے جاتے ہیں، کارخانہ قدرت کی طرف سے ہمیں جسم کی مشین دی
گئی ، اس کا استعمال سکھانے کے لیے کتاب قرآن شریف اور معلم حضور صلی اللہ علیہ
وسلم بھیجے گئے۔(بحوالہ مراة المناجیح)
معلم خدائی کےوہ بن کے آئے
جھکے ان کے آگے سب اپنے پرائے
تنبیہی مدنی
پھول:
طویل بحث کے بجائے صرف دو مسئلوں کو قران کے ذریعے حل کرکے علمِ حدیث کی ا
ہمیت معلوم کرتے ہیں۔
۔ اسلام کا سب سے عام حکم ہے۔ اقیموا لصلوة
واتواالزکوة ، ترجمہ : نماز قائم رکھو اور زکوة دو ۔
برا ہ مہربانی قرآنی نماز، قرآنی زکوة ادا کرکے دکھادیجئے جس میں حدیث سے
امداد نہ کی گئی ہو، نماز کل کتنے وقت کی ہے اور کتنی رکعتیں ہیں، زکوة کتنے مال
پر ہے اور کتنی ہے؟ قرآن نے صرف سور کا گوشت حرام کیا ہے، کتے، بلی ، گدھے، اور
سورکے کلیجی، گردوں کی حرمت قرآن سے دکھا دیجئے، غرض یہ کہ چکڑالویت
صرف قولی مذہب ہے جس پر عمل ناممکن ہے۔
تحقیق احکامِ شریعت کا سرچشمہ قرآن مجید ہے بلا شبہ قرآن مجید فرقانِ حمید
کی صراحت (وضاحت) و ہدایت کےلئے رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و اتباع ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے،
اطاعت و اتباع رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے بغیر
احکامِ الہی عزوجل کی تفصیلات کا جاننا اور آیات خداوندی کا مقصد و مراد سمجھنا ممکن ہی نہیں۔
اللہ کے پیارے حبیب احمد مجبتی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و اتباع کا اہم ترین
ذریعہ احادیث مبارکہ ہیں۔
حدیث کسے
کہتے ہیں؟
نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال، احوال، اور افعال مبارکہ
کو حدیث کہتے ہیں۔
تو لہذا احادیث مبارکہ احکامِ شرع کا ماخذ (خزانہ) قرار پا گئی کہ یہ رسول محتشم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکام و فرامین ، اعمال، افعال
اور آیاتِ قرآنی کی مراد وتشریح سے باخبر ہونے کا واحد ذریعہ ہے۔
بلاشبہ احادیث مبارکہ سے باخبر ہونے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ایک بین
صورت محمد مصطفی احمد مجبتی رسول کریم صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع و اطاعت ہے۔
آئیے اس بارے میں قران مجید سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں کہ یہ قرآن حمیدہمیں
کیا ہدایت فرماتا ہے۔دیکھئے پارہ نمبر۳، سورہ آل عمران کی آیت نمبر۳۱
ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ
اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
ترجمہ کنزالایمان ۔
اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے
ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں
دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا
اور
اللہ بخشنے والا
مہربان ہے
بے شک ہر مسلمان اللہ تعالیٰ سے محبت کادعویٰ کرتا ہے،
تفسیر، اس آیت کریمہ کی تفسیر میں صدر الافاضل حصررت علامہ سید محمد نعیم
الدین مراد آبادی رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں، اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ کی محبت کا دعویٰ تب ہی سچا ہوگا
جب آدمی پیارے رسول کریم صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا متبع و فرمانبردار ہو، مزید فرماتے ہیں کہ
محبتِ الہی عزوجل کا دعویٰ سید عالم صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع وفرمانبرداری کے بغیر ممکن ہی نہیں،
جو اس دعویٰ کا ثبوت دینا چاہے وہ حضور صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی غلامی اختیار کرے۔(تفسیر نعیمی پارہ نمبر۳،
سورہ آل عمران آیت ۳۱)
یہی
وجہ ہے کہ بزرگانِ دین سلف و خلف رحمہم اللہ نے احادیث کو یاد کرنے اور دیگر لوگوں تک پہنچانے کے لیے ہر دور میں بے حد اہتمام فرمایا۔اعلحضرت مولانا شاہ امام
احمد رضا خان خوب فرماتے ہیں۔
میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زبان نہیں
وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں(حدائق بخشش)
اتباع
کا معنی ہے پیچھے چلنا، اصطلاح میں خالص پیروی اور کامل اطاعت کو اتباع کہا جاتا
ہے، اطاعت کے معنی فرمان، ارشاد پر عمل ، دیکھئے آیتِ قرآنی کی روشنی میں سید عالم
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کے
فوائد حقیقی
۱۔ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ
اللہ تمہیں دوست رکھے گا، یقینا ہر کامل مومن کی ایک ہی تمنا ہوتی ہےکہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہوجائے مجھے
اپنا محبوب بنالے تو پھر جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ اپنا
محبوب بنالے تو اس کے بارے میں قران مجید میں فرمایا گیا ہے۔
ترجمہ
کنز الایمان ۔ سن لو بے شک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف
ہے نہ کچھ غم ( پارہ نمبر۱۱، آیت نمبر ۶۲)
۲۔
یَغْفِرْ لَكُمْ
ذُنُوْبَكُمْؕ-تمہارے گناہ بخش دے گا۔
بلاشبہ
جس کے گناہ بخشے جائیں تو اس کے لیے جنت کے اعلیٰ درجات ہیں، حضور صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و فرمانبرداری کا دوسرا نام
احادیث پر عمل ہے اور کتب احادیث میں بھی
حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی اطاعت کے
بارے میں ملتا ہے۔
روایت
ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ منکر کے سوا میری ساری امت جنت میں جائے گی، عرض کیا
گیا منکر کون ہے؟ فرمایا جس نے میری فرمانبرداری کی جنت میں گیاجس نے میری
نافرمانی کی منکر ہوا۔(رواہ البخاری ، مشکوة المصباح مراة المناجیح کے صفحہ نمبر
۱۴۷ مطبوعہ قادری پبلشر)
تو ظاہر ہوا کہ احادیث کا علم حاصل کرکے اس پر عمل پیراہو اللہ کا محبوب بنے، بخش کا ذریعہ اور جنت ميں داخلے کا بھی سبب ہے،
حدیث کے
لغوی معنی، بات چیت ، خبر، گفتگو، کلام اور نئی بات ہے ۔
اصطلاحی
معنی: نبی پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہر قول و فعل اور تقریر کسی کام پر خاموشی
اختیار کرنے کو ’’حدیث“ کہتے ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے احکامات اجمالا بیان فرمائے ہیں، ان کو
سمجھنے کے لئے علمِ حدیث کا ہونا ضروری ہے کیونکہ ارشادِ خداوندی ہے: وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ
الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-
تَرجَمۂ کنز الایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔(حشر،7)
وَ
مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر
وحی جو اُنہیں کی جاتی ہے(النجم: 3،4)
حدیث، قرآن پاک کے بعد شریعت کا
دوسرا ماخذ ہے۔
وہ دہن جس کی ہر بات وحی خدا
چشمہ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
خود نبی پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّمنے فرمایا: انی اوتیت القرآن و مثلہ معہ ۔ترجمہ
: آگاہ رہو مجھے قرآن عطاکیا گیا اور اس کے مثل ایک اور چیز دی گئی ہے (سنن
ابوداؤد ،سنن دارمی )
میرا جو امتی 40 حدیثیں یاد کرے گا وہ
اللہ سے عالم اور فقیہ ہو کر ملے گا ۔
(جامع بیان العلم و فضلہ ،62،حدیث: 187)
اللہ اس کو ترو تازہ رکھے جو میری حدیث
کو سنے یاد رکھے اور دوسروں تک پہنچائے ۔
(ترمذی 4/98 حدیث: 2667)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے صرف ایک حدیث
کے لئے مدینۂ منورہ زادھا اللہ شرفا وتعظما
سے مصر تک کا سفر فرمایا ۔(تفسیر روح
البیان ،سورۃ التوبہ،3/53 آیت،123)
حضرت سیدنا ابرہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں : بے شک اللہ محدثین کے (طلب حدیث کے لئے
) سفر کی برکت سے اس امت کے مصائب دور فرما دیتا ہے ۔ (تدریب الراوی ،320)
حضرت سیدنا حماد بن رحمۃ اللہ نے فرمایا : جس نے غیر خدا کے لئے حدیث طلب کی وہ دھوکا دیا گیا ۔
(اللہ والوں کی باتیں ،4/351)
حضرت سیدنا
سفیان ثوری رحمۃ اللہ کے دو فرامین :
(1) یہ علم حدیث عزت ہی عزت ہے ، جو اس کے ذریعے دنیا چاہے گا تو دنیا ملے گی اور جو آخرت چاہے تو
آخرت ملے گی۔ (اللہ والوں کی باتیں ، 4/505)
(2)احادیث زیادہ حاصل کرو کیونکہ یہ ہتھیار ہے (اللہ والوں کی باتیں ،4/504)
حدیث رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل کا
اہم ترین ذریعہ ہے، ہماری معاشرت، سیاست، معیشت، عبادت، تعلیم، تبلیغ ،اخلاقیات ،
اقتصادیات ، زراعت ، جہاد اور اس نوعیت کے تمام معاملات کا دارومدار حدیث رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ہے، علاوہ ازیں حدیث قرآن مجید کی تفسیر ہے
اور حدیث کے بغیر قران مجید کو صحیح طور پر سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ناممکن ہے۔
ارشاد باری
تعالیٰ ہے:
ترجمہ۔ تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ عمل ہے۔(سورہ الاحزاب )
اس کےعلاوہ قرآن مجید میں
بے شمار مقامات پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اطاعت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حکم دیا ہے، حدیث رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس اہمیت اور احتیاط کے پیش نظر علمائے حدیث
اور مجتہدین نے بڑی تحقیق کی اور انتہائی چھان بین کے بعد حدیث کو بعض اقسام میں
تقسیم کردیا،تاکہ مسائل و احکام کو سمجھنےاو ران پر عمل کرنے میں دشواری نہ ہو۔ (فقہ حنفی اور حدیث رسول ، صفحہ نمبر۲۱ تا ۲۲)
حدیث کی
تعریف :
وه قول ، فعل يا تقرير جسےسرکار
صلي الله تعالي علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہو، اسی طرح صحابی یا
تابعی کی طرف نسبت کی گئی ہے تو اسے بھی
حدیث کہہ دیا جاتا ہے۔
حدیث کی
وضاحت:
قول سے مراد یہ ہے کہ حضور
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی بات کا حکم دیا ہو جیسے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: سواد اعظم کی اتباع کرو۔
فعل سے مراد ہے کہ کوئی
کام حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ
وسلم نے خود کیا ہو جیسے حضور صلی اللہ تعالیٰ وسلم نے حج اور جہاد کیا اور نماز ادا کی۔
تقریرسے مراد یہ ہے کہ
کوئی ایسا کام جس کا حضور صلی
اللہ علیہ وسلم نے نہ حکم دیا ہے نہ خود کیا ہے لیکن وہ کام آپ
کے سامنے کسی اور شخص نے کیا ہو اور آپ نے منع نہ فرمایا ہو بلکہ خاموشی اختیار
فرمائی ہو جیسے حضرت وازع بن عامر رضی
اللہ عنہ نے حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ چومے اس پر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی۔
(فقہ
حنفی اور حدیث رسول ،صفحہ نمبر۲۲)
ضرورت حدیث:
قرآن کریم مکمل ضابطہ حیات
ہے اس میں انسانی زندگی کے ہر شعبے کے
بارے میں رہنمائی موجود ہے مگر اسے سمجھناآسان نہیں جب تک کہ معلم کائنات سے مدد
حاصل نہ کی جائے، مثال کے طور پر اسلام کے ایک اہم ترین رکن نماز ہی کو لے لیجئے،
قران کریم میں کم و بیش سات سو مقامات پر
اس کا تذکرہ ہے اور کئی مقامات پر اس کے قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ اللہ
تعالیٰ کا
فرمان ہے: اَقِیْمُواالصَّلٰوةَۚ ترجمہ: نماز قائم کرو
چنانچہ اب یہ سمجھنا کہ
صلاة ہے کیا اسے کس طرح قائم کیا جائے یہ صرف عقل پرموقوف نہیں اور اگر اس کا معنی
سمجھنےکے لئے لغت کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں صرف لغوی معنی ملیں گے اوراس کے
لغوی و اصطلاحی معنی کے مابین بہت فرق ہے۔
الغرض اس کے اصطلاحی معنی
ہمیں صرف احادیث یعنی سرکار صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اقوال و افعال و احوال سے ہی
سمجھ میں آسکتے ہیں اسی طرح قرآن کریم کے دیگر احکامات کو سمجھنے کے لئے نیز زندگی
کے ہر شعبے میں ہمیں ہادی برحق
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی رہنمائی کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں
کوقرآن کریم سکھانے اورانہیں ستھرا کرنے کے لئے نبی آخر الزمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔
(نصاب
اصول حدیث، صفحہ نمبر۱۲،تا ۱۳)
احادیث مبارکہ کی محبت:
بلاشبہ یہ ایک اٹل حقیقت
ہے کہ جس سےعشق ہوتا ہے اس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے بھی عشق ہوجاتا ہے، مثلا
محبوب کے گھر اس کے درو دیوار حتی کہ محبوب کی گلیوں کوچوں تک سے عقیدت کا تعلق
قائم ہوجاتا ہے، پھر بھلا جو عشق نبی میں گم ہوچکا ہو وہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے نسبت کے سبب آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث مبارکہ سے محبت کیوں نہ رکھے گا اور
کیوں نہ ان کا ادب بجالائے گا۔
(فیضانِ سیدنا امام بخاری ہفتہ وار اجتماع کا
بیان 27-6-2019)
قرآن و کلام باری ہےاور تیری زبان سے جاری ہے
کیا تیری فصاحت پیاری اور تیری بلاغت کیا کہنا
اسلاف کی
نظر میں حدیث کی اہمیت:
امام
مالک نے سترہ سال کی عمر میں تعلیم و تدریس کی ابتدا کردی تھی، حدیث شریف پڑھانے
سے پہلے غسل کرتے، عمدہ اور بیش وقیمتی لباس زیب تن کرتے، خوشبو لگاتے پھر ایک تخت پر نہایت عجز و
انکساری سے بیٹھتے اور جب تک درس حدیث جاری رہتا انگیٹھی میں عود (خوشبو) اور لوبان ڈالتے رہتے، درس حدیث
کے درمیان کبھی پہلو نہیں بدلتے تھے۔سبحان
اللہ!( تذکرہ المحدثین صفحہ ۱۰۱)
امام
بخاری نے اپنی صحیح کا چھ لاکھ احادیث میں سے انتخاب کیا ہے حدیث شریف کو کتاب میں
ذکر کرنے سے پہلے وہ غسل کرتے ہیں اس کے بعد دو رکعت نفل پڑھتے پھر اس حدیث کی صحت
کے بارے میں استخارہ کرتے اس کے بعد اس حدیث کو اپنی صحیح میں درج کرتے۔ سبحان اللہ !(تذکرة المحدیثن صفحہ نمبر197)
وہ
صحابہ کرام جن کی حدیث کثرت سے روایت کی گئی :
حضرت
ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۵۳۷۴
حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۲۶۳۰
حضرت
جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۲۵۳۵
حضرت
انس بن مالک رضی اللہ عنہ ۲۲۸۶
ام
المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہا ۲۲۱۰
حضرت
ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۲۱۷۰
تعریف:
لغوی معنی:عربی زبان میں حدیث بات چیت، گفتگو، نئی چیز ، خبر اور کلام کو کہتے ہیں۔
اصطلاحی معنی: اصطلاح میں حدیث ”رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے قول ، فعل اور تقریر کو کہا جاتاہے“
حدیث کی اہمیت: موجودہ زمانے میں منکرین حدیث کا کہنا ہے کہ ”حدیث کی
کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ کی کتاب ہمارے
پاس موجود ہے اور اس کے ہوتے ہوئے دین میں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں قرآن پاک ہی
ہمارے لئے کافی ہے “ یہ استدلال درست نہیں ہے کیونکہ حدیث کی ضرورت مندرجہ ذیل
امور میں ہوتی ہے۔ قراٰن کے کئی مقامات ایسے ہیں کہ جنہیں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیث کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا۔
حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود شارح قرآن
ہیں:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے افعال و اعمال ،آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گفتگو قرآن پاک سے کوئی الگ چیز نہیں ہے۔
قرآن مجید کے اجمال کی تفصیل: جب قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی واقیموا الصلوۃ یعنی نماز قائم کرو تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے حضور نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے استفسار
فرمایا کہ وہ کس طرح نماز پڑھیں ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے جوابا فرمایا:”صلوا کما رایتمونی اصلی“ نماز
اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
پس ذات مبارکہ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے عمل نے قرآن کی تفصیل بیان فرمائی اس طرح حج
کی فرضیت کے بارے میں : ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک
چل سکے۔
(سورۃ آل عمران ، آیت
97)
یہ حکم مجمل ہے اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ حج ہر
سال کرنا چاہئے یا عمر میں ایک مرتبہ نیز قرآن میں حج کے طریقے کی بھی تفصیل نہیں
ہے۔ لہذا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ کرام
سے فرمایا: خذوا عنی منا سککم ”یعنی مناسک اور
ارکان حج مجھ سے سیکھو“ نیز آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے عملاً حج کر کے بتایا۔
اس طرح ایک اجمالی حکم یعنی حج کی ادائیگی کی
تفصیل احرام ، طواف، صفا و مروہ پر سعی ، عرفات میں وقوف، رمی جمرات یہ تمام
تفصیلات رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے افعال اور اعمال کے ذریعے ہی سے ہمیں ملی
ہیں۔اگر ان اعمال و افعال کو الگ کر دیا جائے تو ہم دین کی کسی بات پر عمل کرنے سے
قاسر رہ جائیں گے۔
میں نثار تیرے
کلام پر
ملی یوں تو کس
کو زبان نہیں
حدیث کے لغوی معنی:
حدیث کے لغوی معنی بات چیت ، گفتگو نئی چیز، خبر اور کلام ہے۔
اصطلاح میں حدیث رسول
اللہ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول
اور فعل کو کہا جاتا ہے نیز آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تقریر
بھی حدیث ہی کے معنوں میں آتی ہے، تقریر سے مراد وہ امور (یعنی کام ہیں) جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے پیش آئے لیکن آپ صلی اللہ
علیہ وسلم ان کو دیکھ کر یا سن کر خاموش رہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خاموشی اس کے جواز (یعنی جائز) ہونے کا ثبوت
ہوتی ہے ۔
حدیث کی اہمیت
اسلام میں کلام اللہ قرآن کے
بعد کلام رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم یعنی حدیث کا درجہ ہے، گویا قرآن لیمپ کی بتی ہے
اور حدیث اس کی رنگین چمنی حدیث کے بغیر نہ قرآن سمجھا جائے نہ اس پر عمل ہوسکے، قرآن و حدیث اسلام کی گاڑی کے دو پہیے ہیں، یا
مومن کے دو پر جن میں سے ایک کے بغیر نہ یہ گاڑی چل سکتی ہے نہ مومن پر واز کرسکتا ہے۔
معلم خدائی
کے وہ بن کے آئے
چمکے ان کے
آگے سب اپنے پرائے
قرآ ن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں انسانی
زندگی کے ہر شعبہ کے بارے میں رہنمائی موجود ہے مگر اسے سمجھنا آسان نہیں اس کو
سمجھنے کے لیے ہمیں حدیث کی ضرورت ہوتی ہے
جیسے اسلام کے ایک اہم ترین رکن نماز ہی
کولے لیجئے، قرآن میں کم و بیش سات سو مقامات پر اس کا تذکرہ (یعنی ذکر) آیا ہے
اور کئی مقامات پر اس کے قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کہ نماز قائم کرو۔
تو اب یہ سمجھنا ہے کہ
صلاة ہے کیا مراد ہے ،اسے کس طرح قائم
(یعنی پڑھا) جائے گا تو اس کو سمجھنے کے لیے حدیث کی ضرورت ہوئی، اس سے معلوم ہوا
کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے حدیث سے رہنمائی
حاصل کرنے کی ضرورت ہے، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا، جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: تَرجَمۂ کنز الایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا
حکم مانا ۔(النساء 80)
قران کی تفسیر کی چار صورتیں ہیں۔
(1)تفسیر قرآن بالقرآن (یعنی خود قرآن بھی اپنی
تفسیر کرتا ہے)
(2)تفسیر قرآن بالحدیث ( کیوں کہ قرآن کو جیسا
حضور صلی اللہ عالیٰ علیہ وسلم نے سمجھا دوسرا
نہیں سمجھ سکتا)
(3)تفسیر قرآن بالا جماع ( یعنی علما کا جس مطلب
پر اتفاق ہوا)
(4)تفسیر قرآن باقوال مجتہدین ( یعنی قیاس
مجہتدین)
کتاب و سنت سمندر ہے کسی امام کے جہاز میں بیٹھ کر
اس کو طے کرو، کتاب و سنت طب ایمانی ( یعنی ایمان کی بیماری) کی دوائیں ہیں کسی
طبیب روحانی (یعنی امام مجتہد) کے مشورے سے انہیں استعمال کرو۔ علم اور ہدایت ایک
نہیں کبھی علم ہوتا ہے،ہدایت نہیں ہوتی جیسے اس امت کے بے دین علماء،کبھی ہدایت نصیب
ہوجاتی ہے بہت ساعلم نہیں ہوتا جیسے وہ عوام جو بے علم ہیں مگر ایمان دار ہیں کبھی
علم اور ہدایت دونوں جمع ہوجاتے ہیں،جیسے علمائے دین ہیں۔ہدایت علم سے افضل ہے،اسی
لیئے اس کا ذکر پہلے ہوا،علم کتابوں سے ملتا ہے ہدایت کسی کی نظر سے۔ حضور صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کے ہاں علم اور فیضان کی کمی نہیں۔ تمام دنیا
فیض لے لے تو گھٹتا نہیں نہ لے تو بیکار بچتا نہیں۔’ جیسے‘ سورج کی روشنی بادلوں
کا پانی۔ سورج کی روشنی جتنی بھی حاصل کرلی جائے گھٹتی نہیں ہے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا علم ہے، کوئی شخص کسی درجہ پر پہنچ کر حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بے نیاز نہیں
ہوسکتا زمین کیسی ہی اعلیٰ ہو اور کتنا ہی
اچھا تخم بویا جائے(یعنی اناج ) مگر بارش
کی محتاج ہوتی ہے، دین و دنیا کی ساری بہاریں حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کے دم سے ہیں۔
شکر فیض تو چمن چوں کنداے ابر بہار کہ اگر خاور گرگل ہمہ پروردۂ تست
حدیث پر عمل کے متعلق حدیث مبارک:
حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے میری امت کے بگڑتے وقت
میری سنت کو مضبوط تھاما تو اسے سو شہیدوں کا ثواب ہے۔
( مراٰة
المناجیح جلد اول، باب الاعتصام بالکتاب والسنہ ،حدیث نمبر ۱۶۶)
دعا :
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کے ہر معاملے میں
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے رہنمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم