حدیث کہتے ہیں حضور صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول کو صراحتاً ہو یا حکما ًاور حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فعل کو اور تقریر کو۔
حدیث کی
دینی حیثیت:
یہ امر محتاج بیان نہیں کہ احکام شریعت کا پہلا سرچشمہ قران عظیم ہے کہ وہ
خدا کی کتاب اور قرآن ہی کی صراحت کے بموجب رسول خدا کی اطاعت و اتباع بھی ہر
مسلمان کے لئے لازم ہے کہ بغیر اس کے احکام الہی کی تفصیلات کا جاننا اور آیاتِ
قرآن کا منشا و مراد سمجھنا ممکن نہیں ہے اس لئے لا محالہ حدیث بھی اس لحاظ سے
احکام شرع کا ماخذ قرار پاگئی۔حدیث، رسول خدا کے احکام و فرامین ان کے اعمال افعال
اور آیات قرآن کی تشریحات و مرادات سے باخبر ہونے کا ایک واحد ذریعہ ہے، آیاتِ
مبارکہ ملاحظہ فرمائیے جس میں نہایت وضاحت کے ساتھ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت اور پیروی کا حکم ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ترجمہ کنز الایمان : اے ایمان والو اللہ
اور اس کے رسول کا حکم مانو ( سورہ انفال
۔17)
تاریخ تدوین
حدیث :
جب کاغذ کے ٹکڑوں ، ہرن کی جھلیوں، کھجور کے پتوں اور الواح القلوب میں
بکھری ہوئی قرآن مجید کی آیتیں عہد صدیقی سے لے
کر عہد عثمان تک کتابی شکل میں ایک جگہ جمع کردی گئیں اور ساری دنیا میں اس کے
نسخے پھیلا دیئے گئے اور احادیث کے ساتھ آیاتِ قرآنی کے التباس کا کوئی اندیشہ
نہیں رہاتو حضرت عمر بن عبدالعزیز کےزمانہ خلافت میں احادیث کی تدوین و تصنیف و
کتابت کا کام شروع ہوا۔ جب یہ بات طے
ہوگئی کہ قرآن و اسلام پر عمل درآمد کا حکم قیامت تک کے لئے ہے اور یہ بھی طے
ہوگئی کہ قرآن و اسلام کی تفصیلات کا علم اور ان پر عمل درآمد بغیر اطاعت و رسول
کے ممکن نہیں ہے، دریافت طلب یہ امر ہے کہ آج رسول کے وہ احکام کہاں ہیں جن کی
اطاعت کا قرآن ہم سے مطالبہ کرتا ہے کیونکہ احکام کے بغیر اطاعت رسول کا
مطالبہ سراسر عقل وشریعت کے خلاف ہے، جب
آج بھی قرآن ہم سے اطاعت رسول کا طالب ہے تو ہمارے سامنے احکامِ رسول کا ہونا
ضروری ہے۔
واقعہ:
حضرت جابر بن عبداللہ کے بارے میں امام نیشا
پوری نے نقل کیا کہ ایک عظیم محدث حضرت عمر بن ابی سلمہ امام الحدیث حضرت امام
اوزاعی کی خدمت میں چار سال رہے اور طویل عرصے میں انہوں نے صرف تیس حدیثیں ان سے
سماعت فرمائیں ایک دن وہ حضرت امام اوزاعی سے بڑی حسرت کے ساتھ کہنے لگے، آپ کی
خدمت میں رہتے ہوئے مجھے چار سال ہوگئے لیکن اس طویل عرصے میں صرف تیس حدیثیں میں آپ سے حاصل کرسکا، امام اوزاعی نے
جواب دیا دیا، چار سال کی مدت میں تیس حدیثوں کا ذخیرہ تم کم سمجھ رہے ہو !حالانکہ
حضرت جابر بن عبداللہ نے صرف ایک حدیث کے لئے مصر کاسفر
کیا، سواری خریدی اور اس پر سوار ہو کر مصر گئے اور حصرت عقبہ بن عامرسے ملاقات
کرکے مدینہ واپس لوٹ گئے یعنی تیس احادیث
کی سماعت کو بھی غنیمت جانو کہ یہ ایک عظیم نعمت تمہیں کم مدت میں حاصل ہوگئی۔
(انوار الحدیث، ص ، ۳۹ تا ۴۶)