حدیث کہتے ہیں حضور صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے قول کو وہ صراحتا ً ہو
یا حکما ًاور حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی تقریر
اور فعل کو اور حضور صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تقریر کا مطلب یہ ہے کہ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روبرو کوئی کام کیا گیا اور
حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے اسے منع
نہیں فرمایا۔
(انوار الحدیث کتاب ، صفحہ ۵۰)
حدیث کی
اہمیت :
دینِ اسلام کے تمام اصولی و فروعی احکامات کا دار و مدار قرآن ِ مجید اور
احادیثِ کریمہ پر ہی ہے حالانکہ اجتماع امت اور قیاس سے بھی احکامات کا استخراج و
استنباط کیا جاتا ہے لیکن اجماع امت اور قیاس بھی صرف اسی صورت میں قابلِ اعتماد و
قبول ہے کہ ان کی موافقت قرآن و حدیث کی سند سے حاصل ہے، قرآن و حدیث کے خلاف ہونے
والا اجماعِ امت اور کیا جانے والا قیاس قطعا واجب الاعتقاد و العمل نہیں یعنی حضور اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مقدس زبان فیضِ ترجمان سے کبھی
قرآن مجید کی آیاتِ مقدسہ سماعت پذیر ہوتی ہے تو کبھی احکامِ الہیہ بمشکل احادیثِ
مصطفی وجود پذیر ہوتی ہے۔(جامع الاحادیث کتاب صفحہ نمبر۲۹)
حجیت ِ حدیث
:
جس طرح قرآن احکام شرع میں حجت ہے، اسی طرح حدیث بھی اور اس سے بھی بہت سے
احکام ِ شریعت ثابت ہوتے ہیں چنانچہ رب عزوجل فرماتاہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ
اللّٰهَۚ- ترجمہ
کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔(النسا80)
(نصابِ اصول حدیث کتاب، صفحہ نمبر۱۴)
تدوین حدیث
اور تصانیف:
حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہکی
تحریک پر فنِ حدیث میں سب سے پہلی کتاب حضرت ابن حزم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تصنیف فرمائی اس کے بعد حدیث کی
کتابوں کی تصنیف و تالیف اور جمع و ترتیب کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا، مختلف
شہروں میں مختلف بزرگوں نے حدیث میں بہت سی کتابیں تصنیف فرمائیں اور اصول حدیث کے
نام سے علم و فکر کی دنیا میں ایک نئے فن کا آغاز ہوا۔اصول و شرائط کے سخت سے سخت
معیار پر احادیث کی نئی نئی کتابیں لکھی گئی کہ آج اس فن کی جملہ تصانیف میں صحیح
بخاری، صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن ابن ماجہ اور سنن نسائی بہت مشہور
اور متداول بین الناس ہیں۔(انوار الحدیث کتاب صفحہ نمبر۷۹)
صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان کے واقعات:
چار دن میں
30 احادیث :
حضرت
سیدنا عمرو بن ابی سلمہ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بیان
کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا امام اوزاعی سے عرض کی چار دن سے میں آپ رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ کی صحبت میں ہوں اور اتنے دنوں میں
میں نے صرف 30 احادیث سنی ہیں۔
آپ رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا 4 دنوں میں 30 احادیث سن
لینا تمہیں کم نظر آتا ہے ، جب کہ حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت
سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے صرف
ایک حدیث کے متعلق پوچھنے کے لئے سواری کا جانور خریدا اور اس پر سوار ہو کر مصر
کا سفر فرمایا تھا اور تم ہو کہ تمہیں چار دنوں میں 30 احادیث کم لگتی ہیں۔
(عاشقانِ حدیث کی حکایات، صفحہ
نمبر27)
حضرت سیدنا عبید اللہ حضرمی رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں، کاش ! میں ایک حدیث کی سماعت کے لئے
ملک بہ ملک سفر کرتا رہتا۔(عاشقانِ حدیث کی حکایت صفحہ نمبر38)
عمر گزری ہے لکھنے پڑھنے میں
سب کتابوں سے ہوچکا دل سیر
اب لگن ہے حدیث وقرآن سے
اسکو کہتے ہیں خاتمہ بالخیر
(عبدالمصطفی اعظمی رحمہ اللہ علیہ)