علم حدیث کی اہمیت

Sat, 18 Apr , 2020
4 years ago

حدیث رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل کا اہم ترین ذریعہ ہے، ہماری معاشرت، سیاست، معیشت، عبادت، تعلیم، تبلیغ ،اخلاقیات ، اقتصادیات ، زراعت ، جہاد اور اس نوعیت کے تمام معاملات کا دارومدار حدیث رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ہے، علاوہ ازیں حدیث قرآن مجید کی تفسیر ہے اور حدیث کے بغیر قران مجید کو صحیح طور پر سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ناممکن ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ترجمہ۔ تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ عمل ہے۔(سورہ الاحزاب )

اس کےعلاوہ قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اطاعت رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا حکم دیا ہے، حدیث رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس اہمیت اور احتیاط کے پیش نظر علمائے حدیث اور مجتہدین نے بڑی تحقیق کی اور انتہائی چھان بین کے بعد حدیث کو بعض اقسام میں تقسیم کردیا،تاکہ مسائل و احکام کو سمجھنےاو ران پر عمل کرنے میں دشواری نہ ہو۔ (فقہ حنفی اور حدیث رسول ، صفحہ نمبر۲۱ تا ۲۲)

حدیث کی تعریف :

وه قول ، فعل يا تقرير جسےسرکار صلي الله تعالي علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہو، اسی طرح صحابی یا تابعی کی طرف نسبت کی گئی ہے تو اسے بھی حدیث کہہ دیا جاتا ہے۔

حدیث کی وضاحت:

قول سے مراد یہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کسی بات کا حکم دیا ہو جیسے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: سواد اعظم کی اتباع کرو۔

فعل سے مراد ہے کہ کوئی کام حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے خود کیا ہو جیسے حضور صلی اللہ تعالیٰ وسلم نے حج اور جہاد کیا اور نماز ادا کی۔

تقریرسے مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا کام جس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ حکم دیا ہے نہ خود کیا ہے لیکن وہ کام آپ کے سامنے کسی اور شخص نے کیا ہو اور آپ نے منع نہ فرمایا ہو بلکہ خاموشی اختیار فرمائی ہو جیسے حضرت وازع بن عامر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ چومے اس پر آپ نے خاموشی اختیار فرمائی۔

(فقہ حنفی اور حدیث رسول ،صفحہ نمبر۲۲)

ضرورت حدیث:

قرآن کریم مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں انسانی زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں رہنمائی موجود ہے مگر اسے سمجھناآسان نہیں جب تک کہ معلم کائنات سے مدد حاصل نہ کی جائے، مثال کے طور پر اسلام کے ایک اہم ترین رکن نماز ہی کو لے لیجئے، قران کریم میں کم و بیش سات سو مقامات پر اس کا تذکرہ ہے اور کئی مقامات پر اس کے قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اَقِیْمُواالصَّلٰوةَۚ ترجمہ: نماز قائم کرو

چنانچہ اب یہ سمجھنا کہ صلاة ہے کیا اسے کس طرح قائم کیا جائے یہ صرف عقل پرموقوف نہیں اور اگر اس کا معنی سمجھنےکے لئے لغت کی طرف رجوع کیا جائے تو وہاں صرف لغوی معنی ملیں گے اوراس کے لغوی و اصطلاحی معنی کے مابین بہت فرق ہے۔

الغرض اس کے اصطلاحی معنی ہمیں صرف احادیث یعنی سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اقوال و افعال و احوال سے ہی سمجھ میں آسکتے ہیں اسی طرح قرآن کریم کے دیگر احکامات کو سمجھنے کے لئے نیز زندگی کے ہر شعبے میں ہمیں ہادی برحق صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی رہنمائی کی ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کوقرآن کریم سکھانے اورانہیں ستھرا کرنے کے لئے نبی آخر الزمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔

(نصاب اصول حدیث، صفحہ نمبر۱۲،تا ۱۳)

احادیث مبارکہ کی محبت:

بلاشبہ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جس سےعشق ہوتا ہے اس سے نسبت رکھنے والی ہر چیز سے بھی عشق ہوجاتا ہے، مثلا محبوب کے گھر اس کے درو دیوار حتی کہ محبوب کی گلیوں کوچوں تک سے عقیدت کا تعلق قائم ہوجاتا ہے، پھر بھلا جو عشق نبی میں گم ہوچکا ہو وہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نسبت کے سبب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث مبارکہ سے محبت کیوں نہ رکھے گا اور کیوں نہ ان کا ادب بجالائے گا۔

(فیضانِ سیدنا امام بخاری ہفتہ وار اجتماع کا بیان 27-6-2019)

قرآن و کلام باری ہےاور تیری زبان سے جاری ہے

کیا تیری فصاحت پیاری اور تیری بلاغت کیا کہنا

اسلاف کی نظر میں حدیث کی اہمیت:

امام مالک نے سترہ سال کی عمر میں تعلیم و تدریس کی ابتدا کردی تھی، حدیث شریف پڑھانے سے پہلے غسل کرتے، عمدہ اور بیش وقیمتی لباس زیب تن کرتے، خوشبو لگاتے پھر ایک تخت پر نہایت عجز و انکساری سے بیٹھتے اور جب تک درس حدیث جاری رہتا انگیٹھی میں عود (خوشبو) اور لوبان ڈالتے رہتے، درس حدیث کے درمیان کبھی پہلو نہیں بدلتے تھے۔سبحان اللہ!( تذکرہ المحدثین صفحہ ۱۰۱)

امام بخاری نے اپنی صحیح کا چھ لاکھ احادیث میں سے انتخاب کیا ہے حدیث شریف کو کتاب میں ذکر کرنے سے پہلے وہ غسل کرتے ہیں اس کے بعد دو رکعت نفل پڑھتے پھر اس حدیث کی صحت کے بارے میں استخارہ کرتے اس کے بعد اس حدیث کو اپنی صحیح میں درج کرتے۔ سبحان اللہ !(تذکرة المحدیثن صفحہ نمبر197)

وہ صحابہ کرام جن کی حدیث کثرت سے روایت کی گئی :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۵۳۷۴

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۲۶۳۰

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۲۵۳۵

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ۲۲۸۶

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۲۲۱۰

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۲۱۷۰