اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، اور اپنی تمام مخلوقات کا سردار بنایا
اور اس کی رہنمائی کے لئے حضرت آدم علیہ السلام سے انبیاء کا سلسلہ شروع فرمایا جناب
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کوپیدا فرمایا ، آپ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کو رحمۃ اللعالمین اور خاتم النبین کے لازوال القاب عطا فرمائے،آپ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے امت کی ہدایت و رہنمائی کے لئے جو ابدی الفاظ نکلے ان کے متعلق خود خدا نے یہ گواہی دی ،ارشاد
ربانی ہے: وَ مَا
یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴)
تَرجَمۂ کنز الایمان: اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے
نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی جاتی ہے(النجم: 3،4)
اللہ تعالیٰ نے بار ہا قرآن مجید میں آپ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کی اطاعت کوجزؤ لاینفک قرار دیا، ارشاد ربانی ہے
:وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ تَرجَمۂ کنز الایمان: اور
اللہ و رسول کے فرماں
بردار رہو (آل عمران ، 132)
ایک اور مقام پر رب تعالیٰ نے اپنی محبت حاصل کرنے کا کامیاب وظیفہ یہ قرا
ردیا۔
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ
رَّحِیْمٌ(۳۱)
تَرجَمۂ
کنز الایمان: اے محبوب تم فرمادو
کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ (آل
عمران ،31)
پہلے انبیاء کی شریعتوں اور شریعت
محمدی میں فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کو بعینہ محفوظ و مامون رکھا، ہمارے ایمان کی بنیاد
قرآن و حدیث ہے، اگر ہم ایک چھوڑ دیں گے تو دوسری چیز کا وجود ناممکن ہوجائے گا
کیونکہ احادیث مبارکہ سے ہی ہمیں
معلوم ہوا قرآن کیا ہے؟
نماز
کیا ہے یومِ آخرت کیا ہے ؟اگر ہم احادیث کو
اپنے دین میں سے نکالتے ہیں تو ہمارا آدھے سے زیادہ دین ختم ہوجائے گا اسی لئے
ہمارے کامل ایمان کے لئے احادیث مبارکہ کا مطالعہ اور اس
کے علم کا حصول از حد ضروری ہے۔
اے
عاشقانِ رسول ! ویسے تو آپ سب نے یقینا بہت ساری احادیث ِمبارکہ سنی بھی ہوں گی اور پڑھی
بھی ہوں گی، تو چلیں میں آپ کو آج اس کی اہمیت بتانے کی سعی کرتی ہوں، سب سے پہلے
تو ہمارے لئے یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ حدیث ہوتی کیا ہے؟ جمہور محدثین کی
اصطلاح میں حدیث کی یہ تعریف بیان کی گئی ہے کہ حدیث اسے کہتے ہیں جو حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا قول
ہو وہ صراحتاہو یا حکما اور حضور صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فعل کو اور حضور
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تقریر کو حدیث کہتے ہیں، تقریر کا مطلب یہ ہے
کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کہ روبرو کوئی کام کیا گیا ہو، اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا
یا صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے کوئی بات کہی اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے اسے رد نہیں کیا ہو، بلکہ خاموش رہے اور عملا
اسے ثابت فرمایا۔
امید ہے کہ حدیث کیا ہے
میں سمجھا سکی ،آئیے ! اب حدیث مبارک کی
اہمیت کے بارے میں علم حاصل کرتے ہیں۔
جیسا کہ تمام مسلمانوں کا
اس بات پر اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث اسلام کے
احکام کا بنیادی ماخذ ہیں اور حدیث کی حجت ہونے کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ
مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-
تَرجَمۂ کنز الایمان: اور جو کچھ
تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے
منع فرمائیں باز رہو۔(پارہ ۲۸، رکوع ۴)
ایک اور ارشادِ باری
تعالیٰ پیشِ خدمت ہے: اَطِیْعُوا
اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ
ترجمہ ۔ اللہ
کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔( سورہ محمد،33)
یہ اور اس جیسی قرآن مجید
کی دیگر بہت سی آیات سے یہ بات واضح طور پر ثابت ہوجاتی ہے اسلام اور قران کی
تعلیمات کے مطابق نبی اکرم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی احادیث شرعی احکام کا بنیادی ماخذ ہیں، لہذا اس اعتبار سے اب رسول خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ہر حکم ہمارے لئے اسی
طرح واجب الاطاعت ہے جس طرح قرآن کے ذریعے ہم تک پہنچنے والا کو کوئی حکم خداوندی
ہمارے لئے واجب الااطاعت ہے کیونکہ رسول کا حکم بالواسطہ خدا ہی کا حکم ہے، اور ہم
تو پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
کے امتی ہیں
ہمیں تو آپ کی ہر ہر حدیث پر عمل کرنا چاہیے ، اور دوسروں کو اس کے عمل کی ترغیب بھی دلانی چاہیے اور احادیث
مبارکہ میں جو کچھ بھی ہے سب ہمارے فائدے کے لئے ہے ہر چیز کے بارے میں ہمارے
پیارے سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا ہے۔ آئیے !ہمارے
حجۃ الاسلام حصرت سیدنا امام محمد بن محمد
غزالی رحمہ اللہ علیہ احادیث کی اہمیت کے بارے
میں کیا فرماتے ہیں ملاحظہ کرتے ہیں چنانچہ ایھا الولد کا ترجمہ بنام بیٹے کو نصیحت صفحہ نمبر۹پر فرماتے ہیں کہ نصیحت کے
مہکتے پھول، سرکار مدینہ راحتِ قلب و سینہ ، فیض گنجینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ کی احادیث و سنت سے حاصل ہوتے ہیں، اگر تمہیں رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ سے فیضانِ نصیحت حاصل
ہوچکا ہے تو پھر میری کسی نصیحت کی ضرورت نہیں اور اگر بارگاہِ مصطفی سے نصیحت نہیں
پہنچی تویہ بتاؤ گزرے ایام میں کیا حاصل ہوگا۔
اللہ اکبر ، امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے کتنی گہرائی کے ساتھ ہمیں احادیث کی اہمیت
سمجھائی ہے ہمیں واقعی اپنے اپ سے سوال کرنا چاہیے کہ آیا ہم نے نصیحت کے مہکتے
پھول، پیاری پیاری احادیث مبارکہ سے حاصل کرلئے یا نہیں؟ اگر نہیں تو اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل ہمیں حدیث مبارکہ سننے، پڑھنے سمجھنے اور عمل
کرکے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرما۔اٰمِیْن
بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کیونکہ فرمان مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے: لیس منا الا عالم او متعلم یعنی ہم سے نہیں مگر عالم اور طالب علم۔
اے عاشقانِ رسول خوب خوب
علمِ دین حاصل کیجئے اور بالخصوص احادیث مبارکہ کا علم کیونکہ جنت میں آقا کا قرب
بھی تو چاہیے محض دعویٰ سے کام تھوڑی ہوگا ہمیں اپنے آپ کو آقا کی ہر ہر ادا اور
ہر ہر بات کے مطابق ڈھالنا ہے یہ ہی ایک سچے عاشق کی نشانی ہے۔
حمد و صلوة:
تمام تعریفیں اس رب قدیر کے لئے جس نے عالمِ کائنات میں انسان کو پیدا کیا
اور جس کی ہدایت کے لیے قراٰن نازل کیا اور درود و سلام ہو اس نبی آخر الزماں خیر
الانام پر جس نے قرآن کی تفہیم کے لیے ہمیں علم حدیث یعنی حدیث کا علم دیا۔
اما بعد! فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ رب العزت نے تمام حوادثات کو تخلیق فرمایا اور ان میں سب سے افضل انسان کو
بنایا اور اسے تمام مَاعَدا یعنی حیوان و جمادات سے ممتاز
فرمایا اور اسے عقل و علم کی دولت سے سرفراز فرمایا اور اس کی ہدایت کے لیے انبیا
و مرسلین کو مبعوث فرمایا اور مخلوق کو احکام بتانے کے لیے ان مرسلین پر اپنی کتاب
و صحائف کو نازل فرمایا اور اس مخلوق میں سے سب سے افضل امّت ، امت محمدیہ کو
بنایا اور انہیں سب سے افضل نبی و رسول محمد عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم عطا فرمایا اور اس افضل نبی پر افضل کلام (قرآن) نازل
فرمایا اور اس نبی کے کلام کو شرح قرآن بنایا۔
اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت کے لیے نبی
پر قران نازل فرمایا لیکن یہ یاد رہے کہ
اس عظیم کتاب کی تعلیم اس عظیم نبی پر موقوف ہے یہی وجہ ہے قرآن وحی جلی ہے اور
حدیث وحی خفی ہے، تاکہ ہمیں قرآن سمجھ میں آئے اسی وجہ سے مفتی احمد یار خان نعیمی
مراة المناجیح میں فرماتے ہیں، ہر انسان پر حضور علیہ الصلوة والسلام کی اطاعت فرض ہے اور یہ اطاعت
بغیر حدیث وسنت جانے ناممکن ہےمشکوة یعنی طاق حضور علیہ السلام کا سینہ مبارکہ ہے اور حضور علیہ الصلوة والسلام کے
اقوال و احوال اس طاق کے چراغ ہیں اگر روشنی چاہتے ہو توا س سینے اور ان الفاظ
طیبہ سے حاصل کرو، قرآن کتاب ہے حضور علیہ الصلوة والسلام
چراغ اور چراغ کے بغیر کتاب پڑھی نہیں جاتی، اسی طرح حضور کے بغیر قرآن سمجھا نہیں
جاتا ہر آیت حضور علیہ الصلوة والسلام کی تفسیر کی حاجت مند ہے
ورنہ ہمیں کیا خبر کہ (اقیموا) کے کیا معنی اور صلوة وزکاة کسے کہتے ہیں، قرآن اللہ کی
رسی ہے جو ہم نیچوں کو نماز سے نکال کر اوپر پہنچانے آئی ہے لیکن اس مضبوط رسی سے فائدہ وہی اٹھائے گا جو حضور کے ذریعے اسے
پکڑے گا، اس رسی کے لانے والے بھی حضور
ہیں، پھر ہمیں پکڑانے والے بھی حضور ہیں، پھر پکڑنے کے بعد چھوٹ جانے سے بچانے
والے بھی حضور ہیں، کہ حضور کے ذریعے مخلوق کو قرآن ملا، حضور ہی کے سمجھائے قرآن
سمجھا گیا، حضور ہی کی نگاہ کرم سے ان شا اللہ عزوجل
مرتے دم تک اس پر عمل کیا اور انہی کے کرم سے مرتے وقت بفضلہ کلمہ نصیب ہوگا ، جو
حدیث کا انکاری ہے وہ صرف دو رکعت نماز پڑھ کر یا ایک بار ایسی زکوۃ دے کر دکھادے
جس میں حدیث کی مدد نہ ہو۔
غرضیکہ نماز و زکوة وغیرہ سنائی قرآن نے، سیکھائی حضور نے ، قرآن روحانی
کھانا ہے۔حدیث اس کا پانی، پانی کے بغیر نہ کھانا تیار ہونہ کھایا جاسکے۔(مراٰة
المناجیح جلد ۱، مقدمہ)
مذکورہ کلام سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کلام خدا کو سمجھنے کے لیے حدیث رسول
بے حد ضروری ہے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں لیکن پھر بھی مسئلہ واضح کرنے کے لیے ہم
مزید دلائل ذکر کرلیتے ہیں۔
حدیث رسول
کے بغیر کوئی چارہ نہیں:
حدیث
رسول کے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ کلام خدا کا سمجھنا کلام رسول پر ہی موقوف ہے
کیونکہ کلام رسول کلام خدا ہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ کلام خدا میں الفاظ و مفہوم
دونوں خدا کے ہیں جسے ہم قرآن کہتے ہیں، اور حدیث رسول میں الفاظ نبی کے اور مفہوم
خدا ہے جسے ہم حدیث قدسی کہتے ہیں اور جہاں الفاظ و معنی دونوں خدا کے نہ ہوں بس
حکم خدا کی طرف سے وحی ہو اسے ہم حدیث یا سنت کہتے ہیں، کلام رسول خدا کا ہی کلام
ہے اسی وجہ سے سورة النجم آیت ۳،۴ میں اللہ عزوجل
نے ارشاد فرمایا: وَ مَا
یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) تَرجَمۂ کنز الایمان: وہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی جاتی ہے اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے۔
اور
سورہ النسا آیت ۸۰ میں ارشاد فرمایا:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ
اللّٰهَۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان:
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی
کیونکہ قرآن کا سمجھنا حدیثِ رسول کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا اسی لیے فرمادیا
اطاعتِ رسول ضروری ہے تاکہ تم میرے احکام کو سمجھ سکو یہی وجہ ہے کہ خود نبی کریم علیہ افضل
الصلوة والسلام نے ارشاد فرمایا:ترکت فیکم
امرین لن تضلواما تمسکتم بھما کتاب اللہ وسنۃ نبیہ
میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں اگر تم ان دونوں کو
مضبوطی سے تھام لو کہ تو میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوکے ، یہ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی
کی کی سنت ہے۔(مؤطا امام مالک کتاب القدر باب ۱، حدیث ۱۶۲۸)
اور دوسری جگہ خود نبی علیہ الصلوة والسلام
نے ارشاد فرمایا:
عن ابن مسعود
قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نضر اللہ امرا سمع مقالیتی موطا ھا
وحفظھا وبلغھا۔
اللہ پاک اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری بات سنی اسے یاد کیا اور محفوظ رکھا
پھر دوسروں تک اسے پہنچایا۔
(جامع ترمذی کتاب العلم باب ۷،
حدیث ۲۸۷۰ٌ)
یہ
تمام باتیں بھی فقط اس لیے تھیں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ حدیث کے بغیر کوئی چارہ
نہیں کلام خدا کو سمجھنے کے لیے کلام رسول ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ
نہیں حدیث اس قدر اہم ہے ہم تو درکنار قرآن کو سمجھنے کے لیے صحابہ کرام کو بھی اس
کی حاجت پڑتی تھی وہ بھی قرآن سمجھنے کے لیے حضور کا فرمان حضور سے سننے آجاتے تھے
جیسا کہ بخاری و مسلم میں ہے(سورہ انعام
آیت ۸۲)
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا
اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠(۸۲)
تَرجَمۂ کنز الایمان: وہ
جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی انہیں کے لیے امان ہے
اور وہی راہ پر ہیں۔
جب
نازل ہوئی تو بعض صحابہ کرام نے چھوٹے بڑے گناہوں کو ظلم سمجھا اس لیے ان پر یہ
آیت گراں گزری تو اسے سمجھنے بارگاہِ رسالت مآب میں حدیث سننے آگئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول ہم میں ایسا کون ہے کہ جس نے ایمان کے ساتھ کوئی گناہ نہ کیا ہو
تو حضور نے فرمایا اس ظلم سے مراد عام گناہ نہیں بلکہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے،
کیا تم نے قرآن حکیم میں لقمان کا یہ قول نہیں پڑھا،ان الشرک لظلم عظیم،بے شک شرک ظلم عظیم ہے۔(سورة القمان آیت ۳
بخاری
و مسلم)
صحابہ
کرام رضی اللہ عنہ اجمعین کا حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آنا خدا و رسول کا
خود فرمانا ان تمام باتوں سے بھی پتا چلتا ہے کہ حدیث کے بغیر کوئی چارہ نہیں علمِ
حدیث بے حد ضروری ہے۔
خلاصہ کلام :
ان
تمام آیات اور روایات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ علم حدیث بہت اہم بے حد ضروری ہے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں پھر بھی اگر کوئی اس بات پر بضد
ہے کہ حدیث اہم نہیں ضروری نہیں تو وہ حافظوا علی الصلوات وصلوة الوسطی
ترجمہ:تم
نمازوں اوربیچ کی نماز کی حفاظت کرو
میں
حدیث کے بغیر بتا کے دکھادے کہ بیچ کی نماز سے کون سی نماز مراد ہے چلو بیچ کی
نماز کونسی ہے یہ نہیں بتا سکتا تو یہی بتادے نماز پڑھیں گے کیسے، زندگی ختم
ہوجائے گی، عقل ناخن چبانے پر مجبور ہوجائے گی لیکن علم حدیث کے بغیر یہ نہ بتا سکے
گا کہ نماز پڑھیں گے کیسے اس لیے حدیث اہم ہے اس لیے حدیث ضروری ہے اسی لیے حدیث
کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
اللہ کریم سے دعا ہے ہمیں اس معاملے میں حق پر رہنے اور دوسروں کو گمراہی سے
بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اللہ تعالیٰ کے لئے
ہر طرح کی حمد مخصوص ہے جس نے انبیا صدیقین شہدا اور صالحین پر خاص انعام و اکرام
کیا۔ حضرت محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم پر بے
حد درود و سلام نازل ہوں جس کے گھر اور منبر کے درمیان کی جگہ ریاض الجنۃ ہے بے حد سلام اس نبی مکرم و معظم کی رسالت و نبوت
پر جس کا بولنا(حدیث) ہے ۔
حد یث کیا ہے؟ اور اس کی اہمیت انسانی زندگی میں
کیا ہے؟
حدیث سے مراد وہ مبارک الفاظ ہیں جو تاجدار
رسالت ماہِ شمع نبوت احمد مجتبی محمد
مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک زبان
سے ادا ہوئے ہوں حدیث پاک کی بھی تین اقسام ہیں۔
۱۔ حدیث قولی
۲۔حدیث فعلی
۳۔ حدیث تقریری
۱۔ حدیث قولی ، وہ الفاظ مبارک ہیں جو پیارے آقا علیہ الصلوة والسلام نے اپنی زبانِ مبارک سے بیان فرمائے۔
۲۔ حدیث فعلی وہ اعمال مقدسہ ہیں جو سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے کیف و کردار سے ادا فرمائے۔
۳۔ حدیث تقریری وہ امور
کہلائے جو آپ کے سامنے کام کیے گئے جس پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔
نبی اکرم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی احادیث کریمہ ہم تک صحابہ کرام علیہم الرضوان کے ذریعہ پہنچی نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی احادیث کو دوسروں تک منتقل کرنے کی جس مذہبی
روایت کا آغاز نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے زمانہ
اقدس میں ہوا تھا وہ آج تک جاری و ساری ہے، اور ان شا
اللہ تعالیٰ ، اللہ نے چاہا تو قیامت تک جاری رہے گا۔
یوں تو اللہ نے بے حد انسان پیدا کیے اور قیامت تک پیدا ہوتے
رہین گے، لیکن جو انسان اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرلے اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کو جان لے اور مان لے تو اس کا
ایمان مکمل ہوجاتا ہے، اور مسلمان ہوجاتا ہے۔
حدیث
مبارک کی اہمیت مسلمانوں کی زندگی
میں اتنی ہے کہ جس مسلما ن نے اپنی زندگی کے ہر پہلو میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حدیث مبارک کو نافذ کرلیا گویا
وہ دنیا میں کامیاب ہو ااور آخرت میں بھی کامیاب رہا، یہ حدیث
مبارک ہی ہیں کہ جن کی وجہ سے
مسلمانوں کو اپنی زندگی اور اپنی آخرت کو
سنوارنے کاشعور مل گیا،اور محمد رسول اللہ
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیاتی زندگی کے بعد ان صحابہ کرام علیہم الرضوان ان صدیقین، صالحین اور تابعین اور ان محدثینِ کرام
پر اللہ عزوجل کی کروڑوں رحمتیں نازل ہوں گی جن کے طفیل یہ حدیث مبارکہ ہم تک پہنچیں اور آنے والی نسلوں تک پہنچتی رہیں گی، پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حدیثِ مبارک مسلمانوں کے
پاس نہ ہوتیں تو انسان سےمسلمان اور مسلمان سے مومن بننے تک کا سفر کبھی طے نہ
ہوپاتا۔ یہ حدیث مبارک ہی ہیں جن کی وجہ
سے مومن کی دنیا اور آخرت قبر اور حشر، قیامت جنت اور دوزخ کاہر پہلوروزِ روشن کی طرح عیاں ہے، ہم اپنے اللہ تبارک و تعالیٰ کا جتناشکر اد اکریں کم ہے، کہ
اس نے نورِ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ کی ذاتِ بابرکت کو بشریت کے پیراہن میں پیکر حدیث
بناکر ہمارےدرمیان اتارا، اور ہمیں جنت کا انتہائی آسان راستہ عطا فرمادیا۔