علم حدیث کی اہمیت

Sat, 18 Apr , 2020
4 years ago

حمد و صلوة:

تمام تعریفیں اس رب قدیر کے لئے جس نے عالمِ کائنات میں انسان کو پیدا کیا اور جس کی ہدایت کے لیے قراٰن نازل کیا اور درود و سلام ہو اس نبی آخر الزماں خیر الانام پر جس نے قرآن کی تفہیم کے لیے ہمیں علم حدیث یعنی حدیث کا علم دیا۔

اما بعد! فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رب العزت نے تمام حوادثات کو تخلیق فرمایا اور ان میں سب سے افضل انسان کو بنایا اور اسے تمام مَاعَدا یعنی حیوان و جمادات سے ممتاز فرمایا اور اسے عقل و علم کی دولت سے سرفراز فرمایا اور اس کی ہدایت کے لیے انبیا و مرسلین کو مبعوث فرمایا اور مخلوق کو احکام بتانے کے لیے ان مرسلین پر اپنی کتاب و صحائف کو نازل فرمایا اور اس مخلوق میں سے سب سے افضل امّت ، امت محمدیہ کو بنایا اور انہیں سب سے افضل نبی و رسول محمد عربی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم عطا فرمایا اور اس افضل نبی پر افضل کلام (قرآن) نازل فرمایا اور اس نبی کے کلام کو شرح قرآن بنایا۔

اللہ پاک نے مخلوق کی ہدایت کے لیے نبی پر قران نازل فرمایا لیکن یہ یاد رہے کہ اس عظیم کتاب کی تعلیم اس عظیم نبی پر موقوف ہے یہی وجہ ہے قرآن وحی جلی ہے اور حدیث وحی خفی ہے، تاکہ ہمیں قرآن سمجھ میں آئے اسی وجہ سے مفتی احمد یار خان نعیمی مراة المناجیح میں فرماتے ہیں، ہر انسان پر حضور علیہ الصلوة والسلام کی اطاعت فرض ہے اور یہ اطاعت بغیر حدیث وسنت جانے ناممکن ہےمشکوة یعنی طاق حضور علیہ السلام کا سینہ مبارکہ ہے اور حضور علیہ الصلوة والسلام کے اقوال و احوال اس طاق کے چراغ ہیں اگر روشنی چاہتے ہو توا س سینے اور ان الفاظ طیبہ سے حاصل کرو، قرآن کتاب ہے حضور علیہ الصلوة والسلام چراغ اور چراغ کے بغیر کتاب پڑھی نہیں جاتی، اسی طرح حضور کے بغیر قرآن سمجھا نہیں جاتا ہر آیت حضور علیہ الصلوة والسلام کی تفسیر کی حاجت مند ہے ورنہ ہمیں کیا خبر کہ (اقیموا) کے کیا معنی اور صلوة وزکاة کسے کہتے ہیں، قرآن اللہ کی رسی ہے جو ہم نیچوں کو نماز سے نکال کر اوپر پہنچانے آئی ہے لیکن اس مضبوط رسی سے فائدہ وہی اٹھائے گا جو حضور کے ذریعے اسے پکڑے گا، اس رسی کے لانے والے بھی حضور ہیں، پھر ہمیں پکڑانے والے بھی حضور ہیں، پھر پکڑنے کے بعد چھوٹ جانے سے بچانے والے بھی حضور ہیں، کہ حضور کے ذریعے مخلوق کو قرآن ملا، حضور ہی کے سمجھائے قرآن سمجھا گیا، حضور ہی کی نگاہ کرم سے ان شا اللہ عزوجل مرتے دم تک اس پر عمل کیا اور انہی کے کرم سے مرتے وقت بفضلہ کلمہ نصیب ہوگا ، جو حدیث کا انکاری ہے وہ صرف دو رکعت نماز پڑھ کر یا ایک بار ایسی زکوۃ دے کر دکھادے جس میں حدیث کی مدد نہ ہو۔

غرضیکہ نماز و زکوة وغیرہ سنائی قرآن نے، سیکھائی حضور نے ، قرآن روحانی کھانا ہے۔حدیث اس کا پانی، پانی کے بغیر نہ کھانا تیار ہونہ کھایا جاسکے۔(مراٰة المناجیح جلد ۱، مقدمہ)

مذکورہ کلام سے یہ بات واضح ہوگئی کہ کلام خدا کو سمجھنے کے لیے حدیث رسول بے حد ضروری ہے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں لیکن پھر بھی مسئلہ واضح کرنے کے لیے ہم مزید دلائل ذکر کرلیتے ہیں۔

حدیث رسول کے بغیر کوئی چارہ نہیں:

حدیث رسول کے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ کلام خدا کا سمجھنا کلام رسول پر ہی موقوف ہے کیونکہ کلام رسول کلام خدا ہی ہے فرق صرف اتنا ہے کہ کلام خدا میں الفاظ و مفہوم دونوں خدا کے ہیں جسے ہم قرآن کہتے ہیں، اور حدیث رسول میں الفاظ نبی کے اور مفہوم خدا ہے جسے ہم حدیث قدسی کہتے ہیں اور جہاں الفاظ و معنی دونوں خدا کے نہ ہوں بس حکم خدا کی طرف سے وحی ہو اسے ہم حدیث یا سنت کہتے ہیں، کلام رسول خدا کا ہی کلام ہے اسی وجہ سے سورة النجم آیت ۳،۴ میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) تَرجَمۂ کنز الایمان: وہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی جاتی ہے اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے۔

اور سورہ النسا آیت ۸۰ میں ارشاد فرمایا:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی

کیونکہ قرآن کا سمجھنا حدیثِ رسول کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا اسی لیے فرمادیا اطاعتِ رسول ضروری ہے تاکہ تم میرے احکام کو سمجھ سکو یہی وجہ ہے کہ خود نبی کریم علیہ افضل الصلوة والسلام نے ارشاد فرمایا:ترکت فیکم امرین لن تضلواما تمسکتم بھما کتاب اللہ وسنۃ نبیہ

میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں اگر تم ان دونوں کو مضبوطی سے تھام لو کہ تو میرے بعد کبھی گمراہ نہ ہوکے ، یہ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی کی سنت ہے۔(مؤطا امام مالک کتاب القدر باب ۱، حدیث ۱۶۲۸)

اور دوسری جگہ خود نبی علیہ الصلوة والسلام نے ارشاد فرمایا:

عن ابن مسعود قال قال رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نضر اللہ امرا سمع مقالیتی موطا ھا وحفظھا وبلغھا۔

اللہ پاک اس شخص کو تروتازہ رکھے جس نے میری بات سنی اسے یاد کیا اور محفوظ رکھا پھر دوسروں تک اسے پہنچایا۔

(جامع ترمذی کتاب العلم باب ۷، حدیث ۲۸۷۰ٌ)

یہ تمام باتیں بھی فقط اس لیے تھیں تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ حدیث کے بغیر کوئی چارہ نہیں کلام خدا کو سمجھنے کے لیے کلام رسول ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں حدیث اس قدر اہم ہے ہم تو درکنار قرآن کو سمجھنے کے لیے صحابہ کرام کو بھی اس کی حاجت پڑتی تھی وہ بھی قرآن سمجھنے کے لیے حضور کا فرمان حضور سے سننے آجاتے تھے جیسا کہ بخاری و مسلم میں ہے(سورہ انعام آیت ۸۲)

اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ۠(۸۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان: وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی انہیں کے لیے امان ہے اور وہی راہ پر ہیں۔

جب نازل ہوئی تو بعض صحابہ کرام نے چھوٹے بڑے گناہوں کو ظلم سمجھا اس لیے ان پر یہ آیت گراں گزری تو اسے سمجھنے بارگاہِ رسالت مآب میں حدیث سننے آگئے اور عرض کی اے اللہ کے رسول ہم میں ایسا کون ہے کہ جس نے ایمان کے ساتھ کوئی گناہ نہ کیا ہو تو حضور نے فرمایا اس ظلم سے مراد عام گناہ نہیں بلکہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے، کیا تم نے قرآن حکیم میں لقمان کا یہ قول نہیں پڑھا،ان الشرک لظلم عظیم،بے شک شرک ظلم عظیم ہے۔(سورة القمان آیت ۳

بخاری و مسلم)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اجمعین کا حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آنا خدا و رسول کا خود فرمانا ان تمام باتوں سے بھی پتا چلتا ہے کہ حدیث کے بغیر کوئی چارہ نہیں علمِ حدیث بے حد ضروری ہے۔

خلاصہ کلام :

ان تمام آیات اور روایات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ علم حدیث بہت اہم بے حد ضروری ہے اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں پھر بھی اگر کوئی اس بات پر بضد ہے کہ حدیث اہم نہیں ضروری نہیں تو وہ حافظوا علی الصلوات وصلوة الوسطی

ترجمہ:تم نمازوں اوربیچ کی نماز کی حفاظت کرو

میں حدیث کے بغیر بتا کے دکھادے کہ بیچ کی نماز سے کون سی نماز مراد ہے چلو بیچ کی نماز کونسی ہے یہ نہیں بتا سکتا تو یہی بتادے نماز پڑھیں گے کیسے، زندگی ختم ہوجائے گی، عقل ناخن چبانے پر مجبور ہوجائے گی لیکن علم حدیث کے بغیر یہ نہ بتا سکے گا کہ نماز پڑھیں گے کیسے اس لیے حدیث اہم ہے اس لیے حدیث ضروری ہے اسی لیے حدیث کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔

اللہ کریم سے دعا ہے ہمیں اس معاملے میں حق پر رہنے اور دوسروں کو گمراہی سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم