علم حدیث کی اہمیت

Sat, 18 Apr , 2020
4 years ago

رب کائنات  عَزَّوَجَلَّ نے اپنا فضل و عدل ،قدرت و کمال ظاہر کرنے کے لئے مخلوق کو پیدا فرمایا اور مخلوق کی ہدایت اور سیدھے راستے کے لئے انبیاء کرام علیہ السلام کو مبعوث فرمایا، انہی میں ہمارے پیارے نبی خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی مبعوث فرمایا اور قرآن پاک جیسی لاریب کتاب کو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قلب انور پر نازل فرمایا کہ جس میں کائنات کی ہر شے کا علم موجود ہے ۔

کلام اللہ کے بعدجس کلام کا مرتبہ کائنات میں سب سے بلند ہے وہ کلام حضور علیہ السلام کی احادیث ہیں جن میں آپ کے اقوال و افعال اور تقریرات شامل ہیں۔(تقریر کہتے ہیں کہ کوئی ایسا فعل جو حضور علیہ السلام کے سامنے ہوا ہوں اور آپ نے اس سے منع نہ کیا )۔

یعنی قرآن پاک کے بعد حدیث شریف کا مرتبہ سب سے بلند ہے،مفتی احمد یار خان نعیمی حدیث شریف کی اہمیت پر بڑی پیاری مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ گویا قرآن پاک ایک لیمپ کی بتی ہے اور حدیث شریف اس کی رنگین چمنی، جہاں قرآن پاک کا نور ہوتا ہے وہاں حدیث شریف کا رنگ ہوتا ہے ۔

ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں کہ قرآن و حدیث اسلام کی گاڑی کے دو پہیے ہیں یا مومن کے دو پر ہیں کہ جن میں سے ایک کے بغیر نہ ہی گاڑی چل سکتی ہے اور نہ ہی مومن پرواز کرسکتا ہے ،

(مراٰۃالمناجیح ،ص 23)

تو معلوم ہوا کہ قرآن پاک کو سمجھنے کے لئے علم حدیث کو جاننا ضروری ہے اور علم حدیث کی اہمیت کے بارے میں رب کائنات خود ارشادفرماتاہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا ۔(النساء: 80)

مفتی احمد یار خان نعیمی اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اطاعت بہرحال واجب ہے۔ قول میں، عمل میں، خصوصیات میں، اور آپ کا فرمان واجب العمل ہے۔اگر کسی کو ایسا حکم دیں جو بظاہر قرآن کے خلاف ہو تو اس پر بھی عمل کرنا لازم ہے۔ اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں جیسے کہ خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہ کی گواہی دو کے برابر ہوئی اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالی عنھا کی موجودگی میں غیر سے نکاح حرام قرار دے دیاگیا اور حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کو سونے کے کنگن پہنا دیئے گئے وغیرہ۔ (نورالعرفان پارہ 5 سورہ نساء آیت نمبر80)

جس طرح قرآن پاک میں نماز روزہ زکوۃ وغیرہ کا ثبوت ہے ،اس کا انکار کرنے والا کافر ہوتا ہے اسی طرح احادیث سے بھی اس کاثبوت ہے اور ان کی تفاصیل بھی اسی سے ثابت ہے۔

جیسے نماز کی تعداد، رکعتوں کی تعداد، زکوۃکانصاب، ادا کرنے کا طریقہ کار، روزے کے فرائض ،طریقہ حج و ارکان حج، ان سب کا ثبوت احادیث سے ہے۔تو پھر واضح ہوگیا کہ قرآن کے احکام وہ احادیث کے احکام ہیں۔ لہذا ماننا پڑے گا کہ دین میں ضروری ہے کہ احادیث پر عمل کیا جائے ورنہ کئی سو احکامات ثابت ہی نہیں ہو سکیں گے ۔

اور اسلام مکمل ضابطہ حیات ہونے کی حیثیت سے سمجھانے اور اعتقادی و عملی طور پر اپنانے کے لئے قرآن مجید اور احادیث کریمہ کی طرف رجوع کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ ان دونوں سے اعتقادی و عملی مسائل اور احکام کے چشمے جاری ہوتے ہیں۔

اور اسی وجہ سے ان دونوں کے احکام کو اسلامی شریعت کا بنیادی مقصد قراردیا ہے اور اسی وجہ سے ہی علماء نےاجتہاد کر کے قرآن پاک کی 500 آیات سے احکام شرعیہ ثابت کئے اورسرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تین ہزار احادیث سے احکام شرعیہ مستنبط کیے۔ تو معلوم ہوا کہ احادیث مبارکہ کی قدرو اہمیت اتنی بلند ہے کہ ان کے انکار کے بعد دعوی اسلام باطل محض اور اور مطلقا منکرین احادیث خارج از اسلام ہیں ۔