قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انسانی معیشت کے اصول
اور مبادیات اجمالاً بیان فرمائے ہیں، جن
کی تعبیر و تشریح بغیر احادیث نبویہ کے ممکن نہیں ہے نیز احکام کی عملی صورت بیان
کرنے کے لئے اسوۂ رسول کی ضرورت ہے، احادیث رسول ہمیں قرآنی احکام کی عملی تصویر
مہیا کرتی ہے۔
علاوہ ازیں مثلاً صلوة ، زکوة، حج ، عمرہ تیمم پرمحض الفاظ ہیں، لغت عربی
ان الفاظ کے وہ معانی نہیں بتاتی جو شرع میں مطلوب ہیں، پس اگر احادیث رسول موجود نہ ہوں تو ہمارے پاس
قرآن کے معانی شرعیہ بیان کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہے گا، اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اقوال اور افعال کی
پیروی کا حکم دیا ہے، وَ
مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا
فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز
رہو۔(حشر:7)
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ
اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک تمہیں رسول
اللہ کی پیروی بہتر ہے (احزاب :21)
ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کی اطاعت اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کی اتباع قیامت تک کے مسلمانوں پر واجب ہے۔ اب اصول
یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ ظاہری
کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور افعال کا
علم کس ذریعہ سے ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو ہمارے لئے
نمونہ بنایااور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
ز ندگی ہمارے سامنے نہ ہو تو ہم اپنی زندگی کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے اسوہ میں کیسے ڈھال سکیں گے تو
اسوۂ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم پر عمل صرف احادیث سے ہی ممکن ہے تو معلوم ہوا
کہ جس طرح صحابہ کرام کے لئے خود حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ،ہدایت تھی اسی طرح ہمارے لئے حضور پاک صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کی احادیث ہدایت ہیں، اگر احادیث ِرسول
صلی ا للہ
تعالیٰ علیہ وسلم کو حضور کی سنت اور آپ کے اسوہ حسنہ
کے لئے معتبر ماخذ نہ مانا جائے، تو اللہ تعالیٰ کی محبت بندوں پر نا تمام رہے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت کے لئے صرف قرآن کو کافی نہیں قرار دیا بلکہ قرآن کے احکام
کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے افعال کی پیروی کو
بھی لازم قرار دیا ہے۔
حدیث مبارک کو اگر معتبر نہ مانا جائے تو نہ صرف یہ کہ
حضور کی د ی ہوئی ہدایات سے ہم محروم ہوں
گے بلکہ قرآن کریم کی دی ہوئی ہدایات سے بھی ہم مکمل طور پر مستفید نہیں ہوسکیں گے
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لئے قرآن نازل فرمایالیکن اس کے معانی کا بیان اور اس کے
احکام کی تعلیم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے
سپرد کردی، چنانچہ ارشاد فرمایا:
وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الذِّكْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْهِمْ تَرجَمۂ کنز الایمان: اور اے محبوب ہم نے تمہاری طرف یہ یادگار اتاری کہ تم لوگوں سے بیان کردو۔
اسی طرح قرآن کریم کے نفس مضمون کو سمجھنے کے لئے بھی ہمیں احادیث کی ضرورت پڑتی ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم جس طرح معانی
قران کے مبیّن اور معلم ہیں اسی طرح آپ
بعض احکام کے شارع بھی ہیں، حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جن چیزوں کو حلال اور حرام کیا قرآن میں کہیں ان کا ذکر نہیں ہے، ان کا
ذکر صرف احادیث رسو ل صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم سے ہی ممکن ہے،اگراحادیث رسول کو حجت
نہ مانا جائے تو حلت و حرمت کے تمام احکام
کے لئے شریعت اسلامیہ کافی نہیں ہوگی، حاصل کلام یہ ہے کہ اگر فہم قرآن کے لئے احادیث نبو یہ کو ایک معتبر ماخذ
اورحجت نہ مانا جائے تو قران مجید کی بعض آیات معمہ بن کر رہ جائیں گی اور ان کے
معانی و مفاہیم ہمارے لئے سمجھنا مشکل ہوجائیں گی جب سمجھ نہیں پائیں گے تو عمل
مشکل ہوجائے گا، اس کے لئے ایک مثال نماز کی لے لیں کہ قرآن پاک میں بےشمار مقامات
پر نماز ادا کرنے کا حکم ہے مگر نماز کب
کیسے اور کتنی رکعتیں پڑھنی ہیں اس کا علم ہمیں سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم سے ملتا ہے ، لہذا حدیث پاک ہمارے لئے مشعل راہ ہے،
قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴)
تَرجَمۂ
کنز الایمان: اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی
جاتی ہے ۔(النجم: 3،4)
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کا ہر قول و
فعل اللہ عزوجل کی رضا کے مطابق ہوتا ہے، اللہ عزوجل خود فرمارہا ہے کہ آپ اپنی مرضی سے کوئی بات نہیں کرتے مگر وہی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کی جاتی ہے۔