تعریف:
لغوی معنی:عربی زبان میں حدیث بات چیت، گفتگو، نئی چیز ، خبر اور کلام کو کہتے ہیں۔
اصطلاحی معنی: اصطلاح میں حدیث ”رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے قول ، فعل اور تقریر کو کہا جاتاہے“
حدیث کی اہمیت: موجودہ زمانے میں منکرین حدیث کا کہنا ہے کہ ”حدیث کی
کوئی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ کی کتاب ہمارے
پاس موجود ہے اور اس کے ہوتے ہوئے دین میں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں قرآن پاک ہی
ہمارے لئے کافی ہے “ یہ استدلال درست نہیں ہے کیونکہ حدیث کی ضرورت مندرجہ ذیل
امور میں ہوتی ہے۔ قراٰن کے کئی مقامات ایسے ہیں کہ جنہیں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حدیث کے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا۔
حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم خود شارح قرآن
ہیں:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے افعال و اعمال ،آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گفتگو قرآن پاک سے کوئی الگ چیز نہیں ہے۔
قرآن مجید کے اجمال کی تفصیل: جب قرآن میں یہ آیت نازل ہوئی واقیموا الصلوۃ یعنی نماز قائم کرو تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے حضور نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے استفسار
فرمایا کہ وہ کس طرح نماز پڑھیں ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے جوابا فرمایا:”صلوا کما رایتمونی اصلی“ نماز
اس طرح پڑھو جس طرح تم مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
پس ذات مبارکہ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے عمل نے قرآن کی تفصیل بیان فرمائی اس طرح حج
کی فرضیت کے بارے میں : ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک
چل سکے۔
(سورۃ آل عمران ، آیت
97)
یہ حکم مجمل ہے اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ حج ہر
سال کرنا چاہئے یا عمر میں ایک مرتبہ نیز قرآن میں حج کے طریقے کی بھی تفصیل نہیں
ہے۔ لہذا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ کرام
سے فرمایا: خذوا عنی منا سککم ”یعنی مناسک اور
ارکان حج مجھ سے سیکھو“ نیز آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے عملاً حج کر کے بتایا۔
اس طرح ایک اجمالی حکم یعنی حج کی ادائیگی کی
تفصیل احرام ، طواف، صفا و مروہ پر سعی ، عرفات میں وقوف، رمی جمرات یہ تمام
تفصیلات رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے افعال اور اعمال کے ذریعے ہی سے ہمیں ملی
ہیں۔اگر ان اعمال و افعال کو الگ کر دیا جائے تو ہم دین کی کسی بات پر عمل کرنے سے
قاسر رہ جائیں گے۔
میں نثار تیرے
کلام پر
ملی یوں تو کس
کو زبان نہیں