اما بعد! جاننا چاہیے کہ اسلام میں
قرآن کے
بعد کلام رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
کا درجہ ہے، اور یہ بھی کیوں نہ ہو کہ اللہ کے
بعد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا مرتبہ ہے،
قرآن گویا لیمپ کی بتی ہے اور حدیث اس کی رنگین چمنی ، جہاں قرآن کا نور ہے
وہاں حدیث کا رنگ ہے، قرآن سمندر ہے حدیث
اس کا جہاز، قرآن موتی ہے اور حدیث کے مضامین ان کے غوّاص ،قرآن اجمال ہے حدیث اس
کی تفصیل قرآن ابہام ہے حدیث اس کی شرح، قدرت نے ہمیں داخلی خارجی دونوں نوروں کا
محتاج کیا ہے نور بصر کے ساتھ نور قمر
وغیرہ بھی ضروری ہے، اندھے کے لیے سورج بیکار، اندھیرے میں آنکھ بے فائدہ ، ایسے
ہی قرآن گویا سورج ہے حدیث گویا مومن کی آنکھ کا نور یا قرآن ہماری آنکھ کا نور
ہے، اور حدیث آفتاب نبوت کی شعاعیں کہ ان میں سے اگر ایک بھی نہ ہو تو ہم اندھیرے
میں رہ جائیں اسی لیے رب العالمین نے ہمیں یہ عطا فرمایا اگر
ایک بھی نہ ہو تو ہم اندھیرے میں رہ جائیں اسی لیے رب العالمین نے قرآن کو کتاب فرمایا اور حضور علیہ الصلوة والسلام
کو نور ، قال اللہ تعالیٰ:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ
كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵) تَرجَمۂ کنز الایمان: بے
شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب (المائدہ ،15) وہ قال ہے یہ حال ۔ع
تیرے کردار
کو قرآن کی تفسیر کہتے ہیں
غرضیکہ قرآن و حدیث اسلام کی گاڑی کے دو پہیے ہیں
یا مومن کے دوپر، جن میں سے ایک کے بغیر نہ یہ گاڑی چل سکتی ہے نہ
مومن پرواز کرسکتا ہے۔موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو قرآن و حدیث کے تراجم کا بہت
شوق ہے ،ہر شخص چاہتا ہے کہ میں اپنے رب اور اپنے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کے کلام کو سمجھوں، اور یہ
جذبہ نہایت قابل قدر ہے، مگر بعض پڑھے لکھوں نے اس سے غلط فائدے اٹھائے کہ قرآن و حدیث کے ترجموں کے بہانوں سے
برے عقائد خیالات پھیلادیئے، آج مسلمانوں کے بیسیوں فرقے اور ان کاآپس میں اختلاف ان
ہی ترجموں کا نتیجہ ہے، پھر شامتِ اعمال سے اب وہ بھی پیدا ہوگئے جو سرے سے
حدیث کا انکار ہی کرنے لگے،ان کا فتنہ بہت پھیل رہا ہے، انکار حدیث پر بے شمار دلائل قائم کیے جانے لگے مگر سب کی بنیاد چار شبہوں پر ہے
، اگر یہ زائل ہوجائیں تو تمام اعتراضوں کی عمارت خود بخود ہی گر جاتی ہے۔(بحوالہ
مراة المناجیع)
اعتراضات اور ان کا علاج:
پہلا شبہ :
قرآن مکمل کتاب ہے اور اس میں ہر چیز کا بیان ہے
پھر حدیث کی کیا ضرورت ، نیز اس کا سمجھنا بھی آسان ہے کیونکہ رب فرماتا ہے، وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ
لِلذِّكْرِ ، تَرجَمۂ کنز الایمان: اور بےشک ہم نے قرآن یاد کرنے کے لیے آسان فرمادیا۔(القمر ،17)
پہلے شبہ کا ازالہ:
بے شک قرآن مکمل کتاب ہے مگر اس مکمل کتاب سے لینے
والی کوئی مکمل ہستی چاہیے اوروہ نبی کریم
صلی اللہ تعالیٰ وسلم ہیں۔ سمندر سے
موتی ہر شخص نہیں نکال سکتا شناور کی ضرورت ہوتی ہے قرآن
حفظ کے ليے آسان ہے کہ بچے بھی یاد کرلیتے ہیں نہ کہ مسائل
نکالنے کےلیے اس لیے للذکر
فرمایا گیا ، یعنی یاد کرنے کے لیے
( بحوالہ مراة المناجیح)
دوسرا شبہ:
رسُول ربّ کے قاصد ہیں جن کا کام ڈاکئے (الفاظ تبدیل کریں ۔۔۔مفتی صاحب) (رب کا پیغام بندوں تک پہنچانا ہے۔یہ ایڈ کر دئیے جائیں ۔۔جاوید)( کی طرح رب کا پیغام پہنچاناہے۔ نہ کہ
کچھ سمجھانااور بتانا ۔ رب فرماتا ہے : لَقَدْجَآءَ کُمْ رَسُوْل
دوسرے شبہ کا ازالہ :
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم رسول بھی ہیں خدائی کے
معلم بھی، مسلمانوں کو پاک ستھر افرمانے والے رب نے فرمایا۔ وَ
یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان: اور انہیں تیری
کتاب اور پختہ علم سکھائے (البقرہ ،169)
کیا بعض آیات پر ایمان ہے بعض پر نہیں مشین کا استعمال سکھانے کے لیے مشین
والوں کی طرف سے کتاب بھی دی جاتی ہے،
اور معلم بھی بھیجے جاتے ہیں، کارخانہ قدرت کی طرف سے ہمیں جسم کی مشین دی
گئی ، اس کا استعمال سکھانے کے لیے کتاب قرآن شریف اور معلم حضور صلی اللہ علیہ
وسلم بھیجے گئے۔(بحوالہ مراة المناجیح)
معلم خدائی کےوہ بن کے آئے
جھکے ان کے آگے سب اپنے پرائے
تنبیہی مدنی
پھول:
طویل بحث کے بجائے صرف دو مسئلوں کو قران کے ذریعے حل کرکے علمِ حدیث کی ا
ہمیت معلوم کرتے ہیں۔
۔ اسلام کا سب سے عام حکم ہے۔ اقیموا لصلوة
واتواالزکوة ، ترجمہ : نماز قائم رکھو اور زکوة دو ۔
برا ہ مہربانی قرآنی نماز، قرآنی زکوة ادا کرکے دکھادیجئے جس میں حدیث سے
امداد نہ کی گئی ہو، نماز کل کتنے وقت کی ہے اور کتنی رکعتیں ہیں، زکوة کتنے مال
پر ہے اور کتنی ہے؟ قرآن نے صرف سور کا گوشت حرام کیا ہے، کتے، بلی ، گدھے، اور
سورکے کلیجی، گردوں کی حرمت قرآن سے دکھا دیجئے، غرض یہ کہ چکڑالویت
صرف قولی مذہب ہے جس پر عمل ناممکن ہے۔