علم حدیث کی اہمیت

Sat, 18 Apr , 2020
4 years ago

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بڑا پیارا واقعہ مسند امام احمد میں ہے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث لکھا کرتے تھے کچھ لوگوں نے ذہن میں یہ وسوسہ ڈالا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی غصے کی حالت میں ہوتے ہیں تو کبھی خوشی میں اور آپ ہر بات لکھ لیتے ہیں انہوں نے لکھنا موقوف کیا چند دن بعد پیارے آقا علیہ السلام نے خود ہی پوچھ لیا کہ لکھتے کیوں نہیں تو انہوں نے سارا ماجرہ عرض کر دیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے میرے زبان سے حق کے سوا کچھ نہیں نکلتا (مشکاۃ المصابیح،صفحہ 40)

یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہئے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں کلام اللہ (قرآن) کے بعد حدیث کا درجہ ہے، کیوں نہ ہو کہ اللہ کے بعد رسول کا مرتبہ ہے قرآن گویا کہ لیمپ کی بتی ہے اور حدیث اس کی رنگین چمنی ہے جہاں قرآن کا نور ہے وہیں حدیث کا رنگ ہےقرآن سمندر تو حدیث اس کا جہاز، قرآن اجمال ہے تو حدیث اسکی تفصیل ہے قرآن میں اگر ابہام ہے تو حدیث نے اس کی شرح کی ہے ۔ قدرت نے ہمیں داخلی و روحانی دو نوروں کا محتاج کیا ہے۔ (1)قرآن (2) حدیث۔

اندھے کے لئے سورج بیکار اور اندھیرے میں آنکھ بے فائدہ ہے ایسے ہی قرآن اگر سورج ہے تو حدیث گویا کہ مومن کی آنکھ کا نور یا قرآن ہمارے آنکھ کا نور ہے اور حدیث آفتاب نبوت کی شعائیں ہیں اگر ایک بھی نہ ہو تو ہم اندھیرے میں رہ جائیں اس لئے رب العالمین نے قرآن کو کتاب اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نور فرمایا قد جاءکم من اللہ نوروکتاب مبین

حدیث کا قرآنی مفاہیم اور تعین معانی اور احکام کے استنباط میں بڑا دخل ہے ، فہم معانی کی توضیح و تفسیر حدیث کے ذریعے ہوتی ہے جیسے

لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِیَادَةٌؕ-

تَرجَمۂ کنز الایمان: بھلائی والوں کے لئے بھلائی ہے اور اس سے بھی زائد(یونس ، 26)

یہ (زیادہ) کیا ہے؟ حدیث نے بتایا کہ دیدار الہی ہے تو ہم کبھی نہ سمجھ سکتے اگر حدیث نہ ہوتی ۔

ائمہ اربعہ کا حدیث کے بارے میں موقف :

(1)امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : لولا السن ما فہم احد منا القرآن۔ اگر حدیث نہ ہو تو ہم میں سے کوئی قرآن نہ سمجھ سکے ۔مزید فرمایا جب تک لوگ علم حدیث کو طلب کرتے رہیں گے بھلائی میں رہیں گے اور جب حدیث کو ترک کردیں گے تو ان میں فساد آجائے گا

(2)امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا اس بارے میں مسلک یہ ہے : اس بات پر تمام اہل اسلام کا اجماع ہے کہ جب کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مل جائے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ حدیث کو چھوڑ کر کسی قول پر عمل کریں ۔

(3) حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے جو کچھ کتاب وسنت کے مطابق ہو اسے لے لو اور جو کتاب وسنت کے موافق نہ ا سے چھوڑ دو ۔

(4)امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول اس بارے میں ابن جوزی نے کتاب المناقب میں نقل کیا ہے : جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو ترک کیا وہ ہلاکت کے کنارے پر پہنچ گیا۔ (مصباح المشکوۃ۔ ص 42)