حدیث کے
لغوی معنی، بات چیت ، خبر، گفتگو، کلام اور نئی بات ہے ۔
اصطلاحی
معنی: نبی پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہر قول و فعل اور تقریر کسی کام پر خاموشی
اختیار کرنے کو ’’حدیث“ کہتے ہیں۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے احکامات اجمالا بیان فرمائے ہیں، ان کو
سمجھنے کے لئے علمِ حدیث کا ہونا ضروری ہے کیونکہ ارشادِ خداوندی ہے: وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ
الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-
تَرجَمۂ کنز الایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔(حشر،7)
وَ
مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر
وحی جو اُنہیں کی جاتی ہے(النجم: 3،4)
حدیث، قرآن پاک کے بعد شریعت کا
دوسرا ماخذ ہے۔
وہ دہن جس کی ہر بات وحی خدا
چشمہ علم و حکمت پہ لاکھوں سلام
خود نبی پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّمنے فرمایا: انی اوتیت القرآن و مثلہ معہ ۔ترجمہ
: آگاہ رہو مجھے قرآن عطاکیا گیا اور اس کے مثل ایک اور چیز دی گئی ہے (سنن
ابوداؤد ،سنن دارمی )
میرا جو امتی 40 حدیثیں یاد کرے گا وہ
اللہ سے عالم اور فقیہ ہو کر ملے گا ۔
(جامع بیان العلم و فضلہ ،62،حدیث: 187)
اللہ اس کو ترو تازہ رکھے جو میری حدیث
کو سنے یاد رکھے اور دوسروں تک پہنچائے ۔
(ترمذی 4/98 حدیث: 2667)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے صرف ایک حدیث
کے لئے مدینۂ منورہ زادھا اللہ شرفا وتعظما
سے مصر تک کا سفر فرمایا ۔(تفسیر روح
البیان ،سورۃ التوبہ،3/53 آیت،123)
حضرت سیدنا ابرہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں : بے شک اللہ محدثین کے (طلب حدیث کے لئے
) سفر کی برکت سے اس امت کے مصائب دور فرما دیتا ہے ۔ (تدریب الراوی ،320)
حضرت سیدنا حماد بن رحمۃ اللہ نے فرمایا : جس نے غیر خدا کے لئے حدیث طلب کی وہ دھوکا دیا گیا ۔
(اللہ والوں کی باتیں ،4/351)
حضرت سیدنا
سفیان ثوری رحمۃ اللہ کے دو فرامین :
(1) یہ علم حدیث عزت ہی عزت ہے ، جو اس کے ذریعے دنیا چاہے گا تو دنیا ملے گی اور جو آخرت چاہے تو
آخرت ملے گی۔ (اللہ والوں کی باتیں ، 4/505)
(2)احادیث زیادہ حاصل کرو کیونکہ یہ ہتھیار ہے (اللہ والوں کی باتیں ،4/504)