حدیث کے لغوی معنی:
حدیث کے لغوی معنی بات چیت ، گفتگو نئی چیز، خبر اور کلام ہے۔
اصطلاح میں حدیث رسول
اللہ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول
اور فعل کو کہا جاتا ہے نیز آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تقریر
بھی حدیث ہی کے معنوں میں آتی ہے، تقریر سے مراد وہ امور (یعنی کام ہیں) جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے پیش آئے لیکن آپ صلی اللہ
علیہ وسلم ان کو دیکھ کر یا سن کر خاموش رہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خاموشی اس کے جواز (یعنی جائز) ہونے کا ثبوت
ہوتی ہے ۔
حدیث کی اہمیت
اسلام میں کلام اللہ قرآن کے
بعد کلام رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم یعنی حدیث کا درجہ ہے، گویا قرآن لیمپ کی بتی ہے
اور حدیث اس کی رنگین چمنی حدیث کے بغیر نہ قرآن سمجھا جائے نہ اس پر عمل ہوسکے، قرآن و حدیث اسلام کی گاڑی کے دو پہیے ہیں، یا
مومن کے دو پر جن میں سے ایک کے بغیر نہ یہ گاڑی چل سکتی ہے نہ مومن پر واز کرسکتا ہے۔
معلم خدائی
کے وہ بن کے آئے
چمکے ان کے
آگے سب اپنے پرائے
قرآ ن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں انسانی
زندگی کے ہر شعبہ کے بارے میں رہنمائی موجود ہے مگر اسے سمجھنا آسان نہیں اس کو
سمجھنے کے لیے ہمیں حدیث کی ضرورت ہوتی ہے
جیسے اسلام کے ایک اہم ترین رکن نماز ہی
کولے لیجئے، قرآن میں کم و بیش سات سو مقامات پر اس کا تذکرہ (یعنی ذکر) آیا ہے
اور کئی مقامات پر اس کے قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ کہ نماز قائم کرو۔
تو اب یہ سمجھنا ہے کہ
صلاة ہے کیا مراد ہے ،اسے کس طرح قائم
(یعنی پڑھا) جائے گا تو اس کو سمجھنے کے لیے حدیث کی ضرورت ہوئی، اس سے معلوم ہوا
کہ قرآن کو سمجھنے کے لیے حدیث سے رہنمائی
حاصل کرنے کی ضرورت ہے، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا، جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: تَرجَمۂ کنز الایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا
حکم مانا ۔(النساء 80)
قران کی تفسیر کی چار صورتیں ہیں۔
(1)تفسیر قرآن بالقرآن (یعنی خود قرآن بھی اپنی
تفسیر کرتا ہے)
(2)تفسیر قرآن بالحدیث ( کیوں کہ قرآن کو جیسا
حضور صلی اللہ عالیٰ علیہ وسلم نے سمجھا دوسرا
نہیں سمجھ سکتا)
(3)تفسیر قرآن بالا جماع ( یعنی علما کا جس مطلب
پر اتفاق ہوا)
(4)تفسیر قرآن باقوال مجتہدین ( یعنی قیاس
مجہتدین)
کتاب و سنت سمندر ہے کسی امام کے جہاز میں بیٹھ کر
اس کو طے کرو، کتاب و سنت طب ایمانی ( یعنی ایمان کی بیماری) کی دوائیں ہیں کسی
طبیب روحانی (یعنی امام مجتہد) کے مشورے سے انہیں استعمال کرو۔ علم اور ہدایت ایک
نہیں کبھی علم ہوتا ہے،ہدایت نہیں ہوتی جیسے اس امت کے بے دین علماء،کبھی ہدایت نصیب
ہوجاتی ہے بہت ساعلم نہیں ہوتا جیسے وہ عوام جو بے علم ہیں مگر ایمان دار ہیں کبھی
علم اور ہدایت دونوں جمع ہوجاتے ہیں،جیسے علمائے دین ہیں۔ہدایت علم سے افضل ہے،اسی
لیئے اس کا ذکر پہلے ہوا،علم کتابوں سے ملتا ہے ہدایت کسی کی نظر سے۔ حضور صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کے ہاں علم اور فیضان کی کمی نہیں۔ تمام دنیا
فیض لے لے تو گھٹتا نہیں نہ لے تو بیکار بچتا نہیں۔’ جیسے‘ سورج کی روشنی بادلوں
کا پانی۔ سورج کی روشنی جتنی بھی حاصل کرلی جائے گھٹتی نہیں ہے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا علم ہے، کوئی شخص کسی درجہ پر پہنچ کر حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بے نیاز نہیں
ہوسکتا زمین کیسی ہی اعلیٰ ہو اور کتنا ہی
اچھا تخم بویا جائے(یعنی اناج ) مگر بارش
کی محتاج ہوتی ہے، دین و دنیا کی ساری بہاریں حضور صلی
اللہ علیہ وسلم کے دم سے ہیں۔
شکر فیض تو چمن چوں کنداے ابر بہار کہ اگر خاور گرگل ہمہ پروردۂ تست
حدیث پر عمل کے متعلق حدیث مبارک:
حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے میری امت کے بگڑتے وقت
میری سنت کو مضبوط تھاما تو اسے سو شہیدوں کا ثواب ہے۔
( مراٰة
المناجیح جلد اول، باب الاعتصام بالکتاب والسنہ ،حدیث نمبر ۱۶۶)
دعا :
اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی زندگی کے ہر معاملے میں
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے رہنمائی لینے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم