دعا کے معنی :دعا کے
لغوی معنی :بلانا، پکارنا ،متوجہ کرنا ہے۔
اللہ پاک سے خیر طلب کرنے کو دعا کہتے ہیں۔ دعا کی اہمیت و فضلیت: دعا کی اہمیت
ہر مسلمان جانتا ہے ہمیں اللہ پاک سے کیا اور کن الفاظ سے کس طرح دعا مانگنی چاہیے
اس کی اہمیت کا اندازہ بیان کردہ احادیث سے لگایا جاسکتا ہے ۔ دعا کی اہمیت احادیث
کی روشنی میں :حضور پاک صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :اللہ پاک
کے نزدیک کوئی چیز دعا سے بزرگ ترنہیں ۔(حوالہ دعا قبول ہونے
کےاسباب،صفحہ03)نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتےہیں:الدعا سلاح
المومن و عماد الدین و نور السموت یعنی دعا مومن کا ہتھیار ،دین کا ستون اور آسمان کا نور ہے۔ الدعاء مخُّ العبادۃ یعنی دعا عبادت کا مغز ہے ۔(حوالہ آداب دعاصفحہ 02) دعا کی اہمیت :قرآن کی روشنی میں: اللہ پاک فرماتا ہے :میں دعا مانگنے
کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارے ۔(پ02، سورۃ البقرۃ، آیت
184) اللہ پاک فرماتا ہے
:مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا ۔(پ 24سورۃ المومن آیت
40)اس کے علاوہ رب کریم
فرماتا ہے: جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہو کر
۔(پ 24سورۃ المومن آیت 40)یہاں عبادت سے مراد دعا ہے۔ (دعا قبول ہونے کے اسباب
صفحہ 01) 15امکنہ اجابت:لفظ امکنہ
مکان کی جمع ہے اور اجابت معنی قبول ہونے کے ہیں یہاں یہ مراد ہے کہ وہ مقامات جہاں
دعا قبول ہوتی ہے۔ ذیل میں موجود اول الذکر تیرہ 13مقامات مصنف رئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب فضائلِ دعا جس
کی شرح اعلیٰ حضرت امام ِاہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے اس سے اقتباس ہیں : 1مطاف :یہ وسطِ مسجد الحرام میں ہے یہاں
خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں۔ 2۔ملتزم: یہ کعبہ معظمہ کی دیوار شرقی پارہ جنوبی کا نام
ہے جو درمیانِ کعبہ و سنگ ِاسود واقع ہے یہاں لپٹ کر دعا کرتے ہیں۔ 3۔داخلِ بیت(بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر ) 4۔زیر ِمیزابِ رحمت(خانہ کعبہ کی چھت سونا کا پرنالہ ہے اس کے نیچے ) 5۔ حجر ِاسودجنتی پتھر ہے۔ 6۔رکنِ یمانی کہ یہ یمن کی جانب مغرب کونا
ہے 7۔نزد زم زم :چاہ زم زم کے پاس۔ 8۔صفا پہاڑی ہے۔ 9۔حطیم :خانہ کعبہ کی شمالی دیوار
کے پاس نصف دائرے کی شکل میں باؤنڈری کے اندر کا حصہ۔ خلفِ مقامِ ابراہیم :مقام ِابراہیم
کے پیچھے۔ 10۔مسعیٰ خصوصا دونوں میل سبز کے درمیان۔ مقام ِمسعی یعنی صفا مروہ کے درمیان
کا راستہ خصوصا جب دونوں سبز نشانوں کے درمیان پہنچے وہ بھی دعا کی قبولیت کا مقام
ہے۔ 11۔استجابتِ دعا: جہاں ایک مرتبہ پہلے دعا قبول ہوئی ہو وہاں دعا کرنا 12۔مسجد
ِنبوی ۔ 13۔میدانِ عرفات ۔(حوالہ فضائل دعا صفحہ
128 تا 131)ترجمہ: وہیں زکریا نے
اپنے رب سے دعا مانگی عرض کی اے میرے رب مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما
بے شک تو ہی دعا سننے والا ہے ۔اس آیت سے دعا قبول ہونے کے مقامات معلوم ہوتے ہیں۔
14۔جس جگہ رحمت ِالہٰی کا نزول ہو وہاں دعا مانگنی چاہیے جس مقام پر حضرت مریم رضی اللہُ عنہا کو غیب سے رزق ملتا تھا وہاں حضرت زکریا علیہ السلام نے دعا مانگی تو حضرت زکریا
علیہ السلام کو حضرت یحیی علیہ السلام جیسی پاکیزہ اولاد عطا کی گئی۔ 15۔جہاں اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہم کا وجود ہو یا جہاں وہ رہے ہوں ۔(حوالہ صراط الجنان، جلد 01، صفحہ 469 تا 470)
دعا ایک عظیم الشان عبادت
ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیات ِکریمہ اور احادیثِ طیبہ وارد ہیں۔ دعا کی عظمت
میں حکمت :دعا کی عظمت میں حکمت یہ ہے کہ دعا اللہ کریم سے ہماری محبت کے اظہار اور
اس کی ذات پاک پر ہمارے ایمان کا اقرار ،عظیم عقیدے کا اظہار ہے۔جب دعا مانگی جاتی ہے تو یہ عقیدہ کہ اللہ کریم
ہی ہمارا خالق، مالک،رازق ہے۔تمام عزتیں،عظمتیں،خزانےاسی کے پاس ہیں ۔ایک ایک فرد کو
اگر وہ اربوں خزانے عطا کر دے تب بھی اس کے خزانوں میں کوئی سوئی کی نوک برابر کمی
نہ ہو گی ۔جب دعا اس قدر عظیم عقیدے کا اظہار ہے تو کیوں نہ اعلیٰ درجے کی عبادت بلکہ
عبادت کا مغز قرار پائے۔ دعا عبادت کا مغز ہے۔ الحدیث۔دعا کی اہمیت قرآن کی روشنی میں:
ترجمہ :میں دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارے۔(سورۃ البقرہ)ترجمہ: مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا جو لوگ میری عبادت سے تکبر
کرتے ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے۔( سورہ المومن ) (یہاں عبادت سے مراد دعا ہے) دعا کی اہمیت احادیث کی روشنی میں: اللہ کریم کے نزدیک کوئی چیز دعا سے
بزرگ تر نہیں۔ (ترمذی 5/243 حدیث 3381)دعا کرنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔(ترمذی 5/318 حدیث 3551)اللہ کریم دعا کرنے والے کے ساتھ ہوتا ہے۔ (مسلم، ص 1442، حدیث 2675) جسے دعا کرنے کی توفیق دی گئی اس کے لیے رحمت کے دروازے کھول دیے گئے۔
(ترمذی، 11/459۔ حدیث 3471)الدعاء سلاح المومن و عماد الدین و نور السموتدعا مسلمانوں کا ہتھیار،دین کا ستون اور آسمانوں کا نور ہے۔ قبولیت دعا
کے 15مقامات: مکہ مکرمہ کے کچھ مقامات(1)مطاف (2)بیت اللہ کے اندر (3) ملتزم (4)میزابِ
رحمت کے نیچے(5)مستجار(6)حطیم(7)حجر ِاسود(8)مقام ِابراہیم کے پیچھے(9)صفا (10) مروہ۔مدینہ
منورہ کے کچھ مقامات:(11)مسجد نبوی(12)مواجہہ شریف۔ امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی!(13)منبرِ اطہر کے پاس
(14)مسجد قباء شریف ۔مسجد فتح بھی اور باقی مساجد طیبہ جن کو آپ علیہ الصلوۃ والسلام سے نسبت حاصل ہے۔(15) مزاراتِ بقیع( روایت کے مطابق یہاں پر تقریبا دس ہزار صحابہ کرام علیہم الرضوان آرام فرما ہیں)قبولیتِ دعا کے مقامات میں دعا قبول ہونے کاایک خوبصورت واقعہ قرآن پاک
سے ثابت :جب زکریا علیہ
السلام کے پاس اس کی نماز پڑھنے
کی جگہ جاتے تو اس کے پاس پھل پاتے زکریا نے سوال کیا :اے مریم! یہ تمہارے پاس کہاں
سے آتا ہے؟انہوں نے جواب دیا :اللہ کی طرف سے بے شک اللہ جسے چاہتا ہے بے شمار رزق
عطا فرماتا ہے۔حضرت زکریا علیہ السلام نے حضرت مریم رضی اللہُ عنہا جو کہ ابھی پالنے یعنی جھولے
میں پرورش پا رہی تھی کی یہ کرامت دیکھی تو ان کے دل میں بھی نیک اولاد کی خواہش پیدا
ہو گئی جس کی انہوں نےدعا مانگی ۔اس کو قرآن
ِمجید نے یوں بیان فرمایا: ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا
رَبَّہوہیں زکریا نے اپنے رب
سے دعا مانگیوہیں بیت المقدس کے محراب شریف میں ہی حضرت علیہ السلام نے نیک و پاکیزہ اولاد کی دعا مانگی ۔آیت: ھُنَالِکَ دَعَا زَکَرِیَّا
رَبَّہ سے معلوم ہونے والے
دعا کے آداب :اس آیت سے چند چیزیں معلوم ہوئی جس جگہ رحمتِ الہٰی کا نزول ہوا ہو وہاں
دعا مانگنی چاہیے اور وہاں دعا قبول بھی ہوتی ہے جیسے حضرت زکریا علیہ السلام کی قبول ہوئی۔ اسی لئے خانہ کعبہ اور تاجدار ِرسالت صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے روضے پر دعا مانگنے
میں زیادہ فائدہ ہے۔ علماء کرام نے اس جگہ کو قبولیت کے مقامات میں شمار کیا ہے جہاں
کسی کی دعا قبول ہوئی ہو اور مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم،صحابہ کرام و تابعین علیہم الرضوان اولیاء کرام رحمۃ اللہ علیہ غرض ہر زمانے کے نیک
لوگ رہے ہیں اور نیک لوگوں کی عادتِ کریمہ ہی ہوتی ہے کہ وہ دعا مانگتے ہیں اور ان
کی دعا قبول ہوتی ہے۔ کعبہ معظمہ کی فضیلت
قرآن سے ثابت :بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لیے بنایاگیا وہ ہے جو مکہ
میں ہے برکت والا اور سارے جہان والوں کے لیے ہدایت اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم
کے کھڑے ہونے کی جگہ اور جو اس میں آئے امان میں ہو۔ خانہ کعبہ سب سے پہلی عبادت گاہ ہے کہ حضرت آدم
علیہ السلام نے اس کی طرف نماز پڑھی۔ تمام
لوگوں کی عبادت کے لیے بنایا گیا جبکہ بیت المقدس مخصوص وقت میں خاص لوگوں کا قبلہ
رہا مکہ معظمہ میں واقع ہے جہاں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ ہے اس کا حج فرض کیا گیا
اسے امن کی جگہ قرار دیا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہنے فرمایا :اگر میں اپنے والد خطاب کے قاتل کو بھی حرم شریف میں پاؤں
تو اس کو ہاتھ نہ لگاؤں یہاں تک کہ وہ وہاں سے باہر آئے۔ اس میں بہت سی نشانیاں رکھی
گئی ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جب تعمیر کعبہ فرما رہے تھے وہ ایک پتھر پر کھڑے ہوتے جو خود بخود اونچا
ہوتا تھا اسی کو مقامِ ابراہیم کہتے ہیں یہاں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول ہوئی اس کے علاوہ صفا مروہ پہاڑوں پر حضرت حاجرہ رضی اللہ عنہا کے قدم مبارک پڑے اور پانی کی دعا کی جو کہ اللہ پاک نے قبول فرمائی اور آبِ زم زم جا ری فرمایا۔ القرآن
:بےشک صفا و مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔ اسی طرح حجر ِاسود اللہ پاک کی نشانیوں
میں سے ایک ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہنے حجر ِاسود کو بوسہ دے کر فرمایا :خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو
ایک پتھر ہے نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان اگر میں نے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو تجھے بوسہ دیتےہوئے نہ دیکھا
ہوتا تو تجھے میں ہرگز بوسہ نہ دیتا۔
بھیجا ہے جنت سے تجھ کو خدا نے، چوما ہے تجھ کو میرے مصطفیٰ نے اےسنگِ اسود تیرا مقدر اللہ اکبر، اللہ
اکبر
دعا کی اہمیت اور فضیلت :اللہ پاک سے طلب کرنے کو دعا کہتے ہیں اور دعا
صرف عبادت ہے بلکہ نبیِ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :یعنی دعا عبادت کا موقع ہے۔دعا کی اہمیت
ہر مسلمان جانتا ہے۔ ہمیں اللہ پاک سے کیا اور کن الفاظ سے کس طرح مانگنا چاہیے اس
کی اہمیت کا اندازہ بیان کردہ حدیث ِپاک سے لگایا جا سکتا ہے۔ ہمارا خالق و مالک کیسا
کریم ہے کہ مانگنے والوں سے خوش ہوتااور نہ مانگنے والوں پر غضب فرماتا ہے لہٰذا ہمیں
چاہیے کہ اللہ کریم سے اپنی حاجت اور خیر طلب کریں ۔دعا ایسی عبادت ہے جو اس بات کا
احساس دلاتی ہے کہ گویا بندہ اللہ پاک سے ہم کلام ہے دعا کے ذریعے ہی بندہ اللہ کریم
کی بارگاہ میں اپنی حاجات و ضروریات پیش کرتا ہے ۔دعا بندے کو اپنے رب کی جناب میں
پہنچاتی ،اس کے حضور عاجزی کرواتی اورعظمتوں کا کلمہ پڑھواتی ہے۔ دعا قبول ہونے والے
مقامات: 1۔مطاف 2۔ملتزم
ملتزم
سے تو گلے لگ کے نکالے ارماں ادب
و شوق کا یاں باہم الجھنا دیکھو
3۔داخلِ بیت: بیت اللہ شریف کی
عمارت کے اندر 4۔زیر ِمیزاب
زیرِ
میزاب ملے خوب کرم کے چھینٹے ابرِ
رحمت کا یہاں زور برسنا دیکھو
5۔حجر ِاسود
دھو
چکا ظلمتِ دل بوسۂ سنگ اسود خاک
بوسیِ مدینہ کا بھی رتبہ دیکھو
6۔ حطیم 7۔رکن ِیمانی
ایمن
طور کا تھا رکنِ یمانی میں فروغ شعلہ
ٔطور یہاں انجمن آرا دیکھو
8۔ خلفِ مقام ابراہیم :مقام ِابراہیم
کے پیچھے 9۔نزد زم زم (چاہ زم زم کے پاس) 10۔صفا 11۔مروہ 12۔مسعیٰ خصوصا دونوں میل سبز کے درمیان یعنی مقامِ سعی
یعنی صفا مروہ کےدرمیان کا راستہ ہے خصوصا ً جب دونوں سبز نشانوں کے درمیان پہنچے کہ
وہ بھی قبولیت دعا کا مقام ہے۔ 13۔نظرگاہِ کعبہ: جہاں کہیں ہو اور ان اماکن میں سے
بعد میں اجابتیں بعض کے نزدیک بعض اوقات سے خاص ہے یعنی جہاں کہیں سے کعبہ شریف نظر
آئے وہ جگہ بھی مقام قبولیت ہے۔ 14۔مسجد نبوی 15۔مکان ِاستجابت دعا :جہاں ایک مرتبہ
دعا قبول ہو وہاں پھر دعا کرے۔ 16۔اولیاء علماء کی مجالس:
(اللہ پاک ہمیں تمام ہی اولیاء و علماء کی برکتوں سے نفع پہنچائے)17۔مواجہہ شریف حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں: دعایہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی!18۔منبر ِ اطہر کے پاس 19۔مسجد اقصی کے ستونوں
کے نزدیک ۔ 20۔مسجد قباء شریف میں۔ 21۔ مسجد الفتح میں خصوصا روز چہار شنبہ بین الظہر
والعصر (خصوصاً بدھ کے دن ظہر و عصر کے درمیان ) (بحوالہ فضائل دعا کتاب المدینۃ
العلمیہ)
دعا کا معنی :دعا کا لغوی معنی ہے: پکارنا۔ اصطلاح میں چھوٹے کا اپنے
بڑے سے اظہار ِعجز کے ساتھ مانگنا دعا کہلاتا ہے۔ فضیلتِ دعا :دعا مانگنا اطاعت ِباری
بھی ہے اور سنت ِرسول بھی۔ اس سے عبادت کا ثواب بھی ملتا ہے اور دنیا و آخرت کے بے
شمار فوائد بھی۔ربِّ کریم فرماتا ہے: اجیب دعوۃ الداعِ اذا دعانِمیں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرے ۔ (پ2، سورہ بقرہ آیت 186)آقاکریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا کی ترغیب دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا:
دعا ہی عبادت ہے۔(جامع ترمذی جلد 2، صفحہ 648) قبولیتِ دعا کیا ہے؟عام
طور پر یہ تصور پایا جاتا ہے کہ منہ مانگی چیز کا مل جانا ہی فقط دعا کی قبولیت ہے
کیا یہی حقیقت ہے؟ پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :کوئی مسلمان ایسا نہیں جو ایسی
دعا مانگے جس میں نہ گناہ ہو نہ قطع ِرحمی مگر اللہ پاک اسے تین میں سے ایک چیز عطا
فرماتا ہے یا تو اس کی دعا یہاں ہی قبول فرما لیتا ہے یا آخرت میں اس کے لیے ذخیرہ
کر دیتا ہے یا اس جیسی مصیبت ٹال دیتا ہے۔(مشکوۃ المصابیح جلد
1 صفحہ 196 حدیث: 2149)مقامات ِقبولیت: اللہ پاک مقامات کا خالق
ہے۔ تمام مقامات اسی کے پیدا کردہ ہیں۔ ان میں سے بعض مقامات ایسے ہیں جہاں مانگے جانے
والی دعاؤں کو قبولیت کا درجہ بہت جلد نصیب ہوتا ہے ان میں سے پندرہ مقامات یہ ہیں:
1۔مطاف :صحنِ حرم میں جہاں خانہ کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے اسے مطاف کہتے ہیں۔ 2۔ملتزم
3۔حجر ِاسود اور بابِ کعبہ کی درمیانی جگہ کو ملتزم کہتے ہیں 3۔مستجار: رکن ِیمانی
وشامی کے درمیان غربی دیوار کا وہ حصہ جو ملتزم کے مقابل ہے وہ مستجار ہے. 4۔حجر ِاسود
5۔مقام ِابراہیم کے پیچھے حجر ِاسوداور دیوار
ِکعبہ میں نصب ہے اور مقام ِابراہیم صحنِ حرم میں وہ پتھر جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ معظمہ کی تعمیر کی
۔حدیثِ پاک میں ہے: رکن یعنی حجر ِاسود اورمقام یعنی مقام ِابراہیم دو جنتی یاقوت ہیں
۔(تفسیر نعیمی ج 1 صفحہ 630)6میزابِ رحمت کے نیچے
یہ سونے کا پرنالہ ہے جو رکنِ عراقی وشامی کی شمالی دیوار پر چھت پر نصب ہے۔ 7۔صفا
8۔مروہ :یہ مکہ مکرمہ کے دو پہاڑ ہیں جن کے درمیان حضرت ہاجرہ رضی اللہُ عنہا نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے لیے پانی تلاش کرنے کے لیے چکر لگائے تھے ۔رب کریم نے ان پہاڑوں کا
ذکر قرآن میں کیا ہے،چنانچہ اللہ پاک فرماتا
ہے :بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ 9۔مسجد نبوی شریف کے اندر 10۔مواجہہ
شریف حضور انور :وہ جگہ جہاں قبر ِانورمیں سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا چہرہ ٔمبارکہ ہے ۔امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں :دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی ؟(الحصن الحصین ص
31) 11۔مسجد قباء : یہ اسلام کی پہلی مسجد ہے جو مدینہ منورہ سے تقریبا تین
کلومیٹر جنوب ِمغرب کی طرف قبانامی گاؤں میں واقع ہے ۔پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :مسجد قباء میں نماز پڑھنا عمرے کے برابر
ہے۔(جامع ترمذی ج1 ص 348 حدیث
324) 12۔مزاراتِ بقیع :بقیع مدینہ منورہ کا قبرستان ہے جہاں تقریبا دس ہزار
صحابہ کرام کے مزارات ہیں۔ 14۔مشاہد مبارکہ :وہ تمام مقامات جہاں نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظاہری حیاتِ مبارکہ
میں تشریف لے گئے جیسے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہکا باغ۔ 15۔اولیاء و علماء
کی مجالس: اولیاء و علماء کے مزارات جیسے امامِ اعظم اور امام موسی کاظم رحمۃ اللہ علیہما کے
مزارت۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :حضرت امام موسی کاظم رحمۃ اللہ علیہ کی
قبر ِانور دعا کی قبولیت کے لیے تریاق مجرب ہے۔
(لمعات التنقیح ج4 ص 1581)اللہ پاک ہمیں بھی مکہ مکرمہ
اور مدینہ منورہ کے ان مقدس مقامات کی زیارت کا شرف عطا فرمائے۔ آمین
دعا اللہ
رب العزت سے مناجات کرنے ،اس کا قرب حاصل کرنے،اس کے فضل و انعام کا مستحق
ہونے اور بخشش و مغفرت پانے کا نہایت آسان و مجرب عمل ہے بلکہ خود اللہ رب العزت فرماتا ہے: اُجِیۡبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ میں دعا مانگنے والے کی دعا قبو ل کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارے۔ (پ2، البقرۃ: 186) مزید دعا کی وقعت و اہمیت کا اندازہ اس بات
سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضور خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جب دنیا میں تشریف لائے تو پیدا ہوتے ہی
اپنی امت کے لئے دعا فرمائی: رَبِّ ہَبْ لِی
اُمَّتی یعنی اے میرے رب!میری امت کو میرے واسطے بخش
دے۔حتی کہ دعا نہ مانگنے والے کے لئے حدیثِ پاک میں وعید آئی ہے کہ رب کریم فرماتا
ہے:من لا یدعوني أغضب علیہ جو
مجھ سے دعا نہ کرے گا میں اُس پر غضب فرماؤں گا۔(کنز العمال، حدیث: 3124، الجزء الثانی، ج1، ص29)بے شک اللہ پاک بندوں کی دعائیں اپنی رحمت سے قبول فرماتا ہے لیکن اس
کے قبول کی چند شرائط ہیں کہ دعا میں اخلاص ہو ،دل غیر کی طرف مشغول نہ ہو ،اللہ
پاک کی رحمت پر یقین رکھتی ہو اور یہ شکایت نہ کرے کہ میں نے دعا مانگی ابھی تک
قبول نہ ہوئی تو جب ان آداب و شرائط کا خیال رکھتے ہوئے اللہ پاک سے دعا مانگی
جائے تو ان شاءاللہ ضرور قبول ہوگی۔ اسی طرح کچھ ایسے مقدس مقامات بھی بیان کیے
گئے ہیں کہ جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔المدینۃ العلمیہ کی کتاب فضائلِ دعا صفحہ 128تا
142میں سے چند مقاماتِ قبولیتِ دعا کے نام ملاحظہ فرمائیے:1) ملتزم :یہ کعبہ معظمہ
کی مشرقی دیوار کے جنوبی حصے میں حجرِ
اسود اور بابِ کعبہ کے درمیان واقع ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں لوگ لپٹ لپٹ کر دعائیں
مانگتے ہیں ۔
ملتزم سے تو گلے لگ کے نکالے ارماں ادب و شوق کا یوں باہم الجھنا دیکھو (حدائق بخشش)
2) مستجار : رکن ِیمانی وشامی کے درمیان غربی دیوار کا وہ حصہ جو ملتزم کے مقابل ہے۔3) بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر 4)میزابِ
رحمت کے نیچے ۔
زیرِ میزاب ملے خوب کرم کے چھینٹے ابر ِرحمت کا یہاں زور برسنا دیکھو (حدائق بخشش)
5)حطیم:جو کعبہ مشرفہ کی شمالی دیوار کے پاس
نصف دائرے کی شکل میں باؤنڈری کے اندر کا حصہ ہے اس میں داخل ہونا عین کعبۃ اللہ
شریف میں داخل ہونا ہے ۔6)حجر ِاسود ۔
دھو چکا ظلمتِ دل بوسہ ٔسنگ ِاسود خاک بوسیِ مدینہ کا بھی رتبہ دیکھو(حدائق بخشش)
7) مقام: ابراہیم: اس کے پیچھے بھی دعا قبول
ہوتی ہے ۔8)نظر گاہِ کعبہ کہ جہاں کہیں سے کعبہ شریف نظر آئے وہ جگہ بھی مقام
قبولیت ہے ۔9)مسجدِ نبوی 10)اولیاء و علماء کی مجالس :نفعنا اللہ اجمعین ۔11)مواجہہ
حضور سید المرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ۔امام
ابن الجزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی؟ 12)منبر
ِاطہر کے پاس بھی دعا قبول ہوتی ہے۔13) مسجدِ نبوی کے ستونوں کے پاس بھی دعا قبول
ہوتی ہے۔14) باقی تمام مساجد اور کنویں جو
حضور خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
طرف منسوب ہیں۔15)جبل ِ اُحد شریف یعنی اُحد پہاڑ۔ الغرض ہر وہ مقام جسے حضور سرور
ِکونین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت ہے وہ مقام قبولیت دعا ہے۔
دعا کی فضیلت و اہمیت: ہر انسان پہ کبھی نہ کبھی ایسا وقت آتا ہے کہ
اسے دوسروں سے مدد کی ضرورت پڑتی ہے۔ کچھ لوگ مدد کرنے پر قادر ہوتے ہیں اور کچھ
کر دیتے ہیں۔ کچھ مدد کرنا چاہتے ہیں لیکن اسباب نہیں ہوتے تو پھر وہ لوگ یہ کہتے
ضرور سنائی دیتے ہیں کہ میں تمہارے لیے دعا ضرور کر دوں گا کیونکہ دعا کرنے پر تو
خرچہ نہیں آتا اس کا مطلب یہ ہوا کہ دعا کے بارے میں یہ پختہ تصور ہے کہ جب کوئی
بھی مدد نہ کر سکے تو دعا ضرور اثر دکھاتی ہے اور خاص طور پر اس وقت جب دل ٹوٹ چکا
ہو بے قراری بہت بڑھ گئی ہو دل کی کیفیت بہت اضطراری ہو جب بندہ ہر طرف سے مایوس
ہو جاتا ہے تو پھر ایک ہی در ایسا ہے جہاں سے کبھی کوئی خالی لوٹا ہی نہیں اور
اپنے ناتواں بندے کو وہ ذات خود پکارتی ہے:
ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْترجمہ :مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا ۔(پارہ
24، المومن 60)اور آگے نبی محترم ،شافع ِامم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنے رب کریم سے نقل فرماتے ہیں:اے فرزندِ آدم !تو
جب تک مجھ سے دعا کرتا اور میرا امیدوار رہے گا میں تیرے گناہ کیسے ہی ہو معاف
فرماتا رہوں گا اور مجھے کچھ پروا نہیں۔(اس حدیث کو امام
ترمذی نے حضرت انس رضی اللہ عنہسے روایت کیا )اب
ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دعا کہاں مانگی جائے قبولیت میں شک ہی نہ رہے ویسے تو بندہ
جہاں بھی ہو لب نہ بھی کھلے جب دل سے تڑپ کے دعا نکلتی ہے تو عرش ِاعظم کو ہلا دیتی
ہے مگر کچھ خاص مقامات بھی ہیں جہاں دعا ضرور ہوتی ہے: 1: ملتزم :یہ حجر ِاسود اور
بابِ کعبہ کے درمیان واقع ہے یہ وہ مقام ہے جہاں لوگ لپٹ لپٹ کر دعائیں مانگتے ہیں
ملتزم
سے تو گلے لگ کے نکالے ارماں ادب
و شوق کایاں باہم الجھنا دیکھو
2: حجر ِاسود یہ وہ خیر خواہ
مبارک پتھر ہے جو گناہ گار کے گناہ چوس کر اس کے گناہوں کی سیاہی اپنے اندر جذب کر
کے مسلمانوں کو گناہوں سے پاک کر دیتا ہے اور بروز ِقیامت مومن کے ایمان کی گواہی
بھی دے گا۔ 3:حطیم ِکعبہ: اس میں داخل ہونا عین کعبہ شریف کے اندر ہی داخل ہونا ہے
۔4:زم زم شریف کے کنویں کے پاس ۔5:نظر گاہ ِکعبہ یعنی جہاں کہیں سے کعبہ شریف نظر
آئے وہ جگہ بھی مقامِ قبولیت ہے ۔6:مسجد نبوی 7: مواجہہ شریف حضور رحمت اللعالمین یہ وہ مقام
مقدس ہے جہاں پہنچتے ہی پہلی خوشخبری یہ ملتی ہے کہ بندہ شفاعت کا حق دار ہو جاتا
ہے۔ ایک اعرابی حضور صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم کے وصال ِظاہری کے بعد تربتِ
اطہر پر حاضر ہوا ،سر پہ مٹی ڈال کر بخشش کا طلب گار ہوا تو منبر ِمبارک سے آواز
آئی: تحقیق تیرے گناہ بخش دئیے گئے۔ 8:منبرِ اطہرکے پاس 9:قباء شریف میں 10:جبل ِاحد شریف 11:اولیاء
و علماء کی مجلس :حدیث ِقدسی ہے: یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں
رہتا۔ 12:مزار ِاقدس امام ِاعظم ابو حنیفہ
کے پاس 13: تربت ِسراپا برکت حضور غوث ِاعظم کے پاس 14:مزار ِمقدس داتا علی ہجویری
یہاں سے اکثر عاشقوں کو مدینے کا ٹکٹ نصیب ہوتا ہے15: مرقدِ مبارک حضرت خواجہ غریب
نواز معین الدین چشتی اجمیری یہ وہ مقدس مزار ہے جہاں ہندو بھی دعائیں پوری کروا
کے جاتے ہیں۔ آخر میں ضرور کہوں گی کہ
اللہ پاک کو ہم سے کس قدر محبت ہو گی جس کا اظہار محبوب کی امت میں پیدا فرما کر
کر دیا اور پھر بہانے بنا دیے کہ دعا ایسے مانگو وسیلے سے مانگو بس مانگنا تمہارا
کام ہے عطا کرنا ہمارا کام ہے اللہ پاک اخلاص نصیب فرمائے۔ آمین
دعا کے بارے میں قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے متعدد جگہ ہدایت دی ہے چنانچہ سورۂ بقرہ آیت
نمبر 186میں ارشاد ِباری ہے :ترجمہ: اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں
دریافت کریں تو کہہ دو کہ میں تو تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے
تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر
ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں۔اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت محمد صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا کی عظمت اس کی برکتیں اور دعا
کرنے کے بارے میں واضح ہدایات دی ہیں چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہسے روایت ہے، نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :اللہ پاک کے ہاں کوئی چیز اور کوئی عمل دعا سے زیادہ
عزیز نہیں۔ دعا اللہ پاک اور بندے کے درمیان
ایک ایسا مخصوص تعلق اور مانگنے والے اور اس کے خالق کے درمیان براہِ راست رابطہ
ہے جس میں بندہ اپنے معبود سے اپنے دل کا حال سیدھے سادہ طریقے سے بیان کر دیتا ہے
بندہ اپنے پروردگار سے دن یارات کے کسی بھی حصے میں دعا مانگ سکتا ہے کوئی وقت اس
کے لیے مقرر نہیں تاہم احادیث ِمبارکہ سے دعا کے لیے درج ذیل خاص مقامات ثابت ہیں
ان وقتوں میں دعائیں بہت جلد قبول ہوتی ہیں۔ 15مقامات درج ذیل ہیں: 1۔مطاف 2۔ملتزم3۔مستجار
4۔حطیم 5۔ میزابِ رحمت کے نیچے6۔زم زم کے کنویں کے قریب 7۔ صفا 8۔مروہ 9۔ جبل ِاحد
شریف 10۔مشاہد مبارکہ 11۔مزاراتِ بقیع 12۔رکن ِیمانی اور حجرِ اسود کے درمیان13۔مسجد
ِنبوی میں 14۔اذان کے وقت 15۔سجدے کی حالت میں۔ اللہ پاک ہماری ہر جائز دعائیں کو
قبول فرمائے ۔آمین
دعا کی فضیلت و اہمیت:اللہ کریم نے ہمیں اپنی بخش کا سامان اور مواقع
عطا فرمائے ان میں ایک ذریعہ اللہ کریم سے دعا مانگنا بھی ہے۔ دعا اگرچہ ہم اپنے لیے
مانگتی ہیں لیکن رب کریم کا کرم دیکھیے کہ یہ طلب بھی نیکی عطا کرتی ہے اور مغفرت
کا سبب بنتی ہے اور دعا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ دعا عبادت کا
مغز ہےقبولیت دعا کا مقام : حضرت علامہ قطب الدین رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:جس مبارک مقام پر رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت ِباسعادت ہوئی اس مقام پر دعا قبول ہوتی
ہے۔(بلد الامین صفحہ 21) ولادت گاہِ مصطفی پر دعا قبول ہوتی ہے۔ سوال :ولادت
گاہِ مصطفی پر آپ کی حاضری کا انداز کیا رہا؟جواب: پاؤں سے چل کر گیا تھا سر کے بل
جانا میرے بس میں ہوتا تو یہ بھی کر گزرتا۔ سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت گاہ ادب کا مقام ہے اور زیارت گاہ ہے،اس
کا دیدار کرنا سعادت کی بات ہے،اس کے قریب دعا بھی قبول ہوتی ہے کیونکہ جس جگہ
سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم کا تشریف لانا ثابت ہو مشہد کہلاتی ہے اور مشہد (یعنی تشریف لانے کی جگہ )کے پاس دعا قبول
ہوتی ہے۔( فضائل دعا ص 136ماخوذ) ولادت گاہ تو وہ مقام ہے
جہاں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ
وسلم دنیا میں سب سے پہلے تشریف لائے یوں وہ قبولیت دعا کا مقام ہے۔اللہ
پاک ہمیں بار بار اس مقدس مقام کی زیارت نصیب فرمائے ۔(مدنی
مذاکرہ 4ربیع الاول 1441ہجری )پیاری اسلامی بہنو! حرمین
شریفین میں ہر جگہ انوار و تجلیات کی چھما چھم برسات برس رہی ہے تاہم احسن الوعاء
لآداب الدعا سے کچھ مقامات ذکر کرتی ہوں جہاں دعا قبول ہوتی ہے کہ جب بھی آپ کو ان
مقدس مقامات کی حاضری نصیب ہو تو ان مقامات پر دعا مانگنے کی سعادت نصیب ہو ۔آمین وہ
مقامات یہ ہیں :1۔مکہ مکرمہ کے مقامات یہ ہیں 1۔مطاف 2۔ملتزم 3۔میزابِ رحمت کے نیچے
4۔حجر ِاسود 5۔حطیم 6۔زم زم کے کنویں کے قریب 7۔صفا مروہ 8۔جب جب کعبہ پر نظر پڑے 9۔مسجدِ
نبوی شریف 10۔مواجہہ شریف،امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں قبول ہوگی 11۔منبرِ اطہر
کے پاس 12۔مسجد قباء شریف 13۔مسجدِ نبوی شریف کے ستونوں کے نزدیک 14۔وہ مبارک کنویں
جنہیں سرور ِکونین صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم سے نسبت ہے 15۔مساجدِ طیبہ جن کو سرکار ِمدینہ،سکونِ قلب و سینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت ہے مثلا مسجد ِغمامہ، مسجد ِقبلتین۔آخر
میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان مقدس مقامات کی زیارتیں بھی نصیب فرمائے اور
وہاں دعائیں مانگنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر آن اپنی بارگاہ میں دعا مانگنے کی توفیق عطا فرما ۔آمین
الحمدللہ رمضان المبارک ہم پر اپنی تمام تر رحمتوں اور برکتوں کے
ساتھ اور مغفرت کے پروانے لیے تشریف لاچکا ہے ۔اس مہینے کے ہر دن و لمحے کو مسلمان قیمتی بنانے کی کوشش
کرتے ہیں۔ عبادات میں اپنا وقت گزارتے ہیں ۔اس مہینے کی خاص عبادات میں دعا بھی ہے۔
عموماً افطاری کے وقت مسلمانوں کے گھروں میں دعا کا اہتمام کیا جاتا ہے۔حدیث ِمبارکہ
میں آتا ہے:افطار کا سامان سامنے رکھ کر دعا میں مشغول بندے کے حوالے سے اللہ پاک فرشتوں پر فخر فرماتا ہے لہٰذا ہمیں بھی چاہئے
کہ ہم رب ِّکریم سے دعا کریں ۔دعا اللہ پاک اور بندے کے درمیان ایک ایسا مخصوص
تعلق اور مانگنے والے اور اس کے خالق کے درمیان براہِ راست رابطہ ہے جس میں بندہ
اپنے معبود سے اپنے دل کا خیال سیدھے سادہ طریقے سے بیان کر دیتا ہے ۔اسی طرح دعا
کے لیے مخصوص مقامات کی بھی کوئی قید نہیں البتہ احادیث و آثار میں جن مقامات پر
دعائیں قبول ہونے کی صراحت موجود ہے ان میں سے چند مقامات مندرجہ ذیل ہیں:1. بیت
اللہ شریف کا طواف کرتے ہوئے 2۔مسجد نبوی میں 3۔ملتزم یعنی وہ جگہ جو حجر ِاسود
اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان ہے اس پر لپٹ کر دعا کرنا 4۔ میزابِ رحمت کے نیچے
5۔بیت المقدس میں 6صفا و مروہ کے مقام پر 8میدان ِعرفات میں 9زم زم شریف کا پانی پیتے
وقت 10مشعر ِحرام و مزدلفہ میں 10رکن ِیمانی و حجر ِاسود کے درمیان ۔اللہ پاک ہمیں
آداب کی رعایت کرتے ہوئے قبولیتِ دعا کے کامل یقین کے ساتھ خوب دعائیں مانگنے کی
توفیق عطا فرمائے آمین۔
دعا
دعو یا دعوۃ سے بنا ہے جس کا معنی بلا نا یا پکار نا ہے ۔ قرآن شریف میں لفظ دعا پانچ معانی
میں استعمال ہوا ہے :پکارنا، بلانا، مانگنا یا دعا کرنا،پوجنا یعنی معبود سمجھ کر
پکارنا ،تمنا آرزو کرنا۔اللہ پاک فرماتا ہے: وَّ الرَّسُوۡلُ یَدْعُوۡکُمْ فِیۡۤ اُخْرٰىکُمْ اور پیغمبر تم کو
تمہارے پیچھے پکارتے ہیں۔(پ4،اٰل
عمرٰن:153) دعا کے 15مقامات:حرمین شریفین میں ہرجگہ انوار و تجلیات کی چھماچھم
برسات برس رہی ہے۔ احسن الوعاء لآداب الدعاء سے دعا قبول ہونے کے پندرہ مقامات کا
ذکر کیا جاتا ہے: 1۔ حجر ِاسود 2۔بیت اللہ کے اندر 3۔جب دوران طواف وہاں سے گزر ہو۔4۔صفا۔
5۔ مروہ۔ 6 ۔مقامِ ابراہیم کے پیچھے۔7 ۔منی ۔ٰ8۔مزد لفہ خصوصا مشعر الحرام۔9۔مسجدِ
نبوی ۔10۔عرفات خصوصا موقفِ نبیِ پاک کے نزدیک۔ 11۔زم زم کے کنویں کے قریب۔12۔مقامِ
ابراہیم کے پیچھے۔ 13۔مطاف۔ 14۔ملتزم۔15 ۔مستجار ۔یا اللہ پاک! ہمیں بھی دعا کرنے
کی توفیق عطا فرما آمین
قرآن کریم کی روشنی میں دعا کی فضیلت:وَ اِذَاساَلَكَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ ؕ اُجِیْبُ دَعْوَةَ
الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّهُمْ
یَرْشُدُوْنَترجمۂ کنزالایمان:اور
اے حبیب!جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو بیشک میں نزدیک ہوں ، میں
دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا کرے تو انہیں چاہئے کہ میرا
حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ ہدایت پائیں حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں
دعا کی فضیلت: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے، حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :اللہ پاک کے یہاں کوئی چیز اور کوئی عمل دعا سے زیادہ عزیز نہیں۔( ترمذی، سنن ابن ماجہ )حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :دعا عبادت کا مغز ہے ۔دُعا ایک عظیم الشان عبادت ہے جس کی عظمت و فضیلت پر بکثرت آیاتِ کریمہ اور
احادیثِ طیبہ وارِد ہیں۔ دعا کی نہایت عظمت میں ایک حکمت یہ ہے کہ دُعا اللہ پاک سے
ہماری محبت کے اِظہار، اُس کی شانِ اُلوہیت کے حضور ہماری عبدیت کی علامت، اُس کے علم
و قدرت و عطا پر ہمارے توکل و اعتماد کا مظہر اور اُس کی ذاتِ پاک پر ہمارے ایمان کا
اقرار و ثبوت ہے۔ دعا کی قبولیت کے مخصوص اوقات :دعا اللہ پاک اور بندے کے درمیان ایک
ایسا مخصوص تعلق اور مانگنے والے اور اس کے خالق کے درمیان براہِ راست رابطہ ہے جس
میں بندہ اپنے محبوب سے اپنے دل کا حال سیدھے سادہ طریقے سے بیان کر دیتا ہے بندہ اپنے پروردگار سے دن یا
رات کے کسی بھی حصے میں دعا مانگ سکتا ہے کوئی خاص وقت اس مقصد کے لیے مقرر نہیں ۔
حدیث ِمبارکہ سے دعا کے لئے درج ذیل خاص اوقات ثابت ہیں: 1۔رات کے آخری حصے۔ 2۔جمعہ
کے دن میں بھی ایک قبولیت کی ساعت ہے اس میں دعا قبول ہوتی ہے۔ 3۔ شب ِقدر میں
مانگی جانے والی دعا۔ 4۔اذان کے وقت کی دعا۔5۔فرض نمازوں کے بعد کی دعا۔ 6۔سجدے کی
حالت میں مانگے جانے والی دعا۔ 7۔قرآنِ مجید کی تلاوت اور ختم ِقرآن کے وقت مانگے
جانے والی دعا۔ 8۔ رمضان شریف کے مہینے میں افطار کے وقت کی دعا اسی طرح دعا کے لیے مخصوص مقامات کی بھی کوئی قید
نہیں۔ احسن الوعاء لآداب الدعا میں البتہ
دعا قبول ہونے کے مخصوص مقامات کا ذکر کیا جاتا ہے ان میں سے پندرہ 15مقامات یہ ہیں1۔ مطاف 2۔
ملتزم 3۔بیت اللہ کے اندر 4۔میزابِ رحمت کے نیچے 5۔حجر ِاسود 6۔مقام ِابراہیم کے پیچھے
7صفا و مروہ 8مزدلفہ خصوصا مشعر الحرام 9۔مسجد نبوی 10۔مسجد شریف کے ستونوں کے نزدیک
11۔منٰی 12۔مواجہہ شریف۔ امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں :دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی! 13۔مسجد قبا شریف 14۔مسجد الفتح میں
خصوصا بدھ کو ظہر و عصر کے درمیان15۔ مشاہد مبارکہ۔ کسی ایک کی خاص فضیلت :مشاہد جمع ہے مشہد کی اور
مشہد کا معنی ہے حاضر ہونے کی جگہ یہاں مراد یہ ہے کہ جس جس مقام پر سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لے گئے وہاں
دعا قبول ہوتی ہے اور خصوصا مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بے شمار مقامات پر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف فرما ہوئے
مثلا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہکا
مقدس باغ وغیرہ۔
اللہ پاک سے خیر طلب کرنے کو دعا کہتے ہیں یعنی اپنے لیے خیر و برکت
کی طلب گار ہونا ،اللہ پاک کے حضور اپنی
تمنا اور جذبات کا اظہار کرنا اور خود کو اللہ پاک کے قریب محسوس کرنا دعا میں ہی شامل ہے۔ دعا ایک
عمدہ عبادت کے ساتھ ایک نعمت بھی ہے جسے بندہ اپنا کر سرخرو ہوتا ہے بلکہ اللہ پاک
کے مقربوں میں شمار ہوجاتا ہے ۔دعا کی فضیلت و اہمیت: دعا ایک ایسا خزانہ ہے جس کی
اہمیت اور فضیلت کے بارے میں خود آپ علیہ الصلوۃوالسلام نے ارشاد فرمایا ہےچنانچہ آپ کا ارشادِ خاص ہے:الدعاءُ
مخُّ العبادۃیعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔ (ترمذی، 5/243،
حدیث:3384)ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:الدعاء
سلاح المومن و عمادالدین و نورالسموت یعنی دعا مومن کا
ہتھیار، دین کا ستون اور آسمانوں کا نور ہے۔(
مستدرک حاکم، 2/162، حدیث: 1855) جیسے کہ حدیث سے معلوم ہواکہ دعا کتنی فضیلت کی
حامل ہے کہ خود حدیث میں ارشاد کیا گیا کہ دعا مومن کا ہتھیار ہے جو ہر مسلمان مرد
اور عورت کی حفاظت اور اس کے قلب کے لئے فرحت بخش ہے لہٰذا مسلمانوں کی اس کی فضیلت کو سمجھتے ہوئے ہر گھڑی سے
فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اللہ پاک نےدعا کی
اہمیت اور اس سے حاصل ہونے والے فائدےسے مسلمانوں کو آگاہ کیا ہے چنانچہ ارشاد
فرماتا ہے:ادْعُوۡنِیۡۤ اَسْتَجِبْ لَکُمْترجمہ مجھ سے دعا مانگو میں قبول فرماؤں گا۔(پارہ
24، المومن 60) ایک اور مقام پردعا نہ
مانگنے والوں سے ارشاد فرمایا: فَلَوْلَا إِذْ
جَاءَهُمْ بَأْسُنَا تَضَرَّعُوا وَلَكِنْ قَسَتْ قُلُوبُهُمْ ترجمہ:تو نہ ہوا جب آئی تھی ان پر ہماری طرف سے سختی تو گڑگڑائے ہوتے لیکن سخت ہو گئے ہیں دل ان کے۔(پ7، الانعام 43) اس آیت ِمبارکہ میں اور
اس سے پہلے والی آیت میں دعا کی اہمیت کا احساس دلایا جا رہا ہے کہ دعا مسلمانوں
کے لیے کس قدر ضروری ہے کہ اگر کوئی دل سے
اس عبادت کو اپنائے تو فلاح پا گیا اور جس نے اس عبادت کو چھوڑ دیا دل کی سختی اس پر
لاگو ہو گی۔ پیاری بہنو! جیسے دعا اہمیت و فضلیت کے بارے میں ہم نے پڑھا اسی طرح کچھ
اور بھی اس کے متعلق پڑھتی ہیں اور وہ یہ کہ کن مقامات پر ربِّ کریم ہماری دعا مستجاب
فرماتا ہے۔قبولیتِ دعا کے پندرہ مقامات:اول:مطاف :قال الرضاء: یہ وسط ِ مسجد ِحرام
میں ایک گول قطعہ ہے سنگ ِمرمر سے مفروش یعنی وہ ٹکڑا جس پر سنگِ مرمر بچھا ہوا ہے
اور اس کے بیچ میں کعبہ معظمہ ہے یہاں طواف
کرتے ہیں۔(جواہر البیان فصل چہارم ص 75) دوم:
داخلِ بیت اللہ: بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر ۔سوم: حجر ِاسود :یہ وہ جنتی پتھر
ہے جو کعبۃ اللہ شریف کے جنوب مشرقی کونے میں واقع رکنِ اسود میں نصب ہے ،مسلمان
اسے چومتے اور استلام کر کے اپنے گناہ دھلواتے ہیں ۔چہارم: حطیم: کعبہ معظمہ کی
شمالی دیوار کے پاس نصف دائرے کی شکل میں فصیل یعنی باؤنڈری کے اندر کا حصہ حطیم کعبہ
شریف ہی کا حصہ ہے داخل ہونا ہے۔(رفیق الحرمین ص 37)پنجم:خلفِ مقامِ ابراہیم:مقام ِابراہیم کے پیچھے۔ ششم:صفا ۔ہفتم:مروہ۔
ہشتم:عرفات خصوصا موقف ِنبی ۔ نہم:رکن ِیمانی۔قال الرضا :خصوصا جبکہ طواف کرتے
وہاں گزر ہو۔ حدیث شریف میں ہے: یہاں اے اللہ پاک!میں تجھ سے دنیا آخرت میں معافی اور ہر برائی
سے عافیت کا سوال کرتا ہوں اے رب عذاب سے بچا کہے ہزار فرشتے آمین کہیں گے ۔(مسندفردوس الحدیث 7336 ج 2 ص 397)
دہم:نظر گاہِ کعبہ :جہاں کہیں ہو اور ان اماکن سے بعض میں اجابت یا بعض کے
نزدیک بعض اوقات سے خاص ہے یعنی جہاں کہیں سے کعبہ شریف نظر آئے وہ جگہ بھی مقامِ
قبولیت ہے۔امامِ اہلِ سنت رحمۃ اللہ علیہ نے اس بارے میں ارشاد فرمایا :میں کہتا ہوں :اگر
ان جگہوں میں دعا کی قبولیت کو عام کہا جائے یعنی کہ کسی خاص وقت میں مخصوص نہ کیا
جائے تو بھی بعید نہیں کیونکہ یہاں اللہ پاک کے فضل و کرم کےزیادہ موافق ہے۔ یازدہم:مسجد
ِنبوی۔ دوازدہم:اولیاء علماء کی مجالس۔اللہ پاک ہمیں تمام ہی اولیاء و علماء کی
برکتوں سے نفع پہنچائے ۔قال الرضا:رب کریم صحیح حدیث ِقدسی میں فرماتا ہے:یہ وہ لوگ
ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بدبخت نہیں رہتا۔ سیزدہم:مسجد قباء شریف ۔پانزدہم:مزار ِمطہر ابو
حنیفہ کے پاس :امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : مجھے جب کوئی حاجت پیش آتی دو رکعت
نماز پڑھتا ہوں اور قبر ِامام ابو حنیفہ کے پاس جا کر دعا مانگتا ہوں اللہ پاک روا
فرماتا ہے۔ سیزدہم:مواجہہ شریف حضور سید الشافعین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :امام ابن الجزری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں :دعا یہاں قبول نہ ہوگی تو کہاں ہوگی؟اقول:وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَآءُوكَ
فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ
تَوَّابًا رَحِيمًا اس پر دلیل کافی ہے۔اللہ پاک ہر طرح معاف کر سکتا ہے مگر ارشاد ہوتا
ہے کہ اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تیرے
حضور حاضر ہوں اللہ پاک سے اور رسول ان کی بخشش چاہیں تو ضرور اللہ کو توبہ قبول
کرنے والا مہربان پائیں۔ ترغیب :پیاری بہنو! ان سے کئی معلومات پڑھنے کے بعد پتہ
چلتا ہے کہ ہمیں دعا کثرت سے مانگنی چاہیے اور قرب و راحت کے اندر اللہ کریم ہمیں
دل کی سکونی کے ساتھ دعا مانگنے والی بنائے ۔آمین